حمزہ الماری میں گھسا کپڑے نکال رہا تھا۔ آج کسی کولیگ کی طرف سے پاڑتی دی گئی تھی شادی کی خوشی میں۔ اسنے بلیو کلر کا سوٹ نکالا اور جب واپس مڑا تو بیڈ کے کنارے ٹکی عائشہ نظر آئی۔
" ابھی تک تیار نہیں ہوئیں۔؟ " وہ اسے سادہ سفید کپڑوں میں دیکھ کر بولا۔ وہ دھلے منہ کے ساتھ بلکل عام حلیے میں بیٹھی تھی۔
" میں کہیں نہیں جا رہی ۔ " اسکے لہجے میں واضح سرد مہری تھی۔حمزہ اسکے پاس آیا اور اپنے ہاتھ میں اسکا ہاتھ لیا۔
" یوں بچوں کی طرح بے وجہ ضد کرنا ضروری ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کر لیتی کہ ہماری شادی ہو چکی ہے۔ " وہ اسکا ہاتھ سہلاتے ہوئے اسے باور کرا رہا تھا۔
" تم بے شک ساری زندگی اس حقیقت کے ساتھ جیتے رہو ۔ مگر میں خود پر ظلم نہیں کر سکتی ہوں۔ " وہ حمزہ کی آنکھوں میں دیکھ کہہ رہی تھی۔
" شچ یہ ہے کہ یہ شادی میری مرضی کے خلاف ہوئی ہے۔ ہمیشہ میں ہی کیوں ۔ ایک عورت ہی کیوں عزت کی خاطر قربانیاں دیتی رہے۔ پہلے پوری فیملی کی خاطر میں نے داود کو چھوڑ دیا۔ پھر ماما کے ایلیکشنز کی وجہ سے روحیل سے بھی منہ موڑ لیا۔
لیکن اب نہیں۔ اب مجھے کسی کی فکر نہیں ہے۔ اب میں خود کے لیے جینا چاہتی ہوں۔ اپنی مرضی سے۔ " وہ بولی تو لہجے میں کچھ کرنے کی ٹھان تھی۔
" کیا چاہتی ہو تم۔ کیا میری محبت نے تمہے اپنا دل پھیرنے کے لیے قائل نہیں کیا۔ کیا تم حمزہ شجاعت کی خود کے لیے محبت محسوس نہیں کرتی۔ " وہ پورے جزب سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
" تمھاری محبت کی قدر کرتی ہوں۔ " وہ ایک پل کو نظریں جھکا گئی۔ ۔
" مگر میں خود کو کبھی بھی تمھاری محبت کا قائل نہیں کر سکتی۔ تمھارے لیے شاید کوئی اور بنی ہو مگر میں تمھارے لیے نہیں بنی۔ " وہ جیسے حمزہ کو کچھ سمجھانا چاہ رہی تھی۔
حمزہ نے گہری سانس لی اور جب بولا تو لہجے میں شکوہ تھا۔
" تم نے اپنی مرضی سے داود سے رشتہ ٹوڑا ۔ روحیل کو بھی چھوڑ کر مجھ سے شادی کی۔ اب تم چاہتی کیا ہو۔ "
" طلاق "
وہ لفظ تھے کہ چابک حمزہ بلکل ششدر سا رہ گیا۔
" کیا مطلب ہے تمھارا" بامشکل اسکے حلق سے نکلا۔
" داود کا فراڈ ایکسپوز ہونے کے بعد میرے اندر ہر قریبی چاہنے والے کے لیے شک بھر گیا۔ تمھاری طرح اسنے بھی مجھ سے محبت کے دعوے کیے تھے مگر وہ سب جھوٹے تھے۔ مجھے اب کسی پر اعتبار نہیں رہا۔ لگتا ہے سب کسی نا کسی فائدے یا مقصد کے تحت میرے ساتھ ہیں۔ تمھارے بارے میں بھی میری سوچ یہ ہی ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے ایک روحیل ہی ہے جو مجھ سے بے لوث کسی غرض کے محبت کرتا ہے۔ " وہ بولتے بولتے سانس لینے کو رکی اور حمزہ اسکی سانس تو پہلے ہی رکی ہوئی تھی۔
" تم جیسا خود کے لیے سوچتی ہو وہ ٹھیک ہوگا تمھاری نظر میں مگر ایک بات باور کردوں تم میرے بارے میں بلکل غلط سوچتی ہو۔ اور میرا ضمیر اور میری محبت اس بات کو گوارہ نہیں کرتی کہ میں تمھاری مرضی کے خلاف کچھ کروں۔ تم اگر یہ ہی چاہتی ہو تو ٹھیک ہے۔ مجھے تمھاری ہر بات قبول ہے۔ " وہ بولا تو لہجا شکست سے بھر پور تھا۔ وہ جو تقریبا ہر مقدمہ جیت جاتا تھا آج محبت کے کٹھیرے میں کھڑا سزا سننے کے انتظار میں تھا۔
" ہمارے لیے یہ ہی بہتر ہوگا۔ " وہ سپاٹ سے لہجے میں کہہ کر اٹھ بیٹھی۔
" میں پھر کہہ رہی ہوں تم مجھ سے بہتر ڈیسروز کرتے ہو مگر میں شاید تمہے نہیں کرتی۔ ہمیں الگ ہو ہی جانا چاہیے۔ یہ رشتہ نا تمھارے سکون کا باعث بنے گا نا میرے۔ " ہکلے التجائیہ لہجے میں کہتی وہ ڈریسنگ کے آگے آکر کھڑی ہوئی ۔ برش اٹھایا اور گھنگرایالے بالوں میں پھیرنے لگی۔
حمزہ اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ فلحال اس نے خاموش ہونا مناسب سمجھا کہ اس وقت عائشہ جزباتی ہو رہی تھی۔ وہ اپنی محبت سے عائشہ کو اس کا فیصلہ بدلنے پر قائل کر لیگا مگر عائشہ صبحانی نے خود کے لیے حتمی فیصلہ کیا تھا اور ظالمانہ بھی۔
□□□
" میری چیزیں کہاں ہے۔ " یوسف نے کمرے میں گھستی زینت سے سوال کیا تو وہ مسکراکر ڈریسنگ کی دراز تک آئی اور وہاں سے اسکا موبائل اور والٹ نکال کر اسے تھمایا۔
زینت کے گھر میں یہ اسکا تیسرا دن تھا۔ ٹانگ کی چوٹ کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔ دوائیوں کے زیر اثر وہ دو دن تک نیم بہوشی کی حالت میں رہا تھا۔
آج کچھ مکمل ہوش میں آیا تو فورا اپنی چیزوں کا مطالبہ کیا۔
دونوں چیزیں پکڑ کر انہیں ٹٹولہ کہ کوئی گربر تو نہیں۔ کچھ نہیں ملا۔ وہ اسکی ہی چیزیں تھیں بس موبائل پر ہلکا سا سکریچ تھا۔
اس نے جلدی سے موبائل اون کیا۔
بہت سے میسیجز اور کالز اسکے منتظر تھے اور ایک ہی شخص کے۔
فورا موسی کا نمبر ڈائل کیا ۔
پہلی گھنٹی ۔ دوسری گھنٹی اور پھر تیسری گھنٹی پر فون اٹھالیا گیا۔ ناجانے کیوں یوسف کا دل دھڑکا۔
" بہت شکریہ فون کرنے کا ۔ " دوسری جانب سے موسی کی طنزیہ آواز سپیکر میں گونجی۔
" کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم غائب کہاں تھا۔ اوہ معاف کرنا مگر شاید نا مجھے پوچھنے کا حق ہے نا تمھے بتانے کا ۔ ورنہ تم بہت پہلے مجھے بتا دیتے کہ تم عائشہ کے لیے کام کر رہے ہو۔ مجھے پروبلم اس بات سے نہیں ہے کہ تم کس کے لیے کام کرو مگر کم سے کم تم میرے علم میں تو لا سکتے تھے نا۔ یوں ریئلی ڈساپوئنٹ می۔ " وہ اسکی سنے بغیر مسلسل اسے سنائے جارہا تھا۔
" اور ہاں اس وقت جہاں بھی ہو وہیں رہنا ۔ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔ " ٹھک سے فون بند ہوا اور وہ ہاتھ میں ہی لیے بیٹھا رہ گیا۔
" کوئی اور نہیں موسی کو تو اسکا یقین کرنا چاہیے تھا نا۔ وہ تو دوست تھے۔ " تلخی سے سوچتے اسنے کان پر ہاتھ ڈالا اور زور سے جھٹکا دیا تو کان کی بالی سرخ قطروں سمیت ہاتھ میں آئی۔ پھر باکی بھی کھول کر نکال دیں۔ ہونٹ کی بالی بھی اتارکر کان کی بالیوں سمیت نیچے فرش پر پھینک دیں۔ زبان کا سٹڈ البتہ نہیں اتارا ۔
" اور ہاں اس وقت جہاں بھی ہو وہیں رہنا ۔ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔" اسکے زہن میں بار بار ان الفاظ کی بازگشت چل رہی تھی۔
دروازے کے باہر کھڑی زینت نے سارا کچھ دیکھا اور مسکراکر آگے بڑھ گئی۔ اسکی مسکراہٹ عام معلوم نا ہوتی تھی۔
□□□
چار سال پہلے مایا نے جب اس گھر کی بیل بجائی تھی تو وہ اس گھر میں رہنے والے کے لیے کچھ اور جزبات رکھتی تھی اور آج کچھ اور۔
ایک ہفتہ پہلے وہ کورٹ میں دیک چکی تھی اور پہلی نظر میں پہچان نا سکی تھی۔ اس وقت اسکی نظروں میں صرف اور صرف اسکے لیے نفرت تھی ۔
مگر آج پچھتاوے اور شرمندگی نے نفرت کی جگہ لے لی تھی۔
دروازہ شہانہ سکندر نے کھولا۔ مایا کو وہ پہلے کی نسبت کمزور اور ڈل نظر آئیں۔
" اندر آجاو " وہ کہہ کر پلٹ گئیں تو مایا انکے پیچھے اندر چلی آئی۔
" اگر تم بھی دوسروں کی طرح یہ پوچھنے آئی ہو کہ یوسف کہاں ہے تاکہ اس کی کسی غلطی کی سزا دے سکو تو سن لو دو سال سے میں نے اسکی شکل نہیں دیکھی۔ وہ کہہ کر گیا تھا کہ واپس آ جائے گا اور آج تک اسکی کوئی خبر نہیں ہے۔ اور اگر تم یہ بتانے آئی ہو کہ میرا بیٹا کہاں ہے تو مجھے مزید انتظار مت کرواو ۔ " بولتے ہوئے شہانہ کی آنکھوں میں آنسو آکر ٹک گئے۔
مایا الجھن سے انہے دیکھتی رہ گئی۔
" کیا مطب کہاں گیا وہ۔ "
" وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ تم نہیں جانتی کیا۔ کیا وہ تمھارے پاس نہیں آیا تھا۔ کیا وہ تم سے نہیں ملا تھا۔ " شہانہ کی بے چینی بڑھی۔
" نہیں مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ مگر وہ گھر کیوں چھوڑ گیا تھا۔ " مایا نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تو شہانہ نے اسے ساری تفصیل بتا دی۔
" شاید میں جانتی ہوں وہ کہاں ہوگا۔ آپ جلد ہی اپنے بیٹے سے ملیں گیں۔ " گھر سے نکلتے ہوئے اس نے شہانہ سے تسلی آمیز لہجے میں کہا اور زہن میں دھیڑوں ممکنات لیکر گیٹ پار کر گئی۔
□□□
وہ آفس سے نکل کر مین روڈ پر آئی ہی تھی کہ سگنل پر اسے مایا کھڑی نظر آئی۔ مایا الجھن اور تناو چہرے کے ساتھ شاید کسی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس فیئر ویل پارٹی جب یوسف نے مایا سے دل کی بات کی تھی کہ بعد وہ اب اسے دیکھ رہی تھی۔ اس روز کے بعد سے دونوں ہی غائب ہو گئے تھے۔ وقت نے یوسف سے بھی ملوادیا تھا ۔ موسی سے ملوایا مگر وہ موقع وہ اپنی
بے وقوفی کی وجہ سے کھو بیٹھی۔
مایا بھی اسے دیکھ چکی تھی اور سیمل کے جانے سے پہلے وہ اسکے قریب آئی۔
" تمہے اتنے عرصے بعد دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ " وہ ساتھ ہی اسکے گلے لگ گئی۔
" مجھے لگتا تھا وقت اور قسمت ہمیشہ دوسروں کو مجھ سے بچھڑانے کا کام ہی کرتے ہیں مگر نہیں شاید یہ ملانے کا کام بھی کرتے ہیں مگر ازیت دے کر۔ " مایا کو وہ پہلے سے بہت چینج لگی۔ اب چہرے پر رونک اور آنکھوں میں چمک نظر نا آتی تھی۔
" تم کہاں تھی اتنا عرصہ۔ تمھارے گھر پتا کیا تو معلوم ہوا شادی کے دن کہیں چلیں گئیں ۔ تمھارے گھر والوں نے کس قدر تلاش کیا تمہے۔ " سیمل کا انداز شکایتی ہوا۔
" میں جان بوجھ کر کہیں نہیں گئی تھی۔ " مایا نے کہا۔
" پھر " سیمل کی نظروں میں سوال ابھرا۔
" ہمیں کہیں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔" کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں ایک آئسکریم پارلر میں آمنے سامنے بیٹھیں تھیں اور مایا اسے ساری تفصیل بتا رہی تھی۔
" آج میں اسکے گھر گئی تھی تاکہ اپنی غلطی کا ازالہ کر سکوں مگر وہ تو دو سال پہلے ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ "
" ہاں میں جانتی ہوں۔ " سیمل گہری سانس لیکر بولی۔
" تم جانتی ہو وہ اس وقت کہاں ہوگا۔ " مایا نے امید سے پوچھا۔
" نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا تھا مگر وہ ٹال گیا ۔ شاید وہ نہیں بتانا چاہتا تھا۔ "
مایا کچھ کہنے لگی مگر اسکا موبائل کال آنے کی آواز دینے لگا۔
" جی سروت ۔ " فون کان سے لگاتے ہوئے بولی۔
" جی ٹھیک ہے۔ " کچھ دیر بعد بول کر فون بند کر دیا۔
" تم بتاو ۔ تمھاری زندگی میں کیا ہوتا رہا اتنا عرصہ " اب وہ سیمل سے دریافت کر رہی تھی۔
" بہت کچھ کھویا بہت کچھ پایا۔ " ساتھ ہی اپنی خالی انگلی کو دیکھا۔
" وہ میرے سامنے تھا اس روز ۔ مگر میں اسکو مخاطب نا کر سکی۔ میرے حواس جیسے کام کرنا بند کر گئے ۔ دروازہ ایک لڑکی نے کھولا ۔ اسکی گود میں بچی تھی جو غالبا بیمار تھی اور وہ موسی سے اسکا زکر کر رہی تھی۔ اور جانتی ہو میں یہ سوچ کر یہ خیال۔کر کہ وہ اسکی بیوی ہے اپنی زندگی اسکے ہاتھ میں تھما کر آ گئی۔ کبھی کبھی تو یقین نہیں ہوتا میں ایسی جلد بازی اور بے وقوفی کیسے کر سکتی ہوں۔ قسمت نے ہمیں ملایا تھا۔ وقت نے ہمیں موقع دیا تھا اور میں وہ ہوں جس نے اس موقع کو خود ٹنگ مار دی۔ " آنسو ابل کر اسکے رخساروں پر بہہ گئے۔
" اور پھر وقت اور قسمت اپنا بدلا لیے بغیر کہاں رہتے ہیں۔ وقت نے مجھ سے آخر کار بدلہ لے ہی لیا۔ نا میرے لیے آر چھوڑا نا پار۔ " وہ سانس لینے کو رکی جسے لینے میں تکلیف آرہی تھی۔
" ہم دونوں کا معاملہ ایک سا ہے۔ دونوں ہی غلط فہمیوں کا شکار ہوکر آج خود کے ساتھ بہت ظلم کر چکے ہیں۔ " مایا بولی تو انداز سرسری اور سپاٹ تھا۔
" مگر ہم کوشش کریں تو ہو سکتا ہے وقت ایک بار ہمیں اور موقع دے۔ اپنی غلطی سدھارنے کا۔ " اب کی مرتبہ وہ پر امید ہوئی
" میں اپنی ساری کشتیاں جلا چکی ہوں میرے پاس اب کچھ نہیں بچا ہے "
سیمل انگیوں سے کنپٹیاں مسلیں۔ زہن بار بار ماوف ہوتا جاتا تھا۔
" مایوسی اور نا امیدی کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس بات کا ادراک میں اچھی طرح کر چکی ہوں۔ میں بھی ہمیشہ اپنی زات کو لیکر بہت کمپلکس کا شکار رہی ہوں اور اب میں نے یہ جان لیا یے کہ ہمارے پہلے سے پہلے امید چھوڑنے یا غلط امیدیں وابستہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ " مایا کا انداز سمجھانے والا تھا۔ سروت کی باتوں نے اس پر بہت اثر ڈالا تھا۔
" اور میں جس سیمل کو جانتی ہوں وہ ہار تو نہیں مانتی تھی۔ تم ہار کیسے مان سکتی ہو ۔ صرف اتنی سی دیر میں۔ نہیں تمہے کوشش کرنی ہے۔ قسمت سے لر کر اسے حاصل کرنا ہے جو تم چاہتی ہو اور سب سے زیادہ ضروری ہے تم خود کو مایوسی اور ناامیدی سے دور رکھو ۔ " مایا نے سیمل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسکی پشت آہستہ سے تھپکی۔ سیمل ہلکا سا مسکرائی۔
" جب مجھے یہ غلط فہمی ہوئی کہ موسی نے شادی کر لی ہے تو اور بہت سے احساسات کے ساتھ میرے دل میں ایک یہ احساس بھی اٹھا کہ اس نے ایسا کر کے بہت اچھا کیا۔ کہیں میری بری قسمت اسے کوئی نقصان نا دے۔ ہر روز اسے پانے کی دل میں اٹھتی خواہش کو یہ کہہ کر سلا دیتی ہوں کہ کہیں اسے حاصل کرنے سے پہلے ہی نا کھو دوں ۔ میں اسے پانا بھی چاہتی ہوں اور ڈرتی بھی ہوں کہ کہیں ہمیشہ کے لیے کھونا دوں۔" سیمل نے اپنے اندیشے اور ڈر مایا کے سامنے رکھے۔
" اگر وہ اب کی بار مجھے چھوڑ کر گیا تو میں برداشت نہیں کر سکوں گی۔ ہاں البتہ ایک خوش فہمی کے سہارے ساری زندگی تو گزار سکتی ہوں۔ "
آخر میں وہ ہلکا سا ہنسی۔
" ایک گھر سے بھاگی لڑکی سے کون تعلق رکھنا چاہے گا ویسے بھی " ابکی بار ہنسی میں طنز تھا۔
" تم غلط سوچتی ہو۔ تمھاری وجہ سے کوئی تمہے چھوڑ کر نہیں جاتا۔ جو کچھ ہوتا ہے یا ہو رہا ہے اس میں تمھارا کوئی قاصور نہیں ہے۔ تم خود کو قصور وار نا ٹھہراو۔ اس وجہ سے تم خود کو تکلیف نا دو۔ اور یہ بھی پہلے سے پہلے نا امیدی ہی کی ایک قسم ہے۔ تم آخر کیوں ایسا سوچتی ہو۔ " مایا کو اب اسکی باتیں غصہ دلا رہی تھیں
" میں کیسے یہ بات نا سوچوں۔ تم نہیں جانتی کیسے سب لوگ مجھے چھوڑ کر جاتے چلے گئے۔ " آنسووں سے آواز پٹھی تھی۔ مایا کچھ نہیں بولی بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔
"تو تمہے کچھ لوگ ملے بھی تو ہیں۔ تم منفی چیزیں تو زہن پر سوار کر رہی ہو جو مثبت ہو رہا ہے اسے بھی تو سوچو۔"
" میرا شوہر شادی کے ایک ماہ بعد مر گیا ۔ اسکا قصور وار مجھے ٹھرایا گیا۔ میں کیسے خود کو مثبت سوچ پر قائل کر سکتی ہوں " وہ بے بسی سے بولی۔
" ہوسکتا ہے کہ اسکی زندگی ہی اتنی ہو۔ ہو سکتا ہے تم دونوں کا ساتھ ہی اتنا ہو۔ تمھاری آدھی تکلیف تب ختم ہو جائے گی جب تم یہ سوچ لو کہ کسی بھی واقعے کے ہونے میں تمھارا کوئی قصور نہیں جب تک تم نے ارادہ نا کیا ہو۔ مجھے بتاو۔ کیا تم چاہتی تھی تمھارا کزن مر جائے۔ کیا تم چاہتی تھی تمھارے کزن پر الزام لگا کر اسے گھر سے نکال دیا جائے۔ تم نے کبھی کسی کے بارے میں برا سوچا ہے کیا پھر کیوں خود کو موردالزام ٹھہرا رہی ہو اور وہ بھی ایسے کہ اپنے ہاتھوں سے زندگی تباہ کرلی۔ " مایا بولتے ہوئے خود کے بارے میں سب جیسے بھول گئی ۔ یاد رہی تو بس سیمل اور اس کی پریشانی۔
" لیکن یہ لوگ ۔ یہ لوگ آخر طعنے دینے سے کیوں نہیں رکتے ۔۔ تائی امی ہی نہیں اب تو ساری سوسائٹی طعنے دیتی رہتی ہے۔ جانتی ہو کیا کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ماں کو مارا اور پھر دوسری ماں کو بھی مار دیا۔ تم بتاو میں ایسا کر سکتی ہوں۔ گھر سے بھاگی ہوئی اور شوہر کی قاتل۔ " بولتے ہوئے آنسو گلے میں اٹکے تو ہچکیاں لیکر خود کو نارمل کیا۔
" میں انسان ہوں مایا۔ اور انسان کی سب سے بڑی خوبی اور خامی غلطی کرنا ہے۔ ہر ایک سے غلطیاں ہوتی ہیں ۔ کسی سے چھوٹی تو کسی سے بڑی۔ مجھ سے بھی غلطیاں ہوئیں ہیں۔ اور میں بہت پچھتاو کا شکار ہوں۔ مگر دنیا ہر روز میرے سامنے ماضی کھول کر رکھ دیتی ہے ۔ میں کیسے روکوں خود کو ۔ کیسے انکی زبانیں بند کروں۔ " اسنے بے دردی سے آنسو پونچھ ڈالے۔
" دنیا جو کہتی ہے کہنے دو ۔ دنیا کا تو کام ہی کہنا ہے۔ کبھی یہ تمھارے رنگ روپ پر طعنے دیں گے تو کبھی کردار پر ۔ انکے سامنے سونے کے بھی بن جاو تو کہیں گیں سونا کھوٹا ہے۔ ہم لوگوں کی زبانیں بند نہیں کر سکتے مگر خود کو تو اس سب کا عادی بنا سکتے ہیں یا باتوں کو خود پر حاوی ہونے سے روک سکتے ہیں۔ " مایا محبت سے کہتی اسے سمجھا رہی تھی۔
" تم بتاو تم اب تک اپنے گھر واپس کیوں نہیں گئی۔ " وہ بات بدلنے والے انداز میں بولی۔
" تمہے کیا لگتا ہے وہ سب میرے لیے پھول لیکر کھڑے ہونگے تاکہ میرے گلے میں ڈالیں۔ " مایا ایک دم مزاح والے انداز میں بولی تو بے اختیار سیمل کا قہقہہ چھوٹا ۔ فضا میں پھیلی تناو اور پریشانی کچھ لمحے کے لیے تحلیل ہوئ " پتا ہے جب پاپا نے میرا ، میرے انپڑھ اور نیم پاگل کزن طارق سے رشتہ طے کیا تھا تو میں نے شدت سے چاہا تھا کہ گھر سے بھاگ جاوں ۔ اور میری یہ خواہش پوری بھی ہوئی مگر عجیب طرح سے۔ " وہ پھر سے قہقہہ لگا گئی۔
سیمل نے نوٹ کیا وہ پہلے سے بدل گئی تھی۔ اب زیادہ باتیں کرنے لگی تھی۔ بدل تو ویسے بھی بہت کچھ گیا تھا۔ ۔
" سیمل ۔ مجھ سے وعدہ کرو ۔ آئندہ کبھی ایسی مایوسی والی باتیں نہیں کرو گی۔ اور ہمیشہ خود پر اور اللہ پر یقین کرو گی۔ سروت کہتی ہے دل کے سکون کے لیے دعا کرو ۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور اچھے ہونے کی امید رکھو " اسنے سروت کے الفاظ ہی دھرائے۔
سیمل کچھ بولی نہیں ۔ بس اثبات میں سر ہلا دیا۔ آج کافی دنوں بعد وہ خود کو ہلکا محسوس کر رہی تھی۔
ہمارا المیا یہ ہے کہ ہم یہ تو بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا مگر یہ نہیں بھولتے کہ کیا کھویا ۔ اگر ہم جع کھو گیا اسکی فکر کرے بغیر جو مل ہے اس پر دیھان دیں تو ہم کافی حد تک خود کو پریشان اور دکھی ہونے سے روک سکتے ہیں۔
□□□
" کیا کہتے تھے تم کہ زینت بے وقوف ہے۔ وہ بس سب کچھ خراب کرنا جانتی ہے۔ لو دیکھو یہ۔ " وہ داود کے آفس میں داخل ہوتے ہی ایک یو ایس بی اسکی ٹیبل پر پھینکتے ہوئے بولی۔ داود نے سر اٹھا کر ناگوری سے اسے دیکھا۔
" کیا ہے یہ ۔" وہ اسی ناگوار لہجے میں بولا۔
" دیکھ لو " زینت نے اپنے بازوں سینے پر لپیٹے۔
داود نے خراب موڈ کے ساتھ وہ یو ایس بی اٹھائی۔ اور اسے لیپ ٹاپ میں لگایا۔
دو ہفتے پہلے وہ پہلی ہی سنوائی میں کیس جیت چکا تھا۔ موسی اب عائشہ کے ساتھ کام نہیں کر رہا تھا۔ انکی ٹیم ٹوٹ چکی تھی۔ عائشہ بھی خاموش بیٹھ گئی تھی۔ وہ دو روز پہلے اس لڑکی سے ملا تھا جس کو اسنے اغوا کیا تھا ۔اور بس وہ یہ ہی بار بار کہتی تھی کہ' یہ ظلم مت کرو۔ '
یو ایس بی لیپ ٹاپ میں لگی تو سکرین پر اوڈیو کی آپش آئی۔ داود نے انٹر کا بٹن دبایا تو ایک ریکاڑدنگ چلنے لگی۔
" بہت شکریہ فون کرنے کا ۔ " داود جو بے دلی سے سن رہ تھا سیدھے ہوکر بیٹھ گیا۔ "کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم غائب کہاں تھا۔ اوہ معاف کرنا مگر شاید نا مجھے پوچھنے کا حق ہے نا تمھے بتانے کا ۔ ورنہ تم بہت پہلے مجھے بتا دیتے کہ تم عائشہ کے لیے کام کر رہے ہو۔ مجھے پروبلم اس بات سے نہیں ہے کہ تم کس کے لیے کام کرو مگر کم سے کم تم میرے علم میں تو لا سکتے تھے نا۔ یوں ریئلی ڈساپوئنٹ می۔ " اگلے الفاظوں پر اسکی مسکان گہری ہوئی ۔ وہ موسی کی آواز تھی جو قدرے بے یقینی اور غصہ لیے ہوئے تھی۔
"اور ہاں اس وقت جہاں بھی ہو وہیں رہنا ۔ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔ " آخری تنبیہ بھری آواز گونجی اور ریکاڑدنگ بند ہوگئی ۔ وہ آوازیں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھیں کہ موسی اور یوسف کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ وہ زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے مداحی انداز میں زینت کو دیکھنے لگا۔
" ویسے میں نے تم سے یہ امید نہیں رکھی تھی خیر زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے تم نے خوش کیا ہے ۔ " وہ بولا تو لہجے سے واضح کسی جیت کی خوشی جھلک رہی تھی۔ اسکا مقصد کسی طرح عائشہ موسی اور یوسف میں خلش اور اختلاف ڈالنا تھا جو وہ ڈال چکا تھا۔
" میں نے یہ سب تمھاری طریف سن نے کے لیے نہیں کیا۔ " زینت ٹیبل پر جھکی اور جتاتے ہوئے بولی۔
" ظاہر ہے تمہے کچھ چاہیے۔ بولو کیا چاہیے۔ " وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا۔
" حمدانی ٹیکسٹائل میں ایک اچھے عہدے کی جاب " زینت نے اپنی پیشکش رکھی۔
" ہا ہا ہا "۔ اب کے داود کا قہقہہ اور بھی بھاری تھا۔ جیسے زینت نے کوئی مذاح والی بات کہی ہو۔ اسکے قہقہے پر وہ نخوت سے سر جھٹک گئی۔
" مجھے منظور ہے ۔ " کچھ سوچتے ہوئے بولا اور سامنے پڑی فائل کھول لی۔
"اور ہاں تم یوسف کی ہر حرکت پر نظر رکھو گی ۔ اسکی ہر حرکت پر اور مجھے آگاہ کرو گی ۔ اب جا سکتی ہو " آخر میں پھر سے تنگ سرسری سا لہجا اپنا کر کہا تو زینت تن فن کرتی نکل گئی۔ یہ آدمی کبھی صحیح سے بات نہیں کر سکتا ( اونہو ) ۔
□□□
حمزہ نے مصروفیت اور دوسرے کئی بہانے بناکر عائشہ اور اپنی طلاق کو کچھ عرصہ تک ملتوی کرنا چاہا۔ عائشہ خود بھی اپنی جاب میں اس قدر مصروف رہی کہ اگلے ایک دو ماہ اس بات کا زکر نا ہوا۔ دونوں کے درمیان عجیب سی سرد مہری تھی جو عائشہ کی طرف سے کچھ زیادہ تھی۔
" عدالت کی طرف سے تمہے نوٹس مل جائے گا سائن کر دینا " یہ تقریبا شادی کے چار ماہ بعد کی بات تھی جب عائشہ نے حمزہ سے اطلاعا کہا۔
" کیا تم اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہو۔ میرا چھوڑو ۔ تمھارے اس فیصلے سے خود تمھے اور تمھاری فیملی کو کتنا نقصان ہوگا۔ سائقہ میڈم نے اس سال الیکشن لڑنے ہیں۔ اور ۔۔۔"
" مجھے اب کسی کی پروا نہیں ہے۔ اب میں کسی کی بھی پروا کیے بنا خود کے لیے جینا چاہتی ہوں۔ ایک عام زندگی جہاں صرف میں اور روحیل ہوں ۔ " وہ یک دم اسکی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
" اوکے میں سائن کر دوں گا۔ " وہ جیسے ہاتھ اٹھاتے برے دل سے بولا اور کمرے سے نکل گیا۔
کورٹ کا نوٹس ملا اور حمزہ نے اس پر سائن کرنے میں دیر نا لگائی۔ اب یہ بات اس کی خود داری پر آ گئی تھی وہ مزید خود کو عائشہ کے سامنے جھکا نہیں سکتا تھا ۔ اگر وہ اس میں ہی خوش تھی تو اسے بھی کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیئے تھا۔
□□□
رامین داود اس وقت اپنے بیٹے کے ساتھ لان میں موجود تھی۔ ننہا جانی فٹبال کو پاوں سے مارتا ادھر ادھر دھکیل رہا تھا۔ وہ مسکراکر بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ بھی اپنے باپ جیسا بنے گا۔ کیا وہ بھی بہت مغرور اور بے مروت بنے گا ۔وہ ان ہی سوچوں میں ڈوبی تھی جب گیٹ پر بیٹھے گارڈ نے دروازہ کھولا ۔ داود کی گاڑی اندر داخل ہوئی۔
داود نکل کر اسکی طرف آیا مگر راستے میں جانی اسکی گود میں چڑھ گیا۔ وہ آہستہ آواز میں اس سے باتیں کرتا رامین کے پاس آیا اور ایک ناپسندیدہ نگاہ اس پر ڈالی۔
" نازیہ ۔ " ملازمہ کو آواز دے کر جانی کو اسے تھمایا پھر رامین کی طرف گھوما۔
" سٹیڈی میں آو ۔ " حکم صادر کیا اور آگے بڑھ گیا۔
جس وقت رامین سٹیڈی میں آئی وہ موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
" جی میرا ابروڈ کا ٹوور دو ماہ کا ہے۔ جی اسی سلسلے میں جا رہا ہوں۔ آپ کو داود کے ہوتے ہوئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ کاروباری لہجا اپنائے کسی سے بات کر رہا تھا۔
رامین اسکے سامنے آکر کھڑی ہوئ۔ زہن میں بہت کچھ گھوم رہا تھا۔
داود نے فون بند کیا اور سٹیڈی کے عقبی دیوار میں لگا ایک شیلف تک آیا اور وہاں بنی دراز سے کچھ پیپرز نکالے
اور رامین کے سامنے ٹیبل پر رکھے۔
" یہ کیا ہے " وہ الجھن سے بولی۔
" ڈیورس پیپرز ۔ میں پرسوں دو ماہ کے لیے آوٹ اوف سٹی جا رہا ہوں۔ امید ہے میرے آنے تک ان پر سائن کردو گی۔ " وہ سپاٹ سے لہجے میم بولتا جیسے رامین کی جان نکال گیا۔
" مگر ۔ تم یہ کیسے کر سکتے ہو۔ اپنے فیصلے پر زرا غور کرو پلیز داود۔ میں تمھارے اور جانی کے بنا نہیں رہ سکتی ۔ " وہ بولی تو آواز بے یقین سی تھی۔
" میں فیصلہ کر چکا ہوں۔ اور پلیز اس وقت میں بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔
اور جانی وہ ابھی چھوٹا ہے۔ کورٹ اسے ظاہر ہے تمھارے حوالے کرے گا ۔ لیکن یہ یاد رکھنا اسکے آٹھ سال کے ہوتے ہی میں اسے تم سے لے لوں گا۔ وہ میرا بیٹا ہے اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہے گا۔" سرد مہری تلخی اور نا جابے کیا کیا تھا اس کے لہجے میں ۔
رامین کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔
" داود ۔ پلیز " وہ بے بسی سے اتنا ہی بول پائی۔ یوں لگ جیسے وہ رامین سے جانی کو آج ہی الگ کر رہا ہے۔
" میں اپنی بات کہہ چکا ہوں۔ تم ان پیپرز کو لیکر جا سکتی ہو۔ " وہ باقائدہ اسے دفعان ہونے کا کہہ کر دوبارہ موبائل میں لگ گیا۔
رامین کمرے آئی اور بیڈ پر بیٹھ کر زارو قطار رونے لگی۔ بہت دیر بعد اسنے بے دردی سے اپنی آنکھیں رگر دیں۔
داود سے اسکا اب کوئی تعلق رہے نا رہے وہ جانی کو کبھی اسکے حوالے نہیں کرے گی۔ وہ کبھی بھی اپنے بیٹے کو باپ جیسا نہیں بن نے دیگی۔ اور اسکے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے وہ کرے گی۔ وہ داود کو فیصلہ نہیں بدل سکتی تھی اور ویسے بھی ایسی زندگی سے بہتر وہ داود سے الگ ہو جائے مگر وہ کسی قیمت پر بھی اپنا بیٹا اسے نہیں دے گی۔
□□□
مایا نے اس آفس کے سامنے والی راہ داری عبور کی تو قدم من بھر کے لگے۔
وہ یوسف سکندر کے آفس کے باہر ایک لمہے کو سانس لینے اور ہمت جمع کرنے کو کھڑی ہوئی۔ پھر دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی۔ فرنیشد آفس کے وست میں شیشے کی میز رکھی تھی جس کے دوسری طرف یوسف بیٹھا تھا۔ کوٹ اتار کر سائد سٹینڈ پر ڈال رکھا تھا۔ لائٹ بلیو شرٹ کے بازوں کہنیوں تک موڑے وہ تھکا تھکا سا لگتا تھا۔ اسکی نیلی آنکھیں واضح بیزاری لیے ہوئی تھیں۔
" مس مایا آج کس الزام میں مجھے گرفتار کروانے آئیں ہیں۔ " وہ اندر آنے والے کو کوئی امپلائی سمجھا تھا مگر نظر اٹھانے پر سامنے مایا کو سامنے دیکھ تعجب زدہ ہو گیا۔ پھر سنبھلتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بولا۔
" آج میں یہاں اپنی غلطی سدھارنے آئی ہوں۔ " اسکا لہجا واقعی پشیمان تھا۔
"مس مایا آپ تھیک تو ہیں۔ " وہ عجیب نا سمجھی سے اسے دیکھے گیا۔
" ہاں۔ میں اب واقعی تھیک ہوں۔ پہلے غلط تھی ۔ اور جب انسان تھیک ہو جائے اسے چاہیے کہ اپنی خرابی دور کرنے کے لیے اسکی مرمت کرلے ۔ " وہ کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ میں گود میں رکھتے ہوئی ندامت بھری سنجیدگی سے بولی۔
" ابھی کچھ دن پہلے تو آپ مجھے جیل کروانے یہاں تک کہ پھانسی لگوانے پر بضد تھیں۔ یہ تبدیلی اچانک کیسے " وہ تعجب سے بولتا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہ تھا۔ ایسے ہی وہ فیئر ول فنکشن میں اسکی آنکھوں میں دیکھ کر اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔
" تب تک میں اس غلط فہمی کا شکار تھی کہ تم نے ہی میری کیڈنیپنگ کروائی تھی۔ دو سال تک صرف اس لیے خاموش رہی کہ پہلے میں خود کو اس بات کا یقین دلا رہی تھی کہ وہ واقعی تم ہو ۔ اور پھر خود کو تمھارے خلاف لڑنے کے لیے تیار کر رہی تھی۔ مگر آج میں جان چکی ہوں کہ میں غلط تھی۔ اور مایا اعوان واقعی شرمندہ ہے " شاید وہ کوئی آنسو تھا جو اسکے گال کو نم کر گیا تھا۔
اسکی ساری بات سن کے یوسف کا فضا میں بے اختیار قہقہہ بلند ہوا۔ پھر وہ با مشکل اپنے قہقہے پر قابو پاتا سٹیک کے سہارے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اب وہ قدآور کھڑکی کی طرف منہ کر کے کھڑا تھا اور مایا کی طرف اسکی پشت تھی۔ آفس میں ایک عجیب سی چبھنے والی خاموشی چھائی تھی۔
" کیا تمہے واقعی لگتا ہے میں ایسے کر سکتا ہوں۔ کیا تمہے لگتا ہے میں تمہے تکلیف دینے کا سوچ بھی سکتا ہوں۔ " اسکی سنجیدہ سولیہ آواز نے خاموشی توڑی تھی۔
مایا کچھ لمحے اپنے لب کاٹتی رہی ۔ پھر خب بولی تو لہجا شکست خوردا سا تھا۔
" کیونکہ اس وقت میرے زہن میں تمھارے سوا کوئی خیال نا آیا تھا۔ تم ہی تھے جسے مجھ سے محبت کا دعوہ تھا۔ تم ہی تھے جس سے میں نے انکار کی صورت میں کوئی نقصان نا پہنچانے کا فیصلہ لیا تھا۔ تم ہی تھے جو جانتے تھے کہ میری شادی ہونے والی ہے۔ اب ایسے میں تم پر شک نا کرتی تو کیا کرتی ۔ "
اسکی ساری تفصیل پر یوسف نے استہزائیہ سر جھٹکا ۔
" میرا خیال کیوں تھا تمھارے زہن میں۔ کیوں میں تمھارے زہن پر حاوی تھا ۔"
" کیونکہ میں تم سے محبت کرنے لگی تھی ۔ اس وقت میری ہر سوچ تم سے شروع ہو کر تم پر ختم ہوتی تھی۔ " وہ بول نا سکی بس دل میں سوچا تھا۔ نظریں مسلسل یوسف کہ پشت پر ٹکی تھیں۔
" ہاں مجھے ہی تم سے محبت کا دعوہ تھا اور اگر میرے علاوہ یہ دعوہ کوئی اور کرتا تو میں اسکی جان نکال دیتا " وہ مزید کہہ رہا تھا اور مایا کے حلق میں پھانس سی چب رہی تھی۔
"ہاں میں نے ہی تم سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی تمہے کوئی نقصان نہیں پہنچاو گا چاہے تم انکار ہی کرو مگر تم نے تو مجھے انکار کیا ہی نہیں تھا ۔ اس روز تم بغیر کچھ بولے چلی گئی تھی اور اچانک غائب ہو گئی تھی۔ پھر جب دو سال بعد ملی تو ایسے کہ مجھ پر ایک الزام لگاتے ہوئے۔ " وہ سانس لینے کو رکا یا شاید بھیگتی ہوئی آواز کو نارمل کرنے کے لیے۔
مایا کی گود میں رکھی مٹھیاں اس زور سے بھینچی ہوئی تھیں کہ نم ہو جارہی تھیں ۔
" اور جانتی ہو مجھے کتنی تکلیف ہوئی تھی۔ یہ بات میرے پر کتنی گراں گرزی تھی جب مجھے معلوم ہوا کہ تمھارے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے۔ جس بات کا تصور میں اپنے برے سے برے خواب میں بھی نہیں کر سکتا تم نے وہ مجھ سے منسوب کی " اب کی بار اسکی آواز بے یقین تھی۔ کچھ غصہ اور کچھ گلہ بھی تھا لیکن چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔
" میں نے تم سے محبت کی تھی اور محبت میں نقصان پہنچانے کا تصور نہیں ہوتا ہے ۔ میں ویسا کچھ کرتا اگر تم میری ضد ہوتی مگر یقین کرو میں نے صرف اور صرف تم سے محبت کی تھی۔ " اسکا انداز باور کروانے والا تھا۔ دل میں ایک چبھن سی تھی یہ کیسی محبت تھی جسکے بارے میں ہر بار یقین دلانا پڑھتا تھا۔ اسنے تو اپنی طرف سے کوئی کسر نا رکھی تھی سامنے والا ہی یقین نا کرتا تھا۔
آفس میں اس وقت بلکل خاموشی تھی۔ سانس لینے تک کی بھی آوازیں نہیں آرہی تھیں۔ مایا کو معلوم نا ہوسکا کب ایک آنسو اسکی آنکھ سے نکل کر گردن پر بہہ گیا۔ دیواریں اپنے کان کھولے انکی گفتگو سن نے میں مصروف تھے۔
" تم نے کہا تم نے محبت کی تھی۔ یعنی اب نہیں کرتے " خاموشی میں اسکی سرگوشی جیسی آواز بھی بہت تیز معلوم ہوئی ۔
" میں تم سے محبت کرتا تھا ۔ کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا ۔ لیکن سب کچھ محبت نہیں ہوتی۔ اعتبار ۔ یقین بھروسہ بھی ایک تعلق کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ میرے تمھارے درمیان محبت تو ہو سکتی ہے مگر اب اعتبار نہیں۔ " یوسف کا لہجا سنجیدہ تھا۔ سپاٹ تھا۔ مگر دیواروں نے سنا ان میں درد تھا ۔
" کیا یہ ممکن نہیں یہ چیزیں واپس قائم ہو سکیں ہمارے درمیان " انگلی کے پور سے آنکھ کا کنارا صاف کرتی وہ آس سے پوچھنے لگی۔
" مس مایا اعوان یہ چیزیں بازار میں نہیں بکتی کہ جب چاہے جو مرضی خرید لے ۔ بہت محنت لگتی ہے تب جاکر کسی کا بھروسہ جیتا جا سکتا ہے۔ مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ تم اپنی جگہ تھیک ہو میں اپنی جگہ۔ قصور وار نا تم ہو نا ہی میں۔ مگر " وہ لا تعلق سے انداز بولتا ایک لمحے کو رکا تھا۔ اسکے تو الفاظ رکے تھے مگر مایا کا سانس ۔
" اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ وقت بدل گیا ۔ اب ہم بلکل پہلے جیسے نہیں ہو سکتے ۔ بس یہ سمجھو جو شروع ہی نہیں ہوا تھا وہ اختتام ہو گیا ہے۔ " مایا کو نظر نہیں آیا مگر وہ خاموشی سے پلکے جھپکاکر کئی آنسو اندر اتار گیا تھا۔
پھر واپس مڑا تو چہرا سپاٹ کسی بھی تاثر سے نا آشنا تھا۔
" میں تمھارے گھر گئی تھی۔ معلوم ہوا دو سال پہلے گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ تمھاری ماں تمہے بہت یاد کرتی ہے۔ اگر کبھی فرصت ملے تو مل لینا ان سے۔ بہت پریشان رہتی ہیں۔ اور گھر پر پولیس کا آنا ۔ وہ بہت ٹینشن میں ہیں۔ اپنی ماں کو پلیز اذیت نا دو ۔" وہ شیشے کی میز پر رکھے نیلے تکون پیپر ویٹ پر نظریں جمائے بولی پھر اٹھ کر یوسف سے نظریں ملائے بغیر آفس سے باہر نکل گئی۔
مین گیٹ پر کسی مرد سے ٹکڑا گئی مگر آنکھوں کی نمی نے چہرا دیکھنے نا دیا ۔ مرد بھی تیزی میں تھا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ کچھ آگے آکر مایا کو لگا اسنے کچھ عجیب محسوس کیا۔ بے اختیار چہرا پیچھے موڑا ۔ اب وہ آدمی تیزی سے یوسف کے آفس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
شاید اس کا وہم ہو۔ اس وہم اور غلط فہمی کی وجہ سے پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکی تھی۔ اب وہ کسی بات کا یقین نہیں کرے گی جب تک تصدیق نا کرلے۔
□□□
یوسف پاوڑ سیٹ کے ساتھ کھڑا تھا۔ کچھ دیر پہلے مایا اسکے آفس سے نکلی تھی۔ اس کا زہن کچھ دیر پہلے ہونے والی باتوں میں اٹکا تھا جب دروازہ کھلا اور داود حمدانی اندر داخل ہوا۔ یوسف نے فورا اپنے تاثرات تھیک کیے۔
" تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا تھا میرے ساتھ کام کرنے کا۔ موسی تمھارے لائق ہی نہیں تھا۔ تمھاری قابلیت میں جانتا ہوں۔ اور اس کمپنی کو تمھارے جیسے قابل انسان کی ضرورت تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اگر تم موسی کے ساتھ رہتے تو اپنی قابلیت ضائع کر دیتے ۔ " کچھ دیر بعد وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے جب داود کہہ رہا تھا۔
وہ تو شروع سے یہ چاہتا تھا کسی طرح یوسف اور موسی میں ڈرار ڈال کر یوسف کو اپنی طرف کرلے۔ یوسف کے ساتھ اچھے تعلقات اچھے کاروبار کے ضامن تھے۔
یوسف نے محض پیپر ویٹ کے نیچے سے کچھ پیپرز نکالتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
" جس جگہ آپ کی اہمیت نا ہو۔ وہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے ۔ جو انسان آپ کا اعتبار نا کرے وہ آپ کا دوست ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بھلائی اسی میں ہے خود ہی خاموشی سے کنارہ کر لیا جائے۔ موسی اور میرے درمیان شاید اعتبار نہیں رہا تھا۔ ہمیں الگ ہو ہی جانا چاہیے تھا۔ اور تھیک کہا تم نے میری جگہ یہ تھی۔ یہ جگہ ۔ یہ کمپنی یہ ہی میرے قابل تھی۔ " وہ بھی پوری طرح سے داود سے متفق ہوتے ہوئے بولا۔
موسی سے کی جانے والی وہ آخری بات تھی ۔ اسکے بات دونوں میں کوئی بات نا ہوئی تھی۔ ایک لاتعلقی کی فضا قائم تھی۔ چھ ماہ بعد وہ خود داود کے پاس آیا تھا۔ اور داود نے محض کچھ شرطوں پر اسے حمدانی ٹیکسٹائل میں بطور مینیجر رکھا تھا۔ داود نے یوسف کی ایک ایک سرگرمی پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ اسکی فون کال ٹریس ہوتیں تھیں۔
اسکی لوکیشن ٹریس ہوتیں تھیں۔ وہ کسی قسم کا نقصان نہیں اٹھا سکتا تھا۔
□□□
" میں دیکھتی ہوں تم روز کام سے آکر اس انگوٹھی کو نکال کر بیٹھ جاتے ہو پھر گھنٹوں دیکھتے رہتے ہو۔ اگر میں غلط نا ہوں تو انگوٹھی تمہے کسی خاص کی یاد دلاتی ہے ۔ اور یہ یاد اتنی شدید ہے کہ ارد گرد کا خیال نہیں رہتا ۔ " اوپن کچن میں چولہے کے آگے کھڑی انم پری کے لیے نوڈلز بناتی موسی سے مخاطب تھی جو کہ اسکی بات کو نظر انداز کر گیا۔ انم عائشہ کے گھر کی سٹاف میمبر تھی۔ حمزہ کے گھر کے ساتھ اس نے اپنا گھر بھی چھوڑ دیا تھا۔ سائقہ بیگم اس سے سخت ناراض تھیں سو انہوں نے روکا نہیں تھا۔ عائشہ مصروف رہتی تھی اس لیے اس نے انم کو بطور نینی پری کے لیے رکھا تھا۔ حمزہ سے طلاق لیتے ہوئے وہ اس بات سے لا علم تھی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ اگر معلوم ہوتا تو حالات کچھ اور ہوتے ۔
وہ گہری سانس لیکر سیدھا ہو بیٹھا۔
" عائشہ میڈم کہتی تھیں موسی کو اکثر میں نے کسی سوچ میں کھوئے دیکھا ہے۔ اسکے خیالوں میں کوئی حاوی رہتا ہے۔ کون ہوسکتی ہے وہ جو دور ہو کر بھی اسکے آس پاس موجود ہے" وہ یاد کرتے ہوئے عائشہ کے الفاظ دھرانے لگی۔ جس پر موسی چونک سا گیا مگر تاثرات سنجیدہ رکھے۔
" وہ لڑکی کہیں وہ تو نہیں جو اس دن آئی تھی۔ " انم اندازا بولتے ہوئے پلیٹ میں نوڈلز نکال رہی تھی ۔ اسکی نظریں نیچچے تھیں نہیں تو موسی کا چہرا دیکھ کر ہی اسے اپنا جواب مل جاتا۔
" ہاں " موسی نے جواب دے دیا یہ یوں کہا جائے اعتراف کرلیا۔
" مگر وہ لڑکی ۔ نام " سوالیہ نگاہیں اٹھائیں۔
" سیمل ۔ "
" سیمل چلی کیوں گئی اس روز ایسے انگوٹھی دے کر ۔ " وہ الجھن سے پوچھنے لگی۔
" خود کو آزاد کرنے کے لیے۔ " سنجیدگی سے کہتے وہ اٹھ کر باہر نکل گیا ۔ انم سے اس وقت بات کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔
اسکے نکلتے ہی انم سر جھٹک کر پری کو نوڈلز کھلانے لگی۔
□□□
وہ خود کو آزاد ہی تو کرنے آئی تھی۔ موسی جہانگیر سے اسکی بھیانک یاد جڑی تھی ۔ وہ کیسے ایک ایسے انسان کی کوئی امانت اپنے پاس رکھ سکتی تھی۔ یقینا وہ اس سے اس قدر نفرت کرتی ہوگی کہ کبھی اسکا منہ نہیں دیکھنا چاہتی ہوگی۔ اور اس روز بھی اس نے ایسے ہی کیا۔ وہ اسے بھی تو دے سکتی تھی نا انگوٹھی مگر اسکی نفرت نے سامنا تک نا کرنے دیا۔ یہ تک نا بتانے دیا کہ وہ کون ہے۔ اسنے شادی کرلی تھی۔ خوش تھی وہ مگر یہ آدھا سچ تھا جو موسی جہانگیر جانتا تھا۔
سیمل اسکے لیے بے شک نفرت کے جزبات رکھتی ہو مگر وہ اسکے لیے خاص جزبات رکھتا تھا جسے وہ خود بھی چھپاتا تھا۔ مگر لوگ نوٹ کر لیتے تھے۔ چاہے یوسف ہو۔ عائشہ ہو یا انم ۔
کچھ دیر بعد وہ ڈاکٹر زاہد کے پاس موجود تھا۔ وہ ایک قابل دماغ کے ڈاکٹر تھے۔
" میں نے کتنی بار کہا ہے جلد از جلد آپریشن کروالوں۔ یہ زخم اندر ہی اندر بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی وقت نروس بریک ڈاون ہوسکتا ہے۔ " سفید اور کالے بالوں کا ملاپ لیے وہ موٹی عینک والے ڈاکٹر زاہد سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔
" میں اسی لیے آج آپکے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے ٹائم لے سکوں۔ "
" اگلے دو ہفتے تک تو میں بہت بزی ہوں ۔ ایک فورن ٹرپ ہے۔ اسکے بعد سب سے پہلے تممھار آپریشن کروں گا۔ " وہ اپنا شیڈول بتانے لگے ۔ پھر کچھ ٹھہر کر اسکا چہرا دیکھا۔ جیسے کچھ پڑھنا چاہا۔
" تم خوف زدہ ہو۔؟"
"نہیں "
" ہاں۔ تم پہلے مریض نہیں ہو۔ ایک اہم آپریشن سے پہلے ہر مریض خوف زدہ ہوتا ہے۔ مگر یہ خوف زیادہ تر اپنی جان کو کوئی نقصان ہونے کے ڈر سے نہیں ہوتا۔ یہ خوف اپنی فیملی کا ہوتا ہے۔ کہ ہمارے بعد کون انکا خیال رکھے گا۔ کون انکا سہارا بنے گا۔ " وہ اپنا تجربہ بتاتے ہوئے بولے۔
" مگر میرا تو کوئی خاندان کوئی فیملی نہیں ہے۔ میں کس کے لیے خوف زدہ ہو سکتا ہوں۔ " وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
" ہو سکتا ہے خود کے لیے۔ یا ہوسکتا ہے کسی ایسے کے لیے جس کے بارے میں تم نہیں جانتے۔ " سرسری سے کہتے وہ کلائی میں باندھی گھڑی دیکھتے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں کسی مریض کو دیکھنے اسکے گھر جانا تھا۔
مگر موسی کتنی ہی دیر انکے الفاظوں کے زیر اثر وہیں بیٹھا رہا۔
" ہاں وہ اس لیے ہی خوف زدہ تھا۔ کہیں ایسا نا ہو قسمت اسے سیمل کے ساتھ جوڑ رہی ہو اور موت آڑے آجائے ۔
کہیں ایسا نا ہو موت اسے ایک لمحے کی مہلت نا دے اعتراف کرنے کے لیے۔ ہاں وہ واقعی خوف زدہ تھا۔ "
□□□
(وہ رات جب عائشہ صبحانی کا قتل ہوا۔ )
وہ سڑک کنارے چل رہی تھی۔ گود میں ایک بچی تھی۔ ناجانے کیوں زہن میں حمزہ کا خیال آکر رکا اور اگلے ہی لمحے حمزہ کی آواز۔
وہ اس سے پوچھ رہا تھا کیا یہ میری بیٹی ہے۔ وہ جوابا انکار کر گئی۔
حمزہ کے جانے کے بعد وہ شکست خوردہ سی فٹ پاٹھ پر بیٹھ گئی۔ وہ چاہ کر بھی حمزہ کو سچ نا بتا سکی۔ پری کے علاوہ اسکے پاس کوئی نہیں تھا۔ حمزہ پری کو لے جاتا۔ وہ کیسے رہ سکتی تھی اسکے بغیر۔ وہ کیسے اسے بتاتی جس انسان کے لیے وہ حمزہ کو چھوڑ آئی تھی وہ تو بے وفا نکلا۔ اس نے عائشہ سے نہیں اسکی دولت سے محبت کی تھی۔ دولت گئی تو محبت بھی چلی گئی۔
موبائل میں تیزی سے کوئی نمبر ڈائل کیا۔
" انم ۔ پری کو آکر لے جاو ۔ میں کچھ دیر تنہا رہنا چاہتی ہوں" اور موبائل بند کرکے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ لیا۔
انم آئی اور پری کو لیکر چلی گئی۔ وہ جگہ موسی کے فلیٹ سے قریب تھی۔ وہ ان دنوں موسی کے فلیٹ میں ہی رہ رہی تھی۔ موسی کام کی وجہ سے زیادہ تر اپنے نئے آفس ہی رہتا تھا۔ وہ نائت شفٹ بھی کرتا تھا۔
کافی دیر سر ہاتھوں میں دیے رہنے کے بعد اٹھ کھڑی ہوئی اور چلنا شروع کردیا۔ اور سوچوں میں غرق وہ جان نا سکی کہ چلتے چلتے بہت دور نکل آئی ہے۔ اچانک ٹائروں کی آواز نے اسکا دیھان کھینچا۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹی ۔
گاڑی کے دروازے کھلے اور داود حمدانی ہمیشہ کی طرح اپنی پرفیکٹ لک کے ساتھ اسکے سامنے کھڑا تھا۔ ایش بلیو سوٹ میں ملبوس ۔ مہنگی گھڑی کلائی میں سجائے۔ بال سٹائلش سے پیچھے کو کیے۔ پرفیوم کا احاطہ کیے ہوئے وہ غصے سے عائشہ کو دیکھتا اسکے سامنے کھڑا تھا۔
عائشہ کتنے لمحے تعجب سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
" تم نے رشتے سے انکار کیا میں خاموش رہا ۔تم نے کسی اور سے شادی کر لی میں خاموش رہا۔ مگر ایک غلطی تم نے کردی جس کی داود حمدانی کی نظر میں کوئی معافی نہیں اور وہ داود حمدانی کو عدالت میں گھسیٹنا تھا۔" سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ اسنے کوٹ کی اندرونی جانب ہاتھ ڈالا اور نکالا تو ہاتھ میں گن تھی۔
" اور اس غلطی کی سزا صرف موت ہے۔ " وہ ڈھاڑا تھا اور ساتھ میں اسکی گن بھی دھاڑی تھی۔
سب کچھ اتنا جلدی میں ہوا کہ عائشہ کو سنبھلنے کا موقع نا ملا ۔ کوئی گرم دیھکتا ہوا لوہا تیزی سے اسکا پیٹ چیڑتا ہوا نکل گیا۔ درد اتنی شدت کا تھا کہ وہ بس کراہ کر رہ گئی۔ آواز تک درد نے کھینچ لی تھی۔
داود کے ہاتھ نے ایک بات پھر جھٹکا کھایا۔ اور دوسری طرف عائشہ کا وجود بری برح لرز کر زمین پر گڑ گیا۔
نیم بند آنکھوں سے ۔ پیٹ پر دو جگہ انگارے سے جسم جلتے ہوئے درد کے ساتھ اسکے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں نکل رہیں تھیں۔ داود اسکے قریب آیا اور نیچے بیٹھا۔
" مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے تمہے اس طرح دیکھ کر۔ آئی سیویئر ۔ مجھے واقعی بہت دکھ ہو رہا ہے۔ مگر یہ انجام تم نے خود اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ کچھ بھی کرنا داود حمدانی سے دشمنی نا کرنا۔۔چچ۔چچ۔ " افسوس سے کہتا کتنی دیر وہ عائشہ کو زمین پر پڑے خود کو بے یقینی سے دیکھتے ، دیکھتا رہا۔
یہاں تک کہ حرکت بند ہوگئی۔ عائشہ کی آنکھ مند گئیں۔ جسم میں کسی بھی قسم کی حرکت بند ہو گئی۔
" سوری مائی دیئر کزن ۔ میں کیا کرتا ۔ میں مجبور تھا۔ تم میرے وہ راز جان گئی تھی جو تمہے نہیں جاننے چاہیے تھے۔ عالی سے پتا لگا تھا نا تمہے۔ اسکو بھی میں نے بہت دور بیجھ دیا۔ تم نے دیکھا نہیں وہ ایک دم غائب ہوگیا جیسے زمین کھا گئی آسمان نگل گیا۔ اور جو کوئی بھی اس راز کو جانتا ہے اور اسے میرے خلاف استعمال کر سکتا ہے اسکا انجام صرف ایک ہی ہے۔ تمھارے والا انجام۔" سنجیدگی بھرے افسوس سے کہتے آخر میں اسکی آواز میں نفرت اور تلخی ابھر گئی۔
اگلے کچھ لمحے بعد داود حمدانی کی گاڑی اس سنسان سڑک پر تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔
عائشہ کی پلکوں میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوا۔ اسکی سانسیں بہت ٹھوری سی ابھی باقی تھیں۔ تکلیف نے جسم کو مفلوج کر رکھا تھا اور اس حالت میں جو واحد شخص اس کے زہن میں آیا تھا وہ حمزہ شجاعت تھا۔
□□□
وہ ہسپتال کے روم میں تھی اور پھولی سانسوں سے موسی کو پری کے بارے میں کہہ رہی تھی۔
پھر جسم نے جھٹکا کھایا اور ہمیشہ کے لیے رگوں میں بھاگتا خون تھم گیا۔ خون کی بھاگ دوڑ بند ہوگئی۔
□□□
" میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔ " وہ مایا سے ملنے کے بعد دوسرا دن تھا جب کمال صاحب نے کوئی ضروری بات کرنے کے لیے اسے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔
" میں تمھاری یہ حالت نہیں دیکھ سکتا ۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو تم دماغی مریضہ بن جاو گی اور میں تمہے اپنی جان پر ظلم کرتے مزید نہیں دیکھ سکتا ۔ اس لیے میں نے تمھاری شادی کا فیصلہ کیا ہے " وہ سنجیدگی سے کہہ رہے تھے اور سیمل کا سانس ڈوب رہا تھا۔
" میں نے فیصلہ کیا ہے تمھاری شادی موسی سے کرنے کا چاہے اسکے لیے مجھے اسکی منت ہی کیوں نا کرنی پڑے۔ مال اور اولاد واقعی ایک آزمائش ہے اور یہ میری آزمائش کا وقت ہے۔ " وہ کہہ رہے تھے اور سیمل تیز ڈھرکنوں ۔ دوبٹی سانسوں اور بے یقین ہوتے وجود کے ساتھ انہیں سن رہی تھی ۔
کیا اب وہ وقت آگیا تھا جب موسی جہانگیر کو اسکی قسمت میں لکھا جانا تھا یا ابھی کچھ باقی تھا۔
□□□