ارسا آپی یہ دیکھیں ۔ وہ سونے کے لیئے اپنے کمرے میں جارہی تھی جب لاونج سے گزرتے ہوئے عبداللہ نے اسے بلایا ۔ ارسا کے علاوہ سب رات کو دیر سے سوتے تھے ۔ ابھی بھی سب لاونج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھی
ہاں بولو ۔ اس نے صوفے کے پیچھے کھڑے ہوتےہوئے کہا
یہ دیکھیں آج رات گیارہ بجے کے قریب پولیس نے قریبی گاوں میں ایک لڑکے کو قتل کرتے ہوئے پکڑ لیا ۔ عبداللہ نے موبائل اس کے سامنے کیا جس میں نیوز اینکر پوری تفصیلات بتا رہا تھا ۔ وہ موبائل کو پکڑتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی ۔
عبداللہ ۔ اس نے ویڈیو دیکھنے کے بعد عبداللہ کو آواز دی
جی آپی ۔ عبداللہ نے کہا
باہر گارڈ کے پاس جاو اس سے کہو اپنی رائفل دے ۔ اس کی بات پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے جب کہ وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔ کچھ دیر بعد وہ کمرے سے باہر آئی تو اس کے ہاتھ میں کالے رنگ کی پسٹل تھی ۔ پسٹل کو ٹیبل پر رکھ کر وہ صوفے پر بیٹھ گئی اتنی دیر تک عبداللہ رائفل بھی لے آیا
رائفل میں سے ایک گولی( bullet )نکالو ۔ اس نے پسٹل میں سے گولی نکالتے ہوئے کہا ۔ سب اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے
زینب اس تصویر کو زوم کرو ۔ زینب نے تصویر کو زوم کیا جس میں اس آدمی کے سر میں گولی لگی تھی
یہ دیکھو ۔ اس نے پسٹل کی گولی سامنے کی
ایک پسٹل کی گولی چوڑی ہوتی ہے جبکہ رائفل کی گولی لمبی اور نوکدار ہوتی ہے اب اس آدمی کے سر کو دیکھو ۔ اس نے تصویر کی طرف اشارہ کیا
اس آدمی کے سر میں پتلی اور نوکدار گولی لگی ہے ۔ جبکہ اس لڑکے کے پاس پسٹل تھی اور میں نے بتایا نا کہ پسٹل کی بلیٹ چوڑی اور بنا نوک کے ہوتی ہے ۔ اس نے سنجیدگی سے کہا
مطلب کہ قتل اس لڑکے نے نہیں کیا ۔ زینب نے حیران کن لہجے میں کہا
بالکل ۔ اس لڑکے کو پھنسانے والے یا تو بہت بے وقوف ہیں یا پھر چالاک ۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا
اگر وہ بے وقوف ہیں تو پھر اس بات کا دھیان انہوں نے غلطی سے نہیں رکھا لیکن اگر وہ چالاک ہیں تو انہوں نے یہ جان بوجھ کر کیا وہ اس لڑکے کو مارنا نہیں چاہتے ۔ اس نے سوچتے ہوئے کہا اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا
ارسا آپی یہ مرڈر کیس ہے مطلب یہ کیس سیشن کورٹ میں آئے گا ۔ عبداللہ نے بات کو سمجھتے ہوئے کہا
آئی وش کہ یہ کیس میرے پاس آئے ۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
کیونکہ یہ ایزی کیس ہے ۔ زینب نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں کیونکہ شاید کوئی اور جج اس بات پر غور نہ کرے اور ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے لڑکے کو پھانسی پر چڑھادے ۔ اس نے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔ دروازے سے جھانکتا چاند مسکرایا تھا ۔ اس کی ذہانت پر یا کسی اور بات پر ۔۔۔۔ کون جانے !!
----------------- -------
صبح حسب معمول اس کی آنکھ آٹھ بجے کھل گئی ۔ فریش ہو کر وہ ڈائیننگ ٹیبل پر آئی تو ناشتہ لگ چکا تھا ۔ زینب اور عبداللہ کسی بات پر لڑرہے تھے ۔ عائشہ کچن میں تھیں ہاشم اخبار پڑ رہے تھے جبکہ ہادیہ ابھی سو رہی تھی ۔ اس نے خاموشی سے ناشتہ کیا ۔ ناشتہ کر کے برقع پہن کر نقاب لگایا اور باہر آگئی ۔ سب کو سلام کرکے وہ کارپورچ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ اس کی گاڑی کے گیٹ سے نکلتے ہی ایک پولیس موبائل اس کی گاڑی کے پیچھے چلنے لگی ۔ ایک اور صبح کا آغاز ہوچکا تھا ۔ ایک اور رات گزر چکی تھی ، ایک اور دن گزرنے والا تھا لیکن کیا یہ دن خوشگوار تھا ؟ گاڑی کورٹ کے کارپورچ میں رکی ۔ وہ گاڑی سے اتری اور اپنے قدم اندر کی جانب بڑھادیئے ۔ دو گارڈ اس کے پیچھے چلنے لگے ۔ دراز قد ، نقاب سے جھانکتیں بڑی بڑی آنکھیں ہمیشہ کی طرح بے تاثر ، سیاہ برقع کے اوپر سیاہ ہی جاگرز کو چھوتا لانگ کوٹ پہنے ہمیشہ کی طرح مغرور چال چلتے ہوئے وہ اپنی آفس کا دروازہ کھول کر اندر آگئی ، ہینڈ بیگ کو ٹیبل پر رکھا ، کوٹ اتار کر راکنگ چیئر پر لٹکایا ۔ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک آدمی اندر آیا ۔ اس نے ایک فائل اس کے سامنے رکھی ۔
کل رات لاہور کے قریبی گاوں میں ایک آدمی کا قتل ہوا ، قاتل موقع پر ہی پکڑی گیا ، مقتول کا کوئی وارث نہیں ہے ۔ قاتل اعتراف جرم کرنے سے انکاری ہے ۔ باقی معلومات اس فائل میں ہیں یہ کیس آپ سنبھالیں گیں ۔ اس آدمی نے کہا
ٹھیک ہے میں کیس پڑھ لوں گی آپ ان کو اگلے ہفتے کی تاریخ دے دیں ۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا
اس آدمی نے اثبات میں سر ہلایا اور باہر چلا گیا ۔ جبکہ وہ فائل پر جھک گئی ۔نقاب سے جھانکتی آنکھیں بے تاثر تھیں ۔
------------ ---------
ہادیہ ہادیہ ۔ارسا نے بلند آواز میں پکارتی ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔
ہاں بولو کیا ہوا ؟ ہادیہ نے بیڈ پر بیٹھ کر موبائل یوز کرتے ہوئی کہا ۔
وہ مجھے گاڑی میں یاد آیا کل تم دوپہر کو مجھ سے کیا کہنے والی تھی ۔ ارسا نے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔ اس کی بات پر ہادیہ نے اس کا جائزہ لیا ۔ برقع اسکارف پہنے ، جاگرز کے تسمے کھلے ہوئے شاید وہ سیدھا اسی کے پاس آئی تھی ۔
کیا ۔ ارسا نے اسے خود کو دیکھتا پاکر پوچھا
کچھ نہیں میں بس یہ کہ رہی تھی کہ اپنا خیال رکھا کرو ۔ ہادیہ نے دھیمے لہجے میں کہا
ہیںںں ۔ ارسا نے حیرت سے اسے دیکھا
اصل میں مجھے تم سے ڈر لگتا ہے ۔ تم جج بننا چاہتی تھیں وہ تم بن گئیں لیکن جو تم کہتی ہو کہ ۔ ہادیہ نے بات ادھوری چھوڑی ۔ ارسا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر اسے کچھ یاد آیا ۔
( ہادیہ تم بڑی ہوکر کیا بنو گی ؟ چھوٹی سی ارسا نے اس سے اچانک پوچھا
میں کچھ بھی بن جاوں گی جو اللہ نے بنایا ۔ میں تمہاری طرح خواب نہیں دیکھتی ۔ ہادیہ نے اسے چڑاتے ہوئے کہا ۔
میں خواب نہیں دیکھتی تم دیکھنا میں انشاءاللہ ایک دن ایک کامیاب اور انصاف پسند جج بنوں گی اور پھر دو تین سال بعد قاتلانہ حملے میں مرجاوں گی ۔ ارسا نے جوش سے کہا
تمہیں بڑا پتا ہے کہ قاتلانہ حملے میں ہی مرو گی ۔ ہادیہ نے برہم لہجے میں کہا وہ ہمیشہ ارسا کی ان باتوں سے چڑ جاتی تھی ۔
مجھی پتا نہیں ہے لیکن بعض دفعہ ہماری قسمت دعا سے بدل جاتی ہے ۔ ارسا نے سمجھداری سے کہا
تو کیا تم اپنے مرنے کی دعائیں کرتی ہو ؟ تمہیں پتا ہے نا کہ مرنے کی دعا نہیں مانگنی چاہیئے ۔ ہادیہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا
میں موت نہیں مانگتی ۔میں بس اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ جب بھی موت آئے تو اللہ کی راہ میں انصاف کرتے ہوئے اور ایسے آئے ۔ یہ بس میری خواہش ہے ۔ ارسا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
تم بہت عجیب ہو ارسا ، لوگ سکون سے، بنا تکلیف کے مرنا چاہتے ہیں اور ایک تم ہو کہ قاتلانہ حملے میں مرنا چاہتی ہو ۔ تمہیں اندازہ ہے کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے گولی لگنے سے ۔ہادیہ نے کہا
بھئی میں نے کب کہا کہ تکلیف ہو ۔ میں نے سنا ہے اگر گولی دل میں لگے تو انسان فورا مر جاتا ہے تکلیف نہیں ہوتی تو مجھے بھی اگر ۔۔۔۔۔۔ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ہادیہ جوتا اٹھا کر اس کے پیچھے بھاگنے لگی اس نے بھی فورا ہاشم کی طرف دوڑ لگادی )
وہ خیالوں سے باہر آئی
میری یہ خواہش زور پکڑتی جارہی ہے ۔ ارسا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
ویسے تمہیں کب سے میری اتنی فکر ہونے لگی ۔ اس نے مسکرتے ہوئے ہادیہ سے پوچھا
میں نے کب کہا کہ مجھے تمہاری فکر ہے ۔ ہادیہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
جھوٹی تھوڑی دیر پہلے جو کہا تھا ۔
باہر چلتی ٹھنڈی ہوا مسکرائی تھی ۔ قسمت کا طنزیہ قہقہ گونجا تھا جانے کیوں ؟
----------- ----------
صبح کا سماں تھا ۔ سورج نکل چکا تھا ۔ لوگوں کی گہما گہمی شروع ہوچکی تھی ۔ لاہور کی سیشن کورٹ کے اندر جاو تو وہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ آج ایک ہفتے بعد زالان کی پہلی پیشی تھی ۔ جج کی کرسی کے پیچھے موجود دروازے سے ارسا کے آتے ہی سب کھڑے ہوگئے ۔ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی وہ کرسی پر بیٹھ گئی ۔ اس نے اپنے سائیڈ میں بیٹھے ریڈر سے کیس ریڈ کرنے کا کہا ۔
سرکار بنام زالان حیدر case no : 191 session court 2020 ۔ ریڈر نے با آواز کہا
ملزم زالان حیدر حاضر ہووو ۔ دروازے پر کھڑے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا ۔
اور وہ اندر داخل ہوا ۔ سفید شرٹ پہنے جس پر خون کے دھبے لگے تھے سیاہ پینٹ کی نیچے سیاہ ہی جاگرز جھوٹی چھوٹی آنکھوں کے قریب زخم نچلا ہونٹ سوجا ہوا وہ بمشکل چلتا ہوا کٹہرے میں کھڑا ہوا ارسا نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگی ۔ اس کے پیچھے چلتے پولیس گارڈ نے ارسا کو سیلیوٹ کیا اور زالان کے برابر میں کھڑا ہوگیا ۔
Your owner a set of documents is ready which we ready to supply the achieve person
ایک آدمی نے کہا اور ریڈر کی طرف کچھ کاغذات بڑھائے ۔ ریڈر نے ان کاغذات پر ایک نظر ڈالی پھر ان پر اپنی سائن کی اور کٹہرے میں کھڑے زالان کی طرف بڑھائے ۔
یہاں پر سائن کرو ۔ ریڈر نے ایک جگہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا اور اس کی طرف پین بڑھائی زالان نے پین پکڑی اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ سائن کیئے ۔ ریڈر نے سائن والا کاغذ اٹھا کر ارسا کو دیا ۔ ارسا نے ایک نظر کاغذ پر ڈالی
زالان حیدر آپ کو کچھ کاغڈات دیئے جارہے ہیں جن میں FIR کی کاپی ، گواہوں کے بیانات ہیں ان کو غور سے پڑھیے گا کیونکہ ان کی ہی بنا پر آپ سے سوالات ہونگے اگلی تاریخ پر ۔ لہذا آپ اپنے وکیل کے ساتھ آئیے گا ۔ اور کیا آپ وکیل رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ ارسا نے زالان کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ جواب میں زالان خاموش رہا ۔
نہیں تو آپ عدالت کو بتائیے وہ آپ کو وکیل فراہم کر دے گی free of cost ارسا نے کہا
میں وکیل کر لوں گا ۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد زالان نے کہا ۔ ارسا کو اس کی ذہنی حالت پر شک ہوا تھا ۔
سلپ پر سائن کر کے اسے دوبارہ پولیس کسٹڈی میں بھیچ دیں ۔ وہ ریڈر سے مخاطب ہوئی ۔
کیس ڈائری لکھیں ۔ اس نے ریڈر سے کہا اور کیس ڈائری لکھوائی ۔ کیس ڈائری لکھوا کر
زالان حیدر آپ کو اگلے ہفتے کی بائیس تاریخ دی جاتی ہے ۔ ریڈر نے کہا ۔ زالان نے حیرت سے سر اٹھایا ۔جسے ارسا نے بغور دیکھا ۔
اگلی تاریخ کو اپنے وکیل کے ہمراہ آیئے گا ۔
ارسا نے کہا اور کرسی سے اٹھ کر باہر نکل گئی ۔ زالان بھی کٹہرے سے اتر کر پولیس کے ہمراہ باہر نکل گیا ۔کورٹ میں موجود کھڑکی سے جھانکتے سورج نے گہری سانس لی اسے ابھی ایسے بہت سے منظر دیکھنے تھے
--------- ------------