’’بہادر خان!!‘‘ کمرے سے باہر نکلتے ہی رستم نے اسے پکارا
’’جی ماسٹر؟‘‘ وہ موؤدب سا بولا
’’بہادر خان تمہارے پاس صرف کل شام تک ٹائم ہے۔۔۔۔۔۔ میری منگنی کی سب ارینجمنٹس کرواؤ۔۔۔۔۔۔۔ میڈیا، نیوز سب کو لوگ آئے۔۔۔۔۔۔ سب بزنس مین، سپورٹس مین۔۔۔۔۔ اہم سیاسی شخصیات سب کو مدعو کروں۔۔۔۔۔۔۔ لائیو کووریج ہونی چاہیے پورے فنکشن کی۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹاپ کی بیوٹیشنز کو بک کروں اپنی ملکہ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بیسٹ ہوٹل میں سب ارینجمنٹس چاہیے۔۔۔۔۔۔ کھانے کی ڈشز تقریبا پچیس کے قریب ہونی چاہیے۔۔۔۔۔۔ سٹارٹر کورس سے لیکر مین کورس تک سب کچھ ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔ پاکستانی، چائینیز، اٹالین سب ڈشز وہاں موجود ہو۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک چیز پرفیکٹ ہوننی چاہیے‘‘ سیڑھیاں اترتا وہ اسے ہدایات دیتا جارہا تھا
’’جو کم ماسٹر۔۔۔۔۔ مگر ماسٹر؟؟‘‘ بہادر خان تھوڑا سا ہچکچایا
’’مگر کیا؟‘‘ رستم نے رک کر اس سے پوچھا
’’مگر ماسٹر منگنی تو دو دن بعد تھی نا؟‘‘ بہادر خان نے سوال کیا
’’وہ تھی مگر اب کل ہوگی۔۔۔۔۔۔ تمہاری ملکہ کو زیادہ ٹائم دینا غلط ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ میں جلد از جلد اسے اپنے ساتھ باندھ لینا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ تم سمجھ رہے ہوں نا؟‘‘ رستم بولا تو بہادر خان نے سر اثبات میں ہلادیا
’’اور ہاں ایک اور بات۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ گھر کے خارجی دروازے کی دہلیز پر رکا
’’جی ماسٹر؟‘‘ بہادر خان فورا چوکنا ہوا
’’سب سے پہلا دعوت نامہ نوید شیخ کو جانا چاہیے‘‘ وہ پراسرار سا مسکرایا تو بہادر خان بھی مسکراہ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا سو کر اٹھی تو مغرب کی آذان ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ انا پانچ وقت کی نمازی نہیں تھی، مگر آج اسکا شدت سے خدا سے بات کرنے کا دل چاہا تھا
وہ بوجھل طبیعت کے ساتھ بیڈ سے اٹھی اور وضو کرنے واشروم میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔ وضو کے بعد اس نے پورا کمرہ چھان مارا مگر اسے جائےنماز نہیں ملی۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کبرڈ کھولا اور وہاں سے ایک بیڈ شیٹ نکال کر اسے اچھے سے زمین پر پھیلایا
وہ قبلہ رخ نہیں جانتی تھی اسی لیے سیدھے جائےنماز بچھا لی اور نیت باندھی۔۔۔۔۔۔۔ نماز سے فارغ ہوکر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا۔۔۔۔۔۔۔ مگر آنکھوں سے بہتے اشک ہاتھوں کو بھیگا گئے۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اسنے دوںوں ہاتھ چہرے پر رکھے اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی
’’اللہ۔۔۔۔ اللہ۔۔اللہ!!!!!!!!!‘‘ اللہ کا نام لیتی وہ اونچی آواز میں رونا شروع ہوگئی
اس کے پاس مانگنے کوکچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ کرنے کو کوئی شکوہ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ وہ تو بس روئے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسکے آنسوؤں ہی اسکے الفاظ تھے
آدھا گھنٹے رو لینے کے بعد اس نے ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا
’’میری مدد کرنے اللہ۔۔۔۔۔۔ مجھے صابر رکھنا‘‘ اسنے دعا مانگی اور ہاتھ چہرے پر پھیر لیے
اب وہ خود کو پرسکون محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔ اس نے امید بھری نگاہوں سے آسمان کو دیکھا
اسے بھوک ستانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور کچن کی تلاش میں باہر نکلی۔۔۔۔۔ پانچ منٹ بعد اسے کچن مل گیا تھا۔۔۔۔۔ اس نے فریج کھولی اور اس میں سے جوس کا ڈبہ نکالا
گلاس میں جوس نکالے اس نے منہ سے لگایا ہی تھا کہ اس کسی کی موجودگی کا احساس ہوا
’’آپ کو کچھ چاہیے ملکہ؟‘‘ پراسرار سی آواز سے اسکے ہاتھ سے خوف کے مارے گلاس چھوٹ گیا اور زمین پر گرکر کرچی کرچی ہوگیا
بہادر خان نے اسکی ایسی حالت دیکھی تو وہ ہلکا سا مسکرایا
’’نن۔۔۔نہیں‘‘ انا ہکلائی۔۔۔۔۔۔ نجانے کیوں مگر یہ شخص اسے رستم سے زیادہ خوفناک لگتا تھا
بہادر خان نے ایک نظر نیچے زمین پر گرے ٹوٹے کانچ کو دیکھا اور پھر انا کی شکل۔۔۔۔۔
’’جی ٹھیک‘‘ موؤدب سا بولتا وہ مڑا
بہادر خان کو دیکھ کر انا کے سامنے ڈاکٹر کنول کا بےجان چہرہ آگیا۔۔۔۔۔ اسکے اندر غصے اور نفرت نے ایک بار پھر بھرپور انگڑائی لی
’’تم نے ایسا کیوں کیا بہادر خان‘‘ اسکی پشت کو تکتے انا نے غصہ ضبط کرتے سوال کیا
’’میں نے کیا کیا ملکہ؟‘‘ اس نے منہ انا کی طرف موڑ کر ٹھنڈے لہجے میں پوچھا
’’کیا تم نہیں جانتے تم نے کیا کیا۔۔۔۔۔۔ ایک انسان کی زندگی برباد کردی، ایک عورت کی نسوانیت کی دھجیاں اڑا دی اور پوچھ رہے ہوں کہ کیا؟ تم میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں بہادر خان؟‘‘ انا کی آنکھیں لال ہوچکی تھی
’’میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس پر مجھے شرمندہ ہونا پڑے ملکہ‘‘ انا کے بلکل سامنے وہ آکھڑا ہوا
’’مجھے لگا تھا کہ تم میں شائد تھوڑی بہت انسانیت ہوگی مگر تم تو رستم سے بھی بڑے جلاد نکلے بہادرخان۔۔۔۔تمہیں زرا رحم زرا شرم نہیں آئی اپنے کیے پر۔۔۔۔ وہ تمہاری بڑی بہنوں کی طرح تھی۔۔۔۔۔۔ تم نے تو سفاکیت کی سب حدیں پار کردی ۔۔۔۔۔ تم تو رستم سے بھی بڑے نامرد نکلے بہادر خان" حلق کے بل چلاتی وہ آنکھوں میں آنسوؤں لیے بولی
اچانک اسے اپنے دائیں گال پر چھبن محسوس ہوئی۔۔۔۔ حیرت سے آنکھیں پھاڑے بہادر خان کو دیکھنے لگی۔۔۔ جس کی انگلیوں کی چھاپ اسکے چہرے پر تھی
’’زبان سنبھال کر ملکہ!!! میں ماسٹر نہیں ہوں جو آپ کی بدتمیزیاں برداشت کروں۔۔۔۔ آئیندہ سے اپنی زبان پر قابو رکھیے گا۔۔۔۔ ویسے بھی عورتیں زیادہ زبان چلاتی اچھی نہیں لگتی اور جو چلاتی ہے انکی زبان کاٹنے میں میں دیر نہیں لگاتا۔۔۔۔ سمجھی" اسے انگلی دکھاتا وہ دوسرے ہاتھ سے اسکے سامنے خنجر لہرانے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہادر خان تو وہاں سے چلا گیا جبکہ روتی ہوئی انا بھی فورا سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی۔۔۔۔ جمیلہ جو کہ رستم کی خاص ملازمہ تھی۔۔۔ جسے اس نے انا کے لیے اب رکھا تھا وہ یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔۔ بہادر خان کے کچن سے نکلتے ہی وہ دروازے کی اوٹ میں چھپ گئی۔۔۔۔۔۔۔ اسے شروع سے ہی بہادر خان پسند نہیں تھا اور یہ تو اچھا موقع تھا اسے رستم کی نگاہوں میں گرانے کا۔
وہ پرسکون سی مزے سے رات کا کھانا تیار کرنے لگ گئی
۔۔۔۔۔۔
رستم اپنی اور انا کی شاپنگ کرنے گیا تھا۔۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ کل جب انا کو سجایا جائے تو سب کچھ اسکی پسند کا ہوں۔۔۔۔ اس کے مطابق۔۔۔۔ وہ آج بہت خوش تھا اور اسکی خوشی کا اندازہ اس کے چہرے سے با آسانی لگایا جاسکتا تھا
وہ خوش اور فریش سا گھر میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔ جہاں ایک عجیب سناٹا تھا
اس نے شاپنگ بیگز ٹیبل پر رکھے اور خود صوفہ پر بیٹھ گیا
’’صاحب پانی‘‘ جمیلہ نے پانی کا گلاس اس کے سامنے کیا۔۔۔۔۔۔ جسے وہ ایک ہی سانس میں پی گیا
’’جمیلہ تمہیں میں نے ملکہ کی دیکھ بھال کا کہا تھا نا؟ کہاں ہے وہ؟ کچھ کھایا اس نے؟‘‘ رستم نے جمیلہ سے پوچھا
’’وہ صاحب جی۔۔۔۔ وہ؟‘‘ جمیلہ کی اداکاری شروع ہوئی
’’وہ صاحب جی بیگم صاحبہ تو کمرے سے ہی نہیں نکلی۔۔۔۔۔۔ جی میں گئی تھی کافی بار مگر انہوں نے مجھے بھگا دیا‘‘ جمیلہ نظریں نیچی کیے بولی
’’کیا!!!!!!!! اور یہ تم مجھے اب بتارہی ہوں۔۔۔۔۔ بتا کر بھی گیا تھا کہ اسکی حالت کیسی ہے۔۔۔۔۔۔ اسے کچھ نا کچھ کھانے کو دیتی رہنا مگر تم۔۔۔۔۔‘‘ رستم اس پر چلایا
’’صاحب جی میری کوئی غلطی نہیں۔۔۔۔ جی وہ سب تو بہادر خان کی وجہ سے ہوا ہے‘‘ جمیلہ نے اپنا تیر چلایا
’’بہادر خان۔۔۔۔۔ بہادر خان بیچ میں کہاں سے آگیا؟‘‘ رستم غصے سے پھنکارا
’’صاحب جی وہ۔۔۔۔۔‘‘ جمیلہ نے چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر کسی کو نا پاکر رستم کو آج کی ساری کاروائی سنا دی۔۔۔۔ اپنی طرف سے دو تین لگانا وہ نہیں بھولی تھی
اپنی بات ختم کیے اس نے رستم کی جانب دیکھا جس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔۔۔۔۔ جمیلہ کا دل اسکی آنکھیں دیکھ کر کانپ اٹھا
ہاتھ میں پکڑے گلاس پر رستم کی گرفت سخت ہوئی تو وہ ٹوٹ کر اسکے ہاتھ میں چبھ گیا
’’یا اللہ!!‘‘ جمیلہ ڈوپٹا ہونٹوں پر رکھتے بڑبڑائی
اتنا تو وہ جان گئی تھی کہ اب بہادر خان کی خیر نہیں
رستم نے ایک غصیلی نظر جمیلہ پر ڈالی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کمرے میں داخل ہوا تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی اور انا کی جانب بڑھا جو کروٹ لیے بیڈ پر لیٹی تھی۔۔۔۔ رستم نے اسے دیکھا جس کی آنکھیں سختی سے بند تھی اور جسم کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ جاگ رہی تھی
اسکے چہرے پر آئی لٹوں کو رستم نے کان کے پیچھے اڑیسا اور اسکے چہرے پر موجود آنسوؤں کے نشانوں کو غور سے دیکھنے لگا۔۔۔ جب نظریں اسکے دائیں گال پر جم گئی جس پر انگلیوں کے نشان کی چھاپ واضع تھی۔۔۔۔۔۔ انا کے گال پر اب رستم کے ہاتھ سے بہتے خون کے نشان بھی لگ چکے تھے
’’پرنسز!!‘‘ رستم نے اسے سرگوشی نما آواز میں پکارا
انا خاموش رہی۔۔۔۔۔۔۔
’’پرنسز اٹھ جاؤ۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر میں نے اٹھایا تو شائد تمہیں میرا انداز پسند نہیں آئے‘‘ رستم کا لہجہ اب کی بار وارننگ زدہ تھا۔۔۔۔۔ انا نے جھٹ سے آنکھیں کھولی اور اٹھ بیٹھی۔۔۔۔۔۔ رستم مسکرایا۔
’’کس نے کیا یہ؟‘‘ اسکے گال پر ہاتھ رکھے رستم نے پوچھا۔۔۔۔ آنکھیں اور لہجہ دونوں سرد اور بےجان تھے
’’کک۔۔۔کسی نے نہیں۔۔۔۔۔ وہ۔۔وہ میں گر گئی تھی‘‘ اپنے خشک لبوں کو تر کرتی انا بولی
’’پرنسز یہ کس نے کیا؟‘‘ اب کی بار رستم کی پکڑ اس کے چہرے پر سخت ہوئی
’’بب۔۔۔بہاد خان نے‘‘ انا نے جواب دیا اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے
رستم کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔۔ اس نے انا کی کلائی تھامی اور اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا نیچے لے آیا
’’بہادر خان۔۔۔۔۔۔۔ بہادر خان‘‘ رستم دھاڑا۔۔۔۔ انا کا حلق تک خشک ہوگیا رستم کی دھاڑ سن کر
’’جی ماسٹر!!‘‘ بہادر خان فورا حاضر ہوا
’’تہہ خانے میں آؤ ابھی‘‘ رستم کا لہجہ بےتاثر تھا
بہادر خان بھی اس کے پیچھے چل دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی رستم انا کو ساتھ لگائے اس ٹیبل کی جانب لے آیا جہاں مختلف قسم کے آلات رکھے گئے تھے۔۔۔۔۔ جو کہ ٹارچر کے لیے استعمال ہوتے تھے
’’کون سا ہاتھ اٹھایا تھا اس نے تم پر پرنسز؟" انا کو اپنے ساتھ لگائے سرد نگاہیں بہادر خان پر جمائے اس نے سرد بھاری لہجے میں پوچھا
’’رر۔۔۔۔رستم پلیز!!!!" انا منمنائی
’’کونسا ہاتھ اٹھایا تھا؟" وہ دھاڑا جس پر انا کی چیخ نکلی وہ کانپنے لگی۔۔۔ اسے پھر سے اٹیک ہورہا تھا
’’ششش۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ ششش۔۔۔ ریلیکس" اسے اپنے ساتھ لگائے رستم ہلکی آواز میں بولا جبکہ سرد نگاہیں ابھی بھی بہادر خان پر ٹکی تھی
’’کونسا ہاتھ تھا بہادر خان؟" انا کو یونہی اپنے سینے سے لگائے اس نے اب بہادر خان سے پوچھا۔۔۔ جس پر اس نے اپنا بائیاں ہاتھ آگے کردیا
رستم نے سرد نگاہوں سے اس ہاتھ کو دیکھا جس نے اسکی انا کو تکلیف دی تھی
’’تو اب تمہارے ساتھ کیا کیا جائے بہادر خان؟" رستم نے اسے پوچھا۔۔۔۔ لہجے کسی بھی احساس سے عاری تھا
جیسا آپ چاہے ماسٹر" بہادر خان کا وہی موؤدب انداز
ہمم۔۔۔۔" انا کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے اسنے ہنکارا بھرا
انا کو آرام سے کرسی پر بٹھائے وہ بہادر خان کی طرف بڑھا اور پھر وہاں موجود ٹیبل سے ایک چاقو اٹھائے اسکا معائنہ کیا
’’تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بہادر خان" اور پھر بہادر خان کی دلخراش چیخیں پورے کمرے میں گونجی اور بہتا خون پورے ٹیبل کو بھیگا گیا تھا
سب سے پہلے رستم نے اسکی انگلیاں کاٹی اور اس کے بعد پورا ہاتھ
’’وہ میری ہے صرف میری۔۔۔۔۔۔ اسکو صرف میں رلاسکتا ہوں۔۔۔۔ صرف میں اسے تکلیف دے سکتے ہوں۔۔۔۔۔ اسے خوشی غم۔۔۔۔۔ دکھ سکھ۔۔۔۔۔۔۔ تکلیف۔۔۔۔۔۔ مرہم۔۔۔۔۔۔ ہر ایک احساس دینے کا حق ہے میرے پاس۔۔۔۔۔۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اسے چھونے کی‘‘ وہ جنونی ہوچکا تھا
بہادر خان کی چیخیں اور انا کی فریادیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں سے مانو لہو ٹپک رہا تھا
بہادر خان ایسا کیسے کرسکتا تھا۔۔۔۔ وہ صرف اسکی ہے صرف اسکی انا۔۔۔۔۔ اسے چھونے کا ، اس پر حق جتانے کا۔۔۔۔۔ اسے ہنسانے کا ، رلانے۔۔۔۔۔ کوئی بھی حق کسی کے پاس نہیں سوائے اسکے
’’رستم۔۔۔۔۔۔۔ رستم نہیں۔۔۔۔۔۔ رستم پلیز!!!!‘‘ انا کی حالت بگڑ رہی تھی مگر وہاں پرواہ ہی کسے تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔
لائٹ گرے کلر کی میکسی۔۔۔۔۔۔ جس پر ڈائمنڈز کا ہلکا سا کام ہوا تھا اسکے ساتھ گرے ہی کلر کا بھاری کارآمد ڈوپٹا جس کے بارڈر پر خوبصورت سا کام گیا تھا۔۔۔۔ زیب تن کیے وہ واقعی ملکہ معلوم ہورہی تھی۔۔۔ خوبصورتی سے کیے گئے میک اپ نے اسکے چہرے کے نقوش کو نکھار دیا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر وہ خود کیا تھی پتھر کی بےجان مورت۔۔۔۔۔۔ جو شیشے کے سامنے بیٹھی یک ٹک خود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ اسکی زندگی یوں بدل جائے گی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا
آج وہ اس انسان کے نام کی انگوٹھی پہننے جارہی تھی جس سے اسے سب سے زیادہ نفرت تھی۔۔۔۔۔۔۔ سب لوگ اس قسمت پر رشک کررہے تھے۔۔۔۔۔ اسے خوش قسمت کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ خوش کہاں تھی۔۔۔۔۔ کیا کسی نے پوچھا تھا اس سے کہ وہ یہ سب چاہتی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔ کیا کسی نے جاننا چاہا کہ اگر وہ یہ سب چاہتی بھی ہے تو وجہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں اسے کون سنتا۔۔۔۔ کوئی نہیں۔۔۔۔ کسی کو بھی اس سے غرض نہیں تھی
’’پرنسز!!!‘‘ بلیک پینٹ کوٹ پہنے۔۔۔۔۔ مہنگی ترین گھڑی ہاتھ میں لگائے نفاست سے بال سیٹ کیے وہ اندر کمرے میں داخل ہوا اور انا کے پیچھے جاکھڑا ہوا۔۔۔۔۔ جس نے بےجان آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔ رستم اسے دیکھ کر مسکرایا مگر وہ مسکراہ بھی نہیں سکی
ایسا نہیں تھا کہ کسی کو اس کے دل کی حالت کا علم نہیں تھا۔۔۔۔۔ وہاں دو لوگ تھے جو اس کی حالت سمجھ سکتے تھے۔۔۔۔۔ ایک رستم اور دوسری زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں جانتے تھے اس کی تکلیف کو۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ دونوں خود غرض نکلے۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو اسکی پرواہ نہیں تھی
’’چلے!!!‘‘ یہ اجازت نہیں حکم تھا۔۔۔۔۔ انا کی نظروں کو اگنور کیے رستم نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔۔۔ مگر انا نے نہیں تھاما
رستم کو اب غصہ آرہا تھا وہ کل سے ایسی ہی تھی۔۔۔۔۔ رستم کو کوئی ری ایکشن نہیں دے رہی تھی
’’یہ ہاتھ جب بھی بڑھاؤ تھام لینا نہیں تو بہادر خان والا حال کروں گا‘‘ اسکا خود تھامے رستم اس کے کان کے پاس جھکتا ہولے سے بڑبڑایا اور انا کی سانسیں کھینچ لے گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مام۔۔۔مام پلیز میری بات سنے۔۔۔۔۔۔ مام پلیز یہ ضروری ہے‘‘ زرقہ کب سے ان کے آگے پیچھے بھاگ رہی تھی جو سب نوک چاکر سے کہہ کر گفٹس اور باقی کا سامان گاڑی میں رکھوا رہی تھی
’’زرقہ اس وقت ہم لیٹ ہورہے ہیں اور مین بلکل بھی تمہاری کوئی کہانی سننے کے موڈ میں نہیں ہوں‘‘ ہمدہ بیگم اسے ٹوکتے بولی
’’ارے بھئی آرام سے دلہن کا سیٹ ہے‘‘وہ نوکر کو دیکھتی بولی
’’مام پلیز سن لے۔۔۔۔۔ اگر آپ نے نہیں سنا تو بہت غلط ہوجائے گا‘‘ زرقہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ انا کو مزید اس جہنم میں زندگی گزارنے نہیں دے گی
’’ہاں بولو۔۔۔۔۔ تم بول لو‘‘ ہمدہ بیگم نے تھک کر اسے اجازت دے ہی دی
’’مام انا وہ اس شادی سے خوش نہیں ہے مام۔۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔۔ بھائی نے زبردستی۔۔۔۔۔‘‘
’’بس زرقہ بہت ہوگئی تمہاری بکواس۔۔۔۔۔ اب ایک اور لفظ نہیں‘‘ ہمدہ بیگم اسکی بات کاٹتے بولی
’’مگر مام۔۔۔‘‘ زرقہ نے بولنا چاہا
’’مگر وگر کچھ نہیں زرقہ۔۔۔۔۔حد ہوگئی ہے۔۔ میری ہی غلطی تھی جو تمہیں بولنے دیا۔۔۔۔۔ تم جانتی بھی ہوکہ تم کیا بول رہی ہوں۔۔۔۔۔ اس بھائی کے بارے میں ایسی بات منہ سے نکال بھی کیسے لی جس کی وجہ سے آج تم اور میں یہاں اس گھر میں ایسی عالیشان زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔۔ مت بھولو کہ تمہارا باپ کس قماش کا انسان ہے اور اس نے کیا کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔ پہلے رستم کی ماں پھر میں اور نجانے کتنی اور ہوگی ہم جیسی‘‘ وہ بولی تو انکی آواز میں درد تھا
’’بس زرقہ آئیندہ سے میرے سامنے ایسی فضول گوئی سے پرہیز کرنا۔۔۔۔۔ اور کیا بات کررہی ہوں کہ انا خوش نہیں ہے۔۔۔۔۔ اگر انا خوش نہیں ہوتی نا تو وہ خود راضی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ تمہارے ڈیڈ نے سب کے سامنے پوچھا تھا اور اس نے خود اقرار کیا تھا۔۔۔۔ اور اوپر سے اب بات اس خاندان کے آنے والے وارث کی ہے سمجھی تم۔۔۔۔۔ میں مان ہی نہیں سکتی کہ رستم کبھی کسی لڑکی کے ساتھ برا کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ ارے جو مرد اپنی سوتیلی ماں کو سگی کا درجہ دے وہ بھلا کیسے کسی اور کے ساتھ برا کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ آئیندہ سے ایسے الفاظ استعمال کیے تو جان نکال دوں گی تمہاری میں سمجھی۔۔‘‘ اسے وارن کرتی وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ انا ہاتھ ملتی رہ گئی
’’مگر وہ برا کرچکے ہے مام۔۔۔۔۔ وہ ڈیڈ بن گئے ہے۔۔۔۔۔ ڈیڈ کی طرح وہ بھی ایک معصوم کی زندگی برباد کرچکے ہے مام۔۔۔ کیسے یقین دلاؤ کہ انا راضی نہیں ہے وہ مجبور ہے مام۔۔۔۔۔ اور میں کچھ کربھی نہیں سکتی‘‘ زرقہ ان کے جانے کے بعد خود سے بولی ۔۔۔۔۔ آنکھوں کے گوشے بھیگ چکے تھے۔۔۔۔۔ وہ تھکے ہارے قدم اٹھاتی گاڑی کی جانب بڑھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوٹل میں وہ دونوں اینٹر ہوئے تو فلیش لائٹ انا کے چہرے پر پڑی۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے انا نے ہاتھ اپنے چہرے کے آگے رکھ لیا
’’ہاتھ ہٹاؤ پرنسز‘‘ رستم زرا مسکرا کر سخت لہجے میں اسکے کان میں بولا ۔۔۔ انا نے اپنا ہاتھ فورا ہٹایا اور اپنے اندر کانفیڈینس پیدا کرتے وہ آگے بڑھی۔۔۔۔ تالیوں کی گونج میں ان دونوں کا استقبال کیا گیا تھا
اکڑ اور کروفر کے ساتھ گردن اکڑا کر وہ چلتا سٹیج کی جانب بڑھا
اب وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے سٹیج پر جا بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ہمدہ بیگم فورا انگوٹھیاں لیے رستم کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔ بائیں ہاتھ پر پٹی باندھے بہادر خان بھی پیچھے کھڑا تھا۔۔۔۔ اسکا چہرہ مزید سخت تھا۔۔۔۔۔۔۔ انا کو اس سے پہلے سے بھی زیادہ خوف آنے لگ گیا تھا
انا اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب ہمدہ بیگم نے اسکا کندھا ہلایا اسنے چونک کر ہمدہ بیگم کو دیکھا جو اسے رستم کو انگوٹھی پہنانے کا اشارہ کررہی تھی۔۔۔۔ جبکہ رستم اسکے ہاتھ میں انگوٹھی پہنا چکا تھا۔۔۔۔۔ یہ وہی انگوٹھی تھی جسے ایک وقت تھا جب انا نے ٹھوکر مار دی تھی۔۔۔۔ آج وہی انگوٹھی اس کی انگلی میں موجود تھی۔۔۔۔۔ انا نے کانپتے ہاتھوں سے انگوٹھی رستم کے کی انگلی میں پہنائی۔۔۔۔۔ رسم ہونے کے بعد سب آپس میں گفتگو میں مصروف تھے
زرقہ جو انا کو مبارک باد دینے گئی تھی۔۔۔۔۔ انا کے منہ موڑ لینے پر اسکے دل میں درد اٹھا۔۔۔۔۔ اور آنکھیں نم ہوئی۔۔۔۔ زرقہ نے رستم کو دیکھا جو اسے دیکھ کر طنزیہ سا مسکرایا
زرقہ دل پر پتھر رکھتی سٹیج سے اتر آئی اور ہوٹل میں موجود بار کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔ اندھیرے گوشے میں بیٹھ کر وہ اپنا دل کا غم وائن پیے کم کررہی تھی جب اسے اپنے پاس کسی وجود کا احساس ہوا۔۔۔۔۔ وہ بنادیکھے جان سکتی تھی کہ وہ کون ہے
’’کیسی ہوں؟‘‘ وجدان نے اسکی ساتھ والی کرسی پر بیٹھے پوچھا
’’تم سے مطلب؟‘‘ بوتل منہ کو لگائے وہ بولی
’’تمہارے سارے مطلب مجھ سے ہی تو ہے؟‘‘ اسکے بےجان چہرے پر نظریں ٹکائے وہ بولا
’’مطلب تم سے تھے اب نہیں۔۔۔۔۔۔ جب تم نے مجھے چھوڑ دیا تو مجھ پر سب حق بھی گنوا دیے تم نے‘‘ زرقہ زہر خند لہجے میں بولی
’’تم وجہ جانتی ہوں زرقہ میری مجبوری۔۔۔۔۔۔‘‘ وجدان نے بات کرنا چاہی
’’او جسٹ شٹ اپ وجدان تمہاری وجہ۔۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔۔ تمہاری مجبوری تو یہاں بھی موجود ہے وہ دیکھو سٹیج پر۔۔۔۔۔ جاؤ اس کے پاس مجھے بخشو‘‘ بوتل منہ کو دوبارہ لگائے وہ منہ پھیر گئی جبکہ وجدان ایک بھرپور نظر اس پر ڈالتا وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔
’’تو یہ ہے وہ بیوٹی جس نے تمہارا دل چرایا؟‘‘ غازان انا کو اوپر سے نیچے دیکھتا ہنس کر بولا
رستم کا خون خول اٹھا۔۔۔ اس نے غازان کو گردن سے پکڑا اور دیوار کے ساتھ لگادیا
’’اسے عزت دینا سیکھو وہ میری ہونے والی بیوی۔۔۔۔۔ اور میرے ہونے والے بچے کی ماں ہے۔۔۔۔۔۔ آئیندہ سے تمہاری نظروں یوں بےلگام ہوئی تو آنکھیں پھوڑ دوں گا‘‘ اسکی گردن پر گرفت سخت کرتے وہ بولا تو غازان کو سانس بند ہوتا محسوس ہوا
’’رستم چھوڑ اسے وہ کچھ نہیں کرے گا‘‘ کاشان نے فورا آگے بڑھ کر رستم کو ٹھنڈا کیا
’’یاد رہے اس سے دور رہنا‘‘ رستم غازان کو فولادی گرفت سے آزاد کرتے بولا اور وہاں سے انا کی جانب چل دیا جو اب سٹیج پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے ان امیر آنٹیوں کے طنزوں کا جواب دے رہی تھی
’’ اسے اور اس کی محبوبہ کو تو دیکھ لوں گا میں‘‘ غازان کھانستے خود سے بولا
’’غازان کچھ بھی ایسا نہیں کرنا جس سے رستم کا قہر ٹوٹے تجھ پر‘‘ کاشان اسکا بازو پکڑ کر اسے سمجھایا
’’ابے چل چھوڑ مجھے اور مجھے مت سیکھا کہ مجھے کیا کرنا ہے‘‘ غازان اپنا بازو غصے سے چھڑواتے بولا۔۔۔۔۔ جبکہ کاشان نے سر نفی میں ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ویسے تم نے رستم کو پھانسا کیسے؟ مطلب کے اتنے امیر لڑکے کو محبت وہ بھی تم جیسی لڑکی سے؟ کیا کوئی جادو کروایا ہے‘‘ وہ عورت طنز کے تیز انا پر برساتی بولی
’’ایسی بات نہیں مسز نثار۔۔۔۔۔۔‘‘ ہمدہ بیگم بولی
’’مجھ سے پوچھیے جو بھی پوچھنا ہے آنٹی‘‘ رستم انکے پیچھے سے آتا انا کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور اپنا ہاتھ اسکی کمر پر ٹکا دیا
’’اور جہاں تک بات ہے پھانسنے کی تو آپ نے سہی کہاں۔۔۔۔ میری پرنسز نے بھی مجھے پھانس لیا مگر اپنی اداؤں سے نہیں جو کہ آپ کی بیٹی کا کام ہے بلکہ اپنی معصومیت سے۔۔۔۔۔ ایسی معصومیت ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی‘‘ رستم انا کی آنکھوں میں دیکھتے بولا۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھیں سچی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکا ہر ایک لفظ سچا تھا
انا اسے دیکھتے رہ گئی۔۔۔۔۔ کاش کہ یہ انسان اندر سے بھی اتنا ہی اچھا ہوتا جتنا باہر سے تھا
’’تو یہ مجھ سے بہتر ہے؟‘‘ ایک نسوانی آواز اسے ہوش میں لائی
اسنے سامنے دیکھا جہاں ریڈ کلر کی ٹائٹ میکسی پہنے، جس کا آگے اور پیچھے دونوں اطراف کا گلا ڈیپ تھا۔۔۔۔ ڈارک میک اپ کیے وہ انا کو آنکھوں سے ہی مار دینے کے در پر تھی
’’بہتر؟ صرف بہتر نہیں ۔۔۔۔۔ تم تو اس کے برابر کبھی آ نہیں سکتی۔۔۔۔ شی از مائی پرنسز۔۔۔۔۔ مائی لو‘‘ انا کا ماتھا محبت سے چومتے رستم بولا
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا رستم‘‘ وہ چیخی
’’آہ۔۔۔ آواز نیچے۔۔۔۔۔۔۔ اونچی آواز میں بات کی تو زبان کاٹ دوں گا میں تمہاری‘‘ رستم کے لہجے میں تاشہ ڈر کر ایک قدم پیچھے ہوئی
’’یہاں کیا ہورہا ہے؟‘‘ غازان فورا وہاں آیا۔۔۔۔۔۔ تاشہ کو دیکھ کر اس پارہ ہائی ہوگیا
’’اپنی بہن کو سنبھال کر رکھو غازان۔۔۔۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ مجھ اس جیسی گھٹیا لڑکیاں پسند نہیں یہ بات اسے بھی بتادوں۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر میں نے سمجھائی تو شائد طریقہ پسند نہیں آئے‘‘ رستم ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا
’’مجھے گھٹیا کہنے سے پہلے اپنے ساتھ کھڑی اس لڑکی کے بارے میں کیا خیال ہے جو شادی سے پہلے ہی ماں بننے والی ہے‘‘ تاشہ حقارت سے انا کو دیکھتے بولی
انا کی آنکھیں بھیگ گئی۔۔۔۔۔۔ اسے معلوم تھا ایسی باتیں سننے کو ملے گی اسے
’’کیا ثبوت ہے کہ انا اور میری شادی نہیں ہوئی؟‘‘ رستم نے آبرو اچکائے پوچھا
’’کیا مطلب؟‘‘تاشہ حیران ہوئی
’’مطلب کہ یہ رہا میرا اور انا کا نکاح نامہ۔۔۔۔ جس پر صاف صاف واضع ہے کہ انا میری بیوی ہے۔۔۔۔۔‘‘ رستم نے کوٹ کی پاکٹ سے نکاح نامہ نکال کر تاشہ کےمنہ پر مارا
’’یہاں موجود اگر کسی بھی انسان کو میرے یا انا کے رشتے کو لیکر کوئی مسئلہ ہے تو رہے لیکن اگر کسی نے بھی میری بیوی کے کردار پر انگلیاں اٹھائی تو میں اسے چھوڑو گا نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سب دیکھ لے یہ ہے میرا اور میری بیوی کا نکاح نامہ۔۔۔۔۔۔ کسی مجبوری کی وجہ سے ہم نے نکاح کو شو نہیں لیکن اب جب بات میری بیوی کے کردار کی آگئی ہے تو سب سن لے انا جعفری اب اوفیشلی طور پر انا رستم شیخ ہے اور یہ سب فنکشن بھی میں صرف اپنی پرنسز کی ڈیمانڈ پر رکھے ہیں۔۔۔۔۔ کسی کو کوئی مسئلہ؟‘‘ رستم نے پوچھا تو سب کا سر نفی میں ہلا جبکہ تاشہ حیران سی رستم کا نکاح نامہ دیکھ رہی تھی
مگر کوئی اور بھی تھا جسے اتنی ہی حیرت ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اسلام آباد کے ایف۔سیون ٹین میں موجود وہ شخص ٹی۔وی پر لائیو کووریج دیکھتا زلزلوں کی زد میں تھا
’’انا!!‘‘ وہ سرگوشی نما آواز میں بولا
’’رستم!!‘‘ انا کو چکر آیا تو اس نے رستم کو تھاما
’’کیا ہوا پرنسز؟‘‘ رستم نے پریشانی سے انا کو تھاما
’’میرا سر چکرا رہا ہے۔۔۔۔ مجھے لیجاؤ یہاں سے‘‘ انا سسکتی اس کے کندھے پر سر رکھتے بولی
’’ہممم۔۔۔۔ چلو چلے‘‘ اسے اپنے ساتھ لگائے رستم اسے گاڑی کی جانب لے گیا
’’آخر کار تم مجھے مل گئی انا۔۔۔۔۔ اب میں تمہیں جانے نہیں دوں گا‘‘ ٹی۔وی دیکھتا وہ شخص خود سے بولا اور مسکرایا