رات ڈھلنے کو آرہی تھی ۔ کمال صاحب کی فکر اور پریشانی مزید بڑھتی جارہی تھی۔ ہر گزرتا لمحہ انکی طبیعت پر گراں گزر رہا تھا۔ ان کے آدمی نے بھی تو کوئی اطلاع نہیں دی۔ دل میں طرح طرح کے خیال جنم لے رہے تھے۔ عجیب سوچوں اور کشمکش کی حالت میں وہ پریشان چہرے کے ساتھ لانج میں چکر لگا رہے تھے جب سنی کی آواز انکے کانوں میں پڑی ۔
" ابا سیمل آگئی ۔ "
وہ کب سے مین گیٹ کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں نظریں جما کر بیٹھا تھا ۔ سیمل نے کہا تھا وہ واپس آئے گی ۔ وہ واپس آگئی تھی۔
سنی نے گردن موڑ کر دیکھا تو ابا کے چہرے پر جلال سا نظر آیا ۔ وہ مٹھیاں بھینچے اور ہونٹ آپس میں پیوست کیے کھڑے تھے۔ اسکی اطلاع دینے پر دروازے کی طرف نہیں بڑھے تھے۔
وہ انہیں وہیں چھوڑ کر باہر کی طرف دھوڑا ۔ نور بابا دروازہ کھول چکے تھے۔ سامنے سیمل کھڑی تھی۔ اسکا چہرا مکمل اترا ہوا تھا۔ آنکھیں بھیگ رہیں تھیں۔ وہ نڈھال سی لگ رہی تھی۔ سنی قریب نہیں گیا ۔ دور سے ہی اسے دیکھتا رہا ۔ یہ وہ سیمل نہیں تھی جو گئی تھی۔ یہ تو کوئی اور سیمل تھی۔
وہ کچھ دیر تک سانس روکے دروازے کو دیکھتی رہی ۔ یہ وہی گھر تھا جہاں سے وہ کل اپنے خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل کے لیے سب کچھ چھوڑ گئی تھی اور آج پھر یہیں موجود تھی۔ مگر صرف ایک دن نہیں اسنے اپنے اور اس گھر میں رہنے والوں کے درمیان سدیوں کا فاصلہ بنا لیا۔ اسے لانج کے دروازے کی اوٹ میں کھڑا سنی نظر آیا جو ٹکٹکی بندھے اسے دیکھ رہا تھا۔
سیمل نے خود اپنے لیے یہ فاصلے چن لیے تھے۔ اور وہ فاصلے تو الگ تھے جو اسکے اور موسی کے درمیان حائل ہوگئے تھے۔
بلآخر اسنے قدم بڑھایا اور صدیوں کے صفر کو عبور کرنے کی کوشش کی۔ جب وہ سنی کے پاس سے گزر کر گئی تو سنی نے دیکھا ۔ اس کا ہاتھ خالی تھا ۔ وہاں کوئی انگوٹھی نہیں تھی۔
سیمل نے جیسے ہی لانج میں قدم رکھا اسکے قدم خود بخود رک گئے ۔ سامنے ابا کھڑے تھے۔ وہ کس منہ سے ان سے معافی مانگے گی۔ وہ اپنے خواب توڑ کر آچکی ہے۔ کیسے بیان کرے گی۔ کمال صاحب اسکی طرف پشت کرے کھڑے تھے۔ دونوں بازو کمر پر باندھ رکھے تھے مٹھیاں بھینچی ہوئیں۔
کوئی آواز کے بنا بھی انہیں سیمل کی آہٹ مل گئی تھی۔ انکے چہرے کی سختی مزید بڑھ گئی۔ دونوں کے درمیان فاصلے ہی نہیں خاموشی بھی در آئی تھی۔ جسے سیمل کے آنسوں کی آواز نے توڑا تھا۔
" ابا !" وہ ٹوتے ہوئے لحجے میں صرف اتنا کہہ پائی پھر وہیں پر ڈھیر ہوگئی۔
کمال صاحب نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ انکی سماعت میں سیمل کی سسکیاں برس رہیں تھیں۔
" کیوں آئی ہو واپس ۔ ایک بار جب جا چکی تھی ہمیں چھوڑ کر تو کیا ضرورت تھی لوٹنے کی ۔ " وہ اسکی طرف پلٹتے ہوئے سخت نالاں لہجے میں پوچھ رہی تھے ۔
سیمل نے چہرا اٹھا کر ابا کو دیکھا پھر جھکا لیا۔ اب وہ کبھی بھی ابا سے نظریں نہیں ملا سکے گی۔ کچھ بولنے کی کوشش کی مگر آواز حلق میں ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔
" میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ کیوں میری عزت کا تماشہ بنانے واپس آئی ہو ۔ " کمال صاحب چل تک اس تک آئے اور اسی سخت لہجے میں دریافت کیا۔
" مم ۔۔۔۔۔ ممم۔۔۔ میں بہت بری ہوں ابا ۔ مجھے معاف کردیں۔ میں اتنی خودغرض ہوگئی کہ آپ کے اور سنی کے بارے میں نا سوچا ۔ آپ کی عزت تک کی پروا نہیں کی لیکن دیکھیں مجھے میری غلطی کی سزا مل گئی۔ جس کے پیچھے میں آپ کو چھوڑ کر گئی تھی وہ مجھے دیکھنا تک پسند نہیں کرتا۔ اور دیکھے گا بھی آخر کیوں۔ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ابا۔ میری قسمت اتنی منحوس کیوں ہے۔ " وہ روتے ہوئے بھڑائی ہوئی آواز میں خود کو کوس رہی تھی۔
" یہاں واپس آنے کا فیصلہ میرے لیے آسان نہیں تھا۔ ایک پناہ کھوکر دوسرے کی طرف گئی تھی ۔ وہ بھی میسر نہیں ہوئی تو کہاں جاتی۔ میں گناہ گار ہوں ابا۔ آپکی گناہ گار ہوں آپ جو چاہیں سزا دیں ۔ مگر مجھے یوں نفرت اور حقارت سے نا دیکھیں۔" کہتے ہوئےاسنے کمال صاحب کے پاوں پکڑے۔ اسکے آنسو انکے پاوں پر گرنے لگے۔
" کیا وہ تمہے ملا نہیں یہ اسنے تمہے تھکڑا دیا" انکا لہجا نا چاہتے ہوئے بھی طنزیہ ہوا۔
" نا وہ مجھے ملا اور نا ہی اسنے مجھے ٹھکرایا۔ ٹھکرایا تو اسے جاتا ہے جسے اپنایا ہو۔ اسنے کبھی مخھے اپنایا ہی نہیں تھا۔ " تکلیف سے مسکرائی۔
" ابا اسنے تو کبھی مجھ سے محبت نہیں کی۔ اسنے تو کبھی مجھ سے کوئی وعدہ نہیں کیا ۔ کوئی خواب نہیں دکھایا۔ پھر کیوں میں یہ سوچتی رہی کہ وہ بھی مجھے چاہتا ہوگا ۔ یہ صرف ایک طرفہ محبت تھی اور اسکے حصول میں میں نے ان محبتوں کو بھی کھو دیا جو میرے حصے میں تھیں۔ ابا میں نے خود اپنے ساتھ ظلم کیا۔ " وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ سنی اسی طرح دروازے میں کھڑا بہن کو روتا دیکھتا رہا پھر چھت کی طرف دھوڑ گیا۔۔
سیمل نے بے بسی سے اسے دیکھا۔
" دیکھو بیٹا ۔" کمال صاحب کا یہ لفظ اسکے وجود پر راحت برسا گیا۔
" تم نے جو کیا ہے اسکے بعد ایک باپ کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے معاف کرنا اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ تمہے معاف کرسکوں۔ میں تمہے یہاں رہنے کی اجازت تو دے سکتا ہوں مگر میرے لیے تمھے معاف کرنا آسان نہیں ہوگا۔ غلطی انسانوں سے ہوتی ہے اور تم بھی نادانی میں غلطی کر چکی ہو۔ جسکا تمہے باخوبی اندازہ ہے ۔ تم اس خطا پر شرمندہ ہو میرے لیے یہی کافی ہے۔ " کمال صاحب نے یہ جملے مضبوط لہجے میں کہے تھے مگر سیمل کو انکی آواز لرزتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ پہلی بار باپ کا ایسا لہجا محسوس کیا تھا اور دل کانپ کر رہ گیا تھا۔
" ابا ۔ " اسکے ہونٹ کپکپائے۔
کمال صاحب پلٹ گئے۔ مگر اپنے کمرے میں بند ہونے سے پہلے وہ اسے ایک ضروری اطلاع دینے کے لیے رکے ۔
" ایک ماہ بعد تمھارا اور اسامہ کا نکاح ہے۔ جو ہو چکا اسے بھول کر آگے کی فکر کرو۔ اور اسے بھول جاو۔ یہ تمھارے اور سب کے لیے بہتر ہوگا " آخر میں تنبیہ کرکے کمرے میں بڑھ گئے ۔
دروازہ بند ہوا تو سیمل کی آنکھوں سے مزید کچھ آنسو ٹوت کر بکھرے ۔
گردن موڑ کر پینٹنگ کی طرف دیکھا۔ وہ اس پینٹنگ والی لڑکی سے کتنی مشابہت رکھ رہی تھی۔ بلکل اسی کی طرح اداس۔ توٹی ۔ بکھری۔ روئی روئی سی۔ ایک ایسا نفس جو اپنا سب کچھ کھو چکی تھی۔
دوسری نظر اسنے دروازے پر ڈالی جہاں ابا غائب ہوئے تھے۔ اگلے ہی لمحے اسے سانس میں کچھ اٹکتا ہوا محسوس ہوا ۔
ابا کہہ گئے تھے موسی کو بھول جاو ۔ موسی اسکی زندگی تھا ۔ یعنی زندگی کو فراموش کردو۔ بامشکل اسنے ایک گہری سانس لی۔ نظریں اٹھا کر دیکھا تو اوپر والی منزل پر سنی کھڑا نظر آیا۔ وہ اب تک اسے ایسے ہی دیکھ رہا تھا۔ سیمل نے غور کیا تو سنی کی نظروں میں شکوہ نظر آیا۔
وہ فورا نگاہیں موڑ گئی ۔ ابا کی نارضگی۔سنی کی شکوہ کناہ نظریں اور موسی کی لاحاصل محبت ۔ کیا یہی مقدر تھا یا پھر قسمت اسکے لیے خود میں کچھ اچھا چھپائے بیٹھی تھی۔
□□□
جس وقت سیمل اس بلڈنگ میں داخل ہوئی تھی یوسف کار میں بیٹھا باہر بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ سیمل کے جواب اور یقین دہانی کا کہ وہ موسی سے مل چکی ہے۔
کچھ دیر گزری خب سیمل واپس آتے ہوئے دکھائی دی۔
وہ کار تک آئی اور دروازہ کھول کر اندر بیٹھی۔ " کہیں دور لے جاو مجھے ۔ اتنی دور کہ میں خود کو ڈھونڈ نا سکوں۔" سر سیٹ کی پشت پر گراتے ہوئے بولی۔
" لیکن ہوا کیا۔ تم ملی موسی سا۔ " وہ فکر مندی سے پوچھ رہا تھا۔
" نہیں۔ ۔۔۔!" آگے الفاظ اٹک گئے۔
" بس تم مجھے یہاں سے دور لے جاو ۔وہاں جہاں دل ٹوتنے کی بھی آواز نا آئے۔" آنکھیں موندھے اسکے حلق سے گھٹی سی آواز نکلی۔
یوسف نے کار سٹارت کرلی۔ اسے ابھی سیمل سے کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔
سیمل ٹھیک نہیں لگ رہی تھی ۔ مین روڈ پر گاڑی لانے سے پہلے اسنے ایک نظر سیمل کو دیکھا تھا۔ وہ اپنی محبت نا پا سکا تھا ۔ لیکن خود سے وعدہ کیا تھا وہ ہر حالت میں سیمل اور موسی کو ملا کر رہے گا۔ وہ اپنے دونوں دوستوں کو ایک کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ سیمل کی پریشانی دور کرنے کے لیے جو بن سکا کرے گا مگر آگے تو اسکے استقبال میں ایک پریشانی کھڑی تھی۔
□□□
فارم ہاوس کے لان میں درخت کے ساتھ سیمل کھڑی تھی۔ وہی درخت جہاں وہ پہلے بھی ایک بار کھڑی ہنس رہی تھی لیکن آج اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔
کچھ فاصلے پر زمین پر یوسف بیٹھا تھا ۔ سپوڑٹنگ سٹیک ساتھ ہی رکھی ہوئی تھی۔ اسے سیمل کے لیے بہت برا لگ رہا تھا۔
" تمہے یاد ہے اس دن میں نے تمہے کیا کہا تھا۔ " خاموشی میں سیمل کی تر آواز گونجی۔
" اگر تمھاری جگہ میں ہوتی تو اظہار میں اتنے نخرے نا کرتی ۔ مگر میں تو ہمت نہیں کر سکی ۔ مجھ سے بہتر تو تم تھے۔ تم نے اظہار تو کیا تھا نا کیا ہوا جو محبت حاصل نا ہوئی۔ میں تو اظہار تک نا کرسکی۔ " یوسف نے پہلو بدلا۔ سیمل کے الفاظ اسے سخت تکلیف دے گئے مگر اسنے ظاہر نہیں کیا۔
" مجھے واپس جانا ہے۔ " وہ کچھ دیر بعد دھیڑے سے بولی اور درخت کی ٹیک چھوڑ کر یوسف تک آئی۔
" آئی ایم سوری۔ میں تمہے ہرٹ نہیں کرنا چاہتی ۔ مجھے خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کہہ رہی ہوں ۔ "
" میں نہیں سمجھو گا تو کون سمجھے گا ۔ اب چلنا چاہیے۔ سورج ڈوبنے والا ہے۔ " وہ سپورٹنگ سٹیک پکڑتے ہوئے کھڑا ہوا۔
کچھ دیر بعد یوسف کی سیاہ گاڑی اسلام آباد سے لاہور کی طرف جارہی تھی۔
□□□
" یار کچھ نہیں رکھا ہوا تمھارے فرج میں سوائے اس گھاس پھونس کے۔ " موسی کے فلیٹ کی یوسف پچھلے آدھے گھنٹے سے تلاشی لے رہا تھا اور ساتھ میں تبصرا بھی کر رہا تھا ۔ اب فرج کی باری آئی تھی۔ " کچھ آڈر کرو یار بھوک لگی ہے مجھے۔"
" جو ہے وہی کھالو ۔ میں کچھ آڈر نہیں کر رہا ہوں۔ " کاوچ پر بیٹھے موسی نے لاپ ٹاپ سے سر اٹھایا اور یوسف کو گھورا۔
" ہوں ٹھیک ہے " کندھےاچکاتے ہوئے ایک گاجر اٹھائی اور چباتے ہوئے کاوچ پر آکر بیٹھا ۔
" تو پھر آخر کس چیز نے تمہے ایسا کر دیا ہے۔ یوں سڑو کیوں بن گئے ہو۔ پہلے تو ایسے نہیں تھے ۔ تمہے یاد بھی ہے پہلے تم کیسے تھے ۔ " سوچنے کے انداز میں گردن ٹھوڑی سی ٹیھری کی۔
" ہاں ۔ پہلے بھی کم بولتے تھے مگر اس طرح اکڑو تو نا تھے۔ اکڑو تو داود تھا ۔ اسکے دیڈ بوڑدنگ کے ٹرسٹی کیا تھے وہ تو خود کو وہاں کا مالک سمجھتا تھا۔ تمھارا پتا نہیں لیکن میں تو کم سے کم کبھی نہیں اس سے ملنا چاہوں گا۔ اونہو ! " سر جھٹکا ۔
" تم اپنی زبان بند کرو گے۔ کتنا بولتے ہو تم " موسی کوفت سے بولا۔
" اچھا یہ بتاو کر کیا رہے ہو ۔" یوسف نے لاپ ٹاپ سکرین پر نظریں جمائیں۔
وہاں ولی نام کے آدمی کی ڈاتا بیس کھلی ہوئی تھی۔
" مجھے اس آدمی کو ڈھونڈنا ہے۔ مجھے شک ہے یہ کمپنی کے ساتھ فراڈ کر رہا تھا۔ "
" ہوں ۔ تو میں مدد کر سکتا ہوں اسکو دھونڈنے میں مگر میرے خیال سے ہمیں اس کے باس کو دھونڈنا چاہیے۔ "
" مجھے صرف اسکو ڈھونڈنا ہے۔ آگے کیا کرنا ہے یہ عائشہ کا مسئلہ ہے۔ " فون کال آئی تو وہ ریسیئو کرتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اب تک اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ اس سب کے پیچھے داود کا ہاتھ ہے مگر وہ داود سے کسی بھی قسم کی دشمنی نہیں چاہتا تھا۔
پیچھے یوسف لاپ ٹاپ میں تصویریں کھول کر بیٹھ گیا۔ فولڈر میں صرف ایک تصویر تھی۔ وہ تصویر سیاہ آنکھوں والی لڑکی کی تھی۔ ایک ٹین ایجر لڑکی۔
" یہ لڑکی کون ہے " موسی اندر آیا تو اسنے پوچھا۔
" کسی کی پرسنل چیزیں یوں نہیں دیکھتے ۔ مینرز نام کی کوئی چیز ہے تم میں۔ " موسی نے فورا اسکے ہاتھ سے لاپ ٹاپ کھینچا ۔
" میں سمجھ گیا۔ بھابھی ہے میری۔ ویسے بہت اچھی چوائس ہے تمھاری یار۔ " یوسف نے چھیڑتے ہوئے کہا۔
" اگر تم نے ایسے ہی فضول باتیں کرنی ہیں تو پلیز وہ دروازہ ہے۔ جا سکتے ہو۔" موسی نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
" اوکے ٹھیک ہے نہیں کرتا ۔ بٹ یار کچھ کھلا تو دو ۔ کتنے بے مروت ہو تم ۔ جھوٹے منہ ہی بندہ کچھ آڈر کر لیتا ہے۔ " یوسف نے منہ پھیلایا۔
" اوکے کرتا ہوں ۔ بتاو کیا کھاو گے۔ " موسی نے ہار مانتے ہوئے موبائل اٹھایا ۔
یوسف فورا اسے چیزیں گنوانے لگا۔
کل ہی موسی نے یوسف سے رابطہ کیا تھا اور آج وہ اسکے پاس موجود تھا۔
□□□
داود نے عائشہ کی شادی میں مایا کو دیکھا تھا ۔ عائشہ سے کچھ درجہ مماثلت رکھنے کے باعث مایا نے اسے متوجہ کیا تھا۔ اس نے اس پر نظر رکھوائی تھی۔ وہ ایک مڈل کلاس فیملی کی لڑکی تھی۔ اسکی خود اعتمادی بھی عائشہ جیسی تھی۔ کم سے کم وہ رامین جیسی تو نہیں تھی۔ وہ پہلے دریکٹ پرپوزل بھیجنا چاہتا تھا ۔ لیکن انکار کا مسئلہ اسکی انا بن جاتا اور داود حمدانی کو ایک بار پھر اپنی انا کو زخمی نہیں کرنا تھا ۔ یہی سوچ کر اسنے مایا کو اسکے نکاح والے دن کڈنیپ کروالیا تھا۔ لیکن جلد ہی وہ اسکے آدمیں کے چنگل سے بھاگ گئی تھی۔ اسنے پھر سے اس لڑکی کی تلاش شروع کری مگر اس بار وہ ناجانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔ داود کی بے چینی مزید بڑھتی جا رہی تھی۔ موسی اور یوسف کے درمیان اختلاف ڈالنے میں تو وہ کامیاب ہو گیا تھا ۔ اب بس اسے عائشہ سے نپٹنا تھا۔
□□□
وہ ایک دراز کمرہ تھا جسکے وست میں رکھے صوفے پر عالی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ مسلسل بے چینی سے اپنا پہلو بدل رہا تھا۔
" کیا تم اپنا منہ کھولنا پسند کروگے یا میں کوئی دوسرا طریقہ اپناو۔ مجھے معلوم ہو چکا ہے۔ داود کمپنی کے ساتھ فراڈ کر رہا ہے۔ اور تم اسکی یہ حرکت اب تک مجھ سے چھپاتے آئے ہو۔ " کمرے میں چکر لگاتی عائشہ سنجیدگی اور گہرائی سے بولی تھی۔ آخری جملہ ولی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
" مجھے نہیں معلوم کیا کہہ رہیں ہیں۔ کونسا فراڈ کیسا فراڈ ۔ " ولی لا علم ہوا۔
" سمگلنگ۔ منی لانڈرنگ اور ہیومن ٹریفکنگ۔ کیا ان چیزوں کے بارے میں بھی نہیں معلوم۔ یا میں بتاوں ۔" وہ ولی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے زور دے کر بولی۔ ولی کی ایک دم رنگت معدوم ہوئی۔
" میں عائشہ صبحانی ہوں اور میں عام عورت بلکل نہیں ہوں۔ تمہے لگا تم اور تمھارا باس میری ناک کے نیچے کمپنی اکاونٹس میں فراڈ کرو گے اور اس رقم کو ان ممنوع کاموں میں لگاو گے تو مجھے علم نہیں ہوگا۔ ویسے خوب اچھی پلیننگ کی ہے ۔ ایکسپوز ہونے پر الزام سارا صبحانی ڈیلرذ پر آئے گا مگر میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گی۔ " آنکھیں پھاڑ کر اب وہ اونچے لہجے میں کہہ رہی تھی۔ آواز میں چیلنج بسا ہوا تھا۔
ولی نے زور دار قہقہہ لگایا۔ " تم اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہاں وہ تمھاری ناک کے نیچے یہ سب کرتا آیا ہے اور آج سے نہیں بہت پہلے سے ۔ داود سر ہی نہیں ان کے فاڈر بھی یہی کام کرتے تھے۔ نا وہ کبھی ایکسپوز ہوئے اور نا ہی کبھی داود ہوگا۔ تم غلط انسان سے ٹکر لے رہی ہو۔ تباہ ہوجاو گی۔ اتنی آسانی سے وہ تمہے نہیں چھوڑے گا۔ " ولی بھی آنکھیں دکھاتے ہوئے دھمکی دے رہا تھا۔
" ہوں مطلب تم مجھے دھمکی دے رہے ہو کہ داود مجھے مار دے گا ۔ یہی نا
سہی ۔ تو تمھارا باس کچھ بھی کرلے میں اسے ایکسپوز کر کے رہوں گی ۔ " چبا چبا کر بولی اور قدم دروازے کی طرف بڑھا دیے۔
" اس آدمی پر نظر رکھو۔ مجھے ایک ایک پل کی خبر دو۔ " باہر کھڑے ایک باوردی گارڈ کو حکم دیا اور آگے بڑھ گئی۔
گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ۔ اسنے گلے میں پہنے پینڈنٹ کو ایک بار چھوا۔ لال رنگ کا گول پینڈنت جس میں ایک مائکرو فون لگا ہوا تھا۔
وہ وہاں سے سیدھا ماما کے پاس گئی اور انہیں داود اور اپنے رشتے سے انکار کرنے کو کہا۔ وہ کسی دھوکے باز اور ناجائز کام کرنے والے سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ پھر چاہے وہ محبت ہی کیوں نا ہو۔ عائشہ صبحانی کے لیے سب سے زیادہ عزت معنی رکھتی تھی اور وہ اپنی اور اپنی فیملی کی عزت داود جیسے انسان سے تعلق رکھ کر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس سے پہلے کہ داود سب الزام اس پر ڈالے اسے داود کے مکروہ چہرے سے نقاب ہٹانا تھا۔
□□□
ناشتے کی میز پر کمال صاحب اور سنی بیٹھے تھے۔ سیمل کل سے کمرے میں بند تھی۔ کل کی بات کے بعد دوبارہ بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ سنجیدگی سے برائے نام ناشتا کر رہے تھے۔ جبکہ سنی بار بار کمرے کے بند دروازے کو دیکھتا تھا۔
کمال صاحب جب باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تب پیچھے سے سیمل نے پکارا۔
" ابا ۔ مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے"
" مجھے ابھی دیر ہو رہی ہے۔ شام کو بات کرتے ہیں۔" وہ کہہ کر بیٹھ گئے اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔
سیمل نے انکے لہجے میں تناو محسوس کیا تھا اسکا دل کھینچ سا گیا۔
نم آنکھوں کے ساتھ وہ اندر آئی تو سنی لانج میں کتابوں کے ساتھ نظر آیا۔ پیپرز کے بعد اسکی تعطیلات چل رہی تھیں۔
" آو میں تمہے پڑھاوں۔"
صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
سنی کچھ بولے بغیر اسکے پاس آکر بیٹھ گیا اور کتاب اسکی طرف سرکا دی۔
" مجھ سے ناراض ہو ۔ " وہ نرمی سے سنی کا پیارا سرخ سپید چہرا دیکھتے ہوئے بولی۔
" ہوں۔ بہت زیادہ۔ " وہ ایک دن اور دو راتوں کے بعد اسکی آواز سن رہی تھی۔
" پہلا۔ تم مجھے اور ابا کو چھوڑ کر چلی گئی۔ دوسرا تم نے اپنا وعدہ ٹوڑ دیا۔ ابا نے کہا تھا ہمیں ساتھ رہنا ہے تمہے میرا اور مجھے تمھارا خیال رکھنا ہے۔ تم نے وعدہ ٹوڑ دیا اور مجھے بلکل اچھا نہیں لگا " وہ شکایت کر رہا تھا اور وہ نم آنکھوں سے اسے سنتی رہی۔
" کیا مجھے اپنے پیارے بھائی سے معافی نہیں مل سکتی۔ تم تو کبھی مجھ سے ناراض نہیں ہو سکتے نا۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ لوٹ کر آوں گی۔ دیکھو آ گئی ہوں۔" سیمل نے سنی کا ہاتھ پکڑا ۔
" نہیں۔ میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ تم میری پیاری بہن ہو۔ میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوسکتا۔ بٹ میں نے تمہے مس کیا تھا۔ اور ہاں میں ہمیشہ تمھارے ساتھ رہوں گا اور تمھاری حفاظت بھی کروں گا۔ " آخر میں چہرے پر ایک مسکراہت پھیلائی۔
سیمل نے پیار سے اسکا چوما۔ " میرا پیارا بھائی۔ مجھے لگتا ہے میں بے وقوف سی چھوٹی بچی ہوں اور تم مجھ سے بہت بڑے اور عقل مند ہو۔ تم بلکل اپنی ما۔۔۔۔!" کہتے کہتے رکی ۔ "تم بلکل ابا پر ہو " فورا جملہ تصحیح کیا۔ یہ بات کو سنی کو نہیں معلوم تھی کہ اسکی اور سیمل کی ماں ایک نہیں تھی۔
" میں بڑا ہوکر ابا کی طرح پولیس آفیسر بنوں گا۔ بہت بہادر اور طاقتور۔ دیکھنا سب غلط لوگ مجھ سے دریں گے۔ میں ہر ایک کو جیل میں ڈال دوں گا۔ " وہ جوش سے بولتا پرانا سنی لگ رہا تھا۔
یہ بات تو طے تھی کہ وہ سیمل سے زیادہ ناراض نہیں ہو سکتا تھا۔ ہاں البتہ موسی جہانگیر سے ناراضی ضرور بڑھ گئی تھی۔
□□□
یوسف کے ہاتھوں میں ہٹھکڑیاں بندھی تھیں۔ دو پولیس آفیسر اسے کھا جانے والی نظروں سے سامنے بیٹھے گھور رہے تھے۔ وہ بھی نظریں ان پر گاڑھے بیٹھا تھا۔ پھر نگاہیں جھکا کر ہٹھکریوں کو دیکھا۔ غور سے مزید غور سے یہاں تک کہ وہ ہٹھکریاں دو خوبصورت سنہری بینگل میں بدل گئی۔ وقت کا دھارا پیچھے کو بہنے لگا۔
وہ ایک پارک میں بینچ پر بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں مسلسل بینگلز گھما رہا تھا۔ وہ شام جب یوسف کا دل ٹوتا تھا ۔ وہ شام جب مایا نے اسے انکار کیا تھا ۔
کافی دیر تک وہ ایسے ہی بیٹھا رہا پھر اٹھ کھڑا ہوا ۔
جس وقت وہ گھر پہنچا سکندر صاحب نے اسے سٹدی میں بلایا ۔
" جی پاپا ۔ اپنے بلایا تھا ۔" اور اگلے ہی لمہے انکا غصے سے سرخ چہرا دیکھ کر حیرت سے گھر گیا۔
" لاپرواہی، غیر زمہ داری اور دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی تو پہلے ہی کرتے تھے۔ اب مجھے بدنام کرنے کے لیے طوائفوں کے کوٹھے پر بھی جانے لگے ہو ۔" وہ طیش سےڈھاڑے تو یوسف کا رنگ فق ہوا۔
" پاپا وہ میں۔۔۔۔!"
" بکواس بند کرو۔ میرے گھر میں پہلی بار پولیس آئی تھی صرف تمھاری وجہ سے۔ " سکندر صاحب کا رنگ سرخ ہوا ۔
" بہت ڈھیل دی ہے تمھاری ماں نے تمہے لیکن اب اور نہیں۔ " کچھ توقف کیا۔
" جب تک سدھر نہیں جاتے اور اپنی یہ حرکتیں نہیں چھوڑ دیتے تمہے میرے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ " انہوں نے گویا اپنا فیصلہ سنایا ۔
" مگر پاپا۔۔۔!"
" تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ۔ یہ جو تم میرے پیسوں پر عیش کرتے ہو اور کوٹھوں پر لٹا تے پھرتے ہو نا چند دن سڑکوں پر بھٹکو گے تو عقل ٹھکانے آجائے گی۔ تب معلوم ہوگا تمہے پیسہ اور عزت کیسی کمائی جاتی ہے۔" بات مکمل کرکے انہوں نے اسے دفعان ہونے کا کہا۔
" آپ اسے گھر سے کیسے نکال سکتے ہیں۔" شہانہ سٹدی میں آتے ہوئے شوہر سے دریافت کرتے ہوئے بولی۔ ان کی آنکھ میں آنسو تھے۔
" تم درمیان میں مت آو ۔ یہ باپ بیٹے کا مسئلہ ہے۔ کچھ دن گھر سے باہر رہے گا تو عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ " انگلی اٹھا کر تنبیہ کی۔
" مگر اس طرح گھر سے تو نا نکالیں۔ کہاں جائے گا وہ۔" شہانہ نے فریاد کی۔
" یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ جدھر بھی جائے ۔ اور جب عقل ٹھکانے آ جائے تو واپس آسکتا ہے۔ مگر اب مزید میں اسکی لاپرواہیاں اور نامناسب حرکات برداشت نہیں کر سکتے ۔" حتمی لہجے میں کہتے وہ باہر نکل گئے۔
شہانہ نے ساکت کھڑے یوسف کو دیکھا۔
" بیٹا میں تمھارے پاپا کو سمجھاتی ہوں۔ وہ غصے میں یہ سب کہہ رہے ہیں۔
" وہ فورا اسے تسلی دینے لگیں۔
" نہیں ۔ اگر پاپا کو میرے گھر سے چلے جانے پر خوشی ہوتی ہےتو تھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔ آج تک انہیں مجھ سے ہمیشہ شکایت رہی ہے۔ اب نہیں رہے گی۔ " کہہ کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ جب واپس نکلا تو ہاتھ میں بس ایک فائل تھی۔
"تم واقعی جا رہے ہو۔ " شہانہ کا دل ڈوبا۔
" میں بس پاپا کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں۔" سنجیدگی سے بولا اور شہانہ کے پاس آیا ۔
" کہاں جاو گے۔ " وہ روتے ہوئے بولیں۔
" اتنی بڑی دنیا ہے ۔ کہیں نا کہیں تو چلا جاوں گا۔ اور آپ روئیں مت ۔" ہاتھ سے شہانہ کا چہرا صاف کیا۔
" تم گھر چھوڑ کر جا رہے ہو اور مجھے کہتے ہو رو نہیں۔" شہانہ نے گلا کیا۔
" میں ہمیشہ کے لیے تو نہیں جا رہا ہوں۔جب عقل ٹھکانے آ جائے گی تو لوٹ آوں گا۔" سکندر صاحب کی بات دھراتے ہوئے زورار قہقہہ لگایا۔
"میری فکرنا کریں۔ بچہ نہیں ہوں میں۔ آپ بس یہ سمجھیں کہ پڑھنے کے لیے بیرون ملک جا رہا ہوں۔" پھر دوبارہ زور سے ہنسا۔
" تمھارے پاپا تھیک کہتے ہیں۔ تم بلکل لاپرواہ ہو۔ وہ تمہے گھر سے نکال رہے ہیں۔ اور تم ہنس رہے ہو۔ " شہانہ خفا ہوئیں۔
" واپس آجاوں گا میں۔ آپ ٹینشن نا لیں۔ " لاپرواہ سے انداز میں کہہ کر شہانہ کو گلے لگایا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
ضبط کا بندھ گھر سے نکل کرٹوتا ۔ آنکھ میں نا معلوم سا آنسو آکر ٹھہرا۔ پہلے مایا کا انکار اور پھر سکندر صاحب کا اسکی صفائی سنے بغیر فیصلہ سنا دینا۔
وہ دن یوسف سکندر کی زندگی کے بدترین دنوں میں سے ایک تھا۔
□□□
اس آفیسر کے کھنگارنے پر یوسف واپس حال میں آیا۔
وہ تفتیشی کمرے میں بیٹھا تھا۔
آفیسر نے ایک فائل اسکے سامنے رکھی۔ تبھی دروازہ کھلا اور بلیک سوٹ میں ملبوس حمزہ اندر داخل ہوا۔
" مجھے میرے کلائنٹ کے ساتھ اکیلا چھوڑا جائے۔" حمزہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے سرسری انداز میں بولا۔
یوسف نے حیرت سے اسے دیکھا۔
" مگر میں نے تمہے اپائنٹ تو نہیں کیا۔ میرا وکیل کہاں ہے۔ " ہٹھکریوں والے ہاتھ میز پر رکھے۔
" کیونکہ اب میں تمھارا کیس لڑوں گا" حمزہ نے اطلاع دی۔ پھر فائل کھول کر نگاہ ڈالی۔
" کیا تم جانتے ہو کس جرم میں گرفتار ہوئے ہو۔"
" ہاں۔ " ایک لفظی جواب دیا۔
" اپنے بچاو میں کوئی ثبوت یا گواہ ہے"
" نہیں۔" وہ برے موڈ میں جواب دے رہا تھا۔
" جانتے ہو میں یہ کیس تمھاری مخالفت میں لڑنے والا تھا ۔ مگر کوئی بھی ثبوت تمھارے خلاف نہیں جارہا تھا۔ صرف شک کی بنا پر کم سے کم میں تو سزا دلوانے کے حق میں نہیں ہوں۔" فائل بند کرتے ہوئے حمزہ یوسف کا چہرا بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
" کیا مطلب۔ " وہ سمجھا نہیں تھا۔
" مطلب یہ کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کڈنیپنگ تم نے کی تھی۔ ہاں اسے شک ہے تم پر مگر۔۔۔۔۔۔!"
" ایک منٹ ۔" یوسف نے درمیان میں بات کاٹی۔ " کونسی کڈنیپنگ!"
"مایا کی کڈنیپنگ۔ " اس کی حیرت سے زیادہ حمزہ حیران تھا۔
" واہ ۔یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔ چار سال پہلے آخری مرتبہ اسے یونی کی فیئر میں دیکھا تھا۔ اور میں کیوں کروں گا آخر مایا کو کڈنیپ " سوالیہ انداز میں آگے کو ہوا۔
" لیکن مایا نے تم پر اپنی کڈنیپنگ کا ہی کیس کیا ہے۔ تم نے 12 جون کو اسے اسکے نکاح والے دن اغواہ کیا تھا اور کئی دن تک۔۔۔۔"
"کیا کہا 12 جون " یوسف نے ایک بار پھر اسکی بات کاٹی ۔
" 12 جون ۔ اس دن تو میرا اکسیڈنٹ ہوا تھا۔ میں کیسے کسی کو اغواہ کر سکتا ہوں۔ اور وہ بھی مایا کو۔۔۔۔!" وہ شدید حیرت زدہ لگ رہا تھا۔
" یعنی تمھارے پاس گواہ اور ثبوت ہیں۔ اب کیس تمھارے حق میں ہی جائے گا۔ ۔۔۔ کوڑٹ میں ملتے ہیں۔ " حمزہ نے ہاتھ ملایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
پیچھے یوسف ششدر سا بیٹھا رہ گیا۔ مایا کی کڈنیپیگ اسنے نہیں کی تو کس نے کی اور مایا کو اس پر شک کیوں تھا۔
اسکا ذہن ایک بار پھر اسی رات کی طرف جانے لگا تھا۔
□□□
" پری کا بخار اب ٹھیک ہے۔ سو رہی ہے۔ " انم نے موسی کے آتے ہی اسے خبر دی۔
" تھیک ہے۔ " وہ سرسری انداز میں بولا ۔ چہرا بجھا بجھا سا لگ رہا تھا۔
آج ہی وہ ڈاکٹر کے ہو آیا تھا ۔ پچھلے کئی سالوں سے سر میں جو درد تھا وہ بڑھتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کے ناقابل برداشت ہوگیا تھا۔ یہ درد اسکی چوٹ کی وجہ سے تھا۔
کوئی رگ ڈیمج ہوئی تھی اور ڈاکٹر نے صرف آپریشن ہی حل بتایا تھا۔
اس ساری ٹینشن میں بھول گیا کہ صبح کوئی لڑکی آئی تھی اور اسکے لیے کچھ دے گئی تھی۔
بیڈ سائڈ ٹیبل کی دراز میں پڑھی وہ ڈبی اس رات ان چھوئی ہی رہ گئی۔
□□□
عائشہ کے آفس میں موسی اور عائشہ موجود تھے۔
سامنے پڑے لاپ ٹاپ پر ایک ریکاڈنگ چل رہی تھی۔ ولی کی آواز گونج رہی تھی وہ داود کے ناجائز کاروبار کا اعتراف کر رہا تھا۔
" یہ کافی نہیں رہے گا ۔ وہ کورٹ میں اسے ایک پل میں جھوٹا ثابت کردے گیں۔"ریکاڈنگ بند ہوئی تو موسی بولا۔
" میں جانتی ہوں ۔ لیکن میں داود کے خلاف ثبوت اکھٹے کرلوں گی۔ تم بس میرا ساتھ دو ۔ " عائشہ نے کرسی پوری پیچھے کہ طرف گھمالی۔ اب موسی کی طرف اسکی پشت تھی۔
" اس ساتھ کا مقصد صرف میری جاب نہیں بلکہ میں اپنے دوست کو بربادی سے بچانا چاہتا ہوں۔ وہ ایک زہین اور شاطر انسان ہے مگر وہ خود اپنی بربادی کا سمان اکھٹا کر رہا ہے۔ " توقف کیا اور سوچتے ہوئے بولا۔ کرسی کا رخ موڑے عائشہ غور سے سن رہی تھی۔
" وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا ۔ شاید اپنے باپ کے نقشے قدم پر چلتا ایسا ہوگیا۔ مجھے یاد ہے وہ ہمیشہ اسے ان بچوں سے دوستی کرنے کا کہتے تھے جو اسروسوخ والوں کے بچے ہوں۔ جن کے والدین کی دوستی فائدہ مند ہو۔ اور جو کسی کام کا نہیں ان سے جتنا دور رہا جائے اتنا بہتر۔ "
عائشہ نے واپس اپنی کرسی موڑی۔ داود اور حمدانی انکل سالوں سے ہماری فیملی اور کمپنی کو دھوکا دیتے ہیں۔ میرے ڈیڈ نے کبھی فائدوں پر تعلقات قائم نہیں کیے۔ اور مجھے یہ ہر گز قبول نہیں ہے کہ وہ مزید ہمارے فنڈز ناجائز کاموں میں استعمال کرے۔ " وہ فائل و انگلی کی نوک سے بجاتے ہوئے بولی۔
" ناو یو میں لیف " فائل کھولتے ہوئے جانے کی اجازت دے دی۔
موسی کے جانے کے بعد پھر سے فائل بند کی اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کے آنکھیں موندھ لی۔
کیا وہ سب اتنا اسان ہوگا جتنا ہو سوچ رہی تھی۔ عائشہ صبحانی نے عزت اور فریب کے پیچھے محبت کو قربان کیا تھا ۔یقینا یہ سب آسان نہیں تھا۔
□□□
قانونی کاروئی کے بعد جہانگیر صاحب کی پراپرٹی موسی کی ملکیت بن چکی تھی۔ پراپٹی میں ایک گھر ۔ ایک فلیٹ اور چند ہزار رقم تھی۔ اسکے علاوہ ایک پلازہ ناہید پھو پھو کے حصے میں اور دو فلیٹس فرزانہ پھوپھو کے حصے میں تھے۔ اسنے گھر بیچ کر وہ رقم اور علیحدہ سے ملی رقم بینک میں ڈیپوزٹ کر وادی اور خود فلیٹ میں رہنے لگا تھا ۔
□□□
" تو یعنی آپ میرے خلاف کیس لڑیں گے۔ " مایا کو جیسے ہی علم ہوا وہ حمزہ کے پاس پہنچ گئی۔
" نہیں جھوٹ اور جرم کے خلاف۔ " وہ عام سے انداز میں بولا
" مطلب میں جھوٹ کہہ رہی ہوں " مایا نے سر جھٹکا۔
" میں نے ایسا کب کہا ۔ ہو سکتا ہے تم صحیح ہو مگر صرف اپنی حد تک ۔ کہانی کے دوسرے رخ سے تم نا واقف ہو اور بس یہی بات سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ " حمزہ نے تحمل سے اسے سمجھایا۔
" میں بس اتنا جانتی ہوں کہ یوسف سکندر کی وجہ سے میرے گھر والے مجھے فرار ہوئی لڑکی سمجھتے ہیں اور مجھے اسکا بدلہ اس سے لینا ہے۔ پھر چاہے آپ میری حمایت میں ہوں یا مخالفت میں۔" تیز لہجے میں کہتے اٹھ کھڑی ہوئی۔
" یعنی تم چاہتی ہوکہ ہر حال میں یوسف کو سزا ملے صرف شک کہ بنا پر " وہ آگے سے کہہ رہا تھا مگر وہ کچھ بھی سنے بغیر باہر نکل گئی تھی۔
یہ تو طے تھا حمزہ شجاعت کو ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا تھا۔
اسنے ٹیبل کی دراز کھولی اور اندر سے ایک فوٹو فریم نکالا ۔ عائشہ صبحانی ولیمے کی دلہن بنی کھڑی تھی۔ گرے کلر کی میکسی کے ساتھ بالوں کا جوڑا بنائے ڈائمنڈ جیولری کے ساتھ وہ بہت باوقار لگ رہی تھی۔ حمزہ نے دھیرے سے تصویر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ اب اسکی زندگی میں نہیں تھی۔ دو سال پہلے جا چکی تھی۔ وکالت کی پڑھائی کرنے کے بعد اسنے پریکٹس سٹارت کردی تھی اور اسکی قابلیت کو دیکھتے ہوئے صبحانی خاندان کا فیملی وکیل بنا یا گیا۔ عائشہ سے پہلی ملاقات تب ہوئی اور حمزہ شجاعت اس لڑکی سے محبت کر بیٹھا۔ لیکن عائشہ کو وہ پسند نہیں تھا ۔ عائشہ کے اسکی زندگی سے چلے جانے کے بعد اسنے پرائویٹ کیسز لڑنے شروع کر دیے۔
□□□
وہ کئی دن سے چاہ رہی تھی مگر کمال صاحب سے بات نہیں کر پارہی تھی۔
دو دن بعد اسکا اسامہ سے نکاح تھا ۔
نکاح سے ایک رات پہلے وہ سٹیدی میں آئی ۔ پین اور صفحہ اٹھایا اور اسپر لکھنے لگی۔ وہ بات جو وہ کہہ نہیں پاتی تھی۔ موسی کی بے گناہی۔
نکاح والے دن وہ مہرون اور بلیک کلر کے امتیاز والی میکسی میں ملبوس تھی ۔ میک اپ کے بعد بھی چہرا مرجھایا سا لگ رہا تھا ۔ سنی اسکے ساتھ ساتھ ہی تھا۔
ابا ۔ تایا ابا سامنے موجود ۔تائی امی دائیں طرف بیٹھیں۔ ردا بائیں طرف اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے جو سرد ہو رہا تھا۔ سنی صوفے کے پیچھے کھڑا ۔
کرسی پر مولوی صاحب بیٹھے تھے۔
اسنے خود کو تین بار قبول ہے کہتے سنا اور ہر بار سانس گھٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دل بند ہوتا محسوس ہوا۔
اب سب مبارک باد دے رہے تھے۔ گلے مل رہے تھے۔ تائی امی اسے بوسا دے رہی تھیں۔ ردا کچھ کہتے ہوئے اسے گلے لگ رہی تھی۔ ابا اور تایا ابا سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ وہ بے جان ہوتے جسم ڈوبتی سانسوں اور خالی زہن سے سب کچھ ہوتا دیکھ رہی تھی۔
اب وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔ آنکھیں خشک تھیں۔
اسامہ اندر آیا ۔ کچھ کہا
اسکا ہاتھ تھامہ اور ایک سونے کی انگوٹھی پہنائی ۔ آنکھوں میں نمی سی ابھری۔ اس ہاتھ کو تو موسی جہانگیر کی نسبت رکھنے والی انگوٹھی سجتی ہے۔ پھر یہ اسکو کیوں قبول کر رہا تھا۔
اسامہ اس سے بات کر رہا تھا بتا رہا تھا کہ وہ اسے کتنا پسند کرتا ہے۔ آج وہ کتنا خوش ہے۔ اور وہ ماوف ہوتے زہن کے ساتھ سن رہی تھی۔
□□□
پچھلی کچھ دیر سے موسی اس قبر پر کھڑا تھا۔ ایک ڈھائی سال کی پچی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ بچی نے انگلی چھڑائی اور مٹی سے کھیلنے لگی۔
" چلو پری ۔ ماما کو آرام کرنے دو اب۔ " موسی پلٹتے ہوئے بولا تو بچی ہاتھ جھاڑتے ہوئے اسکے پیچھے چلنے لگی۔
بہت سی قبروں کے درمیان وہ قبر بھی ان دونوں کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
قبر پر لگے قطبے پر سیاہ حروف سے قبر میں مقیم کا نام لکھا تھا ۔
" عائشہ صبحانی۔"
□□□