اب آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں۔۔۔
مگر خیال رکھنا ہے۔۔ انہیں کسی بھی قسم کی ٹینشن ذہنی دباؤ۔۔۔وغیرہ سے دور رکھنا ہے۔۔۔۔
آپکے پیشنٹ کی حالت ویسے بھی عام مریضوں سے الگ تھی۔۔۔۔
سو پلیز خیال کیجئے گا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں شام کو ہدایت دیں۔۔۔ اور آگے بڑھ گیا
۔۔
شام نے اللّه کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔۔۔کہ وہ اب سنبھل چکی تھیں۔۔۔
میڈیسنز لینے کے لئے وہ سٹور کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ پھر اسے عافیہ بیگم کو لے کر گھر بھی جانا تھا۔۔۔
علی صاحب اور سدرہ کو تو وہ گھر بھیج چکا تھا۔۔۔۔
لیں بھئ عافیہ بھابی آپکے لئے گرما گرم سوپ۔۔۔
سدرہ بیگم نے سوپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔۔۔
اور آپکو پتا ہے۔۔یہ ہماری سحر نے بنایا ہے۔۔۔ فرسٹ ٹائم۔۔۔۔!
انہوں نے پیچھے سے جھانکتی سحر کی طرف اشارہ کیا ۔۔
میں ٹیسٹ کرتی ہوں۔۔۔عافیہ بیگم مسکراتے ہوئے نقاہت بھری آواز میں بولیں۔۔۔
سحر آگے بڑھی اور انکے پاس جگہ بنا کر بیٹھی۔۔۔
اپنے ہاتھوں سے اس نے مسکراتے ہوئے چمچ انکی طرف بڑھایا۔۔۔۔
عافیہ بیگم کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگیے۔۔۔
ارے واہ۔۔۔ بہت مزیدار۔۔۔!
انہوں نے تعریف کی۔۔۔۔
سحر خوشی سے کھل اٹھی۔۔۔۔
یہی محبتیں تو تھیں۔۔جن کے بھروسے وہ جی رہی تھی۔۔۔۔
ورنہ مورے کے جانے کے بعد تو گویا وہ مر ہی گئی تھی۔۔۔
اور پھر شام نے اس رات اسے اپنی محبت کے جادو سے زندہ کیا۔۔۔۔
اور پھر خود ہی مار کر دفنا بھی دیا۔۔۔۔
وہ حد درجہ مایوسی کا شکار تھی ۔۔۔
ارے رک کیوں گئی۔۔۔پلاؤ نا
۔۔عافیہ بیگم نے اسے پکارا۔۔۔
جی۔۔۔ وہ چونکی۔۔۔اور مسکرا کر انہیں پلانے لگی۔۔۔۔
وہ برتن رکھ کر واپس پلٹی۔۔۔۔
سامنے دروازے میں شام کو کھڑا پایا۔۔۔
وہ پورا کا پورا دروازے کے سامنے حائل تھا۔۔۔ اسکے گزرنے کی جگہ نہیں تھی۔۔۔
سحر کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی۔۔۔
راستہ دو۔۔۔ وہ سر جھکاۓ بولی۔۔۔
میرےدل کا راستہ۔۔۔؟
بہت آسان ہے۔۔۔۔
وہ شریرہوا۔۔۔
فضول گوئی سے پرہیز کرو۔۔۔۔
اور راستہ دو۔۔۔
اسے اس دوغلے شخص پر شدید غصہ آیا۔۔۔
جو رنگ بدلنے میں گرگٹ کی طرح ماہر تھا۔۔۔۔
میں بھی تو یہی کہ رہا ہوں۔۔۔میرے دل کے راستے تمھارے لئے ہمیشہ کھلےہیں۔۔۔۔
ذرا ان راستوں پے چل کہ تو دیکھو۔۔۔۔
وہ باز نہیں آیا۔۔۔۔
سحر نے غصّے سے زور دار دھکّا دے کر اسے پیچھے کیا۔۔۔۔
اور تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔
پیچھے شام سینے پر ہاتھ رکھے اسے دیکھے گیا۔۔۔۔
غصّےمیں تو واقع ہی اسے وہ اپنی بیوی لگی تھی۔۔۔۔
سحر بیٹی۔۔۔ذرا باہر آؤ۔۔۔
دیکھو میں کیا لایا۔۔۔
علی صاحب نے آواز لگای۔۔۔
سحر انکی آواز سن کر کمرے سے باہر نکلی۔۔۔
علی صاحب لان میں درخت کے ساتھ گاۓ کو باندھ رہے تھے۔۔۔
جانور دیکھ کر وہ خوشی سے اسکی طرف لپکی۔۔۔
وہ تو جانوروں کے ساتھ کھیلتی تھی۔۔۔
راجو تو اسکا گہرا دوست تھا۔۔۔
جسے دیکھے ہوئے تو کافی وقت ہوگیا تھا۔۔۔
وہ خوشی سے اسکی طرف لپکی۔۔۔
اسی وقت شام گھر میں داخل ہوا۔۔۔
جسکی نظر سحر کی طرف پڑی۔۔۔ جو خوشی سے اس گاۓ کی طرف بھاگ کر جا رہی تھی۔۔۔ جو وہ اور علی صاحب قربانی کے لئے لے کر اے تھے۔۔۔
وہ مسکرانے لگا۔۔۔
بیٹا یہ کیا باتیں کر رہی ہے اس کے ساتھ۔۔؟
عی صاحب نے سحر کو بے حد حیرانی سے دیکھتے ہوئے شام کو ٹہو دیا۔۔
جو کب سے گاۓ سے سرگوشیوں میں لگی ہوئی تھی۔۔۔
بابا آپکو بتایا تو تھا۔۔۔
جنگل میں رہی ہے۔۔۔شاید انکی زبان سمجھتی ہو۔۔۔
شام خود بھی بے یقینی کی کفیت میں بولا۔۔۔
چاچو آپ اسکا چارہ لاۓ ہیں۔۔۔؟
وہ جوش سے بولی۔۔۔وہ دونوں جو منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔۔ گڑبڑا گئے۔۔۔
تو رانی کو بھوک لگی ہے۔۔۔ وہ اب چارہ کھاۓ گی۔۔۔
کون بیٹا۔۔۔؟
علی صاحب اب پکّا والا ہی حیران ہو گئے۔۔۔
ارے چاچو یہ گاۓ اسکا نام میں نے رانی رکھا ہے۔۔۔
سحر نے بے حد خوشی سے انہیں بتایا۔۔۔
اوہ۔۔! اچھا اچھا۔۔۔وہ سر ہلاتے ہوئے بولے۔۔۔
شام جو یہ سارا معاملہ دیکھ رہا تھا۔۔۔
منہ پر ہاتھ رکھے بے اختیار ہنس پڑا۔۔۔
علی صاحب کے ساتھ سحر نے بھی اسے نہایت سخت نظروں سے گھورا۔۔۔۔
اور ہونہہ کرتی چارہ اٹھانے چلی گئی۔۔۔
جتنی محبّت تم اس گاۓ کے لئے دکھا رہی ہو۔۔۔مجھے تو اب اس گاۓ سے جلن ہونے لگی ہے۔۔۔
شام کی آواز پر وہ چونکی۔۔۔
اور پھر اسے اگنور کر کہ برتن میں پانی بھرنے لگی۔۔۔
یہ کام کر کہ اس نے جھاڑو اٹھایا۔۔۔
اور بڑی مہارت سے وہاں سے سارا گند صاف کرنے لگی۔۔۔
ارے ارے۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔ ماسی کر لے گی۔۔۔
اسنے اسے روکا۔۔۔
پتا ہے۔۔ قربانی کا جانور کس قدر عقیدت والا ہوتا ہے۔۔۔ ہمارے لئے رحمت۔۔۔!
اور اسکا کام کرنا میرے لئے خوشی کا باعث ہے۔۔۔اس کام سے مجھے کوئی کراہت محسوس نہیں ہوتی۔۔۔
بولتے ہوئے لٹ بار بار اسکے چہرے کے سامنے آتی تھی۔۔ جس کو وہ بار بار سر جھٹک کر پیچھے ہتا رہی تھی۔۔۔
اور یہی جانور ہی تو ہوتے ہیں۔۔۔ جنکے دل ہر طرح کی میل سے پاک صاف ہوتے ہیں۔۔۔
نا کسی کا برا چاھتے ہیں۔۔۔ اور نا کسی کا برا کرتے ہیں۔۔۔
نا چاھتے ہوئے بھی وہ اپنے لہجے کی نمی کو نہیں چھپا سکی۔۔۔
پرانا چارہ برتن سے نکال کر اس نے سائیڈ میں لگایا۔۔۔ اور تازہ چارہ اس میں ڈالنے
لگی۔۔۔
شام نے اسکے چہرے پر جھولتی لٹ کو پیچھے کیا۔۔۔
چارہ ڈالتی سحر کا ہاتھ وہیں رک گیا۔۔۔
کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔وہ اسکے ہاتھ جھٹک گئی۔۔۔
شام خاموش ہو کر رہ گیا۔۔۔۔
اچھے سا کھانا رانی۔۔۔
کل تم بھی مجھ سے جدا ہو جاؤ گی۔۔۔
وہ گاۓ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتی کہ کر تیزی سے اندر بھاگ گئی۔۔۔۔
آنسو گالوں پر پھسلتے جا رہے تھے۔۔۔
شام بے بسی سے اسے خود سے دور ہوتا دیکھے گیا۔۔۔
عید مبارک۔۔۔۔!
شام نے ڈریسنگ کے سامنے کھڑی چوڑیاں پہنتی سحر کے کانوں میں سرگوشی کی۔۔۔
وہ خاموشی سے ٹاپس اٹھاۓ کانوں میں پہننے لگی۔۔۔
پھر پیچھے کو اپنا مکمّل جائزہ لینا چاہا۔۔۔
کہ شام کے سینے سے اسکا سر ٹکرایا۔۔۔
اسنے نگاہیں اٹھا کر سامنے دیکھا۔۔۔
شام نے مسکراتے ہوئے اسے آنکھ ماری۔۔۔
قسم سے ہم دونوں ساتھ میں پاکستان کا جھنڈا لگ رہے ہیں۔۔
اسنے سحر کے انگوری رنگ کے جوڑے اور اپنے سفید کرتے کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔
سحر جھنجھلا کر نفی میں سر ہلاتی وہاں سے جانے لگی۔۔۔
عیدی نہیں لو گی۔۔۔
شام نے اسکا ہاتھ روک کر پوچھا۔۔۔
تم عیدی مجھے بہت پہلے دے چکے ہو۔۔۔
اپنی اصلیت دکھا کہ۔۔۔
نہیں چاہیے مجھے اب کوئی عیدی۔۔۔
نا دل میں اب ایسی خواہشات کی جگہ ہے۔۔۔
وہ غصے سے کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔۔۔
شام نے اضطراب کے عالم میں بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔۔
اسے اب بے حد غصّہ آ رہا تھا۔۔۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں مسلسل جاری تھیں۔۔۔
مرد حضرات باہر قربانی میں مصروف تھے۔۔۔
کیوں رو رہی ہے میری گڑیا۔۔۔۔ سدرہ بیگم نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔
کک۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔وہ جلدی سے آنسو صاف کر کہ مسکرائ۔۔۔
ضرور اپنی رانی کے لئے رو رہی ہوگی۔۔۔
وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں۔۔۔
وہ خاموش رہی۔۔۔
بیٹا۔۔اپنی محبوب چیز اللّه کی راہ میں قربان کرنے کا اجر اگر تم جان لو۔۔۔تو تمھارے یہ آنسو تھم جائیں۔۔۔
انہوں نے اسکا ماتھا چوما۔۔۔
پر چچی۔۔۔! اپنی محبوب چیز کھونے کا بھی تو غم ہوتا ہے نا۔۔۔وہ بھرائ ہوئی آواز میں بولی۔۔۔
بلکل میری جان ہوتا تو ہے۔۔۔ لیکن اگر صبر رکھو۔۔ تو اس کے بدلے میں اجر بھی ملتا ہے۔۔
جنّت ملتی ہے۔۔۔
اور اگر ہمیں اس چھوٹے سے عمل کے پیچھے جنّت ملنے لگی۔۔۔تو پھر اداسی کیسی۔۔۔؟
انہوں نے نرمی سے اسکا گال سہلایا۔۔۔
ٹھیک کہتی ہیں آپ۔۔۔
وہ آنسوؤں بھری آنکھوں سے مسکرائی ۔۔
اچھا چلو۔۔۔
ہم ذرا گوشت کے لئے مصالہ بناتے ہیں۔۔۔
آج میں اپنی گڑیا کو نئی ڈشز سکھاؤں گی۔۔۔
وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کچن کی طرف بڑھ گیں۔۔۔
انکی باتیں سنتی عافیہ بیگم بہو ساس کی اس محبّت پر نہال ہو گئیں۔۔۔
آہن وقت پورا ہونے کو ہے۔
اب وہ وقت آ گیا ہے۔۔۔ جسکا ہم بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔
آج ہمارے صبر کا پھل ہمیں ملنے والا ہے۔۔
جلدی جا اور اس لڑکی کو لے آ۔۔۔۔
جی آقا۔۔۔
آہن جوش سے بولا۔۔۔
اور ہاں یاد رکھنا۔۔۔
آج کی رات ہماری جان بھی تیری جان سے جڑی ہے۔۔۔
اگر تو نے کوئی غلطی کی۔۔۔تو تیری وجہ سے ہمارا سارا قبیلہ ختم ہو جائے گا۔۔
اسلئے کوئی غلطی نہیں۔۔۔۔۔
آقا کی بات سن کر آہن کے پسینے چھوٹنے لگے۔۔۔۔
ججج۔۔۔جی۔۔۔۔
چل اب جلدی سے نکل لے۔۔۔
جی جو حکم آقا۔۔۔۔
اس نے کپڑا اپنے سر پر رکھا۔۔۔
اور ایک لمحے میں وہاں سے غائب ہوگیا۔۔
شام ہوگئی تھی۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔
بدن تھکن سے چور تھا۔۔۔
آج سارا دن وہ سدرہ بیگم کے ساتھ کچن میں لگی رہی۔۔
پھر عافیہ بیگم کے ساتھ تھوڑی دیر گپ شپ بھی کی تھی۔۔۔
اور اپنے رویے کی معافی بھی مانگی تھی۔۔۔۔
جوابا انہوں نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔۔۔
وہ اسے بلکل مورے کی طرح لگی تھیں۔۔۔
شام گوشت بانٹنے کے بعد دوبارہ گھر نہیں آیا تھا۔۔۔
سدرہ بیگم کے بار بار پوچھنے پر اس نے یہی بتایا تھا۔۔۔ کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہے۔۔۔
وہ اس سے سخت خفا تھیں۔۔۔ کہ وہ نئی نویلی دلہن کے ساتھ گھومنے کی بجاۓ یاروں کے ساتھ عیاشیاں کر رہا تھا۔۔۔
وہ ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔۔۔
ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا۔۔۔
اسے اپنا آپ بہت ہی بے رونق لگا۔۔۔
اتنا سجنے سنورنے کے باوجود وہ اپنی اداسی کو نہیں چھپا پائی تھی۔۔۔
اسنے لاکٹ اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔۔۔
کہ پیچھے سے آنے والی آواز پر چونک گئی۔۔۔۔
سحر۔۔۔۔۔!
وہ تیزی سے پلٹی۔۔۔
وہاں آہن کھڑا تھا۔۔۔۔
خوشی سے بے اختیار اسکی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔۔۔
آہن تم کہاں چلے گئے تھے۔۔۔
تم ٹھیک کہتے تھے۔۔۔
شام بہت برا ہے۔۔۔
وہ مجھےاپنے مقصدکے لئے استعمال کرتا تھا۔۔۔
وہ بس اسے بتاتی چلی گئ۔۔۔۔
آہن خاموشی سے اسکی باتیں سنتا رہا۔۔۔
کچھ بول کیوں نہیں رہے۔۔۔
سحر بے چین ہو کر بولی۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔بس سوچ رہا ہوں تمھیں اس مصیبت سے کیسے نکالوں۔۔۔۔
وہ مکّاری سے بولا. ۔
مجھے اپنےساتھ لے چلو۔۔۔
وہ ایک لمحےمیں کہ گئی۔۔۔۔
آہن نے جھٹکےسے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔
اسکا شکار جب خود ہی اسکے پاس آنے کو بے تاب تھا۔۔۔
تو اسے بھلا کونسا باتوں کے جال بنانے کی ضرورت تھی۔۔۔
مگر سحر۔۔۔۔! شام کا کیا۔۔۔؟
اسنے ذرا فکرمندی ظاہر کی
اگر مگر کچھ نہیں۔۔۔
بس تم مجھے لے چلو۔۔۔۔
وہ اٹل لہجےمیں بولی۔۔۔
اگر تم کہتی ہو تو لے چلتا ہوں۔۔۔۔
اسنے اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔
سحر نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔
آہن نے آنکھیں بند کیں۔۔۔۔
ایک لمحے میں وہ دونوں وہاں سے غائب ہوگئے۔۔۔۔۔