’’شانتارام، اٹھاؤ اپنا سامان۔ تمھیں تمھارے رہنے کی جگہ دکھاتا ہوں۔‘‘
گنپت راؤ ٹینبے کا وہ حکم سن کر میں ہوش میں آیا۔ میں گندھرو ناٹک منڈلی کی رہائش گاہ پر گنپت راؤ جی کے کمرے میں کھڑا تھا۔ باپو مجھے وہاں چھوٖڑ کر پہلے ہی چلے گئے تھے۔ اس ننھی سی عمر میں ماں اور باپو کے بغیر اتنی دور اِس سے پہلے کبھی نہیں رہا تھا۔ نم آنکھوں سے میں نے گنپت راؤ کی طرف دیکھا۔ لیکن آنسو اتنے بھر آئے تھے کہ اُن کی شکل ٹھیک سے صاف دکھائی نہیں دی۔ میری پیٹھ سہلاتے ہوے انھوں نے کہا، ’’دھت تیری، پاگل! تم رو رہے ہو؟ آؤ تمھیں دکھاتا ہوں، یہاں تمھاری عمر کے کتنے لڑکے رہتے ہیں!‘‘
میں ایک دم تن کر کھڑا ہو گیا۔ ناٹک میں آنے کا فیصلہ میرا اپنا ہی تو تھا، پھر یہ کیا ہو رہا ہے! نہیں نہیں! ایسے کام نہیں چلے گا۔ یہ سوچ کر میں نے فوراً اپنا پیٹی بستر اٹھایا۔ آنکھوں میں رُکے آنسو اندر ہی رہ گئے، چھلکے نہیں تھے۔
وہ مجھے ایک بڑے ہال میں لے گئے۔ وہاں میرے جیسے بہت سے لڑکے تھے۔ گنپت راؤ نے کہا، ’’بچو، یہ ہے شانتارام، اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لو!‘‘
میری ہی عمر کا ایک گورا سا لڑکا سامنے آیا۔ مسکرا کر اُس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولا، ’’آؤ شانتارام، وہاں رکھو اپنا سامان۔‘‘ ایک خالی جگہ کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے اُس نے کہا۔ وہاں میں نے اپنا بستر رکھا۔ اُس کے پاس ہی اپنا صندوق بھی رکھ دیا۔ اُس کمرے کے باقی لڑکے میری طرف بےتابی سے دیکھ رہے تھے۔ میری بغل میں ہی ایک دری بچھی تھی۔ میرا ہاتھ تھامنے والا وہ لڑکا اُس پر آ بیٹھا اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا۔ اس کا نام تھا گووند مُلگناوکر۔ وہ گووا کا رہنے والا تھا۔
شام ہو گئی۔ ہم سب لوگ کھانا کھانے گئے۔ کھانا پنڈتوں جیسا تھا۔ رات ہو گئی۔ کولھاپور سے پونا تک کے سفر سے کافی تھکان محسوس کر رہا تھا، لیکن من بے چین تھا۔ گھر کے سبھی لوگوں کی یاد ستا رہی تھی۔ کروٹیں بدلتے کب نیند آ گئی، پتا ہی نہیں چلا۔
آنکھیں ملتے ہوے سویرے نیند کھلی۔ گووند پکار پکار کر مجھے جگا رہا تھا۔ میں فوراً اٹھ بیٹھا۔ صبح کے معمول اور نہانے وغیرہ سے نپٹ کر دیگر لڑکوں کے ساتھ میں بھی تیار ہو گیا۔ تعلیم کی اطلاع دینے والی گھنٹی بجی۔ ہم سب لوگ جلدی جلدی رقص کی تعلیم کے لیے پہنچ گئے۔ رقص کے استاد مگن لال ہم سب لڑکوں سے ناٹک کے رقصوں کی مشق کرانے لگے۔ اُس دن تو میں ایک طرف بیٹھ کر سب کچھ دیکھتا رہا۔
رقص کی تعلیم ختم ہوتے ہوتے دوپہر ہو گئی۔ سب نے کھانا کھایا۔ ناٹک رات میں ہوتے تھے اور سب کو جاگنا پڑتا تھا۔ لہٰذا کمپنی کا اصول تھا کہ سب لڑکوں کو دوپہر میں لازمی سو لینا چاہیے۔ شام کو گیان کی تعلیم کا وقت تھا۔ سب کے ساتھ مِیں بھی حاضر ہو گیا۔ کمپنی میں گیان سکھانے کے لیے پنڈھرپورکر بابا آئے تھے۔ وہ مشہورموسیقار تھے۔ ناٹکوں میں گائیک کرداروں کے روپ میں بھی وہ کام کرتے تھے۔ میں اجنبی تھا۔ قدرتی طور پر انھوں نے مجھ سے بات چیت کی۔ حال پوچھا اور سوال کیا، ’’گانا جانتے ہو؟‘‘ میں نے ٹکا سا جواب دیا، ’’نہیں جانتا۔‘‘ اُن کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ پھر بھی انھوں نے کہا، ’’چلو، گانا نہ سہی، سکول کی کوئی نظم تو آتی ہو گی نا؟‘‘ میں نے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ میرے خیال سے میں نے اچھے سُر میں، پورے من سے نظم گا کر سنانا شروع کی:
’’تو پے لاگی آس مہان
سُمتی دیجے دیانی دھان‘‘
سامنے بیٹھے لڑکے شروع میں تو کچھ دیر چُپ تھے، لیکن بعد میں سبھی مجھے دیکھ کر اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کرتے دکھائی دیے۔ پنڈھرپورکر کے چہرے پر مایوسی صاف نظر آ رہی تھی۔ نظم پوری ہونے کے بعد انھوں نے کہا، ’’ٹھیک ہے، بیٹھو تم۔ تمھیں ایک دَم شروع ہی سے گانا سِکھانا پڑے گا۔ کوئی بات نہیں۔ آہستہ آہستہ سیکھ جاؤ گے۔‘‘
گانے کی تعلیم ختم ہوئی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں اور گووند اپنی اپنی دری پر پاؤں پسارے بیٹھے تھے۔ اُس رات ناٹک نہیں تھا۔ میں نے متجسس ہو کر گووند سے پوچھا، ’’گووند، سچ بتاؤ، میں باباجی کے سامنے نظم سنا رہا تھا، تب سبھی لڑکے ہنس کیوں رہے تھے؟ تم لوگوں کو میرا گانا اچھا تو لگا نا؟‘‘
مجھے ناخوش ہوتا دیکھ کر میرا ہاتھ تھامے اُس نے کہا، ’’لو، تم برا مان گئے۔ اِس میں برا ماننے کی بات ہی کیا ہے؟ تم مَن لگا کر گانا سیکھو، دھیرے دھیرے سے اچھا گانے لگ جاؤ گے۔ بھئی، گانا تو ایک ایسا علم ہے جسے کافی دِنوں تک سیکھتے رہنا پڑتا ہے، کیا سمجھے؟‘‘
پتا نہیں میں کیا سمجھا تھا، لیکن دھیرے بُدبُدا گیا، ’’ٹھیک ہے۔‘‘
اِس طرح کچھ دن بیت گئے۔ کمپنی کے ماحول میں گھلتاملتا گیا۔ اب باقی لڑکوں کی طرح میں بھی دھوتی باندھنے لگا۔ نیکر پہننا چھوڑ دیا تھا۔ بال بھی بڑھانے لگا تھا۔ رقص میں میں اچھی ترقی کرتا جا رہا تھا۔ سوال تھا تو صرف گائیکی کا! اس شعبے میں میری مَت (عقل) کہو یا گلا، پنڈھرپورکر بابا کی خواہش کے مطابق کام نہیں کر پا رہا تھا۔ سبھی لڑکوں کے ساتھ میں بھی پوری تندہی سے اچھا گانے کی پوری کوشش کرتا رہا، لیکن کئی بار ایسا ہو جاتا کہ باباجی کے اشارے پر سبھی لڑکے برابر رُک جاتے اورمیری ہی اکیلی آواز کسی سُر کی کھوج میں لٹکتی سنائی دیتی رہتی۔
کچھ دنوں بعد ’مان اپمان‘ ناٹک کرنے کا دن آیا۔ اس ناٹک میں آخر میں سبھی لڑکے ہاتھوں میں مالا لیے ’شاندار یہ ہار‘ گانا گاتے گروپ میں رقص کرتے تھے۔ اس گانے کے تھوڑے ٹکڑے میں نے اچھی طرح تیار کر لیے تھے۔ گانا بھی منھ زبانی یاد کر لیا تھا۔ باباجی نے کہا، ’’کورَس گانا ہے، باقی لڑکوں کے ساتھ اُن کے سُر میں سُر ملا کر، لیکن تم اسے ذرا ہلکے سُرمیں گانا، سمجھے؟‘‘
رات میں سب لوگ تیار ہونے لگے۔ میں بھی میک اَپ روم میں گیا۔ میک اَپ آرٹسٹ نے مجھے میک اَپ کرنا سکھایا۔ رنگ لگانے کے بعد ڈریسنگ روم کے ماسٹرجی نے میرے ہاتھوں میں ایک ساڑھی، چولی تھما دی اور بولے، ’’جاؤ جلدی سے باندھ کر آؤ۔‘‘
ساڑھی ہاتھ میں لیے میں ساکت رہ گیا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اچھا خاصا مرد ہوں اور ساڑھی باندھوں؟ چھی! ساڑھی باندھ کر ہر جمعے کو جوگوا (بھیک) مانگنے کے لیے نکلنے والے ہیجڑے آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے۔ مجھے ایک دم گِھن ہو آئی۔ ناٹک میں کام کرنے کی اُمنگ میں یہاں ساڑھی باندھنی پڑے گی، یہ تو میں نے بُھلا ہی دیا تھا۔ مجھے وہاں بُت بنا کھڑا دیکھ کر ڈریسنگ روم کے ماسٹر چلّائے، ’’بھئی جلدی تیار ہو کر آؤ۔ ابھی تم لوگوں کا داخلہ ہونے ہی والا ہے۔‘‘
میں ہوش میں آیا۔ تبھی سامنے سے گووند مٹکتا ہوا آیا۔ چار پانچ اور لڑکے بھی تیار ہو کر آ گئے۔ ہاتھ میں ساڑھی لیے صرف میں رہ گیا تھا۔ مجھے دیکھ کر گووند نے کہا، ’’کیوں بھئی، رو کیوں رہے ہو؟ آؤ میں باندھ دیتا ہوں تمھیں ساڑھی۔‘‘ جو جو ہووے بھاگ میں، دل و جان سے کر قبول!
میک اَپ ماسٹر نے ڈانٹ پلائی، ’’اے، آنکھیں مت ملو۔ میک اَپ بگڑ جائے گا۔‘‘ میک اَپ بگڑ جائے گا! مجھ پر اندر ہی اندر کیا بیت رہی ہے، کسی کو کوئی پروا نہیں!
مجھے ساڑھی بندھوا کر گووند باقی لڑکوں میں کھڑا ہو کر ناٹک کے توڑے ٹکڑے یاد کر رہا تھا۔ میں بھی باقی لڑکوں میں شامل ہو گیا۔
اینٹری آتے ہی ہم سب لوگ سٹیج پر پہنچ گئے۔ ’شاندار یہ ہار‘ یہ گیت ہاتھوں میں ہار لیے رقص کے لیے تال پر ختم ہوا۔ رقص کے آخر میں ہم لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھوں کے ہاروں کو مخصوص شکل دے کر ’مان اپمان‘ کے حروف تیار کیے۔ ناظرین نے داد دے کر اپنی پسند ظاہر کرنے کے لیے تالیاں بجائیں۔
ناٹکوں کے پریوگ کے لیے ہم لوگ گاؤں گاؤں گھوم رہے تھے۔ رقص میں میری کارکردگی بہت ہی اچھی ہو رہی تھی۔ ایک ناٹک میں، اس کا نام اب ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا، گووند ایک ٹھمری گایا کرتا اور اس پر میں رقص کیا کرتا تھا۔ ٹھمری کے بول تھے: ’دیکھو ری نا مانے شیام۔‘ رقص کی تعلیم کے وقت مگن لال ماسٹر دیگر لڑکوں سے ہمیشہ کہتے تھے، ’’ارے اس شانتارام کو دیکھا کرو، کتنی شان سے ناچتا ہے۔ اسی طرح سے لے تال میں ناچنا چاہیے!‘‘
کمپنی کے کچھ لوگ ہم میں سے کچھ لڑکوں کو ’مالک‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ اس کا راز کافی دنوں تک میں جان نہیں سکا۔ آخر اِس موضوع پر ایک آدمی سے پوچھا تو اس نے ہنس کر کہا:
’’ہم لوگوں کو کمپنی سے تنخواہ ملتی ہے اِس لیے ہم ہیں کمپنی کے نوکر۔ مالک کو کوئی تنخواہ نہیں ملتی اس لیے وہ ہیں مالک۔ آپ لوگوں کو بھی کمپنی تنخواہ نہیں دیتی، اس لیے آپ ہو گئے مالک!‘‘
گندھرو ناٹک منڈلی میں پہلے چھ ماہ تک مجھے کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی، صرف اوڑھنے بچھانے کے لیے چادریں، پہلے سے ہی طے کیے گئے کپڑے اور دو وقت کا کھانا، اتنا ہی ملا کرتا تھا۔
کمپنی کی رہائش گاہ پر مالک کے ساتھ ہم لوگوں کا کوئی خاص رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ بال گندھرو کی مقبولیت اُن دنوں آسمان کو چھونے کی کوشش میں تھی۔ گووند راؤ ٹینبے مجھے کمپنی میں لے تو آئے تھے، لیکن میری ناٹک کی تربیت کی طرف انھوں نے خاص دھیان نہیں دیا تھا۔ لیکن چونکہ میں کچھ چست دکھائی دیتا تھا، گووند راؤ کی بیوی میرا زیادہ خیال رکھتی تھیں۔۔ میں بھی اُن کے کولھاپور والا جو تھا۔ وہ میرے لیے ممتا جتاتیں، تیج تہوار پر مجھے مٹھائیاں بھی کھلاتی تھیں۔ ویسے گندھرو ناٹک منڈلی میں کھانے پینے کی کمی نہ تھی۔ اُس میں بھرتی ہوا شخص چند دنوں میں ہی گول مٹول ہو جاتا تھا۔
ہمارے تیسرے مالک تھے گنپت راؤ بوڈس۔ مجھے اُن کی اداکاری سب سے زیادہ پسند تھی۔ ’شُکراچاریہ‘ کے کردار کے لیے وہ سفید داڑھی مونچھ لگوا لیتے تو ایک دم بڈھے رِشی لگنے لگتے۔ بڑی بڑی کالی اکڑباز مونچھیں لگاتے ہی ’مان اپمان‘ ناٹک کے لکشمی دھر بن جاتے۔ داڑھی مونچھیں لگوا کر نئے روپ اپنانے کے اُس جادوئی فن کو میں تجسس سے دیکھا کرتا۔ بال گندھرو کے سٹائل کو بھی بڑی باریکیوں کے ساتھ دیکھتا۔ کبھی کبھار چوری چھپے گنپت راؤ بوڈس کی طرح میں بھی مونچھیں لگا کر دیکھ لیا کرتا۔ اس کے لیے میک اَپ آرٹسٹ ماسٹر کی دو چار بار ڈانٹ بھی کھاتا تھا۔ اُن دنوں نئے ناٹک کے لیے تیار کیے جانے والے متنوع منظروں کے پردے، سین بدلتے ہی پیچھے کا پردہ بدلنے کا ہنر، تعلیم ماسٹر کی تعلیم کا طریقۂ کار وغیرہ، سبھی باتوں کا میں نے بالکل نزدیک سے معائنہ کیا۔
کمپنی بڑودہ آ گئی۔ بڑودہ نریش (راجہ) سیاجی راؤ گیکواڑ سے گندھرو ناٹک کمپنی کو سالانہ گرانٹ ملتی تھی۔ اپنے اشتہار میں کمپنی ’شریمنت سیاجی راؤ مہاراج، بڑودہ کی خاص پشت پناہی حاصل!‘ ایسا خصوصی طور پر لگایا کرتی تھی۔ بڑودہ کے ’وانکانیر‘ تھیٹر میں صرف مہاراج اور اُن کے خاندان کے افراد کے لیے گندھرو ناٹک منڈلی اپنے ناٹکوں کے خاص مظاہرے کیا کرتی تھی۔ اُن ناٹکوں کے لیے عام لوگوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ ناظرین کے بیٹھنے کی جگہ کے بیچوں بیچ ایک موٹا پردہ کھڑا کیا جاتا تھا۔ اُس کے ایک طرف مہاراج اور راج خاندان کے دیگر مرد افراد اور دوسری طرف جالی دار پردے کے پیچھے مہارانی اور راج خاندان کی دیگر عورتیں بیٹھا کرتی تھیں۔ داسیاں بھی ناٹک دیکھنے آتیں اور ناٹک میں اچھا رنگ آنے پر سامنے والا جالی کا پردہ کھسکا کر مزے میں ناٹک دیکھا کرتی تھیں۔ مہاراج کے لیے دربار سے ایک خاص ملائم صوفہ لایا جاتا۔ ایک بار ناٹک شروع ہونے سے پہلے میں نے چوری سے اُس صوفے پر بیٹھ کے دیکھ لیا تھا۔ صوفہ بہت ہی نرم تھا۔ کسی نے بتایا تھا کہ اُس میں پروں کے گدے لگائے گئے ہیں۔ مہاراج کے لیے خاص روپ میں دربار سے لائے جانے والے اُس صوفے کے پاس ہی ایک گھنٹی لگی ہوتی تھی۔ ناٹک کا کوئی گیت یا بند پسند آ گیا، تب ناظرین میں سے کسی کو بھی تالیاں بجا کر داد دینے کی اجازت نہ ہوتی۔ پورے تھیٹر میں مرگھٹ جیسی شانتی چھائی رہتی۔ ایک دم سناٹا! لیکن مہاراج کو کوئی بند پسند آتا تو وہ سامنے والی اُس گھنٹی کا بٹن دبا دیتے۔ گھنٹی کی آواز وِنگ میں سنائی دیتی۔ اُسے سنتے ہی گائیک اداکار اُسی گیت کو پھر سے گاتا۔ بڑودہ کے لیے کیے جانے والے ناٹکوں کا دستور ایسا عجیب و غریب تھا۔
ہمارے بڑودہ قیام کے وقت مہاراج نے فرمائش بھیجی کہ اُن کی انّا صاحب کرِلوسکر کا ’شاکنتل‘ ناٹک دیکھنے کی خواہش مند ہے۔ انھوں نے حکم دیا کہ اُس ناٹک کو وہ پورا دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ اُس میں سے کوئی حصہ کاٹا نہ جائے۔ ’شاردا‘، ’مرِچھ کٹِک‘ وغیرہ مشہور ناٹکوں کے لکھاری خود بہت ہی سخت نظم و ضبط کے تعلیم ماسٹر گووند بِلاس دیول کو اِس ناٹک کو ڈائریکٹ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ جلدی جلدی تعلیم شروع کی گئی۔ کمپنی کے مالک شری گنپت راؤ بوڈس نے اِس ناٹک میں مجھے شکنتلا کی سَکھی پری یامدا کا کردار دینے کا فیصلہ کیا۔ اُس سے پہلے میں رقص اور داسی کی کئی چھوٹے چھوٹے کردار کر چکا تھا، لہٰذا پریمدا کا کردار کرنے کا موقع ملے گا، اُس کی مجھے بہت خوشی ہوئی۔ مکالمہ (ڈائیلاگ) بولنے کی تعلیم گنپت راؤ بوڈس خود دیتے تھے۔ تعلیم کا اُن کا اپنا سٹائل کچھ نرالا ہی تھا۔ بوڈس جی کو کسی وید نے ہدایت دی تھی کہ آپ ہر روز کچھ دیر دھوپ میں سیر کرنے جائیے، تو وہ دھوپ میں چہل قدمی کرنے اور میں وانکانیر تھیٹر کی چھاؤں چھاؤں میں اُن کے ساتھ ٹہلتے ہوے زور زور سے اپنے ڈائیلاگ بولتا تھا۔ ڈائیلاگ کافی زور سے بولنے پڑتے تھے کیونکہ اُن دنوں تھیٹر میں مائیکروفون اور لاؤڈسپیکر کی سہولت نہیں ہوا کرتی تھی۔
ایک دن اچانک ہی ہماری تعلیم بند ہو گئی۔ میں نے چپ چاپ وجہ جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ بال گندھرو کے ساتھ کام کرتے وقت میں بہت ہی چھوٹا لگوں گا، اس لیے پریمدا کا میرا کردار رد کر دیا گیا ہے۔ اُس کی جگہ پر مجھے دُشینت مہاراج کی وتیروتی نامی داسی کا کردار دیا جا چکا ہے۔ اُس میں مکالمہ بہت ہی معمولی تھا۔ جیسے، ’’مہاراج، اِدھر سے آیا جائے، مہاراج اُدھر سے جایا جائے۔‘‘ ایک اچھا کردار ہاتھ سے جاتا رہا، اس کا مجھے کافی رنج رہا۔
کمپنی کے سبھی لوگ بڑی بھاگ دوڑ میں تھے۔ کوئی اپنے مکالمے یاد کر رہا تھا، کوئی گیت۔ ایک طرف مختلف منظروں کے پردے رنگے جا رہے تھے۔ دوسری طرف ڈریسنگ روم کے لوگوں کی دوڑ دھوپ چل رہی تھی۔ بڑا شورسرابہ تھا۔ ایک پاگل خانے کا روپ تھا گندھرو ناٹک کمپنی کا!
آخر وہ دن آ گیا جب ’شاکنتل‘ کو سٹیج ہونا تھا۔ اس میں دُشینت مہاراج کا کردار گووند راؤ ٹینبے کر رہے تھے۔ تیاری کے لیے وقت کم ہونے کی وجہ جلدبازی میں مکالمے کسی کو اچھی طرح یاد نہیں ہوے تھے۔ ابھی لوگ پراپمپڑ کے بھروسے ناٹک کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے تھے۔ دونوں وِنگوں میں دو اور پردے کے پیچھے ایک، اس طرح تین تین پراپمپڑ ناٹک کو بڑھائے لیے جا رہے تھے۔ اس ناٹک میں گیتوں کی بھرمار تھی۔ شکنتلا کے گیتوں کے علاوہ دُشینت کے گیت بھی کافی تھے۔ وہ سارے گیت گووند راؤ کو یاد نہیں ہوے تھے۔
دروسا رِشی کے شراپ (بددعا) کی وجہ سے دُشینت کو شکنتلا کی یاد ستاتی ہے۔ بعد میں اُن کی طرف سے شکنتلا کو دی ہوئی انگوٹھی ایک مچھوے کو مل جاتی ہے۔ اُس انگوٹھی کو لے کر وہ مہاراج دشینت کے یہاں جاتا ہے۔ مہاراج کو شکنتلا کی یاد ستاتی ہے۔ وہ بہت ہی دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔
اس حوالے میں ہجر کا مارا دُشینت ایک کے بعد ایک پانچ چھ گیت گاتا ہے۔ اسی شکستہ حالت میں دشینت شکنتلا کی تصویر بناتا ہے۔ اس تصویر کو مہاراج کے سامنے تھامے بےچاری وتیروتی (یعنی میں) کھڑی رہتی ہے۔ مجھے سخت ہدایت دی گئی تھی کہ تصویر کو ایسے تھامے رہنا کہ ناظرین کو وہ کبھی دکھائی نہ دے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ اُس تصویر میں شکنتلا کی تصویر تھی ہی نہیں۔ اُس کی جگہ اُس سیاق و سباق میں دشینت کے گائے جانے والے بندوں کی پنکتیاں ( مصرعے) موٹے حرفوں میں لکھی ہوئی تھیں۔
گووند راؤ ٹینبے ہمیشہ عینک لگایا کرتے تھے۔ عینک کے بغیر بھی انھیں اُن مصرعوں کو پڑھنا آسان ہو، ایسے انداز سے مناسب فاصلے پر انھوں نے وہ لے کر مجھے کھڑا کیا تھا۔ گووندراؤ ایک ایک بند لمبے الاپ اور تانیں لے کر دل و جان سے گانے لگے اور اِدھر اس طرح کا گانا سنائی دیتے ہی جھپکی لینے کی میری پُرانی عادت حاوی ہو گئی۔ انھوں نے لپک کر تصویر آگے کھینچ لی۔۔۔ میں جاگ گیا۔ انھوں نے مجھ پر اپنی غصے بھری نظر ڈالی اور پھر اُسی شکستہ آواز میں ایسے گانے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اُس کے بعد وہ سارا داخلہ منظم ڈھنگ سے ختم ہو گیا۔
اسی وقت کمپنی میں میرے چھ مہینے پورے ہو چکنے کی وجہ سے مجھے تنخواہ ملنی شروع ہو گئی۔ تب تک بِنا تنخواہ کام کرنے والا میں کمپنی کا مالک تھا، اب نوکر بن گیا۔ میری تنخواہ تھی فی مہینہ تین روپے۔
ہم بڑودہ میں تھے۔ انھی دنوں کولھاپور کے بابا دیول اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے وہاں آئے۔ ان کا لڑکا بڑودہ میں انجینئر تھا۔ باپو کے کہنے پر وہ میرا حال چال پوچھنے کے لیے گندھرو منڈلی کی رہائش گاہ پر آئے۔ خیر خبر جان لینے کے بعد، پتا نہیں کیوں، شاید انھیں سنگیت سے بہت پیار تھا اِس لیے، یا اُن دنوں ناٹکوں میں سنگیت کو بھاری اہمیت حاصل تھی اس وجہ سے، انھوں نے باباجی سے بڑی عقیدت سے پوچھا:
’’کیا کرتا ہے ہمارا شانتارام؟ کیسا گاتا ہے وہ؟‘‘
میں وہیں کھڑا تھا۔ باباجی نے کہا، ’’کیا پوچھا آپ نے؟ شانتارام؟ اور کیسا گاتا ہے؟ سنیے، آپ سنیے اُس کا گانا!‘‘ کہہ کر انھوں نے میرا مخول اڑایا۔ اِس طرح کھِلّی اڑائی جانے سے مجھے بڑی کھیج آئی(جھنجھلاہٹ ہوئی)۔
بابا دیول گانا سننے کے لیے بیٹھ گئے پنڈھرپورکرباباجی نے ہارمونیم سنبھالا۔ شروع میں سا، رے، گا، ما، پا، دھا، نی، سا، کہا۔ اُس کے بعد سُر کی تمام باریکیاں تمام اتارچڑھاؤ کے ساتھ سنائے اور آخر میں گووند کی طرف سے گائی جانے والی ٹھمری ’دیکھو ری نہ مانے شیام‘ بھی گا کر سنا دی۔
گانا ختم ہوا۔ میں نے باباجی کی طرف دیکھا۔ باباجی ششدر ہو کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔ بولے، ’’ارے شانتارام، آج تجھے ہو کیا گیا ہے؟‘‘
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’کیوں؟ کیا مجھ سے کچھ غلطی ہو گئی؟‘‘
’’بالکل نہیں۔ ارے آج تو تم شروع سے آخر تک سر میں گاتے رہے، کہیں پر ایک بھی غلطی نہیں کی۔ کمال ہو گیا!‘‘
میں نے دیول بابا کی طرف دیکھا۔ انھوں نے میری پیٹھ تھپتھپائی۔ وہ مطمئن ہو گئے تھے۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ لیکن میری جیون مین وہ سنہری دن ایک ہی بار آیا۔ سر میں گانے کا وہ جیون کا پہلا اور آخری دن۔
لگ بھگ انھی دنوں ایک مہان شخص سے میرا رابطہ ہوا۔ یہ مہان شخص تھے مشہور ناٹک کار شری رام گینش گڈکری۔ کولھاپور میں میں نے اُن کا لکھا ’پریم سنیاس‘ ناٹک دیکھا تھا۔ اس میں جن سماجی مسائل کو ابھارا گیا تھا ان کا اندازہ کر پانا میری عقل کے باہر کی بات تھی۔ ایک تو میں چھوٹا تھا، پھر چونکہ وہ ناٹک دکھی تھا، مجھے خاص بھایا بھی نہیں تھا۔ پھر بھی اُس کے بھلکّڑ کردار ’گوکُل‘ پر میں نہایت خوش تھا۔ بڑا مزاحیہ کردار تھا وہ۔ اس کے سٹیج پر آتے ہی میں ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا۔
گڈکری گروجی گندھرو ناٹک کمپنی کے لیے ایک نیا ناٹک لکھنے کے لیے کمپنی کی رہائش گاہ پر آئے تھے۔ اور کچھ دن وہیں رہنے والے تھے۔ ایسے کسی بڑے مہمان کی آمد پر کمپنی کی طرف سے ہم میں سے کسی ایک چھوکرے کو ان کی سیوا میں لگا دیا جاتا تھا۔ چونکہ میں انگریزی تیسری تک پڑھا تھا، گڈکری نے مجھے ہی چُنا۔ انھوں نے کہا، ’’شانتارام، آج سے تم میرے سیکرٹری۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’سیکرٹری؟ یعنی مجھے کیا کیا کام کرنے ہوں گے؟‘‘
’’ارے کچھ خا ص نہیں۔ میرے اِس صندوق میں ایک مسودے کے صفحے رکھے ہیں۔ تمھیں انھیں پڑھ کر ٹھیک ترتیب اور سلسلے سے لگانا ہو گا۔ بس۔‘‘
میں نے ان کاغذوں کو ٹھیک ترتیب سے لگا دیا۔ وہ ناٹک کون سا تھا، آج مجھے ٹھیک یاد نہیں۔ لیکن اُس کا ہیرو نشئی تھا۔ ناٹک ادھورا تھا۔ اِس کام کے علاوہ دھوبی کے یہاں سے ان کے کپڑے لے آنا، ان کے لیے چائے بیڑی وغیرہ لا کر دینا، ان کی چٹھیاں لیٹربکس میں ڈالنا وغیرہ چھوٹے چھوٹے کام بھی میں انتہائی مستعدی سے کیا کرتا تھا۔
چند دنوں میں ہی ان کے من میں میرے لیے ممتا جاگی۔ شاید قریبی رابطے میں آئے شخص سے اپنی دلی فطرت کے مطابق محبت کرنا ان کی فطرت ہو گا۔ میرے سرنیم ونکودرے کے بارے میں وہ اکثر کہا کرتے تھے، ’’شانتارام، یہ خاندانی نام کہاں سے پیدا کیا بھائی؟ چلو اسے بدل دیتے ہیں۔ کولھاپور یا کچھ ایسا ہی نام کیسا رہے گا؟‘‘ میں ’’بس، جیسا آپ چاہیں،‘‘ کہہ کر بات ٹال دیتا۔
دورہ کرتے کرتے کمپنی بمبئی آ گئی۔ اس وقت کمپنی کے ناٹک ایلفنٹسن تھیٹر میں ہوا کرتے تھے۔ گندھرو ناٹک کمپنی میں اتنے دنوں سے شامل ہونے پر بھی تھیٹر میں کسی کردار میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع مجھے کبھی ملتا ہی نہیں تھا۔ سنگیت کے معاملے میں میرا پہلو ایک دم لنگڑا تھا۔ عمر میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے بڑے نثری کام بھی مجھے نہیں دیے جاتے تھے۔ لیکن اتنے دن کمپنی میں کام کرتے ہوے میں نے کچھ باتیں تیزنظری سے نوٹ کر لی تھیں۔ کوئی گائیک اداکار تین چار سُروں میں اٹکنے جیسا بکری الاپ کافی لمبا کھینچ لیتا تو شائقین تالیوں کی بوچھاڑ کرتے۔ یہ تالیاں گائیک کے سُروں میں مہارت کے لیے ہوتی تھیں یا گائیک کو سانس لینے کی راحت دلانے کے لیے، پتا نہیں! اسی طرح نثری اداکار ایک ہی سانس میں کوئی لمبا مکالمہ اونچی آواز میں پورا کر لیتے، تب بھی تالیاں بجتی ہیں، میں نے غورکیا۔ لہٰذا میں نے بھی طے کر لیا کہ جو بھی ہو، اپنے کام کے لیے بھی اِسی طرح کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ کرا کر ہی مانوں گا۔ من میں یہ جوت جاگ اٹھی۔ اس کے لیے میں بےتاب ہونے لگا۔ ایک دن میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج تو ’تالیاں‘ لے کر رہوں گا۔
اُس رات ’سُبھدرا‘ ناٹک ہونے والا تھا۔ اُس ناٹک میں رُکمنی کی داسی کا کردار مجھے ملا تھا۔ میں شروع سے ہی تیاری میں تھا۔ میرا داخلہ شروع ہو گیا۔ میرے مکالمے میں جملے تھے: ’’دیّا ری! سرکار اِدھر ہی تشریف لا رہے ہیں۔ اب کیا کروں؟ انھیں جگاؤں تو بھی مشکل، نہ جگاؤں تو بھی مشکل۔ بائی صاحب، بائی صاحب! یہ تو جاگنے سے رہیں۔ کیا کیا جائے۔
میں نے پہلا جملہ ہی ایک دم اونچی آواز میں شروع کیا۔ اگلا جملہ اُس سے بھی اونچی آوازمیں بول دیا، اس سے آگے کا اور بھی اونچی آواز میں، بس میں یہی کرتا گیا اور آخری جملہ تو شاید میں نے گلا پھاڑ کر، چلّا کر کہا۔ اور تبھی آڈیٹوریم تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں گونج اٹھا۔ ایک طرف ونگ میں انٹری کی تیاری میں شری کرشن کے کردار میں کھڑے گنپت راؤ بوڈس میری طرف ساکت دیکھتے ہی رہ گئے۔ دوسرے ونگ میں کام کر رہے سبھی لوگ یہ دیکھنے کے لیے حیرت میں جمع ہو گئے کہ اِس اینٹری میں آخر اتنی تالیاں کس بات پر ملی ہیں۔ سٹیج پر گہری نیند میں سونے کی اداکاری کر رہی رُکمنی بھی ذرا سا سر اٹھا کر اَدھ مچی آنکھوں سے مجھے گھورنے لگی۔ اُس کی نظر میں بھی حیرانی تھی۔ میں توخوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ میرا کام ہو گیا تھا، بات بن گئی تھی۔ میں کسی فتحیاب وِیر، نہیں نہیں، ہیروئن کی طرح پلّو کمر پر کس کر کسی طرف بغیر دیکھے سب کے سامنے سے اکڑ کے ساتھ سٹیج پر سے ونگ میں چلا گیا۔
گاؤں گاؤں ناٹکوں کو سٹیج کرتے کرتے ہم لوگ واپس پونا پہنچ گئے۔ اب کمپنی میں داخل ہوے مجھے ایک سال ہو چکا تھا۔ ناٹکوں کو لگاتار سٹیج کرنے اور سفر کی وجہ سے سبھی لوگ تھکے ماندے تھے۔ بال گندھرو کو اپنے گلے کے بارے میں بھی کچھ شکایتیں رہنے لگی تھیں۔ ان کی آواز کو کم سے کم کچھ دنوں کے لیے آرام کی ضرورت تھی۔ گنپت راؤ کی آواز تو ہمیشہ خراب ہی رہتی تھی۔ اب اُن کی شکایت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ مالکوں نے اسی لیے ایک ماہ کی چھٹی کا اعلان کر دیا تھا۔ سبھی لوگ اپنے اپنے گاؤں جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ میں نے بھی دوسرے ہی دن کولھاپور جانے کا فیصلہ کیا۔ گڈکری جی کو میں نے بتا بھی دیا۔ ان کا مکان پونا میں ہی تھا۔ اُس دن انھوں نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔
شام ہوتے ہی میں ان کے یہاں گیا۔ وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر انھیں خوشی ہوتی دکھائی دی۔ میں کچھ جھینپ سا گیا۔ اتنے بڑے ناٹک کار، شاعر، لکھاری، اور میرے جیسا بارہ سال کی عمر کا ننھا سا لڑکا اُن کا مہمان! تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ یعنی وہ ہی زیادہ تر بولتے رہے اور میں صرف ’ہاں‘ ’ناں‘ کرتا رہا۔ ان کی ماں نے کھانا تیار ہونے کی اطلاع دی۔ ہم دونوں کھانے پر بیٹھ گئے۔ گڈکری گروجی نے کہا، ’’چلو کرو شروع۔‘‘
میرا ہاتھ تھالی کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اچانک رک گیا۔ کٹوری میں تری دار مٹن رکھا ہوا تھا۔
’’کیوں بھائی، رک کیوں گئے؟ کھاؤ نا، شرماؤ نہیں۔‘‘
میں نے کچھ رُک رُک کر جواب دیا، ’’گروجی، میں مٹن کھاتا نہیں۔‘‘
’’مٹن نہیں کھاتے؟ تو اب کیا ہو گا؟‘‘
’’میں صرف چپاتی، چاول، مُٹھا، ایسا ہی کچھ کھا لوں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘
’’بھئی واہ! یہ تو تم نے خوب کہی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھلا۔‘‘ انھوں نے اپنی ماں کو کہا، ’’ماں، اِس کے لیے کچھ میٹھا لاؤ نا!‘‘
ان کی ماں پھرتی سے تھالی کٹوری لے کر باہر چلی گئیں۔ گروجی کھانا کھاتے کھاتے رک گئے۔ لگ رہا تھا انھیں بہت ہی افسوس ہوا۔ بولے:
’’بھئی، میں نے تمھیں کھانے کے لیے بُلایا اور لگتا ہے اب تمھیں بھوکا ہی رہنا پڑے گا! لیکن تم بھی کیسے عجیب آدمی ہو! کیا تم نے کبھی مٹن کھایا ہی نہیں؟‘‘
’’جب میں چھوٹا سا تھا تب کبھی کبھار مٹن کھا لیا کرتا تھا۔ ہمارے والد پکّے سبزی خور اور ماں مراٹھی۔ اِس لیے ہم بچوں کی پسند جان کر ماں کبھی کبھی چپکے سے مٹن پکا کر ہمیں کھلاتی تھیں۔ ایک بار ہمارے گھر کے سامنے رہنے والے ایک امیر کسان نے فصل کاٹ لانے کی خوشی میں رواج کے مطابق بکرا کاٹ کر محلے کے سب لوگوں کو مٹن کی دعوت دینا طے کیا۔ دروازے کے سامنے ہی بکرا کاٹا گیا۔ اُسے کاٹنے سے لے کر اس کی چمڑی چھیل چھیل کر الگ کرنے، مٹن کو کاٹ کاٹ کر اس کے باریک ٹکڑے بنانے تک کا سارا سلسلہ میں نے بہت نزدیک سے دیکھا۔ بعد میں کھاتے وقت وہی ساری باتیں آنکھوں کے سامنے دکھائی دیں اور مجھے بھڑبھڑا کر اُلٹی ہو گئی۔ اُس دن سے مجھ میں مٹن کی ایسی گِھن بیٹھی کہ تب سے میں نے مٹن، مچھلی وغیرہ کھانا ایک دم چھوڑ دیا۔‘‘
’’ارے، یہ بات تھی تو مجھے پہلے ہی بتا دیتے۔ میں ماں سے کہہ دیتا کہ ہمارے یہاں بٹو بمن کھانے کے لیے آنے والا ہے۔‘‘
تبھی ان کی ماتاجی واپس آ گئیں۔ انھوں نے پڑوسن کے گھر سے لایا گیا مربہ تھالی میں پیش کیا اور تھالی میں تڑکا لگی دال۔ میں نے ڈٹ کر کھانا کھایا۔ گڈکری جی بھی اس سے مطمئن ہوے۔ لکھاری ہونے کے ناتے ان کی بڑائی کو تو میں آگے چل کر بڑا ہونے کے بعد ہی سمجھ سکا، لیکن مجھ جیسے ایک معمولی لڑکے کی آؤبھگت میں دل کی جو عظمت دکھائی، اس سے میں ان کے اندر کے آدمی کی بڑائی کا اُسی وقت اندازہ کرنے لگا تھا۔
دوسرے دن میں پونا سے چل دیا۔ گھر پہنچا۔ مجھے دیکھ کر ماں کو بےانتہا خوشی ہوئی۔ گھر میں قدم رکھتے ہی میں نے سب سے پہلے اپنی تنخواہ سے بچے نو روپے ماں کی ہتھیلی پر رکھ دیے اور ان کے قدموں پر ماتھا ٹیکا۔ انھوں نے میرے سر سے کتھئی رنگ کی فر کی ٹوپی اتار لی۔ اُس کے ساتھ اندر باندھ کر رکھے میرے لمبے گھنگھریالے بال گردن، کندھوں تک جھومنے لگے۔ میرا وہ روپ شاید ماں کو بہت پسند آیا۔ مجھے چومتے ہوے بولیں:
’’شانتا !کتنا پیارا پیارا لگ رہا ہے رے تو! ٹھہر تجھ پر ابھی مرچیاں اُتار پھینک کر واری واری جاتی ہوں، تاکہ تجھے کسی کی نظر نہ لگ جائے۔‘‘
ماں جلدی سے اندر گئیں۔ دونوں مٹھیوں میں نمک، سرسوں اور مرچیاں لے کر آئیں اور نظر اُتارنے کے انداز سے اس سامگری کو میرے پر وارتی گئیں۔ بعد میں وہ ساری چیزیں اپنے جلتے چولھے میں جھونک دیں۔ چولھے کے نیچے سے راکھ انگلی پر لے کر اُس سے میرا تلک کیا اور کہنے لگیں:
’’دیکھانا، کتنی تاڑ پھاڑ پھوٹ رہی ہیں مرچیاں! تمھیں تو بچپن سے ہی نظر لگ جایا کرتی تھی یک دم!‘‘
نہانے وغیرہ سے فارغ ہو کر میں دھوپ میں بال سکھانے بیٹھا تھا، تبھی دکان سے باپو آ گئے۔ آج تو ماں نے میری تھالی باپو کے ساتھ ساتھ پروسی تھی۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے کھانا پورا ہو گیا۔ باپو ہمیشہ کی طرح کھانے کے بعد کچھ آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ ان کے پائتنی کی طرف میں بھی لیٹ گیا۔ باپو نے پوچھا، ’’تو شانتارام، سال بھر میں کیا کیا سیکھ کر آئے ہو، بتاؤ بھی؟‘‘
میں باپو کے اِس سوال کا جواب کھوجنے لگا۔ واقعی سال بھر میں کیا کیا سیکھ پایا ہوں میں؟ تھوڑا سا ناچ، دو چار چھوٹے موٹے کام، گائیکی کے نام پر تو پلے کچھ بھی نہیں! میری آنکھوں سے ساون بھادوں بہنے لگے۔ جواب دینے کے لیے منھ سے لفظ نہیں نکل پا رہا تھا۔ مجھے چپ بیٹھا دیکھ کر باپو نے یہ جاننے کے لیے سر اٹھا کر دیکھا کہ بات کیا ہے۔ میری روتی صورت دیکھ کر انھوں نے کروٹ بدل کر میری طرف سے منھ پھیر لیا اور تھوڑی دیر بعد ہی اٹھ کر وہ دکان چلے گئے۔
میں بےچین ہو کر چھٹپٹا رہا تھا۔ ’’شانتارام، کیا کیا سیکھ کر آئے ہو سال بھر میں؟‘‘ یہی سوال مجھے ستا رہا تھا۔ میں اپنے آپ سے یہی سوال کرتا رہا۔ اسی میں پوری دوپہر ڈھل گئی۔ شام ہو گئی۔ رات آ گئی۔ رات کا کھانا بھی میں ٹھیک سے نہیں کھا پایا۔ ساری رات بےتابی میں گزار دی۔ من کی گہری تہہ میں کہیں گہرے خلا کا اندازہ کر رہا تھا میں۔
دوسرے دن سویرے کچھ طے کر کے ہی میں دکان پر گیا۔ باپو کے سامنے کھڑا ہو میں نے کہا، ’’باپو، ابھی اسی وقت کسی نائی کو بُلوائیے گا۔‘‘
’’نائی کو؟ کس لیے؟‘‘
’’مجھے اپنے یہ سارے بال اُسترے سے صاف کرانے ہیں۔ ایک دم پورا سر منڈوانا ہے مجھے۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘
’’مجھے نہیں جانا ہے پھر سے کسی ناٹک کمپنی میں!‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہو شانتارام؟ ناٹک کمپنی میں نہیں جانا ہے؟ لیکن کیوں؟‘‘
’’پچھلے سال بھر میں، میں وہاں گانا وانا کچھ نہیں سیکھ پایا ہوں!‘‘
’’ارے بیٹے، گانا کیا ایک سال میں آ جاتا ہے؟ اس کے لیے تو سالوں سال ریاض کرنا پڑتا ہے۔ آ جائے گا، تمھیں بھی گانا آ جائے گا دھیرے دھیرے۔‘‘
’’نہیں، میں کبھی گانا نہیں گا سکوں گا! گائیکی میں میری کوئی ترقی نہیں ہے۔ معمولی داسی کے کردار کرنے پڑتے ہیں وہاں۔ بڑا ہو جاؤں گا تو جاؤں گا۔ تب بھی زیادہ سے زیادہ نثری مکالمے ہی مجھے ملیں گے۔ ایسے کاموں کا وہاں کوئی مول نہیں ہوتا، کوئی قدر نہیں ہوتی۔ وہاں میں صرف ناچتا ہوں ساڑھی پہن کر، کسی ناچ والے لونڈے کی طرح!‘‘
’’ارے بابا، اِس طرح آپے سے باہر ہو جانے سے کام کیسے چلے گا؟ ابھی تو تمھیں ایک ماہ کی چھٹی ملی ہے۔ جلدی کیا ہے؟ جو کرنا ہو آرام سے سوچنے کے بعد طے کریں گے۔‘‘
میرا ضدی رویہ پھر اُچھلا۔ میں نے بغاوت کی۔ اپنے لمبے گھنگھریالے بالوں کو ہاتھوں میں زور سے بھینچ کر انھیں کھینچتے ہوے میں نے کہا، ’’باپو، اِن لمبے بالوں کی وجہ سے ہی مجھے پھر سے ناٹک میں جانے کی چاہ ہو سکتی ہے۔ آپ نائی کو بلا بھیجیے، ابھی، اسی وقت!‘‘
باپو نے پھر ایک بار میری ضد مان لی۔ نائی آیا۔ میں اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ نائی نے اُسترے سے میرا سر اچھی طرح سے مونڈ دیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی دھارا بہہ نکلی تھی۔ نائی کے استرے کی وجہ سے نیچے گر رہے میرے گھنگھریالے بالوں کے ساتھ ہی ناٹکوں کے لیے میرا موہ بھی جڑوں سے اکھڑ کر نیچے گر رہا تھا۔ نائی نے سارے بال مونڈ کر صرف ایک چٹیا سر پر رکھ چھوڑی تھی۔
دکان سے گھر لوٹتے وقت راستے میں میری نظر اَکوّ ماسی کی دکان کی طرف گئی۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ وہاں کسی اور چیز کی دکان لگی تھی۔ اس دکان میں بیٹھے شخص سے میں نے پوچھا، ’’جی، یہاں اَکّو ماسی کی دہی کی دکان تھی نا پہلے؟ اب وہ کہاں ہے؟ اَکّو ماسی کہاں ہے؟‘‘
اس آدمی نے بتایا، ’’اَکّو گوالن مر گئی۔‘‘
اَکّو ماسی مر گئی، یہ لفظ سنتے ہی میں سسک سسک کر رونے لگا۔ ناٹک کمپنی میں جاتے وقت میں جان کر اس سے ملنے کے لیے گیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اُس نے میری ہتھیلی پر دہی ڈالا تھا اور نم، بھرّائی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوے بولی تھی، ’’بڑا ہو گیا، اچھا نام کما کر آئیو۔‘‘ یہ اَکّو ماسی کا آخری آشیرواد تھا جس کے ساتھ اُس نے مجھے رخصت کیا تھا۔ اس کی اِس چاہت کی وجہ سے میں خوشحال واپس لوٹ آیا تھا۔ پر جس نے میری ہتھیلی دہی سے بھر دی تھی وہ ایسے لمبے سفر پر چلی گئی جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ اِس ایک سال میں میں نے کیا کھویا، کیا پایا، اِس کا لیکھا جوکھا جو ہو، ہوتا رہے، لیکن آج اَکّو ماسی کی دکان کے سامنے سر منڈوا کر کھڑا ہونے پر میں نے اندازہ لگایا کہ میں کئی چیزوں کو کھو چکا ہوں۔