پاڑتی اپنے عروج پر تھی۔۔۔۔۔۔۔ رستم وائن کی چسکیاں لیتے وہاں موجود لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو آپس میں مدہوش ، نشے میں دھت ناچنے میں مصروف تھے۔۔۔۔۔۔۔ وجدان ابھی ابھی اٹھ کر کاشان کے پاس گیا تھا جو سٹیج پر موجود لڑکیوں کے ساتھ ناچنے میں مصروف تھا۔۔۔۔ اسکی حالت بتارہی تھی کہ وہ حد سے زیادہ نشہ کرچکا ہے۔۔۔۔ رستم وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں نہیں تھا۔۔۔۔۔ اسکی ساری سوچیں اپنی پرنسز پر آکر رکتی۔۔۔۔۔۔ اب وہ اسکی تھی صرف اسکی، قانونی اور شرعی ہر لحاظ سے صرف اسکی۔۔۔۔۔ اسکے لبوں پر اپنے آپ ہی مسکراہٹ در آئی
اسکا موبائل کب سے بج بج کر بند ہوگیا تھا مگر اتنے شور میں اسے علم نہیں ہوپایا۔۔۔۔۔ نجانے کیوں مگر رستم کو اچانک ایک عجیب سے احساس نے آن گھیرا۔۔۔۔ ایک بےچینی سی اسکے دل میں تھی ۔۔۔ اسے اپنی پرنسز کو دیکھنا تھا ابھی اسی وقت۔۔۔۔۔ ایک انجانا سا خوف در آیا تھا اس کے دل میں
اسنے کلب سے جانے کا سوچا جب اچانک اسے بہادر خان اپنی جانب آتا دکھائی دیا۔۔۔۔۔۔ بہادر خان کے چہرے کے تاثرات کچھ عجیب تھے۔۔۔۔ وہ بلکل رستم کے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔ اور جس انداز میں اس نے رستم کو دیکھا تھا وہ رستم کو اس بات کا احساس دلانے کو کافی تھا کہ کچھ غلط ہوا ہے۔۔۔
’’ماسٹر ضروری بات ہے!!‘‘ بہادر خان آکر بولا
’’کہوں!!‘‘ رستم نے اجازت دی
’’یہاں نہیں اکیلے۔۔۔۔۔ آپ وجدان سر اور کاشان سر کو بھی بلا لے‘‘ بہادر خان ادھر ادھر دیکھتے ہلکی آواز میں بولا
’’بہادر خان کیا ہوا ہے؟‘‘ رستم کا لہجہ بہت سخت تھا
’’آپ نے اپنا موبائل دیکھا ہے؟‘‘ بہادر خان نے سوال کے بدلے سوال کیا تو رستم نے چونک کر موبائل اٹھایا۔۔۔۔ جس پر انا کے باڈی گارڈز کی دھیڑ ساری مسڈ کالز آئی ہوئیں تھی
’’پرنسز!!‘‘ رستم کے لب سرگوشی میں ہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب اس وقت کلب کے پرائیویٹ روم میں موجود تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہاں نا اندر کی آواز باہر جاتی اور نا باہر کی اندر آتی۔۔۔۔۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں چلتا کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔
رستم کو بہادر خان نے بتایا تھا کہ انا تیزی میں بنا گارڈز اور ڈرائیور کے کہی گئی ہے اور کہاں کسی کو بھی علم نہیں تھا۔۔۔۔ رستم نے بہادر خان کو انا کو ڈھونڈنے کا کہاں تھا مگر کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ وہ کہاں گئی ہے۔۔۔۔۔
اب رستم خون آشام آنکھیں لیے بہادر خان کی طرف سے کسی اچھی خبر کی امید میں تھا جب وہ اسے ہارا ہوا آتا دکھائی دیا
’’ملکہ کہاں ہے بہادر خان؟" اسنے سخت لہجے میں پوچھا
بہادر خان کو اسکی حالت دیکھ کر خوف آیا تھا
’’ملکہ۔۔۔۔۔ملکہ بھاگ گئی ہے ماسٹر" نظریں نیچی کیے اس نے جواب دیا
’’نہیں!!!!!!" کانچ کا گلاس زور سے زمین پر مارے رستم دھاڑا
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا پرنسز۔۔۔۔۔اسکی سزا تمہیں ملے گی۔۔۔۔۔ اب کی بار تمہیں معافی نہیں ملے گی"مٹھیاں بھینچتے وہ سرد لہجے میں بولا
’’ایک منٹ رستم۔۔۔۔۔ بہادر خان تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ انا بھاگی ہے‘‘ وجدان نے اسے شکی انداز میں پوچھا جس پر بہادر خان نے دانت کچکچائے
’’ثبوت ہے کہ وہ بھاگی ہے‘‘ بہادر خان نے بےتاثر لہجے میں جواب دیا۔۔۔اور انا اور زرقہ کی کل کی ساری بات رستم کو سنا دی
’’مجھے لگتا ہے کہ ملکہ کو بھگانے میں زرقہ بی بی کا بھی ہاتھ ہے‘‘ بہادر خان بولا
’’بکواس بند کروں بہادر خان‘‘ وجدان دھاڑا
’’مجھے صرف شک ہے سر‘‘ بہادر خان نے وجدان کو دیکھتے جواب دیا
’’رستم اسکی بات پر یقین مت لاؤں۔۔۔۔ تم نے سنا نہیں جب زرقہ نے انا کو بھاگنے کو کہاں تو انا نے صاف انکار کردیا تھا ہوسکتا ہے کوئی اور بات ہوں‘‘ وجدان نے اپنے تئی رستم کو سمجھانے کی کوشش کی
’’مگر ملکہ ایک بار پہلے بھی بھاگ چکی ہے‘‘ بہادر خان مسکرا کر بولا
’’او یو جسٹ شٹ اپ خان‘‘ وجدان پھر سے دھاڑا
’’گاڑی نکالو بہادر خان ہم شیخ ولا جارہے ہیں۔۔۔ اب زرقہ مجھے بتائے گی کہ انا کہاں ہے‘‘ رستم وجدان کی بات ان سنی کرتا وہاں سے نکل گیا جبکہ بہادر خان پیچھے پراسرار سا مسکرا دیا
’’آئی سوئیر خان اگر زرقہ یا انا میں سے کسی کو کچھ بھی ہوا تو تمہاری خیر نہیں‘‘ وجدان اسکے قریب آکر پھنکارا
’’یہ تو وقت بتائے گا سرر!!‘‘ سر پر خاصہ زور دیتے وہ بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’زرقہ۔۔۔۔۔۔ زرقہ۔۔۔۔۔۔زرقہ شیخ۔۔۔۔۔ ابھی کہ ابھی نیچے آؤ‘‘ رستم لاؤنج میں کھڑا دھاڑا
اسکی دھاڑ سن کر نوید شیخ اور ہمدہ شیخ بھی کمرے سے باہر نکل آئے
’’کیا ہوا بھائی؟‘‘ زرقہ اپنے کمرے سے بھاگتی ہوئی نیچے آئی
’’انا کہاں ہے زرقہ؟‘‘ رستم نے لال آنکھیں زرقہ پر گاڑھے پوچھا
’’مم۔۔۔مجھے نہیں پتہ‘‘ اسکی حالت دیکھ کر زرقہ کانپی۔۔۔ جبکہ اسکے کانپنے کا مطلب رستم کچھ اور ہی لے گیا
’’میں نے پوچھا انا کہاں ہے زرقہ؟‘‘ رستم نے اسکی جانب قدم بڑھاتے دھیمی آواز میں پوچھا
’’قق۔۔۔قسم لے لے نہیں معلوم بھائی‘‘ زرقہ کی پیشانی پر پسینے کی ننھی بوندیں چمکنے لگی
’’رستم!!‘‘ وجدان نے آگے بڑھ کر کچھ بولنا چاہا تو رستم نے ہاتھ اٹھا کر بولنے سے منع کردیا
’’آخری بار پوچھ رہا ہوں زرقہ انا کہاں ہے ۔۔۔۔۔ میں پوچھ رہا ہوں بتادوں مجھے‘‘ اسے دیوار کے ساتھ لگاتے رستم نے پوچھا
’’نن۔۔۔نہیں پتہ‘‘ زرقہ کا سر تیزی سے نفی میں ہلا
’’نہیں معلوم؟‘‘ رستم دھیمے سے غرایا تو زرقہ نے مزید سر نفی میں ہلایا
’’تو یہ آواز کیوں کانپ رہی ہے تمہاری اور اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے تمہیں؟‘‘ رستم جانچتی نظروں سے اسکی حالت دیکھتے بولا
’’نن۔۔۔نہیں تو‘‘ زرقہ نے زبان سے لبوں کو تر کیا
رستم نے آنکھیں بند کرکے منہ موڑا اور ماتھا مسلنے لگا، جب اچانک وہ دوبارہ زرقہ کی جانب مڑا ایک ہاتھ سے اسکے بالوں کو گرفت میں لیکر دوسرے ہاتھ میں موجود چاقو اسکی شہہ رگ پر رکھ دیا
’’اب بھی نہیں معلوم کے انا کہاں ہے؟‘‘ اسکے ساتھ رستم نے زرقہ کی شہہ رگ پر رکھے چاقو پر زور دیا جس کیوجہ سے اسکی جلد سے تھوڑا سا خون رسنے لگا۔۔۔۔۔ زرقہ کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں نکلنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔ اس نے سر دوبارہ نفی میں ہلایا
وجدان کی اب بس ہوگئی تھی وہ فورا رستم کے پاس گیا اور اسے زور سے پیچھے دھکا دیا۔۔۔۔۔ رستم کے زرقہ کو چھوڑتے ہی زرقہ نے لمبی لمبی سانسیں لینا شروع کردی
وجدان نے فورا زرقہ کو اپنے سینے سے لگایا
’’بس رستم بہت ہوگئی تیری غنڈہ گردی اس نے کہاں نے کہ اسے نہیں معلوم انا کہاں ہے تو اسے نہیں معلوم اور تو اس نوکر کو اپنی بہن پر فوقیت دے رہا ہے،۔۔۔۔۔ تف ہے تجھ پر‘‘ بہادر خان کو نفرت بھری نگاہوں سے گھورتا وجدان رستم پر چلایا
’’ہاں دے رہا ہوں فوقیت کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک جھوٹی لڑکی ہے۔۔۔۔ ہر بات میں جھوٹ بولنا اسکی فطرت ہے اور ویسے بھی یہ میری بہن ہے میں جو چاہے مرضی کروں اس کے ساتھ تو کون ہوتا ہے بیچ میں آنے والا‘‘ رستم بھی دھاڑا
’’یہ صرف تیری بہن ہوتی تو جو مرضی کرتا مگر اب یہ میری منگیتر ہے اور اب میں تجھے اسکو یوں ہراساں کرنے نہیں دوں گا‘‘ وجدان کی آواز بھی اونچی ہوئی
’’تجھے لگتا ہے کہ میں اپنی بہن کا ہراساں کررہا ہوں؟‘‘ رستم نے دانت پیستے پوچھا
’’ہاں کررہا ہے تو اسے ہراساں، یہ ڈرانا دھمکانہ ہراساں کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ وجدان نے بھی رستم کو برابر گھورا تو رستم چاقو زمین پر پھینکتے وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔ زرقہ ابھی تک وجدان کی باہوں میں کانپ رہی تھی
وجدان نے تیزی سے اسے صوفہ پر بٹھایا اور اسے پانی پلایا
’’مم۔۔۔۔میرا یقین کروں وجی۔۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ انا کہاں ہے۔۔۔۔۔ میں نہین جانتی‘‘ زرقہ روتے ہوئے بولی تو وجدان نے اسکی پیٹھ تھپتھائی
’’فکر مت کروں زرقہ مجھے یقین ہے کہ تم جھوٹ نہیں بول رہی ہوں‘‘ وجدان اسکا ہاتھ تھامے بولا
’’زرقہ میری بچی‘‘ ہمدہ بیگم نے فورا اسے گلے لگایا جب زرقہ نے پھر سے رونا شروع کردیا
’’آنٹی آپ فکر مت کرے میں ہوں زرقہ کے ساتھ آپ جائے میں یہاں سب معاملات دیکھ لوں گا‘‘ وجدان نے انہیں یقین دلایا
’’مگر وجدان انا۔۔کیا وہ؟‘‘ ہمدہ بیگم بولی تو وجدان انکا مطلب سمجھ گیا
’’آنٹی میں انا کو زیادہ نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ ایسی لڑکی نہیں۔۔۔۔ رستم کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔۔۔ ہم انشااللہ جلد از جلد اسے ڈھونڈ لے گے‘‘ وجدان نے اسے یقین دلایا
’’مجھے انا مل گئی ہے‘‘ دروازے کے ساتھ کھڑے رستم نے انہیں بتایا جو ابھی ابھی دوبارہ اندر آیا تھا
’’کیسے؟‘‘ وجدان نے آبرو اچکائے پوچھا
’’ٹریکر۔۔۔۔۔۔ میں نے اسکے موبائل میں ٹریکر فٹ کیا تھا۔۔۔۔ وہ موبائل ساتھ لیکر گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور اب میں جارہا ہوں اپنی پرنسز کو لینے۔۔۔۔۔ اور تم دعا کروں کہ جو تم نے کہاں ہے وہ سچ ہوں نہیں تو میں تمہیں بخشوں گا نہیں‘‘ زرقہ کو سخت نگاہوں سے گھورتے وجدان کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیے وہ باہر چلا گیا
’’آنٹی آپ زرقہ کا دھیان رکھے، اسکی بینڈایج کردیجیے گا ۔۔۔۔۔۔۔ اور تم فکر مت کروں سب تھیک ہوجائے گا‘‘ زرقہ کا ہاتھ تھامے وہ بولا اور پھر رستم کے پیچھے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم بہت غصے میں باہر نکلا تھا اسکے تمام آدمی انا کو ڈھونڈنے میں نا کامیاب ہوئیں تھے۔۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ انا کو کیسے ڈھونڈے جب ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا۔۔۔۔۔۔ اسے یاد آیا کہ اسنے انا کے موبائل میں ایک ٹریکر فٹ کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ بس رستم نے جلد ہی انا کی لوکیشن ٹریس کرلی تھی وہ پچھلے ایک گھنٹے سے ایک بلڈنگ میں تھی۔۔۔۔۔۔۔
’’ڈیم اٹ اسکا خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا؟‘‘ رستم اپنا ہاتھ کار کے بونٹ پر مارتے بولا
وجدان کو باہر آںے کا کہہ کر وہ کار میں آکے بیٹھ چکا تھا
’’بس کچھ دیر اور پرنسز۔۔۔۔۔۔ پھر ہم ساتھ ہوگے۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب کی بار تمہیں معافی نہیں ملے گی پرنسز!!‘‘ رستم پراسرار سا مسکراتا خود سے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا پندرہ منٹ میں وہ لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔۔۔۔ موبائل کی لوکیشن بہت قریب کی تھی۔۔۔۔۔۔ سڑھیاں چڑھتے وہ لوگ چھٹے فلور پر پہنچے جہاں کا سین دیکھ کر رستم کی آنکھوں میں خون اتر آیا
اسکی بیوی۔۔۔۔ اسکی پرنسز۔۔۔۔۔۔ کسی اور کندھے پر سر رکھے کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ بلکہ کسی اور نہیں اپنے پرانے عاشق کے کندھے پر سر رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اوہ تو یہ سین ہے‘‘ رستم انہیں دیکھ کر اونچی آواز میں بولا تو انا جھٹ سے عامر سے الگ ہوگئی
’’ارے دور کیوں ہوگئی۔۔۔۔۔ لگتا ہے میں نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کردیا‘‘ رستم انا کی جانب دیکھتے بولا تو انا اسکے انداز پر جی جان سے کانپ اٹھی
’’بس رستم۔۔۔۔۔۔۔ تم اور انا کو اسکی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔۔۔ اسے تمہارے بارے میں سب کچھ بتاچکا ہوں میں۔۔۔۔۔ تمہارے سب کالے دھندھوں سے واقف ہوچکی ہے وہ‘‘ عامر اس پر چلایا تو رستم ہنس دیا
’’ارے میں تو ڈر گیا‘‘
’’تمہیں ڈرنا چاہیے رستم ۔۔۔۔۔۔ انا کو سچ معلوم ہوچکا ہے اور اب وہ تمہارے ساتھ نہیں رہے گی‘‘ عامر مسکرایا تو رستم کو کسی انہونی کا احساس ہوا
’’اسکے ماں باپ کا سچ رستم۔۔۔۔۔ اس بات کا سچ کے انا کے ماں باپ ایکسیڈینٹ میں نہیں مرے تھے۔۔۔ بلکہ تم نے انہیں مارا تھا بےدردی سے۔۔۔۔۔ قاتل ہوں تم ان کے۔۔۔۔۔۔۔ اور ثبوت یہ رہا‘‘ عامر نےاپنا موبائل ہاتھ میں لیے رستم کے سامنے کیا
رستم نے انا کو دیکھا جس کی نظریں زمین پر گڑھی تھی۔۔۔۔۔
’’کیا بکواس ہے یہ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ میں تو انا کو صرف دو مہینوں سے جانتا ہوں۔۔۔ میں کیوں مارو گا اس کے ماں باپ کو۔۔۔۔۔۔ اور تم۔۔۔۔۔ تم کون ہوں‘‘ اپنی گن عامر کی جانب کیے رستم بولا
’’میں جو بھی ہوں مگر تم اب نہیں بچ سکتے تمہارے سارے کالے دھنودوں کا ثبوت ہے میرے پاس اور اب بہت جلد تم سلاخوں کے پیچھے ہوگے‘‘ عامر اس پر ہنسا
’’ایسا کیا؟‘‘ رستم طنزیہ مسکرایا
’’پھر تو تمہیں مرجانا چاہیے عامر۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں ہر اس انسان کو مار دیتا ہوں جو میرے راستے کی رکاوٹ بنے‘‘ رستم بولا اور ساتھ ہی ٹریگر دبادیا۔۔۔۔ مگر انا فورا عامر کے سامنے آگئی ۔۔۔۔۔ گولی سیدھی انا کے سینے میں لگی۔۔۔۔ انا کی آنکھیں ایک پل کو پھیلی۔۔۔۔ عامر نے حیرت سے اس کو دیکھا
’’بھاگ جاؤ عامر۔۔۔۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ تمہارا زندہ رہنا ضروری ہے عامر۔۔۔۔۔ انصاف دلوانا اب تمہار کام ہے‘‘انا کانپتے لہجے میں بولی انا کے بےجان ہوتے وجود کو عامر وہی پھینکے خود پیچھے کی جانب بھاگ گیا
’’انا!!!!!‘‘ رستم چلایا اور فورا انا کی جانب بھاگا، جسکے ہونٹوں پر مسکان در آئی
تو کیا اسے نجات حاصل ہونے جارہی تھی اس درندے سے، کیا اللہ نے اسکی سن لی تھی۔۔۔۔۔ اسکے لیے آسانیاں پیدا کردی تھی
’’انا میری جان میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔ کچھ نہیں ہونے دوں گا اپنی پرنسز کو‘‘ اسکو باہوں میں بھرے وہ جلدی سے کار کی جانب بھاگا
’’ماسٹر وہ عامر۔۔۔۔۔ وہ بھاگ گیا‘‘ بہادر خان نے فورا آکر اسے اطلاع کی
’’میری بیوی یہاں مررہی ہے اور تمہیں اس باسٹرڈ کی لگی ہوئی ہے‘‘ رستم دھاڑا تو بہادر خان نے سر جھکا لیا
’’رستم یہ وقت لڑنے کا نہیں ہے انا کا خون بہت بہہ چکا ہے فورا ہوسپٹل چلو نہیں تو وہ بچ نہیں پائے گی‘‘ وجدان نے ہوش دلایا تو رستم نے سر اثبات میں ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوسپٹل پہنچتے ہی انا کو فورا آپریشن تھیٹر میں لیجایا گیا تھا۔۔۔۔ رستم کا پاگل پن ، اسکی جنونیت کو وہاں سب نے دیکھا تھا۔۔۔۔۔ وہاں موجود ڈاکٹرز اور نرسز اسکی لڑکی قسمت ہر رشک کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر اس جنونیت، اس پاگل پن کی انتہا کو صرف وہی جانتی تھی جس نے اسے جھیلا تھا
’’میری وائف ڈاکٹر؟‘‘ آپریشن تھیٹر سے باہر آتی ڈاکٹر کو دیکھ کر رستم نے فورا پوچھا
’’دیکھیے گولی دل کے تھوڑا اوپر لگی ہے آپ دعا کیجیے کہ اللہ ماں اور بچہ دونوں کو سلامت رکھے‘‘ ڈاکٹر نے اسکی ہمت بندھائی
’’کتنے۔۔۔۔۔ کتنے چانسز ہے بچنے کے؟‘‘ رستم نے ٹوٹے لہجے میں پوچھا
’’مسٹر رستم میں آپ سے جھوٹ نہیں بولو گی، مگر صرف بیس فیصد چانسز ہیں آپکی وائف اور بےبی کے سروائیو کرنے کے‘‘ ڈاکٹر بولی رستم دیوار کے ساتھ لگ گیا۔۔۔۔۔ اسنے آنکھیں موند لی تھی
’’رستم!!‘‘ وجدان نے اسے پکارا۔۔۔۔۔ رستم نے آنکھیں کھولے اسے دیکھا
’’رستم یہ وقت اور جگہ ایسی تو نہیں مگر تمہیں یہ دیکھنا چاہیے‘‘ وجدان نے انا کا موبائل رستم کے سامنے کیا۔۔۔
رستم نے موبائل دیکھا تو وہاں عامر کے لاتعداد میسجیز اور کالز تھی
’’میں نے انفارمیشن نکلوائی ہے انا نے صرف ایک کال رسیو کی تھی وہ بھی آج کی۔۔۔۔۔ عامر اسے کچھ بتانا چاہتا تھا اسکی ماں باپ کی موت کے بارے میں۔۔۔‘‘ وجدان مزید بولا
’’ہمم‘‘ رستم نے سر ہلایا
’’بہادر خان‘‘
’’جی ماسٹر؟‘‘
’’اپنی ملکہ کے ماں باپ کی ساری ہسٹری نکالو۔۔۔۔۔ مجھے کل تک ساری انفارمیشن چاہیے‘‘ رستم بےتاثر لہجے میں بولا اور ایک نظر آپریشن تھیٹر کو دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ میں ہر اس انسان کو مار دیتا ہوں جو میرے راستے کی رکاوٹ بنے‘‘ یہ الفاظ کہی دور سے انا کے کانوں میں گونجے
انا کی ہارٹ بیٹ تیز ہوگئی تھی ۔۔۔۔ اسکے پاس موجود نرس فورا سے باہر ڈاکٹر کی جانب بھاگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ڈاکٹر؟‘‘ رستم فورا سے ڈاکٹر کے پاس پہنچا
’’کانگریچلویشنز مسٹر شیخ ہم نے آپکی وائف اور بےبی کو بچالیا ہے۔۔۔۔ مگر ابھی وہ انڈر ابزرویشن ہے اور آئیندہ چوبیس گھنٹے کافی کریٹیکل ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ آپ بس دعا کیجیے گا‘‘ ڈاکٹر اسکا کندھا تھپتھپاتے بولی
’’میں۔۔۔ میں اس سے مل لوں؟‘‘ رستم نے آس بھرے لہجے میں پوچھا
’’شیور مگر صرف پانچ منٹ‘‘ ڈاکٹر نے اسکی حالت دیکھ کر اجازت دے دی
بکھرا حلیہ لیے رستم روم میں داخل ہوئی جہاں سامنے اسکی پرنسز مختلف مشینوں میں جکڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ رستم نے غور سے اسے دیکھا جو کہی سے بھی نئی نویلی دلہن نہیں لگ رہی تھی
’’پرنسز!! تم نے ۔۔۔۔ تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔ کیا ایک بار کو بھی میرا خیال نہیں آیا تمہیں۔۔۔۔ ایک بار تو سوچتی میرے بارے میں۔۔ ہمارے بےبی کے بارے میں۔۔۔۔۔۔ نہیں تمہیں تو مجھ سے دور جانا تھا نا۔۔۔۔۔ مگر اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ تم بس ایک بار ٹھیک ہوجاؤ۔۔۔۔ دیکھنا ایک الگ کمرے میں بند کردوں گا تمہیں میں۔۔۔ اور اب کی بار سزا بھی دوں گا۔۔۔۔۔۔ کیوں تمہیں مجھ سے دور جانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ کیا تم محسوس نہیں کرسکتی میری محبت۔۔۔۔۔ کتنی محبت کرتا ہوں میں تم سے۔۔۔۔۔۔ میں قسم کھاتا ہوں پرنسز ایک بار۔۔ بس ایک بار تم ٹھیک ہوجاؤ۔۔۔۔ ایسی سزا دوں گا میں تمہیں کہ دوبارہ کبھی بھی مجھے چھوڑنے کا خیال بھی نہیں آئے گا تمہارے دل میں۔۔۔۔۔ بس ایک بار۔۔۔ ایک بار تم ٹھیک ہوجاؤ‘‘ رستم نے اسکے ماتھے کا نرمی سے بوسہ لیا
یہ تھی رستم شیخ کی وہ حقیقی محبت اپنی پرنسز کے لیے جسکا اظہار وہ مر کر بھی کبھی اسکے سامنے اسکے ہوش میں آتے نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ وہ اپنی محبت کو خود پر حاوی ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا
’’سر آپ پلیز باہر چلے جائے‘‘ نرس اسکی حالت دیکھ کر نرمی سے بولی تو وہ باہر نکل آیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن کی دوپہر ہوگئی تھی مگر انا کو ہوش نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔ زرقہ اور ہمدہ بیگم دونوں صبح میں آئی تھی مگر پھر واپس چلی گئی
رستم بھی ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا جب اس نے نرس کو انا کے روم سے نکلتے دیکھا جو بھاگنے کی سپیڈ میں تھی
’’ڈاکٹر‘‘ نرس نے وہاں موجود راؤنڈ پر آئے ڈاکٹر کو آواز دی
’’ڈاکٹر وہ پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ ہارٹ بیٹ بہت تیز ہوگئی ہے‘‘ نرس نے بتایا تو ڈاکٹر بھاگتا ہوا روم میں داخل ہوا
’’پرنسز!!‘‘ رستم کی جان پر بن آئی ۔۔۔۔۔
وہ اپنی انا سے ملنا چاہتا تھا اسکے پاس جانا چاہتا تھا مگر اسے الاؤ نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔ تقریبا گھنٹہ وہ باہر چکر لگاتا رہا تھا جب وہ ڈاکٹر اسے باہر نکلتے دکھائی دیا
’’میری بیوی؟‘‘ وہ فورا ڈاکٹر کے پاس بھاگا
’’شی از سٹیبل ناؤ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر کے الفاظ سنتے ہی رستم نے آنکھیں بند کرکے شکر ادا کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت گلاب کے ایک خوبصورت باغ میں موجود تھی۔۔۔۔۔ ہر طرف ہریالی اور گلاب ہی تھے۔۔۔۔۔۔ رنگ برنگی تتلیاں اسکے ارد گرد رقص کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ پنک کلر کی پرنسز ڈریس میں بالوں میں پھولوں کا تاج لگائے وہ کوئی شہزادی معلوم ہورہی تھی
’’انا!!‘‘ اس نے آس پاس نظریں دوڑائی کوئی اسے پکار رہا تھا
’’انا!!‘‘ وہ آواز پھر سے آئی۔۔۔۔۔ یہ آواز تو وہ جانتی تھی
’’ماما‘‘ وہ خوشی سے بولی اور گول گھومی تو اسکی پوشاک بھی گھومی
’’انا میری شہزادی‘‘ اب کی بار آواز ایک مرد کی تھی
’’پاپا!!۔۔۔۔ ماما پاپا کہاں ہے آپ لوگا؟‘‘ انا نے باغ میں ادھر ادھر دیکھتے پوچھا
’’ہم یہاں ہے میری جان‘‘ وہ دونوں ہنس کر بولے تو انا کھلکھلا دی
یقیننا وہ اسکے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے تھے
’’ماما پاپا اب سامنے آ بھی جائے‘‘ وہ تھک ہار کر بولی
’’تو میری شیرنی تھک گئی ہے‘‘ اسکے پاپا بولے تو انا نے منہ بسورے سر اثبات میں ہلایا
’’سامنے دیکھو‘‘ انا نے چہرہ اٹھائے سامنے دیکھا تو اسکا چہرہ کھل اٹھا سامنے ہی وہ دونوں تھے ہنستے مسکراتے
اچانک اسکی مسکراہٹ سمٹی وہ انا کی پیچھے کہی دیکھ رہے تھے
انا نے جب پیچھےدیکھا تو اسکی چیخ نکل گئی۔۔۔۔۔ گلاب کا وہ پورا باغ تہس نہس ہوچکا تھا۔۔۔۔ ہر جگہ کو آگ کے شعلے اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔۔۔ انا آنکھیں بڑی کیے وہ سب دیکھ رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے سے چیخیں سنائی دی
اسنے مڑ کر دیکھا تو اپنے ماں باپ کے بےجان وجود کو پایا
’’ماما!!! پاپا!!!!!‘‘ انا چلاتی انکی جانب بھاگی۔۔۔ مگر وہ جتنا انکی جانب بھاگتی وہ اتنے ہی اس سے دور ہوتے جارہے تھے۔۔۔۔ یہاں تک کہ انا کے پیروں میں چھالے پڑ گئے۔۔۔۔ انا تھک کر زمین پر گر گئی۔۔۔۔ جب اسنے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے ایک اور جھٹکا لگا۔۔۔۔۔ اسکی پنک فراک اب کالے رنگ کے سیاہ سوٹ میں تبدیل ہوگئی تھی جو جگہ جگہ سے پھٹا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکے تاج کے پھول مرجھا گئے تھے اور وہ ایک پنجرے میں قید تھی۔۔۔۔۔۔
’’کوئی ہے بچاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں سے نکالو کوئی ہے۔۔۔۔۔ ماما، پاپا۔۔۔۔۔ زرقہ؟ کوئی ہے؟‘‘ انا نے جب پنجریں کی سلاخوں کو پکڑنا چاہا تو وہ اتنی گرم تھی کہ اسکے ہاتھ جل گئے اور انا کی چیخیں نکل گئی
’’پرنسز!!!!!‘‘ ایک پراسرار آواز اسے سنائی دی۔۔۔۔ انا نے سامنے دیکھا تو وہ دیو اسکے سامنے کھڑا ہنس رہا تھا
’’تم اب میری ہوں پرنسز۔۔۔۔۔ صرف میری۔۔۔۔۔ہاہاہا‘‘ وہ اونچا اونچا ہنسنے لگا
’’ننن۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ نہیں!!!!!!!‘‘ انا ایک دم سے چلا اٹھی اور اپنے آنکھیں کھولی
اسنے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو خود کو ایک کمرے میں پایا جو ہسپتال کا ہی ایک کمرہ معلوم ہورہا تھا
’’ارے آپ کو ہوش آگیا میں ابھی ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں‘‘ نرس جو اسکی ڈرپ چینج کرنے آئی تھی اسے دیکھ کر فورا بولی اور وہی سے پلٹی
’’ہوش۔۔۔۔۔ تو کیا میں مری نہیں۔۔۔۔۔ میں زندہ ہوں۔۔۔۔۔۔ میں کیوں زندہ ہوں میرے مولا۔۔۔۔۔ تو نے میری جان کیوں نہیں لے لی۔۔۔۔۔ کیا میں اتنی بری ہوں‘‘ انا مایوسی سے اللہ سے گلہ کرتے بولی۔۔۔ آنسوؤں اسکی آنکھوں سے بہہ کر تکیے میں جذب ہوگئے
’’اور مایوسی کفر ہے‘‘
مگر انا بھی ایک عام انسان تھی۔۔۔۔ خطا کا پتلا ہوتا ہے انسان۔۔۔۔۔۔ انا نے بھی خطا کی وہ اپنے رب سے مایوس ہوگئی جو انسان کہ لیے کو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مسٹر شیخ‘‘ ڈاکٹر نے رستم کو پکارا جو ابھی ابھی فریش ہوکر گھر سے آیا تھا
’’ہمم!!‘‘ رستم فورا چونکا
’’کانگریچولینشز مسٹر شیخ آپکی وائف کو ہوش آگیا ہے اور اب وہ بلکل پرفیکٹ ہے ۔۔۔ آپ ان سے مل سکتے ہے آپ کی سسٹر وہی ہے ان کے پاس‘‘ ڈاکٹر کی خبر سنتے ہی رستم کی جان میں جان آئی
دس دن۔۔۔۔ دس دنوں سے انا بےہوش تھی۔۔۔۔۔۔ مگر اب اسکے ہوش میں آنے کا سن کر رستم کے دل کو چین و سکون ملا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ انا کے کمرے کی جانب پہنچا جہاں زرقہ پہلے سے ہی موجود تھی
رستم کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی وہ کئی دنوں سے گھر نہیں گیا تھا مگر پھر ہمدہ بیگم کے اصرار پر وہ گھر فریش ہونے چلا جاتا آج بھی زرقہ نے وہاں رک کر رستم کو تھوڑی دیر کے لیے گھر بھیج دیا تھا
رستم کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو نظریں اس پر گئی جو سپاٹ چہرہ لیے زرقہ کی بات سن رہی تھی
’’زرقہ!!‘‘ انا نے اسے پکارا
’’ہنہ؟‘‘ زرقہ جو اسکی کلاس لے رہی تھی اچانک اسکی جانب متوجہ ہوئی
’’مجھے موت کیوں نہیں آئی زرقہ۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ میں مر کیوں نہیں گئی۔۔۔۔۔ میں زندہ کیوں ہوں؟‘‘ انا نے پوچھا تو زرقہ نے اسے ترس سے دیکھا
’’انا ایسا مت کہوں‘‘ زرقہ نے اسے چپ کروانا چاہا
’’کیوں نہیں کہوں زرقہ کیا میں اللہ کو اتنی ناپسند ہوں۔۔۔۔۔ جو وہ مجھے نا جینے دیتا ہے اور نا ہی مرنے۔۔۔۔ وہ مجھے اپنے پاس کیوں نہیں بلا لیتا زرقہ؟‘‘ انا روتے ہوئے بولی تو زرقہ نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا
’’انا مت روؤں تمہیں چوٹ لگی ہے تکلیف ہوگی‘‘ زرقہ نے اسے بہلایا
’’اور جو چوٹ دل پر لگی ہے اسکا کیا؟‘‘ انا کے سوال پر زرقہ خاموش ہوگئی۔۔۔۔۔ جبکہ دروازے پر موجود رستم کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔۔۔۔
وہ موت مانگ رہی تھی۔۔۔ وہ اس سے دور جانا چاہتی تھی۔۔۔۔ وہ رستم کو تکلیف دینا چاہتی تھی
’’ڈونٹ وری پرنسز تمہیں ایسی سزا دوں گا کہ تم موت کو بھی بھول جاؤ گی۔۔۔۔۔ میں موت بھی حرام کردوں گا تم پر پرنسز!!‘‘ اپنے دماغ میں سوچتے رستم ہلکا سا کھانسا
زرقہ جلدی سے انا سے دور ہوئی
انا نے دیکھا کہ زرقہ کی شہہ رگ پر چوٹ کا ہلکا سا نشان تھا
’’یہ کیا ہوا ہے؟‘‘ رستم کو اگنور کیے اس نے زرقہ سے پوچھا
’’وہ۔۔‘‘ زرقہ نے تھوک نگلتے رستم کو دیکھا جو اسے سخت نگاہوں سے گھور رہا تھا
’’وہ میں گر گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اچھا انا میں اب چلتی ہوں‘‘ زرقہ تیزی سے انا کے گلے لگے باہر کو بھاگی
رستم نے زرقہ کے جاتے ہی دروازہ لاک کیا
’’تو تمہیں موت چاہیے۔؟‘‘ رستم نے اس سے پوچھا
’’ہاں‘‘ انا نے بنا اسکی جانب دیکھے سپاٹ لہجے میں جواب دیا
’’کیوں؟‘‘ اپنے اندر پکتے لاوا پر قابو پائے رستم نے پوچھا
’’کیونکہ مجھے نفرت ہے تم سے۔۔۔۔۔ تمہارے ساتھ سے۔۔۔۔۔ تم ساتھ ہوتے ہوں تو دم گھٹتا ہے میرا۔۔۔۔۔ تمہارے ساتھ رہنے سے زیادہ اچھا آپشن موت ہے میرے لیے‘‘ آپ جناب کو پیچھے دفع کیے انا بےتاثر لہجے میں بولی
رستم نے غصے سے جبڑے بھینچ لیے
لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ انا کے سر پر جاپہنچا اور پھر تھوڑا سا جھکتے اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قریب کیے رستم نے انتہائی بےدردری سے انا کے دونوں بازوؤں کو تھاما جس پر انا کی سسکی نکلی
’’تو تمہیں نفرت ہے مجھ سے۔۔۔۔۔ میرا ساتھ پسند نہیں۔۔۔۔ دم گھٹتا ہے تمہارا۔۔۔۔۔ موت مجھ سے بہتر ہے ہاں‘‘ اسکے بازوؤں پر گرفت مزید سخت کرتے رستم بولا تو انا کی آنکھوں سے آنسوؤں بہنا شروع ہوگئے
’’تیار رہو انا رستم۔۔۔۔۔ تمہاری سزا کا وقت قریب آگیا ہے اور ایسی سزا دوں گا میں تمہیں کہ موت کا خیال بھی تمہارے دماغ میں نہیں آئے گا۔۔۔۔۔۔ موت کا سایہ بھی تم پر پڑنے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔ موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ سزا دوں گا میں تمہیں انا شیخ‘‘ رستم کی گرم سانسیں انا کے چہرہ جھلسا رہی تھی مگر اسکے الفاظ انا کے بدن میں کپکپی طاری کرگئے تھے۔۔۔۔۔۔ اسکا انداز انا کو یقین دلانے کو کافی تھا کہ اب انا کو کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔۔۔۔
مگر ابھی بھی عامر کی صورت میں ایک امید باقی تھی۔۔۔۔۔۔ اسے یقین تھا کہ عامر ضرور رستم کو اس کے گناہوں کی سزا دلوائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔