فراز صاحب میری بچی کو واپس لا کر دیں میں نہیں رہ سکتی ایک منٹ بھی اس کے بغیر۔ کچھ کریں کیوں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں سب اٹھیں باہر جائیں ڈھونڈیں اسے۔ جاؤ سب ابھی جاؤ لے کر آؤ میری چھوٹی کو گھر ۔۔ وہ میرے بنا نہیں رہتی وہ اپنی ماں کے بنا رہ ہی نہیں سکتی وہ رو رہی ہوگی چیخ رہی ہوگی۔۔
سیما رو رو کر نڈھال ہو چکی تھی وہ فراز صاحب کو پکڑ پکڑ کر باہر بھیجنے کی کوشش کر رہی تھیں ایک ایک تو پکڑ کر منتیں کر رہی تھی لیکن سب مجبور تھے پولیس اسٹیشن میں کمپلین کردی تھی ڈرائیور نے فون کرکے صبح ہی بتا دیا تھا تب سے اب تک سیما تین چار بار بےہوش ہو چکی تھیں ۔ دعا اور رمشا کا بھی رو رو کر برا حال تھا لڑکے بھی ادھر سے ادھر کوشش کرنے میں لگے تھے لیکن اب تک کوئی سراغ نہیں لگ پا رہا تھا اب رات ہونے کو آئی تھی لیکن گھر کے افراد کو کھانے پینے کا ہوش تک نہیں تھا۔
سیما! وہ ابھی آ جائے گی صبر کرنے کا وقت ہے اللہ سے دعا کرو اللہ سنے گا ہم سب ہی پریشان ہیں سمیر ، فیضان گئے ہیں اللہ نے چاہا تو جلد ہی کوئی خبر مل جائے گی۔۔
فراز ٹوٹے ہوئے دل سے خود کو سنبھالے بیگم کو تسلی دے رہے تھے۔
دادا کھانا کھالیں پلیز!
دعا کھانا لیے دادا کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
نہیں بیٹا میرا دل نہیں چاہ رہا تم لوگ کھا لو۔
دادا نے آنکھیں موند لیں۔
رمشا تم سمجھاؤ نہ تمہاری تو بات سنتے ہیں ۔ دعا تھک کر رمشا کے پاس چلی آئی۔
لاؤ۔
رمشا کھانا لیے دادا کے پاس آ بیٹھی۔
منہ کھولیں دادا!
رمشا نے پیار سے دادا کے منہ کے پاس نوالا بنا کر دیا ۔
نہیں بیٹا۔
دادا آپ نے دوائی بھی لینی ہے چلیں پلیز پھر ہم سب بھی کھالیں گے۔
رمشا نے پھر نوالہ منہ کے پاس کیا اور اب کی بار انہوں نے لے لیا اور آدھی روٹی رمشا کے ہاتھ سے کھالی اسی طرح اس نے سب کو تھوڑا تھوڑا کھانا ضد کر کے کھلا دیا۔ ہر کوئی نڈھال تھا اس کی بڑی وجہ بھوک بھی تھی اور یہ زندگی کی ضرورت بھی ہے۔
رمشاہ عارفین کو بھی جا کر کھلا دو وہ بھی بھوکا بیٹھا ہے ہم سب یہاں ہیں وہ اکیلا ہے تم اس کے پاس رہو بیٹا۔ جاؤ۔
دادا کو عارفین کا خیال آیا آج صبح ہی سمیر اسے ڈسچارج کراکے گھر لے آیا تھا اور صبح سے ہی وہ کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا۔
جی دادا۔
رمشا کھانا لے کر کمرے کی طرف چل دی اسے بھی عارفین کی فکر لاحق تھی لیکن دل اس کے پاس جانے سے گھبرا رہا تھا اسے جانا ہی تھا کیونکہ یہ دادا کا حکم تھا۔
* * *
عارفین سو گئے ہیں؟؟
عارفین نے کہنی آنکھوں پر رکھی ہوئی تھی اور کمرے میں حد درجہ خاموشی تھی رمشا نے کمرے میں آکر لائٹ آن کر دیں اور ہلکے سے آواز دی۔
نہیں!
عارفین نے آنکھوں سے ہاتھ اٹھا لیے.
کھانا کھا لیں؟
رمشا پہلے تو عارفین کو دیکھ کر ڈر گئی تھی اس کی آنکھیں بالکل لال ہو رہی تھیں جیسے کافی دیر رو کر بیٹھا ہو پھر تھوڑا سنبھل کر اسے کھانے کا بولا۔
رمشا میں کتنا بد قسمت ہوں کہ اپنی بہن کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہا اس بیڈ سے بھی بنا سہارے کے نہیں اٹھ سکتا۔ رمشا میں نے تمہارا دل دکھایا جس کی سزا مجھے مل رہی ہے۔ میں ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے معاف کردو اور اللہ سے دعا کرو میری گڑیا صحیح سلامت واپس آجائے میں خود کو بہت بیکار محسوس کر رہا ہوں ۔۔رمشا بہت زیادہ بے کار۔ میں کچھ نہیں کر سکتا تم کہتی ہو تو تمہارے سامنے ہاتھ جوڑنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
عارفین رو پڑا تھا اس کی لال ہوتی آنکھوں سے گرم پانی بہہ رہا تھا وہ ہاتھ جوڑ رہا تھا وہ عشاء کے اس طرح جانے سے ٹوٹ گیا تھا اور سارا ذمہ دار خود کو سمجھ رہا تھا ۔
نہیں عارفین پلیز ایسا نہیں کریں اللہ سے میں نے بہت دعا کی ہے اور میں ابھی اور بھی کرو گی ہمیں ہمت کرنی ہوگی ورنہ کیسے ہم عشاء کو واپس لائیں گے ۔۔ کھانا کھا لیں نہ۔
رمشا نے عارفین کا یہ روپ زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا وہ بھی رو اٹھی تھی لیکن وہ جانتی تھی اس نے سب کو سنبھالنا ہے اس کی زندگی کے نجی معاملات ابھی الگ ہیں اور یہ معاملہ الگ وہ اپنی انا کے باعث ان حالات کو اور نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ جبھی پیار سے عارفین کے سامنے نوالا بنا کر دیا ابھی اسے یہ عارفین فراز نہیں لگ رہا تھا۔ یہ ایک چھوٹا بچہ کی مانند رو رہا تھا اس لیے اس نے عارفین کو پیار سے ہینڈل کرنا مناسب سمجھا ۔۔۔ عارفین رمشا کے ہاتھ سے کھانا کھانا شروع ہو گیا وہ نہایت بھوکا تھا اس لیے دو روٹی آرام سے کھا لیں ۔رمشا نے اس کے ماتھے پر ہاتھ لگا کر محسوس کیا وہ شدید بخار میں تپ رہا تھا۔
تم نے کھایا؟؟
عارفین نے پیٹ بھر کر کھانے کے بعد رمشا سے پوچھا۔۔
جی!
رمشا جھوٹ بول گئی ابھی اس کی ساری توجہ عارفین پر تھی۔
دوائی کونسی ہے آپ کی؟؟
رمشا ٹیبل پر سے ٹیبلٹس دیکھنے لگی۔ اور دیے گئے پرچے پر دیکھ کر عارفین کو رات کی دوائیاں کھلا دیں۔۔
لیٹ جائیں .
رمشا لائٹس آف کرنے اٹھ گئی۔
جا رہی ہو؟؟
ایک آس سے پوچھا گیا۔
نہیں۔
اس کی بات کا مان رکھا گیا تھا۔
پلیز کہیں مت جانا یہیں رہو میرے پاس۔
عارفین نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس ہی بیٹھنے کو کہا۔
آتی ہوں۔ آپ آنکھیں بند کریں بہت تیز بخار ہے آپ کو۔ ٹھنڈا پانی لینے جا رہی ہوں۔
رمشا یہ کہتی باہر چلی گئی اور کوئی پانچ منٹ کے بعد ٹھنڈا پانی باول میں لے آئی اور ساتھ ہی کچھ پٹیاں بھی۔ عارفین اسکے انتظار میں آنکھیں کھولے بیٹھا تھا۔
آگئیں ؟؟
عارفین نے رمشا کو دیکھتے ہی کہا۔
جی!
رمشا اس کے پاس بیٹھ کر پٹیاں کرنے لگی۔ وہ رات دیر تک پٹیاں کرتی رہی جب تک عارفین کا بخار کم نہ ہو گیا عارفین نے بہت مضبوطی سے رمشا کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا جیسے چھوٹا بچہ اپنی ماں کو پکڑ کر سوتا ہے کہ کہیں وہ کہیں چلی نہ جائے۔ رمشا نے آج اس کا لمس دل سے محسوس کیا وہ اسے اپنا اپنا سا لگا کوئی رنجش کوئی گلہ نہ رہا تھا ۔رمشا نے اس کے ہاتھ پر اپنے لب رکھ دیے اور کافی دیر تک اس کے ہاتھ کو محبت سے بوسہ دیتی رہی اور پتا نہیں کب وہ بھی اس کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
* * *
کچھ پتہ چلا فارس یار؟؟
سمیر کل سے دس چکر پولیس سٹیشن کے لگا چکا تھا۔
سمیر یہ وہی گینگ ہے جس کے پیچھے میں پچھلے ایک مہینے سے لگا ہوا ہوں ایسے ہی ایک لڑکی کو ملنے کے بہانے بلا کر اغوا کر لیا گیا تھا اور پیسے دینے کے باوجود بھی اس لڑکی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا وہ لوگ کراچی میں تیزی سے قدم جما رہے ہیں اور کوئی بھی سراغ پیچھے نہیں چھوڑتے لیکن میں نے بہت سی چھان بین کی ہیں اللہ نے چاہا تو ہم جلد ہی اس پوری گینگ کو پکڑ لیں گے۔ بس تم میری بات دھیان سے سنو مجھے عشاء کا موبائل اس کی دوستوں کا نمبر اور کالج کا پتا بھی چاہیے ہوگا وہ رکشے والا بھی کافی ڈرا ہوا ہے ابھی کچھ بتانے کی حالت میں نہیں ہے اس کو ان لوگوں نے کافی مارا پیٹا ہے۔ اور پسٹل کی وجہ سے وہ اور خوفزدہ ہو چکا ہے تم گھر والوں کا دھیان رکھو اور جو میں نے کہا ہے وہ ساری چیزیں مجھے لا کر دو میں جلدازجلد ٹیم کے ساتھ مل کر ان کو پکڑ لوں گا۔
صبر ہی تو نہیں آرہا فارس۔ وہ معصوم ہے ایسے لوگوں کے ساتھ کل سے اکیلی ہے پتا نہیں ان لوگوں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہوگا۔۔
سمیر کے دل میں غلط خیالات جنم لے رہے تھے۔
اللہ پر بھروسہ رکھو سمیر وہ بہتر کرنے والا ہے انشاءاللہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ وہ صحیح سلامت ہوگی۔
فارس کے پاس سوائے دلاسہ دینے کے اور کچھ نہیں تھا۔
ٹھیک ہے میں گھر جا کر دیکھتا ہوں جیسے ہی کچھ پتہ چلے مجھے فوراً انفارم کرنا۔ سمیر یہ کہتا گھر کے لئے نکل گیا۔
* * *
آپ لوگ مجھے کیوں لائے ہیں یہاں مجھے واپس گھر جانا ہے میں کبھی گھر سے دور نہیں رہی پلیز۔
عشاء کو جب سے یہاں لایا گیا تھا یہی ایک بات مسلسل بول رہی تھی۔
کہا نہ خاموش ایک لفظ اور بولا تو ایسے زخم دوں گا کہ زندگی بھر نہیں بھریں گے۔
یہ گینگ کا ایک آدمی تھا جو عشاء کی رکھوالی کے لیے بٹھایا گیا تھا۔
آپ کو خدا کا واسطہ مجھے جانے دیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا آپ مجھے کیوں لائے ہیں۔۔
سمجھ نہیں آتی لگاؤں ایک جب جا کر زبان بند ہو گی۔
نعمان میں نے تمہیں یہاں اس لیے نہیں رکھا کہ تم اس پر زور زبردستی کرو اس سے آرام سے بات کرو یہ باقی لڑکیوں کی طرح نہیں ہے یہ میرے لئے اغوا کی گئی ہے ۔ سمجھو بھابھی ہے تمہاری آئندہ اونچی آواز میں بات کی تو گولی سے اڑا دوں گا تمھیں۔
یہ اکبر تھا ان سب کا لیڈر جو بڑے پیار سے عشاء کو دیکھ رہا تھا۔
آپ کون ہیں؟؟
عشاء نے سب کو بنا ہیلمٹ کے اب دیکھا تھا وہ جب اغوا کرنے آئے تھے تو سب نے بالکل کور ہیلمٹ پہن رکھے تھے۔۔
میں اکبر ہوں جو تم سے بات کیا کرتا تھا۔۔۔
آپ تو اچھے تھے پھر آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں مطلب میری دوست صحیح کہتی تھی آپ برے ہی ہیں لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں میں سب کچھ سمیر بھائی اور عارفین بھائی کو بتاؤ گی اور وہ آپ کا وہ حال کریں گے کہ آپ کی سوچ ہے۔
عشاء کو ایک بھروسہ تھا کہ وہ لوگ ضرور اس کو بازیاب کرا لیں گے۔
ہا ہا ہا ضرور ضرور تم کراچی کے اس کونے میں ہو جہاں پرندہ پر بھی ہماری مرضی سے مارتا ہے اور تم یہ خیال چھوڑ دوں کہ تمہیں کوئی بچانے آنے والا ہے۔۔
اکبر نے ہنس کر اس کا خوب مذاق اڑایا۔
اللہ سنتا ہے میں دعا کروں گی اللہ آپ سب کو غارت کرے کتے کی موت مارے آپ سب جو لڑکیوں کی زندگی برباد کرتے ہو دیکھنا آپ سب کے ساتھ کیا ہوگا جنازہ پڑھنے کے لیے لاشیں تک نہیں ملیں گی آپ لوگوں کی ماں بہنوں کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔۔۔۔
عشاء چیخنے لگی اور جو منہ میں آ رہا تھا بول رہی تھی اسے گھر یاد آ رہا تھا وہ بھوکی تھی تڑپ رہی تھی۔۔
چٹاخخخخ۔۔ آپ منہ سے آواز نکلی تو یہیں زندہ دفنا دوں گا پھر ڈھونڈتے رہیں گے تمہارے سمیر اور عارفین بھائی۔۔
اکبر طیش میں آ گیا تھا اور بنا لحاظ کرے اس معصوم سی لڑکی کو دو تھپڑ مار دیے وہ بکھر گئی اور سر دیوار سے جا لگا تھا عشاء بے ہوش ہونے لگی سر سے خون بہنے لگا اور یونیفارم لال ہونے لگا۔
بھائی یہ کیا کیا؟؟؟
وہ لڑکا ڈر گیا۔
کچھ نہیں بس بے ہوش ہوئی ہے ہوش میں آئے تو کچھ کھانے کے لیے دے دینا یہ لڑکی زندہ چاہیے ہر حالت میں۔
اکبر غصے سے باہر چلا گیا اور عشاء بے سندھ سی اندھیرے کمرے میں پڑی رہی۔
* * *
یار رمشا میرا دل گھبرا رہا ہے جیسے عشاء تکلیف میں ہے مجھے پکار رہی ہے میں کیسے اس کے پاس جاؤں کیسے اس کو واپس لے آؤں۔ رمشا وہ مجھے پکار رہی ہے وہ مجھے بلانا چاہتی ہے. میری سمجھ سے باہر ہے آخر کیوں اللہ اتنی آزمائش لے رہا ہے اس معصوم کو تو دنیا کے درندوں کا پتہ بھی نہیں ہے وہ کیسے توڑ دیتے ہیں۔ اللہ نہ کرے اس کے ساتھ کچھ ہو اللہ مجھے اٹھا لے لیکن اس معصوم کو کچھ نہ ہونے دے۔
رمشا گھر آنے پر سمیر کے پاس بیٹھ گئی تھی وہی تھا جو مسلسل بھاگ دوڑ میں لگا تھا اور اب رمشا سے دل ہلکا کر رہا تھا۔
بھائی آپ کو اللہ پر بھروسہ ہے نہ بس توکل رکھیں ضرور وہ صحیح سلامت گھر آجائے گی یہ ہماری آزمائش ہے اور ہمیں اسے پوری ہمت سے جیتنا ہے ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ ابھی آپ ہی ہو جو اسے گھر واپس لا سکتے ہو۔
رمشا نے سمیر کی پیٹ کو بڑے پیار سے سہلایا کر اس کی ہمت میں اضافہ کیا ابھی ہر ایک کو مل کر عشاء کو واپس لانا تھا لیکن کوئی امید ابھی تک نظر نہیں آئی تھی اور نہ ہی کوئی پیسوں کے لیے فون کال کیا گیا تھا۔
ہوش آیا کے نہیں آیا؟؟
اکبر نے لاپرواہی سے باہر کھڑے لڑکے سے پوچھا ۔۔
آیا تھا لیکن وہ کافی کمزور ہو رہی ہے نہ کچھ کھا رہی اور نہ ہی پی رہی ہے اور اوپر سے خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ بار بار بے ہوش ہو رہی ہے اگر اس طرح رہا تو وہ مر جائے گی ۔۔
نہیں میں نے نہیں مرنے دینا مجھے اس کو۔ جیسے تیسے بھی کچھ کھلاو یا کسی ڈاکٹر کا انتظام کرو لیکن کچھ بھی کرو۔
اکبر کو اس کے مرنے سے ڈر لگ رہا تھا۔
ہاں اکبر ڈاکٹر کو تو بلانا پڑے گا لیکن وہی والے جس سے ہماری بات چیت ہے تاکہ باہر بات نہ جائے۔
ہاں صحیح ہے بات کر لو اور یہ کھانا مجھے دو میں کوشش کرتا ہوں۔
اکبر کھانا لیے اس کمرے میں چلا گیا جہاں عشاء کو رکھا گیا تھا۔
اٹھو!
اکبر نے عشاء کو بازو سے پکڑ کر ہلایا۔
سمیر بھائی آپ آ گئے؟؟؟
عشاء نے ادھ کھلی آنکھ سے اکبر کو دیکھنا چاہا۔
ہا ہا ہا ہا!! تم اب تک اس کے انتظار میں ہو؟؟؟ اکبر نے ہنستے ہوئے کھانے کی پلیٹ سامنے رکھ دی
نہیں کھاؤں گی میں صرف اپنے گھر جانا چاہتی ہوں گھر میں کھانا کھاؤں گی مجھے چھوڑیں آپ لوگوں نے کیوں مجھے اس کمرے میں بند کیا ہوا ہے۔
عشاء پھر رونے چلانے لگی تھی اس کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
گھر کو تو تم بھول جاؤ وہی تمہارے لیے بہتر ہو گا میں تمہیں دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں رکھنا چاہتا لیکن تم مجھے مجبور کر رہی ہو کہ میں تمہیں وہی زخم دوں مجھے اور بہت طریقے بھی آتے ہیں بات منوانے کے بہتر ہوگا پیار سے سمجھ جاؤ اور یہ کھانا کھا لو۔ ڈاکٹر آنے والا ہے وہ تمہیں چیک بھی کر لے گا۔
اکبر اسے دھمکی دینے پر آ گیا تھا۔
اور کون سے زخم دینے ہیں دے دیں زیادہ سے زیادہ مار دیں گے نہ وہ بھی کر لیں لیکن آپ کا جو انجام ہوگا اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں ۔۔ میں روز صبح شام آپ لوگوں کے لئے اللہ سے بد دعائیں کر رہی ہوں اور میری اللہ ضرور سنے گا۔۔ میں نے آپ کی آنکھ میں موت کا ڈر دیکھا ہے اور آپ جیسے لوگ ڈر پوک ہوتے ہیں اسی وجہ سے ہم کمزور لڑکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔۔ مجھے عنقریب آپ کی دردناک موت نظر آ رہی ہے۔
عشاء نے غصے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اس میں بہت ہمت آ گئی تھی تین دن سے اس کمرے میں پڑے پڑے جہاں وہ کمزور ہو گئی تھی وہیں اللہ نے اسے ہمت بھی عطا کی تھی وہ معصوم سی عشاء ڈری ہوئی تھی لیکن ان پر یہ عیاں نہیں کرنا چاہتی تھی ورنہ وہ اسے بیچ کر کھا جاتے۔
تم بہت بولنے لگی ہو شاید میں تمہارے ساتھ زیادہ ہی نرمی برت رہا ہوں جو تمہیں راس نہیں آرہا بھوکے مرنے کا شوق ہے تو شوق سے مرو تم اس لائق ہی نہیں ہو تمہارے ساتھ ہمدردی برتی جائے اب میں تمہیں وہی اکبر بن کر دکھاؤں گا جس کے لئے یہ لڑکی ذات ایک مزہ اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور کچھ نہیں۔ میں نے سوچا تھا تم سے نکاح کروں گا لیکن نہیں اب میں نکاح کے بغیر ہی تمہاری وہ حالت کروں گا کہ زندگی بھر اس درد کو محسوس کرو گی۔
اکبر چلا گیا لیکن عشاء ڈر سے کانپنے لگی تھی اور گھر والوں کو شدت سے پکارنے لگی کوئی اس کی آواز نہیں سن پا رہا تھا وہ کافی دور تھی تھوڑی دیر رو لینے کے بعد واپس عنودگی کی حالت میں چلی گئی۔
* * *
کچھ پتہ چلا؟؟
سمیر نے فارس کو کال کرکے دریافت کرنا چاہا۔
ہاں میں تمہیں ابھی کال ہی کرنے والا تھا تمہیں سن کر شاید عجیب لگے لیکن عشاء کی کسی لڑکے سے بات ہوتی تھی۔ میسج پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس پر نظر رکھ رہا تھا، عشاء کو کافی ٹائم سے فالو کر رہا تھا اس کو یہ بھی پتا تھا کہ آج عشاء کالج جائے گی، کس ٹائم جائے گی کس طرح جائے گی اس کو سب پتا تھا۔۔ میں نے عشاء کی دوست سے بھی بات کی اس کے مطابق اس لڑکے کا نام اکبر ہے اور وہ اسے بلیک میل کر رہا تھا اس کی دوست نے عشاء سے ڈسکس کیا اور عشاء نے اس کی ہیلپ کی اور وہ خود پھنس گئی. ایک اور بات ذرائع سے پتہ لگی ہے کہ وہ لوگ گینگ میں ہی اغوا کرتے ہیں اور اکبر ہی ان کا لیڈر ہے۔ جب اغوا کیا گیا تو انہوں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے ۔۔ باقی بھی الگ الگ جگہ چھاپے جاری ہیں اللہ نے چاہا تو جلد ہی سراغ لگ جائے گا۔
فارس سمیر کو اب تک کی اپڈیٹ سے واقف کرا رہا تھا۔
ٹھیک ہے ٹچ میں رہنا۔۔
سمیر کا دل عجیب سا ہوا ۔۔عشاء بھی اس میں انوال ہے یہ سن کر سمیر کو برا لگا وہ فارس سے زیادہ بات نہ کر سکا۔۔ عشاء نے اپنی دوست کی ہیلپ کی لیکن گھر میں کسی کو بتایا تک نہیں جبکہ ان کے گھر میں بہت دوست والا ماحول تھا۔۔ سمیر کو فکر لاحق ہونے لگی ۔ دل گھبرانے لگا تھا وہ ای سی کو فل کرکے سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن نیند کوسوں دور تھی۔
* * *
مامی اب تک تو پورے خاندان کو خبر ہو چکی ہے پتہ نہیں کہاں کہاں سے فون آ رہے ہیں کہ عشاء اغوا ہوگئی ۔ اب کیا عزت رہ گئی اس کی۔ آپ کو اکیلے بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ بس اب گئی ہوئی عزت کون واپس لا سکتا ہے پتا نہیں رشتے بھی آئیں گے یا نہیں ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے دعا کے رشتے بھی آنا بند ہو جائیں یہ معاشرہ ہی ایسا ہے مامی۔ بس عورت کے پاس عزت ہی تو ہے اور ہوتا ہی کیا ہے اور وہ تو تھی بھی اتنی باولی اللہ خیر کرے۔
سمیہ آتے ہی سیما سے الٹی باتیں کرنی شروع ہوگئی تھی وقفے وقفے سے رشتہ داروں کا آنا جاری تھا کوئی مرہم لگاتا اور دلاسے دیتا تو کوئی سمیہ کے جیسے جلے پر نمک چھڑک دیتا۔
سمیہ کی نیچر ہی ایسی تھی وہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی اپنے مطلب کی بات ڈوھونڈ لیا کرتی تھی اور اس کو پکڑ کر پورے جہاں میں پھیلانا ان کا اولین مقصد ہوتا تھا۔ سیما کے پاس کوئی جواب نہیں تھا وہ بس مسلسل رو رہی تھیں لیکن مجال ہے سمیہ نے اپنی زبان ایک منٹ کے لیے بھی بند کی ہو۔
سمیہ باجی ویسے اگر دلاسہ اور ہمت نہیں دے سکتیں تو آپ چپ رہیں تو بہتر ہے ویسے ہم پریشان ہیں اوپر سے آپ اور اضافہ کر رہی ہیں کسی کی بھی شادی کا ذمہ ہم آپ کے نازک کندھوں پر نہیں ڈالیں گے تو آپ بے فکر رہیں۔ اگر آپ اخبار میں اشتہارات نشر کر چکی ہوں تو بہتر ہے اب کچھ ٹائم ہمارے گھر میں آنے سے گریز کریں تاکہ ہم کچھ سوچ سکیں اور فیصلہ کر سکیں اگر آپ دعا کر سکتی ہیں تو گھر پر بیٹھے بیٹھے یہ ایک کام ضرور کریے گا۔
سمیر دروازے پر کھڑا سمیہ کی ہر بات بکواس سن چکا تھا اور ایک جھٹکے سے اندر آیا اور سمیہ کو ٹھیک ٹھاک سنادی ۔۔۔ روم میں سمیہ اور سیما کے علاوہ کوئی نہیں تھا جس کا فائدہ سمیہ بھرپور اٹھا رہی تھی۔۔
دیکھ رہی ہیں مامی کس طرح بات کر رہا ہے یہ خود کا رشتہ کنزا سے نہیں ہوا تو اس میں میرا کیا قصور۔۔
سمیہ نے سمیر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا.
رشتہ ہوا یا نہیں ہوا وہ بھی آپ کا مسئلہ نہیں آپ اس سے بھی دور ہی رہیں ۔ سمیر کے غصے میں اضافہ ہوا۔
بس چپ کر جاؤ سمیر۔۔۔ سیما چلا اٹھیں۔
تائی امی آپ آرام کریں اور آپ باہر آجائیں اور کہنے کو کچھ رہ گیا ہے تو وہ مجھ سے کہہ دیں میں ٹھیک سے جواب دوں گا۔
سمیر کا یہ کہنا تھا اور سمیہ اٹھ کر باہر چلی گئیں ۔
* * *
یہ تو بہت بری حالت میں ہے کبھی بھی مر سکتی ہے۔۔ ڈاکٹر نے آکر مکمل معائنہ کرنے کے بعد ایک لڑکے کو بتایا۔۔
پھر اب کیا کرنا چاہیے؟؟؟ وہ لڑکا پریشان ہونے لگا
تم باہر اکبر کو بتاؤ میں جب تک کوئی ڈرپ کے ذریعے گلوکوز اس کی باڈی میں منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
آہ ہ ہ ہ ہ !! عشاء کے ہاتھ میں سوئی چبتے ہی اسے درد کا احساس ہوا اور اس نے آنکھیں کھولیں..
ڈاکٹر صاحب مجھے بچا لیں پلیز۔۔۔
وہ معصوم سی گڑیا تھی آنکھوں میں آنسو لیے اس کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگی۔
میں کچھ بھی نہیں کر سکتا مجبور ہوں یہ لوگ خطرناک ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔
وہ ایک اچھا ڈاکٹر تھا اس معصوم لڑکی کی جان بچانے کا ارادہ دل میں کرنے لگا عشاء کسی کا دل بھی اپنی طرف کھینچ سکتی تھی ڈاکٹر بھی اس پر ترس کھانے لگا تھا۔۔
آپ تو ڈاکٹر ہیں اللہ نے آپ کے ہاتھ سے جانے کتنے لوگوں کو شفاء دی ہوگی ایک مدد میری بھی کر دیں میں یہاں مر جاؤں گی میرے گھر والے مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے پلیز ڈاکٹر انکل میری مدد کر دیں میں آپ کے لئے بہت ساری دعائیں کرو گی پلیز پلیز۔
عشاء روتے روتے ان کے پاؤں کے پاس آ گئی وہ ڈری ہوئی تھی سہمی ہوئی تھی اس قیدخانے سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔
تم مجھے میری بیٹی سے ملتی ہو میں ضرور کوئی مدد کروں گا تاکہ تم یہاں سے نکل جاؤ او یہ لو میرا موبائل اور جس گھر والے کا نمبر یاد ہے وہ ملا دو جلدی تمہارے پاس صرف چند منٹ ہی ہیں وہ لوگ آتے ہی ہونگے۔۔
ڈاکٹر نے فوراً موبائل نکال کر اسے تھما دیا اور کھڑے ہو کر دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
سمیر بھائی !! عشاء نے روتے روتے سمیر کا نمبر ملا دیا اور ایک رنگ کے بعد ہی کال پک کر لی گئی تھی عشاء نے درد بھری آواز سے سمیر کو پکارا۔
عشاء کہاں ہو تم؟؟؟ مجھے بتاؤ جلدی ۔۔۔
سمیر اس کی آواز سنتے ہی پرامید ہو گیا تھا۔۔
میں ماڑی پور میں گھر نمبر 74 میں ہوں یہ ایک کچے کا علاقہ ہے سمیر بھائی۔۔
عشاء نے ڈاکٹر کی مدد سے سمیر کو ایڈریس سمجھا دیا۔۔۔
مجھے لینے آ جائیں سمیر بھائی مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔
عشاء رونے لگی۔۔
اوئے کیا کر رہی ہو تم؟؟؟ موبائل کہاں سے آیا تمہارے پاس اکبر کمرے میں داخل ہوا تھا اور عشاء کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر غصے سے اس کی نسیں پھٹنے لگی تھیں۔۔۔
وہ میں ۔۔۔۔ میں نے۔۔۔۔
ڈاکٹر نے کچھ بولنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ عشاء کال کاٹ چکی تھی اور ڈر کر دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی
۔۔
آہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر کو ایک سیکنڈ لگا تھا بات کو سمجھنے میں۔۔۔۔ گولیاں تھیں جو وہ برسا گیا ۔۔جو ڈاکٹر کو خون میں لت پت کر گئی تھیں لیکن وہاں صرف کوئی ایک ان گولیوں کا شکار نہیں ہوا تھا عشاء اور ڈاکٹر دونوں ہی خون میں لت پت وہاں ڈھیر ہو چکے تھے۔۔۔
اکبر یہ کیا کیا تم نے ؟؟؟؟ وہاں ہر ایک گینگ کا ممبر آچکا تھا۔۔۔
بس یہ لڑکی اب میرے لئے بخار بنتی جا رہی تھی اچھا ہوا کہ قصہ ہی ختم ۔ تم لوگ ایسا کرو بس ضرورت کی کچھ چیزیں اٹھاؤ اور نکلنے کی تیاری کرو کبھی بھی پولیس آسکتی ہے۔۔۔۔ اٹھا لے جائے گی ان لاشوں کو۔۔۔۔
اکبر یہ کہتا نکلنے کی تیاری کرنے لگا ان کے پاس صرف کچھ منٹ ہی تھے بھاگنے کے لیے۔
* * *
میرا دل بند ہو رہا ہے رمشا جیسے کوئی انہونی ہوئی ہے کچھ کرو سمیر سے ہی بات کر کے پوچھو کہ کیا ہوا ہے کچھ پتہ چلا۔۔
سیما کا دل گھبرا رہا تھا ایک ماں ہی تو ہوتی ہے جو بچوں پر آئے مصیبت سب سے پہلے بھاپ لیتی ہے اور یہ تو بات بھی ان کی سب سے عزیز بیٹی کی تھی۔۔۔
جی تائی امی میں بات کرتی ہوں آپ پانی پئیں اور حوصلہ رکھیں دعا تم بیٹھو ان کے پاس میں آتی ہوں ابھی۔۔
رمشا کے دل میں بھی وسوسے آنے لگے تھے وہ فون کرنے کے ارادے سے روم میں آگئی۔۔
کیا ہوا اتنی پریشان لگ رہی ہو طبیعت ٹھیک ہے؟؟؟؟
عارفین رمشا کو کمرے میں چکر لگاتا دیکھ کر پریشان ہونے لگا تھا۔۔
جی میں ٹھیک ہوں لیکن سمیر بھائی فون نہیں اٹھا رہے اللہ جانے کیا ہوا ہے کب سے کال کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔۔
رمشا نے اداسی سے اپنی پریشانی بیان کی۔
ڈرو نہیں کہیں پھنسا ہوا ہوگا کال بیک کرلے گا۔۔ تم بیٹھو اور کچھ کھاؤ پیو تمہاری شکل بتا رہی ہے کہ کب سے بھوکی پھر رہی ہو۔۔ چلو شاباش۔۔
عارفین کو رمشا کی فکر تھی لیکن وہ ابھی اس کی کئیر نہیں کر پا رہا تھا جس کی رمشا کو خاص کرکے ضرورت تھی۔۔
جی بس کھاتی ہوں۔ آپ نے دوائی لی؟؟
جی بیگم لے لی ہے ادھر آؤ میرے پاس بیٹھ جاؤ۔۔
جی!
عارفین نے پیار سے رمشا کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کی ساری تھکان اپنے اندر سمیٹ لی ۔کبھی کبھی ہمیں صرف اچھے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے اس پیار کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہمیں سن لے ہماری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے۔۔ رمشا کے پاس ایسا شوہر موجود تھا یا یہ کہہ لیں کہ اب وہ ویسا شوہر بننا چاہتا تھا جو ہر لڑکی کا آئیڈیل ہوتا ہے۔۔