مبارک ہو آنٹی آپ کو بہت بہت آپ کے گھر ایک چھوٹا سا مہمان آنے والا ہے۔۔
شانزے نے رمشا کا پراپر چیک اپ کرنے کے بعد یہ خوشخبری سنائی اور ٹیسٹ بھی لکھ کر دے دیے تاکہ وہ رمشا کو اچھے سے ٹریٹ کرسکے۔ وہ اندرونی طور پر کافی کمزور تھی اور یہ ذمہ داری لینے کے لئے اس کو کافی طاقت کی ضرورت تھی۔
ماشاء اللہ! خیر مبارک بیٹا.
ثمرین بھی خوشی سے شانزے کے گلے لگ گئیں ۔
رمشا اپنے آپ میں تھوڑا سمٹ گئی وہ اپنی کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہی تھی نہ اسے کوئی خاص خوشی محسوس ہوئی اور نہ ہی وہ اس سب کے لیے ابھی تیار تھی۔
آنٹی آپ کو اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے میں یہ کچھ میڈیسن لکھ کر دے رہی ہوں آپ یاد سے رمشا کو وقت پر دیتی رہے گا باقی میں خود بھی چکر لگاتی رہوں گی۔۔
شانزے جانے کی اجازت لے رہی تھی وہ آنٹی ثمرین سے ملنے کے بعد رمشا سے ملی اور اسے کچھ ضروری ہدایات دینے لگی جو اسے شروع کے کچھ مہینے عمل کرنی تھیں..
مبارک ہو مسٹر! آپ ماموں بننے والے ہو۔
شانزے نے سمیر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس کو خوشخبری دی جس سے وہ کھل اٹھا وہ اس ننھے مہمان کا سوچ کر ہی بہت زیادہ ایکسائٹڈ ہو چکا تھا۔
واقعی؟؟ شانزے وقت کتنی جلدی بیت گیا نہ میری چھوٹی سی گڑیا کتنی بڑی ہوگئی کہ ماں جیسی حسین ہستی بننے جا رہی ہے۔
سمیر ڈرائیونگ اسٹارٹ کر چکا تھا سمیر کا من جانے کیوں بھرنے لگا تھا وہ شانزے سے باتوں میں مگن تھا لیکن کہیں نہ کہیں وہ کسی سوچ میں کھویا ہوا تھا
سمیر سن بھی رہے ہو؟؟؟
شانزے مسلسل بولنے کے بعد ایک دم چپ ہو گئی اور سمیر کو ہلا کر حال میں واپس لائی۔ وہ کہیں اور تھا کسی اور دنیا میں جہاں وہ بھی اپنے آپ کو خوش دیکھ سکتا تھا۔
میں یہی ہوں ۔ تم بولو میں سن رہا ہوں۔۔
جب ایک سچا آدمی ٹوٹتا ہے نہ تو اسے محسوس کرنا آسان ہوتا ہے وہ چاہ کر بھی اپنی فیلنگز نہیں چھپا پا رہا تھا ۔ سمیر نے ایک نظر اپنے ہاتھ پر بندھی اس گھڑی کی طرف دیکھا جو اس رات کنزہ نے اسے خود پہنائی تھی وہ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ کنزہ کو بلیک کلر کافی پسند تھا ۔جانے انجانے میں آج بھی اس کی فیورٹ شرٹ پہن کر ہی نکلا تھا۔۔ وہ ایک سادہ سا لڑکا تھا زیادہ باتیں بنانا اور لوگوں کے ساتھ کھیلنا نہیں جانتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ گھر میں کسی کے بھی سامنے اپنی محبت کے ہار جانے کا ماتم بنائے لیکن ابھی اس کے سامنے اس کے دل عزیز دوست تھی وہ اس کو بہن مانتا تھا۔۔ آج وہ چاہتا تھا دل کا غبار باہر نکال دے چیخ کر بولے کہ ہاں میں دکھی ہوں۔ میرا بھی دل ٹوٹ سکتا ہے میرے بھی چھوٹے چھوٹے خواب تھے جنہیں میں کنزہ کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔ کیوں ہر کسی کو منزل آسانی سے نہیں ملتی ؟؟ کیوں لوگ سچی محبت کو قسمت کے ہاتھوں ہار دیتے ہیں؟؟ کیوں ؟؟ کیوں ؟؟ پاک محبت کو منزل نہیں ملی؟؟؟ یہ کچھ سوال تھے جو اسے الجھن میں ڈالے ہوئے تھے وہ تو سچی محبت کرتا تھا کوئی ملاوٹ نہیں تھی ۔نکاح کے پاک بندھن میں بندھنا چاہتا تھا تو کیا میں نے دیر کردی؟؟ کیا میں نے خود اپنے لئے در بند کر لئے؟؟ سمیر ان الجھنوں میں گھرا گاڑی سائیڈ پر لگا گیا اور اپنا سر سٹیرنگ سے لگا کر لمبی سانسیں بھرنے لگا۔ آنکھوں سے گرم گرم پانی بہنے لگا تھا۔ شانزے خاموش بیٹھی رہی وہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی وہ اپنے دوست کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی شانزے نے سمیر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے لایا ۔۔
ادھر دیکھو میری طرف. سمیر کیا تم کوئی فیصلہ کر بیٹھے ہو ؟
شانزے کو پریشانی ہونے لگی تھی کہ کیا یہ کسی نتیجے پر پہنچ چکا ہے۔
ہاں!
سمیر نے اپنا سر اٹھا کر لال ہوتی آنکھوں کے ساتھ اپنا سر ہاں میں ہلا دیا۔
* * *
دعا اٹھ بھی جاؤ کیا تمہیں نہیں جانا کالج؟؟
عشاء تیار ہو کر دعا پر چلا رہی تھی۔
او ہو میں تمہیں بتانا بھول گئی تھی میری کلاسس آف ہو چکی ہیں ۔۔مجھے اب بس پیپر دینے ہی جانا ہوگا۔
دعا یہ کہتی واپس چادر اوڑھ کر کروٹ بدل گئی تھی۔
مطلب حد ہوگئی بندہ کل ہی بتا دے تاکہ میں پہلے سے کوئی انتظام کرلوں لیکن نہیں محترمہ کو تو ڈراموں سے فرصت کہاں۔
عشاء پریشانی میں چکر لگانے لگی تھی۔
السلام علیکم!
عشاء نے میسج کی رنگ بجنے پر جیسے ہی فون اٹھایا اسی نمبر سے میسج دیکھ کر کھٹک گئی ۔
وعلیکم السلام!
عشاء تھوڑی پریشان ہوئی کالج کے یونیفارم میں بالوں کو پونی ٹیل میں باندھے وہ تیز تیز کمرے میں ادھر سے ادھر چل رہی تھی۔
ابھی تک کالج نہیں گئیں؟
یہ سوال غیر متوقع تھا لیکن مقابل بھی وہ شخص تھا جو کسی کے پیچھے پڑے تو اس کے ایک ایک قدم پر نظر رکھنا شروع کر دیتا ہے وہ عشاء کو فالو کر رہا تھا اس کی ٹائمنگ پر نظر رکھے ہوئے تھا وہ کوئی معمولی سا گلی چھاپ آوارہ نہیں تھا اس کا ایک ایک قدم ایک ایک چال بہت پلاننگ سے ہوتی تھی۔
جی وہ میں آج نہیں جاؤں گی میری بہن کی چھٹیاں ہوگئیں مجھے اپنے بھائی سے بات کرنی ہوگی کل سے وہ مجھے چھوڑیں گے۔
عشاء اور دعا اکیلے کالج جایا کرتی تھیں اور یہ بات بھی شاید اس لڑکے کو پتہ تھی لیکن بھائی کا نام سن کر یقیناً اسکے طوطے ضرور اڑے ہونگے۔ وہ ڈرتا نہیں تھا لیکن کسی کمزور سے شکار کو پکڑنا آسان تھا وہ کسی جھمیلے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا اس لیے کچھ ٹائم اور انتظار کرنے کو بہتر سمجھا۔ یہ پورا ایک گروہ تھا جو شہر کی مختلف لڑکیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھنساتا تھا پھر ان کو بلیک میل کرکے پیسے وصول کرتے تھے۔ لڑکیاں بھی اس قدر بری طرح پھنس جایا کرتی تھی کہ یا تو انہیں ان کے مانگی ہوئی رقم دینی پڑتی یا اپنی عزت کو کچھ گھنٹوں کے لئے ان کے حوالے کرنا ہوتا تھا۔۔ عشاء اپنی دوست کو بچانے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن جس بری طرح وہ اس جال میں پھنستی جارہی تھی اس سے وہ خود بھی بے خبر تھی۔۔ ایک بہت بڑی انہونی تھی جو اس کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی ۔ وہ لڑکا ادھر ادھر کی چند باتیں کر کے چلا گیا ۔
عشاء بس اس کے میسج کا جواب دے دیا کرتی تھی اپنے طور پر وہ اس کو اچھے سے اگنور کر رہی تھی اور انفارمیشن بھی غلط دینے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اس کا نمبر ٹریس کر چکا تھا وہ اس پر اس کی دوست والا حربہ نہیں آزمانے والا تھا کیونکہ وہ یہ جانتی تھی اس لیے اس کی باتوں میں کبھی نہ آتی وہ عشاء کو دوسرے طریقے سے قابو کرنے کے موڈ میں تھا ۔وہ اس کو پسند آ گئی تھی لیکن ایسے لوگوں کی پسند بھی کیا ہو گی جو پل میں بدل جائے یہ ان لوگوں کا روز کا کام تھا کوئی پھنس جاتی تو کوئی فرار ہوجاتی یہ لوگ نئے نئے کراچی میں پیر جمانے لگے تھے ..کُل چار لوگوں کے گروہ میں اکبر سب کا لیڈر تھا اور ماسٹر مائنڈ بھی ۔ یہ وہی تھا جو خود عشاء سے بات کرنے لگا تھا۔۔
* * *تمہاری تیاری مکمل ہوئی کہ نہیں میڈم آج ہی نکاح ہے۔
فارس صبح ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے میں مگن تھا جب اسے شانزے کو یاد دہانی کرانے کے لئے کال کرنی پڑی ۔
فارس کہاں تھے آپ دو دن سے ؟ نہ کال نہ میسیج بالکل غائب۔
شانزے کی آواز سے ہی پتہ لگ رہا تھا جیسے وہ کافی اداس ہو اور نہ چاہتے ہوئے بھی فارس کی کال پک کرنی پڑ گئی ہو۔
شانزہ میں پہلے بھی کئی دفعہ یہ بات بتا چکا ہوں کہ میں ایک پولیس والا بندہ ہوں آج کل میں کسی کیس میں بہت بری طرح سے الجھا ہوا ہوں کہ مجھے سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں مل رہی میڈم میں آپ کو بھی اس لیے ہی بیاہ کر لانا چاہتا ہوں تاکہ تم میرا سر ہی کھجا دیا کرو جب میں کسی کیس کو اچھے سے اسٹڈی کر رہا ہوں تو۔۔
فارس نے اپنے طور پر شانزے کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے ٹھنڈا جوک مارا تھا لیکن شانزے کی سنجیدگی ہنوز برقرار تھی
اچھا مطلب شادی کے بعد بھی تم اس طرح مصروف رہا کرو گے اپنے کیسز میں۔ میری کوئی پرواہ نہیں ہوگی ۔
شانزے کا گلا بھر آیا تھا۔۔
میری جان بات سنو ! محبت باتوں کی محتاج نہیں ہوتی تمہیں کیا لگتا ہے جب میں تم سے بات نہیں کر پاتا تو تم میرے ذہن سے نکل جاتی ہو؟؟ نہیں شانزے تمہارا خیال، تمہاری ہنسی ہمیشہ ہر پل میرے ساتھ ہوتی ہے ۔ ہم میچور ہیں شانزے ہر پل ٹچ میں رہنے کا نام محبت نہیں ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کا نام محبت ہے ایک دوسرے کو وقت دینے کا نام محبت ہے۔ تم ڈاکٹر ہو میں تمہارے پیشے کی عزت کرتا ہوں احساس کرتا ہوں کہ ہمیشہ تمہارا موڈ ایک سا نہیں ہوگا تو تم مجھے بھی سمجھو میری جاب بھی ایسی ہی ہے کبھی میں بھی پریشانی میں ہوتا ہوں۔ تم سے بات کروں بھی تو شاید وہ پہلا والا فارس بن کر نہ کر پاؤں اس لئے تھوڑا وقت لے لیتا ہوں لیکن فریش ہو کر تمہارے سامنے آتا ہوں تاکہ میرے کام کی تھکن تم پر اثر انداز نہ کرے۔۔ تم مجھ سے رشتہ جوڑنے جارہی ہو شانزے آج ہمارا نکاح ہے اگر آگے بھی تم ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھا کرو گی تو میرا سارا ٹائم تمہیں بنانے میں گزر جائے گا بندری۔۔
فارس سمجھ دار تھا وہ رشتوں کو سنبھالنے کا ہنر اچھے سے جانتا تھا لڑکیاں ناز اٹھوانا چاہتی ہیں یہ چاہتی ہیں کہ کوئی انہیں نرمی سے کوئی بات سمجھائی ضروری نہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائے لیکن اپنی بات پر قائل کرنا بھی جانتا ہو عورت ایک نازک سے کانچ کے برتن کی مانند ہوتی ہے سخت رویہ اور زہر اگلتا لہجہ انہیں توڑ دیتا ہے وہ پیار مانگتی ہیں ان کو پیار سے سمجھایا جا سکتا ہے لیکن یہ بات بھی ہر لڑکی پر لاگو نہیں ہوتی کچھ خود ہی اپنے معاملات کو بگاڑنے پر تلی ہوتی ہیں۔ لیکن اس کہانی میں فارس اور شانزے تھے فارس بنانا جانتا تھا تو شانزے بھی فوراً ہی مان جایا کرتی تھی۔
اچھا ٹھیک ہے میں سمجھ گئی ہوں سوری اگر میں نے کچھ بول دیا ہو تو۔۔
شانزے شرمندہ تھی کہ اس نے بات شروع ہوتے ہی لڑنا شروع کر دیا تھا۔
ارے میڈم آپ کچھ بولتی تو نہیں ہیں ہمارے تو کان ترس گئے ہیں کہ آپ کچھ پیار بھرا بولیں لیکن چلو ایک دن اور صحیح پھر تو مکمل میرے پاس ہی ہوگی پھر ٹھیک سے تم سے پوچھوں گا کہ کتنی محبت کرتی ہو فارس سے۔
فارس میں جس طرح اترا کر کہا تھا شانزے ہنسنے پر مجبور ہوگئی تھی
جی جی ضرور میرے پولیس مین آپ فون رکھیں تاکہ میں تیاری شروع کروں۔
شانزہ کے گالوں پہ ایک حیا کی لالی آگئی تھی ان دونوں کے بیچ زیادہ پیار محبت کی باتیں نہیں ہوا کرتی تھیں وہ عام دنوں کی باتیں کیا کرتے تھے۔
ویسے شانزے میں سوچ رہا تھا کل تک کا کون ویٹ کرے میں بھی عارفین کی طرح آج ہی نہ رخصتی لے لوں؟
فارس اب شانزے کو چھیڑنے پر اتر آیا تھا۔
ماما بلا رہی ہیں میں چلی
شانزے شرماتے ہوئے کال کٹ کر چکی تھی۔
* * *
اس ٹائم کون آ گیا ہے میری ویسے ہی ہمت جواب دے رہی ہے یہ گیٹ کھولنے جانے کی بھی ہمت نہیں رہی۔
رمشا لان میں بیٹھی کچھ فروٹس سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ آج بھی وہ ڈاکٹر کے پاس جا کر آئی تھی وہ اندر سے انتہائی ویک تھی جس کی وجہ سے بار بار چکر آ رہے تھے۔۔۔
ہمممم
رمشا نے دروازہ کھول دیا تھا لیکن سامنے ہی دشمنِ جان کو دیکھ کر کھٹک گئی وہ گیٹ کھول کر سائیڈ میں کھڑی ہوگئی ۔۔ عارفین نے بغور اسے گھورا ۔۔وہ اپنی ہربڑاہٹ میں سلام تک نہیں کر پائی تھی اور ویسے بھی کیا فرق پڑتا ہے وہ کون سا اس کے سلام کا جواب دینے کا منتظر ہوتا ہے۔
تم گیٹ پر کیوں آئی ہو ؟؟ باقی لوگ کہاں ہیں ؟؟ دلاور کہاں ہے؟؟ اس نے گیٹ کیوں نہیں کھولا ؟ عارفین نے اسی غصے والی آنکھوں سے بات کرنی شروع کی ۔ وہ دلاور ان کے مالی اور چوکیدار کا پوچھ رہا تھا اس گھر کی لڑکیاں دروازہ نہیں کھولا کرتی تھیں ۔
وہ کسی کام سے باہر گیا ہوا ہے میں قریب تھی اس لئے کھول دیا۔
رمشا نے بھی زیادہ بات کرنی ضروری نہیں سمجھی اور ایک جھٹکے سے مڑ گئی۔۔
رمشا!!!!
وہ ابھی مکمل صحت یاب نہیں ہوئی تھی اور وقفے وقفے سے چکر آنے کا عمل جاری تھا ایک تو ویسے اس کی طبیعت خراب تھی دوسرا عارفین کو دیکھ کر اور اس کے دماغ کی نسوں میں تناو پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا اور وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور تھوڑی ہی دور جا کر لان کی گھاس پر ڈھیر ہو گئی۔۔۔