۔۔۔ ظالم ملکہ ۔۔۔
آرزوئیں خون ہو یا حسرتیں پامال ہوں
اب تو اس دل کو تیرے قابل بنانا ہے مجھے۔۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے ۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی ۔ فروری کا مہینہ شروع ہوچکا تھا ۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے ٹھنڈ بہت بڑھ گئی تھی ۔ بارش کی بوندیں سڑکوں کو گیلا کر رہی تھیں ۔ اس بڑے سے بینگلو کی دوسری منزل پر موجود بالکنی میں بوندوں کے گرنے کی آوازیں آرہیں تھیں ۔ اچانک بجلی زور سے چمکی تھی ۔ بیڈ پر بیٹھی کمبل میں دبکی ارسا نے سر اٹھا کر بالکنی کی طرف دیکھا ۔ بیلو شرٹ پر پنک ٹراوزر پنک ہی دوپٹہ پہنے بالوں کی پونی بنائے ہاتھ میں لیپ ٹاپ لیئے وہ مصروف لگ رہی تھی ۔ کمرے میں ہیٹر چل رہا تھا جس کی وجہ سے کمرے میں ٹھنڈ کچھ کم تھی ۔ اس نے گہری سانس لی اور دوبارہ لیپ ٹاپ پر کچھ لکھنے لگی ۔
شہ مات کیا ہوتی ہے ؟ ایک ہفتے غور و فکر کرنے کے بعد مجھے پتا چلا ۔ شہ مات مطلب (fall of the king ) بادشاہ کا گرنا ۔ شطرنج میں بادشاہ کے خلاف چلنے والی آخری چال کو شہ مات کہتے ہیں ۔ اور شہ مات سب کو ملتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ شہ مات اس آخری چال کو کہتے ہیں جس کےبعد (Game Over) کھیل ختم ۔ مجھے لگتا ہے یہ زندگی بھی ایک کھیل ہے جس کو ہم سب الگ الگ طریقوں سے کھیلتے ہیں ، مختلف چالیں چلتے ہیں ۔ لیکن اس کھیل کے آخر میں ہم سب کو ہارنا ہے ایک ہی چال سے ۔ شہ مات ۔ موت اس کھیل میں شہ مات نامی آخری چال چلتی ہے مختلف طریقوں سے ۔۔جس کے بعد ہر بادشاہ ہر ملکہ کو زندگی سے ہارنا ہے ۔ میرا ماننا ہے کہ موت کا دوسرا نام شہ مات ہے ۔ جس کا سامنا سب کریں گے ۔ ہر جاندار اور بے جان چیز ۔ موت کسی پر رحم نہیں کرتی ۔ کیونکہ وہ شہ مات نامی چال چلتی ہے جو بڑے بڑے بادشاہوں اور ملکاوں کو گرا دیتی ہے جو زندگی کے اس کھیل کو جیتنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ لہذا خطرناک ہے شہ مات ۔ لیکن یہ سب کے مقدر میں ہے ۔ آپ چاہنے کے باوجود اس سے بچ نہیں سکتا ۔۔۔
حرکت کرتیں انگلیاں رکیں تھیں ۔ اس نے نظر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا ۔ جہاں بارش کی بوندیں کھڑکی سے ٹکرا رہی تھیں ۔ قسمت نے جوش سے تیز ہوتی بارش کو کہا تھا کہ :
" موت نے بادشاہ کو شہ مات دے دی ہے اب ملکہ کی باری ہے بہت جلد لیکن اپنے وقت پر " فضا چونکی تھی ۔ اور ہوسکتا ہے کہ ملکہ خود شہ مات نامی چال چلے ۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے وہ بھی شہ مات کا شکار ہوجائے ۔ یہ بات تقدیر کے سوا کون جانے ؟
" موت نے بادشاہ کو شہ مات دے دی ہے اب ملکہ کی باری ہے بہت جلد لیکن اپنے وقت پر"
----------- -------------
اب میسر ہے دل کو سہارا اپنا
اب روح سے آشنائی ہے
ٹھیک کہا ہے کسی نے
سچا ہم سفر تنہائی ہے....!!
یہ ایک بڑا سا اپارٹمنٹ تھا ۔ جہاں بڑے بڑے تین کمرے تھے ۔ سب کے دروازے بند تھے ۔ لاونچ کی لائٹ جل رہی تھی ۔ جہاں صوفے پر ہادی بیٹھا تھا ۔ ٹانگ پر پٹی بندھی تھی ۔سامنے موبائل اور لیپ ٹاپ پڑا تھا ۔ جن پر اس کی انگلیاں تیز رفتاری سے چل رہی تھیں ۔ لاونچ کے سامنے والے دونوں کمرے خالی تھے ۔ جبکہ کچن کے پاس والے کمرے کی کھڑکی کے پاس وہ بیٹھا تھا ۔ کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ خاکی پینٹ پر گرین ٹی شرٹ پہنے ماتھے پر سیاہ بال بکھرے ہوئے تھے ۔
(زالان مجھے تنگ نا کیا کریں چلی گئی نا کسی دن پھر بیٹھ کر معافیاں مانگیں گے ۔۔
آپ چلیں جائیں اور جاکر بھول جائیے گا کہ آپ کی کوئی بہن بھی تھی ۔۔
زالان مت جائیں ۔ میں آپ کے بغیر کیا کروں گی ۔ پلیز بھائی۔۔۔۔۔
مرگئی فاطمہ۔۔۔
کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا گڑیا ۔ یہ سب صرف کہنے کی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔)
برستی بارش کا ایک قطرہ کھڑکی سے ٹکرایا تھا۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے گال پر پھسلا تھا ۔ آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ۔ اس نے بے بسی سے اپنا سر گھٹنوں پر ٹکا دیا ۔۔
میری ذات ذرّہ بے نشان
میں وہ کس طرح سے کروں بیان
جو کیئے گئے ہیں ستم یہاں
سنے کون میری یہ داستان
کوئی ہم نشین ہے نہ راز دان
جو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاں
نہیں کھولی مگر میں نے زبان
یہ اکیلا پن یہ اداسیاں
میری زندگی کی ہیں ترجمان
میری ذات ذرّہ بے نشان
کبھی سونی صبح میں ڈھونڈنا
کبھی اجڑی شام کو دیکھنا
کبھی بھیگی پلکوں سے جاگنا
کبھی بیتے لمحوں کو سوچنا
مگر ایک پل ہے امید کا
ہے مجھے خدا کا جو آسرا
نہیں میں نے کوئی گلا کیا
نہ ہی میں نے دی ہیں دوہایاں
میری ذات ذرّہ بے نشان
میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے
مجھے صبر ہی کا صلہ ملے
کسی یاد ہی کی ردا ملے
کسی درد ہی کا صلہ ملے
کسی غم کی دل میں جگہ ملے
جو میرا ہے وہ مجھے آ ملے
رہے شاد یونہی میرا جہاں
کہ یقین میں بدلے میرا گمان
میری ذات ذرّہ بے نشاں
------------ -----------
میری سرکشی بھی تھی منفرد
میری عاجزی بھی کمال تھی
میں انا پرست بلا کا تھا سو گرا تو اپنے ہی پاوں میں
وہ سڑک پر گاڑی کے پیچھے کھڑی تھی ۔ فائیرنگ کی آوازیں بڑھ رہی تھیں ۔ ایک گولی اس آدمی کے سر میں لگی تھی ۔ خون کا فوارہ نکلا تھا ۔
منظر بدلا تھا۔ ایک چھوٹی سی بچی دو لاشوں کے سر پر کھڑی تھی ۔ اس نے جھک کر فرش پر انگلی رکھی تھی ۔ اس کی انگلی پر خون لگا تھا وہ ڈر کر پیچھے ہوئی ۔
دوبارہ منظر بدلا ۔ ایک بڑی سی بلڈنگ کے دروازے پر ایک بچی بیٹھی تھی ۔ اس کے رونے کی آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں ۔
زالان مت جائیں۔
آپ ایسے اپنی بہن کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے ۔
اس نے اپنے کانوں پراپنے ہاتھ رکھے تھے ۔ اس بچی کی آوازیں تیز ہورہی تھیں ۔ دور سے اس بچی کو دیکھتے اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخ ماری تھی ۔)
وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی ۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔ بارش رک چکی تھی ۔ اس نے لمبی لمبی سانسیں لیں پھر دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا ۔ رات کے چار بج رہے تھے ۔ اس نے آہستہ سے کمبل ہٹایا اور بیڈ سے کھڑی ہوگئی ۔ اس نے پونی میں بندھے بالوں کا جوڑا بنایا ۔ سر پر دوپٹہ لیا ۔ہیٹر بند کر کے بالکنی میں آئی۔
میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے تم دونوں بہن بھائی ۔ اس نے گیلی سڑک کو دیکھتے ہوئے کہا۔
کیوں میرے خوابوں میں آتی ہو فاطمہ حیدر ؟ وہ بڑبڑائی تھی ۔
کیوں یاد آتے ہو مجھے زالان حیدر ؟ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ایکدم وہ چونکی تھی ۔
زالان حیدر ۔ وہ بڑبڑائی ۔
قتل کے اس کیس کو آپ سنبھالیں گی ۔
کیا آپ اعتراف جرم کرتے ہیں ؟
نہیں۔
شکریہ ۔ آپ کے کہنے پر اب وہ مجھے نہیں مارتے ۔
اس کے کانوں میں آوازیں گونجیں ۔
یا اللہ جو میں سوچ رہی ہوں وہ غلط ہو پلیز ۔وہ بڑبڑائی۔
پھر واپس کمرے کی طرف بڑھی تھی ۔ واشروم جاکر اس نے وضو کیا ۔ پھر باہر آئی اور جائے نماز بچھایا ۔ کبڈ کھول کر نماز کی چادر نکال کر اوڑھی ۔ پھر نماز پڑھنے لگی ۔ سکون سے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔ ہوا کو ماننا پڑے گا کہ ظالم ملکہ خود کو چھپانے میں ماہر ہے ۔ الگ الگ جگہوں پر الگ الگ روپ میں آنا وہ بخوبی جانتی ہے ۔ کیونکہ وہ ملکہ تھی ظالم ہی سہی ۔۔۔
------------ ---------
نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے
اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے ۔۔
شام کے پانچ بج رہے تھے ۔ ٹھنڈی تیز ہوا چل رہی تھی ۔ کل رات ہونے والی بارش کی وجہ سے موسم اچھا تھا ۔ جس سے لطف اندوز ہونے کے لیئے لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے ۔ ایک بڑے بینگلو کے سامنے اس کی گاڑی رکی تھی ۔ گاڑی سے اتر کر اس نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھائے ۔ گیٹ سے اندر داخل ہوکر اس نے اپنی نظریں دوڑائیں ۔ ایک طرف بڑا سا لان تھا ۔ دوسری طرف پارکنگ ایریا تھا جہاں بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں ۔ بیچ میں قالین بچھا تھا ۔ اس قالین پر قدم رکھتی وہ اندر کی طرف بڑھی ۔ اندر ایک سائیڈ پر بڑا سا ہال تھا ۔ اور دوسری طرف کچھ کمرے تھے ۔ اور بیچ میں راہداری تھی ۔ راہداری کی چھت پر بڑا سا فانوس لٹک رہا تھا ۔ فانوس کے آس پاس چلتی لائٹیں ماحول کو اور زیادہ خوبصورت بنا رہی تھیں ۔ وہ دائیں طرف بنے کمرے کی طرف بڑھی ۔ کمرے میی بھی لائیٹس لگی تھیں ۔ دیواروں پر بہت سے کبڈ بنے تھے ۔ جن پر مختلف نام جگمگا رہے تھے ۔ بیچ میں لگے کبڈ پر چیف جسٹس سلیمان ہمدانی کا نام جگمگا رہا تھا ۔ آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔اس نے آگے بڑھ کر ایک کبڈ کھولا جس پر سیشن جج ارسا ہاشم لکھا تھا ۔ کبڈ میں لال رنگ کا چغہ رکھا تھا ۔ اس نے چغہ نکالا اور ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی ۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے لے جاکر چغے کو کندھے پر لٹکایا ۔ گردن کے نیچے ڈوری باندھی ، ہڈ کو سر پر ڈالنے کے بجائے کمر پر گرایا۔ پھر ٹیبل پر پڑا ایک بیج اٹھایا ۔ سفید رنگ کا چاند جس پر لال رنگ سے (delay of justice is injustice )"انصاف میں دیر کرنا ناانصافی ہے "لکھا تھا۔ بیج لگا کر وہ کمرے سے نکل کر ہال میں آئی ۔ سفید ٹائلز دیواروں پر ہوا سفید رنگ چھت پر لٹکتے فانوس چاروں اطراف چلتی لائیٹیں کمرے کو خوبصورت بنا رہی تھیں ۔ ہال میں ایک بڑی سی ٹیبل تھی جس کے دائیں بائیں پندرہ پندرہ کرسیاں تھیں ۔ ان کرسیوں پر لال چغوں میں ملبوس ججس بیٹھے تھے ۔ ارسا کے اندر آتے ہی وہ سب کھڑے ہوگئے ۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ ٹیبل کے پاس آئی اور کرسی پر بیٹھ گئی ۔ اور سامنے پڑا مائیکرو فون لگانے لگی ۔ جو کہ وہاں کھڑے تمام افراد نے لگائے ہوئے تھے ۔ اس نے ان سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ سب بیٹھ گئے ۔
چیف جسٹس سلیمان ہمدانی کی موت نے ہم سب کو دکھ دیا ہے ۔انہوں نے ہماری ٹیم کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا ۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائیں ۔ مائیکرو فونز کی وجہ سے اس کی آواز پورے ہال میں گونجی تھی ۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ جانے سے پہلے ہمدانی سر اس ٹیم کی لیڈرشپ کی ذمہ داری مجھے دے گئے تھے ۔ لہذا اب ہماری ٹیم بغیر لیڈر کے نہیں ہے ۔ اور رولز کے مطابق میں اپنا اسسٹنٹ(نائب) سیشن جج مسٹر حدید کو چنتی ہوں ۔ اس نے سب کی طرف نظریں دوڑائیں ۔
تھینک یو ۔ حدید نے سر تسلیم خم کیا۔
ہم سب ایک طرح سے اس وقت حالت جنگ میں ہیں ۔ یہ جنگ انصاف کی جنگ ہے ۔ ہماری آرمی بارڈر پر دشمن سے مقابلہ کر رہی ہے ۔ لیکن ہمارا کام بھی ان سے کم نہیں ہے ۔ اس ملک کے غدار کرپٹ حکمران اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ ہماری غریب عوام کے سامنے اگر کورٹ کا نام لیا جائے تو وہ خوف سے کانپنے لگتی ہے ۔ ہمارا مقصد اس خوف کو ختم کرنا ہے ۔ کہ مظلوم عوام کورٹ کو اپنا دوسرا گھر سمجھیں ۔ اور یہ سب صرف انصاف سے ممکن ہے ۔ ہمیں انصاف کے لیئے اپنی جانوں کی قربانی بھی دینی پڑی تو دیں گے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :
" اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، عدل قائم کرو اللہ کے لیئے شہادت کو قبول کرو خواہ یہ خود تمہارے خلاف ہو خواہ وہ امیر ہو یا غریب اور لوگوں سے نفرت ہمیں انصاف کرنے سے نا روکے "
اس نے گہری سانس لی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نے فرمایا کہ :
"عدل حکمرانی کی بنیاد ہے "۔
اللہ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے ۔ حدید مسکرایا تھا ۔
اگر مس ارسا اپنا غصہ تھوڑا کم کردیں تو یہ ایک اچھی لیڈر ثابت ہوسکتی ہیں ۔حدید نے اپنی برابر میں بیٹھی لڑکے کے کان میں سرگوشی کی ۔ لیکن مائیکرو فونز کی وجہ سے آواز پورے ہال میں گونجی تھی ۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔
حدید مجھے تمام کیسس کی تفصیلات چاہیئیں ۔ اور سب سے پہلے اپنی اس شوخ طبیعت کو سائیڈ پر رکھ کر تھوڑا سنجیدہ ہوجائیں ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔
وہ کیوں بھلا ۔ حدید نے پوچھا ۔
یہ بات تو میرے جانے کے بعد یہاں بیٹھے لوگ آپ کو بتائیں گے ۔ اس نے مائیکرو فون اتارتے ہوئے کہا ۔
امید ہے آپ لوگوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔ اس نے باآواز کہا ۔ اور باہر کی طرف بڑھھ ۔ جبکہ پیچھے حدید کی چیخیں بلند ہوئی تھیں ۔ اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی ۔ عجیب منظر تھا اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور ہونٹ مسکرا رہے تھے ۔ اپنے مغرور انداز سے وہ اس وقت واقعی ملکہ لگ رہی تھی ۔ اسے دیکھ کر کوئی اسے شہزادی نہیں کہ سکتا ۔ کیونکہ وہ ملکہ تھی ۔ Queen Irsa HashiM
------------ ---------