"مدھرا وٹیا بڑی سہانی، گھنگھرالے بال لگے سیانی، آنکھیں موٹی ناک سے نکٹی، دیکھ دیکھ کر ہے مسکانی۔۔۔”
دو سال کی گھنگھرالے بالوں والی گول مٹول مدھُرا کو گود میں لے کر بےسری آواز میں میری شاعری چالو تھی۔ موٹر تیزی سے جنگل کا راستہ کاٹتی دوڑتی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وِمل نے کندھے سے مجھے ہلاتے ہوئے کہا، "اجی —”
میں نے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف و فکر دکھائی دی۔ اس کے اس طرح ‘اجی’ کہہ کر شاعری کی غنودگی سے مجھے جگانے کا معنی میری سمجھ میں فوراً آ گیا۔ میں اپنی ہنسی روک نہ سکا۔ وِمل سے کہا، "تم کیا سمجھ رہی ہو، میں پاگل واگل ہو گیا ہوں؟ بالکل نہیں۔ میں تو ایک دم مزے میں ہوں، مست ہوں۔ اس سفر میں پورا آرام کرنے والا ہوں، ساری جھنجھٹوں کو بُھلا بسرا کر، سمجھی؟”
وِمل نے صرف سر ہلایا اور وہ بھی میرے ساتھ ہنسنے لگی۔ کار کی کھڑکی سے آس پاس کی ہریالی کو جی بھر کر دیکھتے ہوئے، مدھُرا کے گھنگھریالے بالوں پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے شاعری پھر زوروشور سے شروع ہو گئی۔
ڈاکٹر بھڑکمکر نے میرے روگ کی جو تشخیص کی تھی، اسے سُن کر سبھی لوگ گھبرا گئے تھے۔ وِمل نے جیون میں پہلی بار ضد کی تھی کہ کسی شانت جگہ پر آرام کے لیے جایا جائے۔ اسی لیے ہم سب لوگ یعنی وِمل، پربھات کمار، سروج اور دو سال کی مدھُرا اور میں، گرسپپا کا بھدبھدا (آبشار) دیکھنے کے لیے کار سے جا رہے تھے۔
شام ہو رہی تھی۔ ڈرائیور نے اچانک کار روک دی۔ میں نے کارن جاننا چاہا۔ اس نے سامنے کی طرف اشارہ کیا: ایک لمبا پیلے رنگ کا ناگ رپٹیلی چال سے چلا جا رہا تھا۔ غروب کے سمے کی سورج کی کرنوں سے اس کی چکنی کایا چمک رہی تھی۔ اس نے راستہ پار کر لیا اور ہمارے ڈرائیور نے کار پھر چالو کی۔ دھیرے دھیرے اندھیرا چھانے لگا۔ کچھ ہی سمے بعد گاڑی رکی۔ سامنے ہی ایک ڈاک بنگلہ تھا۔ برآمدے میں رکھی ایک آرام کرسی پر میں بیٹھ گیا۔ گِرسپپا کے بھدبھدا کی گہری گمبھیر آواز سنائی پڑ رہی تھی۔
سویرے اٹھتے ہی دھیرے دھیرے جا کر وہاں سے سامنے ہی واقع بھدبھدا میں نے دیکھا۔ اس پرچنڈ جلودھ (جھرنے) کو دیکھ کر میرے من کی ساری تھکان جاتی رہی۔ میں جذباتی ہو گیا۔ بھدبھدا! اس کے چاروں جانب چھائی ہریالی بھری جنگلی املاک کا حسن ایک بےصبر پیاسے کی طرح میں جی بھر کر پینے لگا۔ من میں شدت کا اشتعال دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا تھا۔ سُدھ بدھ کھو کر میں وہاں پتہ نہیں کتنی دیر بیٹھا رہا!
دوچار دن میں ہی میرے وہاں آرام کے لیے آنے کی خبر پاس پڑوس میں پھیل گئی۔ کچھ چاہنے والوں نے میرے لیے ایک خاص پروگرام کا انعقاد کیا۔ پونم آ رہی تھی۔ کچھ لوگ پہاڑی پر چڑھ گئے اور وہاں سے انھوں نے بڑی بڑی لکڑیاں سُلگا کر بھدبھدے کے پانی میں چھوڑیں۔ وہ جلتے ہوئے کندے (بلاک) خوفناک رفتار سے بھدبھدے کے ساتھ نیچے کودتے اور پانی میں ڈوبتے ابھرتے آگے چلے جاتے۔ آگ اور پانی کا ایسا حسین اور ناقابل بیان ملن میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ غیرمعمولی حُسن من میں سنجوتے جی نہیں اکتاتا تھا۔
پُونا واپس آیا تو تن من میں نیا جوش اور امنگ آ گئی تھی۔ گِرسپپا کے آس پاس کی گھنی ہری ہری جنگلی املاک کے کارن میری صحت بہت جلدی ٹھیک ہو گئی۔ سٹوڈیو میں قدم رکھا ہی تھا کہ ‘پربھات’ کے مینیجر پتروں کا ڈھیر لے کر میرے آفس میں آ گئے۔ ان کے چہرے پر خوشیاں ناچ رہی تھیں۔ اس ڈھیر کو میری میز پر رکھتے ہوئے انھوں نے کہا، ”یہ لیجیے ’’آدمی‘‘ اور ‘مانوس’ کے لیے حاصل بدھائیوں کی چٹھیاں!”
اب میں ان سبھی پتروں کو جوش سے دیکھنے لگا۔ ہر ڈائریکٹر کی اپنی اپنی رائے تھی۔ کسی نے ‘آدمی’ جیسی فلم بنا کر ‘دیوداس’ میں موجود مایوسی کا کرارا جواب دینے پر دلی بدھائیاں دی تھیں، تو کسی دوسرے لیکھک نے لکھا تھا: "آپ کے کاروباری بھائی بندوں کی بنائی فلم کی اس طرح کھِلّی اڑانا آپ کے لیے زیب نہیں دیتا!”
کسی کو فلم کا اختتام پسند نہیں آیا تھا۔ ایک مہاشے نے تو ہم سے صاف صاف جاننا چاہا تھا کہ آخر میں آپ ہیرو اور ہیروئین کا بیاہ رچا دیتے، تو آپ کا کیا جاتا؟ لہٰذا ہم لوگوں کو دو دن تک بھوجن بھی راس نہیں آیا! اب کوئی اس پتر لیکھک کو جواب دے بھی تو کیا دے؟
ایک جذباتی ناظر نےلکھا تھا:
اب کبھی بمبئی کے فارس روڈ سے جانے کا سین آ بھی جائے تو، آپ کی ‘آدمی’ دیکھی ہونے کے کارن ہم لوگوں کو چِقوں کے پیچھے کھڑی ویشیاؤں کو دیکھ کر پہلے جیسی نفرت نہیں ہو گی بلکہ یہ محسوس ہو گا کہ ہر چِق کے پیچھے ایک گہرا دردِ دل چھپا ہے!”
اس فلم کے بارے میں ابھی حال کا ایک تجربہ تو بہت ہی انوکھا ہے: میں پہلی بار بیلگاؤں گیا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے فطری ڈھنگ سے، بڑے پیار سے میرا سمان کرنے کا انتظام کیا۔ بیلگاؤں کے پاس پڑوس کے دس بارہ ضلعوں کے محکمہ جاتی کمشنر رام چندرن اس انتظام کے صدر تھے۔ سبھی مقررین کے بھاشن ہو چکنے کے بعد رام چندرن بولنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ سبھا کا انتظام چونکہ میرے اعزاز میں کیا گیا تھا، میں سوچ ہی رہا تھا کہ اب یہ مہاشے بھی میری تعریف کے پُل باندھیں گے۔ اسی لیے ان کی تقریر کی طرف میرا کوئی خاص دھیان نہیں تھا۔ لیکن رام چندرن نے ‘آدمی’ کے بارے میں ایک بہت ہی دل چھو لینے والی یاد دلائی:
"آج آپ مجھے یہاں زندہ اور چلتا پھرتا دیکھ رہے ہیں، اس کا سارا کریڈٹ اس فلم کو جاتا ہے۔ پینتیس برس پہلے کی بات ہے۔ اس سمے میری عمر اٹھارہ برس کی ہو گی۔ کئی خاندانی مصیبتیں میرے سامنے منھ کھولے کھڑی تھیں۔ انھیں سلجھانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ روز بہ روز میں مایوسی کے گہرے گڑھے میں دھنستا جا رہا تھا۔ خودکشی کا وچار بھی من میں اٹھنے لگا تھا۔ لگتا تھا کہ خودکشی کر کے ان سبھی الجھنوں سے ہمیشہ کے لیے آزادی پا جاؤں۔ سوچ وچار کر کہیے یا بغیر سوچے سے، خود کشی کا ارادہ آہستہ آہستہ پکا ہونے لگا۔ لگ بھگ انہی دنوں میرے گاؤں میں وی شانتارام کی ‘آدمی’ فلم ریلیز ہوئی۔ شانتارام جی کی فلمیں مجھے ہمیشہ بہت ہی راس آتی تھیں۔ من کی اس ڈولتی حالت میں ہی میں ‘آدمی’ دیکھنے گیا۔ فلم دیکھ کر باہر آیا تو خود کشی کا وچار رفوچکر ہو چکا تھا۔ جیون جینے کا ایک نیا نظریہ مجھے مل گیا تھا۔ مشکلوں اور مصیبتوں سے جوجھتے جوجھتے جینے کا ہی نام جیون ہے۔ جیون جینے کے لیے ہوتا ہے۔ ‘لائف از فار لِونگ’ کا اصول ہی جیسے وی شانتارام کی اس فلم نے میرے کانوں میں پھونک دیا!
"اس کے بعد مصیبتوں کے پہاڑ سامنے آئے، پھر بھی میں ہارا نہیں، ٹوٹا نہیں۔ بلکہ ان کے ‘آدمی’ کے ہیرو کی طرح جیون کی راہ دھیرج سے طے کرتا ہوا آج میں ڈویژنل کمشنر بن گیا ہوں، اور یہ سب آپ کے سامنے قبول کرنے میں فخر محسوس کر رہا ہوں!”
اُن مہاشے کی آپ بیتی سن کر میں واقعی میں جذباتی ہو گیا۔ اس لمحے تو ضرور ہی لگا کہ میری تخلیق کامیاب ہو گئی ہے۔ لیکن عام طور پر دیکھا جائے، تو ‘آدمی’ پربھات کی دیگر فلموں کے مقابلے میں کم ہی چلی۔ بارہ ہفتے بعد ہی اسے بمبئی کے سینٹرل سینما سے ہٹانا پڑا۔ شاید چندرموہن نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ، ”یہ فلم بیس برس آگے کی ہے!”
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی ختم ہونے کو تھی۔ دیش میں ہر جگہ بولتی فلموں کی مقبولیت کافی بڑھ چکی تھی۔ وہ اب ایک انڈسٹری کا روپ لینے لگی تھی۔ پربھات کی فلموں کے کاروباری معاملات کی دیکھ بھال کا کام میرے ہی ذمے تھا۔ جیسے جیسے یہ کاروبار بڑھتا گیا، اس پر نگرانی رکھنے کے لیے میں نے ‘پربھات سینٹرل ایکسچینج’ نامی ایک نیا ڈیپارٹمنٹ شروع کیا، ایک ٹیلنٹڈ مینیجر کو مقرر کیا۔ پربھات کی فلمیں سارے دیس میں بہت ہی مقبول تھیں۔ لہٰذا سینما گھروں کے مالکوں میں ان فلموں کو اپنے یہاں ریلیز کرنے کی ایک طرح سے ہُڑک سی لگی رہتی تھی۔ ہمارے ڈسٹری بیوٹرز کی رکھی گئی سبھی شرطوں کو وہ بِنا کسی جھجھک کے قبول کرتے اور پربھات کی فلم اپنے سنیما گھر میں ریلیز کرنے کو مل گئی، اسی میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔
اس سینٹرل ایکسچینج ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ہر ماہ میرے پاس پوری تفصیل آتی تھی۔ اس کا باریکی سے مطالعہ کرنے پر میں نے دیکھا کہ ہمارے صوبائی ڈسٹریبیوشن سسٹم میں سدھار کیا جائے تو آمدنی اور بھی بڑھ سکتی ہے۔ اس نظر سے میں نے سوچا کہ سبھی ڈسٹری بیوٹرز کا ایک سمپوزیم بلایا جائے اور انھیں آپس میں کاروبار کے مختلف سسٹمز اور کٹھنائیوں وغیرہ پر کھل کر تبادلہ خیال کرنے کا موقع دیا جائے تو ڈسٹریبیوشن سسٹم میں سدھار بھی ہو گا اور اسے نئی سمت بھی حاصل ہو گی۔ فوراً ہی میں نے ہندوستان کے ہمارے سبھی ڈسٹری بیوٹرز کی ایک کانفرنس پُونا میں مدعو کی اور سبھی کو دعوت نامہ بھجوا دیا۔
اس کانفرنس میں سبھی ڈسٹری بیوٹرز کے سامنے میں نے پربھات کی آئندہ فلموں کے بنانے کا پروگرام اور اس پر آنے والے متوقع خرچ کا خاکہ پیش کیا۔ فلم میکنگ کے لیے یہ ضروری رقم ڈسٹریبیوشن کے ذریعے تکمیل کے لیے اخلاقی امداد ڈسٹری بیوٹر برادران دیں، ایسی مانگ بھی میں نے کی۔ اسے میں نے قانونی امداد نہ کہہ کر اخلاقی امداد کہا۔ اس کا کارن یہ تھا کہ قانونی بندھن آنے پر آدمی گھبرا جاتا ہے اور آسانی سے اسے قبول نہیں کرتا۔ پھر اخلاقی امداد کے کارن اپنی فلم میکنگ کا پروگرام سمے پر پورا کرنا ہمارے لیے بھی ممکن ہو جائے گا۔ نتیجتاً پربھات کی آمدنی تو بڑھے گی ہی، آپ سب لوگوں کو بھی زیادہ کمیشن حاصل ہو گا۔ میری دلیل سبھی نے قبول کی۔ مکمل پروگرام کے جائزہ لینے کے لیے آئندہ سال بھی اسی طرح کی بیٹھک منعقد کرنا متفقہ طور پر طے کیا گیا۔
اس کانفرنس کے فیصلے کے مطابق ہمارے سبھی ڈسٹری بیوٹرز نے آئندہ سال میں اخلاقی امداد کی رقم پوری کر دی۔ لیکن اس کو پورا کے لیے انھوں نے ہر سنیما مالک سے اس کے گاؤں کے چھوٹے بڑے ہونے کے حساب سے، تھوڑی زیادہ ہی امدادی رقم لے کر ہماری فلمیں ریلیز کیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہماری فلموں کی مقبولیت پوری طرح روشن ہونے کے کارن ریلیز کرنے والوں کو اس میں کوئی نقصان نہیں اٹھانا پڑا، لیکن دیگر پروڈیوسرز نے بھی ہماری دیکھادیکھی اسی طرح سے امدادی رقم مانگنا شروع کی۔ اس میں کچھ کو تو اچھی آمدنی ہوئی، لیکن زیادہ تر فلم ریلیز کرنے والوں کو گھاٹا اٹھانا پڑا۔ کئی ریلیز کرنے والوں نے اس بات کی شکایت مجھے پتر لکھ کر کی۔ وہ بیچارے ایک دم مایوس ہو گئے تھے۔
اگلے برس کی ڈسٹری بیوٹرز کانفرنس میں میں نے ایک تجویز رکھی: "میری رائے ہے کہ آپ لوگ ہماری فلم کے لیے ریلیز کرنے والوں سے جو امدادی رقم لیتے ہیں، اسے نہ لیں۔ آپ کو اس سے زیادہ رقم فیصدی میں ملتی ہے۔ ہماری فلم پر اس طرح امدادی رقم لینے کی شرط آپ لوگوں نے واپس لے لی، تو ریلیز کرنے والے دیگر ڈسٹری بیوٹرز سے بھی ہمت کر یہ کہہ سکیں گے کہ ‘پربھات’ جیسی جانی مانی کمپنی بھی ہم سے امدادی رقم نہیں لیتی، لہٰذا آپ کو بھی اسے نہیں مانگنا چاہیے۔ نتیجتاً انھیں ممکنہ گھاٹا نہیں ہو گا۔”
سبھی لوگ ایک دم چپ بیٹھے تھے میری تجویز کا کیا جواب دیں، کسی کو سمجھ میں شاید نہیں آ رہا تھا۔ وہ لوگ آپس میں کھل کر باتیں کر سکیں، اس لیے ہم سبھی حصہ دار کچھ دیر کے لیے بیٹھک سے باہر آ گئے۔ پھر ہم لوگ بیٹھک میں پہنچے تو بابوراؤ پینڈھارکر نے کہا، "آپ کے اس سجھاؤ پر اچھی طرح سے سوچ وچار کر کے ہم لوگ اپنا فیصلہ آپ کو کل بتائیں گے۔” دوسرے دن صبح دس بجے ہم لوگ پھر اکٹھے ہوئے۔ اتر پردیش، پنجاب اور کشمیر کے ڈسٹری بیوٹر دل سکھ پانچولی نے کہا، "آپ کا فیصلہ اگر ایسا ہے کہ ہم لوگ آپ کی فلموں پر ریلیز کرنے والوں سے گارنٹی نہ لیں، تو آپ بھی ہم سے اخلاقی امداد کے روپ میں پیشگی رقم لینا بند کریں۔ اس ذمہ داری سے آپ ہمیں آزاد کرتے ہیں، تو ہم بھی ریلیز کرنے والوں پر امدادی رقم کی شرط نہیں تھوپیں گے۔”
اب چپ رہنے کی باری میری تھی۔ ڈسٹری بیوٹرز نے مجھے ہی الجھن میں ڈالا تھا۔ سب کا دھیان میری طرف تھا۔ دیکھنا چاہتے تھے وہ کہ میں اپنے لفظ واپس لیتا ہوں یا نہیں۔ ریلیز کرنے والوں کی میرے پاس بھیجی گئی شکایت ایک دم صحیح تھی اور مناسب بھی۔ ان پر امدادی رقم جمع کرنے کا دباؤ ہٹا لیا، تو ڈسٹری بیوٹرز کی دی گئی ترپ چال کے مطابق ہمیں اپنی آئندہ فلموں کے لیے ضروری رقم کھڑی کرنے میں دقت آنے والی تھی۔ لیکن ریلیز کرنے والوں کا یہ جو استحصال ہو رہا تھا، اسے تو کسی بھی حالت میں روکنا ضروری ہو گیا تھا۔ کل اگر سارے سنیماگھر بند ہو جائیں، تو ہم لوگ اپنی فلموں کو کہاں ریلیز کر پائیں گے؟ ریلیز کرنے والا ختم ہو گیا، تو پوری فلم انڈسٹری دم توڑ دے گی۔ اپنی معاشی کٹھنائیوں کے لیے کم از کم امدادی رقم لینے کا یہ رواج مقامی شکل میں مقبول کر دیا، تو فلم انڈسٹری کی سرحدیں روز بہ روز سکڑتی جائیں گی۔ میں نے فیصلہ کر لیا: "میں آپ سب کو اخلاقی امدادی رقم کی ذمہ داری سے آزاد کرتا ہوں۔”
اس پر بنگال، بہار، آسام اور اڑیسہ کے ہمارے ڈسٹری بیوٹر کپور چند نے کہا، "یہ تو ٹھیک ہی ہے، لیکن آگے چل کر آپ کو فلم بنانےکے لیے پیسے کم پڑ جائیں، تو اس کے ذمہ دارہم نہیں ہوں گے۔”
"میں نہیں سوچتا کہ ویسی نوبت آئے گی۔ انسان کے بھلے مانس ہونے پر مجھے بھروسہ ہے۔ ساتھ ہی یہ اعتماد بھی ہے کہ امدادی رقم بھرنے سے راحت ملنے پر ریلیز کرنے والے ہماری فلم کے لیے پہلے جیسی ہی، حقیقت میں اس سے تھوڑی زیادہ ہی آمدنی ہو اس لیے اشتہار وغیرہ پر تھوڑا زیادہ خرچ خود کریں گے۔ آپ لوگ نئی فلموں کے کانٹریکٹ کرتے سمے ریلیز کرنے والوں سے درخواست کریں کہ ‘پربھات’ کی فلموں کو ریلیز کرتے سمے ان کی بے فکری کے نتیجے میں آمدنی کم ہو گئی، تو ہم لوگ امدادی رقم لینے کے رواج کو پھر پہلے جیسا چالو کریں گے۔”
اس کے بعد ایک سال بیت گیا۔ ڈسٹری بیوٹرز کی کانفرنس کے شروع میں ہی سبھی ڈسٹری بیوٹرز نے مجھے دل سے سراہا۔ کہنے لگے: "شانتارام بابو، مان گئے ہم آپ کو۔ بیتے برس آپ نے جو باہمت فیصلہ کیا اس کے لیے پھر آپ کو دلی مبارک باد۔ پچھلے سال ہماری اوسط آمدنی میں لگ بھگ بیس فی صد کی بڑھوتری ہوئی۔” میں نے حیرانی جتاتے ہوئے پوچھا، "لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکا؟” ہمارے جنوبی صوبوں کے ڈسٹری بیوٹر جینتی لال ٹھاکُر نے جواب دیا، "کیسے ممکن ہو سکا، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ امدادی رقم کا رواج بند کرنے کے کارن ریلیز کرنے والے بہت ہی خوش ہو گئے۔ یہ رواج پھر چالو کرنے کی بات آپ کے من میں بھی نہ آئے، اس لیے انھوں نے ہر فلم کو اچھی طرح چلانے کی پوری کوشش کی۔ ہولڈ اوور فگر (یعنی فلم کی کم از کم ہفتہ وار آمدنی کا ہندسہ، جس کے نیچے آمدنی چلی جائے تو فلم ہٹا لی جاتی ہے) سے کم آمدنی ہونے لگی پھر بھی انھوں نے دو دو، تین تین ہفتے فلم کو زیادہ چلایا۔ اسی سب کے نتیجے میں آمدنی میں یہ بیس فیصد کی بڑھوتری ہو سکی ہے۔ واقعی میں آپ نہ صرف ڈائریکشن میں، بلکہ بزنس میں بھی ماہر ہیں۔”
"میں؟ اور کاروبار میں بھی ماہر!” اتنا کہہ کر میں چُپ ہو گیا۔ بندھی مٹھی لاکھ کی!
اس کے بعد میرے من میں وچار آیا کہ کیوں نہ ہماری ‘پربھات’ کی اپنی ایک ڈسٹریبیوشن آرگنائزیشن ہو؟ صوبے صوبے میں اس کی شاخیں ہوں۔ وہ ہماری فلموں کے ساتھ ہی دیگر اچھے پروڈیوسرز کی فلمیں بھی ڈسٹری بیوشن کے لیے قبول کرے۔ اس طرح ایک مکمل بھارتی ڈسٹری بیوشن آرگنائزیشن بنانے کا اہم خیال میرے من میں شکل لینے لگا۔ لیکن اپنے کام کے گورکھ دھندھے سے سمے نکال کر یہ نیا کام بھی دیکھوں، اس کے لیے میرے پاس سمے نہیں تھا۔ میں کسی ماہر ڈسٹری بیوٹر کے بارے میں سوچنے لگا۔ بمبئی کے ہمارے ڈسٹری بیوٹر بابوراؤ پینڈھارکر کا نام سامنے آیا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کیا بابوراؤ ان کی اپنی ‘فیمس پکچرز’ آرگنائزیشن بند کر ‘اکھل بھارتی ڈسٹرییوسن آرگنائزیشن’ کا کاروبار سنبھالنے کو راضی ہو جائیں گے؟ اس میں انھیں کیا فائدہ ہو گا؟ اس پر وچار آیا کہ کیوں نہ انھیں بِنا کوئی رقم لیے ‘پربھات’ کا پانچواں حصہ دار بنا لیا جائے اور ان کی ‘فیمس پکچرز’ کو پربھات کی نیشنل ڈسٹری بیوشن آرگنائزیشن کے روپ میں بدل دیا جائے۔ شاید بابوراؤ اس کے لیے ضرور ہی تیار ہو جائیں گے۔ ‘پربھات’ کی بالکل پہلی فلم سے وہ ہمارے ساتھ جو تھے! لیکن بابوراؤ پینڈھارکر کے بارے میں داملے، فتےلال کی رائے خاص اچھی نہیں تھی۔ ان کی رائے تھی کہ بابوراؤ مہا حکمتی آدمی ہے، اپنا فائدہ ہر حالت میں ممکن کر کے ہی رہے گا! لہٰذا انھوں نے میرے سجھاؤ کی مخالفت کی۔ لیکن ان دونوں کو میں نے یقین دلایا کہ میں خود بابوراؤ پینڈھارکر کی ہرحرکت پر کڑی نظر رکھوں گا۔ ‘پربھات’ کو گڑھے میں ڈالنے والا کوئی کام وہ نہیں کریں گے، اس کی احتیاط برتوں گا۔ تب جا کر کہیں میرے حصے داروں نے میرا سجھاؤ مان لیا۔ بابوراؤ پینڈھارکر کیشوراؤ دھایبر کی جگہ پر پربھات کے پانچویں حصےدار بن کر آ گئے۔
اس کے کچھ دن بعد کمپنی میں ایک الگ ہی بات چل پڑی۔ کہا جانے لگا کہ ‘گوپال کرشن’، ‘تُکارام’ فلم کے مقابلے میں ‘آدمی’ اور ‘مانوس’ آمدنی کے خیال سے کم پُراثر ثابت ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے علاوہ کمپنی کے دیگر مالکوں نے ایک وچار رکھنا شروع کر دیا کہ "اس طرح کم آمدنی دینے والی فلمیں ‘پربھات’ جیسی کمپنی آخر بنائے ہی کس لیے؟ فلم میکنگ بھی آخر اپنے آپ میں ایک دھندا ہے۔ لہٰذا دھندے کا تقاضا تو یہی ہونا چاہیے کہ ایسی ہی فلمیں بنائی جائیں جن سے زیادہ آمدنی ہو”۔ اپنی بنائی ‘گوپال کرشن’ اور’تکارام’ کی آمدنی کے ہندسوں کا مقابلہ’ آدمی’ اور ‘دنیا نہ مانے’ کی آمدنی سے کرتے رہنا، داملے، فتے لال جی کا ایک نٹھلا شوق بن گیا۔ ان کے پاس نٹھلےپن کے لیے سمے بھی کافی رہتا تھا! لیکن ان دونوں نے اس بات کو آرام سے بھُلا دیا تھا کہ ‘گوپال کرشن’ اور ‘تکارام’ دونوں فلموں کے بننے میں میرا کردار کتنا رہا تھا!
میں نے جان بوجھ کر ان کے اس وچار کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا اور داملے جی، فتے لال جی کے لیے ایک نئی فلم کی تیاریاں شروع کر دیں۔ سکرین پلے کے لیے ایک سیدھا سادہ، سب لوگوں کو راس آنے والا موضوع چُنا: ‘سنت گیانیشور’! ان یتیم بھائیوں کی کہانی سب کے دلوں کو چُھو جانے والی، گہری بیٹھ جانے والی کہانی تھی۔ میں نے ‘تکارام’ اور ‘گوپال کرشن’ کے سکرین پلے تیار کرنے والے لیکھک شِورام واشیکر کو اس فلم کی کہانی لکھنے کو کہہ دیا۔ میں نے خود بھی گیانیشور کی آپ بیتی پڑھ ڈالی۔ گیانیشوری کا بھی تھوڑا بہت مطالعہ کیا۔ سکرین پلے کے موضوع کو لے کر وشیکرن جی میرے ساتھ چرچا کرنے لگے۔ بیچ بیچ میں داملے جی فتےلال جی بھی اس میں حصہ لیتے اور اپنی رائے ظاہر کرتے تھے۔ سکرین پلے تیار ہو گیا۔ فلم کی شوٹنگ کا انتظام بھی ہو گیا۔ ہم سب لوگ نئے جوش خروش سے کام میں جٹ گئے۔ کہنا نہ ہوگا کہ اس فلم کی ڈائریکشن کی ذمہ داری داملے جی اور فتے لال جی پر تھی۔
‘سنت گیانیشور’ کے لیے سنگیت دینے کا کام کیشوراؤ بھولے کو سونپا تھا۔ ‘پربھات’ میں شروع میں بطور ایکٹر کام کر چکے وسنت دیسائی کو میوزک ڈیپارٹمنٹ میں ان کے زیر کام کرنے کے لیے کہا۔ اسے ہدایات دی تھیں کہ جو بھی کام کرنا پڑے، کرے اور خالی سمے میں مختلف آلات کو بجانا بھی سیکھ لے۔ اسے جب چاہے آلات بجانے کی ریہرسل کرنے کی چُھوٹ دے دی تھی۔ ‘سنت گیانیشور’ میں ایک گاڑی بان کا گانا اس نے گایا اور گاڑی بان کا کام بھی اسی نے کیا۔ اس فلم کے بیک گراونڈ میوزک کا کام جاری تھا، تب وسنت دیسائی خود آگے آ کر بھولے کی مدد کرتا تھا، لیکن اس بھلے آدمی نے تعریف میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہا، نہ ہی اس کا حوصلہ بڑھایا اور نہ ہی کبھی ایسا کام کیا جس سے وسنت دیسائی کی کوشش ہمارے بھی دھیان میں لائی جاتی۔ نتیجتاً ویسنت دیسائی کئی بار ناامید ہو جاتا تھا۔ یہ بات میری نظر سے بچ نہ سکی۔ میں نے اسے سمجھایا بجھایا، "دیکھو وسنت، تم تو اسی میں اطمینان مانو کہ تمھیں آخر کام کرنے کا موقع تو مل رہا ہے۔ خوب ڈٹ کر کام کرو، محنت کرو، مطالعہ کرو، میرا پورا دھیان تمھاری طرف ہے۔” دیسائی ویسے ہی بہت محنتی تھا۔ اسے میری باتوں سے جوش ملا اور وہ اور بھی زیادہ جوش سے من لگا کر کام کرنے لگا۔
اس بیچ ‘سنت گیانیشور’ کی شوٹنگ کے سمے داملے جی اور فتے لال جی میں ڈائریکشن کے کئی پہلوؤں پر ٹکراؤ ہونے لگے۔ کئی بار فتے لال جی کی ہدایات اعلیٰ فنکارانہ ہوتی تھیں، لیکن داملے جی اور ان کا معاون راجہ نے نے ان کے اچھے اچھے سجھاؤوں کو بھی نامنظور کر دیتے۔ پھر فتے لال جی اپنا خیال مجھے آ کر بتاتے اور پھر میں انھیں جا کر داملے جی کے گلے اتارتا تھا۔
‘تکارام’ اور ‘گوپال کرشن’ کی ڈائریکشن کرنے کے بعد بھی ان دونوں نے فلم میں کس شاٹ کی لمبائی کتنی ہو اور اس کے لیے کتنی فلم خرچ کی جانی چاہیے، اس کا کوئی مطالعہ نہیں کیا تھا۔ ایڈیٹنگ شروع کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جو سین فلم میں مشکل سے پچاس ہی فیٹ رہنے والا ہے، اس کی شوٹنگ کے لیے ہزار دو ہزار فیٹ فلم ضائع کر دی گئی ہے۔ ایک ایک سین کی اتنی لمبی شوٹنگ حیرانی کی بات تھی۔ اس معاملے میں زیادہ احتیاط برتی جائے، اس احساس سے میں نے ان دونوں کو ایڈیٹنگ روم میں بلوا لیا اور براہ راست شوٹنگ کے نمونے دکھا کر بات کو سمجھاتے ہوئے کہا، "دیکھیے، ان ہزاروں فیٹ فلموں میں مناسب شاٹ کھوج نکالتے نکالتے میری تو ناک میں دم آ گیا! ‘تکارام’، ‘گوپال کرشن’ کی ڈائریکشن کر چکنے کے بعد بھی شوٹنگ کا ایک موٹا اندازہ بھی آپ نہیں لگا پائے، اس کی واقعی مجھے بہت ہی حیرانی ہوتی ہے!”
لیکن میں نے دیکھا کہ ان دونوں کو میری یہ بات پسند نہیں آئی۔ ایڈیٹنگ کرتے سمے فلم کے سکرین پلے میں رہ گئی ایک خرابی میرے دھیان میں آ گئی: گیانیشور جب بچہ تھا، ایک ننھی سی بچی اس سے محبت کرتی ہے۔ گیانیشور برہمچاری! لہٰذا اس بچی کا وہ کردار ایک دم اَدھر میں لٹکتا سا معلوم ہوتا تھا۔ اس اچھی بچی کے ناسمجھ پیار کو کہیں نہ کہیں یقین دلانا نہایت ضروری تھا۔ میں نے ایڈیٹنگ روک دی۔
سوچتے سوچتے ایک بہت ہی کومل اور اعلیٰ خیال من میں آیا۔ میں داملے جی، فتے لال جی کو ڈھونڈنے شوٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں گیا۔ وہاں وہ دونوں پنت دھرم ادھکاری ساتھ نہ جانے کیا باتیں کر رہے تھے، مجھے آیا دیکھ کر چپ ہو گئے۔ میں نے انھیں ایڈیٹنگ کرتے سمے پیدا ہوا خدشہ بتایا اور کیا کرنا چاہیئے، بڑی اپنائیت سے میں بتانے لگا۔
ان دونوں نے میری بات سکون سے سن لی۔ اس کے بعد میرے اس نئے خیال پر داملے جی نے گھڑا بھر پانی ڈال دیا۔ انھوں نے کہا، "دیکھیے، سکرین پلے کے نقطۂ نظر سے مجھے نہیں لگتا کہ آپ جس بےکار کے سین کا ذکر کیے جا رہے ہیں، اس کی کوئی ضرورت ہے!”
بات کا بتنگڑ نہ ہو، اس لیے میں نے بھی ان کی ‘ہاں’ میں ‘ہاں’ ملا دی۔
اس دن ایڈیٹنگ وہیں ادھوری چھوڑ کر میں پہلی منزل پر اپنے آفس کے باہر چھجے پر کہنیاں ٹیکے کھڑا آج کے واقعے پر غور کر رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی۔ تبھی نیچے سے کسی کے بولنے کی آواز سنائی دی، "آج شانتارام بابو کو کیسی کھری کھری سنا دی!”
میں نے جھک کر دیکھا۔ داملے جی، فتے لال جی گپیں لڑاتے لڑاتے کمپنی کے احاطے میں بنے جلترن تالاب کی طرف چہل قدمی کرنےکے لیے جا رہے تھے۔ دونوں اپنی ہی باتوں میں ڈوبے ہونے کے کارن اوپر کی طرف ان کا قطعی دھیان نہیں تھا۔ داملےجی کہہ رہے تھے، "کیا ہی لاجواب کر دیا میں نے انھیں!” فتے لال جی بولے "ٹھیک ہی تو ہے! ورنہ اپنے ضدی سوبھاؤ کے کارن وہ اس سین کو اپنی خواہش کے مطابق پھر فلمانے پر اُتر ہی آتے!”
"اور بعد میں اسے بھی قینچی لگانی ہی پڑتی۔ تب کیا فلم ضائع نہ ہوتی؟ شانتارام بابو کا سوچنے کا ڈھنگ ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ جو کریں گے یا کہیں گے وہ ایک دم درست اور صحیح اور باقی لوگ ہمیشہ غلط! عقل بٹتے سمے وہ اکیلے ہی جیسے بھگوان کے سامنے حاضر تھے!”
باتیں کرتے کرتے وہ دونوں آگے نکل گئے لیکن مجھے ان کی باتیں سن کر ایسا لگا جیسے کسی نے ابلتا ہوا ٹنکچر میرے کانوں میں ڈال دیا ہے۔ میں نے جو سین انھیں سمجھایا تھا اس کی کلپنا کا صحیح صحیح اندازہ دونوں نہیں کر پائے تھے۔ شاید ان کی ویسی اوقات بھی نہیں تھی۔ لیکن ان کے من میں میرے لیے جو زہریلے وچار تھے، انھیں سن کر میرا ماتھا بےحد ٹھنکا۔ سُن سا میں وہیں پتہ نہیں کب تک کھڑا رہا۔
وِمل نے مجھے ہلا کر اس غنودگی سے جگایا۔ چاروں طرف گھنا اندھیرا چھا چکا تھا۔ وِمل میرے پاس کھڑی تھی۔ آفس میں بتی جل رہی تھی۔ وِمل نے کہا، "پتہ ہے، آپ سوچ میں ڈوبے رہنے پر کتنے بھلے لگتے ہیں؟ لیکن دو نوالے بھوجن کرنے کے بعد سوچنے بیٹھیں گے نا، تو اور بھی اچھے دِکھیں گے!” ومل اس طرح مجھے کبھی چھیڑا نہیں کرتی تھی۔ لیکن اس لمحے تو اس کی ٹھٹھولی سن کر میری طبیعت کافی ہلکی ہو گئی۔ من کا غبار اتر گیا۔ ہم دونوں گھر کی طرف چل پڑے۔
دوسرے دن سویرے میں کمپنی میں ایک نیا فیصلہ کر کے ہی آیا۔ میرا سُجھایا گیا وہ سین فلم کی نظر سے فضول نہیں بلکہ نہایت ضروری ہے، یہ بات میں انھیں بتا دینا چاہتا تھا۔ میں ان دونوں کے کمرے میں گیا۔ وہ سین فلما کر فلم میں شامل کرنے کی درخواست کرنے لگا۔ تھوڑی سی ضد بھی کی۔ آخرکار مجبور ہو کر ہی وہ راضی ہو گئے۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ، "آپ جس سین کی بات کر رہے ہیں اسے کیسے فلمایا جائے، ہماری تو سمجھ میں قطعی نہیں آیا ہے۔ لہٰذا اس کی شوٹنگ بھی آپ ہی کریں۔”
ایکٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں حال ہی کام پر آئی مُتی گپتے کو میں نے فوراً ہی اس نوجوان لڑکی کا کام کرنے کے لیے تیار ہو آنے کے لیے کہا۔ ہمیشہ کے برعکس اس بار تو اس سین کا سنیریو بھی میں تیار کر کے نہیں لایا تھا۔ بس من میں جو سوچ اور خیالات آئے تھے انھیں کے مطابق میں دھڑلے کے ساتھ لگاتار شاٹس لیتا گیا اور وہ سین ایک ہی دن میں فلما کر پورا کر لیا۔
‘سنت گیانیشور’ تیار ہو گئی۔ بمبئی کے سینٹرل سنیما میں اسے ریلیزکیا گیا۔ فلم میں اچھا خاصا رنگ بھرتا جا رہا تھا۔ میں نے ضد کر کے فلم میں جو سین شامل کیا تھا، وہ پردے پر دکھائی دینے لگا۔ داملے جی، فتے لال جی میں کچھ کھسرپھسر شروع ہو گئی۔ لیکن میرا دھیان ان کی باتوں پر قطعی نہیں تھا۔ ناظرین کے اس سین کے بارے کیا تاثرات ہوتے ہیں، یہ جاننے کے لیے میں بےحد بےچین ہو اٹھا تھا۔
بچے گیانیشور سے دل ہی دل میں محبت کرنے والی وہ بچی اب جوان ہو گئی ہے۔ ندی کے گھاٹ پر ایک مندر کی اوٹ سے ندی میں نہا رہے پھرتیلے نوجوان گیانیشور کو وہ بڑی جذباتی عقیدت سے دیکھ رہی ہے۔۔۔ جوانی کی سرزمین میں ابھی ابھی قدم رکھ چکی وہ خوبصورت لڑکی کچھ زیادہ جھک کر گیانیشور کو نہارنے لگی ہے۔ اس کے من کی بےصبری اس کی نظر سے صاف ظاہر ہو رہی ہے۔ گیانیشور کا غسل ہو گیا ہے۔ وہ بھیگی کفنی سے ہی گھاٹ کی سیڑھیاں چڑھ جاتا ہے، مندر کی طرف چلا جاتا ہے۔ گھاٹ کی سیڑھیوں پر اس کے بھیگے نقشِ پا ابھر آتے ہیں۔ وہ لڑکی مندر کی اوٹ سے باہر آتی ہے۔ جلدی جلدی سامنے آ کر ان بھیگے نقشِ پا پر پھول چڑھاتی ہے اور بھکتی کے جذبے سے انھیں پرنام کرتی ہے۔
ناظرین نے اس پر تالیوں کی گڑگڑاہٹ کی۔ پاس ہی بیٹھے داملے جی، فتے لال جی کی طرف میں نے فاتحانہ انداز سے دیکھا۔ بےکار ہی لگا کہ شاید وہ بھی داد دیں گے۔ لیکن انھوں نے ویسا کچھ بھی نہیں کیا۔ لاتعلق انداز سے وہ فلم دیکھتے رہے!
پہلا شو ختم ہوا۔ کافی ناظرین اور ناقدین نے داملے جی فتے، لال جی کو دلی مبارکباد دی۔ دو ایک نقاد اس بھیڑ میں بھی مجھے کھوج کر ایک طرف لے گئے اور صاف صاف پوچھ ہی بیٹھے، "اس نوجوان لڑکی کا گیانیشور کے لیے بھکتی کے احساس سے بھری محبت اتنے علامتی انداز کے ساتھ فلمانے کرنے کا تخیل آپ کا ہی تو ہے نا؟ اس سین کو اتنی نزاکت کے ساتھ پیش کرنے کی مہارت آپ کے سوائے اور کون دکھا سکتا ہے!” من ہی من میں نے ان ناقدین کی تیز نظر کی داد دی۔ ان کی چالاکی کا لوہا مان لیا۔ لیکن اوپر سے ویسا کچھ بھی نہ جتاتے ہوئے فوراً کہا، "یہ تخیل شِورام واشیکر جی کا ہی ہے اور اس سین کو داملے، فتے لال جی نے فلمایا ہے۔” ان دونوں ناقدین نے سطحی طور پر میری بات مان لی اور ایک اچھی خوبیوں سے بھرپور فلم کے لیے مجھے بھی مبارکباد دے کر وہ چلے گئے۔
یہ مکالمہ چل رہا تھا تب پتہ نہیں کب واشیکر جی میرے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے، مجھے تو پتہ ہی نہ چلا۔ لیکن انھوں نے ہماری باتیں سن لی تھیں۔ جذباتی ہو کر میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں کس کر تھام کر وہ خاموش کھڑے رہے۔ ان کی آنکھوں میں جذباتیت چھلکنے لگی تھی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا، "واشیکر جی، کیا بات ہے؟” رندھی آواز میں انہوں نے کہا، "فلم میں بھیگے نقش پا پر پھول چڑھانے والی اس لڑکی کا ایک خاموش سین— ویسا ہی اِسے بھی ایک اور خاموش سین جانیے!”
‘سنت گیانیشور’ کی ریلیز کے بعد پُونا واپس آنے پر ایک لیکھک وشرام بیڑیکر مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے، ولایت جا کر وہ فلمنگ کی تربیت لے کر حال ہی وطن لوٹے تھے۔ ان کا لکھا ایک ناول ‘رنانگن’ میں اس سے پہلے ہی پڑھ چکا تھا اور تبھی سے ان کے ٹیلنٹ کا قائل ہو گیا تھا۔
اُن دنوں مہاتما گاندھی کی قیادت میں پورے بھارت میں آزادی کی جدوجہد کافی شدت کے ساتھ چل رہی تھی۔ انگریزی حکومت نے ‘پھوٹ ڈالو اور راج کرو’ والی کامیاب سیاست کے مطابق ہندوؤں اور مسلمانوں میں مذہبی منافرت ابھار کر بھارت پر اپنی طاقت کا شکنجہ کس لیا تھا۔ سبھی اخباروں میں ہندو مسلمانوں کے دنگوں کی خبریں سرخیوں کے ساتھ چھپتی تھیں۔ ان خبروں کو پڑھ کر میں بہت بےچین ہو اٹھتا تھا۔ سارے ملک میں آتش فشاں کی طرح سلگ رہے اس سوال پر آئندہ فلم بنانے کی ہمت کرنا میں نے طے کیا۔ وشرام بیڑیکر جیسا نئی سوچ کا باصلاحیت، ہنرمند لیکھک میرے خیالات کو لفظ دینے کے لیے تیار تھا۔
اس فلم کے لیے مجھے ایک نئی ہیروئین کی تلاش تھی۔ شانتا آپٹے ‘پربھات’ چھوڑ کر کبھی کی جا چکی تھی۔ ‘آدمی’ میں ہیروئن کا کام کر چکی شانتا ہُبلیکر اب کچھ اَدھیڑ سی ہو چلی تھی۔ ‘پربھات’ چھوڑ کر جانے کی اس کی منشا میرے کان پر آئی تھی۔ چونکہ آئندہ فلم کے لیے اس کا خاص استعمال ہونے والا نہیں تھا، ہم نے اسے کانٹریکٹ سے آزاد کر دیا۔
ایک دن سویرے ہی ممبئی کی نشنل گراموفون کمپنی کے ساؤنڈ ریکارڈنگ ہیڈ بابوراؤ مالپیکر ایک اچھی خوبصورت نوجوان لڑکی کو میرے آفس میں لے آئے اور اسے سیدھے میرے سامنے کھڑا کیا۔ میں نے اسے کیمرے کی نظر سے غور سے دیکھا۔ اس کا ناک نقشہ، ہونٹ، دیکھنے کی ادا، ٹھوڑی، بہت سڈول تو نہیں تھے، لیکن اس کی موٹی موٹی، کجراری، کچھ کچھ کٹاری سی آنکھیں بہت ہی متجسس، چمک دار اور نہایت پر کشش تھیں۔ نین بڑے چنچل تھے۔ میں نے اس سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے کچھ جھجک کر بتایا، "ج۔۔۔ جےشری کامُلکر”۔ اس کی آواز مدھر تھی۔ سہج بھاؤ سے میں نے پوچھا کہ گانا وانا جانتی ہو؟ جواب بابوراؤ مالپیکر نے دیا، "اسے کلاسیکی موسیقی کی خاص جانکاری نہیں ہے، لیکن لائٹ میوزک، سینٹیمنٹل اور فلمی گیت اچھی طرح گا لیتی ہے۔ اس نے اس سے پہلے جن فلموں میں کام کیا، ان میں اپنے گیت خود گائے ہیں۔” میں نے ماسٹر کرشن راؤ کو بلا کر اس کا گانا سننے کے لیے کہا۔ سن کر انھوں نے اس کی آواز کے بارے میں اپنی پسند ظاہر کی۔ میں نے مینیجر کو بلوا کر اسے تین سال کے لیے کانٹریکٹ دینے کو کہا۔
دوسرے دن ‘پربھات’ کے منیجر جےشری کے کانٹریکٹ کا کچا چٹھا لےکر میرے پاس آئے۔ میں اسے پڑھ رہا تھا تو بولے، "انا، یہ جےشری کہتے ہیں کہ منحوس ہے۔”
"منحوس؟ کیا مطلب؟”
"اس نے جس کسی فلم کمپنی میں کام کیا ہے، وہ بند ہو گئی۔ اس کا دِوالا پٹ گیا۔ ساؤنڈ سٹوڈیو، کیشوراؤ دھایبر کی کمپنی، سرسوتی سنےٹون، کتنے نام گناؤں؟ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ سبھی فلم کمپنیاں بند ہو چکی ہیں!”
”دیکھیے، منحوس، جیوتش، ان سب باتوں کو میں قطعی نہیں مانتا۔ فلم خراب بناؤ تو کمپنی ضرور بند ہو گی۔ اس میں جےشری کا کیا قصور ہے؟ ‘پربھات’ ایسی منحوس وغیرہ بری باتوں کو پچا کر آگے ہی بڑھتی جائے گی! جائیے، آج ہی اس کانٹریکٹ کو پکا کیجیے اور اس پر جےشری کے دستخط کروا لیجیے!”
کمپنی کے رولز کے مطابق جےشری ہر دن سویرے نو بجے کام پر آ جاتی تھی۔ اپنی مدھر اور اچھی اچھی باتوں کے کارن وہ بہت ہی تھوڑے سمے میں سب کے ساتھ ہِل مل گئی۔ چھوٹے بڑے سب کو اس نے اپنا بنا لیا۔
بیڑیکرجی نے کہانی کا موٹا خاکہ بنا لیا۔ نئی فلم کے لیے میرا سُجھایا گیا موضوع ویسے کسی بھی لیکھک کے لیے ذرا مشکل ہی تھا۔ پھر انگریزوں کے سنسر کی قینچی کا بھی ڈر تھا، فلم میں دو بنیادی کردار، دونوں بوڑھے اور پڑوسی متر۔ ایک ہندو دوسرا مسلمان۔ انگریز حاکموں کے خیالات کی نمائندگی کرنے والا ایک ولن بھی بنایا۔ یہ سرمایہ دار ہوتا ہے، اپنے فائدے کے لیے وہ ندی پر ایک باندھ بنوانے کا پروگرام بناتا ہے۔ باندھ کے کارن کافی غریب کسانوں کی زمین پانی میں ڈوبنے والی ہوتی ہے۔ اس سرمایہ دار کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ ان سب کی زمینیں خرید لینے کی ٹھان لیتا ہے۔ پہلے تو کوئی زمین بیچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ پھر انگریزوں کی Distinction policy کا سہارا لے کر وہ سرمایہ دار گاؤں والوں میں پھوٹ ڈالتا ہے، اختلافات پیدا کرتا ہے اور اپنا الو سیدھا کر لیتا ہے۔ اسی چکر میں ان دو بوڑھے متروں میں بھی اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں اور دونوں کے خاندان دھیرے دھیرے تنہا سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایک دوسرے سے دور ہونے لگتے ہیں۔
— موٹے طور پر کہانی کا فارمولا یہی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سماجیت اور سیاست کا توازن برابر سنبھالنا تار پر کسرت کرنے کے جیسا تھا، لیکن ویسا کرنا ضروری بھی تھا۔ سنسر کی تیز نظر سے فلم کو پاس جو کرانا تھا!
دو بوڑھوں کے کرداروں پر مبنی یہ کہانی لوگوں کو بےجان اور روکھی معلوم ہوتی، لہٰذا لوگوں کی دلچسپی کے لیے ایک محبت کرنے والا نوجوان جوڑا بھی سکرین پلے میں شامل کیا۔ دو بنیادی بوڑھوں میں سے ایک ہندو بوڑھے کا نوجوان لڑکے اور اس سرمایہ دار کی لڑکی کے کچھ لَو سین کا فلمانا اس فلم میں جان بوجھ کر شامل کیا۔ حقیقت میں یہ لَو سین اس صاف ستھری کہانی میں تھگلی لگانے کے برابر ہی تھے۔ میں نے اپنے آدرشی اور فنکارانہ من کو سمجھایا اور فلم میں ان کرداروں اور منظروں کا وجود مجبوراً قبول کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے صرف یہی احساس تھا کہ ہماری آدرشی فلم زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں۔ لیکن جب جب میں اس فلم کو دیکھتا، ہر بار جی کرتا کہ ان سارے لَو سینز کو کاٹ کر الگ کر دوں۔ نئی فلم کا نام ہندی میں ‘پڑوسی’ اور مراٹھی میں ‘شیجاری’ رکھا۔
میں نہیں چاہتا تھا کہ اس فلم کے کارن ہندو یا مسلمان کسی کے من کو ٹھیس لگے اور ان میں بےکار ہی پرائےپن کا احساس پیدا ہو۔ لہٰذا میں نے کافی سوچ وچار کے بعد ایک فیصلہ کیا ‘پڑوسی’ میں بوڑھے مسلمان متر کا کردار گجانن جاگیردار نامی ہندو اداکار اور ہندو متر کا کردار مظہر خان نامی مسلمان اداکار کرے۔ مراٹھی ورژن میں بوڑھے ہندو متر کی اداکاری کیشوراؤ داتے کرے۔ مکمل ریہرسلز شروع ہو گئیں۔ گجانن جاگیردار اور مظہر خان جیسے ماہر اداکار بھی میری بتائی اداکاری کی باریکیوں کو خوب من لگا کر دیکھتے اور پورا مطامعہ کر ان کو ٹھیک ٹھیک اپنی اداکاری میں اتارتے۔
وہ گرمیوں کے دن تھے۔ کمپنی کی ایک طرف ہم لوگوں نے جنگل کے سین کو فلمانے کے لیے کچھ پیڑ پودے منصوبے سے لگائے تھے۔ اس جھنکاڑ کے پار تیراکی کے لیے ایک تالاب بھی بنایا تھا۔ میں کئی بار گھر کے لوگوں کے ساتھ شام کو وہاں تیرنے جایا کرتا تھا۔ ایک اتوار کو جےشری کو پتہ چل گیا کہ میں تیرنے جانے والا ہوں۔ اس نے بھی تیرنے کے لیے آنے کی اجازت چاہی۔ دوسرے دن ہم سب لوگ تالاب میں کافی ڈوبتے ابھرتے رہے تھے۔ کمار اور سروج بھی تھوڑا تھوڑا تیرنا سیکھ چکے تھے۔ وِمل تو بس صرف چند ہاتھ پاؤں پانی میں آزما لیتی تھی۔ میں نے اس کے پیٹ کے نیچے سہارا دے کر اسے کچھ تیرنا سکھایا۔ مدھو کو پیٹھ پر بٹھا کر تالاب کا ایک چکر میں نے پورا کیا۔ جےشری اچھا تیر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وِمل اور بچوں کو کم گہرے پانی میں ہی ڈوبنے ابھرنے کی ہدایت دے کر میں تیزی کے ساتھ پانی کاٹتا ہوا جلترن کا مزہ لینے لگا۔ تالاب کے دو تین چکر لگا لیے پھر میں پانی کی سطح کے نیچے غوطے لگانے لگا۔ میرا ہاتھ کسی کی پنڈلی سے لگا! پانی کی سطح پر آ کر دیکھا وہ جےشری تھی! میرا دم بھر گیا تھا! میں وہیں پاس کا چھجا پکڑ کر سانس لینے کے لیے رکا۔ اسی سمے میری پیٹھ پر کسی کے ہاتھ کا احساس لگا! میں نے مڑ کر دیکھا، جےشری میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی!
میں نے پھرتی سے پانی کے اندر غوطہ لگایا اور سطح کے نیچے سے ہی تیرتا ہوا اس سے کافی دور نکل گیا۔ اس کے بعد کافی دیر تک میں اتنا تیرا کہ تھکنے تک تیرتا ہی رہا۔ تبھی وِمل کی آواز سنائی دی، "اجی، اب بس بھی کریے۔ کب تک ڈوبتے ابھرتے رہیں گے؟”
تھوڑی دیر بعد ہم سبھی گھر لوٹنے کے لیے نکلے۔ جےشری بھی ہمارے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ کمپنی کے پھاٹک کے پاس پہنچنے پر اس نے اپنا جلوہ مجھ پر گرا کر پوچھا، "اب میں جاؤں؟”
میں نے کچھ روکھے پن سے کہہ دیا، "جاؤ۔”
ہماری فلم کے مدراس میں ڈسٹری بیوٹر نے مدراس میں ‘پربھات’ نامی سنیماگھر بنوایا۔ اس کا افتتاح میرے ہاتھوں ہونا تھا۔ چار پانچ دن بعد میں اور وِمل اس تقریب کے لیے جانے کے لیے مدراس میل میں بیٹھے۔ اس یاترا کی خبر دینے کے لیے دو تین اخباروں کے انٹرویو لینے والے بھی ہمارے ساتھ تھے۔ حقیقت میں مَیں تھا لوگوں کی تفریح کرنے والا فلم ڈائریکٹر، کوئی سیاست دان تو نہیں تھا۔ پرچار، پبلسٹی، انٹرویوئرز کا اس طرح ساتھ ہونا، یہ باتیں مجھے ایک دم پاکھنڈ سی لگتی تھیں۔
پُونا سے میل چل پڑی۔ رات بیت گئی۔ جنوبی بھارت کی طرف میل تیزرفتار سے دوڑی جا رہی تھی۔ بیچ میں کسی سٹیشن پر گاڑی رکی۔ مدراس میل اس سٹیشن پر رکتی نہیں تھی۔ عوام کے خاص اصرار پر گاڑی وہاں روکی گئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی بھیڑ میرے ڈبے میں پھول مالائیں لے کر گھسی۔ انھوں نے ہار مجھے پہنا دیے۔ پھولوں کے گلدستے ہاتھوں میں تھما دیے۔ پل بھر تو میں بھونچکا رہ گیا۔ ماجرا آخر ہے کیا، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ لگا کہ ہو نہ ہو، ان سب کو شاید کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے۔ وہ مجھے کوئی لیڈر سمجھ بیٹھے ہیں۔ لیکن ان کی جنوبی بھاشا میں بھی میں اپنا نام اور اپنی فلموں کا ذکر صاف سن رہا تھا، سمجھ بھی پا رہا تھا۔
میرے ساتھ آئے انٹرویوئرز میں ایک تمل بھاشی تھا۔ میں نے اس سے جاننا چاہا کہ آخر یہ لوگ اس طرح میری اتنی آؤبھگت کس لیے کر رہے ہیں۔ اس نے کہا، "یہ لوگ آپ کے قائل ہیں، کہہ رہے ہیں کہ وی شانتارام صرف رنگین فلم ہی نہیں بناتے، سماجی حالات کے لیے بیدار رہ کر فلم بنانے والا آج یہی واحد ڈائریکٹر ہے، اور اسی لیے وہ ہمارے لیے پوجنے لائق ہے!”
"لیکن ان سب کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ میں اسی گاڑی سے جا رہا ہوں؟” میرے اس بچگانے سوال پر وہ انٹرویو لینے والا قہقہے لگا کر کہنے لگا، "لو، یہ تو آپ نے کمال کر دیا! اجی، آپ کے اس سفر کی خبر اخباروں میں جو چھپ چکی ہے، اسی لیے تو آپ کا یہ پُرجوش استقبال ہو رہا ہے۔” اس کے بعد مدراس پہنچنے تک ہر سٹیشن پر اسی طرح کی استقبالیہ تقریب کم وبیش ہوتی رہی۔
آخر گاڑی مدراس پہنچی۔ سٹیشن پر بھاری بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ جیسے ہی میں اپنے ڈبے کے دروازے پر آیا، لوگوں نے جوش سے ہاتھ ہلا کر میری جے جےکار کی۔ سٹیشن تو دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ جدھر دیکھو، آدمی ہی آدمی نظر آ رہے تھے۔ جیسے اتھاہ انسانی ساگر ہی وہاں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لگ بھگ ایک گھنٹے تک میرے گلے میں پھولوں کے ہار پڑتے رہے۔ انھیں نکال نکال کر میں پیچھے کھڑی وِمل کو دیتا گیا۔ وِمل ان مالاؤں کو ہم دونوں کے بیچ رکھتی گئی۔ بیچ ہی میں میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، وِمل کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ تبھی اسی کی آواز سنائی دی، "اجی۔۔۔۔” شاید وہ پھول مالاؤں کے ڈھیر سے ڈھک گئی تھی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے اس ڈھیر کے آگے لانگھ کر آنے میں مدد کی۔ سٹیشن پر اتنے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے کہ بھیڑ میں سے راہ نکالنا ٹیڑھی کھیر بن گیا تھا۔ آخر ہمارے ڈبے کے پیچھے کی طرف سے ایک پولیس دستہ آ پہنچا اور اس نے ہمیں دوسری طرف سے باہر جانے میں مدد کی۔ دوسرے راستے سے وہ ہمیں باہر لے گئے۔ باہر سٹیشن کے کورٹ یارڈ میں بھی بھاری بھیڑ جمع تھی۔ ان میں کچھ جوشیلے نوجوان مجھے میرے نام سے پکار پکار کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔ میں ان سبھی محبت کرنے والوں کو کبھی ہاتھ جوڑ کر، کبھی ہاتھ ہلا کر سلام کر رہا تھا۔ راستے کی دونوں طرف لوگ صرف مجھے دیکھنے کے لیے کھڑے تھے۔ آخر مدراس میں ہمارے میزبان کے گھر کے پاس ہم لوگ آ پہنچے۔ گھر کے پاس بھی بھاری بھیڑجمع تھی۔ کچھ پیار کرنے تو گھر کی چھت پر چڑھ کر وہیں سے مجھے زور زور سے آواز دے رہے تھے۔ میں نے وِمل کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور پریم کی اس پھُنکارتی باڑھ سے راستہ نکالتے ہوئے جیسے تیسے میزبان کے گھر میں داخل ہو گیا۔
مدراس میں ہمارے میزبان تھے ہمارے ڈسٹری بیوٹر جینتی لال ٹھاکر۔ حال ہی میں وہ ایک جان لیوا حادثے سے بال بال بچ گئے تھے۔ ان کے گھر میں، پتہ نہیں کیسے، آگ لگ گئی تھی۔ اس میں وہ کافی جھلس گئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بستر سے اٹھے اور مجھے گلے لگا لیا۔ جذباتی ہو کر بولے، "میں بچ گیا، زندہ رہ گیا! لیکن سٹیشن پر نہ آسکا۔ آپ کا گرینڈ استقبال دیکھنا میری قسمت میں نہیں تھا! لیکن سارا حال مجھے یہاں بستر پر پڑے پڑے معلوم ہو گیا!” اتنا کہہ کر وہ ادھیڑ عمر کا آدمی پاگل جیسا رونے لگا۔ میں نے انھیں سمجھایا بُجھایا اور تسلی دی۔ اس آدمی کا میرے لیے اور ہماری ‘پربھات’ کے لیے دلی پیار تھا!
مدراس کے اپنے دورے میں نے ‘پربھات تھئیٹر’ کا افتتاح کیا۔ وہاں کی سماجی اور فلم انڈسٹری سے جڑی انجمنوں کی طرف سے ہمارے احترام میں کئی استقبالیہ تقریریں منعقد کی گئیں۔ ان تقریبوں میں مختلف لوگوں سے میل ملاقاتیں ہوئیں، ان لوگوں میں تمل، تیلگو، ملیالم، کنڑ بھاشا بھاشی سبھی فنکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر شامل تھے۔ ان میں سے کئیوں نے تو میرے چرن چھو کر مجھے پرنام کیا۔ ایسی حرکتیں میں پسند نہیں کرتا تھا۔ مخالفت کرتا، تو چرن چھونے والا بڑے ہی ادب سے کہتا، "آپ ہمارے گرو ہیں!”
"میں آپ کا گرو؟ وہ کیسے؟” میں پوچھتا۔
تو سامنےوالا جذباتی جواب دیتا، "آپ کی فلموں کو باربار دیکھ کر ہی تو ہم نے فلم کلا کی کئی باریکیاں اکٹھی کی ہیں۔ آپ کا چرن چھونا ہماری خوش قسمتی ہے۔ اس کارن ہمیں اپنے کام میں بڑی طاقت حاصل ہو گی!”
اپنے لیے اتنی عقیدت، اتنا احترام، اتنا پیار آج تک میں نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ ایسے موقع پر بولتا بھی، تو کیا؟ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں جہاں بھی جاتا، وِمل بھی میرے ساتھ ہوتی۔ اس سماج کی عورتیں اس کا استقبال بھی پورے جذبے سے کرتیں۔ اپنے لیے اتنا پیار دیکھ کر وِمل من ہی من میاں مٹھو بن رہی تھی۔ فلم کلا کے شعبے میں وِمل کو کوئی خاص علم تو نہیں تھا، نہ ہی اس سے اس کی امید کرنا مناسب تھا۔ لیکن میرے سکھ میں ہی اپنا سکھ، اور میرے دکھ میں ہی اپنا بھی دکھ مانتی آئی سادی، بھولی وِمل پتی کے اتنے شاندار استقبال اور تعریف سے سیر ہو گئی تھی۔ وہ سیری اس کی آنکھوں میں صاف جھلکتی تھی۔ اس بات پر ہو رہا سکون اس نے میرے پاس کبھی ظاہر نہیں کیا۔ لیکن آج بھی مجھے اس بات کا دلی اطمینان ہے کہ میرے افتحار کی بڑھوتری میں وِمل بھی برابری کی حصےدار تھی۔
مدراس میں ہم لوگ دس دن رہے۔ وہ دس دن پتہ نہیں کب بیت گئے۔ بچوں کے لیے کچھ سِلے سِلائے کپڑے اور وِمل کے لیے جنوبی ڈھنگ کی کچھ ساڑھیاں خریدنے کے ارادے سے ہم کپڑے کی ایک دکان پر گئے۔ وِمل نے کچھ ساڑھیاں پسند کیں۔ میں نے اسے ایک اور ساڑھی خریدنے کے لیے کہا۔ اس نے سہج بھاؤ سے پوچھا، "کس کے لیے؟” میں نے زیادہ کچھ بھی نہ بتاتے ہوئے اتنا ہی کہا، "کمپنی میں وہ جےشری آئی ہے نا، اس کے لیے!”
وِمل جےشری کے لیے ساڑھی پسند کرنے لگی۔ وچار کرتے کرتے میرا ارادہ بدل گیا۔ ساڑھی مت خریدنا، کہنے کے لیے میں وِمل کی طرف مڑا ہی تھا کہ اس نے اپنی پسند کی ایک ساڑھی میرے سامنے رکھی۔ میں نے صرف سر ہلا دیا۔
مدراس سے پُونا واپس آنے کے لیے ہم نکلے۔ سٹیشن پر پھر بےحد بھیڑ امڈ پڑی تھی۔ سب سے وداع لیتے ہوئے میں اور وِمل ڈبے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ گاڑی چلی۔ میرا من سحرزدہ ہو گیا تھا۔عوام کا یہ بےپناہ پیار دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ گاڑی نے رفتار پکڑی۔ ڈبے کے ایک کونے میں مَیں چپ چاپ بیٹھا رہا۔ کسی سے باتیں کرنے کو جی ہی نہیں کر رہا تھا۔ میرے چاہنے والوں نے جو عقیدت ظاہر کی، جو پیار مجھے دیا، یہ سب اسی لیے کہ میں نے سماجی فلمیں بنائی ہیں۔ لہٰذا آگے چل کر بھی ہر حالت میں مجھے سستی مقبولیت کے چکر میں نہ پڑتے ہوئے سماج میں ظاہر مسائل کو آواز دینے والے ایک سے ایک بڑھ کر درجے فلم بناتے رہنا چاہیے، یہی وچار میرے من میں دوبارہ پختہ ہوتا گیا۔ واپسی یاترا میں بھی وہی حال رہا، جو مدراس جاتے سمے رہا تھا۔ ہر سٹیشن پر ہار اور گلدستہ لیے لوگ دلی وداعی دیتے تھے۔ ایک بار تو آدھی رات کسی سٹیشن پر لوگوں نے ریل کی پٹریوں پر کھڑے ہو کر ہماری گاڑی کو زبردستی رکوا لیا۔ ہمارے ڈبے کی کھڑکیوں اور دروازے پر زور سے دستکیں دے دے کر ہمیں جگایا اور ہم سے وداع لی۔
مقبولیت کی اس بےمثال امرت ورشا (رس کی برسات) میں بھیگتے نہاتے ہم دونوں واپس پونا آ گئے۔