گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔۔۔۔۔۔ انا کن آکھیوں سے رستم کو دیکھ رہی تھی جو نجانے تب سے موبائل میں کیا ڈھونڈ رہا تھا
’’تمہیں کچھ کہنا ہے پرنسز؟‘‘ موبائل سائڈ پر رکھے رستم نے اب نہایت فرصت سے انا سے پوچھا جو اس کی توجہ خود پر پاکر بھوکلا گئی
’’نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ایسی تو کوئی خاص بات نہیں‘‘ انا کا سر نفی میں ہلا اور نظریں جھک گئیں
’’مطلب کہ کوئی نا کوئی بات ضرور ہے۔۔۔ چلو بتاؤ‘‘ رستم پوری طرح سے اسکی جانب متوجہ تھا
’’کہاں نا خاص بات نہیں‘‘ انا زچ ہوئی
’’جب بات تمہاری ہوں تو میرے لیے ہر عام بات بھی خاص ہے۔۔۔۔ اب جلدی سے بتاؤ۔۔۔۔۔۔ معلوم ہے نا کہ مجھے اپنی بات دہرانے کی عادت نہیں۔۔۔۔۔ پھر بھی تمہاری دفع ہر بات دہرانی پڑتی ہے‘‘ رستم کا لہجہ دوستانہ تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا لہجہ بہت سادہ اور اچھا تھا۔۔۔۔ نجانے کیوں مگر انا کو یہ رستم اچھا لگا تھا
’’وہ۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔‘‘ لبوں پر زبان پھیرتے ایک نظر رستم کو دیکھتے وہ دوبارہ نظریں جھکا گئیں
’’پرنسز!!‘‘ رستم کا انداز تنبیہی تھا مگر سخت نہیں
’’وہ آپ نے وہ نکاح نامہ۔۔۔۔‘‘ انا بولی تو رستم اسکی بات سمجھ گیا
’’وہ نکاح نامہ آدھا نکلی ہے‘‘ رستم نے جواب دیا
’’آدھا نکلی؟‘‘ انا حیران ہوئی
’’ہاں آدھا نکلی۔۔۔۔۔ آدھا نکلی ایسے کہ میرے حصے کے سائن تو اصلی ہے مگر تمہارے والے نکلی۔۔۔۔۔ تو وہ ہوا نا آدھا نکلی نکاح نامہ‘‘ رستم مسکراہٹ دباتے بولا تو انا کو غصہ آنے لگ گیا
’’آدھے نکلی نکاح نامے کی وجہ؟‘‘ اپنا غصہ ضبط کرتے انا نے پوچھا
’’تاکہ کوئی تم پر ، تمہارے کردار پر انگلی نہیں اٹھائے‘‘ رستم نے کندھے اچکائے
’’انگلی اٹھانے کی وجہ بھی تو خود دی ہے‘‘ انا منہ دوسری جانب کیے بڑبڑائی۔۔۔۔۔۔ مگر وہ رستم کے چہرے پر آئی شرمندگی نہیں دیکھ سکی۔۔۔۔۔۔۔ اگر دیکھ لیتی تو شائد ہارٹ اٹیک تو آہی جاتا
’’کیا ضرورت تھی سب کو یہ بتانے کی۔۔۔۔۔۔ یہ بتانے کی کہ میں ۔۔۔۔میں ماں بننے والی ہوں‘‘ انا کا لہجہ بہت دھیما تھا۔۔۔بجھا ہوا
’’تاکہ سب معلوم ہوجائے کہ تم میری ہوں۔۔۔۔۔ میں تم پر کسی کی بھی نظروں کی چھاپ برداشت نہیں کرسکتا انا۔۔۔۔۔۔ تم محبت ہوں میری۔۔۔۔۔۔ جنونیت ہوں میری‘‘ رستم کا لہجہ ھد درجہ سنگین تھا
’’یہ محبت نہیں پاگل پن ہے رستم شیخ۔۔۔۔ تمہاری یہ جنونیت سب کچھ جلا دے گی ،راکھ کردے گی سب کچھ۔۔۔۔۔۔ جیسے اس نے مجھے جلا دیا۔۔۔ بس اب راکھ بننا باقی ہے‘‘ انا سوچ سکی مگر بولی کچھ نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچنے تک انا حد درجہ تھک چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ کمرے کی جانب جارہی تھی جب رستم نے اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔۔۔۔ انا ایک پل کو کانپ گئی
’’وہاں نہیں یہاں‘‘ کہتے ہی رستم اسے سیڑھیوں کی بائیں جانب بنے کمرے کی طرف لے گیا
’’ تمہاری کنڈیشن ایسی نہیں کہ تم سیڑھیاں چڑھو اور دوسرا میں نہیں چاہتا کہ تم اب اس کمرے میں واپس کبھی قدم رکھو۔۔۔۔۔‘‘ رستم اسکا ہاتھ تھامے اسے کمرے میں لایا اور بیڈ پر بٹھا کر اس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھ گیا
انا بس حیران سی اس بدلے ہوئے رستم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
’’ایسا کیوں؟‘‘ انا نے سوال کیا
’’میں نہیں چاہتا وہ تلخ یادیں تمہیں تکلیف دے جو تمہاری بربادی کا سبب بنی‘‘ رستم بولا تو لہجے میں ندامت کا عنصر نمایاں تھا۔۔۔۔۔ انا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔۔۔۔ یہ کون تھا؟ کیا یہ رستم تھا؟ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا
’’ایک۔۔۔۔۔ایک موقع چاہتا ہوں انا۔۔۔۔۔۔ صرف ایک موقع دے دوں۔۔۔۔۔ میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ میں، میں اپنی اولاد کو ایسی زندگی نہیں دینا چاہتا انا۔۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ میری اولاد بھی ویسی زندگی جیے جیسی میں نے گزاری ہے۔۔۔۔۔۔ کھوکھلی، ویران۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں اپنے آنے والے بچے کو سب کچھ دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔ سب کچھ۔۔۔۔ خاص طور پر خوبصورت یادیں جو میرے پاس نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ ایک موقع دے دوں انا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ، میں سب کچھ ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ہر غلطی ہر گناہ کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ پلیز انا صرف ایک موقع صرف اور صرف ایک موقع‘‘ رستم اسکے دونوں ہاتھ تھامے بولا
اور انا وہ بس یک ٹک رستم کو دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔ اس کے لفظوں کو محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی بربادی، ڈاکٹر کنول کی چیخیں۔۔۔۔۔شہلا کا قتل سب کچھ دماغ میں کہی بہت پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اسے تو بس وہ انسان نظر آرہا تھا
’’بتاؤ انا کیا دوں گی مجھے ایک موقع؟‘‘ رستم نے پوچھا تو انا کا سر خود بخود اثبات میں ہل گیا۔۔۔۔۔۔ جبکہ رستم کی خالی آنکھیں خوشی سے جھوم اٹھی
’’اوووو۔۔۔ تھینک یو سووو مچ مائی پرنسز!!‘‘ اسکے دونوں ہاتھوں کو لبوں سے لگاتے وہ بولا تو انا نے اپنے ہاتھ فورا پیچھے کھینچے
’’اوہ سوری میں بھول گیا تھا کہ تم ابھی بھی میری بیوی نہیں ہوں‘‘ بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ ہلکا سا مسکرایا اور انا کو آرام کا کہتے وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں موجود بار میں بیٹھا وہ کسی اور ہی دنیا میں موجود تھا جب بہادر خان وہاں حاضر ہوا
’’ماسٹر آپ نے یاد کیا؟‘‘ بہادر خان نے پوچھا تو وہ چونکا اور ایک نظر بہادر خان کے ہاتھ کو دیکھا
’’تمہارا ہاتھ کیسا ہے اب؟‘‘ اسکا لہجہ نارمل تھی
’’بہتر ہے‘‘ بہادر خان نے بھی مختصر جواب دیا
’’ہمم۔۔۔۔۔ بہادر خان ایسا کروں ہر نیوز چینل کو کال کرکے بتادوں کہ رستم شیخ کی شادی اگلے ہفتے ہے۔۔۔۔جتنا جلدی ہوسکے اتنی جلدی یہ خبر پھیلنی چاہیے‘‘ رستم شراب گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتارتے بولا
’’جی ماسٹر!!‘‘ بہادر خان سر جھکائے بولا اور وہاں سے چلا گیا
’’میں وعدہ کرتا ہوں انا کہ اب تمہیں کوئی تکلیف نہیں اٹھانے دوں گا‘‘رستم خود سے مسکرایا
رات کے آخری پہر وہ انا کے کمرے میں داخل ہوا جب اسے پرسکون سوئے دیکھا
’’مائی پرنسز!!‘‘ اسنے دیوانہ وار نظروں سے دیکھتے وہ بڑبڑایا اور خاموشی سے نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی سب مہمانوں نے بھی جانا شروع کردیا تھا۔۔۔۔۔ حال ایک دم خالی ہوچکا تھا سوائے نوید شیخ اور وجدان کی فیملی کے علاوہ سب جاچکے تھے
وجدان وہاں صرف زرقہ کی وجہ سے رکا تھا۔۔۔۔۔۔ وجدان جانتا تھا کہ زرقہ بہت زیادہ ڈرنک کرچکی ہے اور اگر اس حالت میں وہ اسکی یا اپنی فیملی کے سامنے آئی تو کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ جانے کا بہانہ بناتے ہوئے مدہوش زرقہ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گیا
زرقہ نے پوری کوشش کی وجدان کو دور کرنے کی مگر وہ جس حالت میں تھی اس میں وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی
’’بچی بننا بند کرو زرقہ‘‘ اسے گاڑی کی جانب لیجاتے وجدان چڑ کر بولا
’’بچی؟ ہاں بچی ہی تو ہوں میں تمہارے لیے اسی لیے چھوڑ دیا تھا نا مجھے‘‘ زرقہ ہنستے بولی، وجدان آنکھیں گھما کر رہ گیا
اسے گاڑی میں فرنٹ پر بٹھاتے وہ خود ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھنے لگا جب زرقہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا
’’تم نے ایسا کیوں کیا وجدان؟‘‘ زرقہ نے اچانک اس سے سوال کیا
’’تم ابھی ہوش میں نہیں ہو زرقہ بعد میں بات کرے گے‘‘ وجدان نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑوایا
’’بعد میں؟ بعد میں بات نہیں کرنی وجدان مجھے ابھی کرنی ہے۔۔۔۔۔۔ اسی وقت بات کرنی ہے۔۔۔۔۔۔ میں اکیلی نہیں تھی اس راہ پر تم بھی ساتھ تھے۔۔۔۔۔ مگر تم نے مجھے چھوڑ دیا، اکیلی تنہا۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو مجھے انا جیسی دوست مل گئی جس نے مجھے سنبھالا مگر میں نے۔۔۔۔۔ میں نے کیا کیا وجدان میں اسے برباد کردیا ۔۔۔۔۔۔۔ اسے خود اپنے ہاتھوں سے جہنم میں دھکیل دیا‘‘ اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھتے وہ بولی۔۔۔۔۔ آنسوؤں ٹپ ٹپ کرتے آنکھوں سے بہنے لگے
وجدان نے گاڑی چلاتے ایک افسوس بھری نگاہ اس پر ڈالی جو اب خاموشی سے اپنے ہاتھوں کو گھورے جارہی تھی
’’تم نے مجھے کیوں چھوڑا وجدان۔۔۔۔۔۔۔ محبت ایسی تو نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ تم تو بہت بڑے کائر نکلے، بزدل۔۔۔۔۔۔ مانا میری غلطی تھی، بہت بری غلطی تھی مگر چھوڑ دینا تو اسکی سزا نہیں نا تھی‘‘ اسکا قہقہ بلند ہوا جبکہ وجدان کے جبڑے بھینچ گئے۔۔۔ اسکی گرفت سٹئیرنگ ویل پر مضبوط ہوگئی
وہ اسے کیا بتاتا وہ کائر نہیں تھا اور نہ ہی بزدل بس حالات کا مارا تھا۔
’’تمہارا گھر آگیا ہے زرقہ‘‘ وہ گاڑی ولا کے سامنے روکتے بولا۔۔۔۔۔ مگر زرقہ تو کب کی سو چکی تھی۔۔۔۔۔ سو ناچارا وہ گاڑی لیکر اندر داخل ہوا اور پورچ میں کھڑی کرکے زرقہ کو اپنی باہوں میں اٹھائے گھر کے اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔۔ نوکر سب انیکسی میں جاچکے تھے اور گارڈ باہر کھڑا تھا اسی لیے کوئی بھی یہ کاروائی دیکھ نہیں سکا۔۔۔۔۔ زرقہ کے کمرے میں داخل ہوتے اس نے اسے آرام سے بیڈ پر لٹایا اور بہت دیر اسے گھورتا رہا۔۔۔۔۔
’’آئی ایم سوری زرقہ!!‘‘ وہ بس اتنا بول پایا اور وہاں سے چلا گیا
گاڑی چلاتے چلاتے وجدان کو بار بار وہ دن یاد آنے لگا جب اسے اپنی محبت اور دوستی اور خاندان میں سے کسی ایک کو چننا تھا۔۔۔۔ اسکی محبت اسکے خاندان اور دوستی کے خلاف تھی۔۔۔۔ اگر محبت چنتا تو دوست اور خاندان گنوا دیتا۔۔۔۔ اور اگر دوستی اور خاندان چنتا تو محبت۔۔۔۔۔ تب وجدان نے محبت کو خیر آباد کردیا۔۔۔۔ اسے لگا تھا کہ وقت کہ ساتھ ساتھ یہ زخم بھر جائے گا مگر وہ تو ناسور بن گیا تھا اسکی جان کا
زرقہ اور وجدان نے کبھی ایک دوسرے سے کھل کر اظہار محبت نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ مگر نظروں ہی نظروں میں تمام مراحل طے کرلیے تھے۔۔۔۔۔۔۔ زرقہ کی دوستی انہی دنوں کچھ اپر کلاس کی بگڑی امیر زادیوں سے ہوگئی تھی جن میں ایک تاشہ بھی تھی غازان کی بہن۔۔۔۔ وجدان نے اسے بہت بار روکا مگر زرقہ کو یہ آزادانہ زندگی بہت بھائی تھی۔۔۔۔۔ وجدان نے بہت دفع اسے رستم کا بھی ڈراوا دیا اور یہ بھی کہ وہ اسے بتا دے گا مگر زرقہ اپنی محبت کا واسطہ دے کر وجدان کو روک لیتی۔۔۔۔۔۔ تاشہ اور اسکی باقی کی دوستیں اسے بگاڑنے میں اچھا خاصہ کردار ادا کرچکی تھی۔۔۔۔ ڈرنکنگ اور ڈرگز زرقہ کے لیے دن بدن عام ہوتا جارہا تھا اور وہ اسکی نشئی بھی ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسنے گھروالوں سے جھوٹ بول کر پیسے لینا شروع کردیے تھے۔۔۔ اور تو اور چوری بھی کرنا شروع کردی تھی۔۔۔۔۔ ایسے ہی دنوں میں ایک دن وہ سب دوستیں اسے ایک کلب میں لے گئی۔۔۔۔۔ جہاں نشے کی زیادتی کے باعث زرقہ مدہوش ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے تاشہ کے بوائےفرینڈ وکی نے زرقہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تھی جب پولیس کا وہاں چھاپہ پڑ گیا۔۔۔۔۔ تاشہ اور باقی کی دوستیں تو وہاں سے بھاگ گئی مگر زرقہ ہوش مین نا ہونے کی وجہ سے پکڑی گئی۔۔۔۔۔ اور اگلے دن ہر ٹی۔وی چینل اور اخبار کی فرنٹ ہیڈ لائن بھی بن گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ زرقہ جو یہ سمجھتی تھی کہ رستم کو کچھ بھی علم نہیں ہوگا وہ حیران رہ گئی جب رستم نے اسکے سامنے وجدان سے پوچھا کہ وہ کس کو چنے گا، اپنے ماں باپ دوست یا پھر زرقہ۔۔۔۔ وجدان کو زرقہ پر چاہے جتنا مرضی غصہ سہی مگر وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔ مگر حالات ہی ایسے تھے کہ اسے کسی ایک کو چننا تھا تو اس نے زرقہ کو چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ نوید اور ہمدہ بیگم زرقہ سے منہ موڑ چکے تھے ، تب بھی صرف رستم اس کے ساتھ تھا اسی لیے اسے لندن سے پاکستان اپنے ساتھ لے آیا۔۔۔۔۔ مگر رستم چاہتا تھا کہ زرقہ میں خود سے بھی احساس ذمہ داری پیدا ہوں تو اس نے زرقہ کو خود اپنے بل بوتے پر کچھ کرنے کو کہاں مگر اس سے پہلے زرقہ کی تھیرپی کروائی گئی تاکہ وہ پھر سے نارمل ہوسکے کیونکہ زرقہ نشے کی اس قدر عادی ہوچکی تھی کہ اب اسکا نشے کے بنا گزارا نہیں تھا۔۔۔۔
انہی دنوں زرقہ جب کوئی فلیٹ ڈھونڈنے نکلی تو اسے انا ملی جس کے ساتھ وہ فلیٹ شئیر کرنے لگی۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ دونوں میں دوستی بڑھی اور تب زرقہ نے جانا کہ اصل دوست کیسا ہوتا ہے، مگر آج زرقہ نے اسے بھی کھودیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری رات انا کہ ذہن میں رستم کی باتیں گونجتی رہی اسے ایک پل کو بھی نیند نہیں آئی۔۔۔۔۔ صبح بھی فجر پڑھ کر وہ لان میں واک کے لیے نکل آئی جب اسے درختوں کے پاس ایک ہیولا نظر آیا ، وہ آنکھیں چھوٹی کیے اس جانب بڑھی تو وہاں بہادر خان کو دیکھ کر چونکی جو شائد کسی سے محو گفتگو تھا
’’اتنی صبح صبح یہ کس سے فون پر لگا ہے؟‘‘ انا حیران ہوئی
’’خیر مجھے کیا؟‘‘ اس نے کندھے اچکائے مگر وہ بہادر خان کے چہرے پر موجود تاثرات اچھے سے دیکھ سکتی تھی جسکا مطلب تھا کہ وہ کسی ٹینشن میں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیلہ کو ناشتے کا بول کر انا لاؤنج میں آئی اور ٹی۔وی آن کیا مگر جو خبر پڑھنے کو ملی وہ واقعی میں ہوش اڑا دینے کو تھی
سامنے ہی ٹی۔وی پر نا مصرف کل کے ہوئے ہنگامے کی ویڈیو دکھائی جارہی تھی بلکہ نیچے نیچے بڑے بڑے الفاظ میں اسکی اور رستم کی شادی کی خبر بھی دی جارہی تھی۔۔۔۔۔ شائد وہ اس دنیا کی پہلی دلہن تھی جسے ٹی۔وی کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ اگلے ہفتے اسکی شادی ہے
’’افف!!‘‘ انا جھنجھلا کر رہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا اور رستم دونوں کی شادی کی خبر بہت تیزی سے آگ کی مانند پھیلی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر اس آگ نے سب سے زیادہ جسے جلایا تھا وہ تھی تاشہ۔۔۔۔۔ اسکی آنکھیں لہولہان ہوگئیں تھی۔۔۔۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔
’’نہیں!!!!۔۔۔۔۔ نہیں رستم نہیں تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔ رستم!!!!!! میں سب کچھ ختم کردوں گی۔۔۔۔ تمہاری اس بیوی اور بچے دونوں کا مار دوں گی رستم۔۔۔۔۔ کسی کو نہیں چھوڑو گی‘‘ وہ پاگلوں والی حالت میں پورے کمرے کو تہس نہس کرچکی تھی
’’تاشہ۔۔۔۔۔ تاشہ بیٹا دروازہ کھولو‘‘ اسکی ماں کب سے دروازہ بجا بجا کر تھک چکی تھی جب غازان بھاگتا ہوا وہاں آیا
’’مام کیا ہوا؟‘‘ غازان نے ان سے پوچھا
’’غازی وہ تاشہ وہ پاگل ہوگئی ہے دروازہ نہیں کھول رہی‘‘ انہوں نے بتایا
’’اچھا آپ پیچھے ہٹے میں کوشش کرتا ہوں‘‘ کہتے ہی غازان دروازے کے پاس آیا
’’تاشہ تاشہ دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔ تاشہ پلیز دروازہ کھولو‘‘ غازان دروازہ پیٹتے بولا
’’نہیں جاؤ سب چلے جاؤ۔۔۔۔۔۔ کسی کو میری فکر نہیں، کسی کو بھی میری پرواہ نہیں۔۔۔۔۔ جاؤ یہاں سے‘‘ تاشہ اندر سے چلائی
’’تاشہ مجھے ہے تمہاری پرواہ جو کہوں گی کروں گا پلیز دروازہ کھولو‘‘ غازان دروازہ توڑنے کی کوشش کرتے بولا
’’مجھے رستم چاہیے۔۔۔۔۔ جاؤ لیکر آؤ اسے۔۔۔۔۔۔لاسکتے ہوں؟‘‘ تاشہ اندر سے چلائی اور ساتھ ہی ایک اور واز توڑ ڈالا
’’تاشہ میں۔۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں تاشہ تمہیں رستم ضرور ملے گا تاشہ پلیز دروازہ کھولو‘‘ غازان بولا تو اندر سے کلک کی آواز آئی اور ساتھ ہی دروازہ کھل گیا
’’تاشہ!!‘‘ غازان نے فورا اسے تھاما اور نوکروں کو کمرے کی حالت سدھارنے کا اشارہ دیا اور خود اسے اپنی مام کیساتھ لاؤنج میں لے آیا۔
’’مجھے رستم ملے گا نا بھائی؟‘‘ تاشہ نے پوچھا تو غازان نے سر اثبات میں ہلادیا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برائیڈیل شاپ کے اندر وہ اب تک پانچ ڈریسز ٹرائے کرچکی تھی مگر رستم کو کوئی بھی ابھی تک کچھ خاص اسکے شایان شان نہیں لگا تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ انا تھک چکی تھی۔۔۔۔۔ وہ بہت جلدی تھک جاتی تھی اور یہ بات رستم نے بھی نوٹ کی تھی۔۔۔۔ پریگنینسی کی وجہ سے اس کے پیروں میں ابھی سے تکلیف ہونا شروع ہوگئی تھی حالانکہ اسے ابھی صرف دو ڈھائی ہفتے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ آخر کار آٹھواں ڈریس رستم کو اس کے لیے پسند آہی گیا
وہ ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگا تھا۔۔۔۔۔۔ جسکی کمیز سمپل تھی جبکہ سارا کام ڈوپٹے اور لہنگے پر ہوا تھا۔۔۔۔۔ رستم نے اس کے ساتھ صرف برائیڈیل ڈریس خریدا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مہندی، مایوں اور ولیمے کا ڈریس ہمدہ شیخ اور زرقہ کو خریدنا تھا۔۔۔۔۔ خیر یہ الگ بات تھی کہ وہ دونوں ماں بیٹی رستم کے اس فیصلے سے انجان تھی
انا کو اب بھوک لگنا شروع ہوگئی تھی جب رستم اسے فوڈ کورٹ میں لے آیا۔۔۔۔۔۔ سب سے الگ تھلگ موجود ایک ٹیبل پر وہ اسے بٹھائے خود آرڈر دینے چلا گیا۔۔۔۔ انا پانچ منٹ ارد گرد لوگوں کو دیکھتی رہی جب کسی نے اس کے پاس آکر ٹیبل بجایا۔۔۔۔ انا نے سر اٹھائے سامنے دیکھا تو آنکھوں پر یقین سا نہیں آیا۔۔۔۔۔۔ جبکہ سامنے والا انسان اسے خود کو تکتا پاکر مسکراہ دیا
’’عامر؟‘‘ انا فورا اپنے ٹیبل سے اٹھی
’’انا!! کیسی ہوں؟‘‘ محبت سے اس کا چہرے تکتے عامر نے پوچھا
’’میں۔۔۔۔۔ ٹھیک تم کیسے ہوں؟‘‘ انا ایک آدھ نظر ادھر ادھر بھی ڈال لیتی وہ چاہتی تھی کہ رستم کے آنے سے پہلے ہی وہ عامر کو فارغ کردے ۔۔۔۔۔ اسے رستم پر زرا بھروسہ نہیں تھا
’’تمہاری منگنی کی خبر دیکھی۔۔۔۔۔۔ کیسے ٹھیک ہوسکتا ہوں‘‘ عامر اداسی بھری مسکان لیے بولا
’’ویسے جب میں نے تمہیں پرپوز کیا تھا تب تو تم نے ٹائم مانگا تھا اور اب اتنی جلدی شادی، منگنی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جب محبت کی ہے تو اسے اپنانے میں دیری کیسی؟‘‘ یہ آواز، انا آنکھیں میچ گئی۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ عامر نے رستم کو دیکھا، جو کسی یونانی بادشاہ سے کم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ عامر کی بات کاٹتے رستم انا کے کندھے پر ہاتھ رکھے مسکرا کر بولا
’’ہاں شائد انا کو مجھ سے محبت نہیں تھی‘‘ عامر بجھے لہجے میں بولا تو انا نے افسوس بھری نظر اس پر ڈالی
’’شائد نہیں یقینی طور پر انا کو تم سے محبت نہیں تھی اسی لیے اس نے تمہیں انکار کردیا‘‘ رستم نے انا کو بلکل اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔۔۔۔۔ انا نے بھی کوئی مزحمت نہیں کی تھی
’’کیا سچ میں انا؟‘‘ اب کی بار عامر نے انا سے پوچھا
’’بتاؤ انا جواب دوں‘‘ رستم نے بھی انا کو دیکھا جبکہ وہ تھوک نگل کر دونوں کو دیکھنے لگی
’’ایم سوری عامر میں نے ہمیشہ تمہیں ایک دوست کی نظر سے دیکھا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں‘‘ انا عامر کی جانب دیکھے بنا ہچکچائے بولی
’’ارے اس میں سوری کیسا بےبی ۔۔۔۔۔ وہ پڑھا لکھا انسان ہے۔۔۔۔۔۔ سمجھدار ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسے سمجھ میں آگیا ہوگا‘‘ رستم لہجہ کچھ زیادہ ہی شیریں رکھتے بولا مگرانا کو معلوم تھا کہ اب اسکی خیر نہیں۔۔۔۔۔ وہ رستم سے واقعی کسی اچھے کی امید نہیں رکھ سکتی تھی۔
’’اوکے پھر میں چلتا ہوں۔۔۔۔ اللہ حافظ‘‘ اس نے ہاتھ انا کی جانب بڑھایا
’’اللہ حافظ!!‘‘ اسکے ہاتھ کو سختی سے دبوچتے رستم سرد لہجے میں بولا تو انا کے ساتھ ساتھ عامر بھی کانپ گیا اور وہاں سے چلتا بنا
’’گھر جا کر مجھے ہر ایک بات بتانا۔۔۔۔۔۔۔ پوری بات الف تا یے‘‘ انا کے کان میں سرگوشی کرتا رستم اسے ساتھ لگائے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ جبکہ اس کے بعد انا کی بھوک تک مر گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’غازان‘‘ مسز نثار نے اسے پکارا
’’جی مام؟‘‘ وہ جو لان میں کافی پیتے چہل قدمی کررہا تھا اچانک رکا
’’تم نے ایسا کیوں کیا غازان یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم اپنا وعدہ کبھی بھی پورا نہیں کر سکوں گے تم نے ایسا وعدہ کیوں کیا تاشہ سے؟‘‘ وہ
’’تاشہ سو گئی؟‘‘ اس نے سوال کیا
’’یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے غازان‘‘ وہ جھنجھلائی
’’آپ کو کس نے کہاں کہ میں وعدہ پورا نہیں کرسکوں گا۔۔۔۔۔ تاشہ کو رستم چاہیے اور رستم تاشہ کو ملے گا‘‘ غازان مضبوط لہجے میں بولا
’’مگر کیسے غازان ، کیا تم رستم کو نہیں جانتے‘‘انہوں نے آگاہ کیا
مگر آپ مجھے نہیں جانتی مام۔۔۔۔ ہر انسان کی ایک کمزوری ہوتی ہے۔۔۔۔۔ رستم کی بھی ہے مجھے تو بس اسکا استعمال کرنا ہے‘‘ غازان مکار ہنسی ہنستے بولا تو مسز نثار بھی مسکرا دی
’’تمہارا مطلب انا؟‘‘ وہ چہکی
’’نو مام انا اسکی کمزوری نہیں اسکی طاقت ہے مام۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے زرقہ‘‘ غازان کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے
’’زرقہ۔۔۔۔۔ زرقہ کیسے؟‘‘ وہ حیران ہوئی
’’کم آن مام رستم سب سے چھپا سکتا ہے مگر مجھ سے نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر رستم کی کوئی کمزوری ہے تو وہ ہے اسکی چھوٹی بہن زرقہ۔۔۔۔۔۔ یاد نہیں آپکو کمینے نے کیسے اسے اس کلب والے سین سے بچالیا تھا۔۔۔۔۔ رستم کی صرف ایک کمزوری ہے اور وہ ہے زرقہ شیخ۔۔۔۔۔ انا کبھی بھی رستم کی کمزوری نہیں بنی۔۔۔۔۔‘‘
’’اور یہ بات تمہیں کیسے پتہ؟‘‘ انہوں نے آنکھیں چھوٹی کیے پوچھا
’’اپنے اپنے سورسز مام‘‘ وہ مسکرایا
’’خیر جو بھی ہے زرقہ کی وجہ سے رستم کیسے تاشہ کو اپنائے گا؟‘‘ انہیں ابھی بھی کچھ سمجھ نہیں آیا
’’کیوں نہیں اپنائے گا۔۔۔۔۔ بہن کا گھر بچانے کے لیے بھائی اتنی قربانی تو دے سکتا ہے نا؟‘‘ غازان ہنس کر بولا
’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا غازان‘‘وہ سخت جھنجھلائی
’’بس آپ اپنے بیٹے کی شادی کی تیاریاں شروع کرے مام۔۔۔۔۔۔ غازان نثار انصاری ویڈز زرقہ شیخ کی نیوز بہت جلد پھیلنے والی ہے‘‘ وہ مکروہ مسکراہٹ سجائے بولا تو مسز نثار نے آنکھیں بڑی کیے حیرت سے اسے تکا
’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا غازان کیا بکواس کررہے ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمہاری اور زرقہ کی شادی نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔ نا قانونی طور پر اور نا اسلامی طور پر پھر بھی تم نے ایسا سوچا؟‘‘ انہیں دھچکا ہی تو لگا تھا
’’قانونی طور پر نہیں ہوگی ایسا تو تب ہوگا نا جب قانون کو سچ معلوم ہوگا اور اسلامی طوررر پر۔۔۔۔۔۔ آپ فکر مت کرے اللہ کو منانا کونسا مشکل کام ہے‘‘ وہ انکا کندھا تھپتھپائے سیٹی بجاتے وہاں سے چلا گیا جبکہ مسز نثار کو چار سو چالیس والٹ کا جھٹکا لگ چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سر آپ سے ملنے مسٹر غازان انصاری آئے ہے‘‘ نوید شیخ کے پی۔اے نے انہیں انفارم کیا۔۔۔۔۔۔ غازان کا نام سنتے ہی انکے ماتھے پر انگنت بل آگئے۔۔۔۔۔۔ یہ نام جب بھی آتا کوئی اچھی خبر لیکر نہیں آتا
’’ہمم بھیج دوں اندر۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے اجازت دی
’’گڈ مارننگ ڈیڈ!!‘‘ شوخ سا غازان ان کے سامنے آبیٹھا جبکہ انہوں نے غصے سے اسے گھورا
’’ارے یہ کیا آپ کا بیٹا آیا ہے اور آپ اسے گھور رہے ہے۔۔۔۔۔ بیڈ مینرز ڈیڈ‘‘ وہ ٹیبل پر اانگلیاں بجاتے بولا
’’تم یہاں کیوں آئے ہوں۔۔۔۔ دفع ہوجاؤ‘‘ وہ چلائے
’’اوہ اوہ۔۔۔۔۔ تمیز سے مسٹر نوید ۔۔۔۔۔۔۔ مت بھولو کہ تمہارے سامنے کوئی ایرا غیرہ نہیں بلکہ تمہارا بیٹا بیٹھا ہے‘‘ غازان سخت لہجے میں بولا
’’کیا چاہیے؟‘‘ وہ جانتے تھے کہ اسے ضرور جچھ چاہیے۔۔۔۔۔ ان کے پوچھنے پر غازان ہنسا
’’کتنے اچھے سے جانتے ہے نا آپ مجھے۔۔۔۔۔ تو سنے مجھے زرقہ چاہیے‘‘ ٹیبل پر تھوڑا آگے کو جھکتے وہ بولا
’’کیا بکواس ہے یہ!!‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دھاڑے
’’بکواس نہیں حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔۔ بکواس تو تب ہوتی جب میں اسکا ایک رات کا سودا کرتا بلکل ویسے جیسے آپ نے میری ماں کا کیا تھا‘‘ غازان کی آنکھیں لال ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ اسکے تیور نوید شیخ کو ڈرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اچانک ہی انہیں سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی
’’میں تو بس آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔۔۔۔ اپنے لیے۔۔۔۔۔ یقین مانے بہت خوش رکھو گا اسے‘‘ وہ ہنستے بولا
’’ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ہوش میں تو ہوں۔۔۔۔۔ وہ رشتے میں بہن لگتی ہے تمہاری‘‘ وہ دھاڑے
’’آواز نیچی شیخ صاحب۔۔۔۔۔۔۔ میں تو بلکل ہوش میں ہوں مگر آپ اپنے ہوش گنوا چکے ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ میں ایک انصاری، زرقہ شیخ تو ہم بہن بھائی کیسے ہوئے۔۔۔۔۔۔ اب پلیز یہ مت کہیے گا کہ اسلام میں سب مسلمان آپس میں بہن بھائی ہے۔۔۔۔۔ یہ کہی نہیں لکھا اسلام میں‘‘ وہ مزاق کرتے بولا
’’جو مرضی بک لو مگر ایسا ہرگز نہیں ہوگا‘‘ وہ چیخے
’’ٹھیک ہے پھر آپ نے میرے لیے کوئی اور آپشن بھی نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔۔ آپ کے پاس صرف رستم کے ولیمے تک کا وقت ہے۔۔۔۔۔ جواب سوچ کر رکھے۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر جواب میری مرضی کے خلاف ہوا تو بہت جلد آپکی اور میری ڈی۔این۔اے رپورٹس پوری میڈیا میں نشر ہوجائے گی اور پھر جو حال آپکا رستم کرے گا اس سے تو ہم سب واقف ہیں۔۔۔۔ کیوں صحیح بولا نا میں نے‘‘ میٹھے لہجے میں انہیں وارننگ دیتے وہ بولا اور کمرے سےباہر نکل گیا
نوید شیخ نے غصے سے اسکی پیٹھ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔ غازان بھی ان کی رنگین راتوں میں سے ایک رات کے بعد کا گناہ تھا جو اب انکی جان کا دشمن بن گیا تھا
مسز نثار غازان کی ماں ایک بہت خوبصورت عورت تھی جس پر ہر مرد دل ہار دیتا مگر وہ لو کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔ جوانی کا جوبن اور پھر کچھ اپنی خوبصورتی کا احساس۔۔۔۔۔ انہون نے بہت جلد نثار انصاری کو اپنی خوبصورتی کے جال میں پھنسا لیا تھا جو کہ عمر میں ان سے بیس سال بڑے تھے۔۔۔۔۔ اور شکل و صورت بھی عام ہی تھی۔۔۔۔۔۔ نثار سے شادی کے بعد مسز نثار ہر پارٹی کا ایک اہم موضوع ہوتی ایسی ہی ایک پارٹی میں انکی ملاقات نوید شیخ سے ہوئی جن کی آنکھوں میں انکی خوبصورتی کو دیکھ کر عجیب سی چمک در آئی جس سے مسز نثار بھی آشنا ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ نثار انصاری کے ساتھ نکاح میں ہوتے ہوئے بھی انکا افئیر نوید شیخ کے ساتھ شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔ جب بھی نثار انصاری بزنس کے کسی کام کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتے تو وہ دن نوید شیخ کے ساتھ گھومنے میں اور راتیں روشن کرنے میں بتائی جاتی اور اب غازان ایسی ہی ایک رات کا نتیجہ تھا۔۔۔۔۔۔ نثار انصاری تو مرتے دم تک اس بات سے نا آشنا تھے کہ غازان انکا بیٹا نہیں۔۔۔۔۔۔ مگر غازان کو یہ بات معلوم ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ اس نے جب اپنی ماں سے سوال جواب کیے تو انہوں نے نہایت پوشیاری سے سارا الزام اپنے مرحوم شوہر اور نوید شیخ پر ڈال دیا جس کی وجہ سے غازان کو اس شخص سے نفرت ہونے لگ گئی جس نے اسکی ماں کی عزت کو چند پیسوں کے عوض تولا تھا
نوید شیخ کو اب اپنی عیاش زندگی کی یادیں آتی تو خود پر غصہ آتا۔۔۔۔۔۔ کاش کہ وہ اپنی جوانی کی یہ راتیں کسی کوٹھیں پر روشن کرتے، جیسا اب کرتے تھے۔۔۔۔ ہاں یہ سچ ہے۔۔۔۔۔۔ نوید شیخ کی عیاش فطرت اب بھی نہیں بدلی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ اس عمر میں بھی کوٹھے پر جاتے تھے۔۔۔۔۔۔ ڈر انہیں غازان کا نہیں تھا بلکہ رستم کا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رستم نہیں تھا جسے وہ کنٹرول کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ بلکہ یہ رستم اب انہیں کنٹرول کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
نوید شیخ بہت دیر تک سوچتے رہے مگر جب کسی نتیجے ہر پہنچ نہیں پائے تو اپنی گاڑی کی چابی لیے وہ پھر اپنا پورا دن ایک کوٹھے پر بتانے چلے گئے۔۔۔۔۔۔ اس بات سے بےخبر کہ وہ کسی کی نظروں کی زد میں تھے
’’بیڈ موو۔۔۔۔۔۔ ڈیڈڈڈڈ‘‘ انکے پیچھے اپنی گاڑی لگائے غازان ہنس کر خود سے بولا۔۔۔۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ یہ راستہ کس طرف جاتا تھا
’’اب تو پکا کوئی نا کوئی بریکنگ نیوز ضرور بنے گی۔۔۔۔۔ آئے بڑے عزت دار۔۔۔۔‘‘ غازان غصے بڑبڑایا
اسے وہ دن یاد آیا جب وہ ان کے پاس اس امید سے آیا تھا کہ وہ اسکی ماں سے نکاح کرلے اور اپنی غلطی کو سدھار کر غازان کو اپنا بیٹا مان لے۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ نا صرف اس پر ہنسے بلکہ اسے ایک گندہ خون کہہ کر دھتکار بھی دیا اور یہ بھی کہ وہ ایک عزت دار آدمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور غازان جیسے گند کے پوٹلے سے انکا کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔۔۔
غازان کو رستم سے نفرت تھی کہ ہر وہ چیز جس پر وہ برابر کا حق رکھتا تھا رستم اسکا اکیلا وارثٖ بنے بیٹھا تھا
اور اب یہ انتقام کی آگ ہر کسی کو جھلسا دینے کے در پر تھی۔۔۔۔۔۔
......