دو دن ہو گئے ہیں مجھے اس بیڈ پر لیٹے ہوئے میں تھک گیا ہوں یار سمیر گھر جانا ہے اب یہاں کا پھیکا کھانا نہیں کھایا جا رہا پلیز تم بات کرو ڈاکٹر سے اور مجھے لے کر جاؤ اس قید خانے سے ۔۔
عارفین کو کافی چوٹیں آئی تھیں خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس کو دو دن انڈر ابزرویشن رکھا گیا تھا سیدھا ہاتھ اور سیدھا پاؤں تقریبا ٹوٹنے سے بچے تھے ڈاکٹر نے بروقت ٹریٹمنٹ کرکے اس پر پلاسٹر کردیا تھا۔۔ باقی کافی اندرونی چوٹیں تھیں جس کی وجہ سے عارفین کو ایک مہینے کا مستقل بیڈریسٹ کہا گیا تھا لیکن اب وہ ہسپتال کے ماحول سے پک رہا تھا ڈاکٹر کے کہنے کے باوجود کے ایک ہفتے سے پہلے وہ یہاں سے نہیں جا سکتا عارفین سمیر سے التجا کرنے لگا تھا۔
اچھا اوکے میں بات کرتا ہوں ڈاکٹر سے اور غذا میں کیا کیا لینا ہے سب تفصیلات لے لیتا ہوں تھوڑا تو برداشت کرنا یار ویسے سب پریشان ہیں تمہارے اس طرح سے کرنے پر اور پریشان ہوں گے میرے بھائی حادثات ہوتے رہتے ہیں اللہ کا شکر ہے اللہ نے کرم کیا۔ رمشا کی عادت ہے کوئی بھی گھر سے نکلتا ہے دعائیں ضرور پڑھ کر پھونکتی ہے۔
سمیر عارفین کو دلاسہ دینے کی کوشش میں لگا تھا۔
ہاں لیکن شاید اس رات میرے لئے رمشا نے دعا نہیں کی تھی عارفین نے غمگین ہو کر دل ہی دل میں سوچا۔
سمیر باہر ڈاکٹر سے بات کرنے چلا گیا۔ عارفین عنیزہ پر شدید غصہ تھا وہ جب چلی گئی تھی تو واپس کیوں آئی اور اس نے اسے دھوکہ دیا پیار کا اتنا خوبصورت صلہ دیا ۔۔
بھائی!!
عشاء نے روم میں آتے ہی عارفین کو پیار سے آواز دی۔
ہاں جی میری گڑیا!
عارفین اپنا خیالات سے باہر آ کر عشاء کو اپنے ساتھ لگا گیا تھا ۔
یہ میں آپ کے لئے کھانا لائی ہوں اور ادھر آئیں کان میں بتاؤں۔۔۔
عشاء نے راز والی بات کو کان میں بتانا ضروری سمجھا۔۔
اور یہ سارا کھانا رمشا نے صبح سے لگ کر آپ کے لئے بنایا ہے۔
عشاء نے خوشی خوشی عارفین کے کان میں رس گھول دیا تھا۔
اچھا ! وہ خود کیوں نہیں آئی؟؟
عارفین کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی۔
میں نے تو کہا تھا لیکن وہ خود بولنے لگی مجھے ہسپتال کا ماحول اچھا نہیں لگتا اس لئے میں نہیں جاؤں گی۔
عشاء نے رمشا کی کہی ہوئی بات عارفین کو بتا دی اسے کیا پتا تھا کہ ان دونوں کے بیچ کیا چل رہا ہے۔۔
اچھا!
عارفین سمجھ چکا تھا وہ آنا نہیں چاہتی اور نہ ہی اس سے ملنا چاہتی ہے۔
ایک منٹ بھائی رمشا کی کال ہے۔
عشاء یہ کہتی ہی باہر جانے لگی تھی۔
روکو یہیں اسپیکر پر ڈال کر بات کرو۔
عشاء کو عارفین کی بات سمجھ نہیں آئی انہوں نے آخر ایسا کرنے کا کیوں کہا تھا۔۔
جی بھائی؟؟
عشاء نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
ہاں میں جو کہہ رہا ہوں کرو شاباش ۔۔ عارفین نے حکم دیا۔
السلام علیکم بھابھی جان!!
عشاء نے فون کو اسپیکر پر ڈال کر بڑے لاڈ سے سلام کیا جس پر عارفین بھی مسکرا اٹھا۔
ہاں جی وعلیکم السلام! پہنچ گئیں تم ؟؟
رمشا نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
جی جی پہنچ گئی وہ ابھی۔۔۔۔۔۔۔
عشاء صاحبہ بھانڈا پھوڑنے ہی لگیں تھی کہ وہ عارفین کے ساتھ ہی بیٹھی ہے لیکن عارفین نے آنکھیں دکھا کر چپ رہنے کے لیے کہا۔
اچھا کھانا دے دیا نا؟؟
رمشا کو پریشانی لاحق ہوئی جیسے وہ کھانا خود کھا لے گی۔
جی جی دے دیا۔
کھایا انہوں نے؟؟ پسند آیا؟؟ کیا کہہ رہے تھے؟؟؟ طبیعت کیسی ہے؟؟؟ چوٹیں زیادہ لگی ہونگی نہ؟؟ تم ایسا کرنا کوئی پک لے کر آ جانا لیکن چپکے سے ٹھیک ہے نا؟؟؟
رمشا تو جیسے ایک سانس ہی ہو گئی تھی۔
تم نے اتنا کچھ پوچھ لیا میں بھول ہی گئی کہ جواب کس کا پہلے دوں؟ ہاں کھانا دے کر باہر آ گئی ہوں اب جا کر پوچھوں گی کہ کیسا لگا اور کیا پوچھا تھا؟؟ ہاں تکلیف بھی کافی ہے اور چوٹیں بھی ٹھیک ٹھاک ہی ہیں لیکن اب وہ تھوڑے بہتر ہیں میرے بھائی جو ہیں اور پک بھی لے آؤ نگی فکر نہ کرو بھائی کے فرشتوں کو بھی نہیں پتا لگے گا ۔۔
عشاء تو تھی ہی جھوٹ کی ماسٹر اور پھر بھائی کے حکم کی تکمیل بھی بخوبی کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
چلو گڈ ان کا بہت زیادہ خیال رکھنا اور واپس آؤ گی تو اچھی سی چائے بھی پلاؤنگی تمہیں امممممماں۔۔
رمشا کے دل میں جیسے سکون سا اتر آیا تھا وہ جتنی پریشان تھی کہ کھانا تک حلق سے نہیں اتر رہا تھا لیکن اب وہ کھانا کھا سکتی تھی اسے ابھی کھانے کی ضرورت بھی بہت تھی۔
واہ میری گڑیا اب تم جو کہو گی وہ دلاؤں گا تمہیں شاباش۔۔
عارفین کو ایک اطمینان سا ہوا تھا پتہ نہیں یہ کیسا احساس تھا لیکن وہ رمشا کی پرواہ کرنے پر خوش ہوا تھا محسوس کیا تھا کہ وہ بھی پریشان ہوئی تھی وہ غصہ وقتی تھا لیکن افسوس بھی ہوا وہ اس شادی کو پہلے دن سے ایک اچھی راہ دینا چاہتی تھی لیکن عارفین نے ہر موڑ پر اس کی دل آزاری کی تھی ۔ اس کے دل کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
جی جی شکریہ دو دو طرف سے تحفہ واہ واہ ۔
عشاء تو تھی ہی بھولی بات تو سمجھ نہیں پائی اور نہ ان کے بیج کی دوریوں کو ناپ پائی لیکن اپنے انعامات پر خوش ہوگئی جو اس کی بہترین کارکردگی پر ملنے والے تھے۔
* * *
اماں صبح کالج جاؤں او یا پھر دو تین دن رک کر جاؤں۔ بھائی کی خدمت ہی کر لوں گی۔
عشاء نے معصومیت سے سیما کے کمرے میں آ کر کہا۔
ارے دو تین دن کیوں تم ایسا کرو ہمیشہ کے لئے ہی چھٹیاں لے لو اور آرام سے گھر بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑو۔ میں تمہیں بیڈ پر کھانا لا دیا کروں گی تم وہ آرام سے کھانا میں اٹھا کر لے جایا کروں گی پھر اپنے من پسند ڈرامے دیکھنا کوئی ایک لفظ نہیں کہے گا۔
سیما تو تھیں ہی ایسی عشاء کی عزت ان کے ہاتھوں ہونا لازم و ملزوم تھی وہ کبھی اسے سیدھا جواب نہیں دیا کرتی تھیں ۔
اماں یار سیدھا بولیں بیٹا کل چلی جانا بہت چھٹیاں ہوگئی ہیں ایسے بھگو بھگو کر چپلیں مارنے کی کیا ضرورت تھی آپ کو پتہ بھی ہے مجھے کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اور بےعزتی تو بالکل فیل نہیں ہوتی۔
عشاء نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
ایک چپل ماروں گی نہ سارے دانت اندر ہو جائیں گے اور عقل بھی ٹھکانے پر آ جائے گی اگر چھٹی کا نام بھی لیا تو اتنی فیس میں چھٹیاں کرنے کے لیے نہیں دے رہی ہوں۔۔
سیما نے غصے سے آنکھیں دکھائیں۔
اچھا اوکے اوکے اماں چلی جاؤں گی لیکن کیسے یہ تو بتائیں بھائی تو اب لے جانے کی حالت میں نہیں ہیں اور باقی لڑکے بھی ان کے ساتھ ہی لگے ہیں۔ عشاء کو پریشانی لاحق ہوئی۔۔
کوئی بات نہیں رکشے والا ہے نہ جس کے ساتھ تم دونوں جایا کرتی تھیں اس سے بات کرلی ہے بھروسے کا آدمی ہے لانا لے جانا کر لے گا اور کچھ دنوں کی بات ہے پھر تو کوئی نہ کوئی لے آیا کرے گا۔ سیما نے پریشانی کا حل پیش کردیا۔
چلیں صحیح ہے پھر میں صبح کے لیے تیاری کرتی ہوں پتہ نہیں میں سارا سامان کہاں رکھ کر بھول گئی ہوں۔ عشاء یہ کہتی کمرے میں جا چکی تھی۔
* * *
ہائے!!
موبائل اٹھاتے ہی عشاء کو اسی لڑکے کا میسج موصول ہوا۔
ہاں جی؟؟
عشاء نے ڈرامہ دیکھتے دیکھتے ہی ریپلائی کر دیا۔
کیسی ہو؟؟
رسمً پوچھا گیا۔
میں ٹھیک ہوں۔
اس نے برا سا منہ بنا کر قسط روک کر جواب دیا۔
آج کل کالج نہیں جا رہیں کیا؟
اس نے کنفرم کرنا چاہا۔
آپ کو کیسے پتا چلا؟
عشاء نے تفشیش کی۔
تمہاری میڈم نے فون کرکے بتایا ہے۔ اس نے مذاق میں بولا۔
بیرا غرق ہو ان کا وہ تو پہلے ہی میری دشمن بنی رہتی ہیں۔
عشاء تو جیسے مان گئی تھی وہ پاگل نہیں تھی لیکن اس لڑکے کے تعلقات زیادہ تھے اس لئے سچ سمجھ بیٹھی تھی ۔کہ شاید واقعی اس کے پاس میڈم کا نمبر ہو۔
تو کل جاؤ گی؟؟
اس نے جانچنا چاہا۔
ہاں جانا ہی پڑے گا اب تو۔۔
عشاء کو گھبراہٹ ہونے لگی۔
وہ کُل تین چار میسج ہی کیا کرتا تھا ۔جبھی عشاء کو کبھی اس سے خطرا محسوس نہیں ہوا۔ نہ ہی اس لڑکے نے کبھی کوئی الٹی بات کی تھی نہ تصویر مانگی نہ ہی کال کا کہا۔ عشاء کے دوست نے جیسے اس کا نقشہ کھینچا تھا وہ بالکل اس کے برعکس ہی بات کیا کرتا تھا۔ عشاء صبح کی تیاری کر کے سونے کے لئے لیٹ گئی ۔
* * *
عارفین کوئی عنیزہ ملنے آئی ہے کہ رہی ہے یونیورسٹی کی دوست ہے۔
سمیر نے روم میں آکر عارفین کو اطلاع دی۔ وہی تھا جو اس ٹائم عارفین کے ساتھ رہا کرتا تھا اور رات سے پہلے چلا جاتا تھا ۔ لڑکوں نے آپس میں شفٹس بانٹ لی تھیں ۔
اچھا ! بھیج دو۔
عارفین کا دل تو نہیں چاہا کہ اس سے ملے لیکن سمیر کو نہ ملنے کا جواز بھی کیا پیش کرتا اس لئے بلا لیا۔
کیسے ہو؟؟
اس میں قدم رکھتے ہی پوچھا تھا۔
عنیزہ میں تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتا سمجھو تم۔ واپس آئی ہی کیوں ہو؟؟ میں اپنی زندگی میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کرنے لگا ہوں میں نہیں چاہتا تمہاری وجہ سے میں دوبارہ ڈپریشن میں چلا جاؤں اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی نقصان پہنچاؤں۔(مطلب رمشا اور ان کا بچہ)
عارفین نے بنا رکھی لپٹی بات کرنا ہی مناسب سمجھا۔
عارفین ہماری محبت ، ہمارا پیار پلیز اس کا خیال کر لو میں تمہیں مس کرتی ہوں ان دنوں کو مس کرتی ہوں تم نے کہا تھا کورٹ میرج کر لیتے ہیں ۔ اب میں تیار ہوں۔ تم مجھ سے ناراض ہو ، لڑو یہ تمہارا حق ہے لیکن ایسے جانے کا نہ کہو۔
عنیزہ ایک بات بتاؤں تم نے کبھی پیار کیا ہی نہیں جو پیار کرتے ہیں وہ ایسے ساتھ نہیں چھوڑا کرتے وہ دھوکا نہیں دیتے وہ لالچی نہیں ہوتے وہ ہر حال میں ساتھ نبھاتے ہیں ۔ تمہیں کیا پتا میں نے تمہاری محبت میں اندھا ہوکر کسی کو کتنے دکھ دیے ہیں کتنی تکلیف دی ہے ، کتنا بےعزت کیا ہے صرف تمہاری محبت کے چھوٹ جانے کی وجہ سے اور آج جب حقیقت میرے سامنے ہے تو میں کیسے تم پر بھروسہ کر لوں کیا گارنٹی ہے کل کو تم مجھے نہیں چھوڑو گی کل کو مجھ سے اچھا مل گیا تم مجھے چھوڑ جاؤ گی اورمیں پھر دوبارہ پچھتاؤں گا۔ اگر تمہیں ابھی کوئی بھی مالی مسئلہ ہے تو میرا نمبر تمہارے پاس ہے مجھ سے کانٹیکٹ کرنا جو ضرورت کی چیز چاہیے ہوگی وہ تمہیں مل جائے گی اگر جاب بھی چاہیے تو وہ بھی دلوا دوں گا لیکن پلیز اس سے زیادہ کی توقع نہیں رکھنا۔ عارفین فراز کسی کی امانت ہے اور وہ امانت میں خیانت نہیں کرے گا ۔۔۔ مجھے تم سے محبت تھی اور شاید اب بھی ہے لیکن مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے ایسا کچھ نہ کرنا کہ میں تم سے نفرت کرنے لگوں بس میری زندگی سے دور رہو، مجھ سے دور رہو تمہارے لئے دعا گو رہوں گا کہ تمہیں تمہارا جیسا ہمسفر نہ ملے۔
عارفین بولتا چلا گیا عنیزہ خاموش رہی وہ جانتی تھی اس کی بات میں سچائی ہے اس نے ہیرا چھوڑ کر کوئلے کو چنا تھا اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا وہ چلی گئی اس کا جانا بنتا تھا وہ واپس نہیں آنے والی تھی اس نے جاتے جاتے عارفین کو خوشحال زندگی کی دعا دی تھی اور اس کے پاس دینے کو کچھ تھا بھی نہیں۔ عارفین اس کو جاتا دیکھتا رہا وہ ایک طویل سفر طے کر کے آیا تھا اور اب منزل صاف تھی، سکون والی تھی۔ ہر کنکر راستے سے ہٹا دیے گئے تھے جو اس کے خود کے بکھیرے ہوئے تھے اس نے دیر سے اصل ہیرے کو پہچانا تھا لیکن اللہ تعالی نے رمشا کی دعا سن لی تھی جس میں اس نے سکون مانگا تھا اسے عارفین کی شکل میں ہی ہر تکلیف ملی تھی اور عارفین کو ہی اس کی ہر تکلیف کا مرہم بنا دیا گیا۔
* * *
امی آپ نے کہا تھا صبح ہی آ جائے گا رکشہ والا وہ کون سی صبح ہوگی میں کب سے تیار ہو کر بیٹھی ہوئی ہوں۔
عشاء لان میں چکر لگانے لگی تھی۔
آجائے گا تم بیٹھی ہی رہو. سیما فروٹ کاٹنے میں لگی تھی وہ اکثر لان میں بیٹھ کر فروٹ کھایا کرتی تھیں ۔
آگیا چلے میں چلوں۔ عشاء نے بیک لیکر باہر کے لئے دوڑ لگا دی۔
انکل کل سے پلیز جلدی آ جائے گا میری میڈم اندر نہیں گھسنے دیں گی واپس آنا پڑ جایا کرے گا۔
جی بہن وہ ٹائر پنکچر ہو گیا تھا۔
انکل ٹائر والا بہانہ پرانا ہو گیا میں سن سن کر تھک گئی ہوں اب کوئی نیا بہانہ کریے گا پلیز۔
عشاء مسلسل گھڑی میں ٹائم دیکھنے میں لگی تھی۔
کون ہو آپ؟؟؟
رکشے کے سامنے دو بائیک والوں نے آکر بائیک روکی تھی اور رکشے والے کے سر پر بندوق رکھ کر اس کے رکشے کی چابی تک ضبط کرلی۔
چپ ایک دم۔
اس لڑکے نے غصے سے کہا۔
عشاء پیچھے خاموش بیٹھی تھی جیسے اسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ امی!!!!
اسی لڑکے نے زور سے عشاء کو بازو سے باہر کھینچا اور کب سے طاق میں کھڑی ہائی روف میں بٹھا دیا۔
چھوڑیں !!! امی بچائیں!!!
عشاء چیختی رہی چلاتی رہی لیکن وہ کوئی نشہ آور چیز اسے سنگھا چکے تھے اور وہ دھیرے دھیرے نیند کی آغوش میں چلی گئی گی۔