انا کو ہوش آیا تو خود کو ایک بہت بڑے کمرے کے بیڈ پر پایا۔۔۔۔۔ اسکا دماغ آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔ جب دروازہ کھول کر زرقہ اندر داخل ہوئی
’’انا!!‘‘ وہ دوڑتی اسکے پاس آئی
’’شکر ہے تمہیں ہوش آگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ تمہیں کمزوری ہوئی ہے اور یہ تم نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے۔۔۔۔۔ انا تم اتنی کمزور؟ ایسی حالت؟ کیا ہوا ہے؟‘‘ زرقہ نون سٹاپ اس سے سوال پوچھنے لگی جبکہ انا بیڈ سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہی تھی جب یکدم وہ زرقہ کے گلے لگی اور رونا شروع کردیا
’’انا ، انا کیا ہوا ہے بتاؤں مجھے۔۔۔۔۔ انا؟ انا اب تم مجھے ڈرا رہی ہوں پلیز انا بتاؤں مجھے آخر ہوا کیا ہے؟‘‘ زرقہ کو کچھ غلط لگا
’’تم نے ایسا کیوں کیا زرقہ۔۔۔۔۔ مجھے کیوں چھوڑ کر آگئی۔۔۔۔۔ سب کچھ ختم ہوگیا زرقہ ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سب کچھ کھو دیا۔۔۔۔۔۔ اپنی عزت، اپنا وقار سب کچھ زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے، میں نے تمہیں کتنی کالز کی کتنا پکارا زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ بچالو مجھے۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ تم کیوں مجھے چھوڑ کر چلی گئی زرقہ۔۔۔۔۔ وہ رات۔۔۔۔۔۔ وہ رات میری زندگی کی سب سے خوفناک رات تھی زرقہ۔۔۔۔۔۔ میں نے بار بار۔۔۔۔ بار بار اللہ سے اپنے مرنے کی دعا کی مگر مجھے موت بھی نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ تم کیوں نہیں تھی زرقہ‘‘ انا نے زرقہ کو ہلا کررکھ دیا تھا
’’انا!!!! کون؟‘‘ زرقہ کی صرف سرگوشی نما آواز نکلی
’’رر۔۔۔۔رستم شیخ‘‘ ایک بار پھر وہ رو دی۔۔۔۔۔ زرقہ کو دوسرا سانس لینا محال لگا
’’رستم!!!‘‘ زرقہ کو یقین نہیں آیا۔۔۔۔۔ مگر انا جھوٹ نہیں بولتی تھی
’’انا۔۔۔۔۔۔ انا ادھر دیکھو میری طرف مجھے سب بتاؤں سب کچھ‘‘ زرقہ نے اسے جھنجھوڑا تو انا نے الف تا یے اسے سب کچھ بتادیا
زرقہ کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ انا سمجھی وہ اپنے بھائی کی اصلیت سن کر ایسی ہوئی ہے مگر وجہ کچھ اور تھی
زرقہ چاہ کر بھی انا کو یہ نہیں کہ سکی کہ اسے اس جہنم میں دھکیلنے والی وہ خود تھی۔۔۔۔۔۔ وہی تھی جس نے رستم کو انا کا نمبر دیا اور پھر اسکے آنے جانے کی روٹین بھی اسی نے رستم کو بتائی تھی۔۔۔۔۔ مگر نتیجہ یہ نکلے گا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اسے اب سمجھ آیا تھا کہ رستم نے کیوں اسے ارجنٹلی لندن بھیجا تھا۔۔۔۔۔۔
رستم!!!!!!!!! کیوں؟ وہ صرف سوچ سکی۔۔۔۔۔۔۔ وہ انا کو کچھ بھی بتاکر اپنی دوستی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اسے لیے خاموش رہی
۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ دن ۔۔۔۔۔ پندرہ دنوں سے وہ پاگلوں کی طرح انا کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔۔ انا اور رستم اس رات والے واقعے کو ایک مہینہ ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔ اسنے پاکستان کا چپا چپا چھان مارا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکے آدمیوں نے کوئی شہر، کوئی گاؤں نہیں چھوڑا تھا مگر انا تو مانوں جیسے غائب ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ منہ میں سگار دبائے ، اپنے لائٹر کو گھماتے اسنے وہسکی کا گلاس اٹھایا جبکہ اسکا بہادر خان اسکے پاس آیا
’’ماسٹر!!‘‘ سر جھکائے وہ ادب سے بولا
’’ہمم بولو؟‘‘ سگار ایش ٹرے میں بھجائے وہسکی لبوں کو لگائے اس نےاجازت دی
’’ملکہ کی جو انفارمیشن آپ نے منگوائی تھی وہ آگئی ہے‘‘ اسنے ایک فائل رستم کو تھمائی۔۔۔۔ رستم نے فائل کھولی جہاں انا کی سب انفارمیشن تھی
Name: Ana Jaffary
Age: 25 years
Parents: none
Relationship Status: Single
Bestfriend: Zarqa Sheikh
Other Family: none
’’ہمم۔۔۔۔۔ ‘‘ رستم نے لمبی سانس لی
’’تمہاری ملکہ کے مام ڈیڈ۔۔۔۔۔‘‘
’’وہ دو سال پہلے کار ایکسیڈینٹ میں مرگئے تھے‘‘ بہادر خان نے فورا جواب دیا
’’ہممم۔۔۔۔۔۔تو اسکا مطلب سمجھے تم بہادر خان؟‘‘ رستم نے ابرو اچکائے اس سے پوچھا
’’نہیں ماسٹر‘‘ اسکا سر نفی میں ہلا
’’تمہاری ملکہ اس وقت لندن میں ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ زرقہ کے علاوہ اسکا کوئی قریبی رشتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ گاڈ۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی کتنا بڑا پاگل ہوں۔۔۔۔ مجھے پہلے سمجھنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں اب تو پتا چل گیا نا۔۔۔۔۔۔ بہادر خان تم ایسا کروں میری دو دن بعد کی لندن کی ٹکٹ بک کروادوں‘‘ رستم کا لہجہ پرسکون تھا
’’ماسٹر دو دن بعد کی کیوں؟ اب کی کیوں نہیں‘‘ بہادر خان نے اچھنبے سے پوچھا تو ایک شیطانی مسکراہٹ اسکے چہرے پر در آئی
’’جب چڑیا کو آخر کار پنجرے میں قید ہونا ہی ہے تو کیوں نا اسے دو دن کی آزادی دے دی جائے‘‘ رستم مسکراہ کر بولا تو ایک مسکراہٹ بہادر خان کے چہرے پر بھی آگئی
انا کا جو حال ہونے والا تھا اسکا اسے اندازہ تھا
’’ویسے ہماری ڈاکٹر صاحبہ کیسی ہے؟‘‘ رستم مکار ہنسی ہنس کر بولا
’’آپ خود کیوں نہیں دیکھ لیتے‘‘ بہادر خان نے آفر دی
’’ہمم بات تو تمہاری بھی غلط نہیں۔۔۔۔ چلو چلے‘‘ رستم اسے بولتا تہہ خانے کی طرف بڑھا جبکہ بہادر خان بھی موؤدب سا اسکے پیچھے چل دیا
تہہ خانے میں موجود کمرے میں داخل ہوتے ہی رستم نے زمین کی جانب دیکھا تو اسکے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ آگئی
’’ارے ڈاکٹر صاحبہ کیسی ہے آپ؟‘‘ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے وہ اسکے سامنے بیٹھ گیا
زمین پر موجود وہ برہنہ وجود جو خود کو ایک چھوٹے سے کپڑے سے ڈھانپنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔ اسکے چہرے پر رقم اذیت رستم کو سکون دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکی حالت اس بات کی گواہ تھی کہ اسکے ساتھ یہاں کیا ہوا ہے
رستم جب پاکستان واپس آیا تھا تو اسنے سی۔سی۔ٹی فوٹیج میں دیکھا تھا کہ اس ڈاکٹر نے انا کی مدد کی تھی۔۔۔۔۔ اسے دن سے وہ رستم کے تہہ خانے میں موجود تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس سے رستم نے بہت بار پوچھا کہ انا کہاں ہے مگر وہ کچھ نہیں بولی تو اس کے لیے اس سزا کو منتخب کیا گیا۔۔۔۔۔ کتنے واسطے ، کتنی منتیں کی تھی اس ڈاکٹر نے کہ اسے نہیں معلوم اسے جانے دوں اس کے بچے اکیلے ہیں۔۔۔۔۔۔ انکا باپ نہیں۔۔۔۔۔ مگر رستم کان بند کرچکا تھا
’’تو چلو میں آج تمہیں جانے دوں گا۔۔۔۔۔۔ مگر بس ایک سوال۔۔۔۔ انا کہاں ہے؟‘‘ رستم نے آگے کو ہوکر پوچھا
’’مم۔۔مجھے نہیں معلوم‘‘ اسکی آواز بہت مدھم تھی
رستم نے آنکھیں بند کر کے خود پر قابو پایا۔۔۔۔۔۔ وہ جان چکا تھا کہ انا کہاں ہے مگر بھی وہ اس ڈاکٹر کے منہ سے سننا چاہتا تھا
’’بہادر خان؟‘‘ رستم نے چٹکی بجائے اسے بلایا
’’جی ماسٹر!‘‘ وہ موؤدب سا بولا
’’مجھے آج دیکھنا ہے بہادر خان کے تم لوگ اس عورت کو کیسے سزا دیتے تھے۔۔۔۔۔ کتنی اذیت دیتے تھے۔۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ آج تم اسے اتنی تکلیف دوں کہ اسکی چیخیں پورے تہہ خانے میں گونجے۔۔۔۔۔‘‘ رستم کے حکم پر بہادر خان سر خم کرتا آگے کو بڑھا۔۔۔۔۔ جبکہ سامنےپڑے وجود کی آنکھوں میں خوف اتر گیا
نہیں دوبارہ نہیں۔۔۔۔ پھر سے نہیں۔۔۔۔ دو ہفتوں سے وہ اس اذیت سے گزر رہی تھی پھر سے نہیں۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں رحم کی بھیک تھی۔۔۔۔ اسکا سر نفی میں ہل رہا تھا۔۔۔۔۔ مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ اس سامنے موجود انسانوں میں انسانیت نام کی بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔
اور ایک بار پھر پورے تہہ خانے میں اسکی چیخیں گونجی۔۔۔۔ اسکی چیخیں ، اسکے آنسو۔۔۔۔ اسکی اذیت اورتکلیف یہ سب رستم کو سکون دے رہی تھی
’’رستم کے خلاف جانے والوں کا وہ یہی حال کرتا ہے‘‘ اسے دیکھتے رستم خود سے بولا
’’بس بہادر خان۔۔۔۔ آج کے لیے اتنا کافی ہے‘‘ آدھے گھنٹے بعد اسے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا
’’جی ماسٹر‘‘ اپنے کپڑے صحیح کرتا بہادر خان موؤدب سا بولا
’’چلو چلے بہادر خان۔۔۔۔ تمہاری ملکہ آنے والی ہے۔۔۔۔۔۔ ان کے ویلکم کے لیے انتظامات بھی کرنے ہیں‘‘ رستم نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ دیا
’’تم برباد ہوجاؤں رستم خان۔۔۔۔ اللہ تم پر شدید عذاب نازل کرے‘‘ پیچھے زمین پر تڑپتا وہ وجود اسے بددعا دیتے بولا
’’رستم خان کبھی برباد نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ انہیں برباد کردے گا جو اسکی راہ میں رکاوٹ بنے گے‘‘ غرور اور اکڑ سے جواب دیتا وہ وہاں سے چل دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا کو یہاں آئے ہوئے کافی دن ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اسکی ملاقات زرقہ کے ماں باپ سے بھی ہوئی تھی جو اخلاقا بہت اچھے سے اس سے ملے تھے
زرقہ تو اپنے ماں باپ کو رستم کے بارے میں بتادینا چاہتی تھی مگر انا نے اسے منع کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے رستم سے خوف آتا تھا اسکا نام ہی انا کی دھڑکن بند کرنے کے لیے کافی تھا
آج کل انا کو اپنی طبیعت بہت بوجھل محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت جلد تھک جاتی تھی۔۔۔۔۔ کھانا بھی صحیح سے نہیں کھا پاتی تھی
’’ارے انا بیٹا آپ ناشتہ کیوں نہیں کررہی؟‘‘ مسز شیخ اسے دیکھ کر بولی
’’نہیں آنٹی بس من نہیں ہے‘‘ وہ تھکن زدہ لہجے میں بولی
’’کیا کچھ اور بنوا دوں؟‘‘ انہوں نے شفقت سے پوچھا
’’ارے نہیں آنٹی ابھی جوس پی لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔ اگر کچھ دل چاہا تو بعد میں کھا لوں گی‘‘ اسنے رسانیت سے انکار کیا
’’چلو ٹھیک جیسے آپ کی مرضی‘‘ وہ میٹھے لہجے میں بولتی ناشتہ کرنے لگی
’’ہمدہ بیگم‘‘ نوید شیخ نے انہیں مخاطب کیا
’’جی؟‘‘ وہ کھانا روک کر پوری طرح سے انکی طرف متوجہ ہوئی
’’آج میں آفس سے شام کو جلدی آجاؤں گا۔۔۔ جمال اور بھابھی کی ویڈینگ اینیورسری ہے تو آپ تیار رہیے گا‘‘ انہوں نے آملیٹ کا پیس منہ میں ڈالتے ہوئے کہا
’’جی ٹھیک ہے‘‘ انہوں نے سر ہلایا
’’میں ابھی آئی‘‘ انا کو متلی محسوس ہوئی تو وہ اپنے روم میں چلی گئی
’’زرقہ تم اور انا بھی چلو‘‘ ہمدہ بیگم اسکی جانب دیکھتے بولی
’’مام ہم چلتے مگر انا کی طبیعت دیکھ رہی ہے نا آپ تو آپ دونوں جائے انجوائے کرے ہم یہی رہے گے‘‘ زرقہ نے سہولت سے انکار کیا۔۔۔۔ ویسے بھی وہ اس پارٹی میں جانا نہیں چاہتی تھی جہاں اسکا تلخ ماضی موجود ہوں
’’چلوں جیسا آپ کو مناسب لگے‘‘ وہ پیار سے بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام تک نوید شیخ اور ہمدہ نوید دونوں پارٹی میں جاچکے تھے۔۔۔ زرقہ شاپنگ پر گئی تھی جبکہ انا کو بوریت محسوس ہوئی تو کچھ بنانے کے لیے کچن میں آگئی
اسنے چائنیز رائس اور مینچورین بنانے کے بارے میں سوچا اور کام پر لگ گئی مگر اسے اپنے طبیعت مزید خراب ہوتی محسوس ہوئی
’’گڈ ایوینگ‘‘ فریش سی زرقہ کچن میں داخل ہوئی
’’گڈ ایوینگ۔۔۔ کیا بات ہے آج کوئی بہت فریش لگ رہا ہے‘‘ انا نے اسے چھیڑا
’’ہاں وہ پارلر گئی تھی نا اسی لیے‘‘ ایک ادا سے اپنے بال جھٹکتے وہ بولی تو انا ہنس دی
جب اسکو ایک زور دار چکر آیا اور اسنے جلدی سے فریج کو تھاما۔۔۔۔۔۔ اسکی رنگے زرد ہونے لگی تھی
زرقہ نے فورا سے شاپنگ بیگز ٹیبل پر رکھے اور انا کے پاس آئی
’’کیا ہونا انا تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی؟"اسکی زرد پڑتی رنگت کو دیکھ کر زرقہ نے تشویش کا اظہار کیا
’’نہیں میں ٹھیک ہوں بس ہلکی سی گھٹن محسوس ہورہی ہے۔۔۔۔۔سوچ رہی ہوں واک پر چلی جاؤ" انا گھومتے سر کی فکر نا کرتے چہرے پر زبردستی مسکان سجائے بولی
’’انا مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی صبح بھی تم نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔ اور اب دیکھو رنگ کیسے پیلا ہورہا ہے۔۔۔۔ کہو تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں" زرقہ فکرمندی سے بولی
’’نہیں اسکی ضرورت نہیں بس تھوڑی سی نیند لوں گی میں تو طبیعت خود با خود ٹھیک ہوجائے گی" انا نے گھومتے سر کو تھاما مگر ایک دم سے اسے زور کا چکر آیا اور چمچ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرگیا جبکہ اگلے ہی لمحے انا بھی زمین پر ڈھہہ گئی تھی
’’انا!!‘‘ زرقہ نے فورا اسے تھاما
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈ کی مدد سے اس نے انا کو بیڈ پر لٹادیا تھا اور اب ڈاکٹر کو کال کرکے بلوایا
’’میم ڈاکٹر آگئی ہے‘‘ میڈ نے آکر بتایا
’’اوکے تم انہیں بھیجو‘‘ زرقہ پریشانی سے ٹہلتے بولی
’’السلام علیکم مس شیخ‘‘ ڈاکٹر نے سلام کیا
’’وعلیکم السلام ڈاکٹر نازیہ۔۔۔۔ شکریہ کہ آپ آئی‘‘ زرقہ بولی
’’کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ پیشنٹ کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا
’’آئیے‘‘ زرقہ انہیں روم میں لے گئی
’’کیا ہوا ہے انہیں‘‘ ڈاکٹر نے سوال کیا
’’پتہ نہیں اچانک چکر آئے اور بہیوش ہوگئی۔۔۔۔ صبح سے کہہ رہی تھی کہ طبیعت خراب ہے۔۔۔۔۔ رنگت بھیی دیکھے کیسی ہوگئی ہے‘‘ زرقہ کے بتاتے بتاتے انا کو ہوش آگیا تھا
’’کیا ہوا؟‘‘ اسنے ہلکی آواز میں زرقہ سے پوچھا
’’کچھ نہیں ہوا ڈاکٹر آئی ہے تم انہیں چیک اپ کروالوں۔۔۔۔۔ تم بیہوش ہوگئی تھی‘‘ زرقہ نے اسے جواب دیا
’’مس شیخ اگر آپ مائنڈ نہیں کرے تو مجھے مس انا کے ساتھ تھوڑا ٹائم ملے گا اکیلے میں‘‘ ڈاکٹر کی بات پر ماتھے پر ڈالے زرقہ سر اثبات میں ہلاتی باہر چلی گئی
پندرہ منٹ سے اوپر کا ٹائم ہوگیا تھا مگر ڈاکٹر باہر نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ جب اچانک دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر نکلی
اسے کیا ہوا ہے ڈاکٹر؟" زرقہ نے تیزی سے پوچھا’’
’’کچھ نہیں بس تھوڑی سی ویکنیس ہوئی ہے ایسی کنڈیشن میں یہ سب کچھ ہوجاتا ہے" ڈاکٹر آرام دہ لہجہ میں بولی
’’ککک۔۔۔کیسی کنڈیشن؟" زرقہ کا شدت سے دل چاہا کہ جو وہ سوچ رہی ہے ویسا کچھ نہ ہوں
’’اوہ!! کانگریچولیشنز شی از ون ویک پریگنینٹ" ڈاکٹر کے الفاظ زرقہ کے لیے کسی صور سے کم نہیں تھے۔۔۔۔ اسکا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوگیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اندر موجود انا نے شدت سے موت کی دعا مانگی۔۔۔۔ اسکی بےبسی اسکی آنکھوں سے بہتے موتیوں سے عیاں تھی
’’ویسے یہ آپ کی کیا لگتی ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا
’’وہ دوست ہے میری‘‘ زرقہ چہرے پر مسکان سجائے بولی
’’اچھا چلے پھر آپ ان کے ہزبینڈ کو کال کرکے جلدی سے بلوا لے‘‘ ڈاکٹر نازیہ دیتی وہاں سے چلی گئی جبکہ زرقہ تیزی سے کمرے کے اندر بھاگی
’’زرقہ!!‘‘ انا کے کانپتے لب ہلے۔۔۔۔۔۔ زرقہ نے اسے زور سے گلے لگالیا
’’یہ۔۔۔یہ کیا ہوگیا زرقہ۔۔۔۔۔ اب ، اب کیا ہوگا زرقہ‘‘ انا کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی
’’کچھ نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا انا‘‘ زرقہ نے اسے تسلی دی
’’نہیں زرقہ کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ مزید خراب ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔یہ کیسی آزمائش آگئی ہے میری زندگی میں زرقہ۔۔۔۔ سب کچھ ختم ہورہا ہے زرقہ‘‘ اسکے آنسوؤں مسلسل بہہ رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ماسٹر!!‘‘ بہادر خان کمرے میں آکر موؤدب سا بولا
’’ارے آؤ بہادر خان۔۔۔۔ کوئی خاص بات؟‘‘ رستم نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے پوچھا
’’جی ماسٹر بہت خاص بات ہے۔۔۔۔۔ ایک خاص خبر ہے۔۔۔۔ لندن سے آئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میرے مخبری نے دی ہے‘‘ بہادر خان گویا ہوا
’’کیسی خبر؟‘‘ رستم نت بےتابی سے پوچھا
’’خبر ملکہ کے حوالے سے ہے ماسٹر۔۔۔۔۔ آج صبح انکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی ماسٹر تو ڈاکٹر نے انکا چیک اپ کیا۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو مبارک ہوں ماسٹر بہت جلد اس خاندان کا اگلا وارث آنے والا ہے۔۔۔۔۔ ملکہ امید سے ہے‘‘ بہادر خان بولا تو رستم کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ در آئی
’’میری انا۔۔۔۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔۔۔۔ بہادر خان آج تم نے مجھے بہت بڑی خوشی دی ہے۔۔۔۔۔ تم جو مانگو گے وہ دوں گا تمہیں‘‘ رستم نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا
’’بتاؤ بہادر خان کیا چاہیے تمہیں؟‘‘ رستم نے گردن اکڑا کر پوچھا
’’مجھے وہ ڈاکٹر چاہیے ماسٹر‘‘ کروفر مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ بولا تو رستم بھی ہنس دیا
’’ٹھیک ہے بہادر خان جاؤ وہ تمہاری ہوئی‘‘ رستم نے اسے اجازت دی اور وہ سر خم کرتا وہاں سے چلا گیا
’’مائی پرنسز!!‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا
۔۔۔۔۔۔۔
’’بہت خوش ہوں آج تو‘‘ وہی آواز اسکے اندر سے بولی
’’ہاں بہت زیادہ۔۔۔۔۔۔۔ میری پرنسز نے مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوشی دی ہے‘‘ وہ مسرور سا بولا
’’کیا وہ بھی خوش ہے؟‘‘ اسی آواز نے سوال کیا
’’وہ بھی ہوگی۔۔۔۔۔۔ آخر کو کونسی عورت ماں بن کر خوش نہیں ہوتی؟‘‘ رستم نے سوال کیا
’’وہی عورت جو تم سے نفرت کرے اور تمہیں ناپسند کرے۔۔۔۔۔۔ مت بھولوں رستم شیخ کہ اس نے تمہیں نامرد ہونے کا طعنہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔ تم یہاں جشن منارہے ہوں۔۔۔۔۔۔ اگر وہ وہاں سے بھی بھاگ گئی تو؟‘‘ اس آواز نے اسے کچھ سمجھایا
’’مگر وہ کہاں جائے گی؟‘‘ رستم کندھے اچکائے بولا
’’دنیا بہت بڑی ہے رستم شیخ۔۔۔۔۔ مت بھولوں کے وہ اس وقت تمہارے باپ کی دسترس میں ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے تم سے دور بھی کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ بلکل ویسے ہی جیسے تمہاری ماں کو کیا تھا‘‘ اس آواز نے رستم کو ڈرایا
’’نہیں ایسا نہیں ہوگا۔۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا‘‘ رستم نفی میں سر ہلائے بولا
’’چچچ۔۔۔۔۔۔ رستم یہ تو تم نے تب بھی کہاں تھا جب اسے تم سے تمہاری ماں کو چھین لیا تھا اور اب وہ تم سے تمہاری ملکہ، تمہاری پرنسز کو بھی چھین لے گا تب کیا کروں گے؟‘‘ اس آواز نے مزاق اڑایا
’’میں سب کچھ تباہ کردوں گا‘‘ رستم دھاڑا
’’نہیں رستم سب کچھ تباہ نہیں کرنا۔۔۔۔۔۔۔ میرا مشورہ مانوں گے‘‘ وہ آواز پھر سے اسکے اندر سے بولی
’’ہاں بتاؤں میں کیا کروں؟‘‘ رستم بےتاب ہوا
’’اپنی پرنسز کو ایک سبق سکھاؤ رستم۔۔۔۔۔۔ اسکے جانے کے بعد کتنی اذیت میں رہے ہوں تم رستم۔۔۔۔۔ اسی اذیت کا احساس اسسے بھی دلاؤ۔۔۔۔۔۔ اسے توڑو رستم اور پھر خود جوڑنا۔۔۔۔۔ وہ بلکل ویسی بن جائے گی جیسا تم چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔ اسے سزا دوں رستم وہ اسکی حقدار ہے‘‘
’’ہاں تم نے صحیح کہاں میں اسے سزا دوں گا۔۔۔۔۔ تمہیں سزا ضرور ملے گی پرنسز!‘‘ رستم سرد لہجے میں خود سے بولا
’’تیار رہوں پرنسز اپنی سزا کے لیے‘‘ وہ خود سے بولا جبکہ اسی پل اسی محل میں ایک اور وجود تھا جسے سزا مل رہی تھی۔۔۔۔ جو سسک رہا تھا۔۔۔۔۔ رحم کی بھیک مانگتا وہ وجود اپنی برداشت کی آخری منزل پر تھا مگر بہادر خان کو اس پر کوئی ترس نہیں آیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’انا تم کہی جارہی ہوں؟‘‘ اسے بوٹ پہنتے دیکھ کر زرقہ نے پوچھا
’’ہاں واک پر جارہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ پرسکون ماحول چاہیے‘‘ اسنے جواب دیا
’’میں چلو تمہارے ساتھ؟‘‘ زرقہ نے آفر دی
’’نہیں میں کچھ دیر اکیلے میں گزارنا چاہتی ہوں‘‘ انا نے جواب دیا تو زرقہ نے سر اثبات میں ہلادیا
گھر سے پیدل نکل کر وہ پندرہ منٹ کی دوری پر موجود پارک میں آبیٹھی تھی۔۔۔۔۔ کئی دیر وہ خالی نظروں سے ارد گرد چھوٹے بچوں کو کھیلتے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنا بچپن یاد آگیا تھا
وہ دبئی کی رہنے والی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکے ڈیڈ کی کمپنی کی طرف سے پوسٹنگ پاکستان ہوئی تھی۔۔۔۔ پاکستان ان کے من کو ایسا بھایا کہ وہ یہی رہنے لگ گئے تھے
آج اسے شدت سے اپنے ماں باپ کی یاد آرہی تھی اگر وہ آج زندہ ہوتے تو وہ یوں نا تو دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہوتی اور نا ہی کسی اور کہ در پر پڑی ہوتی۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں موسم بدلا اور کالی گھٹائیں آسمان پر چھا گئی تھی
آہستہ آہستہ پارک خالی ہورہا تھا ۔۔۔۔۔ انا بھی لمبی سانس لیے اٹھ کھڑی ہوئی
وہہ گھر سے تھوڑا دور تھی جب اسے غیر معمولی طور پر کسی کی آمد کا شعبہ ہوا۔۔۔۔۔۔ گھر کےباہر دو تین گاڑیاں کھڑی تھی
وہ حیرت سے گاڑیاں دیکھتی اندر داخل ہوئی تو اسکے پیروں کو وہی بریک لگ گیا۔۔۔۔۔ وہ سامنے ہی کھڑا تھا وہی اسکی طرف پیٹھ کیا۔۔۔۔۔ اسکی زندگی کا سب سے ڈراؤنا خواب وہ وہی تھا
’’پرنسز!!!‘‘ وہی سرد لہجہ اسکے کانوں سے ٹکڑایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم لندن پہنچ چکا تھا اور بس اسے انتظار تھا تو اسکی پرنسز کا۔۔۔ اسکا دل مچل رہا تھا اسے دیکھنے کو۔۔۔ باہوں میں لینے کو۔۔۔۔۔۔ وہ بنا کسی کو بتائیں لندن آیا تھا۔۔۔۔ لندن میں بھی وہ اپنے ذاتی گھر میں رہتا تھا ناکہ اپنے ماں باپ کے ساتھ
گیٹ کے باہر گاڑی رکوا کر وہ بہادر خان کو اشارہ کیے اندر داخل ہوا جہاں زرقہ مزے سے جھولے پر بیٹھی کافی پی رہی تھی۔۔۔۔ اسنے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو کافی کا مگ ہاتھ سے چھلک گیا۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پر چھائے خوف کو دیکھ کر ایک مطمئن سی مسکراہٹ رستم کے چہرے پر آگئی
’’ررر۔۔۔۔رستم بب۔۔بھائی آپ یہاں؟‘‘ زرقہ نے ہکلاتے پوچھا
’’ہاں میں یہاں‘‘ وہ بےتاثر لہجے میں بولا
’’آئیے اندر آئیے مام ڈیڈ سے ملے نا وہ آپ کو بہت یاد کرتے ہیں‘‘ زرقہ لہجہ نارمل رکھنے کی ناکام کوشش کرتے بولی
’’میں یہاں کسی سے ملنے نہیں بلکہ اپنی پرنسز کو لینے آیا ہوں۔۔۔۔ کہاں ہے وہ؟ اسے کہوں اسکا رستم آیا ہے‘‘ رستم کا لہجہ عام تھا مگر آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پپ۔۔۔پرنسز۔۔۔۔۔کک۔۔۔کون؟‘‘ زرقہ انجان بنی
’’انا۔۔۔۔۔ میری انا اسے بھیجو باہر۔۔۔۔۔ اور ہاں اگر اب تم نے پوچھا کون انا تو بہادر خان۔۔۔۔ اپنی بندوق کی سب گولیاں اسکے جسم میں اتار دینا‘‘ وہ زرقہ کو بولتا بہادر خان کی کو حکم دے گیا
’’جی ماسٹر!!‘‘ بہادر خان موؤدب سا بولا
’’ماسٹر کا پلا‘‘ زرقہ بڑبڑائی جب اسے انا اند داخل ہوتے نظر آئی۔۔۔۔۔۔ انا بھی اپنی جگہ رک گئی تھی۔۔۔۔۔ رستمکی پیٹھ انا کی طرف تھی۔۔۔۔۔ زرقہ کی آنکھیں پھیل گئی اسنے آنکھوں ہی آنکھوں سے انا کو بھاگنے کو کہاں مگر اس کی نظریں تو صرف رستم پر تھی۔۔۔۔۔۔ رستم بھی اسکی موجودگی محسوس کرچکا تھا۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نرمی کا عنصر ابھرا اور وہ مسکرا کر مڑا
’’پرنسز!!!‘‘ اسکا لہجہ سرد جبکہ آنکھوں میں نرمی تھی
انا کا سر نفی میں ہلا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ الٹے قدم باہر کی جانب بھاگی۔۔۔۔۔۔ اسے اپنے پیچھے سے رستم کی آوازیں سنائی دی مگر اسنے ان سنا کردیا
’’تو تمہیں ٹام اینڈ جیری کھیلنا ہے میرے ساتھ۔۔۔۔ نو پرابلم پرنسز‘‘ رستم پراسرا سا مسکرایا
وہ اس جگہ کا چپا چپا جانتا تھا اور یہ بھی کہ انا اس وقت کس طرف جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ شارٹ کٹ لیے وہ اس سے پہلے ہی پارک میں موجود تھا اور انا جو اندھا دھن بھاگی چلی جارہی تھی وہ ایک دم سے رستم کے سامنے آنے پر اس سے ٹکڑا گئی اور بہت جلد ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی
’’اوہ پرنسز!!‘‘ رستم ہونٹوں پر مسکان لیے سر نفی میں ہلائے بولا اور اسکا ماتھا چومتے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔