انا کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی اور رستم کا موبائل انریچ ایبل شو ہورہا تھا۔۔۔۔۔ اقرا کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو اسنے کاشان کو کال کردی۔۔۔۔۔۔
ان چند مہینوں میں کاشان اور اقرا میں اچھی خاصی جان پہچان ہوچکی تھی
’’ہیلو اقرا؟‘‘ ڈرائیو کرتے کاشان نے کال رسیو کی
’’کاشان تم اس وقت کہاں ہوں؟‘‘ اقرا نے چکر کاٹتے پوچھا
’’آفس جارہا ہوں۔۔۔۔ کیوں خیریت؟‘‘ کاشان کو اسکا لہجہ عجیب لگا
’’خیریت نہیں ہے کاشان۔۔۔۔۔ میم۔۔۔۔۔ میم کی طبیعت بہت بگڑ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سر کال رسیو نہیں کررہے تم پلیز جلدی آجاؤ۔۔۔۔۔ میم کو ہوسپٹل لیجانا ہے‘‘ اقرا نے بتایا تو کاشان نے فورا کار ریورس کی
’’ڈونٹ وری اقرا میں آرہا ہوں‘‘ کاشان نے اسے دلاسہ دیا اور فون بند کردیا
’’ایک تو پتہ نہیں کتنا عجیب انسان ہے ۔۔۔ اتنا کماتا ہے مگر پھر بھی صرف ایک ہی کار ہے۔۔۔۔ شیخ کہی کا‘‘ اقرا رستم کو سلوتیں سناتے بولی جب اسے انا کی زور دار چیخ سنائی دی۔۔۔۔۔۔ وہ انا کو تو بھول ہی گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ فورا انا کے پاس کمرے میں گئی جو پیٹ پر ہاتھ رکھے چیخ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسکی دلخراش چیخوں نے اقرا کو بھی جھنجھوڑ ڈالا تھا
جب سے انا ولیمہ والے دن گھر سے بنا بتائے گی تھی تب سے رستم نے گھر میں صرف ایک کار رکھی تھی جو وہ استعمال کرتا تھا اور انا کو ویسے بھی وہ گھر میں قید کرچکا تھا۔۔۔۔۔۔ اقرا بھی اسے خود سے نہیں لیجا سکتی تھی کیونکہ وہ خود کبھی رکشہ تو کبھی ٹیکسی کے ذریعے آتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انا کو چلاتے دیکھ ہی رہی تھی جب کاشان بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا
’’کاشان وہ میم‘‘ اقرا نے زور سے اسکا بازو پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ کاشان نے اقرا کو خود سے علیحدہ کیا اور جلدی سے انا کے پاس بھاگا۔۔۔۔ اسے اس وقت صرف اتنا معلوم تھا کہ انا تکلیف میں تھی اسی لیے بنا کچھ سوچے اس نے انا کو باہوں میں اٹھایا اور فورا باہر کی جانب بھاگا
’’اقرا جلدی آؤ‘‘ اقرا کو اپنی جگہ جمے دیکھ کر وہ چلایا تو اقرا ہڑبڑا کر اسکے پیچھے بھاگی
ہوسپٹل لیجاتے ہوئے انا کی حالت بہت سیریس ہوچکی تھی اسی لیے ڈاکٹرز اسے جلدی آپریشن روم میں لے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم جس کی آج ایک اہم میٹینگ تھی اسکے فائنل ہوتے ہی وہ کمرے سے باہر نکلا اور اپنا موبائل آن کیا تو اقرا کی ڈھیر ساری کالز دیکھ کر وہ چونکا۔۔۔۔ اگلے ہی پل خود کو نارمل کیے اس نے اقرا کو کال کی ۔۔۔۔۔۔ اقرا اپنا موبائل گھر ہی چھوڑ گئی تھی اسی لیے کال نہیں اٹھا رہی تھی۔۔۔۔۔ رستم نے دیکھا کہ موبائل پر گیٹ کیپر کی بھی کافی کالز تھی۔۔۔
گیٹ کیپر کو رستم نے سختی سے ہدایت دی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ انا کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دے گا اسی لیے اقرا نے کاشان کو کال کرکے بلوایا تھا
’’سلام صاحب!!‘‘ رستم نے گیٹ کیپر کو کال کی تو اس نے فورا کال رسیو کی
’’ہمم کال کی خیریت؟‘‘ رستم سلام کو اگنور کیے بولا
’’صاحب خیریت نہیں ہے وہ ملکہ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی وہ بہت چلا رہی تھی تو اقرا بی بی کاشان بابا کے ساتھ انہیں ہسپتال لیکر گئے ہے۔۔۔۔ ‘‘ گارڈ نے بتایا تو رستم کی آنکھیں پھیل گئی
’’ہمم اچھا ٹھیک ہے‘‘ رستم نے کال رکھی
’’بہادر خان جلدی سے گاڑی تیار کرواؤں ہمیں ہسپتال جانا ہے تمہیں ملکہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘ رستم اسے دیکھ کر بولا تو بہادر خان نے سر اثبات میں ہلادیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کاشان نے راستے میں کال کرکے ہوسپٹل کا پوچھ چکا تھا۔۔۔۔۔ کاشان نے وجدان اور زرقہ کو بھی انا کی حالت کے بارے میں بتادیا تھا۔۔۔۔۔ رستم جب تک ہوسپٹل پہنچا وہ دونوں بھی وہاں آچکے تھے
انا کو اندر گئے دو گھنٹے ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ رستم کو ایک پل بھی سکون کا میسر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔ وہ یہاں وہاں چکر کاٹ کر بار بار آپریشن روم کو دیکھتا۔۔ اسے یوں دیکھ کر زرقہ کو اپنے بھائی کی حالت پر ترس آیا۔۔۔۔۔۔ صرف زرقہ ہی نہیں سب کو ماسوائے اقرا کے جو غصے سے اسے گھور رہی تھی
کچھ دیر بعد ڈاکٹر باہر نکلی تو پیچھے نرس کے ہاتھ میں ایک بچہ تھا۔۔۔۔۔۔ رستم کو وہ ڈاکٹر جانتی تھی اسی لیے فورا اسکے پاس آئی۔۔۔۔۔۔
’’کانگریچولیشنز مسٹر رستم شیخ لڑکا پیدا ہوا ہے‘‘ ڈاکٹر کی بات پر رستم میں مزید اکڑ پیدا ہوگئی۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے دیکھا کہ اسکے بچے کو نرس اسے دینے کی بجائے نرسری لیجارہی تھی
’’ڈاکٹر یہ میرا بےبی۔۔۔۔۔؟‘‘
’’مسٹر شیخ آپکا بےبی پری میچور ہے اسی لیے ہم اسے کچھ دن انڈر ابزرویشن رکھے گے‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا
’’اچھا میری بیوی؟‘‘ رستم نے سوال کیا تو ڈاکٹر کا چہرہ ایک پل کو کرخت ہوگیا
’’یاد آگئی بیوی کی‘‘ اب کی اقرا چپ نہ رہ سکی تو فورا بولی۔۔۔۔ جس پر سب نے اسے گھورا مگر اقرا تو رستم کو ہی گھورے جارہی تھی
’’مسٹر شیخ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے اکیلے میں‘‘ ڈاکٹر کا بدلہ لہجہ رستم کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا
’’شیور‘‘ رستم ان کے پیچھے ان کے کیبن میں چل دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مسٹر شیخ آپ کا آپ کی وائف کے ساتھ ریلیشن کس قسم کا ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے بےتاثر لہجے میں پوچھا
’’آپ کو نہیں لگتا آپ بہت پرسنل سوال پوچھ رہی ہے؟‘‘ رستم نے سوال کے بدلے سوال کیا
’’بلکل بھی نہیں۔۔۔۔ ایک بہت جنرل سوال ہے‘‘ ڈاکٹر دھیمے لہجے میں بولی
’’ہم دونوں میں بہت محبت ہے‘‘ رستم زرا اٹک کر بولا
’’کس قسم کی محبت؟‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ بےتاثر ہی تھا
’’مطلب کیا ہے آپ کا؟‘‘ رستم کو اب غصہ آنا شروع ہوگیا تھا
’’بہت سیدھا سادھا سا سوال ہے کہ آپ کی بیوی میں اور آپ میں کس قسم کی محبت ہے؟ کیونکہ جو محبت کے نشان میں نے آپکی بیوی کے جسم پر دیکھے ہے۔۔۔۔۔۔ اگر اسے محبت کہتے ہے تو مجھے نفرت ہے آپ کی محبت سے۔۔۔۔ اور گھن آرہی ہے آپ جیسے محبوب شوہر پر‘‘ ڈاکٹر کا تیکھا لہجہ رستم کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا
’’زبان سنبھال کر ڈاکٹر!!‘‘ رستم دھاڑا
’’آپ بھی خود کو سنبھال کر بات کیجے رستم صاحب آپ اس وقت میرے کیبین میں موجود ہے سمجھے۔۔۔۔۔۔ اور میں چاہو تو آپ پر پولیس کیس بھی کرسکتی ہوں‘‘ ڈاکٹر نے اسے ڈرایا تو رستم ہنسا۔۔۔۔ اور اتنا ہنسا کہ ہنس ہنس کر کرسی پر گرگیا
’’تو آپ پولیس کیس کرے گی مجھ پر؟ ٹھیک ہے شوق سے کیجیے گا مگر پھر سلاخوں کے پیچھے تو آپ بھی جائے گی نا‘‘ رستم ہلکا سا مسکرایا
’’میں ۔۔۔۔۔۔ میں کیوں؟‘‘ ڈاکٹر ایک پل کو حیران ہوئی
’’وہ ڈاکٹر صاحبہ کیا ہے نا مجھے یاد آیا کہ مجھے پتہ چلا تھا کہ آپ کی بیٹی بہت بیمار تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسے کیڈنی چاہیے تھے۔۔۔۔۔۔ پھر اب ماشااللہ آپکی بیٹی بلکل پرفیکٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیڈنی ڈونر کہاں سے ملا؟ سچ ملا کے کیڈنی نکال لی گئی‘‘ رستم دھیمے لہجے میں بولا تو ڈاکٹر کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں چمکنے لگی
’’یہ۔۔۔یہ کیا بکواس ہے؟‘‘ ڈاکٹر غصے سے بولی
’’آواز نیچے ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔۔۔۔۔ اٹھارا ایپرل کو دوپہر دو بجے ایک کیس آیا تھا آپ کے پاس ۔۔۔۔۔۔ ایک شرابی جسے ایک گاڑی زور سے ٹکڑ مار کر گئی تھی۔۔۔۔ تب آپ آن ڈیوٹی ڈاکٹر تھی۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ کیس آپ نے لے لیا۔۔۔۔ مگر دیکھے نا خدا کی کرنی کیسی ہوئی۔۔۔۔۔ وہ آپ کی بیٹی کا پرفیکٹ ڈونر نکل آیا۔۔۔۔۔ وہ بیچارہ تو مر گیا مگر آپ کی بیٹی کو اپنی کیڈنی دان کرکے اسکا بھلا کرگیا۔۔۔۔۔۔ویسے آپ کے پاس وہ تو پیپرز تو ہوگے نا؟۔۔۔۔۔ پرمیشن لیٹر۔۔۔۔۔ ڈونر کی اجازت تو لی ہوگی نا آپ نے کیونکہ ظاہری بات ہے اگر وہ لیٹر آپ کے پاس نہیں ہے تو آپ مشکل میں پھنس سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ انکے چہرے کی اڑتی رنگت کو دیکھ کر رستم مسکرایا
’’اور ایک اور بات ڈاکٹر صاحبہ اگر آپ کے پاس میری ایک کمزوری ہے نا تو میرے پاس آپکی دس کمزوریاں ہے۔۔۔۔۔ وہ جو آپ کے شوہر نے آپکی ملازمہ کے ساتھ کیا تھا نا وہ بھی سب کچھ جانتا ہوں میں تو بہتر ہے آپ اپنا منہ بند رکھے اور میں اپنا‘‘ رستم پراسرار لہجے میں بولتا ایک جھٹکے سے روم سے باہر نکلا۔۔۔۔ جبکہ پیچھے ڈاکٹر نے جلدی سے ٹیشو کی مدد سے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا
’’رستم شیخ تم تو دوسرے فرعون ہوں‘‘ ڈاکٹر اسکے پیچھے سے بڑبڑائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری میچور ہونے کے باوجود بھی بےبی بہت تندرست تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے بہت جلد نرسری سے نکال کر روم میں انا کے پاس شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔ انا کو بیچ بیچ میں ہوش آرہا تھا مگر مکمل طور پر نہیں
’’ویسے بھائی اسکا کوئی نام سوچا آپ دونوں نے؟‘‘ محبت سے اپنی باہوں میں لیے اس بچے کو دیکھ کر زرقہ نے پوچھا
’’زارون رستم شیخ‘‘ رستم مسکرا کر بولا تو زرقہ بھی مسکرا دی
’’ہمم تو زارون صاحب اس دنیا میں آپکی آمد آپکو مبارک ہوں‘‘ اسکے گالوں کو چومتی زرقہ بولی تو رستم نے محبت سے اپنے بیٹے کو دیکھا اور ساتھ ہی انا کو جس نے ایک بار بھی زارون کو دیکھنے یا پکڑنے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔۔۔۔۔ وہ بس بنا تاثر لیے ان سب کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔۔ رستم کو ایسا لگا کہ وہ کسی اور ہی دنیا میں موجود ہوں۔۔۔۔۔
’’میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں‘‘ زرقہ کو جواب دیتے وہ انا کی جانب جھکا اور پھر اسکا ماتھا چوم کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا
’’زرقہ میری بیٹھنے میں مدد کروں گی؟‘‘ انا نے نقاہت زدہ آواز میں پوچھا
’’ہاں ضرور!!‘‘ زارون کو بےبی کاٹ میں ڈالے وہ انا کی جانب بڑھی اور اسے سہارا دیکر بٹھایا
زرقہ نے انا کو دیکھا جو زارون کی جانب دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔ زرقہ زارون کی جانب بڑھی اور اسے اپنی گود میں لیے انا کی جانب آئی
مگر انا تو کئی اور ہی پہنچی ہوئی تھی
انا کیا سوچ رہی ہو؟" چند دنوں کے زارون کو باہوں میں لیے زرقہ نے پوچھا۔۔۔ جس نے ایک بار بھی اپنی اولاد کو نہیں دیکھا تھا
’’سوچ رہی ہوں کہ اللہ نے کس ڈھیٹ مٹی سے بنایا ہے ہم دونوں کو جو اتنی اذیتیں ۔۔۔۔ اتنی تکالیف سہنے کے باوجود بھی نہ یہ مرا اور نہ ہی میں" زارون کو بےتاثر نگاہوں سے دیکھتی وہ بول کر زرقہ کو چونکا گئی
’’کیا مطلب؟‘‘ زرقہ کے پوچھنے پر انا چونک کر ہوش میں آئی
’’نہیں میرا مطلب کے ماں بننا کتنا مشکل ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔۔ کتنی تکلیفیں سہنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔ کتنا درد ہوتا ہے‘‘ انا بات گھما گئی تو زرقہ نے سکون کا سانس لیا
’’شکر انا۔۔۔۔۔ ورنہ میں تو کچھ اور ہی سمجھی‘‘ زرقہ اللہ کا شکر کرتے بولی
’’کہہ تو تم ٹھیک رہی ہوں انا مگر یہ قدرت کا قانون۔۔۔۔۔۔ اسے میں تم یا کوئی بھی نہیں بدل سکتا‘‘ زرقہ بولی تو انا نے سر اثبات میں ہلادیا۔۔۔۔۔
مزید ایک دو دن کے بعد انا گھر واپس آچکی تھی۔۔۔۔۔ فلحال اسکا سٹے نیچے روم میں تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج رستم نے اپنے ولا میں ایک بہت بڑا جشن رکھا تھا۔۔۔۔۔ انا اس وقت گرے کلر کی میکسی پہنے تیار ہورہی تھی۔۔۔۔ جب رستم نے اسے پیچھے سے باہوں کے گھیرے میں لیے اور اسکی گردن میں منہ چھپائے وہاں بوسہ دیا۔۔۔۔۔ مگر رستم یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ انا نے نہ تو اسے خود سے دور کیا اور نہ ہی کوئی مزحمت کی
’’مائی پرنسز!!‘‘ رستم بولتا اسکے ہونٹوں پر جھکا۔۔۔۔۔ انا نے اب کی بار بھی کوئی مزحمت نہیں کی تو رستم ہلکا سے بل ماتھے پر ڈالے تھوڑا پیچھے کو ہوا
’’اس عنایت کی وجہ جان سکتا ہوں؟‘‘ رستم نے حیرت سے سوال کیا
’’ہاں کیوں نہیں‘‘ انا ہلکا سا مسکرائی
انا مسکرائی رستم کے لیے رستم تو بس اسکی مسکراہٹ کو دیکھتا رہا
’’اچھا کیا وجہ ہے‘‘ اسے اپنے سینے سے لگائے رستم نے پوچھا
’’میں اب یہ اور نہیں کرسکتی‘‘ انا دھیرے سے بولی
’’میں ۔۔۔۔۔۔ میں ایک موقع دینا چاہتی ہوں۔۔۔۔ آپ کو خود کو۔۔۔۔ اس رشتے کو۔۔۔۔۔ کیا ہم آج سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں؟‘‘ انا نے یہ بات کس طرح دل پر پتھر رکھ کر بولی تھی وہی جانتی تھی
’’کیا سچ میں؟‘‘ رستم کی آنکھیں روشن ہوئی
’’ہاں بلکل ‘‘ انا بھی ہلکا سا مسکرائی
’’اوہ پرنسز۔۔۔۔ تم نہیں جانتی آج میں کتنا خوش ہوں۔۔۔۔۔ میں تمہاری بات سے متفق ہوں ۔۔ مگر۔۔۔‘‘ وہ رکا
’’مگر؟‘‘
’’مگر مجھے تم پر یقین نہیں۔۔۔۔۔ مجھے یقین دلاؤ۔۔۔۔۔۔ احساس دلاؤ کہ میں تم پر بھروسہ کرسکوں اگر تم نے اس بار بھی مجھے دھوکہ دینے کے بارے میں سوچا تو؟‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ جو کہے گےوہ کروں گی۔۔۔۔ آپ کا یقین جیت کر دکھاؤ گی میں آپ کو‘‘ انا تڑپ کر بولی
’’اور تم ایسا کیوں کروں گی؟‘‘ رستم کو ابھی بھی اس پر شک تھا
’’آپ کو یاد ہے آپ نے کہاں تھا کہ آپ ایک اچھی لائف گزارنا چاہتے ہے۔۔۔۔۔ آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے بچے کو بھی وہی زندگی ملے جو آپ نے گزاری۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا بچپن کیسا تھا۔۔۔۔۔ مگر اتنا معلوم ہے کہ اب ہمیں ساری زندگی ساتھ ہی گزارنی ہے تو کیوں نا خوشی سے گزاری جائے۔۔۔۔۔ اچھی یادیں بنائی جائے‘‘ بظاہر مسکرا کر بولتی وہ عورت کتنی توڑ پھوڑ کا شکار تھی یہ صرف وہی جانتی تھی
’’کیا سچ میں؟‘‘ رستم کی آنکھیں روشن ہوئی
’’ہاں سچ میں‘‘ انا بھی مسکرائی تو رستم نے اسے محبت سے خود میں بھینچ لیا
’’تم نہیں جانتی انا کہ تم نے مجھے کتنی بڑی خوشخبری دی ہے‘‘ رستم کی خوشی انتہا پر تھی جبکہ انا بس مسکرا دی
’’چلے سب مہمان آگئے ہیں؟‘‘ رستم نے اس سے پوچھا
’’آپ جائے میں بس ریڈی ہوجاؤ‘‘ انا ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولی
’’ہمم جلدی آنا‘‘ اسکا ماتھا چومتے وہ وہاں سے نکل گیا
’’ایم سوری ماما پاپا۔۔۔۔۔۔ ایم سوری ڈاکٹر کنول۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر میں ایسا نہ کرتی تو میں اپنی اولاد کو بھی رستم بننے سے نہ روک پاتی‘‘ زارون کو دیکھتے وہ نم آنکھوں سے بولی تو ایک قطرہ آنسو چھلک کر زارون کے گال پر گرگیا۔۔۔۔۔ انا نے جلدی سے آنسوؤں صاف کیے
اور پھر وہی ہوا جیسا رستم نے چاہا انا نے خود کو رستم کے ہر ایک رنگ میں ڈھال لیا تھا۔۔۔۔۔ پورے کپڑے پہننے والی انا اب سلیولیس بھی پہنتی۔۔۔۔۔۔ بیک لیس اور ڈیپ گلے بھی پہنتی تھی۔۔۔۔۔ انا نے رستم کو خود کے اتنا قریب کرلیا تھا کہ اس نے زارون کو خود سے اور رستم سے دور کردیا۔۔۔۔۔۔ زارون زیادہ تر اقرا ، زرقہ یا ہمدہ بیگم کے پاس ہی رہتا تھا
صبح رستم آفس جاتا تو زارون سویا ہوا ہوتا تھا اور جب شام میں واپس آتا تو انا اسے خود میں الجھا دیتی
زارون کا رستم سے دور رہنا ہی بہتر تھا۔۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ رستم جیسے شخص کا سایہ بھی اسکے بچے پر پڑے مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ چاہے جو بھی خون اپنا اصل رنگ ضرور دکھاتا ہے۔۔۔۔۔۔
انا نے زارون کو خود سے اتنا دور کرلیا تھا کہ اگر وہ کبھی اسے پکڑتے بھی تو وہ اسکی گرفت میں مچلنے لگتا یا رونا شروع کردیتا۔۔۔۔۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ زرقہ کے پاس جاتا تو وہ خاموش ہوجاتا
سب اس پر ہنستے کہتے دیکھو زرا ماں سے زیادہ پھوپھو کا لاڈلا ہے جس پر انا بھی ہنس دیتی مگر وہ اندر سے کس اذیت میں گزر رہی تھی کوئی نہیں جانتا تھا
رستم شیخ نے اسکی ہستی کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔ انا کا بھی دل چاہتا اپنی اولاد کو چومنے کا۔۔ اس سے باتیں کرنے۔۔۔۔۔ کھیلنے کا۔۔۔۔ روزانہ رات اسے سینے سے لگا کر سلانے کا۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے زراون کو خود سے دور کردیا۔۔۔۔ زارون گھر پر بھی کم ہی رہتا تھا روزانہ زرقہ اسے اپنے ساتھ لیجاتی اور انا بھی اسے منع نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔ رستم نے بھی کبھی زراون کے بابت اتنے سوال نہیں کیے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ ہفتے میں ایک بار فیملی پکنک ضرور منانے جاتا جس میں انا زرقہ کو بھی فیملی ممبر کا کہہ کر ساتھ لیجاتی اور زارون کو اس کے حوالے کردیتی
’’یہ تم مجھے میرے بیٹے سے دور کیوں رکھتی ہوں؟‘‘ رستم نے اپنے سینے پر سر رکھ کر لیٹی انا سے پوچھا تو ایک پل کو اسکا دل کانپ اٹھا
’’تاکہ میں آپ کے قریب رہ سکوں‘‘ انا کھلکھلا کر بولی تو رستم بھی مسکرا دیا
رستم نے غور سے اپنی بیوی کو دیکھا جو لال رنگ کی نائٹی پہنے ہوئے تھی
’’تم جانتی ہوں تم بہت خوبصورت ہوں میری جان‘‘ رستم اسے اپنے شکنجے میں لیے بولا جس پر انا مسکرا دی
’’ہاں‘‘ انا آنسو اپنے اندر اتارتے بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار سال بعد
چار سال۔۔۔۔۔۔۔ چار سال ہوچکے تھے انا کو رستم کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے۔۔۔۔ زارون کا ایڈمیشن انا نے سکول میں کروادیا تھا۔۔۔۔۔ اس طرح زارون اسکی زندگی سے مزید دور ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ان چار سالوں میں اقرا اور کاشان کی شادی کے ساتھ ساتھ وجدان اور زرقہ کی بھی شادی ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔ زرقہ کی شادی کو دو سال ہوچکے تھے جبکہ ابھی تک اسکی کوئی اولاد نہیں تھی۔
رستم بھی بےبی چاہتا تھا مگر ابھی تک انکی زندگی میں صرف زارون تھا جس پر رستم نے انا کو ٹیسٹ کروانے کا کہاں تو وہ گڑبڑا گئی۔ اور رستم کو اللہ کی مرضی کہہ کر ٹال دیا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر رستم نہیں ہٹا اور ڈاکٹر سے رجوع کیا تو ڈاکٹر نے رستم کو صاف صاف بتایا کہ ان کی رپورٹس کلیئر ہے انہیں بس اللہ پر یقین رکھنا چاہیے۔۔۔۔۔۔ رستم کا موڈ خراب ہوچکا تھا جس پر انا نے اسے بہت مشکل سے بہلایا تھا
’’انا میری واچ کہاں ہے؟‘‘ آج زارون کی چوتھی سالگرہ تھی جس کی بڑے پیمانے پر دعوت رکھی گئی تھی
’’ٹیبل پر ہے‘‘ واشروم سے انا بولی
رستم نے ٹیبل پر دیکھا تو اسکی واچ وہاں تھی وہ واچ اٹھا کر مڑنے ہی لگا تھا کہ اسے انا کے پرس سے کوئی میڈیسن باہر نکلی نظر آئی۔۔۔۔۔۔ رستم نے وہ میڈیسن نکالی تو اسکے چبڑے بھینچ گئے جبکہ غصے سے اسکی رگیں تن گئی
’’انا!!!!‘‘ وہ دھاڑا تو واشروم میں موجود انا کا دل کانپ گیا۔۔۔۔۔ چار سال بعد اس نے یہ دھاڑ سنی تھی
’’کک۔۔۔۔کیا ہوا؟‘‘ انا نے واشروم سے نکل کر پوچھا
’’یہ کیا ہے؟‘‘ سرخ آنکھوں سے رستم نے انا سے سوال کیا۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھ میں موجود میڈیسن دیکھ کر انا کی ٹانگیں کانپنے لگی
’’تم اینٹی پریگنینسی پلز لے رہی ہوں‘‘ رستم نے سرد لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔۔ انا سے تو کچھ بولا ہی نہیں گیا
’’نن۔۔۔۔نہیں یہ میری نہیں ہے‘‘ انا نے جلدی سے جھوٹ بولا
’’اچھا تو پھر کس کی ہے؟‘‘ رستم نے انا سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ روم میں آتی زرقہ جو انکی بات سن چکی تھی فورا سے آگے آکر بولی
’’بھائی یہ میری ہے‘‘ زرقہ نے فورا رستم کے ہاتھ سے وہ میڈیسن لی تو انا نے سکون کا سانس لیا
’’تمہاری۔۔۔۔۔۔ تو یہ انا کے پاس کیا کررہی تھی؟‘‘ رستم نے سخت لہجے میں پوچھا
’’وہ میری میڈیسن ختم ہوگئی تھی تو میں نے انا سے بولا کہ وہ مجھے لادے۔۔۔۔ میں بس ابھی یہی لینے آرہی تھی‘‘ زرقہ لہجہ ہشاش بشاش رکھے بولی
’’ہمم ٹھیک‘‘ رستم نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا
’’تو میں یہ لے لو؟‘‘ زرقہ نے پوچھ کر میڈیسن لینی چاہی تو رستم نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا
’’نہیں‘‘ زرقہ کو جواب دیے وہ واشروم میں داخل ہوا اور ساری میڈیسن فلش میں بہادی
’’آئیندہ سے میری بیوی سے ایسی چیزوں کی فرمائش مت کرنا سمجھی‘‘ رستم نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا تو زرقہ نے فورا سر اثبات میں ہلادیا
’’اور تم اگر آئیندہ سے ایسی چیزیں میرے گھر میں آئی تو جان نکال دوں گا تمہاری‘‘ اب کی بار رخ انا کی جانب تھا
’’جی ٹھیک‘‘ انا ہلکے لہجے میں بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاڑتی ختم ہوتے ہی زراون سو گیا تھا جسے انا جب اسکے کمرے میں لٹا کر اپنے کمرے میں آئی تو رستم کو چکر لگاتے دیکھ کر حیران ہوئی
’’یہ لو جلدی سے پہن کر آؤں‘‘ اسکے ہاتھ میں نائٹی تھماتے وہ بولا تو انا کے وجود میں سنسنی پھیل گئی۔۔۔۔۔ مسئلہ وہ نائٹی نہیں بلکہ رستم کا انداز تھا۔۔۔۔۔۔ آج کی رات بہت بھاری پڑنے والی تھی انا پر۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی رستم سیدھا وجدان سے ملنے گیا تھا۔۔۔۔۔
’’ارے رستم آؤں۔۔۔۔۔ آج کیسے آںا ہوا؟‘‘ وجدان اسے دیکھ کر مسکرا کر بولا
’’ہاں ویسے ہی سوچا مل لوں‘‘ رستم نے جواب دیا
’’کافی پیو گے؟‘‘
’’شیور!!‘‘
کافی کے آتے ہی وجدان اور رستم نے ادھر ادھر کی باتیں کی۔۔۔۔۔ وجدان کو ایسا محسوس ہوا کہ رستم اس سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں
’’کیا ہوا رستم کچھ پوچھنا ہے؟‘‘ وجدان نے اس سے سوال کیا
’’ہاں وہ تم مائنڈ نہیں کروں تو ایک پرسنل سوال ہے پوچھ لو؟‘‘ رستم نے پوچھا
’’ہاں کیوں نہیں‘‘ وجدان نے اجازت دی
’’تم نے زرقہ نے کسی کی قسم کی کوئی فیملی پلاننگ کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی مین کے تم دونوں کو دو سال ہوگئے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں رستم ایسا ہی سمجھ لوں۔۔۔۔۔۔ زرقہ ابھی ان سب کے لیے تیار نہیں تو میں نے بھی فورس نہیں کیا۔۔۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟‘‘ وجدان نے حیرت سے پوچھا
’’نہیں وہ تمہاری بیوی نے میری بیوی سے میڈیسن منگوائی تھی بس اسی لیے پوچھ لیا‘‘
’’ہاں وہ زرقہ کی میڈیسن ختم ہوگئی تھی اسی لیے اس نے منگوا لی کیوں کچھ ہوا ہے؟‘‘ وجدان نے سوال کیا
’’ارے نہیں کچھ نہیں‘‘ رستم نے سر نفی میں ہلایا
تھوڑی دیر اور بیٹھنے کے بعد رستم کے جاتے ہی وجدان نے شکر کا سانس لیا تھا۔۔۔۔۔ زرقہ اسے کل رات ہی واپسی پر سب کچھ بتاچکی تھی۔۔۔۔ وجدان جانتا تھا رستم کی نیچر کو۔۔۔۔۔۔ اسے یقین تھا کہ رستم ضرور اس سے پوچھنے آئے گا اور وہی ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ رستم کے سوال نے وجدان کو بہت تکلیف دی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکی زرقہ کی بہت خواہش تھی مگر یہ سب اللہ کی دین تھی۔۔۔۔۔ اسی لیے ان دونوں نے بھی صبر کو ترجیح دی تھی۔۔۔۔۔ مسئلہ بچے کا نہیں تھا۔۔۔۔۔ مسئلہ تو لوگوں کی باتوں کا تھا۔۔۔۔۔ جنہیں یہ سن کر حیرانگی ہوئی کہ دو سال ہوگئے شادی کو مگر کوئی خوشخبری نہیں۔۔۔۔۔ یہ بات جتنی تکلیف وجدان کو دیتی اس سے زیادہ زرقہ کو دیتی۔۔۔۔۔۔ مگر ان دونوں نے خود کو سنبھال لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تاشہ؟‘‘ غازان جو ڈائنگ ٹیبل پر ناشتہ کرنے آیا تھا سامنے اپنی بہن کو بیٹھے دیکھ کر حیران ہوا
’’تم کب آئی؟‘‘ چار سال پہلے جب غازان امریکہ گیا تھا تو تاشہ کو اپنے ساتھ لیکر گیا تھا اور پھر اسکا وہی آگے کی پڑھائی کے لیے ایڈمیشن کروادیا تھا۔۔۔۔۔ یہ تو صرف ایک بہانہ تھا اصل میں تو تاشہ کا وہاں علاج چل رہا تھا جو کہ دماغی طور پر پاگل ہوتی جارہی تھی
’’جی بھائی میں!‘‘ وہ ہلکا سا مسکرائی
’’تم یوں اچانک۔۔۔۔۔ مجھے بتادیتی میں آجاتا لینے‘‘ غازان بولا
’’تو پھر سرپرائز کیسے ہوتا‘‘ تاشہ پراسرار سا مسکرائی
’’ویل یہ بھی ٹھیک کہاں‘‘ غازان اسے دیکھ کر مسکرایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’زارون سکول میں کسی کو تنگ نہیں کرنا اور نہ ہی کسی سے لڑنا‘‘ انا نے اسے وارن کیا جبکہ زارون انا کی باتیں بےدلی سے سنتا باہر کے نظارے دیکھ رہا تھا
’’زارون میں نے کیا کہاں ہے؟‘‘
’’ماما میں نے سن لیا‘‘ زارون ہلکی آواز میں بولا
’’ہمم گڈ بوائے‘‘ انا اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرتے بولی
گاڑی اب سیدھی سڑک پر چل رہی جب اچانک گاڑی پر فائرنگ ہونا شروع ہوگئی۔۔۔۔۔ یہ علاقہ کم رش والا تھا۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی پر مسلسل فائرنگ ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ تو شکر تھا کہ گاڑی بلٹ پروف تھی
انا نے زارون کو جلدی سے اپنے سہنے میں چھپایا اور رستم کو کال کی
’’ہہ۔۔۔ہیلو رستم‘‘ انا کانپتی آواز میں بولی
’’ہیلو انا کیا ہوا؟‘‘
’’رستم وہ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی ایک بار پھرسے فائرنگ شروع ہوئی اور انا کی چیخ نکل گئی
’’انا کیا ہوا ہے؟‘‘ رستم پریشان سا بولا
’’رستم پلیز آجاؤ‘‘ انا روتے ہوئے بولی اور موبائل ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
رستم فورا آفس سے باہر بھاگا اور بہادر خان کو آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔ کال آن ہونے کی وجہ سے اسے دوسری جانب سے گولیوں کی، انا کی چیخوں اور زارون کے رونے کی آوازیں آرہی تھی
دوسری جانب بھی جب فائرنگ سے کوئی فرق نہیں پڑا تو وہ لوگ واپس چلے گئے۔۔۔۔۔۔ انا ابھی تک خوف کے زیر اثر تھی جب رستم پندرہ منٹ میں وہاں پہنچا۔۔۔۔۔۔ رستم فورا سے انا اور زارون کی جانب بھاگا اور انہیں سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر تک وہ ان دونوں کو گھر بھجوا چکا تھا اور اب آس پاس نظریں دوڑانے لگا جب اسے ایک سی۔سی۔ٹی۔وی کیمرہ لگا نظر آیا اسکی آنکھیں چمک اٹھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بتاؤں مجھے کس کے کہنے پر کیا تھا یہ سب؟‘‘ ان سب کی چمڑی ادھیڑ دی گئی تھی
’’صاحب جی وہ ایک لڑکی تھی۔۔۔۔۔ جی اس نے بولا وہ دونوں ماں بیٹا کو ختم کردے۔۔۔۔۔‘‘ ان میں سے ایک روتے ہوئے بولا
کیمرہ کے ذریعے رستم انہیں جلد پکڑ چکا تھا۔۔۔۔۔ ان لوگوں نے منہ پر ماسک بھی نہیں پینا تھا اس لیے اور آسانی ہوگئی تھی
’’کون تھی وہ؟‘‘ رستم نے آگے کو ہوکر پوچھا
صاحب جی وہ کوئی بڑی جی امیر کبیر خاندان کی لگ رہی تھی‘‘
’’نام کیا تھا؟‘‘
’’نہیں معلوم‘‘ اس نے سر نفی میں ہلایا
’’کتنے پیسے دیے تھے اس کام کے؟‘‘ رستم نے سوال کیا
’’جی پندرہ لاکھ‘‘
’’کیش دیا تھا؟‘‘
’’نہیں اکاؤنٹ میں بھیجے تھے‘‘ یہ سن کر رستم کی آنکھیں چمکی
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور باہر کی جانب بڑھا
’’ماسٹر انکا کیا کرنا ہے؟‘‘ بہادر خان نے سوال کیا
’’ڈال دوں بھوکے کتوں کے آگے‘‘ وہ سرد لہجے میں بولتا باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔
رستم نے اکاؤنٹس کی سب ڈیٹیلز نکلوائی تھی اور جو نام سامنے آیا اس پر اس نے دانت پیسے تھے۔۔۔۔
’’تاشہ نثار انصاری۔۔۔۔۔۔۔ آج کا دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہے۔۔۔۔۔ تیار رہوں موت کو تم نے خود دعوت دی ہے‘‘ وہ غصے سے پھنکارا
بلیک کلر کی کار میں بیٹھے وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہاں موجود تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ تاشہ نے پاکستان واپس آکر یہی جم جوائن کیا۔۔۔۔۔۔ اپنی گن لوڈ کیے وہ کب سے اسکا انتظار کررہا تھا۔۔۔۔۔ جب وہ اسے کچھ لڑکیوں کے ساتھ باہر آتی دکھائی دی تھی
’’یور گیم از اوور!!‘‘ اور ساتھ ہی تاشہ کے سر کا نشانہ لیے رستم شیخ اسکا کام تمام کرچکا تھا
بہت جلد وہاں لوگوں کا ایک رش سا قائم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ جبکہ رستم نے آرام سے گھر کی جانب گاڑی موڑ لی تھی۔۔۔۔۔ آخر کو تیاری بھی تو کرنی تھی جنازے میں شریک ہونے کی۔
گھر آکر وہ فریش ہوا اور سونے کے لیے لیٹ گیا کیونکہ رات کو اسے غازان کو بھی حوصلہ دینا تھا۔۔۔۔۔۔ آخر کو بیچارے نے اپنی بہن کھوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔
تاشہ کی موت کی خبر سب پر بجلی بن کر گری تھی ماسوائے غازان کے جسے رستم پر شک تھا اور رہی سہی کسر رستم کی اس طنزیہ مسکراہٹ نے پوری کردی تھی جو اس نے غازان کی جانب اچھالی
’’بہت افسوس ہوا تمہاری بہن کا سن کر‘‘ رستم ہلکی سے مسکان لیے بولا
’’فکر مت کروں بہت جلد یہ الفاظ میں تمہیں بھی لوٹاؤں گا‘‘ بظاہر گلے ملتے وہ ایک دوسرے سے بولے
’’شوق سے‘‘
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا رستم‘‘ غازان دانت پیستے بولا
’’میں ایسا ہرگز نہ کرتا اگر تمہاری بہن میری بیوی اور بچے سے دور رہتی‘‘ ہاں وہ مان رہا تھا کہ اسنے ہی تاشہ کو مارا ہے۔۔۔۔۔۔
غازان انصاری اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا اسکا یقین تھا رستم کو۔۔۔۔ مگر ضروری نہیں ہر بار بازی آپ کے ہاتھ میں ہی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ کہی جارہے ہیں؟‘‘ رستم کو جلدی سے پیکنگ کرتے دیکھ کر انا نے پوچھا
’’ہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگیا ہے مجھے سنگاپور جانا ہوگا ارجنٹلی‘‘ اسے جواب دیتا رستم اپنا بیگ پیک کرنے لگا
’’کیسا مسئلہ؟‘‘ انا نے پوچھا
’’ہے بزنس کا ایک مسئلہ تم نہیں سمجھو گی‘‘ اسکو جواب دیتے رستم کے ہاتوں میں تیزی آئی
’’آپ کب تک نکلے گے؟‘‘
’’گھنٹے تک‘‘ رستم نے مصروف سا جواب دیا
’’ہمم!!‘‘
اپنی سب پیکنگ کرنے کے بعد رستم انا کے پاس آیا جو وہی کھڑی اسے اپنی جانب آتے دیکھ رہی تھی
’’اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔۔ اوکے‘‘ رستم اسکے ماتھے کو چومتے بولا تو انا سے سر اثبات میں ہلادیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کے جانے کے دوسرے دن ہی انا کو اپنی طبیعت میں بوجھل پن محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے کئی بات الٹیاں آئی تھی اور چکر بھی۔۔۔۔
’’کہی میں!! نہیں، نہیں ایسا نہیں ہوسکتا‘‘ اپنا شک دور کرنے کے لیے انا ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گئی تھی
’’کانگریچولشنز مسز رستم یو آر پریگنینٹ‘‘ یہ خبر بجلی بن کر انا پر گری تھی اور وہی کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی تھی
اسکی آنکھیں لال ہوچکی تھی اور آنسو قطرہ قطرہ بہنے لگے تھے..