مرے سخن میں بھی حرفِ ثبات سا کچھ ہو
غزل بہت ہوئی اب مجھ سے نعت سا کچھ ہو
یہ میرا سانسں مرے دل پہ سبز رنگ کرے
کہ مجھ میں شہرِ مدینہ کی بات سا کچھ ہو
درود پڑھتا ہوں ہونٹوں سے اور یہ سوچتا ہوں
روئیں روئیں سے اسی واردات سا کچھ ہو
انہیں کا نام لکھا جائے جا بجا مجھ میں
سو دل کے پاس قلم اور دوات سا کچھ ہو
اس ایک اسم کا سکہ ہو میرے کاسے میں
مرے بھی ہاتھ میں کل کائنات سا کچھ ہو
یہ میری آنکھ کھلے آپ کے زمانے میں
میں سو کے اُٹھوں تو ناممکنات سا کچھ ہو
اور اب یہ چاہتی ہے مجھ سے میری ذات کبیرؔ
مری کمائی میں نقدِنجات سا کچھ ہو
***
ڈاکٹر کبیر اطہرؔ(صادق آباد)
***
ڈاکٹر کبیر اطہرؔ(صادق آباد)