میں نے تمہیں ایک کام دیا تھا تمہاری سمجھ میں بات نہیں آتی
سیما، عشاء کا موبائل پھینک کر اس سے گویا ہوئیں ۔
کیا کام؟؟؟
عشاء معصوم سی شکل بنائے منمنائی۔
ہاں اس موبائل اور اپنے الٹے پلٹے ڈراموں سے فرصت ملے تو تمہیں یاد رہے نہ کہ کیا کام میں تمہیں دے کر گئی تھی۔
سیما تو آج سارا اگلا پچھلا حساب برابر کرنے کے موڈ میں تھیں آج تو عشاء کی شامت نہیں تھی
اماں ایک تو میرے ڈرامے کو الٹا پلٹا نہ کہا کریں ایک دن کا بس ایک ہی ڈرامہ دیکھتی ہوں ہفتے کے سات مطلب۔۔ آپ کو آج کل کی لڑکیوں کا نہیں پتا دن بھر فلموں اور ڈراموں میں لگی رہتی ہیں ۔
عشاء کام والی بات کو بخوبی گول کرنے کی کوشش میں لگی تھی
ان لڑکیوں کو چھوڑ دو وہ اپنے ماں باپ کی ذمہ داری ہیں تم یہ بتاؤ چھت سے کپڑے کیوں نہیں لائی ہو ابھی تک؟؟ دن میں کہا تھا اب مغرب ہونے کو ہے زیادہ ہی نرمی کا فائدہ اٹھا رہی ہو.
سیما نے گھورنے میں تھوڑا اضافہ کیا۔۔
اماں سچی میں جانے ہی لگی تھی لیکن وہ میرا بدھ والا ڈرامہ آ گیا وہ دیکھنے لگی پھر ایک دو ڈرامے چُھوٹے ہوئے تھے ٹائم کا پتہ ہی نہیں لگا۔۔
عشاء تھی بیچاری سچی بس کوئی بہانہ بھی نہ بنا پائی اور سچ سچ ماں کے سامنے اگل دیا۔۔
چٹاخ خ خ خ!!!!!
ایک ہاتھ گھوما تھا جو عشاء کا دایاں گال لال کر گیا تھا۔۔ سیما کا یہ تھپڑ اتنا غیر متوقع تھا کہ عشاء کو یقین آنے میں دو منٹ لگے تھے ۔
اماں ویسے حد ہے کوئی ایسے جوان بیٹی پر ہاتھ چھوڑتا ہے کیا آپ بولتی رہتی ہیں نہ ابا کو بتاؤں گی۔۔۔ آپ صبر کریں میں بتاؤں گی اب پاپا کو کہ آپ نے انکی چاند سی بیٹی کو مارا ہے اور کپڑے بھی اتار لاتی ہوں ویسے لانے تو نہیں چاہیے لیکن کیا کروں ماں تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا پاپا کی ڈانٹ سے لگتا ہے۔۔
عشاء یہ کہتی بھاگنے لگی تھی۔۔ یہ بات تو ظاہر کہ تھپڑ زور کا نہیں تھا جبھی وہ مسکرا رہی تھی ورنہ آنسوں یقینی تھے۔۔
ممانی جان!!
وجدان کہاں سے ٹپکا تھا یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن اس کی بتیسی یہ بتا رہی تھی کہ اس نے پورا منظر بڑے مزے سے دیکھا ہے۔۔
ویسے وجدان بڑی شرم کی بات ہے کسی کے گھر آئے دن نہیں ٹپک جاتے عزت کم ہو جاتی ہے اور دوسروں کے روم کے باہر سے باتیں بھی نہیں سنتے یہ بھی چھپکلی کی عادتوں میں سے ہے جو روم کے باہر چکر لگاتی رہتی ہے اور پھر موقع دیکھتے ہی روم میں گھس جاتی ہے۔۔
عشاء اپنے تھپڑ سے زیادہ اس بات سے شرمندہ تھی کہ یہ منظر وجدان صاحب ملاحظہ فرما چکے ہیں۔۔
میں تو ممانی کو سالن دینے آیا تھا مجھے کیا پتا تھا یہ فلم دیکھنے کو مل جائے گی
وجدان کی ہنسی ہنوز برقرار تھی۔۔
دیکھ لی نا اب۔۔ سالن دو اور نکل لو۔۔۔
عشاء غصے میں چھت کی سیڑھیاں چڑھ گئی تھی۔
ممانی اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے ہر وقت کیوں عجیب بیہیو کرتی ہے۔
وجدان کو یقیناً بہت برا لگا تھا۔
بیٹا تم اس کی بات کا برا نہ ماننا کرو یہ بول بال کر بھول جاتی ہے۔ کیا کریں سب میں چھوٹی ہے اس لئے سب کے لاڈ سے بگڑ گئی ہے تھوڑی ذمہ داریاں پڑیں گی نہ تو خود ٹھیک ہو جائے گی۔۔ تم بتاؤ کیا لائے ہو؟؟
سیما عشاء کے باولے پن سے اچھے سے واقف تھی وہ ایسی ہی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ جایا کرتی تھی۔
جی ممانی امی نے پائی بنائے تھے تو وہ بھیجے ہیں آپ کہیں نہیں دیکھی تو چوہیا کے روم میں آ گیا اور یہ بیچاری یہاں دھن رہی تھی۔
وجدان کو جیسے وہ چند منٹ پہلے ہونے والا سین یاد آ گیا تھا۔
ارے نہیں مارا کہاں ہے بس پٹ پٹ کرالو۔ بات کو گول کر جاتی ہے کپڑے لانے کو کہا تھا کب اور یہ اب تک ڈراموں میں لگی تھی تو بس ہلکا سا لگا دیا۔
سیما بھی مسکرانے لگی تھیں ۔
* * *
ارے دیکھ کر بچے
عشاء سمیر سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی یہ کہ لیں کے ٹکرا ہی گئی تھی۔۔
سوری سمیر بھائی وہ اماں نے کہا تھا مغرب سے پہلے لے آنا تو جلدی جلدی اتر رہی تھی۔ آپ کو لگی تو نہیں ؟؟
عشاء کی سانسیں اس کے بھاگ کر آنے کی ضمانت دے رہی تھیں۔
مجھے تو نہیں لگی لیکن تم ابھی گرتی تو ضرور کوئی ہڈی تڑوا بیٹھتیں۔
سمیر نے اس کے ہاتھ سے آدھے کپڑے لے لیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔
ویسے سمیر بھائی ایک بات پوچھوں اگر آپ برا نہ مانے تو ؟
عشاء نے ڈرتے ڈرتے سوال پوچھنا چاہا تھا۔
ہاں پوچھو؟
سمیرا بھی اپنی ہی دنیا میں مگن تھا اس کے دماغ میں فلحال بہت سی الجھنیں جنم لے رہی تھیں ۔
میں نے سنا ہے آپ کی کافی ڈانٹ پڑی ہے مجھے تو لگا تھا کہ اس گھر میں ڈانٹنے کے لیے صرف میں ہی ملتی ہوں لیکن آج پتہ چلا ہماری ڈانٹ کھلے عام پڑتی ہے اور آپ لوگوں کی کمرہ بند کر کے لیکن ہوتی ہم سب کی ہی ہے نا؟؟
عشاء کو جیسے من ہی من میں اس بات کی خوشی تھی کہ بےعزتی خالی اس کی نہیں ہوتی
ہاں ہوئی ہے تھوڑی سی لیکن اب میں ٹھیک ہوں تمہاری طرح رونے نہیں بیٹھ جاتا میں
سمیر کو اس کی معصومیت پر دل کھول کر پیار آیا تھا وہ بے لوث محبت کرنے والی لڑکی تھی جو بھی کرتی تھی صرف دوسروں کے لئے کرتی تھی وہ رونے دھونے والی لڑکی دل کی کافی سچی تھی۔۔
ارے سمیر بھائی اب میں سٹرانگ ہوگئی ہوں آپ دیکھو یہ اماں نے ابھی تھپڑ مارا لیکن میں روئی بھی نہیں اور پھر کپڑے بھی لے آئی اوپر سے۔۔
عشاء نے سمیر کے پاس گال کر کے دکھایا۔
میں تائی امی سے بات کروں گا انہوں نے ہاتھ کیوں اٹھایا زبان سے بھی بات کی جا سکتی ہے میری چھوٹی پہ کوئی بھی ہاتھ نہیں اٹھائے گا آئندہ تمہیں کوئی کچھ کہے تو سیدھا مجھے بتانا اوکے؟؟؟
سمیر باتیں کرتا کرتا اس کے روم تک آگیا تھا کپڑے بیڈ پر رکھ کر اس کو تسلی دے کر روم سے جانے ہی لگا تھا۔
سمیر بھائی رہنے دیں ماما کو کچھ نہیں کہے گا وہ میری بھی غلطی تھی ڈراموں میں نہیں لگنا چاہیے تھا ایک ہی امی ہیں میری ان کو بھی غصہ دلا دیتی ہوں میں۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ویسے کسی اور نے کچھ کہا تو آپ کو ضرور بتاؤں گی۔
عشاء کو اپنی حرکتیں اچھے سے پتا تھیں اور یہ مکھن بھی اس نے سیما کی ڈانٹ سے بچنے کے لئے ہی لگایا تھا کیونکہ اگر سمیر ان سے بات کرتا تو وہ سب کھول کر رکھ دیتیں۔ اور اس کی اچھی خاصی بےعزتی ہو جاتی۔
اچھا چلو ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں مجھے باہر جانا ہے
اوکے اللہ حافظ۔
* * *
عارفین کمرے کی لائٹس آف کرکے لیٹا ہوا تھا وہ ابھی تک اسی سوچ میں تھا کہ جسے وہ مال میں دیکھ آیا تھا وہ اس کی اپنی محبت عنیزہ تھی اور وہ بھی اپنے باس کے ساتھ ۔ مطلب اس کا شک غلط نہیں تھا وہ رشتہ صرف باس اور کولیگ کا نہیں تھا۔۔ گرم گرم آنسو عارفین کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس کے بالوں میں کہیں جذب ہو رہے تھے وہ پرانی باتوں پرانے وعدوں کو یاد کر کے رو رہا تھا وہ آنے سے پہلے عنیزہ کو بتانا چاہتا تھا لیکن اس نے اپنا نمبر بند کیا ہوا تھا اور دبئی آنے کے بعد بھی کئی دفعہ وہ اس کا فون ٹرائے کر چکا تھا لیکن ہر بار ناکامی ہو رہی تھی مطلب عنیزہ انتظار میں تھی کہ کب عارفین کی طرف سے کچھ ہو اور وہ اپنی راہ کو الگ کر لے یعنی اتنی جلدی پرانی محبت بھول کر نیا رشتہ جوڑا جا سکتا ہے؟؟ وہ اپنے سوالوں میں الجھا ہوا تھا وہ مرد تھا .. ٹوٹنا نہیں چاہتا تھا ۔۔ اسے ہمت رکھنی تھی مذاق نہیں بنوا سکتا تھا۔ عارفین فراز کی اکڑ ٹوٹ گئی تھی۔ اپنی محبت پر مان وہ ہار گیا تھا۔۔ وہ ہار گیا تھا اسے جس کے لیے وہ اتنا تماشہ کر چکا تھا وہ پاکستان جانا چاہتا تھا دبئی کی بڑی بڑی بلڈنگ اب اسے سانس نہیں لینے دے رہی تھیں وہ اپنوں کے بیچ جانا چاہتا تھا جن سے بچ کر وہ یہاں آ گیا تھا عارفین نے اپنے باس کو ای میل کر دی تھی کہ وہ کچھ دنوں میں ہی وہاں سے نکل رہا ہے جیسے ہی ٹکٹس اس کے ہاتھ میں آئے گی وہ پاکستان واپس چلا جائے گا۔
* * *
ماما صبح سے میری طبیعت کافی خراب ہو رہی ہے مجھے بار بار چکر آ رہے ہیں اور دل بھی بہت متلی ہو رہا ہے پلیز آپ کوئی دوائی دے دیں مجھے لگ رہا ہے میرا سر درد سے پھٹ جائے گا۔۔
رمشا روم سے صبح سے باہر نہیں آئی تھی جس کی وجہ سے ثمرین اس کو دیکھنے گئی لیکن اس کی حالت دیکھ کر کچھ دیر کے لیے کھٹک گئی وہ پسینے میں شرابور تھی اور بخار کی حالت میں نڈھال پڑی تھی۔۔
اچھا کوئی بات نہیں میری بچی آپ فریش ہو تھوڑا پھر ہم تائی امی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں یا شانزے ہے نہ اس کو بلا لیتے ہیں اگر وہ فری ہوئی تو میں سمیر سے کہہ دیتی ہوں اس سے پوچھ لے۔۔
ثمرین ، رمشا کو لے کر واش روم کی طرف چل دیں۔۔
* * *
ڈاکٹر شانزے کوئی سمیر صاحب آئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں آپ سے پرسنلی ملنا ہے۔۔
نرس نے آکر ڈاکٹر شانزے کو اطلاع دی۔۔
جی جی بھیجیں جی
شانزے اپنی فائلز بند کر کے اب چیزیں سمیٹنے لگی تھی۔
السلام علیکم!
سمیر نے روم میں داخل ہوتے ہی سلام کیا
وعلیکم السلام!
بھائی تم نے کیوں زحمت کی میں بس آ ہی رہی تھی بس کریم کر آنے لگی تھی۔
شانزے شرمندہ تھی کہ سمیر نے کال کی تھی لیکن نکلنے میں شانزے کو تھوڑی دیر ہوگئی۔
ارے کوئی بات نہیں وہ تو میں ویسے بھی لینے آ جاتا ہمارا ہی کام ہے تم خود اکیلے آتی اس سے اچھا میں فارغ تھا اس لئے لینے چلا آیا۔۔
سمیر اور شانزے باتیں کرتے کرتے اب گاڑی تک پہنچ چکے تھے۔۔
بیٹھو۔
سمیر نے بیٹھنے کے لیے دروازہ کھول دیا شانزے کا پورا فوکس سمیر کے چہرے پر تھا وہ خاموش تھا بات صرف کام کام تک ہی کر رہا تھا چہرے کے تاثرات بھی سپاٹ تھے۔
سمیر کوئی بات ہوئی ہے؟؟ تم اس دن بھی ہمارے بلانے پر نہیں آئے ہم کافی دیر انتظار کرتے رہے اور آج بھی تم مجھے اداس سے لگ رہے ہو۔۔ میں تو وہی شانزے ہوں نہ تو تم مجھ سے شیئر کر سکتے ہو فارس بھی پریشان تھا کہ وہ کسی کیس کو ہینڈل کرنے میں لگا ہے تم پر توجہ نہیں دے پا رہا۔۔ ہم دونوں ہر موڑ پر تمہارے ساتھ ہیں تم آرام سے ڈسکس کر سکتے ہو۔۔
شانزے نے بات شروع کی گاڑی روڈ پر ہلکی اسپیڈ میں چل رہی تھی سمیر کا فوکس سامنے روڈ پر تھا لیکن وہ شانزے کی بات بھی غور سے سن رہا تھا ۔۔
وہ لوگ شادی کے لیے نہیں مان رہے ذیشان بھائی نے دادا اور ابو سے صاف صاف الفاظ میں منع کردیا ہے لیکن دادا پھر بھی مجھے بتانا نہیں چاہتے وہ ان سے منتیں کرنے کے لیے بھی تیار ہیں سمیر کی آنکھیں نم ہو رہی تھی وہ کھل کر رونا نہیں چاہتا تھا اور کم ازکم شانزے کے سامنے تو ہرگز نہیں ۔
تمہیں کس نے بتایا؟؟؟
شانزے کی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں تھیں۔۔
جس رات تم لوگوں نے کال کرکے مجھے بلایا تھا میں نے ماما اور تائی امی کی ساری باتیں کچن کے باہر سے سن لی تھیں پھر میرا ضبط ٹوٹنے لگا اور میں تم لوگوں سے ملنے نہ آپایا۔
سمیر کی آنکھ سے ننھے ننھے موتی گرنے لگے تھے جن کو وہ بڑی مہارت سے صاف کرنے میں کامیاب ہوا تھا شانزے بھی سامنے دیکھنے لگی تھی سمیر کی گاڑی گھر کے سامنے پہنچنے والے تھی۔