چلو بیٹھو سب جلدی جلدی, عارفین سب سامان رکھ لیا ہے نہ جو دیا تھا باقی میری گاڑی میں ہے۔۔ دعا ، عشاء، فیضان ،وجدان تم لوگ بیٹھو میں تائی امی کو بھی بھیجتا ہوں اگر جگہ ہے تو ورنہ میری گاڑی میں ہے ابھی جگہ۔۔
سمیر سب کی بیٹھنے کی سیٹنگ کرنے میں لگا تھا۔
سمیر بھائی آپ کو خدا کا واسطہ اماں کو یہاں نہ بھیجنا سارے سفر میں تلاوت پڑھاتے جائیں گی کوئی تفریح نہیں کرنے دینی انہوں نے۔۔
عشا نے سیما کا نام سنتے ہے برا سا منہ بنایا۔
چلو ٹھیک ہے میں ان کو ساتھ لے آؤں گا تم لوگ نکلو راستے میں ٹچ میں رہنا۔
ٹھیک ہے میں نکلتا ہوں۔
* * *
چپس ہی کھول لو بھوک لگنے لگی ہے۔
عشاء نے دعا کے بیگ سے چپس تلاش کرنا شروع کی۔۔
ہاں بس بیٹھے ہی تمہیں بھوک لگنے لگ گئی ابھی تو ناشتہ کر کے آئی ہو میں نے سی سائیڈ پر کھانے کے لئے رکھی ہے پانی سے آنے کے بعد بھوک لگے گی۔۔
دعا نے فوراً بیگ واپس کھینچ لیا تھا۔۔
دعا تمھیں نہیں پتہ کچھ لوگوں کی زندگی کا مشن صرف کھانا ہی ہوتا ہے۔
وجدان نے لقمہ دیا۔
ہاں ویسے ہی نہ جیسے کچھ لوگوں کی زندگی کا مشن صرف مفتا توڑنا ہوتا ہے۔
عشاء نے ٹکا کے جواب دیا۔
یار تو رہنے دے بدتمیز لوگوں کے منہ نہیں لگتے فیضان نے وجدان کو اپنے موبائل میں لگا لیا ۔
او بھائی بدتمیز کس کو بولا سمیر بھائی بولتے ہیں میں سب سے اچھی اور سمجھدار ہوں۔
عشاء نے اتراتے ہوئے کہا۔
ہاں ایک وہی ہیں جو تمہیں الٹی پلٹی تعریفیں کرکے چڑھاتے رہتے ہیں۔
فیضان نے چراتے ہوئے کہا۔۔
عشاء نے اپنے دماغ میں ایک شکایت نوٹ کر لی تھی جو وہ سیویو جاتے ہی سمیر سے لگانے والی تھی۔
* * *
چلو بچوں پہلے کھانا کھا لو پھر آرام سے پانی میں چلے جانا۔۔ سیما نے کھانے کے لئے دستر خوان لگا دیا تھا سب ہی ایک آواز میں دسترخوان پر آگئے۔ پانی سے تھوڑی دور ہی وہ لوگ بیٹھ گئے۔ کھانے میں قورمہ روٹی ، فروٹس اور باقی ریفریشمنٹ کی چیزیں رکھی گئی تھیں ۔۔
امی ! چچی نہیں آئیں ؟؟
عارفین تھوڑی دیر اِدھر ادھر کسی کو تلاش کرنے میں جب ناکام ہوا تو چچی کا بہانہ کرکے سیما سے پوچھنے چلایا آیا۔
نہیں!
سیما کام میں بزی تھیں اس لئے بس اتنا ہی بول پائیں ۔۔
کیوں خیریت؟؟
عارفین نے کریدنا چاہا ۔
وہ رمشا نے آنے سے انکار کر دیا تھا وہ گھر میں آرام کرنا چاہتی تھی اس نے کہا دادا بھی گھر میں ہی ہیں ان کے ساتھ رہ لے گی پھر خالد بھی کام سے گئے ہوئے ہیں وہ بھی آ جائیں گے تو وہ ان کے کھانے کا بھی کردے گی لیکن ثمرین اس ڈر سے کہ کہیں رمشا کی طبیعت خراب نہ ہو جائے اس کے ساتھ ہی رک گئیں۔۔
سیما نے ساری تفصیل عارفین کو بتا دیں۔
*میرے لیے تم کل کی مرتی آج مر جاؤ*
*میرے لیے تم کل کی مرتی آج مر جاؤ*
"آپ کی یہ خواہش بھی شاید جلد ہی پوری کر ہو جائے"
عارفین پتھر پہ بیٹھا ہوا پاؤں کو بہتے ہوئے پانی میں جھلا رہا تھا اس کا پورا دھیان ہے اس وقت صبح کی ہونے والی بات پر تھا وہ کبھی نہیں چاہتا تھا یا چاہے گا کہ رمشا کو کچھ بھی ہو لیکن جانے انجانے میں کہے گئے اس کے الفاظ رمشا کو توڑ گئے تھے۔ رمشا صبح ٹیسٹ کرانے سے پہلے پکنک کے لیے تیار تھی تو ایک دم ایسا کیا ہوا کہ وہ نہیں آئی۔ عارفین نے اس کے بھیگے ہوئے الفاظ محسوس کیے تھے وہ شاید رو رہی تھی یا آنسوؤں کو زبردستی بہنے سے روکنا چاہتی تھی۔اپنے کہے گئے الفاظ کو سوچ کر عارفین کو بھی دکھ ہونے لگا تھا وہ ابھی اس کنڈیشن میں نہیں تھی کہ اس کو ذہنی ٹینشن دی جائے اور وہ اچھے سے جانتا تھا رمشا ویسے بھی کم گو تھی اس نے آج تک کسی سے لڑائی تک نہ کی تھی ہر ایک ہی اس سے اچھا برتاؤ کیا کرتے تھے وہ خود بھی اس کا خیال رکھا کرتا تھا وہ یہ بات بھی جانتا تھا کہ رمشا کسی سے کچھ نہیں کہے گی اگر وہ چاہتی تو عارفین کی دادا سے اچھی خاصی درگت بنوا سکتی تھی لیکن رمشا نے دادا کے سامنے ہمیشہ عارفین کی تعریف ہی کی تھی جس کا وہ خود گواہ تھا ان کے معاملات کمرے کی حدود تک تھے۔ باہر وہ بات کرنے سے بچتے ہی تھے۔ عارفین کا دل پکنک میں نہیں لگ رہا تھا وہ کافی دیر ادھر ادھر کی باتوں کو سوچتا رہا۔۔
مجھے پانی سے عشق ہے عشاء۔ وہ ٹھنڈی ہوائیں بہتا پانی کتنا حسین لگتا ہے میرا بس چلے تو میں وہیں رات گزاروں ۔ اس ہوا کا لطف لیتی رہوں۔۔۔ ہائے
رمشا عشاء سے باتوں میں لگی تھی اور عارفین پاس ہی بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا ۔
لو بھئی پانی سے عشق، ٹھنڈی ہوا سے پیار۔ عارفین بھائی ایسا کریں گے اس کی شادی کہیں کلفٹن کے پاس ہی کردیں گے جب دل چاہے گا پانی اور ہوا کا لطف لینے چلی جایا کرے گی۔۔
ہاں تو کیا ہوا اچھی بات ہے کم از کم تمہاری طرف فضول سی خواہشات تو نہیں ہیں اس کی بات۔ سمجھ میں آتی ہے لوگوں کو ہوا پسند ہوتی ہے اس میں انوکھی بات تو نہیں ہے تم کیوں ہر کسی کا مذاق اڑانے پہنچ جاتی ہو چھوٹی بندری۔۔
عارفین عشاء کے کان پکڑے۔۔
ایک تو اس گھر میں ہر کسی کو میں ہی غلط لگتی ہوں ۔۔ عشاء نے منہ بنایا۔۔
ہاں لگتی ہو! چلو بھاگو چائے بناؤ میرے لیے۔
عارفین کام سے تھکا آیا تھا اور اب اسے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔۔
اسے چھوڑیں میں بناتی ہوں۔۔
رمشا یہ کہتی اٹھنے لگی
واہ نیکی اور پوچھ پوچھ ایک میرے لیے بھی۔
عشاء تھوڑا اور پسر گئی۔۔
جی اوکے جناب اور سنو بیٹھی نہ رہنا یہاں سے یہ ساری بکس سمیٹو پڑھنا تو ہے نہیں تم نے۔۔
عارفین وہاں بیٹھے پرانی باتیں یاد کرنے لگا وہ ایک سمپل سی لڑکی تھی اس کو ہوا سے عشق تھا ٹھنڈا پانی میں جانا پسند تھا تو وہ آج کیوں نہیں آئی کیوں اتنا سنہرا موقع چھوڑ دیا یہاں تو سب موجود تھے وہ مزا کرسکتی تھی۔۔
ماما مجھے کچھ کام یاد آگیا ہے میں جارہا ہوں آپ لوگوں کا جب نکلنے کا ارادہ ہو مجھے کال کر لے گا میں لینے آ جاؤں گا ۔
عارفین یہ کہتا ہوا فوراً مڑ گیا۔ سیما نے پیچھے کیا کہا اس نے دھیان نہیں دیا ابھی اس وقت عارفین کا دل گھبرا رہا تھا وہ یہاں سب کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا تھا۔۔
* * *
عارفین تم ؟؟ خیریت بیٹا سب ٹھیک ہے نا اکیلے آگئے ہو۔
ثمرین کچن میں کھڑی کچھ کام کرنے میں بزی تھی جب عارفین کو گزرتا دیکھ کر پکار اٹھیں۔
جی چچی جان سب خیریت ہے وہ مجھے آفس کا کوئی کام یاد آ گیا تھا اس لیے چلا آیا تھوڑی دیر میں جا کر لے آؤں گا سب کو ۔۔آپ بھی آرام کرتیں کیوں کچن میں لگیں ہیں چلے آئیں روم میں لیٹیں جا کے۔۔
عارفین آواز پر رکا تھا اور ثمرین کو وضاحت دے کر ان کو کمرے تک چھوڑ آیا۔۔
وہ اپنے روم میں چلا آیا لیکن وہاں رمشا موجود نہیں تھی وہ تھوڑی دیر بیٹھا اس کے آنے کا انتظار کرتا رہا لیکن جب وہ نہیں آئی تو جانتا تھا وہ اسے کہاں ملے گی۔۔
اللہ تعالی میں نے کوئی نافرمانی بھی نہیں کی ہمیشہ سب کا اچھا چاہا ہمیشہ آپ کی عبادت میں لگی رہی تو پھر کیوں آپ اپنی بندی کی اتنی بڑی آزمائش لے رہے ہیں میں کمزور ہوں مجھ سے اتنا سہا نہیں جاتا میں اور برداشت نہیں کر سکتی میرے لیے کوئی راہ نکال دے مجھے اس سے رہائی دے دیں میں آپ سے اور کچھ بھی نہیں مانگوں گی۔۔
رمشا دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے روتے ہوئے دعائیں مانگ رہی تھی اس سے بے خبر کہ عارفین اسے ڈھونڈتا ہوا اس کے پرانے کمرے میں آ گیا تھا وہ کسی سے اپنا درد نہیں کہہ سکتی تھی صرف اللہ ہی ہے جس کو وہ ہر ایک بات بتایا کرتی تھی عارفین کو اس کی دعاؤں کی آواز صاف سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن وہ رو رہی تھی وہ یہ دیکھتے ہی گھبرا گیا تھا وہ جیسا بھی تھا لیکن جب رمشا روتی تھی وہ ہمیشہ پریشان ہو جایا کرتا تھا وہ ایسا ہرگز نہیں تھا جیسا آج کل بننے کی کوشش میں لگا تھا وہ اندر سے آج بھی وہی عارفین تھا جو کسی کے آنسو پر اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جایا کرتا تھا۔۔ اس کو رمشا سے نفرت نہیں تھی لیکن اس نے رمشا کو اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا تھا جبھی اس کو دیکھتے ہی وہ آگ بگولہ ہو جایا کرتا تھا جو منہ میں آتا بول دیا کرتا تھا لیکن آج صبح رمشا کے الفاظ سے وہ ڈر گیا تھا۔ رمشا کی خاموشی نے اس کے دل کو دہلا دیا تھا اس نے جو بولا وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو۔۔
کر لیں میری شکایتیں اللہ تعالی سے؟؟؟
رمشا نے اٹھ کر جائے نماز رکھی ہی تھی جب عارفین کی آواز پر متوجہ ہوئی۔
رمشا عارفین کو دیکھ کر آنکھیں صاف کرنے لگی لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔
رکو کہاں جا رہی ہو؟؟
رمشا کمرے سے جانے لگی تھی لیکن عارفین نے دھیرے سے اس کی کلائی کو اپنی گرفت میں لے لیا۔۔
ماما کے پاس۔
رمشا نے نظریں جھکائے جواب دیا ۔
نہیں! رک جاؤ یہیں۔۔
عارفین نے التجا کی۔
ابھی تو مری بھی نہیں اتنی جلدی آگئے فاتحہ پڑھنے مجھے پتا ہے آپ کو جلدی ہے لیکن تھوڑا انتظار کر لیں اس بچے کو ہی دنیا میں آنے دیں۔
رمشا نے بھیگی آواز میں کہا عارفین کے وہ الفاظ کہیں اس کے دل کو زور سے لگ گئے تھے۔۔
اشششش اللہ نہ کرے!
عارفین کو ٹیس اٹھی جبھی بے ساختہ منہ سے نکل آیا۔
آئس کریم کھانی ہے؟؟
رمشا کی خاموشی کو دیکھ کر عارفین خود ہی آفر کر گیا ۔
نہیں !
رمشا نے اتنا ہی جواب دیا۔
کیوں تمہیں تو پسند ہے نہ یا پھر آؤ سی سائیڈ چلو دل بہل جائے گا۔
عارفین کو اللہ جانے کیا ہوا تھا وہ کیوں اتنی نرمی سے باتیں کر رہا تھا۔
مجھے کچھ نہ کھانا ہے اور نہ ہی کہیں جانا ہے اور آپ کے ساتھ تو کم از کم ہرگز نہیں آپ میرے سامنے آتے ہیں مجھے گھٹن ہونے لگتی ہے پلیز اگر آپ چاہتے ہیں میں ٹھیک رہوں اور آپ کا بچہ بھی تو میرے سامنے مت آیا کریں۔
رمشا کا درد اور تکلیف گہری تھی اتنی جلدی نہیں بھر سکتی تھی اور وہ ایسے شخص پر بھروسہ بھی کیسے کر لیتی جس نے ہر پل اسے ذلیل کیا تھا وہ اس کی گرفت سے ہاتھ چھڑا گئی گرفت اتنی ہلکی تھی یا پھر عارفین نے خود ہی ہاتھ کو دھیرے سے چھوڑ دیا۔۔
* * *
ثمرین بیٹھو بیٹا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اور خالد خود جاکر فیصل آباد بات کرو تاکہ صحیح سے بات ہو سکے ایسے فونوں پر بات صرف خراب ہی ہوتی ہے شاید کوئی راستہ نکل آئے امیر بتا نہیں رہا لیکن وہ اداس ہے۔۔
دادا جان نے ثمرین کو بلا کر اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا وہ چاہتے تھے سمیر کے لئے کچھ اچھا ہو جائے۔
جی اباجان خالد کے آنے کے بعد ان سے بات کرتی ہوں آپ فکر نہ کریں اللہ نے چاہا تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا ورنہ اللہ ہمارے سمیر کے حق میں بہتر کرے۔
ثمرین ہاشم صاحب کو کھانا دینے آئی تھیں جب انہوں نے سمیر کے متعلق ان سے بات کی۔
* * *
یار ٹائم کتنی جلدی گزر گیا پتا ہی نہیں چلا ابھی تو آئے تھے ہم اور اب مغرب بھی ہونے لگی ہے۔۔
عشاء موج مستی کر کے تھک چکی تھی اور اب سب مل کر سامان کو سمیٹ رہے تھے۔
ہاں یار ویسے ٹائم کا سچ میں پتا نہیں لگا۔ چلو خیر ہے کبھی میں اور فیضان نکلے گا تمہیں اور دعا کو بھی ساتھ لے لیں گے۔۔
وجدان کے یہ کہنے پر عشاء خوش ہو گئی تھی۔۔
واہ کاکروچ کیا بات کر دی دل خوش کردیا۔
عشاء کی زبان پھسل گئی تھی اور محسوس کرکے اس نے فوراً زبان دانتوں تلے دبا لی۔
ماشااللہ میرے ناموں میں اضافہ ہورہا ہے۔ وجدان نے غصہ نہیں کیا بلکہ اس کی بات پر مسکرا گیا تھا۔
تمہیں ابھی پتا نہیں کن حسین ناموں سے یہ میڈم تمہیں یاد کرتی رہتی ہیں۔۔
دعا نے بھی لقمہ دیا۔
اچھا چلو خیر ہے اسی طرح خوش رہتی ہے مجھے تو لڑنا ویسے بھی نہیں آتا۔
وجدان تو تھا ہی صدا کا معصوم۔
میرے چیلے بن جاؤ تمہیں ہر طرح سے لڑنا سکھا دوں گی۔
عشاء نے ہنس کر بیک کی زب بند کر دی وہ لوگ اب عارفین کا انتظار کر رہے تھے وہی تھا جس کے ساتھ انہوں نے واپس آنا تھا لیکن وہ اب تک واپس نہیں آیا تھا۔
* * *
عنیزہ!
عارفین واپس جا رہا تھا تاکہ ان لوگوں کو گھر لا سکے لیکن اسکرین پر عنیزہ کا نمبر دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے اس کی سانسیں ضروری رکی تھیں اس کے ذہن میں مال والی تصویر آ گئی تھی۔
ہیلو؟
نہ چاہتے ہوئے بھی عارفین نے فون اٹھا لیا کچھ سوال تھے جو وہ اس سے کرنا چاہتا تھا۔
عارفین کیسے ہو؟؟ عنیزہ نے نارمل بات شروع کی۔
تم سے مطلب؟ عارفین نے غصے سے جواب دیا ۔
عارفین مجھے معاف کر دو میں تمہیں ہر بات بتانا چاہتی ہوں مجھے پتا ہے میں بھٹک گئی تھی عارفین میں نے تمہارے کراچی آنے سے پہلے ہی اپنے باس سے شادی کرلی تھی لیکن تمہیں بتانے سے ڈر رہی تھی لیکن جب تم نے مجھے بتایا کہ تم رمشا سے شادی کر رہے ہو تو میری مشکل آسان ہوگئی عارفین میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا تمہیں دھوکا دیا اس لیے میرے ساتھ بھی برا ہوا میں پیسوں کی لالچ میں آگئی تھی ۔ جب ہی ان کی باتوں میں آ گئی لیکن وہ اچھے نہیں تھے انہوں نے ایسے بہت لڑکیوں کو گھیرا تھا اور اپنے من بھر جانے پر مجھے چھوڑ دیا مجھے معاف کر دو پلیز۔
عنیزہ رو رہی تھی اپنی کہانی اسے سنا رہی تھی عارفین کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا وہ الجھنے لگا بے چین ہونے لگا۔
عارفین بولو نا کچھ تم مجھے معاف کر دو گے نا میں تمہاری عنیزہ ہوں۔میں تمہاری زندگی میں واپس آنا چاہتی ہوں اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے تمہاری ہر ناراضگی سہنے کے لیے تیار ہوں پلیز عارفین ۔۔
عارفین کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اس نے کال کاٹ دی اس کا دل گھبرانے لگا ،سر تھا کہ گول گول گھوم رہا تھا اور وہ اسٹیرنگ پر قابو نہ رکھ سکا اور تیز چلتی گاڑی سامنے فٹ پاتھ سے جا لگی