اسلام آباد کے اس پوش علاقے میں موجود بنگلے میں تین ہفتے پہلے کمال صاحب اپنے بچو کے ساتھ شفٹ ہوئے تھے ۔ سیمل کا یونیورسٹی اور سنی کا سکول کا داخلہ ہو چکا تھا ۔ سیمل کو تو یہ بھی یاد نہیں تھا اس نے اب تک کتنے سکول یا کالج بدلے تھے پر سنی کا یہ دوسرا سکول تھا ۔ اس روز وہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی نور بابا کو لان میں چھوٹے پودے لگاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔ سنی کی خواہش پر نور بابا وہ پودے لائے تھے۔
" یہ پودا کب بڑا ہوگا ؟ " ماضی سے اسکی اپنی آواز کانوں میں پڑی ۔ وہ آواز ایک دس سال کی لڑکی کی تھی جو بہت پرجوش سی اپنے کزن کو پودا لگاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔اور ساتھ ساتھ سوال بھی کر رہی تھی ۔
" اسے بڑا ہونے میں بہت سال لگے گیں" کزن نے سیمل کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا ۔
" میں کروں یہ ؟ " دلچسپی سے پوچھا
"ہاں " وہ اجازت دیتے ہوئے پیچھے ہوا ۔
سیمل نے اپنے نرم اور نازک ہاتھوں سے پودے کی ارد گرد کی مٹی کو دبانا شروع کیا ۔ جب مٹی دب گئی تو اس پر پانی ڈالا۔ اس بڑے سے باغیچے میں وہ پودا بہت چھوٹا سا لگ رہا تھا ۔
" میں روز اس پودے کو پانی دوں گی ۔ ایک دن یہ بہت بڑا درخت بن جائے گا ۔ پھر ہم دونوں اس کی چھاوں میں بیٹھ کر دھیڑ ساری باتیں کریں گے ۔ کریں گے نا ۔" وہ معصوم سے انداز میں پوچھ رہی تھی ۔
مگر وہ پودا ، اسکی خواہش وقت میں کہیں پیچھے ہی رہ گئے وہ اس گھر سے بھی شفٹ ہوگئے تھے ۔ ساری یادیں پیچھے رہ گئی تھیں ۔ یادیں جو کبھی خوب ہنساتی تھیں تو کبھی رلاتی تھیں ۔ وہ گھر جہاں وہ پیدا ہوئی تھی جہاں بچپن گزارا تھا ۔
" سیمو بھوک لگی ہے " سنی کی آواز پر چونک کر حال میں آئی ۔ نا سامنے بڑا باغیچہ تھا ۔ اور نا ہی پودا جسکے گرد کی مٹی وہ اپنے ہاتھوں سے دبا رہی تھی ۔
" کیا کھاو گے " وہ کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی ۔
" پاستہ " فرمائش کا اظہار ہوا ۔
کچھ دیر بعد وہ دو پلیٹوں میں گرم گرم پاستہ ڈال کر کچن ٹیبل پے سنی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔ سنی اس کی پلیٹ سے کھا رہا تھا اور وہ مسکراکر اسے دیکھ رہی تھی ۔ وہ ہمیشہ سیمل کی پلیٹ سے ہی کھاتا تھا ۔ اس کی اپنی پلیٹ میں موجود پاستہ ٹھنڈا ہو رہا تھا ۔
□□□
شیشے کے سامنے کھڑا حمزہ کورٹ جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا ۔ وہ گندمی رنگت کا مناسب شکل و صورت کا مرد تھا ۔ اسکا شمار ملک کے نامور وکیلوں میں ہوتا تھا ۔ تیار ہو کر وہ موبائل میں میسج ٹائپ کرتا کمرے سے باہر نکلا ۔
شگفتہ بیگم کے کمرے سے گزرتے ہوئے کچھ الفاظ اس کے کانوں میں پڑے ۔
" شجاعت مسز صبحانی چاہتی ہیں شادی جلدی ہوجائے ۔ تقریبا دو تین مہینے تک " وہ شوہر کو اطلاع دیتے ہوئے بولیں ۔
" آخر اتنی جلدی کیا ہے ۔ " شجاعت صاحب فکر مندی سے بولے تھے ۔
" اس میں جلدی والی کیا بات ہے تین ماہ کافی ہیں تیاری کے لیے " شگفتہ بے فکری سے بولیں تھیں ۔
" مجھے تو اس بات کی خوشی ہے صبحانی خاندان کی بیٹی ہماری بہو بنے گی ۔ " انکے چہرے سے بھرپور خوشی چھلک رہی تھی ۔
" تو ہمارا خاندان کون سا کم ہے ۔ چار نسلوں سے ہمارا تعلق قانون کے شعبے سے ہے ۔ ہمارا بیٹا بھی ملک کے نامور وکیلوں میں شامل ہوتا ہے ۔" شجاعت صاحب نے بھی اپنے خاندان کی تعریف میں قسیدہ پڑھا تھا۔ باہر کھڑے حمزہ نے مسکراکر سر جھٹکا اور آگے بڑھ گیا ۔
" جی مجھے معلوم ہے مگر آپ کا خاندان اور بھی مشہور ہو جائے گا جب ہمارا تعلق صبحانی خاندان سے جڑے گا ۔ سیاست میں بڑا نام ہے ان کا ۔ بس ایک چیز کی پریشانی ہے مجھے "
" وہ کیا " شجاعت صاحب نے دریافت کیا ۔
" بڑی دعاوں سے یہ رشتہ جڑا ہے ۔ مجھے پورا یقین ہے آپ کے بھائی بھابھی اس بات سے حسد ضرور کریں گے۔" شگفتہ بیگم سخت پریشان نظر آنے لگیں تھیں ۔
" تم ایسی باتیں کیوں کرتی ہو ۔ بھلا وہ کیوں حسد کرنے لگے " شجاعت صاحب نے پہلو بدلتے ہوئے کہا ۔ بیگم کی بات ناگوار گزری تھی ۔
" آپ مانے یا نہ مانے ایسا ہی ہے " وہ جتانے والے انداز میں بولیں ۔ " وہ سب ہمیشہ سے آپکی اور حمزہ کی کامیابی سے جلتے ہیں "
" اور تم ، تم کیا نہیں حسد کرتی ۔ میرے بھائی بھابھی اور انکے بچو کو تو چھوڑو تم تو ناہید کے بھتیجے سے بھی حسدکرنے لگیں تھیں ۔ کیونکہ وہ حمزہ سے بہتر تھا عمر میں کم ہونے کے باوجود ۔ کیا وہ تم نہیں تھیں جو سب سے زیادہ کوشش کر رہی تھی اسکو گھر سے نکالنے کی " شجاعت صاحب نے بیگم پر چوٹ کی تو وہ بھی بولے بغیر نا رہ پائیں
" آپ سارا الزام مجھے نا دیں میں نے جو کیا صحیح کیا ۔ وہ ہمارے بچو کو خراب کر دیتا ۔ ناہید کی بھانجی کہ ساتھ اس نے جو کیا وہ بھول گئے آپ" انکا اشارہ کسی غیر مناسب فعل کی طرف تھا۔
" یہ جس اونچے خاندان اور نام کی بات کرتے ہیں نا آپ یہ مٹی میں مل جاتا اگر ہمارا کوئی تعلق ہوتا اس کے ساتھ " شگفتہ بیگم نے شوہر کو جیسے آئینہ دکھایا ۔
" وہ نادانی میں ہوئی ایک غلطی تھی۔" شجاعت صاحب نے صفائی پیش کی ۔
" آپ بس رہنے دیں۔ایک گیارا سال کی لڑکی کے ساتھ دست درازی کرنا نادانی میں ہوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ مجھے تو کہتے بھی حجل چڑھ رہا اور آپ کیسے اس لڑکے کی سائد لے رہیں ہیں"کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اٹھ کر کمرے سے نکل گئیں ۔
شجاعت صاحب بس ایک گہری سانس لیکر رہ گئے۔
□□□
یونیورسٹی میں سب سے پہلے سیمل کی مایا اعوان سے ملاقات ہوئی تھی ۔ دونوں کے مضامین ایک تھے اور کچھ ہی دنوں میں اچھی دوست بن گئیں تھیں ۔
مایا ایک دراز قد لڑکی تھی۔ سانولی رنگت اور گہرے بھورے گھنگھریالے بال ۔ اس کی آنکھیں بہت پیاری تھیں ۔ہلکے سبز رنگ کیں جو دھوپ میں سنہری مائل شیڈ دیتے ہوئے کافی اچھی لگتی تھیں۔
اخلاقی طور پر سنجیدہ مزاج واقع ہوئی تھی۔
اس روز وہ دونوں لیکچر سے فارغ ہوکر کینٹین میں بیٹھیں تھیں ۔ آپس میں باتیں کرتیں ہوئیں ۔سیمل مایا سے کوئی سوال کرنے لگی تھی جب ان کے سامنے ٹیبل کے دوسری طرف کوئی آکر بیٹھا ۔
" ہیلو لیڈیز ، کیسی ہو " شوخ انداز میں کہا گیا وہ جملہ دونوں کو بڑی طرح چونکا گیا ۔ دونوں لڑکیوں نے ایک دم سامنے دیکھا ۔وہ ایک سٹوڈنٹ تھا۔ نیلی آنکھیں جن میں بے پناہ شوخی اور شرارت بھری ہوئی تھی۔ ہینڈسم سے نقوش لیکن عجیب سا حلیہ ۔ جینز جسے فیشن کے نام پر جگہ جگہ سے اڈھیرا گیا تھا ۔ بلیک ٹی شڑت جس پر دو سرمائی سائے ایک دوسرے کے بلکل قریب تھے جیسے کوئی رومانوی منظر چل رہا ہو ۔اور نیچے لال رنگ سے لکھا تھا " لو می" ۔ بالوں میں بھی لال رنگ لگایا ہوا تھا ۔ بالوں میں بنے سپائکس میں لگا رنگ آگ کی لپٹو کا منظر پیش کر رہے تھے۔ چار عدد مختلف سائز کی بالیاں بائیں کان میں ۔ ایک سلور بالی نچلے ہونٹ میں گڑھی ہوئی ۔ اسے دیکھتے ساتھ ہی پہلی نظر میں مایا نے اسے عجیب کا خطاب دیا تھا ۔
" ایکسکیوزمی ! یہ کون سا طریقہ ہے کسی سے بات کرنے کا ۔" بات سیمل نے شروع کی تھی۔
" میں نے کونسا آپ پر بم گرادیا ہے جو اتنا غصہ کر رہیں ہیں۔ میں تو بس ہیلو ہی کیا ۔" وہ بڑے مزے سے کندھے اچکاتے ہوئے بولا ۔
" مگر بنا جان پہچان کے ۔ " سیمل نے آبرو اچکائی ۔
" لو تو یہ کونسا مسئلہ ہے ۔ ابھی ہو جاتی ہے جان پہچان۔ تمھارا نام سیمل کمال ہے اور تمھاری دوست مایا اعوان ہے ۔ تم دنوں بی ایس سی فرسٹ سمیسٹر میں ہو ۔ اور تمھارے ڈیڈ ایک پولیس آفیسر ہیں ۔لو ہو گئی نا ۔ " دونوں ہکا بکا اس کے منہ سے سب سن رہیں تھیں۔ وہ خاموش ہو گیا نہیں تو انہیں لگا وہ فون نمبر اور ادڑیس بھی بتا ے گا ۔ وہ دونوں اس سے پہلی بار مل رہیں تھیں لیکن وہ تو جیسے بہت پہلے سے جنتا تھا ۔
" پریشان نا ہو لیڈیز ۔ میں نے یہ سب انفو یونیوڑسٹی کے سٹوڈنٹ ڈاٹا سے لی ہے۔ " ساتھ ہی ایک آنکھ بند کی اور زبان بھی دانتوں میں دبائی ۔ تبھی ان دونوں نے دیکھا ایک سٹڈ نما گول چیز اسکی زبان میں بھی پیروئی ہوئی تھی۔
" اور میرا نام وہ آپ یہاں کسی سے بھی پوچھ لیں ۔ مجھے ہر کوئی جانتا ہے ۔ چلتا ہوں پھر ملاقات ہوگی ۔ " عجیب طرح سے آیا تھا اور عجیب طرح سے سیٹی بجاتا ہوا چلا گیا ۔ یونیورسٹی کے نمونے سے یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی ۔
وہ صحیح کہہ رہا تھا ۔ ہر کوئی اسے جانتا تھا ۔ جب بعد میں ان دونوں نے اسکا نام ہر زبان پر سنا ۔ وہ بدنامی کی حد تک مشہور تھا ۔ صرف اپنی الٹی سیدھی حرکتوں کی وجہ سے ۔
" لڑکیوں زرا سنبھل کر رہنا UC سے"
عجیب انسان کا عجیب نام ۔
" مجھے اس سے دوستی کرنی ہے " سیمل کے زہن میں ایک دم بات آئی تو مایا سے بول پڑی ۔
" تم پاگل تو نہیں ہو " ۔ مایا نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا ۔
" اس میں پاگل پن والی کیا بات ہے ۔ سب اس کے ظاہری حلیہ اور حرکتوں کو دیکھتے ہیں مگر کوئی اندر نہیں جھانکتا ۔ مجھے یقین ہے وہ ایک صاف دل انسان ہے ۔ ایسے دوست قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں ۔" وہ مسکرا کر بولی تھی ۔ ایک چھوٹی معصوم بچی کی طرح بولی تھی جسے ہر کوئی صاف دل اور اچھا لگتا یے کیونکہ وہ خود بھی ایسی ہی ہوتی ہے ۔ مگر بعض دفعہ یہ یقین بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔ اس بات کا اندازہ سیمل گیارہ سال کی عمر میں کر چکی تھی ۔
□□□
" آپ نے مجھ سے پوچھے بنا رشتہ کیسے کر دیا ؟ " عائشہ کو جیسے ہی خبر ہوئی تھی وہ فورا ہی مسز صبحانی کے کمرے میں پہنچ گئی۔
" آرام سے بات کی جا سکتی ہے ۔ کیوں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو ۔ "سائقہ بیگم کو اس کا انداز بلکل نہیں بھایا تھا ۔
" آپ نے آرام سے بات کرنے کی مہلت ہی کب چھوڑی ہے ۔ مجھے بنا بتائے آپ میرا رشتہ کسی وکیل سے جوڑ دیتی ہیں اور میں اب بھی نا پوچھوں " سر جٹھک کر کہا گیا ۔ انداز خفا سا تھا ۔
" تم ایک بار پہلے اپنی مرضی کر چکی ہو عائشہ ! " سائقہ بیگم نے جتایا " اور دونوں خاندانوں میں میری بے عزتی کرا چکی ہو ۔ "
" رشتے کے لیے انکار کرنا کونسی بے عزتی ہوتی ہے ۔ " وہ کوفت کا شکار لگ رہی تھی ۔
" تم اس سب کو آسان سمجھ رہی ہو " سائقہ بئگم کا لہجہ اونچا ہوا ۔
" بی جان کے سامنے مجھے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی ۔اندازہ ہے اس کا ۔ خود تو تم نے بڑے آرام سے رشتہ ختم کر دیا مگر میں نے سب کیسے سنبھالا ۔ کیا کیا جتن کیے بی جان کے سامنے ۔مگر اب نہیں ۔ اب مجھے اور شرمندگی نہیں اٹھانی ہے ۔اور اب وہی ہوگا جو میں کہوں گی ۔ اور تم اس کو مانوں گی" تحکم سے بول کر ہاتھ جھلایا ۔ یعنی وہ جاسکتی ہے ۔
عائشہ کچھ دیر کھڑی ماں کو دیکھتی رہی یہ بات تو پکی تھی اب اسے جو کرنا ہے خود کرنا ہے ۔ اسے حارب سے بات کرنی چاہیے۔
□□□
چار عدد باڈی گاڑدز کی میت میں وہ آفس سے باہر نکلا تھا ۔ شاندار پر کشش اور با رعب شخصیت کا مالک ۔ دراز قد ۔ اٹھی ہوئی گردن۔ دیزائنر سوٹ میں ملبوس وہ کسی اونچے خاندان کا فرد لگ رہا تھا ۔ مغروریت اور اعلی خاندان سے تعلق اسکے انگ انگ سے جھلک رہا تھا ۔
ہر کوئی اسے سلام کرتا راستہ دے رہا تھا مگر وہ جواب تک دینے کا روادار نہیں تھا۔
جس وقت اسکی گاڑی عالی شان بنگلے کے باہر رکی تھی ۔ ملازموں میں بجلی سی بھر گئی ۔ہو کوئی تیزی سے کام کرنے لگا تھا ۔ وہ مالک کی ڈانٹ نہیں کھانا چاہتے تھے ۔
"بابااااااااا" وہ لانج سے اندر داخل ہی ہوا تھا جب بیٹے کی آواز کانوں میں پڑی تھی ۔ یہ واحد آواز تھی جو اسے دنیا کی سب سے خوبصورت آواز لگتی تھی ۔ وہ ایک سال کا تھا اور اپنے بابا کی جان تھا۔
" بابا کی جان کہاں ہو " اس نے متلاشی نظریں گھمائی تبھی وہ اسے دوسری منزل کی ریلنگ پر نظر آیا تقریبا آدھا باہر کو لٹکا ہوا ۔ وہ پوری قوت سے اوپر کو بھاگا تھا ۔ فورا سے بیٹے کو گود میں اٹھایا اور پیار کیا ۔ بچہ کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔ معصوم بچہ اس بات سے بے خبر تھا اگر باپ نا آتا تو وہ نیچے گر جاتا ۔ بہت بری طرح سے ۔ شاید بچے جان پوچھ کر ایسا کرتے ہیں ۔انہیں یقیں ہوتا ہوگا ان کی حفاظت کرنے والے موجود ہیں۔
وہ اسی طرح بیٹے کو اٹھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔ دروازہ دے مارنے والے انداز میں کھولا ۔ بیڈ پر سوئی رامین ایک دم ہربرا کر اٹھی۔ " آپ ٹھیک تو ہیں داود " ڈرتے ہوئے پوچھا ۔
" میرا بیٹا باہر ریلنگ سے گرنے والا تھا اور تم یہاں سوئی پڑی ہو " درشتی سی کہا ۔
" یہ کیسے۔ مگر یہ تو سو رہا تھا میرے پاس ۔" رامین بے یقینی سے بولی۔
" بہانے مت بناو ۔ تمہے زرا خیال نہیں ہے اس کا ۔ آج اسے کچھ ہو جاتا نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوتا ۔" انگلی اٹھا کر تنبیہ کی اور ڈریسنگ روم میں گھس گیا ۔
رامین بے دم سی بیڈ پر بیٹھی۔ داود سے برا پہلے بھی کوئی تھا کیا ۔ پھر بیڈ پر بیٹھے بیٹے کو دیکھا ۔ ایک ساتھ غصہ اور پیار آیا تھا۔
وہ واقعی نہیں جان پائی تھی وہ کس وقت اٹھا، کمرے سے نکلا اور ریلنگ تک پہنچ گیا ۔ شکر کہ داود وقت پر آگیا ۔ اگر اسے کچھ ہو جاتا تو ۔ یہ سوچ ہی رامین کی جان نکالنے کے لیے کافی تھی۔
بی جان کے کہنے پر داود نے رامین سے شادی کی تھی۔ مگر وہ بہت بڑی غلطی تھی ۔ کسی کو اس کی اوقات دکھانےکی خاطر وہ غلط فیصلہ کر بیٹھا ۔ وہ جلد ہی اس فیصلے کو درست کر لے گا ۔
وہ داود حمدانی تھا ۔ حمدانی خاندان کا اکلوتا وارث اور ولی عہد ۔ کئی شہروں میں پھیلا ہوئے کاروبار کا مالک۔ حمدانی ایمپائر کا بادشاہ ۔
اور اس کی شریک حیات زرمین جیسی عورت ہو اسے یہ منظور نہیں تھا ۔ بی جان کے کہنے اور عائشہ کو تکلیف دینے کے لیے وہ راضی ہوگیا تھا ۔ اسکی بیوی ایک پر اعتماد ، خود مختار لڑکی ہونی چاہیے تھی ۔ وہ جو دنیا کے سامنے اسکے کندھے سے کندھا ملا کر چلے ۔ نا کہ زرمین جیسی ایک بیوقوف ایک گھریلو عورت۔
□□□
حارب کے چھوٹے فلیٹ میں عائشہ بے چینی سے چکر لگا رہی تھی۔ صوفے پر بیٹھا حارب اسے پندرہ منٹ سے اسے ایسے ہی دیکھ رہا تھا ۔
" ماما ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔ میری مرضی کے بغیر میری شادی فکس کردی ۔ آخر مجھے کیوں نہیں ہے اپنی مرضی کا حق ۔ " وہ سارا غصہ اور کوفت حارب پر نکال رہی تھی ۔ ایک وہ ہی تو تھا جو اس کا غصہ برداشت کر جاتا تھا ۔
" تم اپنا حق پہلے لے چکی ہو۔ ایک بار اپنی مرضی کر چکی ہو ۔ دیکھو عائشہ تم کسی عام خاندان سے نہیں ہو۔ اپنے خاندان کی عزت اور ساخت برقرار رکھنے کے لیے انسان کو قربانی دینی پڑھتی ہے ۔" حارب نے اسے صوفے پر بیٹھایا۔ خود دو زانوں اسکے سامنے بیٹھا ۔اور بہت تحمل سے سمجھانے کی کوشش کی ۔
" یہ قربانی ہمیشہ محبت سے کیوں شروع ہوتی ہے ۔ ایک بار پہلے بھی میں صرف خاندان کی عزت کا سوچ کر اپنی محبت کا گلہ گھونٹ چکی ہوں ۔ لیکن اب نہیں ۔ میں بہت محبت کرتی ہوں روحیل سے ۔" وہ ایک دم روہنسا ہوئی مگر فورا ہی پلکیں جھپک کر آنکھیں خشک کیں ۔ وہ کمزور نظر نہیں آنا چاہتی تھی۔ وہ عائشہ صبحانی تھی۔ ایک مظبوط اور بہادر عورت ۔
" روحیل ۔ یور فیملی ول نیور اکسیپٹ ہم" حارب کے لہجے میں دور اندیشی جھلک رہی تھی ۔
عائشہ نے پہلے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا پھر گہری سانس لے کر گویا ہوئی ۔
" صرف اسی لیے کہ وہ غریب ہے ۔ ماما کیسے بتائیں گیں سب کو انکی بیٹی کی محبت ایک عام خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ اسکا بہت اعلی گھر نہیں ہے ۔اسکا شاندار کاروبار نہیں ہے۔ وہ ایک غریب گھرانے کا ہے ۔ ایک عام سا ٹیکسی ڈرائیور ۔ لوگ کیا کہیں گیں ۔ بیٹی کی یہ پسند ہے ۔ہاں اگر پسند ہوتی تو بہت اونچے خاندان کا ولی عہد چنتی لیکن روحیل پسند نہیں محبت ہے۔ اور محبت نا اونچا خاندان دیکھتی اور نا اعلی کاروبار ۔" وہ مسلسل بول بول کر چپ ہوئی پھر ملتجائی نظروں سے حارب کو دیکھا ۔
" تم کچھ کرو ۔ ماما میری بات نہیں سن رہیں ۔ میں جیسے کوئی گناہ کر چکی ہوں ۔ وہ مجھے جس طرح دیکھتی ہیں اپنا آپ مجرم لگتا ہے ۔ پلیز حارب ڑو سم ٹھنک " وہ امید سے حارب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔
" جیسا مسز صبحانی کہہ رہی ہیں ویسا کرو ۔ حمزہ سے شادی کرلو ۔ وہ ایک بہتر انسان ہے اور تم سے محبت بھی کرتا ۔"
عائشہ نے اسکے ہاتھ چھوڑے ۔ پلکے جھپکے بغیر کافی دیر اسے دیکھتی رہی ۔ بے یقینی سے ۔ یہ امید تو نا تھی اسے حارب سے ۔پھر ایک جھٹکے سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی ۔
" تمھارے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے حارب لیکن مجھے واقعی بہت تکلیف ہوئی ہے ۔تم نہیں سمجھوگے ۔ تم اس وقت تک نہیں سمجھوگے جب تک تمہے خود کسی سے محبت نہیں ہوگی ۔ میں چاہوں گی کہ تمہے محبت ہو اور وہ انسان تمہے میسر نا ہو ۔ جب تم جانو گے میری تکلیف ۔ " وہ دکھ سے کہتی ہوئی دروازہ کھول کر نکل گئی اور حارب گہری سوچ میں پڑگیا ۔ وہ جو کہہ گئی تھی وہ کافی حد تک پورا بھی ہوچکا تھا۔ تبھی اسکی آنکھوں کے سامنے ایک سایا سا لہرایا ۔ وہ روتی ہوئیں گہری سیاہ آنکھیں تھیں۔
□□□
وہ گیارہ سالہ لڑکی مزے سے اس انسان کے پیچھے چل رہی تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ وہ غلط ارادہ رکھتا ہے ۔ وہ ایک حوس پرست انسان ہے
اگلے کچھ لمحے بعد وہ ویسی نہیں تھی جیسی آئی تھی۔ وہ چیختی ہوئی باہر کی جانب دوڑی تھی۔ وہ انسان اسے اپنی حوس کا شکار بنا چکا تھا ۔ وہ اسکے وجود کو اپنے غلط ارادے سے ناپاک کر چکا تھا ۔ وہ صرف گیارہ سالہ معصوم لڑکی تھی ۔ ایک دم سارے میں ہلچل سی مچی۔ " بے شرم بے حیا ایک بچی کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہوئے تجھے موت نہیں آئی ۔ مارو اسکو سارے ۔ اسکی وہ حالت کرو ہمیشہ یاد رکھے ۔"
" اسے پولیس کے حوالے کردو "
میں تو کہتا ہوں اسکی ایک ایک ہڈیاں ٹوڑ دوں "
مختلف آوازیں تھیں مگر وہ کسی کو نہیں سن رہی تھی ۔ شاکڈ سی کھڑی وہ ابھی تک یہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ اسکی ساتھ ہوا کیا ہے
بہت دیر بعد اسنے خالی خالی نظروں سے سامنے دیکھا ۔بہت سے لوگ کسی کو مار رہے تھے ۔ بڑی طرح سے ۔مکے، لاتیں ۔کوئی تو ایک لکڑی اٹھا لایا تھا ۔
ساتھ ساتھ وہ اس بد بخت انسان کو گالیوں سے بھی نواز رہے تھے ۔
اچانک لڑکی کی نظر مار کھانے والے پر پڑی ۔وہ ایک دم کانپ کر رہ گئی ۔ وہ چیخی تھی مگر وہاں کوئی اسکی بات نہیں سن رہا تھا ۔
وہ بار بار چیخ چیخ کر ایک ہی بات کہہ رہی تھی ۔
" اسے مت مارو ، اسے چھوڑ دو "
□□□
سنی کی رات میں اچانک آنکھ کھلی تو دیکھا سیمل بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھی ہے۔ خلاء میں گھورتی ہوئی ۔آنکھوں میں نمی لیے ہوئے ۔
" سیمو ؟ " وہ صرف اسکا نام پکارتے ہوئے سامنے بیٹھا ۔
" مجھے وہ بہت یاد آرہا ہے سنی۔ مجھے موسی بہت یاد آرہا ہے ۔ میں کہاں ڈھونڈو اسے ۔ وہ کیوں نہیں مجھے تلاش کرتا ۔ " وہ بولی تو اسکی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔
" لیکن صرف اس لیے میں یہ تکلیف سہہ لیتی ہوں کہ میں اسکی نفرت نہیں سہہ سکتی ۔ سب برباد کر دیا میں نے ۔کیا ضرورت تھی مجھے وہاں جانے کی " وہ اب خود کو کوسنے لگی تھی ۔
سنی ابھی چھوٹا تھا ۔ اسکی بات کا اصل مقصد نہیں سمجھ سکتا تھا پھر بھی وہ دل ہلکا کرنے کو اس سے بات کر لیتی تھی۔ وہ اپنے دل کی ہر بات سنی سے کیا کرتی تھی ۔
" تم سو جاو سنی"
وہ ساتھ لیٹ گیا تو ہلکے سے اسکا کندھا تھپکنے لگی ۔
" سیمو تم بھی سو جاو "
مگر وہ سن نہیں رہی تھی ۔ وہ پھر سے ماضی میں کھو چکی تھی۔
محبت کے حصار میں کھو چکی تھی۔ محبت جو راتوں کو رلاتی تھی۔ دن کو بے سکون رکھتی۔ کبھی اس قدر اپنی شدت بڑھا لیتی کہ جان لیوا ہوجاتی۔ اور اس قدر قریب ہوکر بھی میسر نہیں تھی۔
□□□
اگلے روز بھی وہ یونی میں خاموش خاموش سی رہی تھی۔ بہت کم بول رہی تھی ۔
" کچھ اپ سیٹ لگ رہیں ہیں آپ " ناجانے وہ کہاں سے آگیا تھا ۔
" ہوں " وہ صرف اتنا بول پائی۔
" کیا میں وجہ جان سکتا ہوں "
" پلیز یوسف ابھی جاو ۔" وہ واقعی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی ۔
"ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں ۔ جب موڈ ہو تب بتا دینا " عادت کے برخلاف اسنے ضد نہیں کی تھی ۔
" سیمل کیا ہوا ہے اچانک سے ؟ " مایا لیکچر لے کر سیدھا اسکے پاس آئی تھی ۔ اس قدر موڈ اوف تھا کہ لیکچر بھی نہیں لے پائی۔۔
" گھر میں کوئی پروبلم ہے ۔ کس نے کچھ کہا کیا ۔" مایا اسکو پریشان دیکھ کر خود بھی پریشان ہو رہی تھی ۔
" کل رات اچانک سے کچھ پرانی باتیں یاد آگئیں ۔ بس اسی لیے ٹھورا اپ سیٹ ہوں ۔" وہ سانس اندر کو کھینچتے ہوئے بولی۔
" تم چاہوں تو اپنا دکھ بانٹ سکتی ہو اگر مجھے اپنا خیر خواہ سمجھتی ہو " مایا نے اسکا ہاتھ تھاما ۔
" پھر کبھی ۔ ابھی میرا موڈ نہیں ہے ۔کل رات میں نے سنی کو بھی پریشان کردیا ۔"
" تمھارا بھائی ۔ کب ملوارہی ہو اس سے ۔ صرف زکر کرتی رہتی ہو ۔ بہت کیوٹ ہے۔ سمارٹ اور سمجھ دار ہے ۔ " مایا اسکا دل ہلکا کرنے کو بولی۔
" میرے گھر آو پھر ملواوں گی ۔" سیمل نے بھی شرط رکھی وہ اب بہتر نظر آنے لگی تھی۔
" اور آتے وقت چاکلیٹ بھی لانا سنی کو بہت پسند ہے " اسنے ایک دم فرمائش کی تو دونوں ہنس پڑیں ۔
□□□
چار سال بعد ۔۔۔۔۔۔
یوسف سکندر شاہ کے آفس میں عجیب تناو زدا سا ماحول تھا ۔سیمل منتظر سی اسکے جواب کے انتظار میں تھی ۔
"ایک پرسلن پروبلم کی وجہ سے مجھے وہاں سے آنا پڑا ۔" نظریں چراتے ہوئے بس یہ ہی کہہ پایا ۔
" مگر کوئی خبر کوئی اطلاع ۔ کچھ تو ۔ایسی کیا مجبوری تھی جو بتا نہیں سکے ۔ " وہ اب بھی سخت ناراض لگتی تھی۔
" اور میں تمہے تلاش بھی نہیں کر سکی ۔" بی بسی سی تھی اسکے لہجے میں۔
" میں شرمندہ ہوں ۔سب کچھ اچانک ہوا ۔ تم ریلیکس ہو جاو ۔ آرام سے بات کرتے ہیں ۔"
سیمل نے دیکھا اسکے سامنے بیٹھا شخص وہ نہیں تھا جو یونی میں ملا تھا۔ نا بالوں میں سپائکس تھے ۔ نا کان میں بالیاں ۔ نا ہونٹ پر رنگ ۔ البتہ زبان میں پیرویا ہوا سٹڈ ویسا ہی تھا ۔ وہ بہت مختلف نظر آرہا تھا ۔ کوئی بہت بڑی وجہ ہوئی ہوگی خو وہ بلکل بدل گیا تھا۔ وہ بات بات پر قہقہے نہیں لگا رہا تھا ۔ وہ شوخ انداز میں نہیں بول رہا تھا ۔ وہ تو صرف ایک سنجیدہ شخصیت والا بزنس مین لگ رہا تھا ۔
" معاف کرنا میں جزباتی ہوگئی تھی ۔تمہے بہت سنا دی " وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے معزرت سے بولی۔
" ہمارے درمیان یہ معافی والا سلسلہ کب سے شروع ہوا ۔ میں سمجھ سکتا ہوں ۔ واقف ہوں تمہاری طبیعت سے ۔ بہت جلد جزباتی ہو جاتی ہو ۔"
" ٹھیک کہا ۔ مجھے اس عادت کو کنٹرول کرنا چاہیے۔" وہ پختہ لہجے میں بولی تھی۔۔ پھر مسکرائی۔
" میں آج بہت خوش ہوں ۔ اس طرح تم ملو گے کبھی سوچا نا تھا ۔ لگتا تھا تمہے پھر کبھی دیکھ نہیں پاوں گی۔ " وہ روہنسا سی ہوئی
یوسف نے صرف ایک گہری سانس لی ۔ وہ اسے تلاش نہیں کر سکتی تھی ۔ مگر وہ تو کر سکتا تھا۔ وہ تو رابطہ کر سکتا تھا لیکن زندگی نے ایسا چکر لیا تھا وہ سب بھول گیا تھا ۔
□□□
" امی دیکھیں بھائی کیسے مسکرا رہے ہیں " ردا نے اسامہ کو چھیڑنے والی انداز میں ماں سے کہا ۔
اسامہ ایک دم سنبھل کر سیدھا ہوا۔ ردا کب کمرے میں آئی اپنے خیالوں میں اسے علم نہیں ہوا ۔
" بتائیں نا بھائی کیا سوچ رہے تھے ۔ چلیں میں گیس کرتی ہوں " وہ شہادت کی انگلی کنپٹی پر تھپتھپاتے ہوئے بولی ۔
" میں کچھ نہیں سوچ رہا ۔تم بتاو کب آئی۔" اسامہ نے بات بدلنے کو سوال کیا ۔
" ابھی جب آپ کسی کے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے ۔سہی کہا نا ۔" آبرو اچکائیں
اسامہ ہنس دیا ۔ بات کی تردید نہیں کی۔
" ایک بات کہوں " ردا ایک دم سنجیدہ نظر آنے لگی تھی۔
" ہاں کہو " وہ بھی سیدھا ہوکر بیٹھا ۔
" آپ کو سیمل آپی کیسی لگتی ہیں " اسامہ کا موڈ اچھا دیکھ کر اس نے بات کی تھی۔ جب وہ لوگ انکے گھر آئے تھے تب ہی دل میں ردا نے یہ خواہش پالی تھی کہ سیمل اسکی بھابھی بنے۔
" اچھی لگتی ہے " وہ مختصر سا بولا۔
اندر خوش تھا اسکے کہنے سے پہلے ہی ردا نے بات چھیڑلی تھی۔
وہ تو پہلے سے ہی سیمل کو پسند کرنے لگا تھا ۔ کچھ دن پہلے ہوئی ملاقات میں نہیں بلکہ چار سال پہلے کسی انجان فنکشن میں دیکھ کر ۔۔۔۔۔
□□□