عارفین رمشا کو بے سدھ پڑا دیکھ کر گھبرا گیا تھا اور ایک سیکنڈ کے اندر بیگ چھوڑ کر اسے اپنی باہوں میں لے کر بھاگا ۔ اندر لے جانے تک وہ مسلسل اسے آواز دینے میں لگا تھا وہ اس کے ہاتھوں میں بے ہوش پڑی تھی۔
ماما دیکھیں رمشا بے ہوش ہو گئی ہے۔
عارفین رمشا کو اپنے روم میں لیٹا کر فوراً سیما کے پاس ان کو بلانے چلا گیا ۔
اچھا چلو جلدی اور ڈاکٹر کو بھی فون کر دو ۔۔سیما بھی گھبرا گئی تھیں رمشا کو خاص توجہ کی ضرورت تھی چھوٹی عمر میں وہ اس ذمہ داری کو نہیں سنبھال پا رہی تھی۔۔
ڈاکٹر نے آ کر اس کو آرام اور سکون کا انجکشن لگا دیا تھا وہ اب بہتر تھی لیکن ہوش ابھی بھی نہیں آیا۔۔ ڈاکٹر کچھ میڈیسن اور پراپر چیک اپ کے لیے ہسپتال جانے کا مشورہ دے کر چلی گئی تھی ۔
سیما نے عارفین کو رمشا کے پریگنینٹ ہونے کی خوشخبری دے دی تھی عارفین کا ری ایکشن سپاٹ تھا ۔عارفین نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا تھا بس اچھا کہہ کر روم سے نکل گیا ۔۔ رمشا عارفین کی محبت نہیں تھی اور نہ اس کے دل میں رمشا کے لئے کوئی نرم گوشہ تھا وہ صرف اس کی کزن تھی اور وہ اس کا خیال رکھتا تھا لیکن اب صورتحال بدل چکی تھی کمرے میں لیٹی وہ لڑکی اس کی ہمسفر تھی جو عنقریب اس کے بچے کی ماں بھی بننے والی تھی لیکن پھر بھی وہ اس کے لیے فیلنگز پیدا نہیں کر پا رہا تھا۔ اتنا بھی آسان نہیں ہوتا کسی سے دھوکہ کھا کر کسی دوسرے پر یقین کر لینا لیکن یہ کوئی دوسری لڑکی نہیں تھی یہ اس کی بیوی تھی اور اس سے انتہا سے زیادہ محبت کرتی تھی جس سے بے خبر یہ اپنی انا اور اپنے غصے کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس لڑکی کے ارمانوں کے پرخچے اڑا چکا تھا۔
دادا جان سے مل کر نہانے کے غرض سے وہ واپس روم میں آگیا تھا اب کی بار اس کی نظر نیم بے ہوشی میں لیٹی رمشا پر ٹھہر سی گئی تھی۔۔۔ اس نے بلیک کلر کی کھلی فراک پہنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ نازک سی گڑیا ابھی تھوڑی موٹی معلوم ہو رہی تھی ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں اس کے دودھ سے گورے ہاتھوں کو اور نمایاں کر رہی تھیں کان پر جاکر عارفین نے بغور اس کے ٹاپس دیکھے تھے یہ وہی سیٹ کے ٹوپس تھے جو اس نے فیصل آباد میں رمشا کو گفٹ کیے تھے وہ لڑکی اس کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔۔لیلن انا ؟؟؟ انا کہاں کسی کے سامنے اتنی جلدی جھکنے دیتی ہے ۔۔۔ عارفین کے اندر بھی غصے اور انا کی آگ گرم تھی وہ جانے کیوں رمشا کو ہی اس سب کا ذمہ دار سمجھتا تھا نہ وہ اس کے اور عنیزہ کے بیچ آتی اور نہ ہی بات بگرتی۔۔ لوگ بھی کتنے بے وقوف ہوتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی چیزوں کو جھٹلانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں جبکہ ایک ایک چیز واضح ان کے سامنے کھلی پڑی ہوتی ہے۔۔
پانی!!
عارفین اپنی ہی سوچوں میں تھا جب رمشا نے پانی مانگنے کے لیے ہلکی سی آواز نکالی وہ فورا اس کے پاس چلا آیا لیکن اس کے روم میں کوئی پانی کی بوتل موجود نہیں تھی وہ بھاگا ہوا باہر گیا اور گلاس اور بوتل لے کر روم میں واپس آگیا رمشا خود اٹھ نہیں سکتی تھی۔ عارفین تھوڑی دیر اس کو دیکھتا رہا پھر نہ چاہتے ہوئے بھی سہارا دے کر اس کو بٹھا دیا گلاس میں پانی بھر کر اس کے لبوں سے لگایا بمشکل دو گھونٹ ہی رمشا نے پانی پیا تھا اور تھوڑا ہوش میں آ کر پانی پلانے والے کو دیکھنے لگی۔۔ رمشا کے دل میں ٹیس سی اٹھی وہ عارفین کو اپنے قریب محسوس کر کے جلنے لگی تھی ۔۔۔ اسے عارفین فراز سے نفرت تھی یہ اس کا خود کا کہنا تھا۔ رمشا نے ڈوپٹے کو توڑا پھیلا کر اپنے پورے وجود پر لے لیا اور بیڈ سے اٹھنے لگی وہ اس کے کمرے میں اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس کرتی تھی۔۔
کہاں جا رہی ہو؟
عارفین نے رمشا کے بازو کو دھیرے سے اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا تھا اس حالت میں وہ اپنے غصے پر قابو رکھا ہوا تھا۔
اپنے روم میں!
رمشا نے منہ پھیر کر کہا۔
ویسے تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہی تمہارا روم ہے مجھے تو کم از کم یہی علم ہے اور سن لو تم یہیں رہوں گی اور یہ میرا حکم ہے۔۔
عارفین یہ کہتا واش روم میں گھس گیا اور پیچھے رمشا غصے کے مارے مکا گدے پر مار گئی۔
پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں خود کو کوئی کراچی کے راجکمار۔۔ جو دل میں آتا ہے غصے والی آنکھوں اور رعب دار لہجے میں فرما کر نکل جاتے ہیں اور میں بس دیکھتی رہ جاتی ہوں ۔ پتا نہیں کیوں ان کی طرح غصے میں ان سے بات نہیں کر پاتی ہاں نہیں تو۔۔ رمشا غصہ میں منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی تھی اور سونے کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔۔
* * *
السلام علیکم !!کیسی ہو؟؟؟
وعلیکم السلام ! میں ٹھیک ہوں ۔
سمیر نے آج وہ نمبر ملا ہی دیا تھا جسے کھولے وہ رات رات تک صرف دیکھتا رہتا تھا لیکن اس نمبر پر کال کرنے کی ہمت نہیں جتا پا رہا تھا۔
کیا کر رہی تھیں ؟؟
ویسے وقت کیسے بدل جاتا ہے نہ ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے جب آپ کے پاس باتیں ہزار ہوتی ہیں کہ کرنے کو وقت کم پڑ جاتا ہے لیکن وہ باتیں پھر بھی ادھوری رہ جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جہاں الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں پھر بات شروع کرنے کا سرا ہی نہیں ملا کرتا پھر آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ بات کریں بھی تو کیا۔۔ سمیر دوسرے وقت میں قدم رکھ چکا تھا وہ بات کر ہی نہیں پا رہا تھا ایک تو ویسے ہی کنزہ کے سامنے پزل ہو جایا کرتا تھا اور اب تو بات ہی خیر کچھ اور تھی۔۔
اپنے نکاح کی تیاری!!
کیا تھا اگر یہ بولتے ہوئے تھوڑی تمہید ہی باندھ لیتی۔ تھوڑا سا سمیر کا بھی خیال کر لیتی لیکن وہ ہمت والی لڑکی نے بس بول دیا زبان تھی جو لڑکھرائی تھی لیکن وہ بول گئی تھی اور یہاں سمیر کا دل کسی نے زور سے مٹھی میں بھر لیا تھا۔۔
مبارک ہو بہت بہت!!
سمیر بس یہی کہ پایا تھا کیونکہ جانتا تھا کہ اس کے پیچھے سارا قصور صرف اسی کا تھا کنزہ تو فضول میں جھڑی کے نیچے آگئی تھی۔۔
سمیر میں مر جاؤں گی!
کنزہ کا گلا بھرنے لگا اور آنسوؤں کا ریلا تھا جو باہر آنے کو بے تاب تھا۔
اشششش !!ایسا نہیں کہتے شہروز اچھا لڑکا ہے تمہیں خوش رکھے گا.
کنزہ کی شادی اس کے پھوپھی زاد بھائی سے طے پائی تھی یہی لوگ تھے جو ذیشان کو اور آگ لگا رہے تھے کیونکہ اس کی پھپھو کی نظر پہلے سے ہی کنزہ پڑ تھی وہ اپنے بیٹے کے لئے اس کو پسند کیے بیٹھی تھیں انہوں نے بات کو اور طول دینا شروع کر دیا اور بات اتنی آگے بڑھ گئی کہ رشتہ ٹوٹنے پر آ گئی تھی تب سمیر نے ہی پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔
سمیر وہ تم تو نہیں ہو گے نہ۔
کنزہ باقاعدہ آواز سے رونے لگی تھی۔۔ سمیر کا دل کٹنے لگا وہ کنزہ کو روتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا تھا لیکن مجبور تھا وہ فضا سے وعدہ کر بیٹھا تھا جن دنوں یہ بات زیادہ گرم تھی اس دن فضا نے سمیر سے کانٹیکٹ کیا تھا۔۔
سمیر تم ہو جو مجھے میرے رشتے چھوٹنے سے بچا سکتے ہو تمہیں کوئی لڑکی مل جائے گی اور شاید کنزہ سے بھی زیادہ اچھی لیکن مجھے میرے رشتہ دار میرا میکہ ، میرے کزنز واپس نہیں مل پائیں گے اگر تم کوئی واویلا کرتے ہو یا نانا یہاں کوئی بات کرتے ہیں تو ان لوگوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ وہ کراچی جانے پر پابندی لگا دیں گے ۔۔ پلیز تم یہ بات یہیں چھوڑ دو اور نانا کو بھی اپنے طریقے سے سمجھا دو تمہاری بہن کی منت ہے تم سے۔
فضا اس رات زاروقطار رو رہی تھیں وہ بھی چاہتی تھیں کہ سمیر کے ساتھ کنزہ کی شادی کرا دیں۔ لیکن پیچھے سے پریشر اس کا قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ بھی ہار مان چکی تھیں۔
جی فضا آپی میں ہر بات اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہوں۔ میں دادا جان کو بھی سمجھا دوں گا بس آپ کنزہ کا خیال رکھیے گا۔
وہ رات تھی جب سمیر نے فیصلہ لے لیا تھا وہ پیچھے ہٹنے کے لئے تیار ہو گیا ۔ وہ مجرم بننے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔۔ وہ کنزہ کے سامنے اپنے ڈرپوک ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے تیار تھا وہ اپنی محبت کی وجہ سے پورے خاندان کو ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتا تھا سمیر نے ہار مان لی تھی سمیر نے اپنی محبت بڑوں کی عزت کی خاطر قربان کردی تھی کیا ہوتا اگر تھوڑا بڑے بچوں کو بھی سمجھ لیتے۔ آخر کب تک یہی سلسلہ چلتا رہے گا کہ نکاح کی خواہش رکھنے والے لوگ بھی اس طرح اپنی محبت کو ہارتے ہوئے دیکھتے رہیں گے۔۔ سمیر نے دل کھول کر آنسو بہا لیے تھے کہ اب بہانے کو آنکھیں خشک تھیں ۔ درد تھا جو دل میں کہیں جما سا ہو رہا تھا۔۔ وہ کنزہ کے آنسوؤں کو پوچھنا چاہتا تھا لیکن اب بیچ میں کافی فاصلہ چکا تھا۔۔
چپ کیوں ہو؟؟ سمیر تم مجھے لینے نہیں آسکتے ؟؟ سمیر لے جاؤ مجھے پلیز۔۔۔ میں ایسے بندے سے کیسے شادی کر لو جو میری پہلی محبت کے بارے میں سب جانتا ہو وہ کیوں میری عزت کرے گا؟؟؟ میں اس کے طعنے نہیں سننا چاہتی۔۔
کنزہ ڈر رہی تھی ہاں کنزہ ذیشان ڈر رہی تھی جس کے سامنے سمیر جیسا لمبا چوڑا آدمی بولنے سے پہلے کئی دفعہ سوچتا تھا وہ کافی بولڈ اور کانفیڈینٹ تھی لیکن اب وہ ہار ماننے لگی تھی۔
کنزہ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں میں کچھ نہیں کر سکوں گا میرے لیے تم بڑوں کی بات مان لو نا۔ اللہ نے چاہا تو تمہارے حق میں بہتر ہی ہوگا۔
سمیر کے آنسو بہنے لگے تھے اس کا دل چاہا وہ کسی ندی میں چھلانگ لگا لے۔ اتنا بے بس تو زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا لیکن آج بولنے کو کچھ نہیں بچا تھا وہ کنزہ سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا لیکن کنزہ نے جواب میں کچھ نہیں کہا اور کہنے کو بچا بھی کیا تھا۔ وہ چپ ہو گئی تھوڑی دیر دونوں ایک دوسرے کی رونے کی آوازیں سنتے رہے اور بالآخر کنزہ نے کال کاٹنے میں پہل کی۔
* * *
جلدی تیاری شروع کرو شانزے آپی کے نکاح میں بھی جانا ہے۔
عشاء نے دعا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا شانزے کا ان کے گھر آنا جانا کافی تھا اور وہ ویسے بھی پورے گھر کو انوائٹ کر کے گئی تھی اس لئے سب ہی جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔
ہاں ہاں بس میں نے کپڑے نکال لیئے ہیں رمشا سے تو پوچھو وہ جائے گی یا نہیں شاید آج بھی اس کی طبیعت سیٹ نہیں ہے۔
دعا کپڑے نکال کر اب جیولری وغیرہ نکالنے میں بزی تھی جب اسے رمشا کا خیال آیا۔
چلو میں ماما سے پوچھ کر آتی ہوں تم تیاری پکڑو کبھی بھی سمیر بھائی چلو چلو کا نعرہ لگا دیں گے پھر ہربڑی میں تیار نہیں ہوا جاتا۔۔
* * *
ماما میرا موڈ نہیں ہو رہا وہاں اگر طبیعت خراب ہوئی تو سب پریشان ہوں گے ۔۔باقی فنکشنز بھی تو ہیں میں ان میں سے کسی میں چلی جاؤں گی۔۔
رمشا بیزار سی کچن میں کھڑی ثمرین سے باتوں میں لگی تھی۔۔
ارے ہاں اب تو عارفین بھی آگیا ہے وہ لے جائے گا تم تیار ہو بس ایسے گھر میں رہو گی تو اور طبیعت خراب ہو جائے گی میں خود عارفین سے کہتی ہوں کہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر جائے۔۔ بچیوں کو سمیر کے ساتھ جانے دو تم جاکے آرام سے تیار ہو جاؤ۔
سیما تو یہ کہتی کچن سے نکل گئیں ۔ لیکن عارفین کا نام سن کر رمشا کا حلق تک کڑوا ہو گیا لیکن وہ اپنی نفرت کو ثمرین اور سیما کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔
* * *
یہ میرا حکم ہے بہت چلا لی تم نے اپنی تمہارا فیصلہ تھا رمشا کو رخصت کرانے کا اب وہ تمہاری ذمہ داری ہے اس کی حالت پر رحم کھاؤ کس قدر کمزور ہو گئی ہے کیسے تمہارے بچے کو جنم دے پائے گی ۔۔۔اس کو گھماؤ ، کھلاؤ اس کا ہر طرح سے خیال رکھو اور یہ تم اس پر احسان نہیں کروں گے یہ تمہارا فرض ہے۔۔
سیما نے عارفین کو آڑے ہاتھوں لے لیا تھا۔۔
میں تھکا ہوا آیا ہوں اور کوئی آرام بھی نہیں کیا آپ کی بہو بیگم نے آتے ہی تو خدمتیں کرانا شروع کردی تھیں اور کیا چاہتی ہیں آپ اس کے پاؤں دھو دھو کر پیوں؟؟
عارفین بیڈ پر لیٹا سونے کی تیاری کر رہا تھا جب سیما نے آ کر اس پر حکم جاری کردیا۔۔
جو میں کہہ رہی ہوں بس وہ کرو شانزے اس کی دوست ہے اس طرح رمشا کی طبیعت بھی تھوڑی بہل جائے گی ۔چلو شاباش تیار ہوگا
* * *
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی بالوں کو اچھا سا ہیئر سٹائل دینے میں بزی تھی اس سے انجان کے عارفین روم میں آ چکا تھا اس نے وائٹ کلر کا سوٹ زیب تن کیا تھا اور اس کی میچنگ کے جھمکے کانوں میں ڈالے تھے۔۔ پاؤں میں بھی وائٹ کلر کی بنا ہیل والی سینڈل پہنی تھی اور اب مرر کے سامنے خود کو فائنل ٹچ دینے میں لگی تھی۔
اگر آپ کا بناؤ سنگھار ہوگیا ہو تو چلیں مجھے شدید نیند آ رہی ہے۔۔
رمشا سے ہڑبڑاہٹ میں برش چھوٹ گیا تھا اور مڑ کر عارفین کو دیکھنے لگی وہ اس طرح آنکھوں میں غصے لیے دونوں ہاتھ باندھے اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔
یہ رمشا اور عارفین بھائی ابھی تک کیوں نہیں آئے ماما نے تو کہا تھا بس تھوڑی دیر میں نکلنے والے ہیں۔
دعا پورے لان میں نظریں گھما رہی تھی لیکن رمشا اور عارفین اب تک نہیں پہنچے تھے۔
ارے آ جائیں گے ویسے بھی رمشا گبر سنگھ کے ساتھ آ رہی ہے پتا نہیں ان کو ہو کیا گیا ہے جب دیکھو منہ پر بارہ ہی بج رہے ہوتے ہیں جو بات کرتے ہیں ایسا لگتا ہے پتھر اٹھا کر مار رہے ہیں کوئی نرمی ہی نہیں بات میں۔ اتنے اچھے ہوا کرتے تھے میرے عارفین بھائی اللہ جانے کس کمبخت کی نظر لگ گئی میں تو بچ کر ہی رہتی ہوں کہیں کسی کا نزلہ مجھ پر نہ گر جائے۔۔
عشاء سافٹ ڈرنکس اور ریفریشمنٹ سے لطف اندوز ہوتی ہوئی باتیں کرنے میں بزی تھی۔
ہاں ویسے بات تو سچی ہے میں نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے وہ تھوڑے بدلے بدلے سے ہیں خیر تھکے ہوئے ہونگے کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائیں گے تم فکر نہ کرو۔۔
دعا کو جیسے ہر چیز نارمل ہی لگ رہی تھی۔۔
ہاں بھائی میں کیوں فکر کروں رہ تو وہ بچاری ہی رہی ہے ان کے ساتھ وہ فکر کرے میں تو مست اپنی دنیا میں ہی ٹھیک ہوں ویسے دعا مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے میں پھپھو بن جاؤں گی ہمارے گھر میں ایک چھوٹا سا بے بی آئے گا۔۔اس گھر کے افراد دیکھ کر میں تھک چکی ہوں باقی وہ آجاتا ہے اپنے گھر سے بے گھر اس کی شکل دیکھو۔ اب ایک ورائٹی ہوگی دیکھنے کے لیے۔۔
عشاء پھپھو بننے کے لیے تیار بیٹھی تھی لیکن پتہ نہیں اس کی ہر بات میں وجدان کی برائی کیوں ہوتی ہے۔۔
ویسے خوشی تو مجھے بھی بہت زیادہ ہے نئے ممبر کے آنے کی لیکن ایک بات تو بتاؤ تمہاری باتوں میں وجدان صاحب کا بڑا ذکر ہوتا ہے اگر انٹرسٹڈ ہو تو دادا جان سے کہہ کر بات چلا جاؤں وہ تو ویسے بھی تیار رہتے ہیں رشتہ داروں میں شادی کرنے کے لیے۔۔
دعا نے آنکھ مار کر عشاء کو چھیڑنا شروع کردیا۔
توبہ توبہ تمہارے منہ میں خاک ۔۔ میں اس لنگور سے کبھی شادی نہ کروں تم شکل دیکھو اس کی کوئی خلائی مخلوق لگتا ہے۔۔ اور دوسرا لڑا بھی نہیں جاتا اس سے تو بس برا سا منہ بنا لیتا ہے میں کیوں کرنے لگی اس ڈرپوک سے شادی۔۔ بھکاری مفت کا کھانا کھانے چلا آتا ہے بس۔۔
عشاء کے تو جیسے پچھلے جنم میں وجدان پیسے چرا کر بھاگ گیا تھا مجال ہے کہ کبھی اس کے لیے کوئی اچھے الفاظ استعمال کرلے نا بابا نا۔۔
ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے جو لوگ گھڑی گھڑی کسی کے ذکر کرتے رہتے ہیں خواہ برائی میں کیوں نا ان کے دل میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے یا وہ ان کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔۔
او لڑکی تم ناول کم پڑھا کرو تمہارا دماغ خراب ہونے لگا ہے مطلب کچھ بھی بس۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے عشاء فراز نام ہے میرا کزن میرج تو کبھی نہیں کروں گی یہ روایت جو چلتی آ رہی ہے ضرور توڑو گی کب تک انہی سے شادی کرتے رہیں گے جن کی منحوس شکلیں ہم بیس سال سے دیکھتے ہوئے آرہے ہوں ۔۔۔۔ او سوری میرے بھائی کو نکال دینا وہ تو ایک دم ہینڈسم سے ہیں ۔
عشاء نے تو جیسے قسم کھالی تھی کہ یہ اپنوں میں رشتوں کی رسم ہی توڑ دی گی۔۔
بھائی کو ضرور بتاؤں گی۔
دعا ہنسنے لگی تھی۔
میسنی بھئی میں نے بھائی کو ہٹا دیا تھا۔ تمہاری سٹار پلس والی حرکتوں سے واقف ہوں میں فوراً آگ لگانے پہنچ جاتی ہو۔
عشاء ، دعا۔ رمشا کے انتظار میں ایسے ہی لڑنے میں مگن تھے سمیر فارس کے ساتھ نکاح کی تیاری میں لگا تھا نکاح بس کچھ دیر میں شروع ہونے والا تھا تھا۔۔
* * *
بیٹھو تمہارے چکر میں ویسے کافی دیر ہو چکی ہے۔
عارفین اور رمشا گاڑی میں بیٹھنے لگے تھے یہ پہلی دفعہ تھا کہ رمشا عارفین کے ساتھ اکیلی کہیں جا رہی ہو گی ورنہ ہمیشہ دعا،عشاء اور فیضان ساتھ ہی ہوتے تھے وہ دل میں جل رہی تھی وہ عارفین کے ساتھ جانے کے بالکل حق میں نہیں تھی لیکن تائی امی کے آگے کچھ بول بھی نہیں سکتی تھی اس لیے چپ ہی رہی۔۔
کل آفس سے آکر ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔ ماما نے کہا ہے تمہارے کوئی ٹیسٹ ہونے ہیں ۔ خیر اب یہ آفت گلے پڑ ہی گئی ہے تو یہ سب ذمہ داریاں نبھانی ہی پڑیں گی۔
عارفین کا لہجہ ویسے ہی دل دکھانے والا تھا کہ رمشا کا دل بھرنے لگا وہ اسی ٹون میں اس سے بات کیا کرتا تھا کہ رمشا اپنی ہی نظروں میں گرنے لگتی تھی کیونکہ یہ کھائی اس نے خود اپنے لیے منتخب کی تھی عارفین نے تو پیچھے ہٹنے کا کہا تھا پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ وہ اس کی زندگی جہنم بنا دے گا لیکن وہ اللہ پر بھروسے کی ہوئے تھی اور اب اس کی امیدیں ٹوٹنے لگی تھی کہیں تکلیف میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لہجہ کی کرواہٹ انسان کو مار دیتی ہے اور اگر وہ لہجہ آپ کا ہمسفر ہی آپ کے لیے استعمال کرے تو جینے کی چاہ ختم ہونے لگتی ہے۔ رمشا کے پاس پیار کرنے والوں کی ایک قطار تھی وہ سب کی لاڈلی تھی اس حالت میں ہر ایک ہی اس کا بھرپور خیال رکھ رہا تھا۔ لیکن کہیں کوئی کمی، کوئی آس زندہ تھی کہ دو لفظ پیار کے اپنا شوہر بھی بولے عارفین سے یہ آس لگانا بھی اپنے اوپر ظلم کرنے جیسا ہی تھا وہ اول تو رمشا سے بات تک کرنا گوارہ نہیں کرتا تھا اور اگر کر بھی لے تو ایسی کوئی بات کہہ دیتا تھا کہ رمشا کافی دیر تک اس کی ٹیس اپنے دل میں محسوس کرتی رہتی تھی
آپ رہنے دیں میں ماما کے ساتھ چلی جاؤنگی۔
رمشا نے منہ پھیر کر آنکھ سے نکلنے والے ننھے قطرے کو بڑی مہارت سے پیچھے دھکیلا تھا۔۔
ہاں تو ماما کے سامنے ہی بول دیا کرو کہ میں عارفین کے ساتھ نہیں جانا چاہتی ان کے سامنے تو بڑی فرمابردار بننے کا ناٹک کرتی رہتی ہو۔ جی تائی امی جی تائی امی کے علاوہ کچھ نکلتا ہی نہیں ہے اور میرے سامنے بڑی زبان چل رہی ہے۔
عارفین نے ایک اور طنز کی بارش کی تھی۔
میں ان سے خود کہہ دوں گی وہ آپ کو کچھ نہیں کہیں گی۔
رمشا شیشے کے باہر دیکھنے لگی تھی وہ اس شخص سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتی تھی۔
بے خیالی میں بھی تیرا ہی خیال آئے
کیوں بچھڑنا ہے ضروری یہ سوال آئے
تیری نزدیکیوں کی خوشی بےحساب تھی
حصے میں فاصلے بھی تیرے بےمثال آئے
میں جو تم سے دور ہوں
کیوں دور رہوں
تیرا غرور ہوں
آ تو فاصلہ مٹا
تو خواب سا ملا
کیوں خواب توڑ دوں
دونوں کے بیچ لمبی خاموشی چھا گئی تھی راستہ تھوڑا لمبا تھا جس کی وجہ سے عارفین نے میوزک پلیئر میں گانے لگا دیے اور اس گانے کے الفاظ میں دونوں ہی الگ الگ سوچ رہے تھے۔ ایک حاصل کرکے بھی فاصلے کی نظر ہوئی تھی اور دوسرا لاحاصل کی جستجو میں ہی پاگل ہو کر حاصل کو ٹھکرانے کے لیے تیار تھا ۔
* * *
شانزے اپنے من پسند سوٹ میں غضب ڈھانے تک کی حسین لگ رہی تھی۔ اس کی میکسی میں وائٹ کے ساتھ کہیں کہیں ریڈ کلر کا کنٹراسٹ بھی نمایاں تھا . وہ جتنا اس فنکشن کے لیے ایکسائٹڈ تھی آج وہ دن آگیا تھا۔ فارس کو بھی ضد کرکے شانزے نے وائٹ کلر کی شلوار قمیض لینے کو کہا تھا جس پر اپنی پسند کی ریڈ کلر کی خوبصورت سی واسکوٹ دلوائی تھی۔ فارس بھی سب میں نمایاں لگ رہا تھا۔ رمشا شانزے کی سائیڈ ہو گئی تھی جبکہ سمیر نے فارس کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔۔
فارس اور شانزے نکاح جیسے خوبصورت پاک بندھن میں کچھ ہی دیر بعد بندھ گئے تھے اور شانزے کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی مکمل لگ رہے تھے ۔۔رمشا نے دل ہی دل میں دونوں کی نظر اتاری تھی ۔ سمیر بھی اپنا غم بھلا کر دونوں کے لیے بہت زیادہ خوش تھا۔ فارس اور شانزے کو ایک ساتھ بٹھا دیا گیا تھا اور باری باری رشتے دار اور دوست احباب آکر ملنے لگے پر مبارکباد کے ساتھ ساتھ ایک عدد لفافہ بھی دے جاتے ۔
اوئے سمیر تو خالی ہاتھ آیا ہے کیا؟؟
سمیر کے بیٹھتے ساتھ ہی فارس نے پہلا سوال لفافے کا پوچھا۔۔
اوئے کمینے ایک تو شانزے جیسی خوبصورت بہن میں تجھے دے رہا ہوں پھر بھی تجھے اور کچھ چاہیے۔
سمیر نے ہلکے سے کہنی مار کر کہا
بہن تک تو ٹھیک ہے خوبصورت لفظ اضافی لگا دیا دیکھ تو سہی پہچاننے میں ہی نہیں آ رہی۔۔
فارس آج بھی شانزے کا مذاق اڑانا نہیں بھولا تھا۔
دیکھ لو میں نے تو کہا تھا شانزے سوچ لے پولیس والا بندہ ہے کتنا چلاک ہوگا آج بھی باز نہیں آ رہا۔
سمیر نے مصنوعی آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔۔
ہاں لگا لے تو آگ ابھی ایک دم غصے سے لال ہو جائے گی میڈم۔۔۔
فارس نے ایسی ایکٹنگ کی جیسے واقعی وہ ڈر گیا ہو۔
آج کے لئے سب معاف میاں صاحب!! نئی نئی شادی ہے سارے حساب بعد میں نکالوں گی.
شانزے نے ہنس کر کہا جس پر سمیر اور فارس بھی مسکرانے لگے تھے۔
* * *
سمیر بھائی میں آپ کے ساتھ چلوں گی
نکاح کی تقریب ختم ہونے کے بعد رمشا نے سمیر کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
کیوں عارفین آیا تو ہے اس کے ساتھ ہی جاؤ بیٹا۔
سمیر کو ان کے بیج کے معاملات کے بارے میں نہیں پتا تھا اور پتہ ہوتا بھی کیسے رمشا نے کبھی بات کو باہر نکالنا ضروری نہیں سمجھا وہ اور کوئی تماشہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
نہیں بھائی وہ تھکے ہوئے ہیں بس گھر جا کر سوئیں گے مجھے آئس کریم کھانی ہے۔ دل تھوڑا عجیب ہو رہا ہے تھوڑی دیر ہوا لینی ہے۔ بس اس لئے آپ کے ساتھ جانا چاہ رہی ہو۔
رمشا نے کمال کا بہانہ بنایا تھا کہ سمیر بھی یقین کر بیٹھا۔
چلو اوکے میں عارفین سے کہہ دیتا ہوں۔
عارفین رمشا میرے ساتھ جا رہی ہے میں راستے سے آئسکریم کھلا دوں گا اس کی طبیعت تھوڑی خراب ہو رہی ہے بہل جائے گی۔
سمیر نے عارفین کے پاس جا کر بات کرنی شروع کر دی تھی۔۔
ہم بھی جائیں گے مجھے بھی آئس کریم کھانی ہے۔ عشاء کو تو جیسے آئس کریم کا نام سن کر الیکٹرک شاک لگ گیا تھا۔
چلو میں بچیوں کو آئسکریم کھلا کر لے آؤں گا تم گھر جا کر آرام کر لو تھوڑے تھکے تھکے سے لگ رہے ہو۔
سمیر کے ساتھ وہ تینوں چل دیں تھیں اور عارفین بھی پیچھے پیچھے آ رہا تھا سمیر کے سامنے عارفین نے حامی بھر لی تھی لیکن دل میں غصے میں کڑھنے لگا تھا۔۔
اچھا مطلب اپنا نوکر بنا کر لائی تھی کام نکل گیا تو اپنے بھائی کے ساتھ چلی گئی۔
راستے بھر گھر پہنچنے تک عارفین ایسا ہی الٹا پلٹا سوچ کر رمشا کے لیے نفرت کو اور بھڑکاتا رہا۔۔
* * *
دادا ابو بس بات کو یہیں ختم کر دیں میں آپ سے کہہ رہا ہوں کوئی ضرورت نہیں ان کے سامنے جھکنے کی۔۔
سمیر گھر آتے ہی سب سے پہلے دادا کے روم میں گیا تھا۔
لیکن بیٹا جب بات بن سکتی ہے تو تم کیوں خود اس کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہو۔
دادا کو جیسے بات ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی
دادا مجھے لگ رہا ہے وہ میری کشش تھی مجھے ایسی بھی کوئی محبت نہیں کہ میں ذیشان بھائی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اسے مانگو تو بس میں نے کہہ دیا اس گھر سے کوئی ان لوگوں سے بات نہیں کرے گا۔
سمیر ان سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہا تھا جو پورے زمانے کو پرکھ کر اس عمر میں آئے تھے ان کا تجربہ سمیر کی عمر سے کہیں زیادہ تھا وہ جانتے تھے کہ سمیر ان سے جھوٹ بول رہا ہے کوئی بات ضرور ہے جو وہ چھپانے کی کوشش میں لگا ہے لیکن دادا نے کوئی سوال نہیں کیا وہ خاموش ہو گئے اور سمیر کو سامنے بٹھا کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے ۔ انہوں نے دل میں کوئی فیصلہ لے لیا تھا لیکن کیا ؟؟؟ ابھی وہ سمیر کو بھی بتانا نہیں چاہتے تھے۔۔
* * *
آگئیں ؟؟؟
رمشا بہت دھیمے دھیمے قدم رکھ کر روم میں داخل ہوئی تھی لیکن عارفین سے کہاں بچا جا سکتا تھا وہ کہنی کو آنکھوں پر رکھا لیٹا ہوا تھا۔ رمشا کا خیال تھا کہ اس ٹائم تک وہ اچھی خاصی گہری نیند میں ہو گا لیکن عارفین کا گولا کیسے ٹھنڈا ہوتا جب تک وہ رمشا کو دو چار کڑوی باتیں نہ سنا دے۔
جی وہ دادا کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ گئی تھی۔ رمشا نے ڈرتے ڈرتے بولنا شروع کیا
ہاں دادا کی لاڈلی جو ہو ملنا تو بنتا ہے ان سے!
عارفین نے ایک اور طنز کا تیر مارا تھا۔
نہیں لاڈلی کا تو پتا نہیں لیکن فرمابردار ضرور ہوں ان کے فیصلے کی قدر کرنا جانتی ہو وہ میرے لئے اہم ہیں ۔ کچھ لوگوں کی طرح نہیں جو آگے کچھ اور پیچھے کچھ ہوتے ہیں۔
پتا نہیں رمشا میں ہمت کہاں سے آئی تھی لیکن وہ یہ کہہ کر رکی نہیں اور کپڑے چینج کرنے کی غرض سے باتھ روم میں چلی گئی ۔ دروازہ اس قدر زور سے بند کیا گیا تھا کہ کوئی باہر کھڑا آدمی بھی آرام سے سن لے۔رمشا عارفین کی بولتی بند کر گئی تھی۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا جب رمشا بول اٹھی تھی۔ عارفین نے پہلی بار رمشا کی آنکھوں میں غصے کی تپش محسوس کی تھی۔۔