وہ حق دق سی ابا کی باتیں سن رہی تھی۔ اپنی سماعتوں پر یقین کرنا مشکل امر لگ رہا تھا۔
" آپ کیا کہہ رہیں ابا۔ میری شادی موسی سے " بولتے ہوئے الفاظ لڑکھڑا گئے۔ ابا اور یہ بات کیسے کہہ سکتے تھے۔
" ہاں صحیح سنا تم نے ۔ میں مزید تمہے اس طرح تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ اسامہ سے شادی کا فیصلہ بھی تمھاری بہتری کے لیے تھا مگر اب میں یہ جان چکا ہوں کہ تمھاری قسمت موسی کے ساتھ ہی جڑی ہے۔ تم دونوں کا ایک ہونا ہی بہتر ہوگا۔ " ابا ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے اور وہ ٹھہرے ہوئے دل سے سن رہی تھی۔
" کیا وہ راضی ہو جائے گا۔ " سوالیہ انداز جس میں امید کی رمق تھی۔
" میں اسے راضی کر لوں گا۔ میں اس سے مل کر تمھاری خوشیوں کی بھیک مانگ لوں گا۔ " سیمل کو ناجانے کیوں ان کا انداز پسپسا سا لگا۔ واقعی اولاد ایک آزمائش ہوتی ہے۔
" کیا یہ ممکن ہے ابا۔ کیا آپ کو یاد نہیں آپ نے اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا تھا ایک ایسے جرم کی پاداش میں جس کا اس سے کوئی تعلق نا تھا۔
اب آپ یہ کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کی بات مانے گا " بھیگی آنکھیں جن میں سولوں کا ریلا تھا۔
" وہ میری غلطی تھی مجھے اندازہ ہے اس بات کا۔ تم نے جو خط چھوڑا تھا اسکے بعد میں اس بات پر یقین کرنے پر مجبور ہوگیا تھا ۔ اور ایک پشیمانی ہر وقت میرے ساتھ رہنے لگی تھی۔ مجھے اپنی غلطی کی معافی بھی مانگنی ہے۔ چاہے اسکے لیے مجھے ہاتھ ہی جوڑنے پڑے۔ جو بن سکا میں کروں گا۔ میں اب تمھاری خوشیوں کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں آنے دوں گا۔ " کمال صاحب نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ وہ آج تک انہیں بہادر اور مضبوط دیکھتی آئی تھی۔ آج وہ بہت شکست خوردہ لگ رہے تھے۔ پہلی بار تب جب وہ موسی کی تلاش میں نکلی تھی اور مایوس ہو کر لوٹی تھی۔
" ابا جب کسی پر الزام لگایا جاتا ہے نا نا کردہ جرم کا تو دنیا تو اسے کوستی ہی ہے وہ انسان خود بھی اپنے آپ کو کوسنے لگتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے ۔ تائی امی کے وہ الفاظ جو انہوں نے مجھ پر اسامہ کی موت کا الزام لگایا تھا وہ آج تک میرے کانوں میں کھولتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا سارا قصور میرا ہے۔ اور کبھی ایسا کہ میری قسمت ہی یہ تھی۔ اگر یہ قسمت تھی تو میرا کیا قصور۔ "
" تمھارا کوئی قصور نہیں ہے۔ کسی کی زندگی یا موت ہماری قسمت کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ یہ زندگی ایک شجر کی طرح ہے۔ جیسے درخت سے کچھ پتے جھڑ جاتے ہیں اور نئے آتے ہیں ویسے ہی ہماری زندگی سے لوگ چلے بھی جاتے ہیں اور آتے بھی ہیں۔ ہم کسی کو نا جانے سے روک سکتے ہیں نا آنے سے۔ بس اگر یہ سوچ لیا جائے کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے تو ہم مایوس ہونا چھوڑ دیں۔ ہر بات میں اللہ کی کوئی بہتری ہوتی ہے ۔ اور اگر تمھارے ساتھ سب برا ہو رہا ہے تو یہ تمھارا امتحان ہے۔ " کمال صاحب نے اپنے ہاتھوں میں اسکے ہاتھ دبا رکھے تھے۔ وہ اسے ایسے سمجھا رہے تھے جیسے چھوٹے بچے کو سمجھاتے ہیں اور وہ بھی ایسے ہی سر ہلا رہی تھی۔
" ابا۔۔۔! " ایک گیلی سانس کھینچی۔
" مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کو بہت پریشان کیا ہے۔ " ساتھ ہی انکے ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر چومے۔
" مجھے بھی معاف کر دینا۔ میں نے بھی بہت غلط فیصلے کیے ہیں۔ " وہ پشیمان لہجے سے کہہ رہے تھے۔
" آج میرا دل کافی ہلکا ہو گیا ہے۔ میرے دل پر ایک بوجھ آپکی ناراضی کا بھی تھا ۔ آج وہ اتر گیا۔ اب چاہے تائی امی یا پھر پوری دنیا یہ کہتی رہے کہ میں اپنے شوہر کی قاتل ہوں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نا میں قصور وار تھی اور نا ہی کسی کے کہنے سے ہونگی۔ ہاں مگر ۔۔۔!" انگلیوں کے پوروں سے آنکھیں صاف کرتی وہ مضبوظ لہجے میں کہتے کہتے رکی۔
" اس دن گھر سے جاکر جو غلطی کی وہ میرا اختیار میں تھا۔ وہ میرا ہی قصور تھا۔ اور میں نے یہ جان لیا کہ ہر غلط طریقہ سوائے مایوسی اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ مجھے آپ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ مجھے یقین ہونا چاہیے تھا کہ آپ میری بات سنے گے۔ " اب کی بار وہ مسکرائی تھی۔ کچھ تھا جو دل سے اتر گیا تھا۔ کچھ تھا جو دل کو مل گیا تھا۔
" وہ ایک غلطی تھی اور غلطیاں ہر انسان سے ہوتیں ہیں۔ کمال یہ نہیں کہ ہم غلطیاں نا کریں بلکہ کمال یہ ہے کہ ہم غلطیوں سے سیکھیں۔ اور تم اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ چکی ہو"
" ابا۔ شکریہ۔ اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید مجھے کبھی معاف نہیں کرتا۔ " اب کی بار اسکی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔
" تمہے سبق مل گیا یہ ہی کافی ہے۔ اور تم قسمت والی ہو جو کسی مصیبت میں نہیں پڑھی۔ " وہ کیا کہہ رہے تھے وہ سمجھ رہی تھی۔
" یہ تم پر اللہ کی مہربانی ہے کہ اسنے تمہے محفوظ رکھا۔ "
وہ سر اثبات میں ہلا گئی۔
بہت سی بری چیزوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اچھی چیزیں بھی ہوتی ہیں ۔ بس انہیں دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔
" تم سنی سے بہت غافل ہو گئی ہو۔ تم اسکی بہترین دوست ہو۔ سنی سے اسکی دوست نا چھینو۔ تمہے اسکی اور اسے تمھاری حفاظت کرنی ہے۔ " وہ ایک بار پھر اپنا بہت بار کہا ہوا قول دھہرا رہے تھے۔
" میں سمجھ گئی ابا۔ میں اپنی پریشانی میں اس قدر کھو گئی کہ سنی کا خیال نا رہا۔ مجھے احساس ہو رہا ہے۔ اب شاید پھر سے مجھے اس سے دوستی کرنی پڑے گی۔ " وہ کہتے ہوئے ہلکا سا ہنسی۔
" ہاں ضرور۔ جو رشتے پاس ہیں انکی قدر کرو۔ " ابا اٹھتے ہوئے اسکا کندھا تھپتھاکر چلے گئے۔
وہ کافی دیر سوچ میں وہیں بیٹھی رہ گئی۔ کیا یہ سب اتنا آسان تھا۔ بس صرف بات کرنے سے مسئلے ہوگئے۔ ہاں کچھ مسئلے تسلی سے بات سن نے اور سنوانے سے حل ہو جاتے ہیں۔ بس سمجھنے اور سمجھانے والا ہونا چاہیے۔ باقی اللہ پر توکل تو پہلی اور ضروری شرط ہے۔
یوسف مل گیا تھا۔ مایا مل گئی تھی۔ ابا مل گئے تھے۔ سنی کی ناراضی وقتی تھی۔ بس صرف ایک ہی خواہش رہ گئی تھی۔ اسکی اور موسی کے ایک ہونے کی۔ اور اگر وہ اسکی قسمت میں تھا ۔ اگر اسے اسکی زندگی میم لکھا گیا تھا تو ہزار رکاوٹوں کے بعد بھی وہ دونوں ایک ہونگے۔ اسکی سوچوں کا محور مثبت سوچ پر آکر رکا تھا۔ اس لمحے سیمل نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ کبھی بھی منفی نہیں سوچے گی۔ بہتر سوچے گی اور بہتر کی امید رکھے گی۔
□□□
داود حمدانی اس گھر کے لانج میں تین سالہ جانی کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ رامین اور اسکی ڈیورس ہوئے ایک سال ہو گیا تھا۔ قانونی رو سے جانی کو رامین کے حوالے کیا گیا تھا مگر داود کو بیٹے سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ آٹھ سال کا ہونے پر عدالت نے دوبارا فیصلہ کرنا تھا کہ بچہ ماں کے ساتھ رہے گا یا باپ کے ساتھ ۔
" بابا۔ آپ لوج تیوں نی آتے مدھ چھے ملنے " ( بابا آپ روز کیوں نہیں آتے مجھ سے ملنے ) اسکی توتلی زبان باپ سے گلا کر رہی تھی۔
" بابا بزی ہوتے ہیں بیٹا ۔ بابا کو بہت کام ہوتے ہیں۔ جب بابا فری ہونگے تو روز آیا کریں گے اپنی جان سے ملنے۔ " ایک وہ ہی تھا جس سے بات کرتے داود حمدانی کی زبان نرم ہو جاتی تھی۔
" مدھے آپ تے تاتھ لہنا اے ( مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے ) " داود کے ہونٹ مسکرائٹ میں ڈھلے۔
" مدھے ماما اول آپ تے تاتھ لہنا ہے۔( مجھے آپ کے اور ماما کے ساتھ رہنا ہے ) " مسکراہٹ ہلکی سی پھیکی پڑی ۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا اسکا فون بج اٹھا ۔
" ہاں بولو "
دوسری طرف کی بات جیسے جیسے اسکی سماعت میں پڑ رہی تھی ویسے ویسے اسکے چہرے کے زاویے بگڑ رہے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ تن فن کرتا اپنے آفس میں داخل ہوا جہاں پریشان سا عمر کھڑا تھا۔
" کس نے کیا یہ۔ کس نے کی مخبری " عمر کو گریبان سے پکڑتے وہ تقریبا ڈھاڑا۔
" مم ۔۔۔ ممم۔ میں نہیں " عمر با مشکل ہکلایا۔
جھٹک کر اسکا گریبان چھوڑا اور شیشے کی میز پر جھکا ۔ کچھ گہرے سانس لیکر خود کو نارمل کیا۔
سمندری راستے سے سمگل ہونے والی بہت سی ڈرگز پولیس ریڈ کرنے پر پکڑی گئی تھی۔ ساتھ میں بہت سے لوگ گرفتار بھی ہوئے تھے۔ داود حمدانی نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا کچھ ہوگا ۔ اتنی رازداری سے کیس گیا کام کیسے پکڑا جا سکتا تھا۔
" عمر مجھے دو دن میں اس شخص کا نام چا ہیے جس نے ہماری مخبری کی تھی ۔ اس جرائت کا خمیازہ اسے اپنی موت سے دینا پڑے گا۔ " خود کو کمپوز کرتا وہ اب حکم صادر کر رہا تھا۔
" سر ایک بات کہوں۔ مجھے یوسف پر شک ہے۔ وہ کر سکتا ہے یہ۔ " عمر کچھ رازدادی اور کچھ جھجھکتے ہوئے بولا۔
داود نے محض اسے گھورا۔
" اگر ایسا ہے عمر تو اسے اسکی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ " زور سے ہاتھ شیشے کی میز پر مارا اور بل دار پیشانی کے ساتھ آفس سے نکل گیا۔
□□□
دو دن پہلے۔
وہ ایک ریسٹوڑنٹ کا فوڈ ایریا تھا ۔ ایک ٹیبل پر یوسف سکندر بیٹھا تھا۔ آج وہ گرے کلر کی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا ۔ گھونٹ گھونٹ کافی پیتا وہ ریلیکس سا لگ رہا تھا ۔
اچانک اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ۔ ایک لڑکی اسکے سامنے آکر بیٹھی ۔
" کیا بات ہے جلدی بولو۔ پری کو پلے ایریا میں چھوڑ کر آئی ہوں۔ " انم تیزی سے بولی تھی۔
" وہ کھیل رہی ہے آرام سے ۔ فکر نا کرو۔ " یوسف نے کہتے ہوئے اپنے پینٹ کی جیب سے ایک کاغز نکالا اور اسے تھمایا۔ جسے انم نے کھولے بغیر اپنے پرس میں ڈال لیا۔
" کوئی اور میسج "
" نہیں بس یہ ہی " وہ کندھے اچاکاتے ہوئے بولا۔
" آج کافی پر سکون لگ رہے ہو " انم نے بغور اسکا چہرا دیکھا۔
" یوسف سکندر کبھی پریشان نہیں ہوتا۔ "
انم نے سر جھٹکا۔
" شکریہ مدد کرنے کے لیے۔ تم اگر مدد نا کرتی تو میرا موسی سے رابطہ نہیں ہوتا۔ " وہ تشکر سے کہہ رہا تھا۔
" تم دونوں عائشہ میم کے قاتل کے خلاف لڑ رہے ہو۔ میری مدد کا مقصد صرف انکے قاتل کو منظر عام پر لانا ہے۔ " انم سنجیدگی سے کہتی پلے ایریا کی طرف دیکھنے لگی۔ پری سامنے ہی ایک پنک کلر کی بال سے کھیلتی نظر آئی۔
" جلد ہی اسکا ایک سمگلنگ گروپ پکڑا جائے گا۔ " وہ اطلاعا بولا۔
" اگر داود کو پتا لگ گیا کہ تم دونوں شروع سے ملے ہوئے ہو ۔ وہ فون کال فیک تھی۔ تمہے معلوم ہے کہ وہ تمھاری کال ٹریس کر رہا ہے۔ تو کیا ہوگا ۔" انم کے لہجے میں اندیشا جھلکا۔
" وہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے چونکے گا نہیں۔ وہ پہلے ہی اپنے سر خون لے چکا ہے۔ دوسری بار یہ کرنا مشکل نا ہوگا۔ " ایک گہری سانس لی۔
" میں اور موسی اسے بچپن سے جانتے ہیں ۔ یہ اس کی عادت ہے۔ وہ ہمیشہ سے اپنے مخالفین میں اختلاف ڈالنے کا عادی ہے۔ دو لوگوں کو آپس میں لڑا دو۔ وہ اپنے جگھڑے بھگتتے رہیں۔ تم اپنا کام کرلو۔ ہم نے بس اسکو وہی دکھایا جو وہ دیکھنا چاہتا تھا۔ "
" ہوں تو جب تم اسکے ساتھ کام کرنے لگے اسے تم پر شک نہیں ہوا۔ " انم پھر سے الجھی۔
" شک تو اسے اب بھی ہے۔ داود جیسے لوگ نا خود کسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اور نا ہی کوئی دوسرا ان پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ اسکے پاس میرے خلاف ثبوت ہوگا اور ایسا ہی تھا ۔ مگر اب ایسا نہیں ہے " وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا۔
" کیا مطلب؟"
" یعنی اب اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج تھی جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔ "
" جہاں تک میں جانتی ہوں یہ کام تمھارے لیے کسی اور نے کیا ہوگا " انم نے اندازہ لگایا۔
" ہاں بلکل۔ " اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
" یہ ایکسیڈنٹ بھی تمھارے پلین میں شامل تھا۔ " آج وہ شاید فرصت سے آئی تھی جو سوال در سوال کر رہی تھی۔
" ہاں بلکل ۔ بہت مزا آیا تھا اپنی ٹانگ تڑواکر " یوسف نے منہ بنایا۔
" تمھاری مدد کس نے کی تھی۔ " انم نے واپس اپنا سوال دہرایا۔ اسکے جواب پر کچھ خفیف ہوتے ہوئے۔
" جسکے بھائی کو داود نے مروادیا تھا عائشہ کے سامنے سچ اگلنے پر "
انم کو ساری کہانی اب سمجھ آ رہی تھی۔ وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلانے لگی۔
" مگر ایک چیز ہے جو انسان کے سب منصوبوں پر پانی پھیر سکتی ہے ۔ "
یوسف جو مزید کچھ کہنے لگا تھا انم کی بات پر رکا ۔
" کیا چیز "
" موت یا پھر موت کے قریب ترین کی چیز "
" ہاں مجھے معلوم ہے۔ " وہ اسکی بات کا مطلب داود کی طرف سے کسی جانی حملے کا اندیشہ سمجھا تھا۔
" میں داود کی بات نہیں کر رہی۔ " انم نے اسکا اندازہ غلط کیا۔
" موسی کا آپریشن ہے کچھ دنوں میں" انم نے اسے اطلاع نہیں دی تھی بلکہ ایک پہاڑ اسکے سر پر توڑا تھا۔
" کک کیا مطلب" وہ بے یقینی سے بولا۔
" کافی پہلے اسکے سر میں ایک چوٹ لگی تھی۔ اس وقت بظاہر عام نظر آنے والی چوٹ اندر ہی اندر ایک دماغی نس کو نقصان پہنچا رہی تھی۔ چوٹ زیادہ نہیں تھی اس لیے زیادہ نقصان نہیں ہوا ۔ مگر اب خطرہ ہے۔ آپریشن کے چانسز ففٹی ففٹی ہیں ۔ موسی نے کسی کو اس بات کا نہیں بتایا۔ وہ پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ سب باتیں مجھے اسکے ڈاکٹر سے پتا چلیں ہیں۔" وہ سنجیدہ سے لہجے میں کہتی اسے ساری بات بتا رہی تھی۔
" میں اب چلتی ہوں۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔ " حیرت زدہ یوسف کو وہیں چھوڑ وہ اپنا پرس تھامے وہ پلے ایریا کی طرف آئی۔ پری کا ہاتھ تھاما اور باہر نکل گئی۔
جبکہ یوسف ساکت سا اپنی جگہ پر بیٹھا رہ گیا ۔
موت کا احساس جان لیوا ہوتا ہے اور کسی پیارے کی موت کا احساس بزات خود موت ہوتی ہے ۔
□□□
شہانہ سکندر ہاتھ میں ایک کافی کا کپ لیکر کمرے میں داخل ہوئیں۔
بیڈ کروان سے ٹیک لگاکر سکندر صاحب بیٹھے تھے۔
وہ کافی شوہر کو تھما کر وہیں کنارے پر ٹک گئیں۔ نظروں کا زاویہ شوہر کے چہرے پر گردش کر رہا تھا۔
" کچھ بات ہے ۔ " وہ بیوی کی نظریں نوٹ کر گئے سو سوال کر لیا۔
" ہاں اگر آپ اجازت دیں کہنے کی۔ "
" ہاں بولو میں سن رہا ہوں " وہ اب کی بار زیادہ متوجہ ہوئے ۔
" مجھے میرا بیٹا چاہیے۔ " ایک دم انکی آنکھیں نم ہوئیں۔
" آپ کیسے باپ ہیں۔ کوئی فکر نہیں ہے آپ کو اسکی ۔ دو سال سے زیادہ ہوگئے اسے گھر سے گئے ہوئے۔ آپ نے بھی اسے نکالتے نہیں سوچا اور اس نے بھی جاتے نہیں سوچا۔ آپ دونوں کے درمیان میں پھنس جاتی ہوں۔ آج مجھے صرف ایک چیز چاہیے آپ سے۔ کیسے بھی کر کے مجھے میرا بیٹا لا کر دیں۔ آپ نے نکالا تھا نا اسے گھر سے ۔ آپ ہی اسے واپس لائیں گے۔ اور اسے تلاش کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اگر وہ نا آیا تو میں بھی گھر سے چلی جاوں گی " وہ شوہر کو واضح دھمکی دے رہی تھیں۔
" مجھے اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ " سکندر صاحب تحمل سے بولے۔
" وہ جس روز سے گھر سے گیا ہے مجھے معلوم ہے وہ کہاں ہے۔ مجھے اس کی فکر ہے اور وہ میرے علم میں ہی ہے۔ "
" تو اسے واپس لیکر آئیں نا۔ " ابکی بار شہانہ نے التجاء کی ۔
" اگر وہ آنا چاہتا تو آجاتا۔ "
" ایسا نہیں ہے۔ آپ اس سے ملیں۔ اس سے بات کریں۔ اگر نا مانے تو میرا واسطہ دیں۔ وہ میری بات کبھی رد نہیں کرے گا۔ بلکہ ایسا کریں مجھے بتائیں وہ کہاں ہے۔ میں خود اس کو گھر لے آوں گی۔" شہانہ کا بس نا چلتا تھا ابھی بیٹے کے پاس پہنچ جائیں۔
" تھیک ہے ۔ تم چلی جانا ۔ " سکندر صاحب بھی رضامند ہو گئے۔
" کیا آپ کو زرا سی بھی تکلیف نہیں ہوئی اسے گھر سے نکالتے ہوئے " وہ اب شکوہ کر بیٹھیں تھیں۔
" ماں باپ کو کچھ فیصلے اولاد کی بہتری کے لیے کرنے پڑتے ہیں۔ وہ فیصلہ بھی اسکی بہتری کے لیے تھا اور میرا فیصلہ غلط نہیں تھا۔ وہ حمدانی ٹیکسٹائل میں ایم ڈی کی جاب کر رہا ہے۔ میرے لاکھ کہنے پر بھی وہ حمدانی گروپ اوف بزنس میں جاب نا کرتا مگر اب یہ اسکا خود کا فیصلہ ہے۔ " وہ سمجھاتے ہوئے بولے۔
وہ ایکسیڈنٹ والی بات جان بوجھ کر چھپا گئے تھے۔
" کیا یوسف کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا " سکندر صاحب نے دوسرا زکر چھیڑا۔
" ہاں اسکی یونی کی لڑکی ہے۔ اسنے زکر کیا تھا ایک بار ۔ وہ گھر بھی آئی تھی یوسف کا پوچھنے۔ " شہانہ نے تفصیلا بتایا۔
" صرف یوسف اسے پسند کرتا ہے یا وہ بھی کرتی ہے " انہوں نے مزید دریافت کیا۔
" ہاں شاید وہ بھی پسند کرتی ہے ۔ اس دن اسکے چہرے پر واضح پریشانی دیکھی تھی میں نے۔ آپ یہ سب کیوں پوچھ رہیں ہیں۔ " وہ سمجھ نہیں پا رہیں تھیں۔
" تم نے شادی کرنی نہیں ہے کیا بیٹے کی۔ "
" ہاں ضرور کیوں نہیں " شہانہ کی آنکھیں بھیگی۔
" مگر پہلے وہ گھر تو آ جائے۔ " ہتھیلیاں رگڑ کر آنکھیں صاف کیں
سکندر صاحب مزید کچھ نا بولے ۔ شہانہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر مسکراہٹ ۔۔۔
□□□
وہ تاریک کمرا تھا ۔ یا شاید روشن ۔ اسکے لیے تو اندھیرا ہی تھا۔ آنکھوں پر بندھی پٹی نے روشنی اندھیرے کا تعین ختم کردیا۔ اسکا نکاح ہونا تھا آج طارق سے ۔ لیکن اسے کیڈنیپ کر لیا گیا تھا۔
ناجانے کتنے دن وہ اس اندھیرے میں ہی رہی۔ مدد کے لیے پکار تے۔ پھر ایک دن وہاں کوئی آیا۔ اسنے اسے یوسف سمجھا۔
وہ اسکے آگے ہاتھ جوڑنے لگی۔ مگر وہ بس اسکی بے بسی دیکھتا رہا۔
وہ اکیلا تھا یا شاید کوئی اور بھی تھا اسکے ساتھ۔ وہ اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ کچھ بھی اندازہ نا لگا پا رہی تھی۔ جب بھی وہ شخص اسکے پاس آتا تھا وہ جگہ ایک خوشبو سے بھر جاتی تھی ۔ ایک تیز خوشبو دار پرفیوم۔ اور ساتھ ہی سگریٹ کا دھواں جو اسکی سانسوں کو تکلیف دیتا تھا۔ یوسف سموکنگ کرتا تھا یا نہیں وہ نہیں جانتی تھی۔
ایسے ایک ماہ گزرا۔ وہ دو بار اسکے پاس آیا اور تیسری بار ایک آدمی نے اسکے ہاتھ پیر کھول کر آنکھیں بھی کھول دیں۔ اسنے بنا کچھ سوچے اس آدمی پر حملہ کرنا شروع کیا ۔ اپنے بچاو میں وہ آدمی اس پر وار کرنے لگا اور زور دار تھپر مار کر اس کا چہرا زخمی کر دیا۔ وہ منہ کے بل زمین پر گری اور جب اٹھی تو ہاتھ میں ایک لوہے کی راڈ تھی۔ وہ جگہ ویسے بھی بہت کاٹ کباڑ سے بھری پڑی تھی۔ اسنے ایک لمحہ بھی ضایع کیے بنا وہ راڈ اس آدمی کو دے مارا۔ وہ زور سے چیخا ۔ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر۔ وہ رکی نہیں ایک ضرب مزید لگائی اور باہر کی طرف بھاگی۔
وہ سمت کا تعین کرے بنا بھاگ رہی تھی۔ بس اس جگہ سے دور بھاگ نا چاہتی تھی۔ بہت دیر تک بھاگتے بھاگتے تھک گئی تو رک کر سانس بحال کیا۔ چہرے سے خون رس رہا تھا۔ مگر پروا کسے تھی۔ پروا تو اس یقین کے ٹوٹنے کی تھی جو یوسف سکندر ٹور چکا تھا۔
وہ اس رات اپنے کمرے کی گیلری میں کھڑی تھی۔ دور افق پر سیاہ آسمان دیکھتی وہ اس وقت کا ایک ایک لمحا سوچ رہی تھی کہ کچھ تو ایسا یاد آئے جو وہ اصلی مجرم تک پہنچ سکے۔
کیا تب پیش آنے والے واقعات میں سے کوئی دوبارہ رونما ہوا ۔ یوسف کے آفس سے اس روز نکلتے وہ ایک آدمی سے ٹکرائی تھی۔ اس آدمی کا تیز ناک کو چڑھ جانے والا پرفیوم اسے عجیب طرح سے متوجہ کر گیا۔ وہ خوشبو پہلے بھی کہیں سونگھ چکی تھی۔ اس وقت زہن میں نا آیا تھا بس الجھ سی گئی تھی۔ آج بغور وہ سب یاد کرتے اور زہن پر زور ڈالتے اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ وہی شخص تھا جو اسے قید میں ملنے آتا تھا۔ مگر محض ایک پر فیوم کی وجہ سے وہ کسی پر الزام نہیں لگا سکتی تھی۔ ایک پرفیوم تو کتنے لوگ استعمال کرتے ہونگے۔ اور وہ ایسے یوسف کے آفس میں آنے جانے والے کسی پر الزام نہیں لگا سکتی تھی۔ وہ پہلے ہی یوسف کا اعتبار کھو چکی تھی۔ مزید وہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی تھی۔ کشمکش سی کشمکش تھی۔ الجھن سی الجھن تھی۔
کئی راتوں کی طرح وہ رات بھی بنے سوئے بیت گئی تھی۔
□□□
عائشہ اس روز فلیٹ سے نکلی تھی۔ وہ کسی ایسے کی تلاش میں تھی جو اسکے لیے داود کی جاسوسی کر سکے۔
وہ فون پر کوئی نمبر ملاتے باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد موسی کچھ دیر سوچ میں بیٹھا رہا پھر موبائل نکالا اور یوسف کا نمبر ڈائل کیا۔
" ہاں بولو " ایئر پیس میں یوسف کی آواز گونجی۔
" میری بات غور سے سنو ۔۔ تم عائشہ کے پاس جاو اور اسے کسی طرح اس بات پر راضی کرو کہ تم اسکی مدد کرنا چاہتے ہو۔ " وہ سمجھاتے ہوئے بولا۔
" مگر کیوں۔ " وہ سمجھا نہیں تھا۔
" میں جیسا کہہ رہا ہوں وہ کرو۔ عائشہ تمہے جو بھی کام دے ۔ تم ہر بات مجھے بتاو گے۔ ایک ایک بات " وہ بات پر زور دیتا کہہ رہا تھا۔
" اور سنو۔ عائشہ کو یہ معلوم نا ہو اسے تمھارے پاس میں نے بیجھا ہے۔ "
" ہاں تھیک ہے۔ " دوسری طرف سے یوسف نے اسے تسلی دی تھی۔
فون بند ہونے کے بعد وہ دوبارہ لاپ ٹاپ کو دیکھنے لگا جہاں ولی کے اکونٹس کھلے تھے اور وہ بلکل صاف تھے۔
عائشہ جلد بازی کر رہی تھی۔ وہ جانتا تھا۔ اب ایک درامہ کیا جانا تھا جو کہ دشمن کو وہ دکھائے گا جو وہ دیکھنا چاہتا تھا۔
□□□
یوسف سکندر اپنے فلیٹ میں موجود تھا۔ لانج میں صوفے پر بیٹھے وہ رف سے حلیے میں تھا۔ ویسے تو شہانہ سکندر کی یاد ہر لمحے ساتھ رہتی تھی مگر آج کچھ زیادہ ہی تھی۔ اسکا دل بے اختیار انکے گلے لگ جانے کو کیا۔
وہ انہی سوچوں میں تھا جب بیل بجی۔ اس وقت کون ہوسکتا وہ سوچتے ہوئے اٹھا اور سٹیک کے بغیر ہی پاوں گھیسٹتا ہوا دروازے تک آیا۔
دروازہ کھلا اور اس وقت جیسے یوسف سکندر کی دعا قبول ہوئی تھی۔
سامنے شہانہ سکندر مسکراتے چہرے اور نم آنکھوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔
" ماما " وہ بے ساختہ بولا۔
" مت کہو مجھے ماں۔ وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں۔ " یوسف نے دراوزہ پکڑ کر خود کو گرنے سے روکا۔
" تو نہیں آئی ہوگی تمہے ماں کی یاد۔ تم نے تو کہا تھا کہ جلد واپس آجاو گے ۔ وہ جلد آج تک نہیں آئی۔ تمھارے باپ نے تمہے سدھرنے کے لیے نکالا تھا ۔ سدھر گئے ہو یا مزید بگڑ گئے ہو۔ دیکھوں تو زرا۔ " وہ بولنے کے ساتھ اسکے فلیٹ کا جائزہ بھی لے رہی تھیں۔ لہجے میں دبی دبی سی خفگی تھی۔
" تمھارا پوچھتے پہلے کچھ پولیس آفیسر آئے تھے۔ اور اس دن وہ لڑکی بھی آئی تھی جسے تم پسند کرتے ہو ۔ کیا ملاقات ہوگئی تمھا ۔۔۔۔۔" الفاظ زبان پر ہی پھنس گئے ۔ آنسووں کا گولہ حلق میں اٹکا اور اگلے ہی پل آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو گرے۔ یوسف انکے گلے لگ کے کھڑا تھا۔
لمحے ایسے ہی سرک گئے۔
شہانہ نے اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیا۔
" کیسے ہو "
" کیسا ہو سکتا ہوں ۔ آپ بتائیں کیسی ہیں۔"
" میں بلکل اچھی نہیں تھی مگر اب ہو گئی ہوں ۔ گھر چلو بیٹا ۔ تمھارے پاپا بھی یہ ہی چاہتے ہیں " شہانہ نے اصل بات کا زکر کیا۔
" ابھی نہیں ۔ ابھی کچھ کام ہے۔ ابھی سدھرنا باقی ہے۔ "
" مگر کب تک ۔ تم کیا کرتے پھر رہے ہو یوسف۔ مجھے بتاو " وہ بے چین سی ہوئیں۔
" آپ فکر نا کریں۔ کوئی غلط کام نہیں کر رہا ہوں۔ " وہ انہیں صوفے پر بیٹھاتے ہوئے بولا
اس کے پاوں کی واضح لرکھڑاہٹ وہ محسوس کر گئی تھیں۔
" کیا ہوا ہے تمہے "
" ایک ایکسیڈنٹ تھا چھوٹا سا " وہ لاپرواہی سے بتانے لگا۔
" چھوٹا سا ہاں تمھارے لیے تو کوئی بات بڑی نہیں ہوتی۔ " وہ خفا ہوئیں۔
" آپ آج بھی مجھ سے خفا ہونگی تو مجھے بہت دکھ ہوگا "
" ہاں میں خفا ہوں تم سے ۔ ایسے کوئی کرتا ہے۔ ایک فون کال تک نہیں۔ کوئی خبر نہیں۔ تم تو جیسے غائب ہو گئے تھے۔ " شہانہ کی ناراضی بر قرار تھی۔
" کچھ چیزوں میں الجھ گیا تھا ۔ ہر وقت مجھے آپ کی یاد آتی رہتی تھی مگر مجبور تھا۔ " وہ جیسے بے بسی سے بولا۔
" جلدی گھر آجاو ۔ میں تھک گئی ہوں انتظار کرتے کرتے۔ اب اکیلے دل نہیں لگتا میرا۔ ایک بہت اچھی لڑکی دیکھ کر تمھاری شادی کروں گی۔ ۔۔لڑکی سے یاد آیا تمھاری دوست مایا جسے تم پسند کرتے تھے اسکے گھر رشتہ لیکر جاوں " وہ بارے مان سے پوچھنے لگی۔
" نہیں۔ ہر گز نہیں۔ میں اس سے تعلق ختم کر چکا ہوں۔ " اور یہ بات اسنے کیسے کہی تھی کوئی اسکے دل سے پوچھتا۔
" کیا مطلب۔ مگر کیوں ۔ وہ تو اچھی لڑکی ہے بہت۔ کیا تم محبت نہیں کرتے اس سے۔" شہانہ الجھن سے پوچھنے لگیں۔
" وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ میں نے اسے پسند نہیں کیا بلکہ محبت کی ہے۔ لیکن جس رشتے میں اعتبار نا ہو وہ قائم نا ہی رکھا جائے تو بہتر ہے "
" کیا اس نے تمھارا اعتبار توڑا ہے "
" اب چھوڑیں ان باتوں کو۔ " وہ جھنجھلایا۔
" اگر اسنے تمھارا اعتبار توڑا ہے تو اسے ایک موقع دو اسے واپس جوڑنے کا۔ میں نے اسکی آنکھوں میں تمھارے لیے محبت دیکھی ہے۔ میں نے تمھاری آنکھوں میں بھی اسکے لیے محبت دیکھی ہے۔ یوسف اگر وہ شرمندہ ہے تو اسے معاف کردو۔ میں نہیں جانتی کہ بات کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے ایسا جان بوجھ کر نا کیا ہو۔ " وہ بڑی آس سے بولیں تھیں۔
" مجھے وقت چاہیے ہوگا۔ " وہ بس اتنا کہہ سکا ۔
شہانہ بھی خاموشی سے اسے دیکھتی رہ گئیں۔
کچھ دیر بعد وہ فلیٹ میں اکیلا بیٹھا تھا۔ شہانہ کی باتوں کو سوچ رہا تھا۔ کیا اسے مایا کو معاف کر دینا چاہیے۔ قصور تو اسکا بھی نہیں تھا۔ غلط فہمی تو اسے بھی ہوئی تھی۔ اسنے جان بوجھ کر تو نہیں کیا مگر اسے یقین کرنا چاہیے تھا ۔ وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی تھی کہ میں اس کے ساتھ کچھ برا کرونگا اور یہاں آکر یوسف سکندر کی ناراضی بڑھ جاتی تھی۔
□□□
" لیکن سر آپ نے اس لڑکی کو چھوڑ کیوں دیا۔ " عمر اس کباڑ بھری جگہ سے نکلتے آگے بڑھتے ہوئی داود سے پوچھ رہا تھا۔ دو دن پہلے ہی یہاں قید کی گئی لڑکی بھاگ گئی تھی۔
" تم نے سنا نہیں وہ مجھے یوسف کہہ کر بلا رہی تھی۔ وہ غلط فہمی کا شکار ہے ۔ اور اسکے انداز میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں کا گہرا تعلق ہے۔ "
عمر سمجھ کر سر ہلانے لگا۔
" بس اس لڑکی پر نظر رکھو۔ اسکے خلاف اگر ساری چالیں ناکام ہو گئیں تو یہ چال ضرور کامیاب ہو گئی۔ اگر یوسف واقعی اس لڑکی کو چاہتا ہے تو یہ لڑکی اسکی کمزوری ہوگی اور تم جانتے ہو داود کو دوسروں کی کمزوری سے کھیلنا پسند ہے "
ایک سگریٹ ہونٹوں پر لگاتے وہ کش لگاتا بولا۔
" سر وہ ویڈیو جو یوسف کی تھی۔ اسکا کیا کریں گے "
" ابھی صبر کرو ۔ ہر چیز صحیح وقت میں کام آئے گی ۔ " دھوئیں کا مرغولہ ہوا میں چھوڑتا آگے بڑھ گیا ۔
عمر بھی اسکے پیچھے لپکا۔
□□□
موسی کے فلیٹ کے ٹیرس پر وہ دونوں کھڑے تھے۔ ہاتھوں میں کافی کا مگ تھامے وہ باتوں میں مصروف تھے۔
" پیشی والے دن تم نہیں آو گے۔ جو فائل تم لائے ہو۔ اسکا پولیس یا عدالت کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ " موسی کہہ رہا تھا۔
" داود بھی خاموشی سے نہیں بیٹھے گا۔ وہ جانتا ہے کہ ثبوت ہمارے پاس ہیں۔ وہ کچھ تو کرے گا روکنے کے لیے۔ " یوسف کے لہجے میں دور اندیشی تھی۔
" ایسا ہی ہوگا ۔ مگر تم اس سے سنبھل کر رہنا۔ اور پھر اس دن کے بعد ہمارا تعلق ختم ہو جائے گا۔ عین ممکن ہے وہ تمہے ٹریس کرے گا ۔ تمھاری فون کال ریکارڈ ہونگی۔ اب وہ وہی دیکھے گا جو ہم دیکھائیں گے۔ "
آج ہی انہیں سارا پلین ڈسکس کرنا تھا۔
" مگر ہم رابطہ کیسے کریں گے۔ " یوسف نے سوال کیا۔
" تم رابطہ نہیں کرو گے ۔ رابطہ میں ہی کرونگا۔ تمہے بس اس کو اعتماد میں لیکر اسکے آفس تک رسائی حاصل کرو گے۔ اپنی ویڈیو اسکی پہنچ سے دور کرو گے۔ اور جتنے ہو سکے ثبوت حاصل کرو گے۔ "
" کیا وہ مجھ پر یقین کر لیگا " وہ تمسخر سا ہنسا ۔
" ظاہر ہے نہیں۔ اسلیے تو یہ ڈرامہ کر رہے ہیں۔ تم اسکے لیے اہم ہو۔ تمھارے ڈیڈ اسکے بزنس پاڑٹنرز میں سے ایک ہیں۔ مجھ سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسے بس یہ یقین دلاو کہ اب تم میرے نہیں اسکے ساتھ ہو۔ اور یاد رکھنا یہ سب بہت احتیاط سے ہو۔ " آخر میں وہ تنبیہ کر گیا۔
" ہوں " یوسف نے کافی کا آخری ٹھنڈا گھونٹ اندر انڈیلا۔
" عالی کا کیا بنا۔ وہ تو غائب ہو گیا ہے۔"
" ہوا نہیں کیا گیا ہے۔ وہ اسکا راز عائشہ کے سامنے کھول چکا تھا۔ وہ داود کے لیے خطرے بن چکا تھا۔ اسے راستے سے ہٹنا ہی تھا۔ " موسی کے لہجے میں افسوس تھا۔
" مجھے شدت سے انتظار ہے اس دن کا جب داود حمدانی اپنے تمام تر گناہوں کی سزا پائے گا۔ " دور آسمان میں دیکھتے وہ داود کے لیے لہجے میں نفرت لیکر بولا تھا۔
□□□
" تمہے شادی کر لینی چاہیے اب۔ " وہ ٹیرس پر بیٹھا تھا۔ سامنے کھلے لاپ ٹاپ پر خبر چل رہی تھی جس میں ایک سمندری راستے سے سمگلنگ کرتے گینگ کے پکڑے جانے کی تفصیل بتائی جا رہی تھی۔ جب اچانک انم پیچھے سے آکر بولی۔
" مجھے کیا کرنا اور کیا نہیں ۔ یہ تم سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ " موسی لاپ ٹاپ پر ہی نظریں گاڑھے ہوئے بولا۔
انم بھی وہیں دیکھنے لگی۔
" تو بل آخر ہم پہلی کامیابی کی سیڑھی چڑھ چکے ہیں ۔ " وہ جوش سے بولی۔
" ہاں پہلی سیڑھی اور جلد ہی داود اپنے انجام کو پہنچے گا۔ "
" اچھا میں کیا کہہ رہی تھی۔ یوسف نے مجھ سے کہا تھا کہ تم سے بات کروں ۔"
اب کی بار موسی متوجہ ہوکر اسے دیکھنے لگا۔
" کیا کہا اس نے "
" یہ ہی کہ تم ایک بار سیمل سے مل لو۔ تم جیسا سوچتے ہو ویسا نہیں ہے۔ صرف تم ہی نہیں سیمل بھی تم سے محبت کرتی ہے ۔ تم شادی کرلو ۔" وہ اسے کنونس کرتے بولی۔
موسی نے جواب نہیں دیا ۔ بس سر جھکائے لب کچکچاتا رہا۔
" تم سوچ کیا رہے ہو موسی ۔ خود کو اذیت مت دو۔ داود کے چکر میں اس قدر الجھ گئے ہو کہ اپنے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ۔اپنے بارے میں بھی سوچوں۔ اپنی زندگی کا سوچوں۔ داود اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اس کے بعد تمھارے آگے ایک زندگی پڑھی ہے۔ تم اس طرح کیسے زندگی گزار سکتے ہو۔"
" کون سی زندگی۔ وہ زندگی جس کا چار روز بعد علم نہیں کہ رہے گی یا نہیں۔ " وہ تلخی سے بولا۔
" چار روز بعد کیا ہوگا " وہ جان بوجھ کر انجان بنی۔
موسی نے کنپٹی مسلی۔
" کچھ نہیں۔ " یہ تو ظاہر تھا وہ اپنی تکلیفوں کا اظہار نہیں کرے گا۔
اگلے ہی پل وہ لاپ ٹاپ بند کرتا سیڑھیاں اتر گیا ۔
□□□
وہ اپنے آفس میں بیٹھا تھا ۔ جب دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔
اس نے مصروف سا سر اٹھا کر اوپر دیکھا مگر نیچے نہیں دیکھ پایا۔
سامنے کمال صاحب کھڑے تھے۔ جو چیز اسے چونکا گئی وہ یہ کہ کمال صاحب کی آنکھوں میں ندامت اور التجاء تھی۔
" آپ " وہ بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔
" مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے تم سے۔ "
" میں سن رہا ہوں " نا چاہتے ہوئے بھی وہ لہجا تلخ نہیں کر پایا۔
" میں آج یہاں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ میں اپنے اس رویے کی معافی مانگنے آیا ہوں جو اس روز تمھارے ساتھ کیا۔ میں معافی مانگنے آیا ہوں اس زلت کی جو میں نے اس روز تمہے دی تھی۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔" وہ ندامت بھرے لہجے میں کہہ رہے تھے اور موسی حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
" میں غلطی پر تھا۔ مجھے تمھارا یقین کرنا چاہیے تھا مگر اس روز حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ بس جو صحیح لگا وہ کیا۔"
" مجھے اب ان باتوں سے فرق نہیں پڑھتا۔ " وہ سپاٹ سے لہجے میں بولا۔
" مگر مجھے فرق پڑھتا ہے۔ میں اب اس بوجھ کے سہارے دنیا سے نہیں جانا چاہتا ۔ میں اپنی بیٹی کو مزید ازیت نہیں دے سکتا۔ میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ مجھے معاف کردو اور سیمل کو اپنا لو۔ "
موسی کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گا۔
" سیمل کی تو شادی ہو گئی تھی۔ "
" ہوئی تھی۔ اسکا شوہر ایک کار ایکسیڈنٹ میں مارا گیا۔ اب اگر اسکے لائق کوئی ہے تو وہ تم ہو۔ میں بہت آس اور امید لیکر تمھارے پاس آیا ہوں۔ آج میں بہت ہمت کر کے تمھارے پاس آیا ہوں۔ " وہ ہاتھ جوڑنے لگے تو موسی نے انکے ہاتھ پکڑ لیے۔
" آپ نے اس وقت جو کیا ایک باپ کو وہی کرنا چاہیے تھا۔ مجھے کوئی گلہ نہیں ہے آپ سے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی ہونا تھا۔ اس طرح زندگی کے بہت سے سبق حاصل ہوئے ہیں مجھے۔ "
" مطلب تم نے مجھے معاف کردیا۔ " وہ امید سے بولے۔
" آپ میرے بڑے ہیں۔ مجھے کوئی حق نہیں ہے آپ سے ناراض ہونے کا۔ "
" کیا تم مجھ پر ایک احسان کروگے۔ میری بیٹی سے شادی کرلو۔
" مجھے منظور ہے " انم کی باتیں وہ ساری راتیں سوچتا رہا تھا اور اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ سیمل کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب چاہے موت بھی آڑے آئے۔ اسے سیمل کے بنا زندگی کا تصور نہیں کرنا تھا۔
" تم سچ کہہ رہے ہو ۔ میں آج ہی ساری تیاری کرواتا ہوں۔ کل تمھارا اور سیمل کا نکاح ہوگا۔ تمہے کوئی اعتراض تو نہیں۔" وہ بغور اسکا چہرا دیکھتے بولے۔
" مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے "
" میں اور سیمل تمھارا انتظار کریں گے۔ " وہ مسکراکر اٹھے اور ہاتھ آگے بڑھایا۔
جسے موسی نے تھام لیا۔
وہ باہر تک انہیں چھوڑنے آیا۔
□□□
" کل تمھارا نکاح ہے موسی کے ساتھ۔ آج میری بات ہوئی اس سے ۔ وہ راضی ہے۔ " ابا کے الفاظ زندگی بن کر اس پر برسے تھے۔
" کیا واقعی۔" وہ خوشگوار حیرت سے بولی۔
" ہاں بیٹا۔ " کمال صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
" ابا آپ کا بہت بہت شکریہ۔ " وہ انکے گلے لگ گئی۔ کچھ آنسو پلکوں پر ٹھہرے۔۔ خوشی کے آنسو۔ جو چاہا وہ مل جانے کے آنسو۔
" ابا میں چاہتی ہوں میرا اور موسی کا نکاح ہمارے پشاور والے گھر میں ہو۔ وہ گھر جہاں ہم پہلی بار ملے تھے۔ میں اپنی باقی زندگی اس گھر میں گزارنا چاہتی ہوں۔" وہ فرمائش کرتے ہوئے بولی۔
" ضرور ۔ جیسا تم چاہتی ہو۔ ابھی تیاری بھی کرنی ہے۔ " ابا نے حامہ بھرلی۔
وہ خوشی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔
" سنی سنی سنی ۔۔۔۔ آج بل آخر مجھے وہ مل گیا جو میں نے چاہا تھا۔ میں آج بہت خوش ہوں سنی۔ تم اداس کیوں ہو۔ میرے لیے خوش نہیں ہو۔ " وہ اسکا اترا ہوا چہرا دیکھ کر بولی۔
" تم پھر چلی جاو گی مجھے چھوڑ کر " وہ اداسی سے بولا۔
" نہیں ۔ تم بھی میرے ساتھ چلو گے۔ بلکہ ہم سب چلیں گے۔ اب ہم سب وہیں پشاور والے گھر میں رہیں گے۔ " وہ اس کا ہاتھ پکڑ کہنے لگی۔
" لیکن ابا "
" ابا ریٹائرڈ ہونے والے ہیں۔ اسکے بعد ہم سب مل کر وہاں رہیں گے۔ " سنی کے ماتھے پر بوسہ دیتے بولی تو وہ چہک سا گیا۔
" اب ہم ساتھ رہیں گے سیمو۔ ابا کہتے ہیں نا تمہے میرا اور مجھے تمھاری حفاظت کرنی ہے "
" ہاں بلکل۔ " وہ پیار سے اسکا گال سہلانے لگی۔ کانچ جیسی سرمائی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔
□□□
وہ سی گرین کلر کی فراک میں دلہن جیسی تیار ہوئی کمرے میں بیٹھی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں تیزی سے وقت کو کاٹ رہیں تھیں۔ مایا اس کے پاس کھڑی مسکراکر اسے دیکھ رہی تھی۔
" دیکھو ۔ وقت کتنا مہربان ہوگیا ہے۔ تمھاری محبت تمہے مل ہی گئی ۔ " وہ واقعی اسکے لیے خوش تھی۔
" کیا یوسف نے تمہے اب تک معاف نہیں کیا "
" شاید میری غلطی ہی ناقابل معافی تھی۔ اسے اس بات کا دکھ نہیں ہے کہ میں نے اس پر الزام لگایا۔ اس بات کا ہے کہ میں نے اس پر یقین نہیں کیا۔" مایا اسکے پاس بیٹھتے یاسیست سے بولی۔
اتنے میں ابا اور سنی مولوی صاحب کے ساتھ اندر آئے۔
ابا نے اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
سنی اسکے پچھلی طرف جاکر بیٹھ گیا اور پیچھے سے اسکے گلے میں ہاتھ ڈال لیے۔
مولوی صاح نکاح کے بول بول رہے تھے۔
" قبول ہے" ( وہ گھر سے رات کی تاریکی میں نکل گئی تھی ۔
" قبول ہے " ( وہ ناکام اور مایوس واپس لوٹی تھی۔ موسی جہانگیر اسکی قسمت میں نہیں تھا )
" قبول ہے " ( موسی جہانگیر اسکی قسمت میں تھا مگر ویسے نہیں جو طریقہ اسنے اپنایا تھا۔)
ایک آنسو ٹوٹ کت اسکے گال پر بہا۔ سب خواب جیسا لگا۔ مایا اسکے گلے لگی۔ ابا سے وہ اٹھ کر گلے ملی۔ سب پہلے بھی ہو چکا تھا لیکن دونوں بار زمین آسمان کا فرق تھا۔
ابا مولوی صاحب کے ساتھ باہر چلے گئے۔ سنی بھی ساتھ ہی چلا گیا۔
" سیمو ۔۔ سیمو " کچھ دیر بعد وہ پریشان سا اندر آیا۔
" سیمو ۔ موسی بھائی نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔وہ کہیں چلے گئے ہیں "
جہاں مایا پر حیرت کا وار ہوا وہاں سیمل کے چہرے پر موت کا سناٹا اترا۔
مگر ۔ لیکن کیوں۔ کل تک تو سب تھیک تھا۔ موسی اور اسکی شادی ہونے والی تھی۔
وہ اٹھی اور بے ساختہ باہر کو بھاگی۔
" ابا " لب بس اتنا بول سکے ۔
ابا بھی پریشان اور دم بخود کھڑے تھے۔
" ابا سنی کیا کہہ رہا ہے " وہ حلق کے بل چلائی۔
" وہ سچ کہہ رہا ہے " ابا نے تصدیق کی۔
بے یقینی موت کی سی بے یقینی۔
وہ اندر اپنے کمرے میں آئی۔ موسی کی تھیک کی گئی پینٹنگ اٹھا کر زور سے پٹخ دی۔ پھر باہر لان کی طرف بھاگی۔ مایا اسے روکنے کے لیے پیچھے کو بھاگی۔
" سب برباد ہو گیا۔ اسنے کیوں کیا میرے ساتھ آخر ایسا ۔ کیوں مجھے میرے ارمانوں کے اس قدر پاس لاکر وہ خود پیچھے ہٹ گیا۔ " وہ لان میں لگے درخت جو کہ کئی سال پہلے موسی نے لگایا تھا کہ ساتھ بیٹھی زور و قطار چیختی دہائیاں دے رہی تھیں۔ مایا اسے سنبھال رہی تھی مگر وہ صرف چیختی ہی جاتی تھی۔
□□□