آج فارس اور شانزے کا ولیمہ ہے شادی میں صرف سمیر ہی گیا تھا کیونکہ دادا کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور رمشا بھی تھوڑی نڈھال تھی اس لیے کسی کا بھی جانے کا دل نہیں کیا لیکن آج پورا گھر ولیمہ میں آیا تھا دادا بھی بچوں کے بہت کہنے پر آنے کے لیے تیار ہوگئے تھے باقی سارے بڑے بھی ولیمے کی تقریب کا حصہ بنے تھے۔ شانزے نے لائٹ پرپل اور سلور کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی اور اس پر سلور اور پرپل کلر کی میچنگ کی ہی جیولری اس کا اوور آل لک کو اور خوبصورت بنا رہی تھی۔۔ رمشا نے بے بی پنک کلر کی فراک پہنی تھی اور جیولری کے طور پر چھوٹے چھوٹے جھمکے پہن لیے تھے۔۔ عشاء نے بلیک جبکہ دعا نے فیروزی کلر کی میکسی پہنی تھی اور اس پر میچنگ کے سیٹ پہنے۔۔ عارفین سمیر اور فیضان تینوں نے ہی تھری پیس سوٹ زیب تن کیا تھا ہر کوئی انتہائی دلکش لگ رہا تھا۔فارس اور شانزے ٹیبل ٹیبل جا کر ہر ایک کو ویلکم کر رہے تھے۔۔۔
دادا جان میں کیسی لگ رہی ہوں؟عشاء نے کھڑے ہو کر اپنی میکسی کو پکڑ کر دکھایا۔
میری شہزادی تو ہمیشہ ہی خوبصورت لگتی ہے یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھلا۔
تھینکس دادا ابو! آئیں سیلفی لیتے ہیں۔ اسٹیٹس لگاؤں گی۔ "Selfie with Dada Abu"
عشاء کی اس بات پر وہاں بیٹھا ہر کوئی مسکرا گیا تھا.
ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور لو۔
دادا تو جیسے تیار بیٹھے تھے کہ کوئی بس ان سے پوچھ لے۔۔
واہ دادا جان کیا پک آئی ہے ایف بی پر تو آج لائکس کی بوچھاڑ ہو جائے گی۔۔
عشاء پک کو دیکھ کر تقریباً خوشی سے اچھل ہی گئی تھی۔
تم ذرا آرام سے بیٹھو ہر کوئی دیکھ رہا ہے
سیما نے آنکھیں دیکھا کر عشاء کو سکون سے بیٹھنے کا کہا..
ویسے داداجان اماں کو اگر گھر چھوڑ آتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا تھوڑا سکون سے انجوائے ہو جاتا۔۔۔
عشاء دادا کے قریب ہو کر کان میں بولنے لگی جس پر دادا بھی ہنس دیے۔
ارے میرے دونوں بچوں کی تو کوئی تصویر بناؤ کس قدر خوبصورت لگ رہے ہیں ۔
دادا نے عارفین اور رمشا کی طرف اشارہ کر کے کہا جس پر رمشا کو تو 440 وولٹ کا جھٹکا لگ گیا تھا وہ عارفین سے تین چئیرز چھوڑ کر بیٹھی ہوئی تھی لیکن دادا کو تو پھر بھی انکو ساتھ ہی بٹھانا تھا۔۔
دادا جان بعد میں لے لیں گے۔
عارفین نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
ارے بعد کس نے دیکھی ابھی کھانا شروع ہو جائے گا پھر جانے کی جلدی ہوگی کہاں ایسی پیاری تصویر آ پائے گی۔۔ اٹھ بھی جاؤ تم فیضان کیا ایلفی لگا لی ہے عارفین کو آنے دو۔
دادا نے موبائل میں گھسے فیضان کو ڈانٹ کر کہا۔
جی دادا ہٹ گیا میں۔
فیضان نے فوراً جگہ چھوڑ دی۔
اس کو بھی بڑی جلدی تھی اٹھنے کی۔
رمشا نے دل ہی دل میں کہا۔
ہاں اب لگ رہے ہیں نہ ساتھ ایک دم پیارے پیارے اللہ نظر سے بچائے۔۔ سیما ،ثمرین بیٹا گھر جا کے دونوں کی نظر اتار دینا۔ ایک تو ویسے اتنے پیارے ہیں میرے دونوں بچے پھر ساتھ بیٹھ جائیں تو جوڑی ہی لاجواب ہو جاتی ہے میری ہی نظر نہ لگ جائے دونوں کو ماشااللہ۔۔۔
دادا کی تو جیسے جان بستی تھی دونوں میں وہ ہر ایک سے ہی یکساں پیار کرتے تھے لیکن جہاں بات آتی تھی رمشا اور عارفین کی تو وہاں دادا کا پیار چار گنا ہو جاتا تھا۔
جی دادا جان دس پکس لے لی ہیں رمشا بھابھی کو سینڈ بھی کردوں گی۔۔
عشاء نے آنکھ مار کر رمشا کو دیکھا۔
رمشا کا دل کیا ایک زور کا لگائے یہ بھابھی لفظ جیسے پتھر کی طرح اس کے دل پر لگا تھا لیکن بیچاری مسکرانے پر مجبور تھی۔
فیضان یہاں تو موبائل کی جان چھوڑ دو سب بیٹھے ہیں باتیں کرو بیٹا۔۔
جی پاپا!
فیضان بھی فرمانبردار تھا لیکن وہ باقیوں کی طرح زیادہ بڑوں میں بیٹھا نہیں کرتا تھا اس کی عمر ابھی ٹین ایج کی تھی جب لڑکے دوستوں میں تھوڑا زیادہ رہنا پسند کرتے ہیں وہ دوستوں میں پایا جاتا تھا یا تو وجدان کے گھر یہی کچھ لوگ تھے جن سے اس کی زیادہ بنتی تھی۔۔
پڑھائی کیسی جا رہی ہے بیٹا؟؟
دادا کے اس سوال کی ٹائمنگ تھوڑی خراب تھی وہ لوگ ولیمے میں انجوائے کرنے آئے تھے اللہ جانے ان کو پڑھائی کہاں سے یاد آگئی تھی۔
جی دادا میں اور وجدان ساتھ ہی تیاری کر رہے ہیں۔
فیضان نے عاجزی سے جواب دیا.
وجدان کے ساتھ پڑھنا تو ایسا ہوا ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔ نہ پڑھا کرو اس کے ساتھ اس سے اچھا میں تمہیں پڑھا دوں گی۔
عشاء کو تو جیسے عادت سی پڑ گئی تھی اپنی بےعزتی کرانے کی۔
تم میٹرک میں کتنی بار فیل ہوئیں تھیں ؟
فیضان نے آنکھیں گھما کر سوال پوچھا تھا.
تم سے مطلب؟
عشاء نے ناک چڑھا کر کہا۔
تو تم سے بھی مطلب میں جس کے ساتھ پڑھوں! فیضان نے بھی غصے سے جواب دیا.
یہاں بھی شروع ہو جاؤ دونوں بڑوں کا بھی ذرا احساس نہیں اب آواز نہ آئے۔
عارفین نے ڈانٹ کر دونوں کو چپ کرا دیا۔
واہ دیکھو تو سہی بڑوں کا احساس انہیں تو جیسے بہت ہے۔
رمشا دل میں سوچ کر طنزیہ ہنسی۔
بھائی آپ اس کو تو دیکھتے ہی نہیں ہے۔
عشاء نے فوراً رونے والی شکل بنا لی تھی ۔
سنا نہیں میں نے دونوں کا نام لیا ہے لکھ کر دوں اب؟
عارفین نے تھوڑی اور آنکھیں دکھائیں۔
ہاں آپ کو تو عادت ہوگئی ہے کہیں کا غصہ کہیں نکالنے کی۔
عشاء یہ کہتی اٹھ گئی اور سمیر کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی ۔
سمیر بھائی؟؟
جی ہاں!
آپ نے کہا تھا نہ کوئی کچھ بولے آپ کو بتا دوں؟
عشاء کی آنکھوں میں ہلکا سا پانی بھر آیا تھا۔
ہاں جی بالکل کہا تھا کس نے کچھ کہا میری گڑیا کو؟
سمیر اس کے معصوم چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا۔
عارفین بھائی نے مجھے سب کے سامنے اتنی زور کا ڈانٹا ، فیضان بھی ہلکا ہلکا ہنس رہا تھا اب وہ جاکر وجدان کو بھی بتائے گا اور سب مل کر میرا بنائیں گے۔
عشاء کا واحد ڈر تو یہی تھا کہ کہیں فیضان اس ڈانٹ کے بارے میں وجدان کو نہ بتا دیں اور اس کا مذاق نہ بن جائے۔
میں پوچھوں گا عارفین کو اچھے سے اور کسی کی ہمت کہ میری گڑیا کو کچھ ہے میں فیضان اور وجدان کی بھی دھلائی کر دوں گا بس مجھے بتا دینا اگر کچھ کہیں تو۔
سمیر نے اس کی آنکھوں سے آتا ہوا وہ ایک آنسو بھی اپنی انگلی کی پور سے چن لیا تھا۔
جی ٹھیک ہے میں فوراً بھاگ کر آ کے آپ کو بتا دوں گی۔
عشاء مسکرا گئی وہ جلدی ہی ٹھیک ہو جایا کرتی تھی کوئی پیار اور محبت سے بس سمجھا دے اور سمیر اس کو ہینڈل کرنا اچھے سے جانتا تھا۔
* * *
چلیں کھانا شروع کریں۔ دادا جان اچھے سے کھائےگا پلیز۔ آپ آئے ہمیں بہت اچھا لگا۔۔ فارس ان کی ٹیبل پر آ گیا تھا۔
بیٹا تمہیں بھی بہت مبارک ہو ماشاء اللہ بہت اچھا فنکشن ہے اور کھانا بھی لاجواب کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
دادا نے پیار سے فارس کے کندھے پر ہاتھ پھیرا ۔
کھانے میں بیف بریانی, وائٹ کڑھائی ،تکے، چپلی کباب ،میٹھے میں آئسکریم ،ڈبل کا میٹھا اور ٹرائفل تھا سب نے دل کھول کر کھانے سے انصاف کیا ہر ایک چیز اپنے آپ میں لاجواب تھی فارس کنجوس نے دل کھول کر اپنے ولیمے پر خرچہ کیا تھا۔
دادا واپسی میں سیویو پڑے گا ہم تھوڑی دیر وہاں رکھیں گے پلیز۔
عشاء کی ہر بات ہی بنا سر پیر والی ہوتی تھی۔
بہن میں ان بھاری کپڑوں سے جلد از جلد نجات حاصل کرنا چاہتی ہوں ابھی کہیں نہیں جانا۔
دعا نے گرمی اور الجھن کے مارے بال بھی باندھ لئے تھے۔
ہاں ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے کل سنڈے ہے لڑکوں کو منا لو اور گھوم آؤ کہیں۔
دادا نے بھی عشاء کا لٹکتا منہ دیکھ کر کل کی پکنک کا اعلان کر دیا تھا۔
* * *
بھائی مجھے کھانے کے لئے بہت ساری چیزیں چاہییں !
دعاء عارفین کو باہر جاتا دیکھ کر ایک دم پکاڑ گئی۔
او کے لے آؤں گا تم لوگ تیاری پکڑو۔
عارفین رکو باہر جا ہی رہے ہو تو رمشا کو ساتھ لے جاؤ وہ ٹیسٹ کرا لے گی ورنہ ثمرین کو اسپیشلی جانا پڑے گا ۔بلڈ ٹیسٹ ہی تو ہیں فوراً ہی ہو جائیں گے ۔جاؤ میرا بچہ۔۔
سیما نے تو جیسے تہیہ ہی کر لیا تھا کہ عارفین کو کہیں اکیلے نہیں جانے دیں گی۔
اچھا میں باہر کھڑا ہوں آپ بھیج دیں اسے
عارفین یہ کہتا گاڑی کی طرف چل دیا۔
رمشا خاموشی سے آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی پورا راستہ وہ دونوں کچھ بھی نہ بولے۔ عارفین بھی رمشا کی اس رات والی حرکت سے غصہ تھا اور رمشا تو خیر اب اس سے کلام کرنا ہی نہیں چاہتی تھی ۔
پرچی بنوا لی ہے دوسرا نمبر تمہارا ہے آواز دیں گے چلی جانا.۔
خاموشی سے سفر کٹ گیا تھا اور اب وہ لیب میں بیٹھے اپنے نمبر کا انتظار کر رہے تھے ۔
رمشا عارفین!!
رمشا تھوڑی دیر چونک سی گئی ہاں اب تو وہ رمشا عارفین تھی۔ رمشا خالد نہیں لیکن یہ نام عارفین نے خود لکھایا تھا یہ اس کے سمجھ میں نہیں آئی شاید غلطی سے لکھوا دیا ہو وہ کوئی بھی غلط فہمی دل میں نہیں پالنا چاہتی تھی۔
عارفین مجھے انجکشن سے ڈر لگتا ہے اور وہ خون اسی سے نکال رہے ہیں۔
رمشا گھبرانے لگی تھی۔
تو؟ تم کوئی چھوٹی بچی ہو۔
عارفین یہ کہتا موبائل میں واپس غرق ہو گیا۔۔
میں نے جبھی کہا تھا ماما کے ساتھ جاؤں گی مجھے پہلے پتا تھا آپ نے کوئی ہیلپ نہیں کرنی۔۔ مجھے نہیں ٹیسٹ کرانا آپ واپس چلیں۔
رمشا نے غصے سے آنکھیں چڑھائیں ۔۔
ہاں تاکہ اماں کل کو واپس میری دوڑ لگائیں چلو شرافت سے۔
عارفین اسے لئے کاؤنٹر تک چلا گیا۔
ہاتھ آگے لائیں!
رمشا تھوڑی دیر تک کمپاؤڈر کو دیکھتی رہی لیکن عارفین کے ڈر سے ہاتھ آگے کر دیا۔
امی!!
رمشا نے چلا کر زور سے برابر کھڑے عارفین کا ہاتھ دبا دیا اور اتنی ہی گرفت سے تب تک پکڑے رہی جب تک کمپاؤنڈر نے دو تین بھر کر خون نا نکال لیا۔
بس اب چھوڑ بھی دو اپنے ناخن تک میرے ہاتھ میں گڑا دیے ہیں تم نے۔
وہ خون نکال چکا تھا لیکن رمشا پھر بھی آنکھیں بند کئے عارفین کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی۔
سوری!!
رمشا نے ڈر کے عارفین کو اپنی ہاتھ کی گرفت سے آزاد کردیا۔۔۔
* * *
ہاتھ ہی زخمی کردیا میں بھی کوئی اینٹی سیپٹک انجکشن لگا لیتا۔
رمشا اور عارفین پکنک کے لیے سامان لے کر اب گھر کی طرف جا رہے تھے جب عارفین کو ہاتھ میں جلن سی محسوس ہونے لگی
میں نے آپ کو نہیں کہا تھا مجھے لے کر جائیں اب کیوں آپ کے منہ سے نہ نہیں نکلا اپنی امی کے سامنے مجھ سے چاہتے ہیں میں سب کے سامنے بری بنوں اور آپ اچھے رہیِں سب کے فرمانبردار۔
رمشا عاجز آ چکی تھی عارفین ہر پل ہر چیز کا ذمہ دار اسی کو ٹہراتا تھا۔
تم سمجھتی کیا ہو خود کو ماں کیا بن رہی ہو پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے کوئی انوکھا کام نہیں کر رہی بہت سی لڑکیاں بنتی ہیں۔ میں جو اتنا کچھ کر رہا ہوں وہ اپنے بچے کے لیے ہی کر رہا ہوں میری ماں کو بڑے ارمان ہیں میرا بچہ دیکھنے کے ورنہ میرے لیے تم کل کی مرتی آج مر جاؤ۔
عارفین نے آج تو حد ہی کر دی تھی رمشا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہنے کو وہ بس وہ نفرت محسوس کر گئی تھی جو عارفین کے ایک ایک لفظ میں تھی جانتی تھی وہ اس کو پسند نہیں کرتا لیکن رمشا نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا کہ اس سے اس قدر شدت سے نفرت کی جائے اس کو اتنا حقیر سمجھا جائے کہ وہ خود زندگی کو ہار جائے۔
آپ کی یہ خواہش بھی شاید جلدی پوری ہو جائے!
رمشا کے الفاظ اتنے بھیگے ہوئے تھے کہ عارفین نے بھی مڑ کر اس کے چہرے کو بغور دیکھا وہ رو رہی تھی یا نہیں پتہ نہیں لیکن اس نے نظریں گود میں جمائی ہوئی تھیں اور پورے راستے پلکیں تک نہ اٹھائیں۔