انا کو ہوسپٹل میں رہتے ہوئے مہینہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ رستم ایک بار بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔۔ انا کی یہاں ہر طرح سے دیکھ بھال کی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ رستم نے اس کے لیے بیسٹ ڈائٹیشن اور ڈاکٹرز کی ٹیم کو ہائر کیا تھا جو اسکی ہر طرح سے دیکھ بھال میں لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ انا تیزی سے صحت یاب ہورہی تھی اور اسکی صحت بھی بہت اچھی ہوگئی تھی۔۔۔۔ وہ روزانہ صبح شام تازہ ہوا میں لیجایا جاتا۔۔۔۔۔۔ مگر انا کا دماغ صرف رستم کی طرف تھا۔۔۔۔۔ وہ اتنے پرسکون ماحول میں بھی سکون سے جی نہیں پارہی تھی
’’انا!!!!‘‘ زرقہ ہاتھ میں دھیڑ سارے شاپنگ بیگز لیے اس سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہی انا مسکراہ دی
’’کیسی ہوں؟‘‘ زرقہ بیگز صوفہ پر رکھتی اسکے سامنے بیٹھتے بولی
’’بلکل ٹھیک تم سناؤ؟‘‘ انا نے مسکرا کر پوچھا
’’میں ایک دم فٹ اور یہ دیکھو میں کیا لائی ہوں‘‘ زرقہ اسکے سامنے بیگز رکھتے بولی
’’یہ کیا ہے؟‘‘ انا نے بیگز میں چھوٹے بچوں کے کھلونے اور کپڑے دیکھے تو حیران رہ گئی
’’کیا مطلب کیا ہے؟ بھئی جو ننھا مہمان آرہا ہے اسکی شاپنگ ہے۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہوں میں اتنی ایکسائٹیڈ ہوں کہ کیا بتاؤں؟‘‘ زرقہ خوشی سے چہکی تو انا ہنس دی
’’کیسے ہیں؟‘‘ زرقہ نے مسکرا کر پوچھا
’’بہت اچھا‘‘ انا بھی مسکرائی مگر اس کا دل خوش نہیں تھا۔۔۔۔
انا کو اس بچے سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔۔۔ اسے نا تو اس سے محبت تھی اور نا ہی نفرت۔۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس میں اس بچے کا کوئی قصور نہیں مگر پھر بھی وہ اپنے اندر دور دور تک ممتا کا احساس محسوس نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی وہ ماں تھی۔۔۔۔۔ اسی لیے تو اس بچے کی خاطر رستم سے نبھا کرنے کو تیار تھی
’’انا ایک بات کہوں؟‘‘ دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے زرقہ ہچکچا کر بولی
’’ہاں کہوں۔۔۔۔ تمہیں کب سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس ہونے لگی؟‘‘ انا نے مسکراہ کر پوچھا
’’انا تم پلیز اپنی لائف میں سیٹ ہونے کی کوشش کروں۔۔۔۔۔ آگے بڑھو انا۔۔۔۔۔۔ دیکھو میں جانتی ہوں کہ بھائی کو معاف کرنا آسان نہیں۔۔۔۔۔ مگر ایک بار اس بچے کے بارے میں سوچو۔۔۔۔ تم جانتی ہوں جب تمہیں گولی لگی تھی تو بھائی کیا حالت کیا تھی۔۔۔۔۔ وہ پاگل ہونے کے در پر تھے۔۔۔۔۔ کئی کئی دن گھر نہیں جاتے۔۔۔۔۔ میں نے انکا پاگل پن، انکا جنون دیکھا ہے انا‘‘
’’وہ تو میں نے بھی دیکھا ہے‘‘ انا بولی تو قطرہ آنکھ سے ٹوٹ کر گرا
’’تم نہیں جانتی انا وہ تم سے کتنی محبت کرتے ہے۔۔۔۔۔ کتنا ڈر گئے تھے وہ۔۔۔۔۔۔ اور جب تم بےہوش تھی۔۔۔۔۔ پورا دن، پوری رات تمہارے پاس رہتے ایک پل کو بھی تم سے دور نہیں ہوتے‘‘
’’کاش میں ساری زندگی بےہوش رہتی‘‘ انا نے تلخی سے سوچا
’’اور اب دیکھو کیسے ڈاکٹرز کی ٹیم ہائر کی صرف تمہارے لیے۔۔۔۔۔ تاکہ تمہاری صحت اچھی ہوں۔۔۔۔۔ انہیں تمہاری فکر ہے انا۔۔۔۔۔ دیکھو کتنا خیال رکھا جاتا ہے تمہارا یہاں صرف بھائی کی بدولت‘‘
’’ہاں قربانی کے بکرے کی بھی ایسی ہی خدمتیں کی جاتی ہے‘‘ انا نے پھر سے سوچھا
’’پلیز انا اب تم بھی تھوڑا اپنے دل کو نرم کروں۔۔۔۔۔ مانتی ہوں جو بھائی نے کیا وہ سہی نہیں کیا۔۔۔۔۔ ٖغلطی ہوگئی۔۔۔۔‘‘
’’غلطی!!‘‘ انا نے تیزی سے چہرہ موڑے زرقہ کو دیکھا
’’غلطی نہیں گناہ زرقہ۔۔۔۔۔۔ تمہارے بھائی نے گناہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ایک گناہگار ہے‘‘ انا زرقہ کی بات کاٹتے بولی
’’انا مگر گناہ کی معافی تو ہوتی ہے نا؟‘‘ زرقہ نے اسے ایک اہم پہلو سے روشناس کروایا
’’ہاں ہوتی ہے مگر تب جب گناہگار کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوں افسوس ہوں‘‘ انا نے جواب دیا
’’ایسا مت کہوں انا بھائی کو پچھتاوا ہے۔۔۔۔۔ تم نے خود بتایا تھا بھائی نے ایک موقع مانگا تھا‘‘ زرقہ تڑپ کر بولی
’’میری غلطی تھی جو میں نے موقع دیا۔۔۔۔۔ اور کیسا پچھتاوا زرقہ۔۔۔۔۔۔ میں نے تو دوبارہ اس درد کو محسوس کیا ہے زرقہ مگر تم نہیں سمجھو گی‘‘ انا کا دماغ اپنی شادی والی رات پر جاپہنچا۔۔۔۔۔۔ کتنی منتیں کی تھی اس نے رستم کی۔۔۔۔۔ بس تھوڑا سا وقت ہی مانگا تھا۔۔
’’پلیز انا بھائی کو معاف کردوں‘‘ زرقہ نے منت کی
’’معاف کردیتی اگر وہ صرف میرا گناہگار ہوتا ۔۔۔۔۔ مگر وہ تو میرے ماں باپ ڈاکٹر کنول اور نجانے کتنے لوگوں کا گناہگار ہے‘‘ کھڑکی کی جانب منہ موڑے انا نے سوچا اور پھر زرقہ کو دیکھا جو امید سے اسے دیکھ رہی تھی
’’مجھے نیند آرہی ہے زرقہ۔۔۔۔تھک چکی ہوں بہت سونا چاہتی ہوں میں‘‘ انا بولی تو زرقہ لمبی سانس کھینچ کر رہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بہادر خان!!‘‘
’’جی ماسٹر؟‘‘
’’ملکہ کے ماں باپ کے بارے میں انفارمیشن ملی؟‘‘ انا سے وہ ابھی مل کر آیا تھا۔۔۔ انا اور زرقہ کی آپس کی گفتگو سن کر اسکا دماغ سن ہوگیا تھا
وہ رستم سے دور جانا چاہتی تھی۔۔۔۔ اسے موت رستم کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے زیادہ بہتر آپشن لگتا تھا
’’جی ماسٹر فائل آپ کے آفس روم میں ہے‘‘ بہادر خان اسکے ساتھ چلتے بولا۔۔۔۔ وہ اب ایک ہاتھ پر پٹی باندھ کر رکھتا تھا۔۔۔۔
’’ہمم سہی‘‘ رستم نے سر ہلایا اور گھر میں موجود آفس روم میں داخل ہوا۔۔۔ وہاں موجود فائل کو اس نے اٹھایا تو اس میں سے ایک مرد اور عورت کی تصویر نیچے زمین پر گرگئی
رستم نے تصویر اٹھائی تو وہ دونوں اسے کچھ جانے پہچانے لگے۔۔۔۔۔ بہت سوچنے پر جب یاد آیا تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔۔ ان دونوں کو وہ کیسے بھول سکتا تھا
’’ڈیم اٹ‘‘ اچانک پیپر ویٹ ٹیبل سے اٹھائے زمین پر مارتے وہ چلایا
’’ڈیم اٹ۔۔۔۔۔ ڈیم اٹ۔۔۔۔ ڈیم اٹ‘‘ وہ پورا ہر ایک چیز زمین پر اٹھا اٹھا کر مار رہا تھا
’’بہادر خان!!‘‘ وہ دھاڑا
’’ماسٹر!!‘‘ اسکی دھاڑ سن کر بہادر خان فورا سے حاضر ہوا
’’بہادر خان صرف دو دن کا وقت ہے تمہارے پاس مجھے وہ عامر زندہ سلامت چاہیے۔۔۔۔۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ دن اس دنیا میں تمہارا آخری دن ہوگا۔۔۔۔ سمجھے!!‘‘ رستم وارننگ زدہ لہجے میں بولا
’’جیسا حکم ماسٹر!!‘‘ بہادر خان موؤدب سا بولا
رستم کو پہلی بار ڈر لگ رہا تھا۔۔۔۔ وہ کیسے بھول سکتا ہے ان دونوں میاں بیوی کو۔۔۔۔۔ اپنے ہی ہاتھوں سے اس نے ان دونوں کی جان لی تھی۔۔۔۔۔ انکی موت پر ہنسا تھا۔۔۔۔۔ کتنا تڑپایا تھا اس نے۔۔۔۔۔۔ اسکا مطلب تھا کہ وہ عامر وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا اسکے پاس ضرور کوئی ایسا ثبوت تھا جو رستم کو برباد کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے تئی ان دونوں میاں بیوی کی موت کا ہر ثبوت مٹاچکا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر بھی اسکا ایک آدمی غدار نکلا اور اس کے ہاتھ لگنے سے پہلے وہ عامر کے ہاتھ لگ گیا۔۔۔۔۔ مگر اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ یہ عامر تھا کون؟ اور انا۔۔۔۔۔ انا کو سچ معلوم ہوچکا تھا
’’آاااااااااا!!!‘‘ وہ دھاڑا
’’نہیں انا چاہے کچھ بھی ہوجائے میں تمہیں خود سے دور نہیں جاے دوں گا۔۔۔ پھر چاہے مجھے تمہیں زنجیروں سے باندھ کر ہی کیوں نا رکھا ہوں مگر تم مجھ سے دور نہیں جاسکتی۔۔۔۔ کبھی نہیں‘‘ وہ آنکھوں می جنونن لیے خود سے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے اٹھارہ گھنٹوں سے بہادر خان عامر کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔۔ اسے اپنی جان کی فکر تھی اگر رستم نے کہاں تھا کہ وہ اسے مار ڈالے گا تو وہ واقعی اسے مار ڈالتا۔۔۔۔۔ مگر اب اسکے مخبری نے اسے عامر کے حوالے سے ایک خبر دی تھی۔۔۔۔۔ یہ اندرونے کراچی ایک کچی بستی تھی۔۔۔۔۔۔ جہاں کے لوگوں کی حالت بہت بری تھی۔۔۔۔۔۔۔ گند اور کچرے کے دھیڑ ہر جگہ پڑے ہوئے تھے
’’کہاں ہے وہ؟‘‘ بہادر خان نے اپنے آدمی سے پوچھا جس نے ایک جھونپڑے کی طرف اشارہ کیا
بہادر خان نے سر ہلایا اور اپنی گن نکالتے وہ اس جھونپڑے کی طرف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بڑھا۔۔۔۔۔ وہ اب جھونپڑے کے باہر کھڑا تھا جب اسے اندر سے کوئی ہلچل محسوس ہوئی۔۔۔۔ ایک ہاتھ کٹ جانے کی وجہ سے اسے گن لوڈ کرنے میں خاصی دشواری ہوتی تھی
بہادر خان تیزی سے اندر بڑھا جہاں دوسری اور سے عامر باہر کو بھاگ رہا تھا جب بہادر خان نے اسکے پیر کا نشانہ لیکر فائر کیا۔۔۔۔۔۔۔ عامر چیخ کر وہی گر گیا۔۔۔۔۔۔ گن پر سائلنسر لگے ہونے کی وجہ سے علاقہ مکین نے کوئی آواز نہیں سنی تھی
’’تمہارا کھیل ختم کرائم رپورٹر عامر‘‘ اسکو تڑپتا دیکھ کر بہادر خان مسکرا کر بولا اور گن کی بیک زور سے اسکے سر پر ماری جس کی وجہ سے وہ بیہوش ہوگیا
’’تمہارا قصہ ختم عامر۔۔۔۔۔۔۔ لیجاؤ اسے‘‘ عامر کو دیکھتا وہ اپنے ساتھ آئے آدمیوں سے بولا جنہوں نے اسے ایک بورے میں ڈالا اور جیپ میں ڈال دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کہاں ہے وہ؟‘‘ رستم نے بہادر خان سے پوچھا جس نے اسے عامر کی اطلاع دے دی
’’تہہ خانے میں‘‘ بہادر خان بولا تو رستم ہلکا سا مسکرایا
’’بہت اچھے بہادر خان‘‘ رستم نے اسے شاباشی دی
’’چلو اب زرا دیدار یاد بھی ہوجائے‘‘ رستم بولا تو بہادر خان ہنس دیا
رستم تہہ خانے میں داخل ہوا جہاں عامر کو رسیوں سے باندھا گیا تھا۔۔۔۔ اسکی ٹانگ پر خون جم چکا تھا جبکہ ماتھے کا زخم ابھی بھی تازہ تھا
’’وہ آئے ہمارے گھر کہ خدا کی قدرت‘‘ رستم بولتا عامر کے سامنے بیٹھا تو عامر نے نفرت سے اسے دیکھا
’’ارے اتنا غصہ اتنی نفرت۔۔۔ مت کروں یار نازک مزاج بندہ ہوں کہی دل کے دورے سے مر ہی نہ جاؤں‘‘ رستم اسکی حالت سے مزہ لیتے بولا
’’ہنس لو جتنا ہنسنا ہے رستم مگر ایک وقت آئے گا جب تم روؤں گے۔۔۔۔۔‘‘ عامر غصے سے پھنکارا
’’اوہ میں تو ڈر گیا‘‘ رستم نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھائے
’’ماسٹر یہ دیکھے‘‘ بہادر خان نے فورا رستم کے سامنے عامر کا موبائل کیا۔۔۔۔۔۔ موبائل پر پاسورڈ نہیں لگا تھا اسی لیے باآسانی اسے کھول لیا گیا تھا
موبائل میں وہ ویڈیو صاف چل رہی تھی جس میں رستم نے پہلے انا کے باپ اور پھر اسکی ماں کا منہ پانی کی ٹب میں ڈال کر سانس بند کرکے انہیں تڑپا تڑپا کر مارا تھا
رستم وہ دن کیسے بھول سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے سختی سے لب بھینچے جبکہ عامر مسکرادیا
’’کیا ہوا ڈر گئے؟‘‘ عامر ہنسا تو رستم نے غصے سے اسے گھورا
’’ارے میں تو ڈر گیا‘‘ رستم کا ہی جملہ اسے واپس لٹایا گیا
’’میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا‘‘ رستم اسکے سر پر سوار دھاڑا
’’شوق سے مگر انا اب کبھی بھی تمہاری نہیں ہوگی رستم شیخ‘‘ عامر ہنسا تو رستم کو اسکی ہنسی زہر لگنے لگی
’’تم نے اسکے ماں باپ کو مار ڈالا اسکے یتیم اور مسکین کردیا رستم شیخ۔۔۔۔۔۔۔ تم نے اس لڑکی کو توڑ دیا ۔۔۔۔۔ اسکی تمام زندگی برباد کردی۔۔۔۔۔ تم بھی برباد ہوگے رستم شیخ۔۔۔۔۔۔ انا تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جسے تم اپنی محبت کہتے ہو نا تمہارے لیے جان کا نسور بن جائے گی۔۔۔۔۔ تم تڑپو گے رستم شیخ مگر وہ تمہاری کبھی نہیں ہوگی‘‘ عامر اس پر ہنس رہا تھا جو رستم کی برداشت سے باہر تھا
’’بس!!!!‘‘ رستم دھاڑا اور ایک گولی سیدھا عامر کے دماغ کو پار کرتی اسکی جان لے گئی
’’جو میرے اور میری محبت کے درمیان آئے گا میں اسے ختم کردوں گا سمجھے‘‘ رستم عامر کے بےجان وجود کو دیکھتے غصے سے پھنکارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم مہینے سے انا سے ملنے نہیں گیا تھا عامر کو مار کر اسنے اسے وہی اپنے ولا کی بیک سائڈ پر دفنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔ عامر کے پاس اسکے خلاف کئی ثبوت تھے اور رستم جانتا تھا کہ یہ ثبوت اسنے اور بھی بہت جگہ چھپا کررکھے ہوگے اسی لیے وہ چن چن کر عامر اور اسکی پوری ٹیم کا سفایا کر رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
’’ویسے رستم ایک بات پوچھو؟‘‘ وجدان اور وہ دونوں کافی شاپ میں موجود تھے جب وجدان نے اسے پکارا
’’پوچھو؟‘‘ رستم نے اجازت دی
’’تم تو میرے اور زرقہ کے خلاف تھے نا تو پھر یہ اچانک منگنی۔۔۔۔ میں تم سے تب بھی پوچھنا چاہتا تھا مگر حالات ہی ایسے ہوگئے کہ پوچھ نہیں سکا
اور رستم کو وہ رات یاد آئی جب اسکے موبائل پر ایک ویڈیو اور تصویر آئی تھی جو اسکے باپ کی تھی۔۔۔۔۔۔ رستم نے نوید شیخ کے موبائل کو اپنے موبائل سے ایسے کنیکٹ کیا تھا کہ کوئی بھی میسج آدیو یا ویڈیو رستم کو بھی ساتھ ہی موصول ہوتی۔۔۔۔۔ ویسے یہ ایک غیر اخلاقی حرکت تھی مگر جتنی غیر اخلاقی حرکتیں اسکے باپ کی تھی اس سے کم۔۔۔۔۔۔ یہ اسی دن کی بات ہے جب غازان نے نوید صاحب کو زرقہ سے شادی کا پروپوزل دیا تھا اور ساتھ ہی یہ ویڈیو اور تصویر بھیجی تھی۔۔۔۔۔۔ رستم غازان کی سچائی سے ناواقف نہیں تھا ۔۔۔۔۔ بس خاموش تھا وہ۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے باپ کے اس گندے سچ سے اسکی امیج پر کوئی آنچ آئے اسی لیے دوسرے دن وہ وجدان کے باپ کے آفس میں موجود تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وجدان اور زرقہ کا رشتہ ہونے دے بدلے میں وہ انہیں انکا ڈریم پروجیکٹ دلوا دے گا جو رستم کو ملنے کے زیادہ چانسز تھے۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ پروجیکٹ وجدان کے ڈیڈ کو مل جاتا تو انہیں بہت منافع ہوتا اسی لیے انہوں نے بنا اعتراض کیے اس رشتے کی حامی بھر لی
’’تم نے بتایا نہیں رستم؟‘‘ وجدان نے اس سے پوچھا
’’سیدھی سی بات ہے تم اسے پسند کرتے ہوں اور وہ تمہیں تو میں بیچ میں ظالم سماج کیوں بنوں اور مجھے پہلے بھی تم دونوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر میں صرف زرقہ کو ایکسبق دینا چاہتا تھا تاکہ وہ آئیندہ سے کوئی فضول حرکت نہ کرے‘‘ رستم نے جواب دیا تو وجدان نے سر سمجھنے والے انداز میں ہلادیا
’’اچھا سب چھوڑ آج انا ڈسچارج ہورہی ہے لینے نہیں جانا اسے؟‘‘ وجدان نے سوال کیا
’’نہیں!!‘‘ سر نفی میں ہلائے جواب آیا
’’کیوں؟‘‘ وجدان حیران ہوا
’’اسکے لیے ایک سرپرائز تیار کیا ہے۔۔۔۔ اسی لیے نہیں جاؤ گا لینے۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سرپرائز اتنا شاندار ہوں کہ انا کو تاحیات یاد رہے بس اسی لیے گھر رہوں گا اپنی نگرانی میں تیار کرواؤں گا سرپرائز‘‘ رستم بولا تو اسکا لہجہ عجیب سا تھا مگر وجدان نے زیادہ دھیان نہیں دیا
’’واہ لالے بڑی محبت ہے بیوی سے‘‘ وجدان ہنس کر بولا
’’وہ تو بہت ہے‘‘ رستم دانت پیستے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’انا تم تیار ہوں؟‘‘ زرقہ نے اس سے پوچھا جس نے ہوسپٹل گاؤن چینج کرلیا تھا
’’ہاں!‘‘ انا نے سر اثبات میں ہلایا
’’ویسے یو نو واٹ مجھے بھائی پر بہت غصہ آرہا ہے انہیں خود آنا چاہیے تھا تمہیں لینے کے لیے۔۔۔۔۔۔ مگر وجدان نے بتایا کہ وہ تمہارے لیے کوئی سرپرائز پلان کررہے ہے‘‘ زرقہ اسے دیکھتے شوخی سے بولی
’’سرپرائز کیسا میری قبر تیار کروا رہا ہوگا وہ سائیکو!!‘‘ انا نے آنکھیں گھمائے سوچا
’’چلے؟‘‘ اس نے زرقہ سے پوچھا تو زرقہ نے سر اثبات میں ہلادیا اور اسے لیے گاڑی کی جانب بڑھی
انا آنے والے وقت کے لیے خود کو مکمل طور پر تیار کرچکی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ گاڑی کا شیشہ نیچے کیے غور سے باہر کی دنیا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ شائد وہ آخری بار دیکھ رہی تھی اسی لیے۔۔۔۔۔ اسکی آزادی کے دن اب ختم ہوچکے تھے
’’الوداع زندگی‘‘ یہ الفاظ منہ سے نکالتے ہی انا کار کی سیٹ سے پشت ٹکائے آنکھیں موند گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا زرقہ کے ساتھ ولا میں داخل ہوئی تو ہر سو اندھیرا تھا جب اچانک لائٹس آن ہوئی اور چاروں اور سے پھولوں کی بارش اس پر ہونے لگی انا حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی
’’واؤ۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ بھیا اتنے رومینٹک ہے؟‘‘ زرقہ کا تو منہ کھل گیا تھا یہ سب دیکھ کر۔۔۔۔۔ سامنے ٹیبل پر ہی چاکلیٹ کیک سجایا گیا تھا جس پر ’’ویلکم بیک مائی پرنسز!!‘‘ لکھا ہوا تھا
’’اوہو!!‘‘ زرقہ نے سیٹی ماری۔۔۔۔۔۔ جبکہ وہاں موجود باقی سب لوگوں نے تالیاں بجا کر اسکا استقبال کیا
’’ویلکم ہوم ڈئیر‘‘ رستم اسکے کان ک بلکل پاس جھکتے بولا تو انا کانپ گئی
اسکا ہاتھ تھامے رستم اسے ٹیبل کی جانب لایا اور کیک کاٹا اور ایک پیس اسے کھلایا
’’یہ سب کیا ڈرامہ ہے رستم شیخ؟‘‘ انا نے ہلکی آواز میں مسکرا کر پوچھا
’’تمہارے گھر واپس صحیح سلامت آنے کی خوشی میں ایک چھوٹی سی دعوت‘‘ رستم نے بھی ویسے ہی جواب دیا
’’یہ ڈرامے وہاں کیا کروں جہاں لوگ تمہیں جانتے نہیں ہوں میں اچھے سے تمہیں جانتی ہوں رستم شیخ۔۔۔۔۔ تم ایک انتہائی نیچ اور گھٹیا انسان ہوں‘‘ انا لفظ چبا چبا کر بولی
’’مجھ سے دور رہ کر کافی بدتمیز اور بدلحاظ ہوچکی ہوں۔۔۔۔۔ پرنسز کو ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں تھوڑا سا وقت اور دوں اچھے سے سیٹ کردوں گا تمہیں‘‘ اسکی کمر پر گرفت سخت کیے وہ اسکے کان میں بولا۔۔۔۔۔۔۔ انا نے اسکے لہجے میں وارننگ صاف محسوس کی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اب اس سے ڈرے گی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گئے تک پارٹی چلتی رہی تھی انا حد سے زیادہ تھک چکی تھی۔۔۔۔۔ وہ آرام کرنا چاہتی تھی مگر رستم اسے بخشنے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ تمام مہمانوں کو فارغ کرکے رستم نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسے پیچھے کی جانب لے آیا
’’ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ انا نے بیزاریت سے پوچھا
’’تمہیں تمہارا ویلکم بیک کا تحفہ دینا ابھی باقی ہے‘‘ رستم شیخ بےتاثر لہجے میں بولا
’’مگر مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے‘‘ انا مڑنے لگی جب رستم نے سختی سے اسکی کلائی تھام لی
’’تمہاری رائے نہیں مانگی میں نے‘‘ رستم سرد نگاہوں سے اسے دیکھتے بولا اور پھر چٹکی بجائی اور انا کی نظریں سامنے کی طرف کی۔۔۔۔۔۔ انا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی
وہ ایک بڑا سا پنجرہ تھا جس میں پانچ چھ شکاری کتے تھے جو کئی دنوں سے بھوکے تھے
انا نے دیکھا کہ تھوڑی دیر میں وہاں پانچ آدمیوں کو لایا گیا تھا جن پر بری طرح تشدد کیا گیا تھا
ان میں سے چار انا کے باڈی گارڈ اور ایک واچ مین تھا۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان پانچوں کو اس پنجرے میں پھینک دیا گیا جب شکاری کتے ان پر ٹوٹ پڑے
’’یہ انکی سزا ہے انا۔۔۔۔۔۔اپنا کام نا کرنے کی‘‘ رستم اسکے پیچھے کھڑا دھیمے لہجے میں غرایا
ان سب کی چیخوں کے ساتھ انا کی چیخیں بھی بلند ہوئی تھی وہ جو فیصلہ کرچکی تھی کہ اب رستم سے ڈرے گی نہیں یہ دیکھ کر اسکے اوسان خطا ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اتنا ظالمانہ سلوک۔۔۔۔۔ انا نے وہاں سے بھاگنا چاہا جب رستم نے اسکے گرد اپنی گرفت سخت کردی۔۔۔۔ وہ رستم کی گرفت میں سسکتی رہی۔۔۔۔ مچلتی رہی۔۔۔۔ تڑپتی رہی۔۔۔۔۔ مگر رستم نے زبردستی اسے وہ سب کچھ دکھایا یہاں تک کہ وہ کتے ان پانچوں کی بوٹی بوٹی نوچ چکے تھے۔۔۔۔۔۔
’’میں نے تمہیں کہاں تھا پرنسز کہ مجھ سے دور مت جانا مگر تم گئی۔۔۔۔۔ تم نے میری بات نہیں مانی۔۔۔۔۔۔ خود کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی تو اب سزا تمہیں ضرور ملے گی‘‘ رستم اسکے کان میں غرایا ۔۔۔۔۔ جبکہ انا اسکے بازوؤں میں جھول گئی
’’مائی پرنسز!!‘‘ وہ پراسرار سا مسکراتا اسے باہوں میں اٹھائے گھر کے اندر چلا گیا۔۔۔۔