جیسے تیسے کرتے انا گھر پہنچی تھی۔۔۔۔۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اسے عجیب سی سمیل آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انا فورا ڈرائنگ روم میں بھاگی تو زرقہ وہاں سگار جلائے اسکے کش لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھ میں موبائل تھا جسے دیکھ کر اسکی آنکھوں سے قطرہ قطرہ آنسوؤں نکل رہے تھے
’’زرقہ!!‘‘ انا فورا اس کے پاس بھاگی اور موبائل میں موجود تصویر دیکھ کر زرقہ کو گلے لگایا
’’وہ ایسا کیسے کرسکتا ہے انا؟ کیسے کرسکتا ہے وہ میرے ساتھ ایسا؟ کیا اسے مجھ پر ترس نہیں آتا‘‘ انا کے گلے لگے وہ بری طرح رو دی۔۔۔۔۔۔۔ انا نے سگار اسکے ہاتھ سے کھینچا اور ایش ٹرے میں بجھایا
’’چلو آؤ‘‘ وہ زرقہ کو اسکی جگہ سے اٹھائے اس کے کمرے میں لے آئی
وہ رستم کے حوالے سے بات کرنے کا ارادہ ترک کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر زرقہ کے کمرے کا تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ ہر چیز تہس نہس تھی۔۔۔۔۔۔۔ انا سر نفی میں ہلائے اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔۔۔۔۔۔ فلحال تو وہ تھکی ہوئی تھی اسی لیے صاف ستھرائی کا کام کل پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’گڈ مارننگ‘‘ دوپہر کے دو بجے فریش سی زرقہ کچن میں کھانا پکاتی انا سے آکر بولی اور کیبنیٹ سے اپنے کیےکارن فلاکس نکالے۔
’’گڈ مارننگ نہیں محترمہ گڈ آفٹر نون بولیے۔۔۔۔ دوپہر کے دو بج رہے ہے۔۔۔۔۔‘‘ انا نے لطیف سے طنز کیے بولی تو زرقہ کھیسیانی ہنسی ہنسی
کارن فلاکس باؤل میں نکالتے اچانک زرقہ کی نظر سامنے رکھے پھولوں کے بوکے اور چاکلیٹ باکس پر گئی
’’ارے یہ کہاں سے آئے؟‘‘ زرقہ نے چاکلیٹ باکس کھول کر اس میں سے چاکلیٹ نکالتے پوچھا
’’رستم شیخ نے بھیجا ہے‘‘ انا نارمل لہجے میں بولی
’’ارے سچ یاد آیا کل تو تمہاری اور بھائی کی ڈیٹ تھی نا کیسا رہا سب؟ آئی مین تمہارے اور بھائی کے درمیان کیا کیا باتیں ہوئی اور تمہیں وہ کیسے لگے؟‘‘ آدھی چاکلیٹ واپس رکھ کر زرقہ نے اچھلتے پوچھا
’’کل کی رات میری لائف کی سب سے بری رات تھی‘‘ انا زرقہ کی جانب دیکھتے بولی
’’کیوں؟‘‘ زرقہ نے منہ بنایا
’’دیکھو زرقہ تم چاہتی تھی کہ میں اپنے لیے اب ایک لائف پارٹنر ڈھونڈو۔۔۔۔۔ اور تم نے یہ فضول سی بلائنڈ ڈیٹ بھی ارینج کی جس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔ مگر میں اور تمہارا بھائی ہم ایک دوسرے کے لیے نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ تم پلیز اپنے بھائی سے بولو کہ وہ مجھے یہ سب (چاکلیٹس اور بوکے کی طرف اشارہ کرتے وہ بولی) نا بھیجے۔۔۔۔۔۔ میری نظر میں ہم ایک پرفیکٹ کپل ۔۔۔۔۔ جیسا کہ تم کہتی ہوں نہیں بن سکتے۔۔۔۔۔۔ سو پلیز‘‘ انا نے آرام سے اپنی بات پوری کی
’’مگر۔۔۔۔۔۔‘‘ زرقہ نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا
’’مگر وگر کچھ نہیں زرقہ۔۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی میں ایک خونی کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکتی‘‘ انا ٹھوس لہجے میں بولی
’’خونی؟‘‘ زرقہ کی آنکھیں بڑی ہوئی تو انا نے اسکو کل کا سارا واقعہ سنا دیا
’’مگر ہوسکتا ہے کہ بھائی نے تم سے مزاق کیا ہوں۔۔۔۔۔۔ خون انہوں نے کیا ہوں۔۔۔۔‘‘ زرقہ نے دلیل دی
’’ضرور میں تمہاری بات مان جاتی زرقہ اگر میں نے خود اس شخص کو اس لڑکی کے ساتھ وہ سب کچھ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اسکا قتل۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنی زندگی میں ایک فئیر انسان چاہیے زرقہ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی رنگین مزاج انسان نہیں۔۔۔۔۔ ہوپ سو تم سمجھ گئی ہوگی‘‘ زرقہ کا گال تھپتھپاتے وہ بولی اور سالن کے نیچے سے چولہا بند کردیا
’’میں مارکٹ جارہی ہوں راشن خریدنے۔۔۔۔۔۔۔ تم تب اپنا ناشتہ کرکے باتھ لے لینا‘‘ انا اسے ہدایت دیتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔ مگر زرقہ کا دماغ تو انا کہ انکار پر ہی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتے سے انا کو پھول اور چاکلیٹس مل رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اب وہ عاجز آچکی تھی ان چیزوں سے۔۔۔۔۔۔ حتی کے اسنے اب انہیں اپنے فلیٹ کے باہر ڈسٹ بین میں پھینکنا شروع کردیا تھا
آج ہفتہ تھا یعنی کے اگلا ویک اینڈ۔۔۔۔ انا کام والی ماسی بنی گھر کی اچھے سے صفائی کررہی تھی جبکہ زرقہ آج شاپنگ پر گئی تھی
اتنے میں اسکا موبائل بجا
’’ہیلو؟‘‘ ان نون نمبر دیکھ کر انا بولی
’’پرنسز!!‘‘ دوسری جانب سے کسی کی مسکرانے کی آواز سنائی دی
’’کون؟‘‘ انا حیران ہوئی
’’اتنی جلدی بھول گئی مجھے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہی پراسرار لہجہ
’’دیکھیے آپ جو بھی ہے جلدی بتائیے میرا ٹاائم ضائع مت کرے‘‘ انا کا لہجہ تھوڑا سخت ہوا
’’رستم شیخ بول رہا ہوں‘‘ اب کی بار دوسری جانب سے بھی لہجہ سخت تھا
’’اوہ مسٹر شیخ آپ؟ خیریت کال کی اور آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا؟‘‘ انا حیران ہوئی
’’ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔۔۔۔ اور رستم شیخ کے لیے کسی کو ڈھونڈنا مشکل نہیں‘‘ وہ اکڑو لہجے میں بولا
’’مسٹر شیخ آپ نے کال کیوں کی تھی؟ میں زرا مصروف ہوں‘‘ انا کو اسکی فضول باتوں پر غصہ آنے لگا تھا
’’مس جعفری شائد نہیں یقینی طور پر آپ بھول گئی ہے کہ آج ویک اینڈ ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں ملنا تھا رات آٹھ بجے۔۔۔۔۔یہی یاد دلانے کو کال کی ہے‘‘ رستم ریوالوینگ چیر پر بیٹھا۔۔۔۔ نیم اندھیرے کمرے میں سگار کے کش لگاتے بولا
’’اور میں نے بھی کہاں تھا کہ ہم اب کبھی نہیں ملے گے‘‘ انا ایک ایک حرف پر زور دیتے بولی
یہ شخص تو وبال جان بن گیا تھا
’’آپ تو بڑی بےمروت نکلی۔۔۔۔۔ میرے دیے گئے پھولوں کا بھی لحاظ نہیں کیا‘‘ رستم سامنے فش پاونڈ میں موجود مچھلیوں کو دیکھتے بولا
’’وہ جس قابل تھے میں نے ان کے ساتھ وہی کیا۔۔۔۔۔۔ اور اب پلیز آپ مجھے تنگ مت کرے‘‘ انا نے کہہ کر فون رکھنا چاہا جب اسے رستم کی سرسراتی آواز سنائی دی
’’انا جعفری۔۔۔۔۔ رستم شیخ کبھی کسی کو خود سے دعوت نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔ مگر تمہیں دی۔۔۔۔۔ اور اب تم پر بھی فرض ہے کہ اچھی لڑکی کی طرح تم مجھ سے ملنے آجاؤ۔۔۔ ورنہ شہلا کے قتل کا الزام تم پر لگانے میں مجھے زیادہ دیر نہیں لگے گی‘‘ پل بھر میں رستم کا لہجہ بدلا تھا
’’تو آپ مجھے ڈرا رہے ہے؟‘‘ انا کو غصہ آیا
’’جی بلکل یہی سمجھ لے۔۔۔۔ اڈریس بھیج رہا ہوں وہاں آجانا۔۔۔۔۔۔ اور ہاں آدھے گھنٹے تک تمہیں ایک ڈریس ملے گا وہی پہننا‘‘
’’میں آپکے حکم کی غلام نہیں ہوں‘‘ کہتے ہی انا نے غصے سے فون بند کردیا
یہ رستم شیخ تو جونک کی طرح چپک گیا تھا اسکے ساتھ۔۔۔۔۔ موبائل کی بیپ بجتے ہی انا نے دیکھا تو رستم نے اسے ایڈریس بھیجا تھا
تھوڑی دیر بعد اسکے فلیٹ کی گھنٹی بجی ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے دروازہ کھولا تو اسکے لیے پارسل موجوود تھا۔۔۔۔۔۔ سائن کرکے اس نے پارسل لیا۔۔۔۔۔ اور اندر آکر اسنے پارسل کھولا تو ایک خوبصورت سی پرپل کلر کی میکسی تھی۔۔۔۔۔۔ جو پیچھلے سے بیک لیس تھی جبکہ آگے کا حصہ کافی ڈیپ تھا۔۔۔۔ انا کو رہ رہ کر اس شخص پر غصہ آیا۔۔۔۔۔۔ آخر اسنے انا کو سمجھ کیا رکھا تھا جو اسے ایسا ڈریس بھیجا
مگر انا نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ رستم سے ملنے ضرور جائے گی۔۔۔۔۔ مگر اسکی عقل ٹھکانے لگانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیچ کلر کا سوٹ پہنے اسکے سساتھ بالوں کی اونچی پونی بنائے وہ رستم کے بتائے گئے ریستورانٹ کے باہر موجود تھی
مگر وہاں تو بندہ نا بندے کی ذات والا حصاب تھا
’’کہی میرے کوئی مزاق تو نہیں کررہا یہ شخص؟‘‘ انا نے سوچا
اگلے ہی پل وہ دروازہ کھولے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔ جہاں چار سو اندھیرا تھا صرف کینڈلز جل رہی تھی۔۔۔۔۔ اس سے پہلے انا اپنا منہ کھولتی۔۔۔۔۔ سپوٹ لائٹ اس کے سامنے کھڑے رستم پر جارکی
پانچ فٹ گیارہ انچ کا قد۔۔۔۔۔ شفاف رنگت۔۔۔۔۔ گہری ہیزل براؤن آنکھیں جن میں عجیب سی چمک تھی۔۔۔۔۔۔۔ بلیک کلر کا پینٹ کوٹ پہنے وہ اپنی شاندار پرسنیلیٹی کے ساتھ کسی کا بھی دل دھڑکا سکتا تھا مگر اسکا سامنا انا جعفری سے تھے جو بظاہر حلیے پر مرنے والی نہیں تھی
اکڑو چال چلتا وہ اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔۔ جبکہ انا دونوں بازو سینے پر باندھے لب بھینچے اسکی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی
گھٹنے کے بل بیٹھے اب رستم نے اپنے کوٹ کی پاکٹ میں سے ایک باکس نکلا اور اسکے کھول کر انا کے سامنے کیا۔۔۔۔۔۔ انا نے غور سے اس ڈائمنڈ کی رنگ کو دیکھا جو اپنی قیمت خود بتارہی تھی
’’انا۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ ہم صرف ایک بار ہی ملے ہیں۔۔۔۔ مگر میں جب سے تم سے ملا ہوں۔۔۔ میرے ذہن پر تب سے سوار ہوں تم۔۔۔۔۔۔ میرے حواسوں کو تمہاری سوچ نے صلب کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کبھی کسی کے بارے میں اتنا نہیں سوچا جتنا تمہیں سوچا۔۔۔۔۔۔ اور یونہی سوچتے سوچتے میں تمہیں چاہنے لگا۔۔۔۔۔ کیا تم میری ہمسفری قبول کروں گی انا جعفری۔۔۔۔۔۔ بولو شادی کروں گی مجھ سے؟‘‘ رستم کا لہجہ سچے جذبوں سے بھرپور تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسکے انداز میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ نہیں تھی وہ سچ بول رہا تھا
اسکے لہجہ میں پختہ یقین تھا کہ انا اسے کبھی بھی انکار نہیں کرے گی۔۔۔۔۔۔ مگر سامنے بھی انا جعفری تھی جو کسی کو بھی خود پر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دیتی
’’دیکھیے مسٹر شیخ میں یہاں آپ سے ملنے نہیں آئی بلکہ آپ کو یہ سمجھانے آئی ہوں کہ پلیز مجھ تنگ کرنا بند کرے۔۔۔۔۔۔۔ اور آخری بات میں آپ کی سوچوں پر کس قدر حاوی ہوں یہ میری غلطی نہیں۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے آپ ایک آنکھ نہیں بھائے۔۔۔۔۔۔۔ انفیکٹ میرا اور آپکا تو کوئی میچ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو پلیز مجھے تنگ کرنا بند کرے۔۔۔۔۔۔۔ اور پلیز آئیندہ سے مجھ سے رابطہ مت کیجیے گا۔۔۔۔ اور ہاں میری طرف سے انکار ہے‘‘ انا اسکی طبیعت صاف کرتی مڑی جب رستم نے اسکی کلائی دبوچ لی
’’وجہ جاننا چاہتا ہوں انکار کی؟‘‘ رستم لہجہ ہموار رکھتے بولا
’’وجہ آپ خود ہے مسٹر شیخ۔۔۔۔۔۔ مجھے میری زندگی ایک مرد کے ساتھ گزارنی ہے جو صرف میرا بن کر رہے۔۔۔۔۔۔ کسی پروانے کے ساتھ نہیں جو آج یہاں تو کل کہی اور ہوں۔۔۔۔۔۔ اینڈ پلیز سٹاپ ٹارچنگ می‘‘ ایک جھٹکے سے اپنی کلائی آزاد کرواتے انا وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
رستم کو لگا اسکا دل کسی نے زور سے مٹھی میں جکڑ لیا ہوں۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی چھا گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تو اس لڑکی نے دا گریٹ رستم شیخ کو انکار کردیا‘‘ وائن کی چسکی لیتا وجدان رستم کا مزاق اڑاتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے سب دوست اس پر جملے کس رہے تھے۔۔۔۔۔ جبکہ رستم کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھی
’’تو رستم کیسا لگا انکار سن کر۔۔۔۔۔ ویسے آج تک تجھے کسی نے انکار کیا نہیں‘‘ غازان کا لہجہ اسکے بدن میں آگ لگا گیا تھا
’’رستم شیخ نے آج تک کبھی انکار نہیں سنا تو تم لوگوں کو کیسے لگا کہ میں اب بھی انکار پر پیچھے ہٹ جاؤ گا۔۔۔۔۔۔۔ جس چیز کو حاصل کرنا رستم کا جنوں بن جائے رستم اسے حاصل کرکے رہتا ہے‘‘ اسکی سرخ آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جس نے وجدان کو کھٹکنے پر مجبور کردیا
’’تو کیا کرنے والا ہے رستم؟‘‘ وجدان نے سیریس انداز میں پوچھا تو باقی سب بھی چونک کر رستم کو دیکھنے لگے۔۔۔۔ جس کے چہرے کی مسکراہٹ انہیں بہت کچھ غلط ہونے کا اندیشہ دے رہی تھی
’’بتا دوں گا۔۔۔۔۔ مگر وقت آنے پر‘‘ وائن کا آخری گھونٹ بھر کر وہ گنگناتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا
’’مجھے رستم کی سوچ کچھ اچھی نہیں لگ رہی‘‘ کاشان اسکی پشت کو چھوٹی آنکھیں کیے گھورتا بولوں تو باقی دونوں نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیڈ پر لیٹا سگار کے کش لگاتا، لال آنکھیں لیے وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہوا تھا
’’تو اس نے تمہیں انکار کردیا؟‘‘ اسکے اندر سے ایک آواز آئی
’’وہ اقرار بھی کرے گی‘‘ رستم سخت لہجے میں بولا
’’رستم شیخ تم اس غلط فہمی میں مت جیو کہ انا جعفری کبھی تمہاری ہوگی۔۔۔۔۔ پاگل ہوں تم۔۔۔۔۔۔۔ سائیکو ہوں تم۔۔۔۔۔۔۔۔ تم سے بھلا وہ کیوں شادی کرے گی؟‘‘ وہ آواز اس پر ہنسی
’’میں پاگل نہیں ہوں‘‘ رستم چلایا
’’ہاں ہوں تم پاگل۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر پاگل نہیں بھی ہوں توبھی اس نے تمہیں انکار کردیا ہے۔۔۔۔۔ وہ تمہیں نامرد بول کرگئی ہے رستم شیخ۔۔۔۔۔۔ تمہارے منہ پر طمانچہ مار کر گئی۔۔۔۔۔ تمہاری عزت کی دھجیاں اڑا دی اسنے‘‘ وہ آواز پھر سے گونجی
’’تو اب میں کیا کروں؟‘‘ رستم پریشان انداز میں بولا
’’بدلا۔۔۔۔۔۔ بدلا لو رستم شیخ۔۔۔۔۔۔ اسے بتاؤ کہ تم ایک مرد ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ اسنے تمہاری عزت کی دھجیاں اڑائی ہے۔۔۔۔۔ تم بھی ویسا ہی کروں۔۔۔‘‘ وہ آواز اسے غلط راہ دکھانے لگی
’’نہیں میں ایسا نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ وہ محبت ہے میری‘‘ رستم نے سر نفی میں ہلایا
’’ٹھیک ہے مت مانو میری بات۔۔۔۔۔ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ ہمیشہ تمہاری ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔ اسے کوئی نہیں اپنائے گا۔۔۔۔۔۔ پپھر تم اسے خود تک رکھنے میں کامیاب ہوجاؤ گے۔۔۔۔۔۔ مگر تمہیں میری بات نہیں ماننی تو میں چلا‘‘ وہ آواز پھر سے بولی
’’نہیں مت جاؤ۔۔۔۔۔ میں اسے کھو نہیں سکتا بتاؤ میں کیا کروں‘‘ رستم چیختے چلاتے پورا کمرہ تہس نہس کرنے لگا
’’اسے لے آؤ رستم اپنے پاس۔۔۔۔۔۔۔ اسے قید کرلوں۔۔۔۔۔۔ جو میں نے کہا ہے اس پر عمل کروں۔۔۔۔۔۔ وہ تمہاری ہوگی رستم صرف تمہاری‘‘ چاروں اطراف گونجتی آواز اس سے بولی
رستم نے اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑے زور سے کھینچا۔۔۔۔۔وہ چلایا۔۔۔۔ یکدم اس نے ایک فیصلہ کیا۔۔۔۔ اور پراسرا مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر در آئی کو کسی طوفان کی پیشن گوئی کررہی تھی
’’نہیں انا۔۔۔۔۔ نہیں میں تمہیں نہیں چھوڑو گا۔۔۔۔۔۔ تم میری ہوں صرف رستم شیخ کی اور وہ تمہیں ہر قیمت، ہر صورت پر حاصل کرلے گا‘‘ وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔۔۔۔۔۔ اسکی ہنسی میں کچھ ایسا تھا کہ اگر کوئی اسے ہنستے دیکھ لیتا تو یقینی طور پر اسے پاگل مان لیتا
اپنا لائٹر اور سگار اٹھائے رستم اب سٹڈی میں چلا گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا پرسکون تھی کہ اب رستم اسے تنگ نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔ کم از کم اب تو نہیں جب وہ اچھے سے اسکی طبیعت سیٹ کرچکی تھی۔۔۔۔۔ وہ گھر آئی تو زرقہ پہلے سے ہی سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکے اتنے سارے شاپنگ بیگز دیکھ کر وہ چونکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لگتا ہے کچھ زیادہ ہی شاپنگ کرلی ہے محترمہ نے‘‘ انا مسکراتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔ مگر جو اسکی نظروں سے اوجھل رہا وہ تھا زرقہ کا سفر بیگ جسے اسنے صوفہ پر رکھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے آفس میں بہت ٹائم لگ گیا تھا۔۔۔۔۔ اب وہ رات کے دس بجے کیب کا انتظار کررہی تھی جب بلیک کلر کی کرولا بلکل اس کے سامنے آرکی
’’مس انا جعفری؟‘‘ گاڑی سے نکلے قد آور ڈرائیور نے اس سے پوچھا
’’جی؟‘‘ انا کو اسے دیکھ کر تھوڑا ڈر لگا
’’مجھے ماسٹر رستم نے بھیجا آپ کو لینے کے لیے وہ آپ سے ملنا چاہتے ہے‘‘ اسکا لہجہ بھاری اور آواز مخصوص قسم کی تھی
رستم کا نام سن کر انا کو اپنا بی پی بڑھتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔ ابھی کل ہی تو اس نے رستم کی طبیعت صاف کی تھی مگر وہ ڈھیٹ انسان
’’مگر مجھے کہی نہیں جانا اپنے ماسٹر سے بولو کہ مجھے تنگ کرنا بند کرے‘‘ کہتے ہی انا اس کیب کی طرف بڑھی جو ابھی وہاں آکر رکی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر اس قد آور انسان نے اسکی کلائی بیدردی سے تھام لی
’’ماسٹر کی حکم عدولی کرنا میں نہیں جانتا۔۔۔۔۔ انہیں آپ چاہیے تو چاہیے‘‘ اسکا لہجہ انا کو ڈرا چکا تھا
’’چھوڑو میرا ہاتھ سنا تم نے بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا ماسٹر مجھ سے دوڑ رہوں۔‘‘ اپنی کلائی مسلسل اسکی گرفت سے آزاد کرواتے وہ بولی مگر اس انسان کی پکڑ مزید سخت ہوگئی تھی
’’اوئے چھوڑو انہیں‘‘ کیب کا ڈرائیور گاڑی سے نکلتا بولا اور انا کے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا
انا نے بہت کوشش کی مگر لاحاصل۔۔۔۔۔۔۔
’’رکو تم ایسے نہیں مانو گے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی پولیس کو کال کرتا ہوں‘‘ اس آدمی نے فون نکالا تو بہادر خان رستم کے ڈروائیور نے اپنی گن نکالی اور اس آدمی کو گولی ماری جو اسکے دل کے آر پار ہوگئی اور وہ وہی گرگیا۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انا کی چیخیں بلند ہوئی اور خود کو چھڑوانے کی اس نے مزید کوشش جاری کردی مگر بہادر خان نے اسے زور سے گارٰ کے اندر دھکا دیا اور خود ڈروائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آٹو لاک کردی
انا پورا راستہ دروازہ بجاتی رہی مدد کو پکارتی رہی مگر کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ اس نے بہادر خان کی سو منتیں کی۔۔۔۔۔۔ اسے اللہ کا واسطہ بھی دیا مگر اسنے تو اپنے کان بند کرلیے تھے۔۔۔۔۔۔ انا کو موبائل تک کا بھی خیال نہیں آیا۔۔۔۔۔۔ مگر وہ اتنا جان چکی تھی کہ آج کی رات اسکی زندگی کی سب سے بھاری رات ہونے والی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کے گھر پہنچتے ہی بہادر خان کار سے باہر نکلا اور پیچھے کا دروازہ کھول کر انا کو نکلانے لگا جو کہ بہادر خان سے دور ہونے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر لاحاصل
اسے کھینچتا بہادر خان اندر گھر کی جانب بڑھا جو گھر کم اور محل زیادہ تھا
انا چیخ چلا کر وہاں موجود لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی مگر سب نے تو مانوں کان بند کرلیے تھے
پورا محل اندھیرے میں ڈوبا تھا۔۔۔۔۔۔ گھر کے ہر ایک کونے میں سٹیل کے بنے سپاہی کا ایک پتلا کھڑا تھا جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ سپاہی پرانی جنگوں کے سپاہی جیسے تھے۔۔۔۔۔
انا نے بہادر خان سے ہاتھ چھڑوانے کی ہر ایک ناکام کوشش کرلی تھی
’’اسے چھوڑ دوں بہادر خان وہ تمہاری ملکہ ہے‘‘ یہ آواز رستم کی تھی جو اوپر سیڑھیوں کی ریلینگ پر دونوں ہاتھ پھیلائے پرسکون سا انہیں دیکھ رہا تھا
بہادر خان نے ایک لمحہ نہیں لگایا انا کو چھوڑنے میں اور ساتھ ہی اسکے سامنے اپنا سر بھی جھکا دیا
’’مسٹر شیخ یہ کیا بدتمیزی ہے‘‘ انا وہی سے رستم کو دیکھ کر چلائی
’’بدتمیزی میں نے ابھی شروع ہی کہاں کی ہے پرنسز!!‘‘ رستم کا پراسرار لہجہ انا کے بدن پر کپکپی طاری کرگیا تھا۔۔۔۔ انا کو نجانے کیوں مگر اب پکا یقین ہوگیا تھا کہ آج کچھ ایسا ہونے والا تھا جو اسکی پوری زندگی کو ہلا کر رکھ دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔