وہ ایک ہاتھ کمر کے پیچھے کئے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔
سحر۔۔۔۔!
اسنے پکارا۔۔۔
وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔
اسنے واشروم میں جھانکا۔۔۔ دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا۔۔۔
شاید تائی جان کے پاس ہو۔۔۔
وہ گلاب کے پھول کو دیکھتا ہوا خود سے ہم کلام ہوا۔۔۔
اور باہر نکل گیا۔۔۔
تائی جان سحر کہاں ہے۔۔۔؟
اسے عافیہ بیگم کے کمرے میں بھی اسے نا پا کر ان نے پوچھا۔۔۔
بیٹا وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنے کمرے میں گئی ہے۔۔۔
وہ نماز کی تیاری کر رہی تھیں۔۔۔
جواب دے کر انہوں نے نیت باندھ لی۔۔۔
وہ وہاں سے پلٹ گیا ۔ ۔۔۔
پورا گھر دیکھنے کے بعد بھی وہ اسے کہیں نظرنہیں آئی۔۔۔تو اسکا ماتھا ٹھنکا۔۔۔۔
وہ کسی پر کچھ ظاہر کئے بغیر واپس کمرے میں آیا۔۔۔
پریشانی سے اسکا برا حال تھا ۔۔
اسنے کاشی کو کال کرنا چاہی۔۔۔
بیوی کو ڈھونڈ رہا ہے۔۔؟
پیچھے سے آنے والی آواز پر وہ کرنٹ کھا کر مڑا۔۔۔
کھڑکی کے پار دو لال آنکھیں اسے طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
انہیں دیکھتے ہی وہ پہچان گیا تھا۔۔۔
یہ اسی بھیڑیے کی آنکھیں تھیں۔۔۔
جس سے اس کا مقابلہ ہوا تھا۔۔۔۔
کون ہو تم۔۔۔؟
سحر کہاں ہے۔۔۔؟
اسنے ریوالور لوڈ کر کہ اس پر تانا۔۔۔
جوابا اسے ایک خوفناک قہقہہ سننے کو ملا۔۔
تمہاری یہ گولیاں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔۔۔۔
تمہاری سحر میرے پاس ہے۔۔۔۔
اگر چاہیے تو میرے پیچھے آؤ۔۔۔
وہ وہاں سے غائب ہوگیا۔۔۔۔
شام نے تیزی سے چاقو اور ریوالور سنبھالا. اور اچانک یاد آنے پر دراز سے کچھ نکال کر اپنی جیب میں ڈالا۔۔۔
اور فل سپیڈ پکڑتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
آہن یہ ہم کہاں آگۓ۔۔۔؟
سحر جو جنگل میں واپس آنے کی خوشی میں اتنا گم تھی۔۔۔
کہ اسے اردگرد کا کوئی ہوش نہیں رہا۔۔۔
اب عجیب سی سنسان جگہ دیکھ کر وہ حیران ہوتی آہن سے پوچھنے لگی۔۔۔
اس سے پہلے آہن جواب دیتا۔۔۔
وہ چیخی۔۔۔
اور اچھل کر اس جگہ سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔ جہاں وہ کھڑی تھی....
آہن نے ایک نظر لرزتی کانپتی سحر کو دیکھا۔۔۔
اور جھک کر نہایت اطمینان سے اس انسانی کھوپڑی کو اٹھا لیا۔۔۔
آااااااا
۔۔۔۔۔ اس کے اس عمل پر سحر خوف زدہ ہوتی برے سے چیخنے لگی۔۔۔
ارے ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔؟
دیکھو اسے۔۔۔ مرے ہوۓ سے کیا ڈرنا۔۔۔
ڈر تو زندہ سے لگنا چاہئے۔۔۔ جو نقصان بھی پہنچا سکتا ہو۔۔۔
وہ نہایت اطمینان سے اسکے علم میں گویا اضافہ کرتا بولا۔۔۔
اور پھر اسے اٹھاۓ اسکے قریب لانے لگا۔۔۔
نن۔۔نہیں۔۔۔
دد۔۔۔دور رہو۔۔۔وہ وحشت زدہ ہو کر چیخنے لگی۔۔۔
آاااااا ۔۔
اور پھر آہن کو قریب دیکھ کر چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی پوری قوت سے چیخنے لگی۔۔۔
ارے۔۔۔۔!
بس بس۔۔۔
آہن نے کھوپڑی نیچے پھینک کر کوفت سے کہا۔۔۔
وہ آنسوؤں بھری آنکھوں سے اسے نہایت غصے سے دیکھنے لگی۔۔۔
تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو۔۔۔؟
وہ چلائ۔۔۔
ارے مذاق کیا ۔۔۔اب چلو بھی۔۔۔
وہ ہاتھ جھاڑتا مزے سے آگے بڑھ گیا۔۔۔
سحر پہلے تو اسے غصے سے دیکھتی رہی۔۔۔پھر ادھر ادھر دیکھتی بے بس ہو کر اسکے پیچھے بھاگ کر گئی۔۔۔
اب بتا بھی دو۔۔۔یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔
یہ۔ جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اسنے خاصا بڑھا کر کہا۔۔۔۔
ہاں یاد آیا۔۔۔
یہ کسی کی موت کی جگہ ہے۔۔۔
کک۔۔۔کسکی۔۔۔؟
سحر کا چہرہ سفید پڑ گیا۔۔۔ اسکی چھٹی حس خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی تھی۔۔
تمہاری اور کس کی۔۔۔۔؟
وہ نہایت اطمینان سے بولا۔۔۔
نن۔۔۔نہیں۔۔۔۔!
سحر اسکی بات سن کر بے یقینی سے نفی میں سر ہلاتی ایک قدم پیچھے ہٹی۔۔۔
کہ اچانک اسکے پیر زمین میں دھنس گئے۔۔۔
آہن تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے مسکراتا ہوا پیچھے ہوا۔۔۔۔
اوپر سے ایک پنجرے نما جال گرا۔۔۔
اور سحر اس میں قید ہو کر رہ گئی۔۔۔
آہن۔۔۔!
وہ چلائی۔۔۔۔
جی "شکار آہن۔۔۔"؟
وہ ہنسا۔۔۔۔اسکی بات سن کر سحر سانس تک لینا بھول گئی۔۔۔
یہ اس نے کیا غلطی کر دی تھی۔۔۔
اسی وقت بہت سے قہقہوں پر سحر چونکی۔۔۔۔
سامنے نظر آنے والی شکلوں پر اسکی چیخوں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
آہن جا اسکے شوہر کو بھی لے کر آ۔۔۔پہلے وہ مرے گا اسکی نظروں کے سامنے۔۔۔۔اور پھر اسکی باری۔۔۔
شیطان کی آواز پر آہن "جی" کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔
چپ کر۔۔۔۔
شیطان آقا سحر پر دھاڑا تھا۔۔۔
جسکی زبان اب تالو سے چپک گئی تھی۔۔۔۔
وہ ریش ڈرائیو کرتا تیزی سے اس بھیڑیے کا پیچھا کر رہا تھا۔۔۔۔
جسکی سپیڈ کا وہ چاہ کر بھی مقابلہ نہیں پا رہا تھا۔۔۔
اسے نہیں پتا تھا وہ اسے کہاں لے کر جا رہا تھا۔۔۔
وہ بس تیزی سے اسکا پیچھا کئے جا رہا تھا۔۔۔
سحر کا سوچتے ہی اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔۔۔۔
رات کی سیاہی ہر طرف چھائی ہوئ تھی ۔۔
اس سنسان راستے پر اس خون خوار جانور کا پیچھا کرتے ہوئے اسے ذرا سا بھی خوف نہیں آ رہا تھا۔۔۔
بس سحر کی فکر اور پریشانی اسکی جان نکالنے کو کافی تھی۔۔۔
ایک ساتھ سے سٹیرنگ کو کنٹرول کئے اسنے فون نکالا ۔۔
اور چند باتیں ریکارڈ کر کہ شانی اور کاشی کو سینڈ کر دیں۔۔۔وہی دونوں تھے۔۔۔ جو اس مشکل وقت میں اسکی مدد کر سکتے تھے۔۔۔
اس بھیڑیے کے رکتے ہی شام نے جھٹکے سے گاڑی روکی۔۔۔
اور دروازہ کھول کر باہر نکلا۔۔۔
ہے رکو۔۔۔!
وہ اس بھیڑیے کے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔
مگر وہ وہاں سے غائب ہو چکا تھا۔۔۔۔
اس نے پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے اردگرد نگاہ دوڑائ۔۔۔۔
یہ وہی جنگل تھا۔۔۔
اسکی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔۔۔
اب اسے سحر کو کسی طرح سے ڈھونڈنا تھا۔۔
جنگل کے اندر بہت سے راستے تھے۔۔۔۔
وہ ابھی ان میں سے کسی ایک راستے سے اندر جانے کا سوچ ہی رہا تھا۔۔ ۔
کہ اپنے نام کی پکار اور چیخ پر اسے زور دار جھٹکا لگا۔۔۔۔
شاااااام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہ تو سحر کی آواز تھی۔۔۔۔
وہ تیزی سے آواز کی سمت میں بھاگا۔۔
وہاں پہنچتے ہی سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے تھے۔۔۔۔
لاؤ۔۔۔ لاؤ۔۔ اسے ذرا میرے قریب لاؤ۔۔ ۔
وہ شیطان اپنے ساتھی سے اس خرگوش کو اٹھا کہ لانے کو رہا تھا۔۔۔۔
اسنے خرگوش اسکے ہاتھ میں دیا۔۔
دیکھوووووو۔۔۔۔۔
لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آواز کو کھینچ کھینچ کر بات کرتا گویا سحر کی روح نکالنے کا کام کر رہا تھا۔۔۔۔۔
اسے۔۔۔۔ ایسسسسسسسے۔۔۔۔۔!
کاٹتےےے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!
پھررررررر۔۔۔۔۔تمھیں بھی ایسے ہی کااااااٹیں گے۔۔۔۔۔۔
اسنے زندہ خرگوش کے ہاتھ پیر کاٹ دئے۔۔
جو تکلیف سے تقریبا ادھ موا ہو چکا تھا۔۔۔۔
اور اب اسکی کھال اتارنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔
اسکا یہ عمل اور اسکی بات سن کر سحر بے اختیار چیختی شام کو پکارنے لگی۔۔۔۔۔
چپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آہن کی آواز پر وہ ڈر کر منہ پر ہاتھ رکھتی خود کوکنٹرول کرنے لگی۔۔۔
سحر................
اپنے نام کی پکار پر اسنے چونک کر دیکھا۔۔۔
یہ تو شام کی آواز تھی۔۔۔۔
وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔۔
پھر اس پر نگاہ پڑی۔۔۔۔ جو آہن کے پیچھے کھڑا تھا۔۔۔۔
شام۔۔۔۔شام۔۔۔۔۔۔!
وہ زور زور سے چیختی باہر نکلنے کے لئے مچلنے لگی۔۔
سحر۔۔۔۔۔۔۔۔!
شام اسے دیکھ کر اسے دیکھ کر تڑپ کر اسکی طرف لپکا۔۔۔۔
جوں ہی وہ اسکے قریب پہنچا۔۔۔۔
وہ پنجرہ جھٹکے سے اٹھا۔۔
اور کافی اوپر جا کر خلا میں لٹک گیا۔۔۔۔
سحرررر۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
شاااام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وہ دونوں ایک دوسرے کو خود سے دور جاتا دیکھ کر چلّاۓ۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔!
خوف ناک قہقہوں کی آواز پر شام اس طرف مڑا۔۔۔۔
سامنے عجیب سے وجود دیکھ کر اسے اپنی پشت کے بال کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔۔۔۔
انکے وجود آگ کی مانند تھے۔۔۔
منہ سے ٹپکتا لہو ۔۔۔۔۔
کون ہو تم۔۔۔۔۔؟
شام کو ان سے بے حد کراہت محسوس ہوئی۔۔۔۔ تمہاری موت۔۔۔۔!
جواب آقا کی طرف سے آیا۔۔۔
شام غضب ناک ہوگیا۔۔۔
میری بیوی کو چھوڑ دو۔۔۔۔
جو کرنا ہے میرے ساتھ کرو۔۔۔
ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
غصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
چلو ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں۔۔۔۔
پر ہماری ایک چھوٹی سی شرط ہے۔۔۔۔
انکا ایک چیلا بولا۔۔۔
کیا شرط ہے۔۔۔۔
شام کی غضب ناک نگاہیں اب اردگرد کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔۔
بس تم ہمارے اس آہن کے ساتھ ذرا سی لڑائی کر لو۔۔۔ اور ہم تھوڑے مزے لے لیتے ہیں۔۔۔۔
اور پھر لڑائی کے آخر پے تو تم نے ویسے ہی مر جانا ہے۔۔۔۔
پھر تمھیں کیا ؟؟؟کوئی جیئے یا مرے۔۔۔!
وہ حد درجہ مصومیت سے بولا۔۔۔۔
اسکی بات سن کر آہن سمیت سب قہقہے لگانے لگے۔۔۔
سحر اوپر خوف زدہ سی انکی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔
فریز ہو جانے کے خوف سے وہ نیچے بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔
انکی باتیں سن کر شام غصّے سے پاگل ہونے کو آگیا۔۔۔۔
چل آہن۔۔۔۔۔
آقا نے اشارہ کیا۔۔۔
آہن ایک ہاتھ زمین پر رکھے نیچے کو جھکا۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے وہ بھیڑیے کے روپ میں آگیا تھا ۔۔۔
اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر شام ریوالور نکالتا ایک قدم پیچھے ہوا۔۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔
اسکے اس عمل پر انکے قہقہوں سے ایک بار جنگل پھر سے گونج اٹھا تھا۔۔۔۔
شام نے فائر کیا۔۔۔
جو غلط نشانے پر لگا۔۔
عین اسی وقت آہن بھی اس پر چھلانگ لگا چکا تھا۔۔۔۔
اوپر سحر ہاتھ اٹھا کر زور زور سے روتی شام کی سلامتی کی دعائیں کر رہی تھی۔ ۔جسکی امید وہ تقریبا کھو چکی تھی۔۔۔۔
شام پشت کے بل زمین پر گرا۔۔۔۔
ریوالوراسکے ہاتھ سے دور جا گرا۔۔۔۔
آہن اسکے سینے پر پیر رکھے فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھتا اسکی گردن دبوچنے کے لئے آگے ہوا۔۔۔۔
شام نے اپنی آستین کے اندر چھپا ہوا چاقو کھینچا۔۔۔۔
اور پوری قوت سے آہن کی پشت میں گھسیڑ دیا۔۔۔۔
وہ تکلیف سے بلبلا کر پیچھے ہٹا تھا۔۔۔۔۔
انگڑائ لیتے ہوئے وہ اٹھا۔۔۔ اور آنکھیں مل کر وقت دیکھا۔۔۔
ابھی رات کا پہلا پہر شروع ہوا تھا۔۔۔۔
سر درد کے باعث وہ جلدی سے سو گیا تھا۔۔۔۔
فون اٹھا کر اسنے مسیجز چیک کئے۔۔۔
شام کا ایک وائس مسیج آیا ہوا تھا۔۔۔۔
اسنے اوپن کیا۔۔
"کاشی یار بہت بڑی مصیبت آ گئی ہے۔۔۔خدا کے واسطے شانی اور بابا کو لے کر اسی جنگل میں آ۔۔۔۔ فورا سے پہلے ۔۔۔"
وہ ریکارڈنگ سن کر شاکڈرہ گیا۔۔۔۔
اسنے ٹائم چیک کیا ۔۔۔ آدھے گھنٹے پہلے کا مسیج تھا۔۔۔۔
شامی۔۔۔۔۔!
وہ پریشانی سے بولتا تیزی سے باہر نکلا۔۔۔
اب اسے اپنا کام کرنا تھا۔۔۔۔۔
شام کمر کے بل کھسکتا پیچھے ہوا۔۔۔۔
آہن تکلیف سے بلبلاتا سر جھٹک رہا تھا۔۔۔۔۔
شام نے اٹھنا چاہا۔۔۔۔
مگر غضب ناک ہوئے آہن نے پھر سے اس پر حملہ کر دیا۔۔۔۔
اور اسکی بازو دانتوں سے جکڑے اسے گھسیٹتا گیا۔۔۔۔
شام اس حملےکے لئے تیار نہیں تھا۔۔ ۔۔
اسکے دانت اپنی کھال میں اترتے دیکھ کر سسک اٹھا۔۔۔۔ اسنے دوسرے ہاتھ سے آہن کو پیچھے کرنے کی کوشش کی۔۔۔ مگر وہ اس پر بھی جھپٹ پڑا۔۔۔
وہ شام کو دانتوں سے زمین پر گول گول کھینچتا جا رہا تھا۔۔۔
وہاں دھول مٹی ہر طرف پھیل گئی۔۔۔۔
بچاؤ کے لئے کچھ ڈھونڈتے ہوئے شام کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز کا پتھر آیا۔۔۔۔
جو اسنے پوری قوت سے آہن کے سر میں دے مارا۔۔۔
اور خود بازو کو تھامے لہو رنگ آنکھوں سے آہن کو دیکھتا پیچھے کھسکا۔۔۔ اسنے دوسرے ہاتھ سے آہن کو پیچھے کرنے کی کوشش کی۔۔۔ مگر وہ اس پر بھی جھپٹ پڑا۔۔۔
وہ شام کو دانتوں سے زمین پر گول گول کھینچتا جا رہا تھا۔۔۔
وہاں دھول مٹی ہر طرف پھیل گئی۔۔۔۔
بچاؤ کے لئے کچھ ڈھونڈتے ہوئے شام کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز کا پتھر آیا۔۔۔۔
جو اسنے پوری قوت سے آہن کے سر میں دے مارا۔۔۔
اور خود بازو کو تھامے لہو رنگ آنکھوں سے آہن کو دیکھتا پیچھے کھسکا۔۔۔ اسنے دوسرے ہاتھ سے آہن کو پیچھے کرنے کی کوشش کی۔۔۔ مگر وہ اس پر بھی جھپٹ پڑا۔۔۔
وہ شام کو دانتوں سے زمین پر گول گول کھینچتا جا رہا تھا۔۔۔
وہاں دھول مٹی ہر طرف پھیل گئی۔۔۔۔
بچاؤ کے لئے کچھ ڈھونڈتے ہوئے شام کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز کا پتھر آیا۔۔۔۔
جو اسنے پوری قوت سے آہن کے سر میں دے مارا۔۔۔
اور خود بازو کو تھامے لہو رنگ آنکھوں سے آہن کو دیکھتا پیچھے کھسکا۔۔۔
جو اب پاگلوں کی طرح زبان نکالے کچھ قدم پیچھے ہٹتا نیچے گر گیا۔۔۔
اسے نیچے گرا دیکھ کر شام ہمت کر کہ اٹھا۔۔۔
تکلیف کی شدّت سے مسلسل اسکی آنکھوں سے پانی جاری تھا۔۔۔۔
غررر۔۔۔۔غرررر۔۔۔۔۔
اسے درخت پر چڑھتا دیکھ کر آہن سر زمین پر مسلتا اٹھنے کی کوشش کرتا غرایا۔۔۔
شام نے درخت پر چڑھ کر اپنے. ڈولتے سر کو تھاما۔۔۔
درد کی شدّت سے وہ غنودگی میں جا رہا تھا۔۔۔۔
اسکے بازو برے طریقے سے لہو لہان تھے۔۔۔ اور جسم پر ان گنت ذخم پڑ چکے تھے۔۔۔
آقا اور اسکے ساتھی منہ پر گویا تالے لگاۓ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔۔۔
آہن کے ہارنے کے خوف نے انکی زبانیں بند کر دی تھیں۔۔۔۔
سحر دل تھامے بس سارا منظر دیکھ رہی تھی...
غرررر۔۔۔غرر۔۔۔۔
آواز پر شام نے ٹہنی کا سہارا لئے نیچے دیکھا۔۔۔
آہن پھر سے درخت کے نیچے کھڑا اچھل اچھل کر اسے پھر سے للکار رہا تھا۔۔
شام کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔۔۔
اسنے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ مارا۔۔۔
ایک پڑیا اسکے ہاتھ لگی۔۔۔
جو بابا جی نے اسے کسی مشکل وقت میں استعمال کرنے کے لئے دی تھی۔۔۔۔
اور بھلا اس سے زیادہ مشکل وقت کونسا تھا۔۔۔۔
شام نے نیچے غراتے ہوئے آہن کو ایک نظر دیکھا۔۔۔
اور مٹھی بھر وہ سفوف اس پر اچھال دیا۔۔۔۔۔
تو ختم۔۔۔۔!
آہن کو دیکھتے ہوئے وہ ہنس کر بولا۔۔۔۔
جو سفوف خود پر گرنے کے باعث اب زمین پر لوٹ رہا تھا۔۔۔۔
اسکے جسم سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔۔
رفتہ رفتہ وہ اپنے اصلی روپ میں آ رہا تھا۔۔۔۔
شام نے درخت سے چھلانگ لگائی۔۔۔۔
اور آہن کے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔۔۔
جو اسی کی طرح زمین پر لوٹ رہے تھے۔۔۔
لگتا ہے یہ بھی تمھارے ساتھ جائیں گے۔۔۔۔
شام نے لڑکھڑاتے ہوئے اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ آہن سے کہا۔۔۔۔
فتح کے جوش نےشام کے ہوش بحال رکھے ہوئے تھے۔۔۔۔
اسکی بات سن کر تڑپتا ہوا آہن غضب ناک ہوگیا۔۔۔
وہ تو فتح کے نشے میں چور اس سے لڑنے چلا تھا۔۔۔
مگر اس نے وہی سفوف اس پر پھینکا تھا۔۔۔۔
جس سے اسکی بہن موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔۔۔
بچے گا تو تو بھی نہیں۔۔۔۔
اسنے بڑبڑاتے ہوئے شام اپنی
انگلیاں کر کہ خاص انداز میں موڑیں۔۔۔۔
اس سے خاص شعائیں نکل کر شام کی طرف بڑھیں۔۔۔
شام جو اوپر روتی ہوئی سحر کی طرف اچانک متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔
بے خبر تھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ اپنی بے دیہانی کی خطا کھاتا۔۔۔۔
دوسری طرف سے آنے والی ایک ریڈ شعاع نے آہن کی شعاع کو ہٹ کیا.۔۔۔۔
دونوں طاقتیں آپس میں ٹکرائیں۔۔۔
مٹی۔۔۔دھول پتھروں اور ناگوار بدبو کا ایک طوفان تھا جو وہاں اٹھا تھا ۔۔۔
شام قلابازیاں کھاتا دور جا گرا تھا۔۔۔۔
وہ قلابازیاں کھاتا دور جا گرا۔۔۔۔
دھول مٹی کے طوفان سے بچنے کے لئے شام نے بے اختیار اپنے چہرے کو بازو سے ڈھانپ لیا۔۔۔
اس طوفان میں اسے مسلسل کسی کے کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔۔
مگر اب اس میں ہلنے کی بھی سکت باقی نہیں تھی۔۔۔
جسم جیسے سن ہوگیا تھا۔۔۔۔
سحر جس جال میں قید تھی وہ خود با خود نیچے ہوا اور غائب ہوگیا۔۔۔۔
اب کراہنے کی آوازیں بند ہو گئی تھیں۔۔۔
شام۔۔۔ شام۔۔۔۔!
سحر اسکا نام پکارتی اسکی طرف لپکی۔۔۔۔
شام نے سر اٹھانے کی کوشش کی۔۔۔۔
مگر نا کر پایا۔۔۔۔
شام۔۔۔۔ !
وہ اسکے پاس گھٹنوں کے بل آ بیٹھی۔۔۔
اور اسے سہارادے بیٹھانے کی کوشش کی۔۔۔
وہ اسکے کندھے سے
سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔۔۔
اسکی آنکھیں بند تھیں۔۔۔
اور سانسوں کی آواز بہت تیز تھی۔۔۔۔
بابا جی نے گہرا سانس لیا۔۔۔۔۔
اور اردگرد دیکھا۔۔۔۔
آہن اور اسکے ساتھیوں کا نام نشان بھی باقی نہیں تھا۔۔۔
انکی راکھ بھی اس دھول مٹی کے طوفان کی نظر ہوگئی تھی۔۔۔۔
جو دنیا پے قبضہ کرنے کے خواب دیکھتے تھے۔۔
آج وہ اسی دنیا کی خاک کا حصہ بنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
شکر تھا کہ وہ موقع پر آگۓ تھے۔۔۔ورنہ شاید شام زندگی کی بازی ہار جاتا ۔۔۔۔۔
بابا جی آپ تو بڑے فاسٹ ہو۔۔۔۔
بھاگ بھاگ کر ہانپتے ہوئے شانی نے بابا جی کو کہا۔۔
اسکے پیچھے کاشی بھی تھا۔۔۔۔
شامی۔۔۔۔ان دونوں کی نظر شام پر پڑی۔۔۔ تو تڑپ کر اسکی طرف لپکے۔۔۔
مگر بابا جی نے انہیں پیچھےکالر سے پکڑ کر واپس کھینچا ۔۔۔۔
اور ایک ایک لاٹھی پھر سے ان کے سر پر ٹھوکی۔۔۔۔۔
بابااااا۔۔۔۔ ۔۔
شانی کا غصّے سے برا حال ہوگیا۔۔
اندھا ہے کیا۔۔۔۔؟
نظر نہیں آتا کہ اب حالات ٹھیک ہو گئے ہیں۔۔سب کچھ ٹھیک ہے۔۔۔۔
اور اسکی بیوی اسکے پاس بیٹھی ہے ۔۔۔انہیں باتیں کرنے دو۔۔۔۔
آؤ میں تمھیں موہن قلعہ دکھاتا ہوں۔۔ ۔
بابا جی کی اس آفر پر شانی کو اپنا غصّہ ٹھنڈا ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔۔۔
اور وہ دونوں بابا جی کے پیچھےچل پڑے۔۔۔۔
*
شام مجھے معاف کر دو تمھیں میری وجہ سے اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔۔۔۔
سحر روتے ہوئے اسکے ماتھے سے بہتے خون کو صاف کرتی بول رہی تھی۔۔۔۔
شام بلکل خاموش اسکی معافیاں اور التجائیں سن رہا تھا۔۔۔۔
۔
شام پلیز مجھ سے ناراض مت ہو ۔۔۔۔
کچھ بولو تو سہی۔۔۔۔ میں مر جاؤن گی۔۔۔
وہ بے بسی سے بولی۔۔
کیوں کیا ایسا۔۔۔۔؟
شام کی آواز میں شکوہ تھا۔۔۔۔
مم۔۔۔مجھےمعاف کر دو۔۔۔۔مجھے آہن نے تمھارے خلاف بھڑکایا۔۔۔
اور پھر تم نے مجھے ڈانٹا۔۔۔۔
مجھے لگا وہ ٹھیک کہ رہا ہے۔۔۔۔
وہ آنسو پونچھتی ہوئی بولی۔۔۔۔
میں اگر تمھیں ڈانٹ دوں۔۔۔تو کیا تم مجھے ایسے ہی چھوڑ کہ چلی جاؤ گی۔۔۔۔؟؟؟؟
وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
کبھی نہیں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔
وہ زور زور سے نفی میں ہلانے لگی۔۔۔
میں تمھیں ہر وقت ڈانٹتا ہوں۔۔۔ اور اسکا انجام بھی دیکھ چکا ہوں۔۔۔
تو۔۔۔۔۔۔۔!
میں آج تمھیں معاف کر دوں گا۔۔۔
وہ ہنسا ۔۔۔
سچ۔۔۔۔؟
سحر خوش ہوگئی تھی۔۔۔
وہ تو ایک زور دار تھپڑ کی پکّا امید لگاے بیٹھی تھی۔۔۔۔
ہمم۔۔۔۔!
شام نے اسکے سر پر بوسہ دیا۔۔۔۔
اسے خود کے قریب دیکھ کر وہ پر سکون ہو گیا تھا۔۔۔۔
اسے لگا تھا وہ اسے کھو چکا ہے۔۔۔۔۔
آاااااا۔۔۔۔۔شامی کمینےیہ کونسی جگہ ہے کنوارہ پن دور کرنے کی۔۔۔۔
وہ تینوں جو واپس آگۓ تھے۔۔۔۔
شانی کی نظر سحر کے سر پر بوسہ لیتے شام پر پڑی۔۔۔۔
تو وہ چیخ مار کر پلٹتا کاشی کے گلے لگ گیا۔۔۔۔
اور سامنے سے آتے بابا جی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دئے۔۔۔۔
جو انہوں نے لاٹھی مار کر پیچھے ہٹا دئے تھے۔۔۔
بابا۔۔۔۔شانی چلّایا تھا۔۔۔
اسکی حرکت پر سب کے مسرت بھرے قہقہے سے جنگل گونج اٹھا تھا۔۔۔۔
(ایک مہینے بعد)
آ۔۔۔ راجو نہیں کرو۔۔۔
گر جاؤ گے۔۔۔
سحر کھلکھلاتی ہوئی بھاگتی راجو کو کہ رہی تھی۔۔۔
جو اسکے کندھے سے اچھلتا ہوا درختوں پر بھاگ دوڑ رہا تھا۔۔۔
اس سے کچھ فاصلے کھڑا شام ٹوکری میں پھول اکٹھے کر رہا تھا۔۔۔
جسکی اسپیشل سحر نے خواہش کی تھی۔۔۔۔
ہر طرف رنگ برنگے پرندوں کی چہچہاہٹ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا۔۔۔ چھوٹے چھوٹے جانور۔۔۔
جو اب شام سے بھی مانوس ہوگۓ تھے۔۔۔
اور سحر کی کھلکھلاہٹیں سن کر شام مسکراۓ جا رہا تھا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ پلٹا۔۔۔
اور راجو کے ساتھ باتیں کرتی سحر کی طرف آیا۔۔
اور پیچھے سے جا کر وہ تاج اسکے سر پر رکھ دیا۔۔۔
کتنا پیارا ہے۔۔۔۔ سحر خوشی سے بولی۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔
اب گھر چلیں۔۔۔۔؟
وہ اسکا ہاتھ تھامے کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
بازؤں میں بازو ڈالے وہ وہاں سے چل پڑے۔۔۔۔
ہر شام وہ سحر کو یہاں لایا کرتا تھا۔۔۔۔
جس چیز میں وہ خوشی محسوس کرتی۔۔۔اور وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔۔۔۔
بہت غم وہ سہہ چکی تھی۔۔۔۔
اب اسکا صرف خوشیوں پر حق تھا۔۔۔
شام نے جوتے کا سٹریپ بند کیا۔۔۔
اور اسکا پیر اٹھا کر پورا جائزہ لیا۔۔۔
بلیک ہائی ہیلز والے جوتے میں اسکے دودھیا پیر چمک رہے تھے۔۔۔
پرفیکٹ۔۔۔۔!
اسنے سحر کو گڈ ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
سر پیک کر دوں۔۔۔؟
سیلز بواۓ آگے بڑھا۔۔۔
اوں ہونہہ۔۔۔ اسکا دوسرا شوز دو۔۔۔
اسنے دوسرا شوز پکڑا۔۔۔اور وہ بھی سحر کے دوسرے پیر میں سجا دیا۔۔۔
پیمنٹ کرنے کے بعد وہ دکان سے باہر نکل اے۔۔۔
یہ موسم کی بارش۔۔۔
یہ بارش کا پانی۔۔۔
یہ پانی کی بوندیں۔۔۔۔
تجھے ہی تو ڈھونڈیں۔۔۔
باہر زوروں سے ہوتی بارش دیکھ کر شام گنگنایا۔۔۔
شام آپکی آواز کتنی پیاری ہے۔۔۔
سحر خوشی سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔
ہاں پر ہمارے بےبی سے زیادہ نہیں۔۔۔
شام کا اشارہ سمجھ کر سحر شرم سے سرخ چہرہ لئے مسکرانے لگی۔۔۔
کچھ دن پہلے طبیعت خرابی کی وجہ سے وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔۔
تب ہی ان دونوں کو یہ خوش خبری سننے کو ملی تھی ۔۔۔
شام کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔
شانی نے بے حد مبارک دینے اور زور سے اسے جھپی ڈالنے کے بعد نہایت افسوس سے یہ کہا تھا۔۔۔
کہ اب وہ اس پرچم کے ساۓ تلے ایک نہیں رہے تھے۔۔۔۔
شام اسکی بات سن کر بے اختیار ہنس پڑا تھا۔۔۔۔ اب وہ کافی حد تک اپنے غصے کو کنٹرول رکھتا تھا۔۔۔
تم اس حالت میں ہائی ہیلز پہن کر گیلی زمین پر کیسے چلو گی۔۔۔
شام فکر مند ہوا.
چل لوں گی۔۔۔
وہ بے فکر ہو کر بولی۔۔۔
مگر اس سے پہلے شام اسکی طرف پشت کئے گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔
چلو ۔۔۔۔۔!
شام نے اسے بلایا۔۔۔۔
سحر نے چھتری کھولی۔۔۔۔
اور شام کی گردن کے گرد بازو حمائل کر دئے۔۔۔
شام اسے اٹھاۓ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
چھتری کے نیچے وہ دونوں چھپ گئے تھے۔۔۔
آ۔۔شام میں گر جاؤں گی۔۔۔
سحر ہنسی۔۔۔۔!
تمھیں کیا لگتا ہے۔۔میں تمہیں گرنے دوں گا۔۔۔۔؟
کبھی نہیں۔۔۔۔
وہ اسکے گال کھینچنے لگی۔۔۔
وہ دونوں ہنستے ہوئے سڑک پار کرتے گئے۔۔۔
لوگ ستائش بھری نظروں سے اس خوبصورت جوڑے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
جو اردگرد سے بے خبر اپنی باتوں پر کھلکھلا رہے تھے۔۔۔۔
بارش خوب زور پکڑ رہی تھی۔۔۔
آسمان پر چمکتے چاند نے اس ہنستے مسکراتے جوڑے کو دیکھا۔۔۔
اور مسکراتا ہوا بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا ۔۔
ختم شد