سورج آج پھر بادلوں کے پیچھے چھپ گیا تھا ۔ آسمان پر چھائے کالے بادل دوبارہ بارش ہونے کا پیغام دے رہے تھے ۔ سیاہ لانگ کوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے لمبے لمبے قدم اٹھاتی راہداری سی گزر کر وہ اب اپنے آفس کی طرف بڑھ رہی تھی ۔
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ ( سورت : شعراء 213)
سو تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکار، ورنہ تو عذاب دیے جانے والوں سے ہوجائے گا۔
اس کے کانوں سے کسی کے تلاوت کرنے کی آواز ٹکرائی ۔ آفس کی طرف اس کے بڑھتے قدم رکے تھے ۔ اس نے حیرت سے اپنے آفس کے برابر میں حدید کے آفس کے بند دروازے کو دیکھا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بہیرا یونیورسٹی میں سٹیج پر تلاوت کرتے اس لڑکے کا چہرہ لہرایا ۔ اس نے مسکراتے ہوئے اپنے قدم حدید کی آفس کی طرف بڑھائے ۔
وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (214)
اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔
اس نے دروازہ کھولا ۔ تو سامنے حدید راکنگ چیئر پر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کررہا تھا ۔ وہ مسکراتے ہوئے دروازے سے ٹیک لگا کر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی ۔
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (215)
اور اپنا بازو اس کے لیے جھکا دے جو ایمان والوں میں سے تیرے پیچھے چلے۔
فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ (216)
پھر اگر وہ تیری نافرمانی کریں تو کہہ دے کہ بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (217)
اور اس سب پر غالب، نہایت رحم والے پر بھروسا کر۔
الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ (218)
جو تجھے دیکھتا ہے، جب تو کھڑا ہوتا ہے۔
وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (219)
اور سجدہ کرنے والوں میں تیرے پھرنے کو بھی۔
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (220)
بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والاہے۔
هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221)
کیا میں تمھیں بتاؤں شیاطین کس پر اترتے ہیں۔
تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (222)
وہ ہر زبردست جھوٹے، سخت گناہ گار پر اترتے ہیں۔
يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ (223)
وہ سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے ہیں۔
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ (224)
اور شاعر لوگ، ان کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ (225)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں۔
وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ (226)
اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (227)
مگر وہ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور اللہ کو بہت یاد کیا اور انتقام لیا، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا اور عنقریب وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، جان لیں گے کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔
صَدَقَ اللهُ العَظيمُ"
بیشک اللہ نے سچ کہا۔
حدید نے قرآن کو بند کیا اور پھر نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ جو نظریں نیچی کیئے سفید ٹائلز کو دیکھ رہی تھی ۔ اس نےکرسی کی پشت پر سر ٹکادیا ۔
جانتی ہو ارسا ! مجھے یہ آیت بہت اچھی لگتی ہے ۔
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ ( سورت : شعراء 213)
سو تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکار، ورنہ تو عذاب دیے جانے والوں سے ہوجائے گا۔
اچھا بتاو اس آیت میں اللہ تعالی کس سے مخاطب ہیں ؟ ارسا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
ہم انسانوں سے ۔ اس نے پوچھنے والے انداز میں کہا ۔
حدید نے نفی میں سر ہلایا ۔
اس آیت میں اللہ تعالی آپ ﷺ سے مخاطب ہیں ۔ قرآن آپ ﷺ پر نازل ہوا اسی لیئے پورے قرآن میں اللہ تعالی آپ ﷺ سے مخاطب ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ سے کہا ہے کہ " اگر تم نے بھی میرے سوا کسی اور کو پکارا تو تمہیں بھی عذاب میں مبتلا کیا جائے گا "۔ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو جیسے اللہ نے یہ بات بہت غصے میں کہی ہو یہ پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اگر دوسری طرف سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے یہ بات بہت لاڈ سے کہی ہو جیسے ہم اپنے دوستوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے لیئے مجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہونا چاہیے۔مطلب اللہ تعالیٰ پیار سے اپنے نبی کو کہ رہے ہیں کہ میرے سوا کسی کو مت پکارنا مطلب اتنی محبت ۔ میں کہتا ہوں کسی کو محبت دیکھنی ہو تو یہ آیت پڑھ لے اور اگر اللہ کے غصے یا غضب کے بارے میں جاننا ہو تو بھی یہ آیت پڑھ لے۔ ایک اور بات جو میں نے اس آیت میں غور کی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو کہا کہ اگر تم بھی میرے سوا کسی اور کو پکارو گے تو تم پر بھی عذاب نازل ہوگا ۔ یہ بات اللہ نے آپ ﷺ سے کہی جو گناہوں سے پاک تھے جن کا درجہ تمام انبیاء سے زیادہ ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی منع کیا تو ہم کیا چیز ہیں ؟۔گناہوں میں لت پت انسان جو توبہ کر کر بھی گناہوں سے باز نہیں آتے ۔ حدید نے ایک گہری سانس لے کر نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو ابھی بھی دروازے سے ٹیک لگائے سر جھکا کر سفید ٹائلز کو دیکھ رہی تھی ۔
میں نے تمہیں بارہ بجے کا کہا تھا اور تم بارہ بج کر دس منٹ پر آئی ہو ۔حدید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
اور ذرا غور تو کیجیئے کہ مجھے یہ بات کہ کون رہا ہے جس کا اپنا حال یہ ہے کہ اگر کورٹ میں ٹائم پر آنے کا کوئی رول ہوتا تو صاحبزادے روزانہ کورٹ کے دروازے کے باہر آرام دہ ہوتے ۔ ارسا نے چڑ کر کہا ۔
خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔ اس نے راکنگ چیئر کی پشت پر لٹکتا کوٹ اٹھا کر اپنے بازو پر لٹکایا
مسٹر حدید ایسی ہی بات ہے ۔ اس نے طنزیہ کہا ۔حدید نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا
اب چلیں یا کل پر ڈلے(delay ) کر کے میرا نام لگا کر سلیمان ہمدانی سے میری شکایت کرنی ہے ۔ اس نے آگے بڑھ کر دروازے کھولا ۔
ویسے آئیڈیا اچھا ہے لیکن کیا ہے نا کہ مجھے فی الحال تم پر ترس آرہا ہے اسی لیئے جاؤ معاف کیا ۔ اس نے جان چھوڑنے والے انداز میں کہا اور باہر نکل گئی ۔
تم سے معافی مانگی کس نے ہے ؟ وہ دونوں اب کاریڈور میں چل رہے تھے۔
تم سے مجھے امید بھی نہیں ہے مسٹر حدید ۔ وہ بھی بات ختم کرنے کے موڈ میں نہیں تھی ۔
اچھی بات ہے تمہیں مجھ سے امید رکھنی بھی نہیں چاہیئے۔وہ دونوں اب کارپورچ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
اسی لیئے میں نے رکھی بھی نہیں ہے۔ حدید کا قہقہ بلند ہوا تھا۔
وہ دونوں اب حدید کی سوک ( cvic) کے سامنے کھڑے تھے ۔ ڈرائیور تب تک گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا ۔ ان دونوں نے آپس میں نظروں کا تبادلہ کیا اور پھر حدید ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔جبکہ وہ وہ اس کے سر پر کھڑی تھی
حدید میں کہ رہی ہوں مجھے ڈرائیونگ کرنے دو۔ ارسا نے تیز آواز میں کہا
پچھلی بار بھی تم نے کی تھی اس بار میں کروں گا۔ حدید نے اٹل لہجے میں کہا
اس بار بھی میں ہی ڈرائیونگ کروں گی۔ اس کا لہجہ بھی اٹل تھا
میری عزت کا سوال ہے لوگ کیا سوچیں گے ایک ہینڈسم اور معصوم لڑکے کے ہوتے ہوئے ایک لڑکی ڈرائیونگ کر رہی ہے ۔ اس نے اپنا مسئلہ بتایا
بھاڑ میں گئی تمہاری عزت اور بھاڑ میں گئے لوگ۔ وہ چلائی تھی
شکریہ ۔ لیکن ڈرائیونگ میں ہی کروں گا۔ وہ بھی ہار ماننے کے موڈ میں نہیں تھا۔
تم مجھے ڈرائیونگ نہیں کرنے دو گے نا ۔ حدید نے نفی میں سر ہلایا
ٹھیک ہے تم اپنی گاڑی میں جاؤ میں اپنی گاڑی میں ۔ اس نے مڑتے ہوئے کہا
ارسا یہ بیوقوفانہ پن ہے ۔ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھتی ارسا کو دیکھ کر چلایا تھا
اور یہ بات مجھے ایک الو بتا رہا ہے ۔ اس نے بھی زور سے کہا ۔ حدید نے اس عزت افزائی پر اپنے ہونٹ بھینچے ۔ اور پھر گاڑی اسٹارٹ کر کے کارپورچ سے باہر نکل گیا اس کے پیچھے ہی ارسا کی گاڑی اور دو پولیس موبائل بھی نکل گئیں ۔
-------------- ----------
گڑیا گڑیااا ۔۔۔گڑیا اٹھو ۔ زالان کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں خوف تھا۔ اپنی بہن فاطمہ کو بھی کھو دینے کا خوف۔
اتنے میں گاؤں کے لوگ بھی جمع ہوچکے تھے ۔ وہ فاطمہ کو گھر لے کر گئے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو وہ ہوش میں آئی۔ ہوش میں آکر وہ پھر رونے لگی زالان نے مشکل سے اسے سنبھالا ۔ ایک ہفتہ تو وہ اپنے گھر ہی رہے گاؤں والے ان کا خیال رکھ رہے تھے ۔ ایک ہفتے بعد انہیں شہر کے یتیم خانے بھیج دیا گیا ۔ اس بار بھی ان کے پاس صبر کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔
فاطمہ ایک بات کہوں ؟ سب بچے سونے کی تیاری کر رہے تھے جب زالان اس کے پاس آیا
ہاں سن رہی ہوں ۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
میں یہاں سے نکلنا چاہتا ہوں ۔ زالان نے نظریں جھکائیں
کیااا۔ فاطمہ حیرت سے اٹھ بیٹھی۔
دیگھو گڑیا۔ میں مما بابا کا بدلہ لینا چاہتا ہوں اور اس کے لیئے مجھے یہاں سے نکلنا ہو گا میں اپنی پوری زندگی یہاں تو نہیں ضائع کر سکتا۔ زالان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
لیکن زالان میں ۔ فاطمہ نے اپنی آنکھوں میں آنسو لیئے کہا
میں کچھ وقت بعد تمہیں بھی یہاں سے لےجاؤں گا۔ پکا وعدہ۔ زالان نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے آپ جائیں ۔ اور جاکر بھول جائیے گا کہ آپ کی کوئی بہن بھی تھی۔ بلکہ ابھی سے بھول جائیں ۔سمجھ لیں کہ مما بابا کے ساتھ میں بھی مر گئی۔اس نے لیٹتے ہوئے غصے سے کہا۔ ایک مان تھا اس کے لہجے میں کہ جب وہ یوں کہے گی تو اس کا بھائی اسے چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ زالان نے بےبسی سے اسے دیکھا۔ کچھ دیر وہ اسے دیکھتا رہا پھر خود بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
صبح جب فاطمہ کی آنکھ کھلی تو زالان کہیں نہیں تھا۔ اس نے زالان کے کمرے میں کینٹین میں ہر جگہ دیکھا لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ آخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئی۔
زالان نا کریں ایسا ۔۔ پلیز واپس آجائیں میں یہاں کیسے رہوں گی ۔ وہ روتے ہوئے مسلسل اسے پکار رہی تھی۔)
زالان ایکدم اٹھ بیٹھا۔ اس کی آنکھیں مسلسل رونے کی وجہ سے سرخ ہورہی تھیں۔ اس نے ماتھے پر بکھرے بالوں کو ہاتھ سے سائیڈ کیا۔
کیا مجھے معافی نہیں مل سکتی ۔ فاطمہ مجھے معاف کیوں نہیں کرتی ۔ اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔اور پھر اپنا سر گھٹنوں میں ٹکا دیا
چمکتا سورج اسے ترس کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ انسان کو مرنے میں اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی پچھتاوے کے ساتھ زندہ رہنے میں ہوتی ہے ۔یہ تکلیف کتنی اذیت ناک ہوتی ہے زالان حیدر بخوبی جانتا تھا۔۔
------------- --------
وہ دونوں فیملی کورٹ کے کاریڈور میں موجود تھے ۔ ہاتھوں میں موبائل لیئے مصروف انداز میں موبائل پر انگلیاں چلاتے آہستہ قدم بڑھائے تھے ۔ ان کے ساتھ چلتا گائیڈ مسلسل انہیں کچھ بتا رہا تھا ۔ جسے وہ سن رہے ہیں یا نہیں اس بات سے اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا ۔ لیکن اس کے رکتے قدموں نے بتایا کہ اسے فرق پڑا تھا ۔
کیا آپ دونوں نے سنا کہ میں نے کیا کہا ؟ گائیڈ ان دونوں کی طرف مڑا ۔ حدید اور ارسا نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلایا
تو بتائیے مسٹر حدید ! فیملی کورٹ میں کس طرح کے کیسس کی تعداد زیادہ ہے ؟ حدید نے گڑبڑا کر ارسا کو دیکھا جو اپنا موبائل اپنے لانگ کوٹ کی پاکٹ میں رکھ رہی تھی ۔
وہ ۔۔۔۔۔وہ میرے خیال سے ۔۔۔
طلاق کے کیسس کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے ۔ ارسا نے تیزی سے اس کی بات کاٹی ۔
وجہ؟ گائیڈ نے پوچھا
آج کل کی نوجوان نسل پر عشق کا بھوت سوار ہے ۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں انہیں اپنے سنگل ہونے کا روگ لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں دو تین افیئرز چلانے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا ۔ لیکن پھر کچھ مجبوریوں کے باعث ان کی شادی ایک الگ ہی مخلوق سے ہوجاتی ہے شادی کے کچھ عرصے بعد انہیں ایک دوسرے کے افیئرز کا پتا چلتا ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر سنگل ہوجاتے ہیں ۔اگر شروع میں ہی صبر سے کام لے لیتے تو پوری زندگی کے اس روگ سے بچ جاتے ۔ ارسا نے جلدی جلدی اپنی بات ختم کی ۔ حدید نے حیرت سے اسے دیکھا وہ بھی اس کے ساتھ ہی موبائل میں لگی تھی پھر بھی وہ ڈیٹیل میں گائیڈ کے سوال کا جواب دے گئی تھی۔
ویلڈن مس ارسا ۔ اب ذرا بتائیے کہ آپ کی نظر میں اس سب کا کیا حل ہے ؟ گائیڈ نے اسے شاباش دی جس پر اس نے حدید کو چڑاتے ہوئے اپنے کوٹ کے کالر جھاڑے۔
مجھے نہیں لگتا کہ اس کا حل ہمیں ڈھونڈنا چاہئیے ۔ ہمارا کام تو بس کیس حل کرنا ہے ناکہ ان کی وجہ کو ڈھونڈنا۔ حدید نے اس کے جواب دینے سے پہلے اپنی رائے دی
مسٹر حدید ہمارا کام برائی کی شاخوں کو کاٹنا نہیں ہے بلکہ انہیں جڑ سے اکھاڑنا ہے ۔ ارسا نے اس کی طرف مڑ کر کہا ۔
بالکل ٹھیک کہ رہی ہیں مس ارسا ۔ اور مسٹر حدید میں آپکی شکایت کرونگا سلیمان ہمدانی سے آپ بالکل بھی اپنے کام پر توجہ نہیں دیتے ۔ گائیڈ نے کہا اور آگے کی طرف بڑھ گیا۔
چچچچچ۔۔۔۔ مسٹر حدید تم نے پنگا بھی تو ارسا ہاشم سے لیا تھا اور نہ کرنے دو مجھے ڈرائیونگ ۔ ارسا نے اسے چڑاتے ہوئے کہا اور مسکراتے ہوئے گائیڈ کے پیچھے چل دی۔ اور حدید معصومانہ شکل بنائے اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے اس ظالم ملکہ سے پنگا لیا تھا ۔ اس نے اپنے بھورے بالوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں اپنے ماتھے پر پھیلایا اور ان دونوں کے پیچھے اپنے قدم بڑھادیئے۔ ہائے رے قسمت!۔۔۔۔
------------- -----------
ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی ۔ کالی سڑکوں پر گرتے پانی پر لوگ قدم بڑھاتے ہاتھوں میں چھتریاں لیئے اس موسم کے مزے لے رہے تھے ۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے ٹھنڈ کافی بڑھ گئی تھی ۔ ایسے میں جیل کے اندر ملاقاتی کمرے میں بیٹھا ہادی کا انتظار کر رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد ہادی اندر آیا ۔ زالان نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ ٹانگ پر پٹی بندھی تھی اور وہ لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا ۔
کیسے ہو ؟ ہادی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئی کہا ۔
ارسا آئی تھی یہاں ۔ زالان نے اس کی ٹانگ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
وہ چڑیل یہاں بھی آگئی ۔ زالان نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
تمہاری ٹانگ کو کیا ہوا ہے ؟ اس نے پوچھا
محترمہ نے اپنا جاگر کھینچ کر مارا ہے ۔ زالان کی ہنسی چھوٹ گئی۔
تم لڑکی سے پٹ کر آئے ہو ۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا ہادی نے اسے گھور کر دیکھا
وہ لڑکی نہی چڑیل ہے پوری ۔ ہادی سہی کا چڑا ہوا تھا۔
ڈاکٹر کے پاس گئے تھے ؟ زالان نے اپنی ہنسی کو ضبط کرتے ہوئے کہا
ہاں کہ رہے تھے کہ پچھلے مشن میں دو گولیاں ٹانگ پر مروا کر آئے تھے اس بار لڑکی سے جوتا کھا کر آئے ہو ۔ زخم بگڑ گیا ہے ایک مہینے تک بیڈ ریسٹ کا کہا ہے ورنہ زخم اور بگڑ جائے گا ۔ اس نے تفصیلات بتائیں
ہادی یہ لڑکی عام نہیں ہے کیا پتا یہی لڑکی اس ٹیم کی لیڈر ہو ۔ زالان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
اوں ہوں ان کی ٹیم کے لیڈر کا پتا چل گیا ہے ۔ زالان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
سلیمان ہمدانی نامی چیف جسٹس آف پاکستان ۔ ہادی نے بتایا
تو اب کیا کرنا ہے ؟ زالان نے پوچھا
حسیب کمانڈر کا آرڈر آگیا ہے ۔ کل سلیمان ہمدانی لاہور آرہا ہے ۔ زیادہ تر چانس یہ ہے کہ رات کی فلائٹ سے آئے گا تو بس شوٹ ہم اون سائیڈ ۔ ہادی نے دھیمے لہجے میں کہا
ہوسکتا ہے کہ سلیمان ہمدانی کے بعد انصاف مہم کی لیڈر سیشن جج ارسا ہاشم ہو ۔ زالان اپنا اندیشہ ظاہر کیا
اتنی بڑی ٹیم کی لیڈر ایک لڑکی ۔ ناممکن ۔ ہادی نے نفی میں سر ہلایا
ابھی تم نے ہی تو کہا تھا کہ وہ لڑکی نہیں چڑیل ہے ۔ زالان مسکرایا
اگر وہ لڑکی لیڈر بنی نا تو میں نے اس کی ٹانگ میں گولی ماردینی ہے ۔ اس نے نخوت سے کہا
بس دعا کرو کہ ہمارے اور کورٹ کے بیچ تنازعات ختم ہوجائیں اور اس سب کی نوبت ہی نا آئے ۔ ہادی نے اسے گھورا
اس لڑکی کی ٹانگ پر تو گولی مار کر دکھاوں گا میں تمہیں ۔ زالان بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔
--------------- ------
وہ بیڈ پر بیٹھی تھی کہ اس کا موبائل بجا ۔ اس نے موبائل کان سے لگایا ۔
فرمائیے حضرت الو ۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
میری تمہارے ساتھ ناراضگی اپنی جگہ لیکن یہ امپورٹنٹ بات ہے ظالم ملکہ ۔ حدید نے سنجیدگی سے کہا
سن رہی ہوں۔
کل رات کی فلائیٹ سے سلیمان ہمدانی لاہور آرہے ہیں اور انہوں نے فورا میٹنگ رکھی ہے اسی لیئے انہوں نے ہمیں ایئرپورٹ بلایا ہے ۔ تو تیار رہنا دس بجے لینے آوں گا تمہیں۔ سنجیدگی قائم تھی ۔
اس نے کہا اور فون رکھ دیا ۔ چاند نے پریشانی سے اسے دیکھا ۔ تو آخر کار کورٹ اور انٹیلیجنس کی جھڑپ ہونے جارہی تھی ۔ انٹیلیجنس اپنے ملک کے لیئے کسی کی زندگی لینے آرہی تھی اور وہ اپنے ملک کے لیئے کسی کی زندگی بچانے جارہے تھے ۔ اس جنگ کا اختتام نجانے کیا ہونے جارہا تھا ۔۔۔۔
--------- ------------