رات کے ڈھائی بجے ہوں گے۔ دور اُفق پر بمبئی بندرگاہ کی بتیاں ٹمٹماتی نظر آنے لگی تھیں۔ میں انہیں بڑی امیدبھری نظر سے دیکھ رہا تھا۔من میں آیا کہ جہاز کو ایک زور کا دھکا ماروں تاکہ وہ فوراً کنارے لگ جائے۔ جہاز سویرے ساگرکنارے پر لگنے والا تھا، لیکن میں اتنا بےصبر ہو گیا تھا کہ رات بارہ بجے ہی اٹھا اور نہا دھو کر اکیلا ہی ڈیک پر چہل قدمی کرنے لگا تھا، کسی پاگل کی طرح۔
سویرے جہاز کنارے پر لگنے لگا۔ جرمنی جاتے سمے مجھے اکیلا چھوڑ گئے لوگ اب پھر پاس آتے دکھائی دیے۔ سب سے پہلے وِمل دکھائی دی، جو کمار اور سروج کو ساتھ لیے بھیڑ میں مجھے کھوجتی نظر آئی۔ ایک الجھا سا خیال من کو چھو کر گیا کہ شاید وِنائک اور بابوراؤ پینڈھارکر کم سے کم میرا استقبال کرنے کے لیے تو بندرگاہ پر آئے ہوں گے، اس لیے میں انہیں بھی بھیڑ میں کھوجنے لگا۔ میری امید بےسود رہی۔
تبھی بابوراؤ پینڈھارکر وغیرہ لوگ جہاز پر آتے دکھائی دیے۔ اُن کے ساتھ وِمل بھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ دوڑ کر آئی اور آس پاس کے لوگوں کا ذرا بھی لحاظ یا لجا کیے بنا ہی سیدھے آ کر مجھ سے کس کر لپٹ گئی۔ میں حیران رہ گیا۔
ایک پبلک مقام پر سدھ بدھ کھو کر اس کا میرا اس طرح سواگت کیا جانا مجھے من ہی من اچھا لگا۔ میں نے بھی اسے سینے سے لگا لیا۔ کچھ لمحوں بعد وہ خود مجھ سے دور ہو گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ شرم کے مارے اب وہ گڑی جا رہی تھی۔ ہمارے جیون میں سب لوگوں کے سامنے اس طرح گلے لگنے کا یہ اکلوتا منظر تھا!
بعد میں، رات کی تنہائی میں، میں نے اسے میٹھی شکایت کرتے ہوئے کہا، "تم تو ایسے لگ رہی تھیں کہ میں نہیں، تم ہی پردیس جا کر آئی ہو!”
"وہ کیسے؟”
"جہاز کے ڈیک پر کسی اینگلو لڑکی کی طرح مجھ سے کس کر لپٹ جو گئی تھیں!”
"پتا ہے؟ آپ جرمنی میں تھے، تب یہاں سب لوگ مجھے چِڑھا رہے تھے کہ لوٹتے سمے آپ ایک گوری میڈم ساتھ لانے والے ہو! آپ کو جہاز پر دیکھا، آپ کے ساتھ کوئی بھی تو نہیں آیا تھا اور پھر کیا ہوا مجھےخود ہی ہوش نہیں رہا۔”
”چھوڑو! پگلی کہیں کی!” محض کچھ کہنا ہے اس لیے کہہ تو گیا، لیکن من کہنے لگا: ”جینی میرے ساتھ بھارت آتی تو؟”
وطن پر پاؤں رکھتے ہی ایک بری خبر ملی۔ ہماری ‘سیرندھری’ رنگین فلم ناظرین کو قطعی نہیں بھائی تھی۔ اس کی رنگین کاپی پہلی بار جرمنی میں دیکھی تھی، تبھی فلم کی کامیابی کے لیے میرے من میں شبہ جاگا تھا، جو اب میری سوچ سے بھی کہیں زیادہ صحیح ثابت ہوا۔ اتنی ساری محنت، پریشانیاں، سب بےسود ہو گئے تھے!
بابوراؤ پینڈھارکر اور وِنائک نے کولہاپور دربار کی قائم کردہ ‘راجا رام مووی ٹون’ نامی نئی کمپنی میں زیادہ تنخواہ پر نوکری قبول کر لی تھی۔ یہ جان کر کہ انہوں نے صرف زیادہ تنخواہ پانے کے لیے ‘پربھات’ تیاگ دیا تھا، مجھے اور بھی برا لگا۔ اتنی تنخواہ تو انہیں ‘پربھات’ میں بھی مل سکتی تھی اور سب کی محنت سے ‘پربھات’ کو حاصل وقار کا بھی فائدہ انہیں ملتا، وہ الگ۔ اسی حوالے سے بابوراؤ پینڈھارکر نے مجھے بمبئی کے ایک اخبار میں چھپی خبر دکھائی۔ اس کی سرخی تھی: ‘پربھات کے بنیادی ستون ڈھے گئے! پربھات گر گئی۔’ اس خبر کو پڑھتے ہی میں نے یقین سے کہا، "پربھات کے سچے ستون ہیں سب کی محنت، مسلسل عمل اور ایمانداری۔ جب تک یہ سلامت ہیں، ‘پربھات’ سبھی کٹھنائیوں کو پار کرتی ہوئی کندن سی تپ کر نکھرےگی!”
میں پُونا آ گیا۔ ماں، باپو، میرے تینوں چھوٹے بھائی اور ان کے علاوہ کچھ عام کلاکار اور ٹیکنیشن کولہاپور چھوڑ کر پُونا رہنے کے لیے آ گئے تھے۔
پُونا پہنچتے ہی پہلے میں اپنے گھر گیا۔ باپو کافی تھک چکے تھے۔ ان دنوں سارے پُونا شہر میں جاڑے کے بخار کی وبا سی پھیلی ہوئی تھی۔ باپو بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ انہیں جوش دلانے اور جلدی صحت مندی کی امید جگانے کے لیے میں نے کہا، "باپو، آئندہ سات آٹھ مہینوں میں آپ کے لیے اپنا مکان بن کر تیار ہونے جا رہا ہے، آپ جلدی اچھے ہو جائیے۔”
پردیس سے میرے سلامت لوٹ آنے سے ہی ان کی آدھی بیماری ٹھیک ہو گئی تھی۔ میرے منھ سے گھر کے بارے میں یہ باتیں سن کر اس حالت میں بھی ان کا حوصلہ اور بڑھا۔ لیکن پھر بھی کچھ ناامید سے ہو کر باپو نے کہا، "ارے، تب تک میں زندہ رہوں تب نا!”
میں نے فوراً کہا، "باپو، آپ نہ صرف اس بنگلے کے بننے تک، بلکہ اس کے بعد بھی کئی سال تک زندہ رہنے والے ہیں اور ایک دم صحت مند!” یہ سن کر باپو نے میرے سر پر ممتا سے ہاتھ رکھ کر آشیرواد دیا۔ میری بات جیسے پیشین گوئی ثابت ہوئی۔ ماں اور باپو اس بنگلے میں تیس برس سے بھی زیادہ سمے تک سکون سے رہے۔
میں فوراً نیا سٹوڈیو دیکھنے کے لیے کمپنی کےمقام پر گیا۔ سٹوڈیو کی تعمیر پوری ہو چکی تھی۔ فلم میکنگ کے مختلف کاموں کے لیے الگ کمرے بنائے گئے تھے، ان میں اس ڈپارٹمنٹ کی ضروریات کو دھیان میں رکھ کر مختلف قسم کی سہولتوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ سبھی تعمیری کاموں میں داملےجی کی ہنرمند دیکھ ریکھ اور سوجھ بوجھ جگہ جگہ جھلک رہی تھی۔ میں داملےجی کے اس کام سے اتنا جذباتی ہو گیا کہ میں یہ بھول ہی گیا کہ وہ بزرگ ہیں اور میں نے ان کی پیٹھ تھپتھپا کر شاباشی دے دی۔
کمپنی کے کئی ماہرین کولہاپور چھوڑ کر پُونا نہیں آئے تھے۔ نتیجتاً ہم نے ان کے کاموں کی ذمےداری اب ہم پانچوں ساجھےداروں کے ان رشتےداروں کو سونپنے کا فیصلہ کیا جو آج تک کمپنی میں ہرفن مولا بن کر جو بھی کام نظر آتا، کرتے چلے آ رہے تھے۔
آہستہ آہستہ میں نے اپنے ساتھیوں کو جرمنی میں ہوئی ساری باتیں بتا دیں۔ میری غیرموجودگی میں ہوئے واقعات کے کارن میرے ساتھی ہمت کھوتے جا رہے تھے۔ ان کی ہمت پست ہو چلی تھی، لیکن میرے پختہ ارادے سے انہیں کافی دھیرج بندھ گئی۔ نئی فلم کی کہانی اور خیال میں نے سب کے سامنے رکھا۔ قرون وسطیٰ کے راج کے پس منظر میں اس فلم کے کہانی بنانے کا ہم نے فیصلہ کیا۔ فلم کا نام جرمنی میں ہی میں نے طے کر رکھا تھا: ‘امرت منتھن’۔ اس کے راج گرو کی آنکھوں کا بڑا کلوزاَپ لینے کے لیے لایا گیا ٹیلی فوٹو لینز میں نے سب کو دکھایا۔
فتےلال جی کی فنکارانہ پنسل بجلی کی رفتار سے پوشاک اور منظروں کی لکیریں کھینچنے لگی۔ ‘امرت منتھن’ ہم نے ہندی اور مراٹھی دونوں زبانوں میں بنانا طے کیا۔ بنیادی کہانی لکھنے کے لیے میرے عزیز ناول نگار ہری نارائن آپٹے کو میں نے پُونا بلا لیا۔ ان کے ساتھ کہانی پر بحث شروع کی۔ اس بحث سے ‘امرت منتھن‘ کا سکرپٹ اچھی طرح شکل لینے لگا۔
قرون وسطیٰ کا راجہ اور اس کی بیٹی دونوں کافی ترقی پسند خیالات کے ہوتے ہیں۔اس کے برعکس ان کا راج گرو دھرم اور قدامت کا کٹر اور سخت حامی ہوتا ہے۔ دھرم اور قدامت شکنی کرنے والے کو بےرحمی کے ساتھ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے وداع کر دیتا ہے۔ نہ صرف راج خاندان کے سب لوگوں کو، بلکہ دیگر بھولے بھالے لوگوں کو بھی اپنی آنکھوں کی دھاک میں رکھتا ہے۔ ایک طرف راجہ اور اس کی لڑکی کے نئے وِچار اور دوسری طرف دقیانوسی راج گرو کی قدامت پرستی، ان کی کشمکش پر ‘امرت منتھن’ کی کہانی تیار ہوئی۔ اس فلم کے ہندی مکالمے اور گیت لکھنے کے لیے اتّر ہندوستان کے ایک لیکھک محمد پوری ‘ویر’ کو بلا لیا۔
اب ہمیں مراٹھی اور ہندی دونوں فلموں میں راج گرو کی اداکاری کر سکنے والے اچھے اداکار کی تلاش تھی۔ اس کے علاوہ ایک نئے میوزک ڈائرکٹر کی بھی ضرورت تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ سب لوگ مجھے اچانک مل گئے۔ مہاراشٹر میں ‘ناٹیہ منونتر’ نامی ایک نیا ناٹک ادارہ بنا تھا۔ اس نے’آندھلیانچی شالا’ ( نابینا سکول) ناٹک سٹیج کیا تھا۔ میں اسے دیکھنے گیا تھا۔ اس ناٹک میں میں نے اسٹیج کے مشہور اداکار کیشوراؤ داتے کی اداکاری پہلی بار دیکھی۔ میں اس سے بہت ہی متاثر ہو گیا۔ اس کے علاوہ اس ناٹک کے گیت اور بیک گراؤنڈ میوزک بھی مجھے مدھر اور نئے ڈھنگ کے لگے۔ اس کے میوزک ڈائرکٹر تھے کیشوراؤ بھولے۔ دوسرے دن میں نے ان دونوں کو ‘پربھات’ میں بلا لیا اور ان کے ساتھ معاہدہ بھی کر لیا۔ اسی سمے دلّی سے چندر موہن ووٹل نامی ایک نوجوان میرے سامنےآ کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ سال پہلے اس سے ایک بار ملاقات ہوئی تھی۔ دلّی کی کسی فلم ڈسٹری بیوٹنگ کمپنی کی طرف سے وہ کولہاپور میں کسی کام سے آیا تھا۔ اس کمپنی میں وہ ایک معمولی کلرک تھا۔ اس کی آنکھیں بہت متجسس اور آواز بہت ہی کسی ہوئی اور رعب دار تھی۔
چندر موہن نے اپنی فلمی کیریئر کا آغاز امرت منتھن میں ولن کے کردار سے کیا
دونوں باتوں کا مجھ پر کافی اچھا اثر پڑا تھا۔ میں نے اسے اسی سمے کہا تھا، "اس کلرکی میں کہاں پڑے ہو، اس میں رکّھا ہی کیا ہے؟ ایک مکمل اداکار کے لیے ضروری سبھی باتیں تم میں ہیں۔ تم ہمارے ساتھ آ جاؤ۔ یقین دلاتا ہوں، ایک اچھے اداکار کا نام کماؤ گے!”
اُس وقت اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ لیکن آج وہی چندرموہن میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اسے براہ راست سامنے کھڑا پا کر مجھے تو ایسا لگا جیسے میری فلم کا ‘راج گرو’ ہی سامنے آ گیا ہے۔ ہم نے اس کے ساتھ کچھ سالوں کے لیے معاہدہ کر لیا۔ میں نے ‘امرت منتھن’ کے مراٹھی ورژن میں کیشوراؤ داتے اور ہندی میں چندرموہن کو راج گرو کا کردار دینے کا فیصلہ کیا۔
اس فلم کےوِلن راج گرو کو بہت ہی نرالی ادا میں پیش کرنا تھا۔ آج تک کی سبھی فلموں کے ولن کے لیے غصہ، کراہت کے جذبات ہی ناظرین کے من میں جاگتے تھے۔ لیکن میں نے طے کیا کہ کہانی کو میں اس طرح موڑ دوں گا کہ ‘امرت منتھن’ کے اس راج گرو کے لیے ناظرین آخر میں ایک احترام کا جذبہ لے کر جا ئیں گے، اگرچہ وہ ایک ولن ہے۔ لیکن یہ کہنا آسان تھا، کرنا بہت کٹھن۔ اسے کس طرح کیا جائے، کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ نارائن راؤ آپٹے کے ساتھ میں نے اس پر کافی بحث کی۔ آخر میں مجھے ایک خیال سوجھا۔ لیکن میں نے کسی کو نہیں بتایا، اپنے تک ہی اسے محدود رکھا۔ ایسا کرنے کے بھی کچھ کارن تھے۔
اس نئی کہانی کا کام چالو تھا، تب ہم نے اپنے نئے سٹوڈیو کے لیے آڈیو ریکارڈنگ کی جدید مشینری اور کیمرا خرید لیا۔ آج تک ہم کیمیائی عمل پرانےطریقۂ کار کے مطابق کیا کرتے تھے۔ اس کی جگہ پر ہاتھ لگائے بنا ہی سارا عمل کرنے والے اور بجلی سے چلنے والے آلات ہم نے پُونا میں ہی بنوا لیے۔ صرف نیگیٹو پرنٹ بنانے والا جدید پرنٹر ہم نے غیرملکی درآمد کیا۔
امرت منتھن کا ایک پوسٹر
فطری طور اس وجہ سے فلم میکنگ کا کام شروع ہونے میں کچھ دیری ہو جاتی، لہٰذا ‘پربھات’ میں اس سمے آخر کیا چل رہا ہے اور ہماری نئی فلم ‘امرت منتھن’ کتنی محنت سے بنائی جا رہی ہے، اس کی جھلک لوگوں کو دکھانے کے لیے ایک شارٹ فلم بنانے کا خیال میرے من میں آیا۔ شارٹ فلم بھی ایسی بنانی تھی جسے دیکھ کر ناظرین کی دلچسپی برابر بڑھتی ہی رہے۔ ایسی شارٹ فلم ہم نے بنائی اور اسےگاؤں گاؤں میں پیش کیا۔
لوگ اب ہماری ‘امرت منتھن’ کا بڑی بےتابی سے انتظار کرنے لگے۔
‘امرت منتھن’ کا سکرین پلے اور مکالمے تیار ہوتے ہی میں نے سبھی کلاکاروں سے مکمل ریہرسل کرانی شروع کی۔ یہ ریہرسل ہر روز ہونے لگی۔ فلم کے گیتوں کی دھنیں بننے لگیں۔ ان دھنوں کے مطابق ‘ویر’ نے ہندی گیت لکھ دیے۔ مراٹھی فلم رائٹنگ کے لیے نارائن راؤ آپٹے کی سفارش پر ایک نوجوان شاعر شانتارام آٹھولے پربھات میں شامل ہو گیا۔
میوزک ڈائرکٹر کیشوراؤ بھولے کے پاس ہندی اور مراٹھی کے چنندہ گیتوں کے گراموفون ریکارڈز کی اچھی کولیکشن تھی۔ عام طور پر وہ انہیں ریکارڈز سے کہانی کے سین کے مطابق دھنیں تیار کر لیتے اور پھر ان دھنوں کے مطابق بول لکھواتے تھے۔ کبھی میں انہیں کسی گیت کو ایک آدھ نئی دھن دینے کے لیے کہتا تو وہ مجھے دوسرا گراموفون ریکارڈ سنواتے اور دھن پسند کرنے کے لیے کہتے۔ میوزک ڈائرکشن کا یہ سسٹم مجھے خاص پسند نہیں تھا۔ لیکن میرا ہمیشہ کا ایک دستور تھا کہ ایک بار کسی کو ساتھ لے لیا تو اس کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کر اس کی قابلیت کے مطابق اس سے زیادہ سے زیادہ اچھا کام کروا لینا۔ اسی لیے میں نے انہیں وقت وقت پر حوصلہ دیا اور کہانی کا جاندار سنگیت بنوا لیا۔ لیکن کہنا پڑےگا کہ فلم کے گیتوں اور آرکسٹرا کی مناسب ایڈجسمنٹ کے فن کی مکمل اپچ کیشو راؤ کے اپنے بنیادی ٹیلنٹ کا کمال تھا۔ اس کے علاوہ سین کے مطابق اس کے جذبات کو نقطۂ عروج تک لے جانے کے لیے کس انسڑومنٹ یا ساز کا استعمال کہاں کتنا کرنا چاہیے، اس کا فیصلہ کرنے والے وہ ایک ماہر میوزک ڈائرکٹر تھے۔
ایک دن بابوراؤ پینڈھارکر پُونا آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کسی سمے میرے زیر کام کرنے والےگجانن جاگیردار نے ’امرت منتھن’ کی تھیم پر ‘سنہاسن’ نامی ایک فلم جھٹ پٹ بنا لی اور اسے ریلیز بھی کر ڈالا ہے۔ اس خبر سے میں ذرا بھی سٹپٹایا نہیں، کیونکہ یہ کہانی میں کس ڈھنگ اور طریقے سے فلمانے جا رہا ہوں، اس کا راز سوا میرے کوئی نہیں جانتا تھا۔ کہانی کا آخر تو میں نے ایک راز کے روپ میں صرف اپنے ہی پاس سنجو رکھا تھا: راج گرو کی بدسلوکی سے تنگ لوگ اسے جان سے مار ڈالنے کے لیے مندر کی طرف آتے ہیں۔ ان کی قیادت کرتا ہے راج گرو کا ذاتی بھروسہ مند، لیکن اصل میں راجہ کے لیے وفادار، سردار وشواس۔ خنجر تان کر اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر لمحہ بھر کو تو راج گرو چونک جاتا ہے، لیکن اسے ڈرا دھمکا کر پوچھتا ہے، "کون؟ وشواس، تم؟” سب کو قابو میں اور اپنی دھاک میں رکھتی آئی راج گرو کی وہ نظر وشواس کو سونگھتی نِہارتی ہے۔ پردے پر اس کی آنکھوں کی پُتلیوں میں وشواس کا عکس صاف ابھر آتا ہے۔ عکس میں اتنا ہی صاف دکھائی دیتا ہے: وشواس کا من ڈانواڈول ہو گیا ہے، خنجر تانے اس کا ہاتھ کچھ نیچےکی طرف آتا جا رہا ہے۔۔۔ پھر اس کی وفاداری جاگتی ہے۔ پھر خنجر تان کر وہ آگے آتا ہے اور اسے راج گرو کی آنکھوں میں گھونپ دیتا ہے، پوری ملامت کے ساتھ! راج گرو چیخ کر کچھ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ڈھک لیتا ہے۔۔۔ راج گرو کی نظر میں ہمیشہ زندہ رہی دھاک ختم ہو جاتی ہے! اس کے بعد راج گرو لڑکھڑاتا ہوا اپنے نجی مندر کی طرف جاتا ہے۔ دروازہ بند کر لیتا ہے اور دیوی کے سامنے کھڑا ہو کر کہتا ہے، "ہے بھگوَتی، آج تک میں نے جو کچھ کیا اس میں میرا اپنا کوئی مفاد نہیں تھا۔ یہ سب کچھ میں نے صرف تمہارے لیے، دھرم کی حفاظت کے لیے ہی کیا تھا۔ پھر بھی میں تمہیں خوش نہیں کر سکا۔ اس لیے اب میں اپنی بَلی چڑھاتا ہوں۔ اس بلیدان سے تم خوش ہوؤ اور دھرم کی حفاظت کرو!”
مندر کے باہر ستائے ہوے لوگ مندر کا دروازہ توڑ کر اندر گھس آتے ہیں۔ سامنے کا منظر دیکھ کر وہ سب بھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ راج گرو کا سر کٹا دھڑ بھگوتی کے سامنے پڑا ہے اور اس کے ہاتھ کٹے ہوئے سر کو بھگوتی کے چرنوں پر چڑھا رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ بےجان، شانت ہو جاتا ہے۔
مجھے یقین تھا کہ راج گرو اپنی سوچ پر کتنا اٹل، کٹّر تھا، ناظرین کے من پر اس کے اس بلیدان کی وجہ سے یہ انمٹ روپ سے نقش ہو جائے گا۔اس سین کی شوٹنگ میں نے ایک دم آخر میں کی۔ اس کے مراٹھی مکالمے میں نے خود اُس دن سویرے لکّھے اور اس کا ہندی ورژن چندرموہن سے کروا لیا۔
ہمیشہ کی طرح کمپنی میں نئی فلم کے آخری کام تیزی سے چل رہے تھے۔ جانچ کے لیے کمپنی میں ہی ‘امرت منتھن’ کی پہلی ریلیز دیکھی تو مجھے خاص اطمینان نہیں ہوا، لہٰذا اس میں پھر کچھ جوڑتوڑ کر، خرابیوں کو کم کرتے ہوئے فلم کی رفتار کو اور بڑھانے کے لیے میں پھر ایڈیٹنگ کرنے بیٹھ گیا۔ ویسے تو فلم جیسی ہے ویسی ہی ناظرین کو پسند آئے گی، اس کا نرالاپن اثردار ثابت ہو گا اور ‘پربھات’ کا فخر بڑھانے میں مددگار ہو گا، اس میں مجھے شبہ نہیں تھا، لیکن ہمارے سبھی ساتھیوں کو اس کی کامیابی کے بارے میں بھاری شبہ تھا۔
ستھِر فلم ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ پنت دھرم ادھِکاری نے بھی ٹیسٹ ریلیز کے وقت ‘امرت منتھن’ دیکھی تھی۔ وہ اور داملےجی گہرے دوست تھے۔ انہوں نے داملےجی سے صاف لفظوں میں کہہ دیا، "مجھے ‘امرت منتھن’ قطعی پسند نہیں آئی ہے!”
داملےجی نے کہا، "شانتارام بابو اس میں کچھ کانٹ چھانٹ کر رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ فلم زیادہ اثردار ہو گی۔”
"اجی چھوڑیے ان باتوں کو۔ کچھ بھی کریں، گدھے کا گھوڑا تھوڑے ہی بن جائےگا،”
پنت دھرم ادھِکاری نے ذلت آمیز لہجے میں کہا۔
اس دن شام کو داملےجی نے پنت دھرم ادھکاری کی باتیں انہیں کے لفظوں میں مجھے بتا دیں۔ سن کر میں قہقہہ مار کر ہنسا اور داملےجی سے میں نے کہا، "پنت جی کو اندھی عقیدت اور رجعت پسندوں پر حملہ کرنے والی یہ فلم پسند آ ہی نہیں سکتی۔ لیکن ان کے جیسے مذہبی براہمن کو وہ بھائی نہیں، اسی میں فلم کی ترقی پسندیت کی جیت ہے!”
‘امرت منتھن’ بمبئی میں پہلے ہندی میں ریلیز کی گئی۔ ٹکٹ کھڑکی پر ناظرین کی بےحد بھیڑ تھی۔ تینوں شو کے لیے تھئیٹر کے اندر اور باہر بےشمار بھیڑ جمع ہوتی اور پھر بھی ہزاروں لوگ ٹکٹ نہ ملنے کے کارن ناامید ہو کر لوٹ جاتے۔
‘امرت متھن’ کا آخری سین لوگوں کے دلوں کو چھو جاتا تھا۔ میرا اندازہ بالکل صحیح نکلا۔ ایک سیدھے سادھے نئے ڈھنگ کے ولن کی پُراثر تصویر پہلی بار فلم میں ابھر آئی تھی۔ چونکہ چندرموہن کی یہ پہلی ہی فلم تھی، اس کے کام میں کچھ نوسِکھیاپن ضرور معلوم ہوتا تھا، لیکن اس کی متجسس اور کُھبنے والی آنکھیں، آنکھوں کے بڑے بڑے کلوزاَپ اور اس کی وزن دار آواز کی انمٹ چھاپ ناظرین کے من پر نقش ہو گئی۔ چندرموہن ایک ہی رات میں شہرت کی چوٹی پر پہنچ گیا۔ چندرموہن کی طرح شانتا آپٹے بھی اس فلم کے کارن بےحد مقبول ہو گئی۔ اس فلم میں اس کے گانے اور اداکاری دونوں کو ناظرین نے سراہا۔ ‘شیام سندر’ میں اس کی بےجان اداکاری دیکھنے کے بعد لوگوں کو اس سے زیادہ امید نہیں تھی۔ اننت ہری گدرے نے تو اس کے کام کی تعریف کرتے سمے کمال کر دیا۔ اپنے ادبی میگزین ‘نربھیڈ’ میں انہوں نے ‘امرت منتھن’ کا پورے صفحے کا جائزہ لکھا۔ اس پر موٹی سرخی تھی:
"شانتا میں بھی ڈالے رام
واقعی میں ہیں شانتارام۔”
یہ منچلی سرخی مجھے قطعی پسند نہیں آئی۔ آگے چل کر ایک بار اُن سے ملاقات ہو گئی، تو اس سرخی پر میں نےاعتراض بھی اٹھایا۔ لیکن گدرےجی الٹے مجھ سے ہی اسی مدعے کو لے کر جھگڑا کرنے لگے، "آپ بھی خوب ہیں، آخراس سرخی میں غلط یا برا کیا ہے؟ ‘شیام سندر’ میں اس کے کام میں کوئی رام نہیں تھا اور اس فلم میں آپ کی ڈائرکشن کے کارن اس کے کام میں ہمیں وہ رام دکھائی دیا، اور اسی لیے ایک دم خالص جذبے سے ہی ہم نے ویسا لکھا!”
اب اس Correspondent کے سامنے کوئی کیا کہے؟ اپنا سر!
سارے دیس میں ‘امرت منتھن’ نے دھوم مچا دی۔ بمبئی میں تو وہ پورے تیس ہفتے چلی۔ ہر ہفتے کو فلم کے جیون کا ایک سال مان کر پچیسویں ہفتے میں ہمارے ڈسٹری بیوٹر بابوراؤ پینڈھارکر نے ‘امرت منتھن’ کی سلور جوبلی منائی اور زبردست پرچار کیا۔ سلور جوبلی کو پار کر اور کچھ ہفتے چلنے والی وہ پہلی ہندی فلم تھی۔
‘امرت منتھن’ نے پھر ایک بار ‘پربھات’ کا نام چوٹی پر پہنچا دیا۔ کچھ اہم لوگوں کے ‘پربھات’ چھوڑ کر چلے جانے کے کارن پربھات کے مستقبل کے بارے میں خدشے کے شکار لوگوں کو اس فلم نے منھ توڑ جواب دیا۔
اس کے بعد من میں پھر ایک بار اچھی سماجی فلم بنانے کا خیال آنے لگا۔ پہلے بھی کبھی یہ خیال آیا تھا لیکن ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا تھا، لیکن اس بار فتےلال جی نے ضد کی کہ خاموش فلموں کے زمانے میں بنائی ‘چندر سینا’ پر ایک بولتی فلم بنائی جائے۔ اس کہانی کے لیے انہوں نے کافی نئے نئے خیالات پر مبنی سین، پوشاکیں، زیور وغیرہ کا ایک کچا چٹھا بنا لیا تھا۔ اہِراون اور مہِراون کی پاتال نگری کو اثرانگیز بنانے کے لیے انہوں نے اپنی پنسل، سنکھ سیپیوں اور موتیوں کی مدد سے ایک نرالی ہی دنیا بنا لی تھی۔ وہ فینٹسی واقعی غیرمعمولی اور دلکش تھی۔ ہم سب لوگ کافی خوشی سے ‘چندر سینا’ فلم بنانے میں لگ گئے۔ میں نے بھی سوچا کہ اس فلم کی قدیم کہانی کو اپنے سماجی وچاروں کے مطابق نیا رنگ دوں۔ خاموش فلم چندرسینا کی طرح بولتی فلم چندر سینا میں بھی موجود پیغام یہی تھا کہ لوگوں کو شراب پینے کے برے نتیجے سے بالواسطہ طریقے سے آگاہ کیا جائے۔ جنوب کے ہمارے ڈسٹری بیوٹرز کی مانگ پر ہم نے بولتی فلم ‘چندرسینا’ کے مراٹھی اور ہندی ورژنوں کےساتھ ہی تمِل ورژن بھی بنانا طےکیا۔ تمل فلم میں کام کرنے کے لیے کلاکاروں کو مدراس سے پربھات میں لایا گیا۔ ان کے ساتھ کچھ ٹیکنیشین بھی اس امید سے آئے کہ انہیں بھی کچھ نئی باتیں سیکھنے کو مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو ‘پربھات’ میں اپنے قیام کے دوران فلمی فن کی اتنی باتیں سیکھیں کہ انہوں نے مدراس لوٹ کر کافی شہرت کمائی۔ رام ناتھ اور شیکھر جیسے کچھ ٹیکنیشینوں اور کہانی کاروں نے بی ریڈّی کے ساتھ مل کر ‘واہونی فلم کمپنی’، کے لیے ‘سمنگلی’ جیسی فلم بنائی۔ اس فلم کے کارن جنوب کی فلم انڈسڑی کو فنکارانہ طول و عرض اور سمت مل گئی۔
اہراؤن مہراؤن کی پاتال نگری کے محل کا سین سٹوڈیو میں بنایا گیا تھا۔ چندرموہن اہراؤن کا کام کر رہا تھا۔ شوٹنگ شروع ہوئےآٹھ دس دن ہو چکے تھے۔ ایک دن سویرے ہم لوگ اس دن کی شوٹنگ کی تیاری کر رہےتھے۔ سبھی کلاکار ٹھیک سوا نو بجے میک اپ کر سٹوڈیو میں حاضر ہوئے۔ سین کو سمجھا کر بتانے کے لیے میں نے چندرموہن کو آواز دی۔ میرے معاون راجہ نے نے ڈرتے ڈرتے بتانے لگا، "چندرموہن آج ابھی تک کام پر آیا نہیں ہے۔”
میں غصے میں چلّایا، "کیوں نہیں آیا؟”
تبھی ہمارے منیجر آئے اور انہوں نے مجھے رجسٹرڈ ڈاک سے آیا ایک لفافہ تھما دیا۔ وہ چندرموہن کی طرف سے ہمیں دیا گیا نوٹس تھا۔ وہ ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے سے آزاد ہونا چاہتا تھا۔
نوٹس پڑھ کر مجھے بہت ہی غصہ آیا۔ پھر بھی میں نے پاٹھک جی سے کہا، "آپ چندرموہن کے گھر جائیے اور اسے کام پر آنے کو کہیے۔ لیکن اس نے ہمارے منیجر کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ "میں اب کام پر نہیں آؤں گا۔ مجھے بمبئی کے ایک بڑے پروڈیوسر نے کافی اچھی تنخواہ پر بلوا لیا ہے۔”
پاٹھک جی واپس آئے۔ سر جھکا کر انہوں نے چندرموہن کا پیغام سنایا۔
اب میں آپے سے باہر ہو گیا۔ کمپنی کے ایکٹنگ ڈپارٹمنٹ میں مستقل نوکری کر رہے ایک اداکار کو میں نے فوراً چندرموہن کے کردار کے لیے ضروری میک اپ کر آنے کو کہا۔ کسی کے بنا پربھات کا کوئی کام نہ رک پائے، اس کا تو میں نےعہد کر رکھا تھا۔ لہٰذا میں نے اسی وقت پہلے آٹھ دس دن کی شوٹنگ رد کرنے کا فیصلہ کیا اور وکیل کی معرفت چندرموہن کے نوٹس کا جواب بھجوا دیا: "تم اس طرح پربھات کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ قانوناً تمہیں آئندہ فلم کے لیے کی گئی تمہاری آٹھ دس دن کی شوٹنگ کا ہرجانہ دینا پڑے گا، کیونکہ اب وہ ساری شوٹنگ رد کرنی پڑی ہے۔”
چندرموہن ہمارا جوابی نوٹس پڑھ کر کافی ہڑبڑا گیا۔ اس نے فوراً پیغام بھیجا کہ ”معاہدے سے آزاد ہونے کے لیے میں اپنے نزدیک کے رشتےدار سر تیج بہادر سپرو کی مدد لوں گا۔” یہ بیرسٹر سپرو صاحب اُس زمانے کی کافی بڑی ہستی تھے۔
لیکن میں نے چندرموہن کی دھمکی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ میں تو اس بات پر تُلا ہوا تھا کہ چندرموہن کی طرف سے ڈالی جا رہی اس ضرررساں روایت کو جڑ سے اکھاڑ دوں۔ کسی کلاکار کا اس طرح پیش آنا کمپنی کے لیے کافی خطرناک تھا۔
‘چندرسینا’ تیار ہو گئی۔ ٹرائل ریلیز سب نے دیکھی۔ کاپی میں کافی غلطیاں تھیں۔ فلم کا سنسر اور عام ریلیز نزدیک آ گئی تھی۔ دو تین دن ہی باقی تھے۔ دھایبر اس فلم کے فوٹوگرافر تھے۔ انہوں نے جلدی جلدی نیاپرنٹ بنایا اور بنا ٹیسٹ کیے سنسر اور ریلیز کے لیے بمبئی بھیج دیا۔
بمبئی میں ‘کرشن’ سنیما میں اس وقت ’امرت منتھن’ خوب چل رہی تھی، اس لیے ‘چندرسینا’ کا پردرش مِنروا میں کیا گیا۔ ریلیز کے وقت میں بمبئی نہیں گیا تھا۔ بمبئی سے بابوراؤ پینڈھارکر کا فون آیا کہ ”فلم کے گیت اور مکالمے ٹھیک سے سنائی نہیں دیتے۔ لگاتار ایک طرح کی گھرررر کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔”
میں فوراً بمبئی گیا اور ‘چندرسینا’ کا پرنٹ اچھی طرح سے جانچا پرکھا۔ فلم کی کاپی پر ساؤنڈ ریکارڈنگ کی لکیریں بہت ہی دھندلی نقش ہوئی تھیں۔ دھایبرجی نے شاید کسی غلط فہمی کےکارن ساؤنڈ پٹی اتنی گہری اور کالی نہیں رکھی تھی جتنی کہ رکھنی چاہیے تھی۔ اسی کارن یہ سب جھمیلا ہو گیا تھا۔ مکالمے اور سنگیت ناظرین تک پہنچ ہی نہیں پا رہے تھے۔ اس کے علاوہ خاموش فلم ’چندر سینا‘ کی یاد ناظرین میں ابھی تازہ تھی، اس لیے کہانی میں انہیں کچھ بھی نیاپن شاید معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سین اور پوشاک وغیرہ میں کافی فینٹسی ہونے کے باوجود لوگوں کو یہ فلم قطعی پسند نہیں آئی۔ ہم سب کا اندازہ ایک دم غلط ہو گیا۔ ساؤنڈ پٹی کو ٹھیک کر ’چندر سینا‘ کا ایک نیا پرنٹ ہم نے دو تین دن میں ہی بمبئی بھیج تو دیا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ہماری یہ فلم بری طرح فیل ہو گئی۔
فلم چندرسینا کا پوسٹر
میرے ambitious سوبھاؤ کے کارن ہمیں ایک اور دردناک واقعے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی ایک جرأت آمیز نئے خیال سے بنی کہانی کا المناک نتیجہ تھا۔ برلن سے میں نے کارٹون فلموں کے لیے خاص مشینری خرید کر بھجوائی تھی۔ والٹ ڈِزنی کے ‘مکی ماؤس’ کے ڈھنگ کا ایک کارٹون بنانے کے ارادے سے خریدی گئی وہ مشینری اب ہمارے پاس پہنچ گئی تھی۔ کارٹون فلم کے لیے میں نے ایک تخلیقی ٹیکنیشین کا انتخاب کر طرح طرح کے تجربے کرنے شروع کیے۔ ‘مکی ماؤس’ کی طرح ہی کسی مزیدار جانور کو چن کر اس پر کارٹون بنانے کی سوچی۔ لومڑ بہت چالاک جانور مانا جاتا ہے، اس لیے ہم نے طے کیا کہ ایک فلم بنائی جائے، جس کا نام ہو ‘جمبو کاکا’۔ اس کے لیے ایک مناسب چھوٹی کہانی تیار کی۔ کہانی کی ضرورت کے مطابق کلاکاروں سے جمبو کاکا اور دیگر کرداروں کی ہلچلوں کے کئی سٹِل فوٹو سیلولائڈ پر بنوا لیے۔ شوٹنگ کے لیے لائے گئے خاص کیمرے کے ذریعے ہم نے ان سب تصویروں کو فلما لیا اور نو سو فٹ کی ایک فلم (اینیمیشن) تیار کی۔ اس پر بہت مناسب بیک گراؤنڈ میوزک کو بھی ریکارڈ کر لیا۔ اس فلم کو ٹرائل ریلیز میں پہلی بار دیکھا تو مکی ماؤس کے مقابلے میں وہ بالکل ہی نارمل معلوم ہوا، لیکن ہمارا وہ پہلا تجربہ تھا اور اس لیے تسلی بخش لگا۔
ہم نے اس ‘جمبو کاکا’ کارٹون کو بمبئی اور دوسرے شہروں میں ریلیز کیا۔ لیکن چونکہ مخصوص معزز لوگوں کے علاوہ ایسے کارٹون دیکھنےکی عادت عام ناظرین میں نہیں تھی، مخصوص ناظرین کے تاثرات ہمیں معلوم نہ ہو سکے۔
یہ فلم اگرچہ چھوٹی سی تھی، پر اس کے بنانے پر پیسہ خرچ ہوا تھا، لہٰذا ہم نے اپنی فلم دکھانے والوں سے اس فلم کی ریلیز کے لیے کُل آمدنی کا پانچ فیصد زیادہ دینے کی مانگ کی۔ لیکن ہمارے فلم دکھانے والوں نے ہمیں جوابی ڈاک سے جواب دیا کہ، ’’ناظرین آپ کی بنیادی فلموں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس کارٹون فلم میں انہیں کوئی مزہ نہیں آتا۔ لہٰذا مہربانی کر کے ایسی کارٹون فلم دکھانے کے لیے نہ بھیجیں۔‘‘ ہم نے کارٹون فلموں کا کام کچھ وقت کے لیے ملتوی کر دیا اور کارٹون فلم کے ٹیکنیشنوں کو اس سسٹم کا مزید مطالعہ کر والٹ ڈزنی کی بنائی فلموں جیسے صاف کارٹون بنانے کی کوشش جاری رکھنے کو کہا۔ بھارت کی پہلی کارٹون فلم بنانے کا کریڈٹ ‘پربھات’ کو ملا تو، لیکن اس کا استقبال اتنا ٹھنڈا رہا کہ ہمارے سارے جوش پر پانی پھر گیا۔
لیکن انہیں دنوں ‘امرت منتھن’ نے عوامی ذہن پر ایسا جادوکر رکھا تھا کہ ’چندر سینا’ اور ‘جمبو کاکا’ کی ناکامی پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ یہی نہیں، دَھن کا جو بہاؤ ہمارے پاس چلا آ رہا تھا، اس میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔
ماں باپو کے لیے ایک چھوٹا سا بنگلہ بن کر تیار ہو گیا۔ تعمیر کے بعد وہ دونوں جب اس میں رہنے کے لیے گئے، تب ان کے چہرے خوشی سے کھِل اٹھےتھے۔ ان کی خوشی دیکھ کر میں بھی شادکام تھا اس کے ساتھ ہی پربھات سٹوڈیو کے سامنے والی کھلی جگہ میں ہم پانچوں ساجھےداروں کے بھی پانچ الگ بنگلے بنائے گئے۔کولہاپور چھوڑ کر ہمارے ساتھ پُونا رہنے کے لیے آئے کام کرنے والے کاریگروں کے لیے اسی احاطے میں ایک دومنزلہ مکان بنوایا گیا۔
اس طرح پربھات نگر بسانے کا میرا سپنا پورا ہو چلا تھا۔ میں نے لوہے کی گول گول شکل کی کئی طشتریاں بنوا لیں۔ ہر طشتری پر پربھات کا لوگو نقش کرا لیا۔ اس پر ‘پربھات نگر’ حروف بھی سرخیوں میں لکھوا لیے۔ پیچھے ایک تیر بھی پرنٹ کیا، جس کی نوک پربھات نگر کی طرف جانے والی سمت کا اشارہ کرتی تھی۔ پُونا کے لکڑی پل سے لے کر ہمارے سٹوڈیو تک راستے کے ہر بجلی کے کھمبے پر یہ طشتریاں میں نے فِٹ کروا دیں۔ اس راستے آتے جاتے وقت ان طشتریوں کو دیکھ کر میں ایک بچے کی طرح خوش ہو جاتا تھا۔
ہمارے ‘پربھات’ کی روشنی اب پورے دیش میں پھیل چکی تھی۔ ہمارا جدید سٹوڈیو دیکھنے کے لیے دوردور سے لوگ آنے لگے تھے۔ ملک کے کونے کونے سے آنے والے ان لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ ہمارے کام میں مشکل پیدا ہونےلگی۔ آخر ہم نے اعلان کیا کہ ہمارا سٹوڈیو عوام کے دیکھنے کے لیے ہر بدھوار کو صبح کھلا رہے گا۔
انہیں دنوں اخبار میں پڑھا کہ "سبھی مراٹھی لوگوں کے پیارے گائیک اداکار نارائن راؤ راج ہنس عرف بال گندھرو نے بھاری قرض کے کارن اپنی گندھرو ناٹک منڈلی بند کر دی ہے۔”
کچھ معزز لوگوں نے ہمیں سجھاؤ دیا کہ کیوں نہ ہم بال گندھرو کو اہم کردار دے کر دو ایک فلمیں بنائیں۔ سجھاؤ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایسی فلم پر ہوئے خرچ کے بھگتان کے بعد بچے منافعے میں ‘پربھات’ اور بال گندھرو کا آدھا آدھا ساجھا ہو۔ سچ پوچھا جائے تو ہمیں اتنے جھنجھٹ میں پڑ کر فلم بنانےکی ضرورت نہیں تھی، لیکن بال گندھرو جیسا ایک مہان کلاکار معاشی کٹھنائیوں میں پھنسا ہو، اس کی مدد کرنا اپنا فرض مان کر ہم نے بال گندھرو کے ساتھ دو فلموں کا معاہدہ کر لیا۔
بال گندھرو ناٹکوں میں عورت کا کردار کرتے رہے تھے۔ لیکن اب تو فلموں میں عورتوں کے کردار عورتیں ہی کرنے لگی تھیں۔ ایسی صورت میں انہیں عورت کردار میں پردے پر دکھانا بڑا عجیب سا لگتا۔ وہ نہ عورت، نہ مرد معلوم ہوتے تھے، لہٰذا انہیں زنانہ کردار دے کر کوئی فلم کامیاب نہیں ہو گی، اسے میں من ہی من اچھی طرح سے جان گیا تھا۔ وہ قرض سے آزاد ہونے کے لیے فلم میں کام کرنا چاہ رہے تھے۔ اس کے لیے فلم کا کاروباری نظر میں کامیاب ہونا نہایت ضروری تھا، دوسری صورت میں وہ مقصد ہی دھرا کا دھرا رہ جاتا۔ میں نے یہ بات نارائن راؤ کو اچھی طرح سے سمجھائی۔
بال گندھرو فلموں میں عورتوں کے کردار نبھاتے تھے، شانتا راما نے انہیں ایک اصلاح پسند مذہبی رہنما کے طور پر متعارف کرایا
بال گندھرو کا رنگ روپ، سوبھاؤ، سب کچھ بہت ہی شانت اور ماتحت کام کرنے والوں کے ساتھ سلوک انتہائی محبت بھرا تھا۔ میں کھوجنے لگا ان کے اسی سوبھاؤ کے مطابق اور ‘پربھات’ کی روایت کے مطابق ایک کہانی، جس میں انہیں کردار دیا جا سکے۔ کافی دنوں پہلے میرے من میں چھوت چھات کی روک تھام کے موضوع کو لےکر ایک فلم بنانے کی بات آئی تھی۔ فلم کے ذریعے سے اس مصیبت کی طرف میں سماج کا دھیان مرکوز کرانا چاہتا تھا۔کولہاپور کے راجہ شاہُو مہاراج نے اپنی ریاست میں چھوت چھات پر کافی کام کیا تھا۔ ان کے اس کام کا میرےذہن پر عجیب اثر پڑا تھا۔ اِدھر مہاتما گاندھی بھی سارے ملک میں اسی کام کے لیے عوامی بیداری کی مہم چلا رہے تھے۔
کے نارائن کالے نے اس ضمن میں میرے سامنے ایک مشورہ رکھا کہ ’’جات پات پر نہیں کوئی، ہری کو بھجے سو ہری کا کوئی(ذات پات کی بنیاد پرکوئی نہیں برتری نہیں ہے جو ہری کا جاپ کرتا ہے، ہری ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے)، اس یقین کے ساتھ جیون بتانے والے مہاراشٹر کے سنت ایکناتھ کے جیون پر فلم بنائی جا سکتی ہے۔ سنت ایکناتھ تین سو سال پہلے اسی چھوت چھات کو مٹانے میں لگے تھے۔ ان کا یقین اور سیکھ یہی تھی کہ آدمی صرف اس لیے نیچا نہیں ہو جاتا کہ اس کا جنم مہار یا ماتنگ سماج میں ہوا ہے۔ یہی ثابت کرنے کے لیے سنت ایکناتھ ایک مہار کے گھر بھوجن کرنے گئے تھے۔ مہاراشٹر کے وہ اولین سماجی مصلح تھے۔ بات کچھ مجھے جچ گئی۔ کالےجی کا مشورہ مان لیا گیا۔ میں نے سنت ایکناتھ کے بھجن، بھاروڈ (روایتی موضوعات پر تاثراتی ڈھنگ سے رچا لوک گیت) وغیرہ لٹریچر منگوا کر پڑھ لیا اور اسی کی بنیاد پر میں نے اور کالے جی نے بیٹھ کر ایک کہانی تیار کی۔
سٹیج پر ہمیشہ ساڑھی پہن کر ہی کام کرنے والے بال گندھرو کو دھوتی اور کرتا پہنایا گیا۔ مونچھیں لگوا دی گئیں۔ سر پر چوٹی رکھ کر باقی سارا سر ان دنوں کے پنڈتوں کے ڈھنگ سے منڈوا دیا گیا۔ اوپر سے پگڑی بھی پہنا دی گئی۔ کیشوراؤ دھایبر کے سالے وِنائک راؤ گھورپڑے کی ایک بہت ہی سندر اور چلبلی لڑکی تھی، وَسنتی۔ اس کو ایک مہار کی لڑکی کا کردار دیا گیا۔
میں نے نئے میوزک ڈائرکٹر کی کھوج شروع کی۔ ہمارے میوزک ڈائرکٹر کیشوراؤ بھولے زیادہ تر پرانے مشہور گانوں کی دھنوں پر ہی نئی دھنیں بناتے تھے اور کلاسیکی موسیقی کی راگداری پر مبنی دھن بنانا تو ان کے بس کے باہر کی بات تھی۔
بال گندھرو جیسا رسیلا گایک اور سنت ایکناتھ مہاراج پر بنیادی لٹریچر لکھنا درکار ہو، تب تو میوزک ڈائرکٹر ایسا ہونا ہی چاہیے تھا جو بال گندھرو کی گائیکی مہارت کے ساتھ انصاف کر سکے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ فلم کا سنگیت بھی ایک دم اعلیٰ درجے کا ہو۔ یہی سب سوچ کر میں نے مشہور گایک اور میوزک ڈائرکٹر ماسٹر کرشن راؤ کو اس فلم کا سنگیت سنوارنے کا کام سونپا۔ اس کے علاوہ مشہور طبلہ استاد احمد جان تِھرکوا کو، جو ناٹکوں اور محفلوں میں بال گندھرو کی سنگت کرتے رہے تھے، ہماری کمپنی کے میوزک ڈپارٹمنٹ میں کام پر رکھ لیا۔
ماسٹر کرشن راؤ اصل میں نئی تخلیق کرنے والے میوزک ڈائرکٹر تھے۔ جب تک بال گندھرو اور میں مطمئن نہ ہو جائیں، وہ ایک ہی گیت کو ایک سے زائد دھنوں میں سنایا کرتے تھے۔
اس فلم کا ٹائٹل ہم نےرکھا ‘مہاتما’۔ اس کی ریہرسل تیزی سے ہونے لگی۔ بال گندھرو اتنے آزادخیال تھے اپنا بڑا ہونا بُھلا کے نئے اداکاروں کی طرح ساری باتیں مجھ سے سمجھ لیتے تھے۔ ان کے جیون میں مرد کردار کا کام کرنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا۔ فطری طور پر ان کی چال ڈھال میں زنانہ پن آ گیا تھا، اسے دور کرنے کے لیے مجھے کافی محنت کرنی اور کروانی پڑی۔ پوری فلم میں سنت ایکناتھ کی جذباتی وقار اور عقل کے ساتھ ایک روپ ہو کر کام کرنے کی وہ بھرپور کوشش کرتے تھے۔ لیکن کبھی کسی سین کی ایکٹنگ ٹھیک سے نہ ہو پاتی، تو وہ خود مجھ سے وہ اداکاری کر دکھانےکو کہہ دیتے تھے۔
ایک دن ایک بہت ہی جذباتی سین کی ریہرسل پورے رنگ پر آ چکی تھی۔ میں نے بال گندھرو کو ایکناتھ کی اداکاری کر کے دکھائی اور دوسرے ہی لمحے ننھی وسنتی کو مہار لڑکی کی اداکاری بھی کر کے دکھائی۔ بال گندھرو میرے پاس آئے میری پیٹھ تھپتھپا کر شاباشی دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "انا، واہ واہ! کیا کمال ہے۔ پل میں آپ ایکناتھ بن جاتے ہو، اور دوسرے ہی پل ننھا سا بالک بھی!”
بال گندھرو جیسے مہان کلاکار سے اس طرح شاباشی ملنے پر مجھے بہت اچھا لگا۔ کمپنی کے دیگر سبھی کاریگر اور کلاکار مجھے عزت سے ‘انا’ مخاطب کرتے تھے۔ لیکن بال گندھرو کے منھ سے بھی وہی خطاب سن کر میں بہت ہی مشکل میں پڑ گیا۔ میں نے شائستگی سے ان سے کہا، "میں گندھرو ناٹک منڈلی میں نوکری کرتا تھا، تب تو آپ مجھے ‘شانتا’ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ آج بھی آپ مجھے اسی طرح شانتا بلایا کریں، وہی اچھا لگے گا! وہ آپ کے چرنوں میں بیٹھ کر میں جو کچھ سیکھ پایا، اس کا اس انڈسٹری میں کافی استعمال ہو رہا ہے۔ آپ کےاس احسان کو جب میں دل سے قبول کرتا ہوں، آپ مجھے ‘انا’ کہیں، یہ ٹھیک نہیں!”
بال گندھرو کو میری بات قطعی منظور نہیں تھی۔ انہوں نے کہا، "بھگوَن، اس سمے آپ ‘شانتا’ تھے۔ آج آپ اپنے بل بوتے پر اور کارکردگی دکھا کر بڑے ہو گئے ہیں۔ ریہرسل کراتے سمے آپ جس طرح کھو جاتے ہیں، اسے دیکھ کر مجھے آسانی سے لگا کہ آپ کو ‘انا’ کہہ کر ہی مخاطب کروں!”
ان کی دلیل لاجواب تھی! اس پر کیا کہوں، سمجھ میں نہیں آیا۔
‘مہاتما’ کی شوٹنگ شروع ہوئی اور ایک دن اچانک ہمارے گرو بابوراؤ پینٹر سٹوڈیو میں آئے۔ ہم سب نےان کا دلی استقبال کیا۔ جل پان ہوا۔ وہ بال گندھرو سے اچھی طرح واقف تھے۔ بال گندھرو کے ‘دروپدی’ ناٹک کے سین بابوراؤ پینٹر نے تیار کیے تھے۔ بابوراؤ کی اس بےمثال ملاقات کی یاد میں ہم نے ایک فوٹو کھنچوا لیا، جس میں ان کے لیے اپنا احترام ظاہر کرنے کے لیے ان کے ساتھ کرسی پر نہ بیٹھتے ہوئے باقی سب لوگ پیچھے کھڑے رہے اور میں سامنے زمین پر ہی بیٹھ گیا تھا۔
اپنے سبھی ساتھیوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ناچتا ہوا میں نے پایا۔ آخر بابوراؤ پینٹر کے اس طرح اچانک ہمارے یہاں آ دھمکنے کا کارن کیا ہو سکتا ہے؟ راز کیا ہے؟ ہم سب لوگ امید کر رہے تھے کہ سیٹھ پربھات فلم کمپنی، وہاں کی مشینری، کمپنی کا احاطہ، ہماری بنائی فلموں وغیرہ کے بارے میں کچھ تو رائے ظاہر کریں گے، ہماری حوصلہ افزائی کریں گے، لیکن ویسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
کچھ سمے بعد وہ جانے کو تیار ہوئے۔ انہوں نے مجھے ایک طرف بلا کر کہا، "مجھے دس ایک ہزار روپے کی ضرورت ہے۔”
وہ یہ رقم فوراً چاہتے تھے۔ رقم لینے کے لیے کل آؤں گا، کہہ کر وہ چلےگئے۔ اس کے بعد میں نے ساتھیوں کو بابوراؤ کی گئی رقم کی مانگ کے بارے میں بتا دیا۔ ہم سب کو ان کا یہ طریقہ عجیب و غریب لگا۔
دوسرے دن وہ پُونا سٹوڈیو میں آئے۔ میں نے ایک لفافے میں وہ رقم انہیں دے دی۔ سیٹھ نے لفافہ جیب میں ڈالا اور بنا کسی سے کچھ بولے وہ جیسے آئے تھے ویسے ہی چلے گئے۔۔۔
‘مہاتما’ کے سکرین پلے میں میں نے ایک ڈھونگی سادھو بابا کا کردار تخلیق کیا۔ اس سادھو بابا کے کچھ کارنامے میں نے خود دیکھے تھے، اسی طرح کے ڈھکوسلاباز سادھو باباؤں کے طریقے کو جوں کا توں لے لیا تھا۔ پچھلے دنوں ایک بار دادا مہاراج کے ساتھ بیتے اس واقعے کے بعد ایک امیر بیوپاری کسی باباجی کو ہمارے یہاں لے آیا تھا۔ ان کے ساتھ ان کے چیلے چپاٹے بھی تھے۔ اس سمے کا ایک بہت ہی بھونڈا سین یاد بن کر رہ گیا تھا: اس باباجی کی مہمان نوازی کرنے کے لیے اس کے سامنےکچھ پھل ول رکھے تھے۔ انہوں نے ایک کیلا لیا، تھوڑاسا کھایا، اور بعد میں بچا ہوا کیلا پاس ہی کھڑے ایک چیلے کو دے دیا۔ اس نے اس جوٹھے کیلے کو باباجی کا پرساد مان کر ماتھے سے لگایا اور کچھ حصہ اپنے دانتوں سے کاٹ کر باقی کیلا دوسرے چیلےکو تھما دیا۔ یہی سلسلہ جاری رہا۔ وہ کیلا گھومتا ہوا آخر میرے پاس کھڑے ایک سجن کو دیا گیا۔ تب اس میں کیلا بہت کم اور چھلکا کافی زیادہ رہ گیا تھا۔ مجھے اس بھونڈے رواج پر بہت ہی گھن آ گئی۔ متلی سی آنے لگی۔ یہ دیکھ کر کہ سادھو باباجی کا وہ پرساد کھانے کی نوبت اب مجھ پر بھی آنے جا رہی ہے، کسی کام کے بہانے میں وہاں سے چپ چاپ کھسکا۔
اس گھناؤنے سین کو جوں کا توں ‘مہاتما’ میں فلمانا میں نے طے کیا۔ مراٹھی ‘مہاتما’ میں اس بھوندو سادھو کا کام میں نے اداکار کیلکر کو دیا اور ہندی ورژن میں چندرموہن کو، جی ہاں، چندرموہن کو!
’چندر سینا’ کی شوٹنگ ختم ہونے کے بعد ایک دن چندرموہن سویرے ہی میرے گھر پر آیا اور نم آنکھوں سے اس نے ایک دم میرے چرن چھو لیے۔ اپنےغلط رویے کی اس نے مجھ سے معافی مانگی۔ چندرموہن میرا بنایا ہوا کلاکار تھا۔ میں نے ہی اسے گھڑا تھا۔ وہ میرا اپنا تھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اسے اوپر اٹھایا اور کہا، "تم نے مجھ سے دلی معافی مانگی ہے، اب میرا سارا غصہ اتر گیا ہے۔”
کچھ لمحے تو چندرموہن کی سمجھ میں میری بات نہیں آئی۔ کہیں سپنا تو نہیں، یہ تاثر اس کی آنکھوں میں دکھائی دیا۔ لیکن میں نے اسے یقین دلایا، یقین دہانی کرائی۔
"معاہدے کے مطابق ‘پربھات’ کی آخری فلم کا کام پورا کر تم باہر کی فلمی دنیا میں قدم رکھو گے تو تمہارا نام یقینی ہی مقبولیت کی چوٹی پر چمکے، اسی طرح کا کردار میں تمہیں دوں گا!”
اسے دیا گیا وہ وعدہ آگے چل کر ‘امر جیوتی’ فلم میں میں نے پورا کیا۔
‘مہاتما’ فلم پُراثر بنے، اس وجہ سے میں نے اسے اپنے خاص ڈائرکشن سٹائل سے من لگا کر سجایا سنوارا تھا۔ ایک سین تھا: پیٹھن گاؤں کے مہار کی ایک لڑکی جائی کے گھر کھانے پر جانا ایکناتھ قبول کر لیتے ہیں۔ مہاراج کے دعوت نامہ قبول کر لینے کے کارن جائی تو خوشی کے مارے پاگل ہوئی جاتی ہے۔ وہ سارے گاؤں کی گلیوں سے ناچتی گاتی جاتی ہے اور راستے میں ملنے والے ہر آدمی کو بہت خوش ہو کر بتاتی پھرتی ہے، "کل آویں گے ناتھ ہمارے گھر پر، بھوجن پر۔” جائی کی ان خوشیوں کے کارن سب لوگ متاثر ہو جاتے ہیں، ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں، خوشی کے آنسو بہنے لگتے ہیں اور خوشی کےاس نزدیکی موقعے پر ہی ‘انٹرویل’ ہوتا ہے۔
انٹرویل کےبعد فلم آگے بڑھتی ہے۔ مہار ٹولا خوشی سے مست ہو گیا ہے۔ گھر کا ہر پھٹا پرانا چیتھڑا مہار لوگ دھو دھو کر صاف کرنے میں لگے ہیں۔ عورتیں اپنی اپنی جھگی جھونپڑی کے سامنے کا گھر آنگن لیپ پوت کر چمکانے میں جٹی ہیں۔ جھاڑ پونچھ جاری ہے۔ مہار ٹولےکا بچہ بچہ کسی نالے تالاب میں نہا نہا کر صاف بننے کی کوشش میں ہے۔ جدھر دیکھو، خوشی ہی خوشی ہے۔ ایک امنگ بھرا سماں بنتا جا رہا ہے۔ یہ دونوں سین بےشمار خوشی سے بھرے تھے۔ ‘مہاتما’ کا ایک اور دل چھونے والا سین تھا:
ایکناتھ مہاراج کے گھر پر شرادھ (ختم) ہے، لیکن سبھی براہمنوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا ہے، اس لیے دوپہر بیت جاتی ہے، غروب سمے ٹل جاتا ہے، دیپ جلانے کا وقت آ جاتا ہے، تب بھی ایکناتھ کے پُرکھوں کی آتما کو احترام دینے کے لیے کوئی بھی براہمن کے گھر شرادھ کے لیے آتا نہیں۔ سبھی براہمن لوگ اسی اکڑ میں بیٹھے رہتے ہیں کہ بےعزتی کا مارا ایکناتھ ہاتھ جوڑ کر چرنوں میں آ گرے گا اور گڑگڑا کر منتیں کرے گا۔ ادھر ایکناتھ کے باڑے کے باہر مہار اور ماتنگ لوگ اس امید سے راہ دیکھ رہے ہیں کہ کب براہمنوں کا بھوجن ہو، اور کب انہیں جوٹھی مٹھائی وغیرہ کھانے کو ملے۔ آخر ایکناتھ مہاراج ان سب لوگوں کو اپنے باڑے میں بلاتے ہیں اور اس پرجوش جنتا کو قطاروں میں بٹھا کر پورا کھانا پروستے ہیں، جس میں ایکناتھ کی خوش اخلاق بیوی اور نوکر شریکھنڈ بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔
اس سین کی شوٹنگ جاری تھی، تبھی اچانک مجھے ایک اور محبت بھرا سین ڈالنے کا خیال سوجھا۔ بھوجن جاری ہے۔ بوندی کے لڈو پروسے جا رہے ہیں۔ کھانے میں بڑوں کے ساتھ دو بچے بھی شامل ہیں۔ ایک بچہ لڈو اٹھا کر منھ میں بھرتا ہے اور اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ لڈو کچھ سخت بنے ہیں۔ بچہ اسے توڑ نہیں پاتا، اس کے پاس ہی بیٹھا دوسرا کچھ بڑا سا بچہ اس کا لڈو لے لیتا ہے اور اپنے منھ میں ڈال کر توڑتا ہے۔ اس کے ٹوٹتے ہی لڈو کا ایک ٹکڑا اس کے منھ میں آتا ہے۔ سب کو لگتا ہے کہ اب یہ بچہ پورا لڈو صاف کر جائےگا۔ تبھی وہ بچہ بڑی ممتا اور محبت سے لڈو کا وہ ٹکڑا چھوٹے بچے کے منھ میں ڈالتا ہے اور اسی طرح اس کو کھلاتا جاتا ہے۔
شبدوں کے سبھی طول و عرض کو پار کرتا ہوا ڈائرکٹر کہیں خاموش سین کو بھی بےحد پُراثر بنا سکتا ہے، اس سوچ پر میرا عقیدہ ایسےسین کی شوٹنگ کےکارن ہی روز بہ روز بڑھتا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی میں محسوس کرنے لگا کہ کچھ سین کو علامتی روپ دینے سے وہ بہت ہی بامعنی بن جاتے ہیں۔ ‘مہاتما’ فلم میں آخر میں ایک سین ہے کہ سنت ایکناتھ اور ان کے دیو صفت پنڈت بیٹے میں ایک مذہبی مناظرہ ہوتا ہے۔
ایکناتھ کے دیو شاستر( دینیات) میں کامیاب بیٹے کا خیال ہوتا ہےکہ اپنے قدامت شکن باپ کا منھ دیکھنے سے وہ بھرشٹ ہو جائے گا، اس لیے بحث کے وقت وہ بیچ میں ایک پردہ لگوا لیتا ہے۔ ایکناتھ روشنی کی طرف ہوتے ہیں، اس لیے ان کی پرچھائیں سامنے پڑتی ہے اور اس پرچھائیں میں سے ان کا لڑکا اپنی پنڈتائی بگھارتا دکھائی دیتا ہے۔ بھید، چاتر ورنیہ، پرانیوں میں ویاپت اچنیچتا وغیرہ (مذہبی) موضوعات پر دونوں میں کافی دھواں دھار شاستر ارتھ (مناظرہ) ہوتا ہے۔ اس منظر کے فلمانے میں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ وہ لڑکا کتنا ہی مہان پنڈت کیوں نہ ہو، وہ اس دنیا میں اس انسان پرست مہاتما کی پرچھائیں سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ میرے من کے اس ارادے کے اضافی اور بھی کئی معنی اس منظر سے نکالے جائیں گے، لیکن کیا کبھی کوئی تخلیقی انسان اپنی کسی سرشت کے سبھی طول و عرض کو الفاظ دے پاتا ہے؟
فلم پوری ہو گئی۔
اسے سنسر کے لیے میں خود بمبئی لے گیا۔ سنسر کے ایک ممبر نے ‘مہاتما’ دیکھی۔ اس نے فیصلہ دیا: ”چونکہ یہ فلم ذات پات جیسے متنازعہ سوال پر بنی ہے، میں اکیلا اس کو پاس کرنےکی ذمےداری نہیں لیتا۔ سنسربورڈ کے سبھی ارکان کو فلم دکھانی ہو گی۔” ممبر کا وہ فیصلہ سن کر تو میرے پیٹ میں بل پڑنے لگے۔ ‘سوراجیاچے تورن’ فلم کے سمے ہوا سارا گھٹناچکر پھر ایک بار آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ من میں خدشہ جاگ اٹھا کہ کہیں پھر ویسا ہی نہ ہو جائے۔
اور آخر میں میرا خدشہ صحیح ثابت ہوا! سنسر کے سبھی ممبروں نے فلم دیکھی اور اپنی رائے دی: اس فلم کےکارن اونچی ذاتوں کے ہندوؤں میں غصہ پھوٹ پڑےگا، ذات پرستی بڑھےگی، ملک میں بےاطمینانی پھیلےگی اور نتیجتاً امن و امان خطرے میں پڑ جائے گا! اس لیے سنسر بورڈ کا فیصلہ ہے: ‘مہاتما’ فلم پر مکمل پابندی!’