کمال صاحب کے گھر سے بے عزت ہوکر نکالے جانے کے بعد وہ سیدھا ریسٹورنٹ آیا۔
" یہ کیا ہوا ہے تمھے ۔ اور یہ چوٹ کیسے آئی۔ " ریسٹورنٹ کا مالک ۔ زبیر اسے دیکھتے ہی فورا پاس آیا اور فکر مندی سے پوچھا ۔ زبیر فطرتا نرم دل اور ہمدرد واقعہ ہوا تھا ۔ وہ موسی کو کچن میں لے آیا۔
موسی نے کچھ بھی کہے بغیر سامنے رکھی بوتل سے پانی کے دو گھونٹ بھرے اور وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔
" آخر تم بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا ہے۔ کیا کسی سے جگھڑا ہوا ہے ۔ " زبیر نیچے کی طرف جھکا ۔ باقی ملازمین بھی جمع ہوگئے اور موسی کی زخمی حالت سے فکر مند ہوگئے۔ زبیر نے سب کو ڈانٹ کر واپس کام پر لگایا۔
"ہاں ۔۔۔۔! " وہ بولا تو لہجہ بے یقین سا تھا ۔ " وہ بہت سارے تھے۔ اور مم۔۔۔میں۔۔۔ اکیلا۔" خلا میں تکتے ہوئے وہ الجھن کا شکار لگتا تھا۔ جیسے الفاظ تلاش کر رہا ہو۔
" مگر آخر ان لوگوں نے تمہے مارا کیوں ۔؟ " زبیر نے کہتے ہوئے اسکے سر کے زخم کو دیکھا جس سے خون نکل رہا تھا۔
وہ فورا فسٹ ایڈ باکس لے آیا اور اسکے زخم کی ڈریسنگ کرنے لگا ۔اس دوران موسی بلکل خاموش رہا۔ سپرٹ زخم پر لگی تو ہلکی سی آنکھ بھینچ گئی۔
" ہمیں پولیس کے پاس جانا چاہیے۔ یہ پولیس کیس ہے۔ " ہاتھ دھوتے ہوئے زبیر بولا تھا۔
" نن۔۔۔نہیں۔ مجھے کہیں نہیں جانا ہے" وہ ہچکچا رہا تھا۔ بے یقین بھی تھا۔ سب کچھ اتنی تیزی میں ہوا ۔اسکے زہن میں بار بار روتی ہوئی سیمل گھوم رہی تھی۔
" مگر۔۔۔!" زبیر کچھ کہتے ہوئے چپ ہوا پھر متلاشی نظروں سے اسکا چہرا دیکھا۔ اترا ہوا ، بے رونق سا۔ بجھی بجھی سی سنہری آنکھیں۔ اسے اس اٹھرہ سالہ لڑکے پر ترس آیا۔ موسی وہاں کے تمام ملازمین میں سب سے کم عمر تھا۔ اور زبیر کو وہ اپنے کام اور قابلیت کی وجہ سے پسند بھی بہت تھا۔ وہ محنتی بھی تھا اور دل لگا کر کام کرتا تھا۔
ریسٹورنٹ بند کرکے جب زبیر پارکنگ ایریا میں آیا تو چونک گیا۔ موسی وہین ایک کونے میں زمین پر بیٹھا تھا۔ وہ اندھیرے میں تھا۔ زمین پر انگلی سے کچھ لکھ رہا تھا۔ زبیر کو نظر نہیں آیا مگر وہ شرطیہ کہہ سکتا تھا اسکی آنکھ میں آنسو تھے۔
" تم گھر نہیں گئے۔ یہاں کیوں بیٹھے ہو ۔" زبیر اسکے قریب آیا اور دریافت کیا۔
" کون سا گھر ۔۔۔!" نظریں اٹھائے بغیر ۔ انگلی روکے بغیر وہ استہزائیہ سر جھٹک گیا۔
" میرا کوئی گھر نہیں ہے ۔ میرا کبھی کوئی گھر نہیں تھا۔ بچپن سے دوسروں کے گھروں میں پلا ہوں ۔ میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ " آخر میں اسنے درد بھرا قہقہہ لگایا۔ صرف ایک ماں باپ نا ہوں تو زندگی کیسی ہو جاتی ہے
زبیر کافی لمحے تک اسے تکتا رہا۔ وہ ویسے ہی بیٹھا رہا ۔ اب تک نظریں نہیں اٹھائیں تھیں۔
" تم میرے ساتھ چلو ۔" کچھ سوچ کر زبیر نے کہا ۔
" کہاں " موسی نے پہلی بار نظریں اٹھائیں۔
" میرے گھر ۔ صرف کچھ دن کی پناہ دونگا تمہے۔ تم محنت کرو گے اور اپنا گھر خود بناو گے۔ تم خود بساو گے۔ میں زیادہ دن تمہے برداشت نہیں کرونگا اپنے گھر۔ " حتمی لہجے میں کہہ کر زبیر مڑ گیا۔
موسی نے اسے اپنی گاڑی میں بیٹھتے دیکھا۔ وہ منتظر نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔ موسی نے نظریں جھکا دی۔
زبیر نے ایک سانس بھرا اور اگلے ہی پل چہرے پر اطمینان آیا ۔
" موسی اسکے قریب آیا شیشے کی طرف جھکا۔ اور دریافت کرنے والے انداز میں پوچھا۔
" کیا آپ وکیل شجاعت صاحب کو جانتے ہیں ۔"
" نہیں مگر کیوں ۔" زبیر نے الجھ کر پوچھا۔
" اوہ۔ ۔ آپ کو کیسے پتا ہوگا ۔ وہ تو اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ " خود کی تصحیح کی پھر پیچھے ہوگیا۔
" کیا تم اب تک بضد ہو ۔ میں صرف تمہے کچھ دن اپنے گھر رکھ سکتا ہوں ۔میری آفر بلکل نہیں بدلے گی ۔" وہ آخری بار پیش کش کرتے ہوئے بولے ۔
" ٹھیک ہے مگر آپ اس بات کے پابند رہیں گے کہ میں آپکو آپکے گھر رہنے کا رینٹ دوں اور زیادہ عرصے تک آپ کے گھر میں نا رہوں۔ " موسی نے بھی اپنی شرط رکھی۔
" مجھے منظور ہے ۔" فل وقت زبیر کو یہ ہی ٹھیک لگا ۔ کم سے کم وہ اس لڑکے کو یہاں پر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔
باقی بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔
موسی اب تک باہر کھڑا تھا۔ وہ پھر سے کشمکش کا شکار ہو رہا تھا۔
" تم آتے ہو یا میں جاوں ۔ میں نہیں چاہتا تم سڑکوں کی خاک چھانتے پھرو۔" زبیر کے لہجے میں اسکے لیے فکر، ہمدردی اور احساس ایک ساتھ جھلک رہا تھا۔
موسی نے پہلے اسے دیکھا ۔پھر بد دل سا ہوکر گاڑی کا دروازہ کھول لیا۔
□□□
اسلام آباد کی اس یونیورسٹی میں فٹ بال چیمپین شپ کا آغاز ہو چکا تھا ۔ یونی کے بہترین پلیئرز کی سلیکشن ہو چکی تھی اور سر فہرست یوسف کا نام تھا۔ وہ فٹ بال کا ماہر کھلاڑی جانا جاتا تھا۔ پچھلے تین سالوں سے اسکی ٹیم ہی جیت رہی تھی اور اس دفعہ بھی پوری یونی کو اسکی ٹیم کے جیتنے کی امید تھی۔ فائنل ایئر ہونے کے باعث یوسف کے لیے یہ جیت بہت ضروری تھی مگر کیا کریں ایک جزبہ ہوتا ہے جو ہر چیز پر بھاری پر جاتا ہے۔ جیتی ہوئی بازی کو ہار میں بدل دیتا ہے صرف کسی اور کی خاطر ۔ کسی اور کو خوش دیکھنے کے لیے سب کچھ ہار جانا ایسی جیت کی خوشی ہی نرالی ہوتی ہے ۔ اس جزبے کو محبت کا نام دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
" کیا مطلب۔؟" سیمل نے بے یقینی سے یوسف کو دیکھا جو اسکے سامنے کھڑا ایک کاغذ لہرا رہا تھا۔
" میرے خیال سے میں نے فارسی نہیں بولی ہے۔ " یوسف نے منہ بنایا۔
" لیکن پہلے مجھ سے پوچھ تو لیتے "
" تمہے کچھ نہیں کرنا ہے بس میری ایک مدد کرنی ہے ۔ " یوسف نے منت کی ۔ جو شاید کبھی نا کی ہو مگر ہائے یہ محبت کیا کیا کرواتی ہے۔
" میں فٹ بال کھیل کر کیسے تمھاری مدد کرونگی۔ " سیمل نے آبرو اچکائے۔
" تم نے نہیں کھیلنا ۔ مایا کو کھیلوانا ہے۔ " یوسف نے سمجھایا۔
" گرلز فٹ بال ٹیم میں نام میرا ڈال دیا اور کھیلے گی مایا ۔ کچھ اٹپٹا سا نہیں لگ رہا کیا۔ " وہ واقعی سمجھ نہیں پائی تھی۔
" وہ تمھاری جگہ کھیلے گی۔ تمہے بس اسکو اپنی جگہ دینی ہے ۔ اسے مجبور کرنا ہے کہ وہ کھیلے۔" یوسف نے بات پر زور دیا۔
" ہوں۔۔۔! " سمجھ گئی ۔ پھر اسبات میں سر ہلایا۔
" مگر تم کیوں چاہتے ہو وہ کھیلے۔ " سوال اب بھی وہیں تھا۔
" میں نے اس دن تمہے باتیں کرتے سنا تھا جب مایا نے بتایا وہ سکول کی فٹ بال چیمپین تھی۔ بس مجھے اس بات کا یقین کرنا ہے ۔" اسنے وجہ بتائی۔
" تم چھپ کر ہماری باتیں سنتے ہو ۔" سیمل نے گھورا ۔
" سوری ۔ اس دن غلطی سے کانوں میں پر گئی تھیں۔ " ساتھ ہی دانتوں تلے زبان دبائی۔ زبان کا سٹڈ نمایا ہوا۔
" تمہے یقین کیوں کرنا ہے ایسے ہی کیوں نہیں مان لیتے ہو۔" سیمل نے دوسرا سوال رکھا۔
" ایک محبت کرنے والے کو دوسرے سے ایسے سوال نہیں پوچھنے چاہیے۔ کیوں کب کیسے والے بے معنی سوال۔ " ساتھ ہی آنکھ دبائی اور سیٹی بجاتا ہوا مڑ گیا ۔ سیمل دنگ سی اپنی جگہ کھڑی رہ گئی۔
صحیح تو کہہ گیا تھا۔ محبت میں کیا۔کیوں کب ۔کیسے والے سوال نہیں ہوتے۔
اسے موسی سے کب۔ کیوں کیسے محبت ہوئی یہ سوال تو کبھی اس نے کیے ہی نہیں۔ بس جب بھی زکر ہوا تو اس چیز کا کہ اسے موسی جہانگیر سے محبت تھی۔ کیسی اور کتنی اس کا بھی اندازہ نہیں تھا۔
□□□
زبیر کے کہنے پر اسنے دوبارہ کسی دوسرے کالج میں ایڈمیشن لے لیا ۔ اخراجات زبیر نے اٹھائے اس شرط پر کہ موسی انکی ادائیگی کردے گا۔ وہ پہلے کی طرح ہی کام کر رہا تھا ۔ بلکہ اب تو زیادہ محنت سے کر رہا تھا ۔ اسکی ذات میں ایک خاموشی سی در آئی تھی۔ بعض اوقات کسی خیال میں کھوتا تو کافی دیر ایک ہی جگہ کھڑا رہتا ۔ کوئی کندھا ہلاکر جھنجھوڑ دیتا تو سر جھٹک کر کام پر لگ جاتا ۔
وہ کوئی دوسرا ہفتہ تھا اسے زبیر کے گھر جب رات کے وقت اچانک اسکی آنکھ کھلی۔ گہرے گہرے سانس لیتا ہوا وہ آنکھیں پھاڑے کمرے کو دیکھنے لگا۔
وہاں کوئی نہیں تھا ۔وہ لوگ جو اسے مار رہے تھے کہیں نہیں تھے ۔وہ تنہا تھا۔
وہ محض ایک خواب تھا ۔ جو اتنی شدت لیے ہوئے تھا کہ سچ کا گمان ہوتا تھا۔ کافی دیر تک وہ سانس بحال ہونے تک بیٹھا رہا ۔ پھر اٹھا اور باتھ روم میں گھس گیا۔
منہ پر پانی اچھالتے ہوئے اسے آئینے میں دو سیاہ آنکھیں نظر آئیں ۔
وہ پہلی رات تھی جب وہ دردناک خواب اسے نظر آنا شروع ہوئے تھے۔ وہ پہلی رات تھی جب سے سیمل کمال اسکے اعصاب پر حاوی ہونا شروع ہوئی تھی۔
اسکے سر میں اچانک ٹیس اٹھی۔ سر کی چوٹ تکلیف دینے لگی مگر وہ محسوس کیے بنا چھٹ پر چلا آیا اس امید میں کہ تازا ہوا میں تھوڑا خود کو کمپوز کرلے۔
□□□
" واووووو" سیمل نے سنی کو بتایا تو وہ جوش سے بولا۔
" تم کھیلوں گی کتنا مزا آئے گا ۔ میں تمہے بہت زیادہ چیئر کروں گا ۔ " وہ جوش میں اپنا پلین سنا رہا تھا۔
" مجھے تو کھیلنا ہی نہیں آتا سنی۔ تم جانتے تو ہو ۔"
سنی کا ایک دم منہ لٹکا۔
" تو تم سیکھ لو نا " اچانک سنی بولا تو سیمل نے ہستے ہوئے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا ۔
" تین دن میں فٹ بال کھیلنا کیسے سیکھوں گی بھائی صاحب " اسنے کندھے اچکائے تو سنی کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
" پھر تم نے اپنا نام کیوں ڈالا پلیئرز میں "
" میں نے کہاں ڈالا۔ یوسف پیچھے پڑ گیا ۔ ویسے تو ہر کام می ہرفن مولا ہے۔ ٹاپر ہے۔ فٹبال ٹیم کا چیمپین ہے مگر ( محبت کے معاملے میں کچا ہے ۔ بے ڈھڑک ہر بات بولنے والا یوسف سکندر اپنی محبت کا اعتراف نہیں کر پارہا ہے۔ ) اسے پتا نہیں کیوں ضد سی چھڑ گئی ہے ۔"
سنی کے سر کے اوپر سے ساری باتیں گزری ۔ وہ کندھے اچکاکر واپس ہوم ورک کی کاپی پر جھک گیا ۔
اس وقت وہ لانج میں بیٹھے تھے اور سیمل اسے پڑھا رہی تھی جب سیمل نے زکر چھیڑ دیا۔
□□□
" سائقہ مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے تم سے ۔ " سائقہ بیگم اس وقت کمرے میں داخل ہوئی تھیں جب بی جان نے ان سے کہا۔
" جی بی جان " وہ سامنے رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
" میں چاہتی ہوں کہ صبحانی خاندان اور ہمدانی خاندان کا جو تعلق ہے وہ اور گہرا اور مضبوط ہوجائے۔ میں دراصل چاہتی ہوں کہ عائشہ اور داود کی نسبت طے ہوجائے۔ " بی جان نے اپنا مدعا بیان کیا ۔
" یہ تو بہت اچھی بات ہے بی جان ۔ سب اس فیصلے سے بہت خوش ہونگے ۔ عائشہ اور داود تو ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ " سائقہ بیگم کی خوشی کی انتہاء نا تھی۔
" تو پھر ہمیں جلد ہی اس فیصلے پر عمل در آمد کرنی چاہیے ۔ " بی جان نے پختگی سے کہا تو سائقہ بیگم حکم بجا لانے والے انداز میں سر ہلا کر چلیں گئیں۔
وہ خوش تھیں بہت خوش ۔ دونوں خاندانوں میں جو معاملات بگڑے ہوئے تھے وہ اس رشتے سے ضرور ٹھیک ہو جائیں گے۔
□□□
وہ منگنی کی تقریب کوئی عام نا تھی۔ ایک سیاسی خاندان تھا تو دوسرا مشہور کاروباری۔ شہر کے ریئسا آمد تھے ۔ شہر بھر میں اس بات کی خبر پھیلی ہوئی تھی۔
عائشہ اور داود کی رضا مندی لینے کے بعد ہی وہ نسبت طے کی جا رہی تھی۔۔
اس نسبت کے بعد دونوں خاندانوں میں تعلق اور مضبوط ہو جانا تھا مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
□□□
وہ دن فیصلے کا تھا۔ فائنل میچ اس دن کھیلا جانا تھا۔ اسے جادو کہیں کہ اتفاق جس ٹیم میں سیمل تھی وہ فائنل میں پہنچ گئی تھی۔ وہ حیرت زدہ تھی ورنہ اسے تو یقین تھا وہ پہلا راونڈ ہی پار نہیں کر پائیں گے ۔
میچ شروع ہوا اور اگلے دو منٹ بعد ہی سیمل ڈھرام سے نیچے گری۔
" تم ٹھیک ہو ۔ " کوچ بھاگا ہوا اسکے پاس آیا۔
" نہیں سر میرے پاوں میں چوٹ لگی ہے۔ شاید موچ آئی ہے ۔" ساتھ ہی درد سے کراہی۔
" تم کھیل نہیں سکو گی اب ۔ اب اتنی جلدی تمھاری جگہ کس کو ۔۔۔" کوچ ابھی سوچ ہی رہا تھا جب سیمل بول پڑی
" مایا ۔ وہ میری دوست ہے میری جگہ وہ کھیلے گی ۔"
" پلیز مایا میری عزت کا سوال ہے ۔ میں نے شرط لگائی تھی یوسف سے ۔ پلیز " وہ مایا کو اپنی جگہ کھیلنے کے لیے راضی کر رہی تھی اور سنی اسے گھور رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا سیمل کے چوٹ نہیں لگی وہ ڈرامے کر رہی ہے۔
" اچھا ٹھیک ہے ۔صرف تمھاری خاطر ۔ تمھاری شرط کی خاطر " مایا مان گئی۔
" آپی میری بہن کو ہارنا پسند نہیں ہے ۔" سنی نے پیچھے سے اطلاع دی تو سیمل سوچ میں پڑ گئی۔ وہ کبھی نہیں ہارتی تھی چاہے سکول کا کوئی پروجیکٹ ہو یا کالج کا۔ مگر وہ ہر بار رشتے ہار جاتی تھی۔
کھیل دوبارہ شروع ہو چکا تھا ۔ اور اس دن پوری یونی نے دیکھا یوسف سے بھی بہترین کھلاڑی یونی میں موجود تھی
گرلز ٹیم نے 2 1 سے بوائز کو ہرا دیا تھا صرف مایا کی وجہ سے ۔ یوسف نے گول روکنا تھا مگر اینگل غلط ہونے کی وجہ سے گول تو ہوگیا مگر اسکا پاوں لوہے کے سٹینڈ کو لگ گیا۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور پاوں مسلنے لگا ۔ کوئی جیت کا جشن کر رہا تھا تو کوئی ہار کا غم مگر ایک مایا تھی جو فورا اسکے پاس آئی تھی اور پوچھا تھا ۔
" آر یو اوکے " وہ کیا بتاتا دیکھنے سے نظر آرہا تھا پاوں تخنے سے سرخ ہو رہا تھا ۔
مایا نے فورا جیب سے رومال نکالا اور اسکے پاوں پر باند دیا
" آج حساب برابر ہوگیا۔ اس دن تمھاری وجہ سے مجھے چوٹ لگی تھی اور آج میری وجہ سے تمہے۔ " رومال سے ہاتھ ہٹاتے بولی۔ پھر نظر اٹھائی تو دونوں کی نظر ملی ۔ ایک سانس دو سانس پھر سر جھٹک کر کھڑی ہوگئی۔
گروانڈ پار کرتے ہوئے اسکا دل زور سے ڈھڑکنے لگا ۔ نہیں ۔ بلکل نہیں ۔ وہ جو سوچتی ہے ویسا بلکل نہیں ہو سکتا ۔ یوسف بھلا ۔اس سے ۔ہر گز نہیں۔ حیدر نے کہا تھا اسکی زندگی میں صرف طارق جیسا جاہل اور نیم پاگل ہی ہو سکتا ہے۔ وہ کیسے یہ سوچ سکتی ہے کہ کوئی اس سے محبت کرے گا ۔ اس جیسی عام شکل اور سانولی رنگت والی لڑکی کو بھلا کیوں کوئی پسند کرے گا ۔
حیدر کی شادی ہوگئی تھی اس دن جس دن حمزہ اور عائشہ کی شادی ہوئی تھی۔ وہ جان بوجھ کر حیدر کی شادی میں نہیں گئی تھی۔ وہ خود کو وہاں لے جاکر تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔ وہ کرب سے سوچتے ہوئے سیمل کے پاس پہنچی تو سیمل ایک دم اچھل پڑی تو سنی نے اسے توکا " تمھاری پیر میں چوٹ لگی ہے سیمو ۔ بیٹھ جاو ۔"
وہ جوش میں بھول ہی گئی تھی کہ ڈرامہ کر رہی ہے۔
" تو کیسا لگا تمہے ہار کر ۔ " کچھ دیر بعد سیمل یوسف سے پوچھ رہی تھی۔
" ہا۔۔! " وہ گہری سانس لیکر مسکرایا ۔
" سنا تھا محبت عجیب ہوتی ہے۔ یہ مسکراکر محبوب کے سامنے ہارنا سکھاتی ہے ۔ سب کچھ وار کر بھی ہنسا سیکھاتی ہے ۔ اور آج میں نے ایک واقعی دیکھ بھی لیا ۔آج میں نے یہ بھی دیکھا کہ مایا میرے لیے فیلنگز رکھتی ہے ۔ اسے خود بھی نہیں معلوم مگر وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے ۔ میرا دل کر رہا کہ ساری یونی میں زور زور سے چلا کر علان کروں ' یوسف سکندر شاہ کو مایا اعوان سے محبت ہوگئی ہے " سر اٹھا کر اونچا بولا تو سیمل مسکراکر سر جھٹک گئی( پاگل )۔ پھر خیال آیا کہ مایا غائب تھی ۔ وہ اسے دیکھنے کے لیے اٹھ کر چلی گئی اور یوسف ناجانے کونسے خیال میں کھو چکا تھا ۔
□□□
موسی اپنی پڑھائی مکمل کر چکا تھا۔ اس دوران وہ زبیر کے ہاں کام بھی کرتا رہا تھا۔ زبیر اسکی سیلری سے ہی رینٹ کاٹ لیتا تھا۔
اس روز وہ دوپہر کے وقت ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔
چوبس سالہ موسی جہانگیر وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی ہینڈسم اور پر کشش ہوگیا تھا۔ وہ اب دبلا پتلا ۔خاموش سا ٹین ایجر نہیں تھا۔ جسامت بھی بھر گئی تھی۔ اور ہلکی بڑھی شیو عمر سے کچھ بڑا ہی دکھاتی تھی۔ جینز پر بلیو شرٹ پہنے وہ کافی جازب نظر لگ رہا تھا۔
وہ سیدھا کونے والی میز پر آیا ۔ بیٹھ کر لیپ ٹاپ نکال کر سامنے رکھا اور جلدی جلدی ٹائپ کرنے لگا ۔ اسے آج ہی سارے حساب نپٹانے تھے۔
" تم جاب کب سے سٹارٹ کر رہے ہو ۔" زبیر آکر اسکے سامنے بیٹھا ۔
" جلد ہی " ٹائپ کرتا موسی مصروفیت سے بولا۔
" یہام آنا چھوڑنا نہیں ہفتے میں ایک آدھ چکر ضرور لگا لینا ۔ میں اور یہ ریسٹورنٹ تمہے بہت یاد کریں گے۔" زبیر کی بات سن کر موسی نے گردن اٹھائی اور پورے ریسٹورنٹ میں نظر گھمائی۔ وہ بھی ہمیشہ اس جگہ کو یاد رکھے گا ۔
" مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ " گلہ کھنکھارتے ہوئے سنجیدگی سے گویا۔ہوا۔
" میں کل اسلام آباد جارہا ہوں ۔ وہیں پر نوکری کروں گا۔ "
" مگر یہ اچانک اسلام آباد جانے کا کیوں سوچا " زبیر حیرت زدہ ہوا ۔
" ایک ضروری کام ہے ۔ "
" تو کام کر کے واپس چلے آنا ۔ زبیر نے مشورہ دیا ۔
" اس جگہ میرا دم گھٹتا ہے ۔ یہاں سے تلخ یادیں وابستہ ہیں ۔ جگہ کی تبدیلی زہن پر اچھا اثر کرے گی ۔ شاید اس طرح کچھ قرار آ جائے۔ وہاں میں خود کو آزاد محسوس کر سکوں ۔" وہ استہزائیہ مسکراکر بولا۔
کچھ دیر بعد وہ زبیر کو سارے حساب کتاب دیکر اور الوداع کر کر نکل آیا ۔
جاتے ہوئے مڑ کر ایک بار ریسٹورنٹ کا بینر ضرور دیکھا تھا سیاہ بینر پر سنہری حروف سے لکھا تھا ۔
" زبیرز فوڈ پوائنٹ "
□□□
اسلام آباد کے اس آسمان کو چھوٹی بلڈنگ کے ٹاپ فلور پر داود حمدانی کا آفس تھا۔
پاور سیٹ پر بیٹھا وہ فائل کو دیکھتا مسلسل کسی خیال میں تھا۔ ہمیشہ کی طرح نک سک سے تیار ۔ شاہانہ انداز اور مغرور شخصیت ۔
" سر یہ معاملہ اب مزید بگڑ گیا ہے ۔ مس عائشہ اس بار ہمارے خلاف بہت سخت ثبوت لے کر آئینگی۔" سامنے بیٹھا عمر تشویش سے کہہ رہا تھا۔
" وہ اور حارب مل کر ہمارے خلاف ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں ۔یوسف بھی ان کے ساتھ ہی شامل ہے۔ " آگاہ کیا۔
" ہوں !" پاور سیٹ گھماتے ہوئے وہ پرسوچ سا بولا۔
" عمر ایک کام کرو ۔ کچھ ایسا تلاش کرو جس سے ہم حارب اور یوسف کے درمیان اختلاف ڈال سکیں۔ " داود نے حکم سادر کیا تو عمر سر ہلاکر چلا گیا۔
عائشہ کی اچانک منگی ٹوڑ لینے کے بعد داود نے اس سے اپنی انا کے مسئلے پر دشمنی مول لی تھی۔ لیکن اب یہ زاتی نہیں ۔ کاروباری رنجش پر بھی آ گئی تھی۔ عائشہ نے حارب کے ساتھ مل کر اسے اکسپوز کرنے کا جو کھیل کھیلا تھا وہ اب اسے ختم کرنا تھا۔ اب اسے عائشہ سے محبت نہیں تھی۔ اب اسے عائشہ سے بدلہ لینا تھا۔ اپنی زات کی نفی کا بدلہ۔ اسے کچھ بھی کر کے حمزہ اور عائشہ کا تعلق ٹوڑنا تھا۔ اسے اپنے ٹھکرائے جانے کا بدلہ لینا تھا عائشہ کو تباہ کرکے اور عائشہ کی تباہی ہی اسکی انا کو پہنچی ٹھیس کو تسکین دے سکتی تھی۔
□□□
بوڑدنگ میں وہ تینوں ساتھ تھے۔ تینوں کی سٹینڈرڈز الگ تھے مگر پھر بھی دوستی ہوگئی تھی۔
پہلا ۔ حارب تھا ۔ خوش اخلاق۔ مدد کرنے والا۔ سنہری آنکھوں والا سمجھدار اور عقل مند ۔
دوسرا یوسف تھا۔ شرارتی۔ سماڑٹ اور ذہین۔ نیلی خوبصورت آنکھوں والا۔
تیسرا داود تھا۔ سیاہ آنکھوں والا۔ تیکھا مغرور ۔ خود غرض اور مطلبی
داود کے فادر حمدانی صاحب اور یوسف کے فادر سکندر شاہ بیزنس پاڑٹنرز تھے۔
سکندر شاہ نے ترکی سے بزنس پڑھ کر وہیں پر بزنس سیٹ اپ کر لیا تھا۔ ادھر ہی انہوں نے شاہانہ سے شادی کی تھی۔ شاہانہ خالص ترکی خاتون تھی ۔
یوسف جب چھ سال کا تھا تب وہ فیملی سمیت پاکستان شفٹ ہوگئے تھے۔ پاکستان میں انہوں نے حمدانی بزنس چین کے ساتھ پاڑٹرنر شپ کر لی تھی۔ یوسف اور داود کی دوستی اسی وجہ سے ہوئی تھی۔ مگر یوسف کو حارب کی دوستی زیادہ پسند تھی۔ داود ہمیشہ اس بات پر اتراتا تھا کہ اس کا باپ بوڑڈنگ کا ٹرسٹی ہے۔
حمدانی بزنس چین کا ایک حصہ ٹرسٹ کا بھی تھا جس کی بدولت مختلف تعلیمی ادارے چل رہے تھے اور یہ معمولی ادارے نہیں تھے۔
حمدانی صاحب کی تاقید پر ہی داود نے یوسف سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا مگر حمدانی صاحب کو داود کی حارب سے دوستی پسند نا تھی۔ وہ ایسے انسان تھے جو دوستی بھی فائدے کی صورت میں کرتے تھے اور ان ہی کی وجہ سے داود کی شخصیت میں خودغرضی آئی تھی۔
اور حارب اسکے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ اس نے کسی کے کہنے یا تاقید کرنے پر یا محض اپنے باپ کے کاروباری فائدے کے لیے دوستی نہیں کی تھی۔
وہ بس کچھ اچھے دوست بنانا چاہتا تھا جو اسے یوسف کی شکل میں ملا تھا۔ داود ہمیشہ اپنے باپ کی وجہ سے اس سے بات کرنے سے گریز کرتا تھا۔
□□□
" یہ چوٹ آخر کیسے لگوا بیٹھے ہو ۔ تم اپنے کھیل کود میں خود کا خیال رکھنا کیوں بھول جاتے ہو ۔ دیکھو کس قدر سیول ہو گیا ہے یہ۔" شاہانہ سکندر پریشانی سے یوسف کو کہہ رہی تھیں جو کہیں کھویا ہوا فٹبال دیوار کی طرف بار بار اچھال رہا تھا۔
" کون ہے وہ۔" بغور اسکا چہرہ دیکھتے وہ معنی خیز لہجے میں بولیں۔
" کک۔ کون۔" یوسف ایک دم چوکنا ہوا۔
" وہی جسکے خیال تمہے یہ نہیں سننے دے رہے کہ ماں کیا کہہ رہی ہے۔"
" نہیں ایسی تو کوئی بات۔۔۔"
" میں ماں ہوں تمھاری ۔ رگ رگ سے واقف ہوں ۔ اور تمھاری آنکھوں کی چمک صاف بتا رہی ہے سب کچھ۔ " شاہانہ اسکی بات کاٹتے ہوئے بولیں ۔
" اسکا نام مایا ہے۔ " بولتے ہوئے واقعی یوسف کی آنکھوں میں چمک تھی۔
" اسکا رنگ گندمی سنہری مائل ہے۔ وہ دوسری لڑکیوں کی طرح اپنا رنگ گورا کرنے کے کوشش نہیں کرتی۔ اسکے سانولے رنگ نے ہی مجھے پہلی بار متوجہ کیا تھا۔ اسکی سبز آنکھیں۔ میں جب بھی انہیں دیکھتا ہوں کہیں کھو جاتا ہوں۔ وہ ٹھوڑی کمپوزڈ مزاج کی ہے " وہ مسکراکر کہہ رہا تھا اور شاہانہ ہاتھ ٹھوری تلے رکھے سن رہیں تھیں ۔
" اسے بتادوں کہ تم اس سے محبت کرتے ہو ۔ " شاہانہ نے مشورہ دیا۔
" وہ پہلے مجھے ناپسند کرتی ہے ۔پھر تو بلکل ہی نفرت کرنے لگے گی ۔" یوسف نے سر جھٹکا۔
" تم بات تو کرو اس سے ۔اگر وہ مان جائے تو ٹھیک ۔ نہیں تو فورس مت کرنا ۔" شاہانہ نے دوبارہ بات دھرائی ۔ اب کی بار تاقید کے ساتھ۔
" شیور " اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
" اس سنڈے میں فارم ہاوس جارہا ہوں ۔ باربی کیو کا پروگرام ہے۔" یاد آنے پر اطلاع دی۔
" تمھارے دوست بھی جارہے ہیں ساتھ۔" شاہانہ نے پوچھا۔
" نہیں۔ اس دفعہ بس دو خوبصورت لیڈیز ۔ سیمل اور مایا۔ "
" یہ سیمل کون ہے ۔ " شاہانہ کے لیے یہ نام نیا تھا۔
" مایا کی دوست ہے۔" یوسف نے بتایا۔
" مایا وہی ہے نا جو اس دن آئی تھی ۔
" جی وہی ہے۔ "
" تم کچھ دنوں سے پریشان لگ رہے ہو ۔ کچھ بات ہے۔ " وہ ایک دم سنجیدگی سے گویا ہوئیں ۔
" نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں۔ " وہ فورا انکاری ہوگیا ۔ ذہن میں رینا کی لاش گھومی تھی۔
اس روز وہ حارب کے لیے ثبوت جمع کرنے ریڈ لائٹ ایریا گیا تھا۔ وہ کئی دن سے داود پر نظر رکھے ہوئے تھا اور اسے پورا یقین تھا اس جگہ سے کوئی داود کی مدد کر رہا ہے ۔ وہ وہاں رینا سے ملا تھا۔ اور اسکے داود یا اسکے خفیہ کاروبار کے متعلق کوئی بھی سوال کرنے سے پہلے ہی رینا نے ناجانے کہاں سے گن نکال لی تھی۔ وہ اسے دھمکی دینے لگی تھی۔ گولی نا چل جائے اسی کھنچا تانی میں رینا کے ہاتھ سے ٹریگر دبا اور اسکے اپنے ہی پہلو میں گولی لگ گئی۔ سائلنسر ہونے کے باعث گولی کی آواز نا آئی۔ وہ بوکھلایا سا وہیں کھڑا رہا ۔ کوئی آ نا جائے یہ سوچ کر فورا پچھلی طرف سے نکل گیا۔
گھر تک کے راستے خود کو کوستا گیا تھا ۔ یہ کیا ہوگیا تھا ۔ اسکی وجہ سے داود کے خلاف ایک اہم ثبوت کم ہوگیا تھا ۔ اسکی یہ غلطی اسکے لیے سنگین نتائج لا سکتی تھی۔
□□□
(وہ رات جب سیمل گھر سے گئی تھی۔)
سیاہ شیشوں والی وہ گاڑی لاہور سے اسلام آباد کی طرف موٹر وے پر تیزی سے گزر رہی تھی۔ ڈرائونگ سیٹ پر یوسف بیٹھا تھا۔ ساتھ پیسنجر سیٹ پر سیمل تھی ۔
یوسف وقفے وقفے سے اسے دیکھ لیتا تھا۔
" اب جب فیصلہ کر ہی چکی ہو تو رو کیوں رہی ہو ۔" وہ کوفت سے بولا تھا ۔
" اگر میں کامیاب نا ہوسکی تو ۔ اگر میں موسی کو ابا کے سامنے بے گناہ ثابت نا کر سکی تو ۔" وہ گیلےلہجے میں گویا ہوئی۔
" کیا تم واقعی اس لیے اسے تلاش کرنے جارہی ہو ۔ "
" میں اس سے محبت کرتی ہوں ۔ بس یہ ہی سننا چاہتے تھے تم ۔ " وہ اعتراف کرتے ہوئے بولی۔
" یہ تو اس دن ہی معلوم ہوگیا تھا جب تم اپنی رنگ غائب ہونے پر ٹرپنے لگی تھیں۔۔
یو نو جس بوڑدنگ سکول میں ۔ میں پڑھتا تھا ۔وہاں میرا ایک دوست تھا۔ اسکے پاس بھی بلکل ایسی رنگ تھی ۔ جو ہر وقت اسکے بیگ میں رہتی تھی۔ وہ ریسیس میں اکثر اسے نکال کر دیکھتا رہتا تھا۔ کہتا تھا کہ یہ اسکی ماں کی نشانی ہے۔ مگر پھر وہ کئی سالوں بعد جب دوبارہ ملا تو اسکے پاس رنگ نہیں تھی۔ شاید کسی کو دے دی تھی۔ " وہ عام سے انداز میں بتا رہا تھا اور سیمل فق چہرے کے ساتھ سن رہی تھی۔
" کیا نام تھا تمھارے دوست کا ۔" وہ بولی تو آواز گہرائی سے آتی محسوس ہوئی۔
" موسی حارب جہانگیر " ۔
□□□
اسلام آباد کے علاقے میں موجود ایک رہائشی بلڈنگ تھی جس کے مین گیٹ سے سیمل اندر داخل ہورہی تھی۔
وہ سیدھا ریسپشن پر پہنچی اور وہاں سے مطلوبہ معلومات لے کر لفٹ کی طرف بڑھ گئی ۔
جوں جوں لفٹ اوپر جا رہی تھی ۔ اسکا دل بیٹھا جا رہا تھا۔
بل آخر اتنے سالوں بعد وہ موسی جہانگیر سے ملنے والی تھی۔
وہ کیسا ہوگا کیا کرتا ہوگا ۔ کیا اسے یاد بھی ہوگا کہ سیمل نام کی اسکی کوئی کزن تھی ۔ کیا اسے معلوم ہوگا کہ سیمل اسکا انتظار کرتی رہی ہے ۔ کیا اس معلوم ہوگا کہ سیمل اس سے محبت کرتی ہے ۔
لفٹ کھولی اور سامنے موسی کے فلٹ کا دروازہ نظر آیا ۔
سیمل نے ڈھرکتے دل کے ساتھ قدم بڑھائے ۔
پہلا قدم ( وہ مزے سے اسے دھوپ میں سڑتا دیکھ رہی تھی۔ )
دوسرا قدم ( وہ اسے آئی ہیٹ یو بول کر دھکا مار گئی تھی۔ )
تیسرا قدم ( وہ اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے کھڑی تھی ۔)
چوتھا قدم ( وہ اس سے سکیچینگ سیکھنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ )
پانچھواں قدم ( وہ اسکی ماں کی انگوٹھی انگلی میں پہنے خوشی سے گھوم رہی تھی۔ )
چھٹا قدم ( وہ چیخ رہی تھی ۔ لوگ اسے مار رہے تھے اور وہ چیخ رہی تھی لوگوں کو منع کرنے کے لیے۔)
آخری قدم ( ابا اسے گھر سے نکال رہے تھے اور وہ بے بس اور گم سم سی بیٹھی رہی تھی۔)
ڈھرکتے دل اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ سیمل نے بیل بجائی ۔
ماضی سارا کا سارا ذہن میں گھوم رہا تھا۔ اسکے اور موسی کے درمیان بس اس دروازے کی رکاوٹ تھی مگر کچھ رکاوٹیں نظر کہاں آتی ہیں جو قسمت ڈالتی ہے۔
وہ منتظر سی کھڑی ہوگئی اور یہ انتظار بہت طویل اور جان لیوا ہونے والا تھا۔
□□□