اسامہ اور اسکے نکاح کے بعد اگلے دو ہفتے دعوتوں میں سرف ہوئے۔ وہ خود کو نارمل دکھانے کی کوشش میں تگودو سے گزر رہی تھی۔ آسان نہیں ہوتا کہ آپ اندر سے مر رہے ہوں اور اوپر سے دیکھائیں کہ آپ سے زیادہ کوئی جی بھی نہیں رہا۔
" سیمل آپی۔ آپ اس شادی سے خوش تو ہیں نا۔ " اس روز صبح سے ردا آئی ہوئی تھی۔ سارا دن وہ سیمل کا بجھ بجھا انداز نوٹ کرتی رہی تھی اور بلآخر شام کو پوچھ ہی لیا۔ وہ دونوں اس وقت ٹیرس پر تھیں۔
" ردا یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی ہے۔ اور ابھی تو صرف دو ہفتے ہوئے ہیں۔ میں ابھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتی کہ میں خوش ہوں یا نہیں۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں یہی میری قسمت میں لکھا ہے۔ " وہ گہری سانس لے کر گویا ہوئی۔
" آپ کو اسامہ بھائی پسند نہیں ہیں یا آپ کسی اور کو پسند کرتی ہیں۔" ردا نے بغور اسکا چہرا دیکھ کر پوچھا ۔ سیمل کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔ کچھ دیر تک دونوں میں خاموشی چھائی رہی۔
" اسامہ بہت اچھے ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔ وہ ایک پرفیکٹ پاڑٹنر ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن مجھے وہ ہمیشہ سے ایک کزن کے طور پر پسند تھے۔ اب ہمارا رشتہ بدل چکا ہے۔ اور مجھے یہ جاننے میں وقت لگے گا کہ اسامہ پسند ہے یا نا پسند اور رہا تمھارا دوسرا سوال تو یہ پوچھنے کی شاید اب ضرورت نہیں ہے۔ " دھیمے مگر کرب زدہ لہجے میں کہہ کر نیچے کی طرف بڑھ گئی
ردا کو اندازہ تو ہوگیا تھا وہ یقینا کچھ چھپا رہی تھی۔
اور سچ تو یہ تھا وہ واقعی اپنے اندر ہر لمحہ مرتی ہوئی لڑکی کو چھپا رہی تھی۔
□□□
عائشہ اور موسی کو چھ مہینے سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا داود کے خلاف ثبوت اکھٹھے کرنے میں ۔ موسی اسے اپنی جاب کی حیثیت سے ہی لیتا تھا۔ اس کا زاتی طور پر داود یا اسکے ناجائز کاروبار سے کوئی مسئلہ نا تھا۔ وہ خود کو دور ہی رکھنا چاہتا تھا۔ ہاں وہ اسکا دوست تھا مگر صرف نام کا۔
ایک ساتھ کام کرتے ہوئے دونوں میں خاصی بے تکلفی بھی ہوگئی تھی۔ وہ کام کے علاوہ فورمل باتیں بھی کرلیا کرتے تھے۔
" چھ مہینے ہوگئے ہیں۔ اور ہمارے پاس ولی کے اعتراف اور کچھ ریکاڑد میسیجز کے کچھ نہیں ہیں۔ اگر ہم یہ لے کر کورٹ میں گئے تو پہلی پیشی میں ہی کیس کا فیصلہ داود کے حق میں ہو جائے گا۔"
عائشہ موسی کے فلیٹ پر موجود تھی اور بے چینی اور الجھن سے کہہ رہی تھی۔
" ہمارے پاس ایک گواہ ہے ۔ اور ایک ثبوت بھی یقینا ہم مزید ثبوت جمع کر لیں گے۔ " موسی نے ڈھارس بندھائی۔
" تم نہیں جانتے میرے کزن کو۔ وہ بہت شاطر ہے۔ پہلے تو وہ اس قدر رازداری سے کئی ناجائز کاروبار چلا رہا ہے کہ اسکے ساتھ رہنے والے بھی ناواقف ہیں۔ دوسرا وہ ہر ایک قدم سنبھل کر اٹھا رہا ہے۔ بنا کوئی ثبوت چھوڑے۔ اور اگر ہم نے کسی طرح ثبوت جمع کرلیے اور داود کو اکپوسز کر بھی دیا تو وہ آسانی سے کیس جیت سکتا ہے۔ وہ ہمارے خلاف کئی گواہ لا سکتا ہے۔ وہ کیس کا رخ کمپنی کی طرف موڑ سکتا ہے۔ وہ داود ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔"
وہ سخت کبیدہ خاطر لگ رہی تھی۔
" وہ داود ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ سہی کہا۔ میں اندازہ کر سکتا ہوں۔ لیکن ہمیں بھی اب اسی طرح سوچنا ہے جس طرح داود سوچ سکتا ہے۔ "
" کیا مطلب۔"
" مطلب یہ کہ جیسے داود نے فریب کیا ہم بھی اسکے ساتھ وہ ہی کریں گے۔ " موسی معانی خیزی سے بولا۔
" نہیں ہمارا کوئی آدمی وہ اپنے آس پاس برداشت نہیں کرے گا۔ اسکے ارد گرد موجود لوگ اسکے بھروسے کے ہوتے ہیں۔ " عائشہ نفی میں سر ہلاکر بولی۔
" اور اگر اسکے آس پاس موجود آدمی ہمارے بھروسے کا ہو تو۔ بظاہر وہ اسکے ساتھ ہو لیکن کام وہ ہمارے لیے کرے۔"
" مگر ایسا کون ہو سکتا ہے۔ " وہ سوچتے ہوئے بولی۔
" اگر غور کریں تو کوئی تو ایسا ضرور ہوگا جو ہمارے لیے کام کرے۔ "
" ہوں۔ " وہ رک کر صوفے پر بیٹھی اور پر سوچ نگاہیں چھت کی طرف اٹھائیں۔
" اور اگر ہم نے ایسا کوئی شخص دھونڈ بھی لیا تو اسے اپنے کام کے لیے راضی کیسے کریں گے۔ ہم داود کے ارد گرد موجود شخص کو داود کی ہی نگرانی اور جاسوسی کے لیے کیسے کنونس کریں گے۔ " وہ ابھی بھی پریشان تھی۔
" یہ دیکھوں۔ " موسی نے لاپ ٹاپ سکرین اسکی طرف موڑی۔
"یہ وہ تمام کیش ریسیپٹس ہیں جو پچھلے کچھ ماہ سے ولی کے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہورہی ہیں۔ اور ہر ماہ جمع ہونے والی رقم اسکی سیلری سے زیادہ ہے ۔ " وہ کرسر سے سکرین اوپر نیچے کرتے ہوئے بولا
" ظاہر ہے اسے کمپنی اکاونٹس میں فراڈ کرنے کے لیے رقم بھیجی جاتی تھی۔ " عائشہ نے کندھے اچکائے۔
" یہ بات ہم جانتے ہیں مگر کورٹ میں ثابت کرنا مشکل ہے۔ ان ریسیپٹس کے مطابق یہ رقم اسے بیرون ملک اپنے کزن کی طرف سے آتی ہے جسکا وہ بزنس پاڑٹنر ہے۔ " موسی نے اطلاع دی۔
" اور وہ کورٹ میں جعلی کزن جعلی بزنس آسانی سے پیش کر سکتے ہیں۔ " عائشہ نے اپنی پیشانی مسلی۔
" اگلے ہفتے کورٹ کا سمن داود کو پہنچے گا ۔ اور تب ہم دیکھیں گے کہ وہ خود کو سکیور کرنے کے لیے کس حد تک جاتا ہے۔ " کچھ دیر بعد عائشہ چہرا اٹھاتے ہوئے اپنا پلین بتاتے ہوئے بولی۔
" یہ ناممکن ہے۔ " موسی نے تردید کی۔
" کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر ہم سچے ہیں تو ممکن نا ممکن کے مسئلے میں پڑنا ہی نہیں چاہیے۔ ہمیں بس کوشش کرنی ہے تب تک جب تک کامیاب نا ہوجائیں۔ " وہ کھڑی ہوکر دیوار تک آئی اور وہاں لگی پینٹنگ پر ہاتھ پھیرا جس میں خوبصورت سنہری الفاظ سے ' کن فیکون ' لکھا تھا۔
" آپ سچے ہوں اور پھر بھی لوگ آپ کو غلط سمجھیں۔ الزام لگائیں تو " موسی ایک دم بے خیالی سے بولا۔ اسکی آواز میں ایسا کرب تھا کہ عائشہ نے بے اختیار چہرا موڑا۔
" کیسا الزام " وہ آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے بولی۔
" بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔" وہ اپنے ماضی کا اشتہار نہیں لگانا چاہتا تھا۔
" میرا ایک مشورا ہے آپ کو " وہ بات بدلنے کو بولا۔
" وہ آدمی کیا نام ہے اسکا ؟ روحیل ۔آپ کا اس کے ساتھ اتنا نظر آنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس صورت میں جبکہ میڈم سائقہ الیکشن لڑنے کے قریب ہیں۔ آپ کا کوئی بھی نا مناسب قدم انکے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ " موسی نے زور دیتے ہوئے اندیشا ظاہر کیا۔
" تم میری جاسوسی کر رہے ہو۔؟ "
" ظاہر ہے نہیں۔ " موسی نے کندھے اچکائے ۔
" ایسی باتیں چپھی کہاں رہتی ہیں۔ اور ویسے بھی آپ ایک میڈیا سیلیبڑیتی ہیں ۔ یہ صحیح نہیں ہوگا آپکی فیملی کے لیے۔"
" فیملی اور اسکی ریپوٹیشن کا سوچ کر ہی داود کے ساتھ منگنی ٹوڑی ہے میں نے۔ " عائشہ کا لہجا دھیما ہوا۔
" جب اسکی اصلیت سامنے آئے گی تو میں نہیں چاہتی میرا یا اسکا کوئی تعلق لوگوں کی زبانوں پر ہو۔ "
" مگر آپ کا یا روحیل کا کوئی تعلق ضرور لوگوں کی زبانوں پر ہو سکتا ہے۔ " موسی نے آگاہ کیا۔
عائشہ نے ایک گہری سانس لی۔
" جب سے داود کی اصلیت کا علم ہوا ہے میرا ہر ایک نامور شخص سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ کیا معلوم میرے آس پاس موجود کون دھوکا دے رہا ہو۔ ( کن اکھیوں سے موسی پر نظر ڈالی۔ ) ۔ روحیل کے ساتھ میں اچھا فیل کرتی ہوں کیا ہوا وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے اور غریب ہے مگر ہے تو ایماندار نا ۔ کم سے کم وہ کسی کو دھوکا تو نہیں دے رہا نا "
" مگر آپ کا بے جا اسکے ساتھ نظر آنا سکینڈل کھڑا کر سکتا ہے اور کیا پتا ہے داود ہی اس بات کو آپکے خلاف استعمال کر لے۔ یہ دنیا ہے یہاں جزبوں پر نہیں دکھاوے پر یقین ہوتا ہے۔ " موسی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
" تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔" عائشہ اداسی سے مسکرادی۔
پھر موبائل کان سے لگا کر باہر نکل گئی۔ اسے ضروری کال کرنی تھی۔
□□□
کمال صاحب اس روز کافی دنوں بعد سٹیڈی میں آئے تھے۔ آتے ہی ریک سے ایک کتاب اٹھائی ۔ اور لیکر بیٹھ گئے۔
کتاب کھولتے ہی ایک مڑا ہوا صفحہ نیچے گرا۔ انہوں نے اٹھایا اور کھولا۔
وہ سیمل کی لکھائی تھی۔ جگہ جگہ سے قلم کی سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔
انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔
" ابا میں جانتی ہوں آپ مجھ سے بہت ناراض ہیں۔ میں اپنے لیے آپ سے کچھ نہیں مانگ رہی مگر میں آپ سے ہمیشہ یہ بات کہنا چاہتی تھی۔ آج تک آپ موسی سے جو نفرت کرتے آئیں ہیں وہ بے بنیاد ہے۔ موسی بے قصور تھا ۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اسکا موسی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسنے تو مجھے اس ظالم درندے سے بچایا تھا۔ اور میں اتنی احسان فراموش اور بد بخت ہوں کہ تب اسکی صفائی میں کچھ بول نا پائی مگر آج میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ابا موسی بے قصور ہے ۔ پلیز اس سے مل کر اپنی غلط فہمی اور نفرت دور کر لیجئیے گا میں آپ سے صرف اتنا چاہتی ہوں ابا ۔ پلیز ابا پلیز ابا۔" اور آگے الفاظ دھونڈلا گئے۔
کمال صاحب نے گہری کرب زدہ سانس لی اور صفحہ موڑ کر ٹیبل پر رکھا۔ انکی بیٹی کو یقینا مرض عشق لڑ چکا تھا اور اس شدت سے کہ وہ انکی ناراضی کے باوجود بھی اپنے لیے نہیں بلکہ موسی جہانگیر کے لیے مانگ رہی تھی۔ ماحول ایک دم گھٹا گھٹا سا لگنے گا۔
آپنا آپ مجرم سا لگنے لگا ۔ سیٹ سے سر ٹکا لیا اور آنکھیں بند کیے وہ کتنی دیر ہی ایسے بیٹھے رہے۔
□□□
گھر سے نکل کر یوسف سیدھا موسی کے فلیٹ پر آیا تھا ۔
" اتنی رات کو خیر ہے۔ یہاں کیوں آئے ہو ۔ " موسی نے حیرت سے پوچھا۔
" پاپا نے گھر سے نکال دیا۔ " وہ سرسری انداز میں کہہ کر اندر آیا اور بیڈ پر لیٹ آیا۔
" کیا " وہ پریشان سا ہوکر اندر آیا ۔
" تمھارے دیڈ نے تمھے گھر سے نکال دیا اور یہ بات تم ایسے کہہ رہے ہو جیسے روز کا معمول ہو۔ "
" انکو لگتا ہے انکا بیٹا بگڑ رہا یے ۔ کچھ دن گھر سے باہر رہے گا تو سدھر جائے گا۔ " یوسف نے پھر کندھے اچاکائے۔
" ہر بات کا حل گھر سے نکال دینا نہیں ہوتا۔ " موسی پہلو بدلتے ہوئے بے چینی سے بولا۔
" کیا تمہے بھی کسی نے نکالا ہے ۔ " یوسف کی طرف سے ایک دم سوال آیا تو موسی کچھ لمحے اسکی شکل دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر بولا۔
" میرا کبھی کوئی گھر ہی نہیں تھا جو نکالا جاتا۔۔۔ "
" ہمممم۔ " یوسف نے دونوں ہونٹ باہم ملائے۔
" وہ شادی کر رہی ہے۔ " چھٹ کو گھورتے ہوئے اطلاعا بتایا۔
موسی کے پورے وجود میں بے چینی سی پھیلی۔
" کیا مطلب ۔۔۔ تمہے کیسے پتا۔۔؟ " وہ ایک دم بے اختیار پوچھنے لگا۔
" تم جو سمجھ رہے ہو ویسا نہیں ہے۔ سیمل کی شادی نہیں ہورہی ہے ۔ مایا شادی کر رہی ہے۔ " قہقہے سے شروع کی گئی بات مایوسی پر ختم ہوئی تھی۔
" اوہ " موسی نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیڑی۔
" کیا تم نے اسے بتایا نہیں تھا محبت کرتے ہو اس سے۔ " وہ فورا بولا اس سے پہلے یوسف کچھ کہتا۔
" بتایا تھا یار۔ اسے لگتا تھا کہ میرے اور سیمل کے درمیان کچھ تھا۔ اور اس غلط فہمی میں وہ اپنے کسی کزن سے شادی کو ہاں کر چکی تھی۔ " یوسف کے چہرے پر اب واقعی ٹوتے ہوئے تاثر تھے۔
" یعنی وہ تم سے محبت کرتی ہے۔ کیا اس نے اعتراف کیا۔ "
" نہیں ۔ مگر اسکی آنکھیں سب کچھ کہہ رہیں تھیں۔ " یوسف نے آنکھیں موندی تو زہن میں مایا کا چہرا گھوما۔
موسی مزید کچھ نہیں بولا اور اٹھ کر کچن میں آگیا۔ یوسف بھی پیچھے آیا۔
" کیا آج بھی تمھارے فریج میں گھاس پھونس ہی ملے گا یا کچھ اور بھی ہے۔ "
کچن میں آتے ہی اسنے فریج کھول کر طنزیہ کہا۔
" تم عجیب ہو۔ گھر سے نکال دیے گئے ہو۔ جس سے محبت کرتے ہو وہ شادی کرنے جارہی ہے اور تمہے کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ " موسی نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔
" تم بھی بہت عجیب ہو یار۔ سچ بتاو جب میں نے کہا کہ وہ شادی کر رہی ہے تم ڈر گئے تھے۔ "
وہ غور سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
" ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تمہے غلط فہمی ہوئی ہے۔ " موسی نے نظریں چرائیں۔
" میں نے کبھی تم سے کچھ نہیں چھپایا۔ لیکن تم ایسا نہیں کرتے ۔ ٹھیک ہے مت بولو مگر میں اچھی طرح سے جانتا ہوں تم سیمل سے محبت کرتے ہو۔ چاہے کتنا بھی چھپالو مگر اسکے زکر پر تمھارے چہرے کے تاثرات دیکھیں ہیں۔ شاید پہلے مجھے انکا مطلب نہیں معلوم تھا مگر اب جانتا ہوں کیونکہ اب مجھے بھی محبت کا علم ہے۔ اور وہ کیبنیٹ میں رکھے اسکیچز بھی صاف صاف سب کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ " یوسف کی نیلی آنکھوں میں گلہ اترا۔
" تم ناجانے کیا باتیں کر رہو۔ رات بہت ہوگئی ہے اب سوجانا چاہیے۔ " کافی کپ میں انڈیلنے ہوئے سرسری لہجے میں بولا۔
" مجھے نیند نہیں آرہی ہے۔ میں بلنڈنگ کے ٹیرس پر جا رہا ہوں۔ اور یاد رکھنا ابھی تم جتنا مرضی مکر لو ایک دن تم اسی جگہ کھڑے ہوکر اعتراف کرو گے۔ " یوسف نے چیلنج کیا۔
موسی بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔
یوسف پلٹا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
وہ ٹیرس کی دیوار کی طرف کھڑا تھا۔ جب موسی نے اسکی طرف کافی کا کپ بڑھایا جسے اسنے فورا تھام لیا۔
" بہت عجیب ہو تم ۔ یہ کافی پینے کے بعد شاید گہری نیند سونا تھا تم نے لیکن میں نے پروگرام کینسل کر دیا۔ چچ چچچ " افسوس کا اظہار کیا۔
کپ سے ایک چسکی لے کر بولا۔
موسی نے چہرا اوپر اٹھایا اور تلخی سے سوچا ۔۔ گہری نیند تو نیند کی گولیاں کھانے سے بھی نہیں آتی تھی۔
" تو کہاں تک پہنچے تم ۔ کیا داود اپنے انجام کے قریب ہے ۔ " یوسف نے دوسرا موضوع چھیڑا ۔
" ہم زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔ وہ بہت شاطر ہے۔ مگر عائشہ نے اگلے ہفتے کورٹ کا نوٹس اسے بجھوایا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ ناجانے وہ کیا سوچ رہی ہے۔ " الجھن سی الجھن تھی۔
" ہو سکتا ہو اسنے کچھ سوچا ہو۔ " کافی کا آخری گھونٹ لیکر بولا۔ کپ دیورا پر رکھا اور قدم آگے بڑھائے ۔ موسی بھی اسکے ساتھ ٹہلنے لگا۔ دونوں کی گفتگو کا موضوع اب داود بن چکا تھا۔
□□□
مایا نے ایک دوسرے وکیل سے رابطہ کیا تھا مگر بد قسمتی سے وہ وکیل کسی کام کا نہیں نکلا ۔پہلی ہی پیشی پر اسکا یوسف پر لگایا الزام غلط ثابت ہوگیا تھا۔ اسکے وکیل بابر کے مقابلے پر حمزہ شجاعت تھا۔ اور وہاں موجود سبھی دونوں کی قابلیت سے واقف تھے۔
بابر جہاں زمین تھا تو حمزہ اپنی قابلیت میں آسمان۔
کیس کی سماعت کے بعد بابر حمزہ کے آفس آیا تو اسکا منہ لٹکا ہوا۔ جبکہ حمزہ مسکرا رہا تھا۔
" تم چیز کیا ہو ۔" کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
" معلوم نہیں۔ " حمزہ نے کندھے اچکائے ۔
" مجھے تو اس لڑکی کے لیے افسوس ہو رہا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ لڑکی اپنا کیس لیکر تمھارے پاس آئی ہے تو میں اسے ضرور منع کرتا۔ " حمزہ نے ایک بار پھر مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی۔
" ہنس لو ہنس لو جتنا ہنسا ہے۔ " بابر نے منہ بگاڑا ۔
" اصل جیت تو تمھاری تب ہوگئی جب مس عائشہ کے قاتل کا پتا لگاو گے " بابر چیلنج کرتے ہوئے بولا تو حمزہ کئ چہرے سے ایک دم مسکراہٹ ہٹی۔ وہاں اب تکلیف کے تاثر تھے جنہیں اسنے بامشکل دبایا۔
بابر کو اندازہ ہوا کہ وہ غلط بات بول گیا ۔ فورا اٹھا اور آفس سے باہر نکل گیا۔
حمزہ سے سختی سے آنکھیں میچیں ۔ اسکا زہن یک دم ماضی کا سفر کرنے لگا تھا۔
□□□
عائشہ اور اسکی شادی چھ ماہ سے زیادہ نا چل سکی تھی۔ وہ پوری کوشش کر رہا تھا اس رشتے کو قائم کرنے کے لیے مگر کامیاب نا ہوسکا تھا۔ وہ طلاق لیکر چلی گئی تھی۔ حمزہ نے اسے بہت روکا تھا مگر کوئی فائدہ نہیں۔
اسکے جانے کے سال بعد وہ اسے ایک سڑک پر ایک بچی کے ساتھ نظر آئی۔ وہ اکیلی تھی۔ آس پاس کوئی گارڈ نہیں تھا۔
وہ بچی دیکھ کر رکنے ہر مجبور ہوا۔۔
" عائشہ " گاڑی سے اتر کر اسنے آواز دی۔
وہ پلٹی اور ساکت سی رہ گئی۔
" کیسی ہو تم " وہ بے اختیار بولا۔
پورے سال بعد اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ پہلے سے بدل چکی تھی۔ اور بہت بجھی بجھی سی لگ رہی تھی۔
" ٹھیک ہوں۔" خلاف توقع وہ مایوسی سے بولی تھی۔
" یہ بچی ۔ یہ میری بیٹی ہے۔؟ " حمزہ نے آس سے پوچھا ۔
" نہیں " عائشہ نے بے رحم سا جواب دیا۔
حمزہ کی آنکھوں میں سوال ابھرا۔
" میں نے بعد میں روحیل سے شادی کرلی تھی۔ یہ روحیل کی بیٹی ہے ۔" وہ جلد بازی میں کہہ کر نکل گئی۔ حمزہ کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
دو روز بعد اسے خبر ملی عائشہ کا اسی رات قتل کر دیا گیا تھا۔ اور وہ بچی لاپتا تھی۔
حمزہ کے لیے یہ سب قبول کرنا آسان نہیں تھا۔
کتنے دن ہی وہ ڈیپریشن کا شکار رہا تھا۔ اس نے پرائیویٹ کیس لڑنے شروع کر دیے۔ اب اسکا صبحانی فیملی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
دو سال گزر گئے تھے اور آج تک عائشہ کا قاتل منظر پر نہیں آسکا تھا۔
وہ اسی تگودو میں لگا ہوا تھا اور آج بابر نے بے خیالی میں ذکر چھیڑ دیا تھا۔
یہ معاملہ صرف ایک قتل کا نہیں تھا۔ عائشہ اسکی سابقہ بیوی تھی اور محبت بھی۔۔۔۔
□□□
" آپ تو کہہ رہیں تھیں آپ میرا ساتھ دینگی۔ لیکن آج آپ نے کورٹ میں میرے خلاف ہی گواہی دے دی۔" مایا گھر آتے ہی شکایتی انداز میں سروت سے بولی۔
" ہاں میں نے کہا تھا ۔ وعدہ کیا تھا۔ جب تک میں تمھارے ساتھ ہی تھی جب تک تم ٹھیک تھی۔ میں نے سچ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور سچ کا ہی ساتھ دیا ہے۔ میں اب بھی تمھارے ساتھ ہوں لیکن تمھارا الزام غلط تھا۔" سروت نے نرمی سے سمجھایا۔
" یعنی میں جھوٹی ہوں ؟"
" نہیں تم وہی کہہ رہی ہو جو تمہے سچ لگ رہا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس شخص نے تمہے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ اس روز جب تم نے ساری بات بتائی تب سے میرے زہن میں یوسف سکندر کا نام گھوم رہا تھا۔ جلد ہی مجھے یاد آگیا کہ اسے میری ایک زینت نامی دوست ہسپتال میں زخمی حالت میں لائی تھی۔ ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور ایک ٹانگ بری طرح سے زخمی تھی۔
یہ واقعہ 12 جون کا تھا۔ تم خود سوچو وہ اس روز تمھارا کیڈنیپ کیسے کروا سکتا تھا ۔" سروت نے تمام بات کھولی
" تو وہ کسی کو کہہ سکتا تھا۔" مایا ابھی بھی بضد تھی۔
" تم نے کہا تھا کہ وہ شخص ایک دو بار آیا بھی تھا تم سے تمھاری مرضی پوچھنے۔ تمھاری آنکھیں بند تھیں۔ کیا تمہے یقین ہے وہ یوسف ہی تھا۔ " سروت نے سوال کیا تو مایا یک دم سوچ میں پڑی ۔
زہن میں شروع سے ایک بات ڈال لی تھی کہ یوسف ہی ایسا کر سکتا ہے ۔ باقی چیزوں پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ وہ اتنی ڈری ہوئی تھی کہ جان ہی نا سکی کہ اسکے پاس آنے والا شخص یوسف ہے یا کوئی اور۔
" تو اور کون ؟ " اسکی آواز کنویں سے ابھرتی معلوم ہوئی۔
" تم آج تک غلط انسان پر الزام لگاتی آئی ہو۔ اب باری ہے کہ صحیح قصور وار سامنے آئے۔ اور وہ بھی جلد ہی سامنے آئے گا " سروت نے تسلی دی۔
وہ کچھ بھی بولے بنا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر تنہا رہنا چاہتی تھی شاید ۔
□□□
" آخر تم چاہتی کیا ہو ۔ " داود آفس میں بیٹھا تھا کچھ دیر پہلے کورٹ کا نوٹس اس تک پہنچا تھا اور وہ پریشان ہونے کے بجائے محظوظ ہو رہا تھا۔ تبھی آفس میں زینت آئی تھی۔ اور اسکی شکل دیکھتے ہی اسکا موڈ خراب ہوا تھا۔
" مجھے جاب چاہیے " زینت نے اپنا موقف سامنے رکھا ۔
" میں تمہے جاب دوں گا ۔ مجھے اپنے پاس صرف عقل مند لوگ پسند ہیں۔ تم جیسے بے وقوف نہیں ۔ میں ایک بار پہلے بھی تم پر بھروسا کر چکا ہوں ۔ تم جاسکتی ہو " داود نے ہاتھ جھلا دیا۔
زینت کے بوٹکس والے چہرے پر احساس توہیں ابھرا ۔ وہ پنتالیس سالہ عورت تھی۔
" مجھے بہت ضرورت ہے جاب کی۔ میری قیوم سے علیحدگی ہوگئی ہے۔ " اپنا غصہ پیچھے رکھتے ہوئے وہ منت سے بولی۔
" کیا واقعی ۔ " داود نے زور دار قہقہہ لگایا۔
" بہت دیر لگا دی تمھارے شوہر نے تمہے چھوڑنے میں ۔ " طنزیہ بولا۔
" چلو خیر ہے ۔ اصل مدعے پر آتے ہیں۔ تم قیوم کا بزنس ڈبا چکی ہو اور میرا بھی نقصان کر چکی ہو یہاں تو جاب کا کوئی چانس نہی اور اسکے علاوہ ۔ " سٹائلش فرینچ ڈاڑھی والا داود کچھ سوچنے لگا۔
" ہاں اگر میرا ایک کام کردو تو میں تمہے اتنا پیسی دونگا کہ ساری زندگی بیٹھ کر کھاو گی " داود نے آفر رکھی۔
" کیا کام کرنا ہے ۔ " زینت تیزی سے بولی۔
" داود نے دراز کھولا اور ایک تصویر نکال کر اسکے سامنے رکھی۔ تصویر یوسف سکندر کی تھی۔
" اگلے ہفتے کورٹ میں کیس کی پیشی ہے ۔ تم ہے کسی بھی طرح کر کے اسے کورٹ آنے سے روکنا ہے۔ " ساتھ ہی داود نے ایک پیپر چٹ پر ایک ایڈریس بھی گھسیٹا ۔
" کون ہے یہ اور کس قسم کا کیس ۔ "
زینت نے تصویر ہاتھ میں اٹھا کر کہا
" یہ تمھارا مسئلہ نہیں ہے ۔ بہتر ہوگا جو کہہ رہا ہوں وہ کرو اور اب تم جاسکتی ہو۔ میرے پاس تمھارے ساتھ کھپانے کے لیے دماغ نہیں ہے ۔ مجھے اور بھی کام ہیں۔ " داود دو ٹوک انداز میں بول کر فائل کھولنے لگا۔
زینت نے گہری سانس بھری اور تصویر اور چٹ پکڑ کر باہر نکل گئی۔
اس کے نکلتے ہی داود کو کچھ غلط کا احساس ہوا۔
" عمر زینت پر نظر رکھو ۔ وہ کوئی گڑبڑ نا کردے ۔ " کچھ دیر بعد وہ اپنے سیکٹری کو موبائل پر ہدایت دے رہا تھا۔
□□□
" کیا بات ہے اتنا تیار ہوکر بھی بجھی سی لگ رہی ہو " وہ سیمل اور اسامہ کی شادی کے ایک ماہ بعد کا دن تھا جب اسامہ نے اسے ڈنر کے لیے تیار ہونے کو کہا تھا۔
وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بے دلی سے تیار ہو رہی تھی ۔ نیوی بلیو کلر کے سوٹ کے ساتھ سلور جیولری پہنے وہ خوبصورت لگ رہی تھی مگر رونک نہیں تھی چہرے پر۔
اسامہ اسکے پاس آکر کھڑا ہوا۔ اور اسکے بالوں کی ایک لٹ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولا۔
" میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے " وہ بہانہ بنا گئی
جو ہوا تھا اس سب کو سمجھنے اور ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگنا تھا۔
" اوہ تو پہلے بتانا تھا ۔ میں ڈنر کینسل کر دیتا ۔ " وہ ایک دم فکر مند ہوا اور اسی فکر سے سیمل کا ہاتھ تھام لیا۔
سیمل نے آنکھیں بند کر کے کھولی۔
" نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ ہمیں چلنا چاہیے اب " وہ ہاتھ چھڑاتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
ڈنر کرنے تک سب ٹھیک چلا ۔ سیمل نے خوش اور نارمل ہونے کی بھر پور اداکاری کی۔
اسمامہ ڈنر کرکے ہاتھ دھونے گیا اور جب واپس آیا تو سیمل کے چہرے پر ناخوشی کے آثار نظر آئے ۔
" تم کچھ چھپا رہی ہو مجھ سے کیا بات ہے سچ بتاو " واپسی پر گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے اسامہ نے دریافت کیا۔
" سچ بتا دوں " سیمل کی بے تاثر سی آواز گاڑی میں ابھری۔
اسامہ نے اسے چونک کر دیکھا۔ گاڑی میں پھیلی کار فریشنر کی مہک کچھ مدھم پڑی۔
" سچ یہ ہے کہ میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں مگر وہ مجھ سے نہیں۔ کئی سال زندگی کے ایک شخص کے پیچھے گزارے ہیں مگر وہ شخص میری قسمت میں نہیں تھا ۔ اب جب تمام خواب ٹوت گئے اور آس ختم ہوگئی تو زندگی گزارنے کے لیے کائی ساتھی تو چاہیے ہی تھا۔ اب وہ تم نا ہوتے تو کوئی اور ہوتا۔ " ہر ایک لفظ کے ساتھ سیمل کی آواز بھیگتی جارہی تھی۔ کار فریشنر کی مہک اچانک تیز ہوئی اور کسی ناقابل برداشت بدبو میں بدل گئی ۔
اسامہ کے لیے یہ اعتراف ناقابل یقین تھا۔ اسکی ایک ماہ پہلے کی دلہن اپنی اپنی کسی محبت کا زکر کر رہی تھی اتنی بے باکی۔ شاید اسنے غلط سن لیا تھا۔
" تم مزاق کر رہی ہو " کئی لمحے بعد وہ بامشکل بولا۔ ساتھ ایک قہقہہ بھی لگایا۔
" ہاں " ایک لفظی جواب دے کر وہ شیشے کی طرف چہرا موڑ گئی۔
کار فریشنر کی بدبو کچھ کم ہوئی۔
" تم نے ابھی جو کچھ کہا وہ مزاق تھا ۔ وہ مزاق ہی تھا نا۔ " اسامہ کی آنکھوں میں امید ابھری۔
" ہاں ۔ وہ سب مزاق تھا ( زندگی کا مزاق۔ کئی سال تک وہ خواب دکھایا جسکی تعبیر ہی نہیں تھی۔ ) ۔ سوری اگر تمہے برا لگا تو۔ " وہ لہجہ معزرت خوا کر گئی۔
" اوہ ۔۔!" اسامہ نے بے اختیار سانس لی۔ کار فریشنر کی مہک اب دھیرے دھیرے خوشنما ہو رہی تھی۔
" اگر یہ واقعی مذاق تھا تو آئندہ کبھی نا کرنا۔ ادھر دیکھو " سیمل نے چہرا واپس اسکی طرف موڑا تووہ خشک تھا۔
" جب میں نے پہلی بار تمہے اس پرائی شادی میں دیکھا تھا تب ہی مجھے تم پسند آگئی تھی۔ تم اس لڑکے کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی اور کب کیسے میرے دل میں اتر گئی مجھے معلوم نا ہوا۔ پھر میں نے تین سال بعد جب اپنے گھر میں دیکھا تو یقین نا آیا۔ تم کچھ بدلی سی لگی تھی ۔ فورا پہچان میں نا آئی مگر یہ جان کر خوشی کی انتہا نا رہی کہ تم میری کزن ہو۔ " وہ بولتے بولتے رکا۔ سیمل تکلیف سے سنے گئی۔ یہ سب تو وہ کسی اور کے منہ سے سن نے کی خواہش رکھتی تھی مگر قسمت یہ کیسے کھیل، کھیل رہی تھی۔
" میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور مجھے کبھی میری محبت کے سامنے شرمندہ نا کرنا۔ " وہ جزبات سے کہہ رہا تھا اور سیمل بس پھیکا سا مسکرا کر نفی میں سر ہلا گئی۔
اسمامہ نے بھی مسکرا کر گاڑی سٹارٹ کرلی ۔ کار فریشنر کی خوشبو پھر سے مسحور کن ہوگئی تھی۔
سیمل چہرا موڑ کر شیشے کی طرف پھر سے دیکھنے لگی۔ درخت ۔ مکان۔ دکانیں۔ خواب ارمان ۔ چاہتیں سب ہی تیزی سے پیچھے کو بھاگ رہیں تھیں۔
□□□
وہ 12 جون کا دن تھا۔ اس روز داود کیس کی پہلی سناوائی تھی۔ کیس کو حمزہ ڈیل کر رہا تھا۔ اور عائشہ کے فراہم کئے گئے ثبوت نا کافی تھے۔
موسی کو پہلے سے اندازہ تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
" یور آنر جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ اب تک حمزہ صاحب کی طرف سے پیش کیے گئے تمام ثبوت نا کافی اور بے بنیاد نکلے ہیں ۔ میں ایک بار دوبارا چاہوں گا کہ کیا کہیں کوئی ثبوت رہ تو نہیں گیا پیش کرنے کے لیے۔ ایک موقع اور۔ " وکیل سفدر صاحب جو کہ عمر اور تجربے میں حمزہ سے بیس سال بڑے تھے۔
" یور آنر ایک ثبوت ہے ابھی۔ " حمزہ نے جج کو کہتے ہوئے پیچھے بیٹھی عائشہ پر ایک نظر ڈالی۔
عائشہ جو کہ بے چینی سے موبائل پر ایک نمبر ملا رہی تھی۔
" عدالت کے سامنے وہ ثبوت پیش کیا جائے۔ " حکم جاری ہوا۔
" دراصل میرا گواہ اور ثبوت دونوں ہی یہاں سے کچھ دور ہیں ہمیں ٹھورا انتظار کرنا ہوگا ۔ جلد ہی آپکی ٹیبل پر واضح اور ٹھوس ثبوت ہونگے جج صاحب " حمزہ نے کچھ وقت کی محلت مانگی۔ جو دے دی گئی۔
" یہ کس کی بات کر رہا ہے۔ " چہرا عائشہ کے قریب جھکائے موسی سرگوشی سے بولا۔
" یوسف کی۔ " وہ بھی آہستہ سے بولی۔
" آپ مجھے پہلے نہیں بتا سکتی تھیں۔ " وہ ناراضی سے بولا۔
" میں نے کہا تھا کہ مجھے کسی پر اب اعتماد نہیں رہا۔ کسی میں تم بھی آتے ہو "
موسی نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
" آپ نے شروع دن سے یوسف سے داود کی جاسوسی کروائی۔ اور اس چکر میں وہ گھر سے نکالا گیا " موسی آہستہ مگر زور دیتے ہوئے بولا
" وہ بس مدد کرنا چاہتا تھا ۔ خود آیا تھا میرے پاس۔ اور یوسف سے زیادہ صحیح انسان اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا "
موسی رخ بدل کر سامنے لٹکی گھڑی دیکھنے لگا ۔ وقت آگے آگے اور آگے سرکنے لگا یہاں تک کہ گواہ اور ثبوت کے بر وقت نا پہنچنے پر عدالت برخاست کر دی گئی اور فیصلہ سیدھا سیدھا داود کے حق میں دے دیا گیا۔
عدالتی کمرے کے باہر وہ دونوں کھڑے تھے جب داود چلتا ہوا قریب آیا ۔ ایش گرے سوٹ میں ملبوس ۔ سن گلاسز آنکھوں پر جمائے ۔ فرینچ ڈاڑھی اور مہنگے پرفیوم میں لپٹے اس فاتحانہ مسکرہٹ والے مرد نے خوش باشی سے پکارا ۔
"لونٹ ٹائم موسی حارب " اسکی آواز پر دونوں چونک کر پلٹے۔
" کیسے ہو میرے دوست۔ بوڑڈنگ کے بعد سے آج نظر آئے ہو۔ میں توقع کر رہا تھا کسی اچھی جگہ ملاقات کی مگر دیکھو ہماری ملاقات کہاں ہوئی ۔ تمہے دیکھ کر خوشی ہوئی پر ایسے دیکھ کر نہیں۔ ہم تو دوست ہیں نا تم اپنے ہی دوست کے خلاف جارہے ہو ۔ اب یہ جو جنگ تم شروع کر چکے ہو اسے میں جلد ہی ختم کردونگا ۔ مجھے بہت برا لگا تمھاری ہار دیکھتے ہوئے ۔۔چچ۔۔۔چچچ پر کیا کروں داود حمدانی نے کبھی ہارنا سیکھا ہی نہیں۔ ۔ جلد ہی ملاقات ہوگی اور وہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔ " کاٹ دار لہجے میں کہتا وہ عائشہ کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا ۔
" تم سمجھتے کیا ہو خود کو داود ۔ " عائشہ کلف کر بولی۔
موسی کچھ کہنے کی بجائے یوسف کا نمبر ملانے لگا جو کہ بند جا رہا تھا ۔ کہاں رہ گیا تھا وہ ۔ اسے فکر ستائے جارہی تھی۔
" آپ کم سے کم مجھے انفارم تو کر سکتی تھیں نا ۔ کیا ہم مل کر کام نہیں کر رہے تھے۔ پھر بھی آپ نے مجھ سے یہ بات چھپائی۔ اور یوسف وہ بھی کچھ نہیں بولا ۔" شدید پر یشانی میں وہ تلخ لہجے میں بول کر مڑ گیا۔
□□□
داود جس وقت گاڑی میں آکر بیٹھا اسکا فون بجا ۔
" ہاں بولو زینت "
" باس مجھ سے اس لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ وہ بہت جلدی میں تھا اسے روکنے کے چکر میں ۔۔۔!" وہ آگے مزید کچھ کہہ رہی تھی مگر داود کا دماغ بھک سے ارا ۔
" شٹ اپ۔ یو سٹوپڈ ۔ ایک کام دیا تھا تمہے وہ بھی نہیں ہو سکا ۔ کوشش کرنا کہ آئندہ میری نظروں میں نا آو۔ جاہل عورت۔ " زینت پر ڈھاڑ کر موبائل بند کر کے سیٹ پر اچھالا اور آنکھیں بند کر کے کنپٹی پر انگلیاں مسلیں۔ اس سارے میں وہ یہ بھول گیا کہ اس نے عمر کو مایا نامی لڑکی کو کڈنیپ کرنے کا کہا تھا اور عمر کے آدمیوں کو آج موقع ملا تھا ۔
□□□
گھر آکر اسامہ واپس کہیں چلا گیا تھا ۔
وہ چینج کر کے اس وقت کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھی۔ آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ آج وہ سب کچھ اسامہ کو بتا کر بھی نا بتا سکی تھی۔ آخر یہ کیسی بے بسی تھی۔
ردا قریب ہی ایک ہاسپیٹل میں آئی ہوئی تھی۔ اسکی بیٹی کو انفیکشن تھا ۔ چیک اپ کے بعد جب وہ فہد کے ساتھ اس کاریڈور سے گز رہی تھی تو اسکی نظر سٹریچر پر پڑے مردہ وجود پر پڑی ۔
" فہد دیکھو ۔ وہ اسامہ بھائی ہیں نا ۔ " با مشکل اسکی زبان سے نکلا ۔۔
دونوں اس طرف بڑھے ۔ وہ واقعی اسامہ ہی تھا ۔ اسکے سر سے بڑی طرح سے خوں بہہ رہا تھا ۔
ہاسپٹال میں داخل ہوتے ہوئے سیمل نے ردا اور ٹائی امی کو گلے لگ کر بری طرژ روتے دیکھا۔ ٹائی امی بار بار بے ہوش ہوئیں جاتی تھیں۔ تایا ابا اور ابوبکر بھی ساتھ کھڑے تھے۔ انکے چہروں پر بھی غم کے آثار تھے۔ فہد جو کہ ہسپٹال کی کاروائی کے لیے ادھر ادھر آجا رہا تھا ۔
وہ خشک آنکھوں سے چلتی ہوئی آگے آئی۔ بے تاثر چہرے کے ساتھ اسنے سٹریچر پر لیٹے وجود پر سے کپڑا اٹھایا ۔
" بھابھی۔ " ردا چیختی ہوئی اسکے قریب آئی۔ وہ بے دم سی زمین بوس ہو چکی تھی۔
وہ اتنی حساس تو تھی کہ دشمن کی موت پر بھی آنسو بہائے مگر اسامہ تو اسکا شوہر تھا ۔
□□□