زالان حیدر میں بحیثیت ایک جج آپ سے پوچھتی ہوں کہ 16 تاریخ کو رات کے :12 35 بجے قریبی گاوں کی داخلی راستے پر آپ کو قتل کرتے ہوئے عین موقع پر گرفتار کیا گیا ۔ کیا آپ اعتراف جرم کرتے ہیں ؟ ارسا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
زالان نےجھکے ہوئے سر کو اٹھایا اور ارسا کی جانب دیکھا ۔ وہ وہ الفاظ کہنے جارہا تھا جن سے اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہونا تھا ۔اس کا دل چیختے ہوئے کہ رہا تھا کہ وہ ہاں کہ دے وہ قبول کرلے اس جرم کو جو اس نے نہیں کیا ۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھی ارسا ہاشم خود کو ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی ۔ مقابل کے ایک لفظی جواب پر وہ اس کی زندگی اور موت کا فرمان جاری کرنی والی تھی ۔ بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اس وقت وہ کسی کی زندگی اور موت کا ذریعہ بننے جارہی تھی ۔ تجسس کے اس لمحے کو زالان کی خاموشی مزید بڑھارہی تھی ۔
کیا وہ ہاں کہنے والا تھا ؟ ہوا نے قسمت سے پوچھا تھا ۔ لیکن قسمت نے ہوا کو خاموش کروادیا ۔ وہ خود یہ منظر دیکھنا چاہتی تھی جہاں زالان زندگی یا موت کو چننے جارہا تھا
نہیں ۔ کمرہ عدالت میں زالان کی آواز گونجی ۔ ارسا نے گہری سانس لی ۔ سب کی رکی سانسیں بحال ہوئیں ۔ ہوا اور قسمت دونوں مسکرائیں ۔ اس نے زندگی کو چنا تھا اپنے لیئے نہیں اپنے ملک کے لیئے ۔۔۔
So you dont feel guilty and attend trial .
ارسا نے اونچی آواز میں کہا ۔ جبکہ ریڈر نے ایک کاعذ زالان کی طرف بڑھایا ۔ جس پر اس نے سائن کیئے
(1)23 سندھ کے آرم ایکٹ کے مطابق آپ پر مقدمہ چلایا جائے گا ۔وکیل صاحب آپ اپنے گواہوں کے بیان رکارڈ کروائیں اور ریڈر صاحب آپ اگلی تاریخ دے دیں ۔ اس نے مصروف لہجے میں کہا
آپ کو اگلے ہفتے کی 25 تاریخ دی جاتی ہے ۔ ریڈر کے کہنے پر زالان نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اپنی نگاہوں کا رخ ارسا کی طرف کیا ۔ نجانے کیوں اسے یہ لڑکی جانی پہچانی لگتی تھی ۔
عدالت برخواست ہوتی ہے ۔ ارسا نے ریڈر سے کچھ کہنے کے بعد کہا اور اٹھ کر باہر نکل گئی۔ پولیس کانسٹیبل بھی زالان کی طرف بڑھا ۔ اور اسے لے کر باہر چلا گیا ۔ کمرہ عدالت خالی ہوگیا تھا کسی اور دن دوبارہ آنے والوں کے لیئے ۔
---------- --------------
چہرہ دیکھ کر نہ جان پاو گے حقیقت میری
کہیں پتھر ، کہیں موتی کہیں آئینہ ہوں میں
سیاہ اسکارف کو سیٹ کرتی، سیاہ لانگ کوٹ پہنے ، لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے ارسا راہداری سے گزرتی ہوئی اپنے آفس کے اندر داخل ہوگئی ۔ اس کے پیچھے ایک پولیس کانسٹیبل اندر آیا ۔
آپ نے بلایا میم ۔ کانسٹیبل نے اسے سیلیوٹ کرتے ہوئے کہا ۔
کیا میں نے صرف آپ کو بلایا تھا ؟ ارسا نے راکنگ چیئر پر بیٹھتے ہوئے تیز لہجے میں کہا
وہ میم ۔۔۔۔ کانسٹیبل نے کچھ کہنے کے لیئے لب کھولی
جائیے اور ملزم زالان حیدر کو لے کر آئیں ۔ ارسا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
جی ۔ کانسٹیبل باہر کی طرف بڑھ گیا ۔ کچھ دیر بعد وہ زالان کے ہمراہ اندر داخل ہوا ۔
مسٹر کانسٹیبل ! ملزم کی آنکھ اور ہونٹ پر جو نشانات ہیں کیا وہ تشدد کے ہیں ؟ ارسا نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔ آنکھوں میں غصہ تھا
میم دراصل وہ۔۔۔
ہاں یا نہیں ۔ ارسا نے اس کی بات تیزی سے کاٹی
جی ۔ کانسٹیبل نے سر جھکاتے ہوئے کہا جبکہ زالان حیرت سے ارسا کے سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا
اور کیوں کیا گیا ہے اس پر تشدد ؟ ارسا نے کانسٹیبل کی آنکھوں میں دھیکتے ہوئے کہا
وہ ۔۔۔۔ یہ اعتراف جرم نہیں کر رہا تھا ۔ کانسٹیبل نے ہکلاتے ہوئے کہا
اگر یہی تشدد تم پر کیا جائے تو تمہاری نسلیں بھی اعتراف جرم کرلیں ۔ ارسا نے اسے گھورتے ہوئے کہا
میری ایک بات یاد رکھنا جب تک ملزم پر قتل ثابت نہیں ہوجاتا تب تک یہ ایک بے گناہ شہری ہے ۔اسے صرف الزامات کی بنیاد پر جیل میں ڈالا گیا ہے لہذا تمہارے لیئے یہی بہتر ہوگا کہ آئندہ اسے ہاتھ بھی مت لگاو ۔ اس نے گہری سانس لی ۔
اب ملزم کو لے جاو اور اسے میڈیکل ٹریٹمینٹ دو ۔ اس نے زالان کو دیکھتے ہوئے کہا
جی میم ۔ کانسٹیبل نے زالان کو ساتھ لیا اور باہر چلا گیا ۔ ٹیبل کی طرف مڑتے ہوئے اس کی نظر ٹیبل پر پڑے چائے کے کپ کی طرف پڑی ۔ ایک لمحے کو وہ چونکی پھر آفس کا دروازہ کھول کر باہر جھانکا ۔
سنو ۔ چائے کی ٹرالی لیئے اس ملازم کو راہداری سے گزرتے دیکھ کر اس نے اسے آواز دی ۔
جی میم ۔ وہ ملازم مڑا ۔ سفید قمیض شلوار پہنے خالص ملازموں جیسے گیٹ اپ میں وہ ہادی تھا
چائے کا کپ میرے آفس میں تم نے رکھا ہے ۔ ارسا نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔
جی میم ۔ ہادی نے فرمانبرداری سے کہا
نئے ہو ۔ ارسا نے پوچھا ۔
نہیں وہ اصل میں ملازم چھٹی پر تھا تو اس نے کہا کہ میں آپ کو چائے دے دوں ۔ ہادی نے ملازمانہ انداز میں کہا
ٹھیک ہے ۔ تم جاو ۔ ارسا نے کہا اسے کچھ عجیب لگا تھا ۔ ہادی نے سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا ۔
ارسا کی نظروں نے اس کا دور تک تعاقب کیا ۔ اپنے آفس سے نکلتے ہوئے کالے کوٹ پینٹ میں ملبوس اس لڑکے نے ارسا کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا ۔ ارسا نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر آفس کا دروازہ بند کریا ۔ اس لڑکے نے مسکرا کر اس بند دروازے کو دیکھا اور پھر اس کی جانب اپنے قدم بڑھا دیئے ۔
مے آئی کم ان ؟ اس لڑکے نے آفس کا دروازہ کھول کر اندر جھانکتے ہوئے کہا
دیکھو حدید اگر تمہیں کوئی ضروری کام ہے تو یس ورنہ میرے پاس تمہارے فضول جوکس سننے کا ٹائم نہیں ہے ۔ ارسا نے بیزاری سے کہا ۔
اس کی بات پر دروازے پر کھڑے حدید کا قہقہ بلند ہوا ۔ کالے کوٹ پینٹ میں ملبوس ، سفید رنگت بھورے بالوں والا وہ لڑکا پورا انگریز لگ رہا تھا اور وہ سیشن کورٹ میں بحیثیت ایک سیشن جج کیا کر رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا ۔
یہ سول( civil )کورٹ کے کیسس کی رپورٹ ہے چیک کرلو ۔ حدید نے مسکراتے ہوئے ایک فائل اس کی طرف بڑھائی ۔ اس نے فائل لی اور راکنگ چیئر پر جھولتے ہوئے فائل کا معائنہ کرنے لگی ۔ نقاب سے جھانکتی بڑی بڑی آنکھیں پوری توجہ سے فائل کو دیکھ رہی تھیں ۔ ایکدم کرسی کو ہلاتے اس کے پاوں رکے ۔ ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں ۔ وہ سیدھی ہوکر بیٹھی ۔ نظر اٹھا کر سامنے بیٹھے حدید کو دیکھا ۔ جو کہ ایک کرسی پر بیٹھا دوسری کرسی پر ٹانگیں لمبی کیئے مسکراتے ہوئے موبائل میں لگا تھا ۔ ارسا نے ایک نظر اسے دیکھا پھر موبائل کو ۔ سفید رنگت غصے کی مارے سرخ ہونے لگی ۔وہ ایکدم اٹھ کر اس کے سامنے آئی اورحدید کے ہاتھ سے موبائل چھین کر زور سے شیشے کی ٹیبل پر پھینکا ۔ حدید اس حملے کے لیئے تیار نہیں تھا اسی لیئے گھبرا کر اسے دیکھا ۔ جو بھوکی شیرنی کی طرح اسے گھور رہی تھی ۔
یہ کیا ہے؟ ارسا نے فائل اس کے سامنے کی ۔
ارسا میرا ۔۔۔۔ اس نے اپنے چہیتے موبائل کو بیچارگی سے دیکھتے ہوئے کہا
میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ ارسا نے تیزی سے اس کی بات کاٹی ۔
ارسا میرا موبائل ۔۔۔ اس نے معصومیت سے کہا
بھاڑ میں گئے تم اور تمہارا موبائل ۔ اس کی بات پر حدید مسکرایا ۔ پچھلے ایک مہینے سے اس کی چیزیں آہستہ آہستہ بھاڑ میں شفٹ ہورہی تھیں ۔ بھاڑ میں گیا تمہارا کیس ، بھاڑ میں گئی تمہاری گھڑی ، بھاڑ میں گیا تمہارا وقت اور اب بھاڑ میں گئے تم اور تمہارا موبائل ۔ اور وہ اس بات پر ارسا کا شکرگزار ہے کہ اس نے اسے اور اس کے چہیتے موبائل کو ایک ساتھ بھاڑ میں شفٹ کیا تھا ۔ آخر کار وہ اس ظالم ملکہ کو اپنی بیسٹ فرینڈ مانتا تھا اور یہ ظالم ملکہ اسے کیا مانتی ہے اس کی اسے بالکل پرواہ نہیں تھی ۔
ہیلو مسٹر ۔ ارسا نے اس کے آگے چٹکی بجائی وہ خیالوں سے باہر آیا ۔
میں پوچھ رہی ہوں یہ کیا ہے ؟ کیس نمبر 121 چھے مہینوں تک چلا ہے ۔ جبکہ ایک کیس کی ٹائم لمٹ زیادہ سے زیادہ دو مہینے ہے ۔ تمہیں پتا ہے نا کہ سلیمان ہمدانی نے مجھے تمام کیسس کی ٹائم لمٹ کا خیال رکھنے کا کہا تھا اور میں نے تم پر یقین کرتے ہوہے تمہیں سول کورٹ کی ذمہ داری تھی ۔ ارسا نے تیز آواز میں کہا
ارسا ریلیکس بات تو سنو ۔ حدید نے اسے پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہا ۔ ارسا نے گلاس ٹیبل پر رکھا اور کرسی پر بیٹھ گئی ۔
سول کورٹ میں صرف 60% جج ہمارے ساتھ ہیں اسی لیئے ہمیں کیس ڈائری باقی 40% ججس کے مطابق لکھنی ہوتی ہے ۔ لیکن کیس ہماری ٹیم کے رولز کے مطابق ہی حل ہوتے ہیں ۔ سمجھیں ۔ حدید نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ ارسا کے تنے اعصاب ڈھلے ۔
پہلے بتاتے ! میں نے تو خود کو سلیمان ہمدانی سے ڈانٹ کھاتے ہوئے بھی امیجن کر لیا تھا ۔ ارسا نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا ۔
اب یہ تو تمہاری غلطی ہے نا تم اتنی جلدی ہر چیز کے بارے میں سوچ لیتی ہو ۔ حدید نے کندھے اچکائے
ویسے میں نے تمہارا نام ظالم ملکہ بالکل ٹھیک رکھا ہے ۔ ہائے میرا چہیتہ موبائل ۔۔ اس نے اپنے موبائل کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا جس کی اسکرین پر اسکریچ آیا تھا
تو میں نے اچھا کام کیا ہے نا ۔ اپنے چہیتے موبائل پر تم نے اپنی چہیتی مشال سے چیٹنگ ہی کرنی تھی ۔ ارسا نے طنزا کہا
کتنا جلتی ہو تم اس سے ۔ حدید نے ہنستے ہوئی کہا
میں بتا رہی ہوں تمہاری شادی کسی ویسٹرن لڑکی سے کروا دوں گی اگر تم باز نہ آئے اس مشال سے تو ۔ ارسا نے اسے وارن کیا ۔ اس کی بات پر وہ کھل کر ہنسا ۔
خیر تمہیں پتا ہے آج ایک لڑکا میری آفس میں آیا ۔ اس نے کہا کہ ہمارے ملازم نے اسے بیجھا ہے ۔ پتا نہیں کیوں لیکن وہ بار بار تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔ مجھے عجیب لگا اسی لیئے تمہیں بتادیا ۔ حدید نے سمجھداری سے کہا
ہمممم۔۔۔۔ اس نے کوئی تاثر نہیں دیا لیکن دماغی طور پر وہ چونکی تھی ۔ کہیں کچھ گڑبڑ تھی ۔ کوئی عجیب بات تھی ۔
--------------- ---------
مسافر کل بھی تھا مسافر آج بھی ہوں
کل اپنوں کی تلاش میں تھا آج اپنی تلاش میں ہوں
آسمان پر چمکتا چاند ، چاند کے برابر روشن ستارے ، شہر میں بند دکانوں کے باہر روشن بتیاں رات کے اندھیرے کو کم کررہی تھیں ۔ لیکن اگر زندگی میں ہی اندھیرا ہو تو یہ چاند ستارے سب بے معنی لگتے ہیں ۔ لاہور کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے جیل کے اندر جاو تو وہاں بہت سے کمرے ہیں انہیں کمرے نہیں مرغیوں کا دڑبا کہنا زیادہ بہتر ہوگا ۔ سردی کی وجہ سے فرش ٹھنڈا یخ ہورہا تھا ۔ اور اس ٹھنڈے فرش پر پاوں رکھے دیوار سے ٹیک لگائے اپنا سر گھٹنوں میں دیئے اکڑوں بیٹھا تھا ۔ کسی گہری سوچ میں گم ۔۔۔۔
( زالان اٹھیں ناا ۔ زالان ۔۔ دس سالہ وہ پیاری سی لڑکی مسلسل اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
گڑیا ابھی تو گئے تھے باہر ۔ تھک گیا ہوں میں اب تھوڑی دیر بعد چلیں گے ۔ بارہ سالہ زالان نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا ۔
زالان ۔ گڑیا نے آنکھوں میں آنسو لیئے اسے بلایا ۔ زالان نے اسے دیکھا
اچھا ٹھیک ہے چلو ۔زالان نے کھڑے ہوکر گڑیا کا ہاتھ تھاما ۔ اور دونوں باتیں کرتے باہر نکل گئے ۔ابھی وہ گھر سے تھوڑا دور ہی گئے تھے کہ انہیں فائرنگ کی آواز سنائی دی ۔ دونوں ڈر کر گھر کی پچھلی سائیڈ چھپ گئے ۔ جب فائرنگ کی آواز رکی تو وہ دونوں گھر کی طرف بڑھے ۔ گھر کا دروازہ کھلا تھا ۔ وہاں سے نکلتا خون دیکھ کر زالان ساکت ہوا تھا ۔ اس کی نظر اپنے ماں باپ کی لاشوں کی سر پر کھڑی گڑیا پر پڑی جو خوف کے مارے گرنے کو ہورہی تھی ۔
گڑیا ۔ زالان چیخا اور آگے بڑھ کر اسے سنبھالا
گڑیج اٹھو )
زالان نے ایکدم ڈرنے کے انداز میں سر اٹھایا
گڑیا ۔ زالان نے سرگوشی کی ۔ سرخ آنکھیں گیلے گال ، ماتھے پر بکھرے بال ، سردی کی وجہ سے سرخ ہوتی سفید رنگت ۔ وہ شاید رو رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنا سر پھر سے گھٹنوں میں ٹکادیا ۔ رات تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ ہر طرف خاموشی تھی ۔ کیا واقعی ؟
------------- -----------
ہزاروں منزلیں ہوں گی ہزاروں کارواں ہونگے
بہاریں ہم کو ڈھونڈے گی نجانے ہم کہاں ہونگے
آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا ۔ تیز ٹھنڈی ہوا ٹھٹرنے پر مجبور کر رہی تھی ۔ چاند آج بھی اس لڑکی کی کھڑکی کے باہر کالے آسمان پر اس کے کچھ لکھنے کے انتظار میں تھا ۔ شاید آج بھی اس اندھیری رات میں چاند اس لڑکی کی اچھی باتیں پڑھ سکے ۔ لیکن بیڈ کراون سے ٹیک لگائے ، ٹانگیں لمبی کیئے ،مہرون کلر کی شرٹ ، وائٹ ٹراوزر پہنے وہ آج کچھ لکھنے کے موڈ میں نہیں تھی ۔ آج اس کا ذہن کشمکش میں تھا ۔ بڑی بڑی آنکھیں اس کالے دل والے شوپیس پر مرکوز تھیں ۔ اس کا دماغ کڑی سے کڑی جوڑ رہا تھا ۔ کچھ وقت یونہی گزر گیا ۔ پھر اچانک ذہن میں کچھ آنے پر وہ چونکی ۔ بیڈ سے اتر کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھایا ۔ اور کسی کا نمبر ملا کر فون کان سے لگا کر کمرے میں ٹہلنے لگی ۔
اسلام و علیکم ۔ دوسری طرف حدید کی نیند میں ڈوبی آواز گونجی
وعلیکم سلام ۔ تم سو رہے تھے کیا ۔ ارسا نے پوچھا
رات کے ایک بجے میں سونے کے علاوہ کبڈی کھیلنے سے تو رہا نہیں ۔حدید نے چڑ کر کہا
حدید ! ایک عام آدمی پولیس کا ظالمانہ تشدد کب تک برداشت کرسکتا ہے ؟ ارسا نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہا
کم سے کم ایک دن زیادہ سے زیادہ تین دن ۔ لیکن اگر وہ بالکل ہی کمزور بندہ ہوگا پہلے دن ہی اپنی زبان کھول دے گا ۔ حدید نے تفصیلات بتائیں
اگر ایک آدمی پورے نو دن پولیس کا تشدد سہے اسے ذہنی ٹارچر بھی کیا جائے لیکن پھر بھی وہ اعتراف جرم نہ کرے تو ۔ ارسا نے بات ادھوری چھوڑی ۔
تو یہ کہ یا وہ پولیس کا ہی بندہ ہے یا آرمی کا یا وہ انٹیلیجنس سے تعلق رکھتا ہے یا دشمن ملکوں کی خفیہ تنظیموں سے ۔ حدید نے رٹے رٹائے جواب کی طرح کہا
اور ہماری انصاف مہم کے کون کون خلاف ہے ؟ ارسا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اس کی الجھنیں آہستہ آہستہ دور ہورہی تھیں ۔
ظالم ملکہ مجھے نیند آرہی ہے ۔ حدید نے جمائی لیتے ہوئے کہا
بھاڑ میں گئی تمہاری نیند ۔ اس نے غصے سے کہا ۔
چلو اچھی بات ہے میری نیند بھی بھاڑ میں شفٹ ہوگئی صرف موبائل سے تو گزارا نہیں ہونا تھا نا میرا ۔ حدید نے ہنستے ہوئے کہا ۔
کوئی ضروری بات کرنی ہے تم نے ؟ اس کی خاموشی محسوس کرکے حدید نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ۔
ہماری انصاف مہم کے خلاف کون کون ہے ؟ اس نے سنجیدگی سے کہا
پولیس اور آرمی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ البتہ انٹیلیجنس اور دشمن ملکوں کی خفیہ ایجنسیس ہمارے خلاف ایکشن میں آئیں گی ۔ حدید نے کہا
دشمن ملکوں کی خفیہ ایجنسیس اتنی جلدی کورٹ میں تبدیلی محسوس کر کے ایکشن میں نہیں آئیں گی ۔ اس کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا ۔
ہاں ۔ حدید نے اس کی بات سمجھنے کی کوشش کی ۔
ارسا کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر چاند کو دیکھنے لگی ۔
مبارک ہو حدید انٹیلیجینس ایکشن میں آگئی ہے ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ چاند اور تیز چلتی ٹھنڈی ہوا بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔
------------- -------