سورج کی کرنیں کھڑکی سے اندر جھانکتی ہوئیں دیوار پر لگی اس تصویر کو دیکھنے میں مصروف تھیں جس میں ایک اداس لڑکی اندھیرے میں بیٹھی تھی ۔ وہ بہت بکھری اور ٹوٹی ہوئی لگتی تھی۔ سورج کی کرنیں اس کا وجود روشن کرنے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ وہ کافی دیر سے تصویر دیکھنے میں مشعول تھی پھر پیچھے پلٹی اور سنی سے مشورہ لینا چاہا۔
"یہ تصویر یہاں اچھی لگے گی سنی" سیمل نے لانج کی دیوار پر لگی تصویر کی طرف اشارہ کیا ۔
"یہ صرف کوڑے دان میں اچھی لگے گی"
صوفے پر بیٹھا سنی چپس کھاتے ہوئے مزے سے بولا
وہ پلٹی اور بس ایک ناراض نگاہ اس پر ڈالی۔
"اچھا تم ناراض مت ہو میں تو مذاق کر رہا تھا"
"تم جانتے ہو میں تم سے ناراض نہیں ہو سکتی بس مجھے تمہاری بات اچھی نہیں لگی"وہ اسکے ساتھ آکے صوفے پر بیٹھ گئ ۔
"یہ تصویر یہاں بہت اچھی لگ رہی ہے واقعی بہت اچھی " سنی ،سیمل کو خوش کرنے کے لیے بولا البتہ اس نے دیوار پرلگی تصویر کو ناپسندیدگی سے ضرور دیکھا جو کاٹ کر لکڑی کے خوبصورت فریم میں لگائی گئ تھی اور دیوار کے وسط میں لٹک رہی تھی۔
" گھر کا سمان تھیک سے سیٹ ہو گیا تو کتنا اچھا لگ رہا ہے نہیں تو پھیلے ہوئے گھر میں گٹھن ہو رہی تھی" وہ گردن گھما کر سارے لانج کو دیکھنے لگی جو دو ہفتے بعد صحیح شکل میں آیا تھا۔
سنی صرف "ہوں" کر کے دوبارہ چپس کھانے میں مصروف ہو گیا۔
☆☆☆
کمال حیات صاحب اپنی چوبیس سالہ بیٹی، آٹھ سالہ بیٹے اور ملازم نور بابا کے ساتھ دو ہفتے پہلے لاہور میں شفٹ ہوئے تھے ۔ وہ پولیس انسپیکٹر تھے اور لاہور میں ان کا تبادلہ ہوا تھا ۔اپنی دیوٹی کے کئی سالوں میں ان کا بہت جگہ تبادلہ ہوا تھا اور یہ بات سیمل کو ناگوار گزرتی تھی کہ ہر بار نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا تھا۔اور اس سے پہلے جہاں وہ رہ رہے تھے اس جگہ نے اسے کچھ خاص دوست دیے تھے اور پھر چھین بھی لیے تھے ۔ کاش کسی وقت کسی جگہ وہ اسے اچانک سے مل جائیں۔
رات کے وقت وہ لانج کی دیوار کے ساتھ کھڑی اپنے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنی انگوٹھی کو اداسی سے گھمارہی تھی وہ نفیس سی ہیرے کی انگوٹھی تھی اور اس وقت وہ اس شخص کو سوچ رہی تھی جس سے وہ ring تعلق رکھتی تھی ۔ناجانے وہ کہاں تھا، وہ اسے یاد بھی تھی کہ نہیں ،اور یہی سوچ اس کو اداس کر رہی تھی۔
☆☆☆
اگلے دن اتوار تھا کمال صاحب نے دونوں کو تیار ہونے کو کہا کیونکہ انہیں اپنے بڑے بھائی کی طرف جانا تھا جو شروع سے ہی لاہور میں رہتے تھے ۔ جمال حیات ایک بزنس مین تھے اور لاہور میں ان کا بہت اچھا کاروبار تھا۔
تایا ابا کے تین بچے تھے، دو بیٹے اور ایک بیٹی اور سیمل اور سنی اپنے کزنز سے پہلی بار ملنے والے تھے بچپن میں ایک بار وہ ملی تھی پر یاد نہیں تھا اور سنی تو کچھ زیادہ ہی پرجوش تھا۔
"سیمو بتاو میں کون سی شڑٹ پہنوں "
وہ ایک لال اور ایک سفید شڑٹ اسے دکھانے لگا
" یہ وائٹ والی پہن لوں میرا سوٹ بھی وائٹ ہے"وہ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے بولی۔
کچھ دیر بعد وہ تیار ہوکر لانج میں کھڑی سنی کے بال ٹھیک کر رہی تھی۔ وہ سفید رنگ کی کمیز اور ہلکے گلابی رنگ کے چوڑی دار میں ملبوس تھی۔دوبٹہ دو رنگ کا تھا۔میک اپ کے نام پر صرف آنکھوں میں کاجل تھا اور جیولری کے نام پر کانوں میں دو موتی اور ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی۔
اسے زیادہ سنگھار کرنے کا شوق نہیں تھا وہ سادہ سے حلیے میں بھی بہت خوبصورت لگتی تھی ۔وہ تھی ہی اتنی حسین، سرخ و سپید رنگت ،دراز قد اور سلجھی ہوئی۔ سیاہ لمبے بال اور کالی خوبصورت آنکھیں۔غرض وہ ہر لحاظ سے بہت پیاری تھی۔
" رکو زرا سیمو میں تمھاری نظر تو اتارلوں ،میری بہن اتنی پیاری لگ رہی ہے کوئی نظر لگا دیگا" دروازے سے نکلتے ہوئے سنی
اس کی بلائیں لیتے ہوئے بولا ۔
سیمل نے پیار سے اس کے گال پر چٹکی کاٹی اور پھر دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئے جہاں کمال صاحب ان کا انتظار کر رہے تھے۔ دونوں کے بیٹھے ہی گاڑی آگے بڑھ گئی۔
☆☆☆
تایا ابا کے گھر ان کا خوشدلی سے استقبال کیا گیا۔ دونوں بھائی آپس میں بگل گیر ہوئے۔ تایا ابا نے سیمل کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔تائی امی نے اسے پیار سے گلے لگایا " ماشااللہ کتنی بڑی اور پیاری ہوگئی ہو ۔جب پچھلی مرتبہ آئی تھی تو بہت چھوتی تھی"
سیمل ان کی بات پر مسکرادی
" ہاں واقعی بہت خوبصورت ہوگئی ہے میری بھتیجی" تایا ابا نے بھی بیگم کی تائید کی۔
"میں بھی تو خوبصورت ہوں " سنی نے سب کی توجہ اپنی طرف کروانے کے لیے معصومیت سے کہا ۔اس کے انداز پر سب ہنس پڑے
"ہاں بھئ چھوتے شہزادے تمہے کون بھول سکتا ہے " تایا ابا نے اس کے کاندھے پر ہلکی سی جست لگائی تو وہ جھینپ کر مسکرا دیا۔
سنی کو توجہ حاصل کرنے کا شوق تھا اور اگر نہیں بھی ہوتا تو کسی نے اسے یہ عادت لگا دی تھی اور سیمل کو وہ اس وقت یاد آیا تھا یونیورسٹی میں ملا ہوا ایک انوکھا دوست۔۔۔۔۔
بڑے سب درائنگ روم میں بیٹھ گئے تو ردا ان دونوں کو باہر لے آئی معصوم صورت اور شفاف چہرے والی ردا بائس سالہ لڑکی جو اپنی گود میں دو سالہ ایمان کو اٹھائے ہوئے تھی ۔اس کی شادی چھوٹی عمر میں ہی ہوگئی تھی ۔اسکا شوہر فہد تایا ابا کی کمپنی میں ہی کام کرتا تھا ۔سیمل نے ایمان کو گود میں لے لیا تو بچی اسکے کانوں کے موتیوں سے کھیلنے لگی۔
"واہ سیمل آنٹی سے تو دوستی ہوگئی ہے " ردا نے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا
" سیمو کے ساتھ ہر کسی کی دوستی ہو جاتی ہے " سنی نے ردا کو بتایا۔ کسی بات کا حوالہ دینا چاہا جسے سیمل فورا سمجھ گئی۔
" کیوں نا ہو سیمل آپی ہیں ہی اتنی پیاری اور ملنسار " سیمل کو ردا کا اسے آپی کہنا اچھا لگا تھا
پھر وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگی
" اس دن میرا fsc کا آخری پیپر تھا جب فہد کا رشتہ آیا تھا" ردا بتا رہی تھی۔
" اور چھ مہینے میں شادی ہوگئی " سیمل کو یاد تھا کہ شادی کا دعوت نامہ آیا تھا ابا کی کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ آ نہیں سکے تھے ۔
"بھائی کیا کرتے ہیں دونوں " اس نے پوچھا
اسامہ بھائی ابو کے ساتھ ہی ہوتے ہیں ،ابو کا آدھا بزنس وہ ہی سنبھالتے ہیں اور ابو بکر ابھی پڑھائی کر رہا ہے " ردا نے اپنے دونوں بھائیوں کے بارے میں بتایا ۔" اور آپ کی سٹیڈی تو پوری ہوگئی ہو گی"ردا نے پوچھا
"ہاں " سیمل نے جواب دیا " اور سنی سیکنڈ سٹینڈرڈ میں ہے" سنی کے بارے میں بھی اطلاع دی ۔
ایمان رونے لگی تو ردا اسکو لیکر اندر چلی گئی ۔سنی درائنگ روم میں ابا کے پاس چلا گیا ۔سیمل تنہا لان میں بیٹھی رہی ۔کچھ دیر بعد وہ اندر جانے کے لیے اٹھی تو اچانک ڈور بیل بجنے لگی۔
☆☆☆
اسامہ تایا ابا کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ وہ چونتیس سالہ خوش شکل مرد تھا ۔ردا سے کئی سال بڑا تھا کیونکے ردا اور اسکے درمیان دو بھائی تھے جو پیدا ہوتے ہی فوت ہو چکے تھے ۔
اس وقت وہ بیل بجا کر دروازے کے کھلنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ دروازہ کھلا اور اسکے سامنے ایک اجنبی چہرا روبرو ہوا ۔
"آپ کون" سیمل نے پوچھا
(واہ میرے گھر میں کھڑے ہو کر مجھ سے ہی سوال)ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ردا کی آواز آئی " اسامہ بھائی ہیں سیمل آپی ۔اندر آنے دیں۔"
"اوہ!" وہ ایک دم پیچھے ہٹی اور اسے آنے کی جگہ دی
ردا نے دونوں کا تعارف کروایا۔ سیمل کے بارے میں جان کر اسے ایک عجیب قسم کی حیرانی ہوئی تھی ۔ وہ چہرا اس نے پہلے بھی کہیں دیکھ رکھا تھا مگر کہاں یاد نہیں آرہا تھا ۔ہوتا ہے نا ایسا کہ چہرا یاد رہتا ہے وقت جگہ اور موقع بھول جاتا ہے۔ اسامہ کے ساتھ بھی اس وقت یہ ہی معاملہ ہوا تھا۔ ماضی اور حال دونوں میں اسے وہ لڑکی بہت اچھی لگی تھی۔
جب وہ ردا کے ساتھ اندر جا رہی تھی تو اسامہ نے اسے مسکرا کر دیکھا تھا ۔سیمل اس کے تاثرات دیکھ نہیں پائی تھی۔
☆☆☆
" بھائی صاحب ماشاءاللہ سے سیمل بیٹی جوان ہو رہی ہے ۔اس کی شادی کے بارے میں کچھ سوچا ہے آپ نے" وہ دڑائنگ روم کے دروازے پر تھی جب اس نے تائی امی کو کہتے سنا۔ایک دم سے اس کے اندر بے چینی پھیلی مگر کچھ بھی ظاہر کیے بنا اندر آکر بیٹھ گئی ۔
ابا کہہ رہے تھے " بھابھی مجھے کسی اچھے اور قابل لڑکے کی تلاش ہے ۔میرے تھانے میں ایک دو لوگ ہیں میری نظر میں ۔اب آگے جو اسکی قسمت میں ہوگا"
وہ کہنا چاہتی تھی کہ اسے کسی اور سے شادی نہیں کرنی ہے وہ صرف اس انسان سے شادی کرے گی جسے وہ محبت کرتی ہے لیکن کچھ بول نا سکی اگر وہ کسی بات کا اعتراف کرتی تو شاید آبا آج ہی اسکا نکاح کر وادیں کیونکہ وہ جس شخص سے محبت کرتی تھی ابا اس سے نفرت کرتے تھے ۔
خاموشی سے سر جھکائے وہ بیٹھی اپنی انگوٹھی گھماتی رہی۔
بڑوں کے درمیان اب کوئی اور موضوع زیر بحث تھا۔
سنی اسکے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا اور اپنے بازوں اسکے گردن میں ڈال لیے ۔وہ جب بھی پریشان ہوتی تھی سنی جان لیتا تھا اور ایسے وقت میں ہمیشہ وہ خود کو اس کے پاس رکھتا تھا ۔عمر میں تو وہ اس سے چھوٹا تھا مگر وہ خود کو سیمل کا بڑا بھائی کہتا تھا اور سیمل کو بھی وہ بڑے بھائی جیسا لگتا تھا۔
☆☆☆
کھانے کی میز پر مختلف چیزیں سجی تھیں ۔ میز کے اطراف میں تمام لوگ بیٹھے کھانے اور باتیں کرنے میں مشغول تھے جب اچانک ایک نسوانی سلام کی آواز آئی سب کی گردنیں آواز کی سمت مڑیں ۔
" وعلیکم اسلام ! فضا بیٹا کیسی ہو ؟ ابوبکر تمھارے ساتھ نہیں آیا کیا؟ " تائی امی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے سوال کیا ۔
" جی میرے ساتھ ہی آیا ہے پتا نہیں کہاں رہ گیا " وہ ایک کھالی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی تو احساس ہوا کہ وہاں پر کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہیں ۔" i think میں غلط وقت پر آگئی ہوں ۔آپ کے مہمان آئے ہوئے ہیں ، ابوبکر نے مجھے بتایا نہیں کہ گھر پر کسی نے آنا ہے "
" ارے یہ تو کمال چچا اور انکے بچے ہیں امی نے زکر کیا تو تھا " ردا کے بتانے پر فضا کو یاد آیا تو اس نے مسکرا کر سلام کیا اور سب کا حال بھی پوچھا ۔
"بھائی صاحب یہ فضا حق ہے اس گھر کی ہونے والی بہو " تائی امی نے اسکے بارے میں اطلاع دی ۔ "ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے "
سیمل کو لگا وہ اسامہ کی ہونے والی بیوی ہے مگر تائی امی نے اسکا خیال غلط ثابت کر دیا " ابوبکر کے ساتھ ہی پڑھتی ہے دو ماہ پہلے ہی دونوں کی منگنی ہوئی ہے "
" اوہ تو وہ ابوبکر کی منگیتر تھی " سیمل اور سنی دونوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔عینک لگائے ہوئے وہ ایک سادہ اور پڑھاکو قسم کی لڑکی لگ رہی تھی۔ تائی امی کے تعارف پر دبا دبا سا مسکرا رہی تھی ۔
ابوبکر اندر داخل ہوتے ہوئے سب کو سلام کر کے فضا کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھا ۔ اس کے بال گیلے تھے اور منہ دھلا ہوا ۔
" کمال چچا کیسے ہیں آپ ، یہاں کا موسم راس تو آگیا ہیں نا آپ کو" ابوبکر شوخ سے انداز میں بولا تھا ۔ " پولیس میں کام کرنے والوں کو ہر موسم راس آجاتا ہے اور منگنی مبارک ہو بہت" ۔
" شکریہ، بس آپ دعا کریں کہ شادی بھی جلدی ہو جائے "۔ ابوبکر باپ سے نظریں بچاتے ہوئے بولا۔
" دیکھو کتنی جلدی ہے شادی کروانے کی صاحب زادے کو " تایا ابا نے بیٹے کو گھورا تھا ۔تبھی سنی نے سیمل کو کونی ماری تھی ۔ اسکے اشارے پر جب سیمل نے سامنے دیکھا تو ابوبکر کن اکھیوں سے فضا کو دیکھنے میں مصروف تھا ۔ یقینا فضا اسے دلہن بنی ہوئی نظر آرہی ہوگی ۔
"ہاں تو شادی کا ہی کہہ رہا ہے کونسا گناہ کرنے کا کہہ رہا " تائی امی نے بیٹےکی سائد لی ۔ دو بیٹے کھونے کے وجہ سے ابوبکر ان کا زیادی لاڈلہ بن گیا تھا ۔
"ردا کا فرض بھی پورا ہوگیا ، اسکی بھی شادی ہو جائے گی بس اسامہ رہ گیا نا معلوم کب اسکی پسند کی لڑکی ملے گی۔اسے تو کوئی پسند ہی نہیں آتی کتنی لڑکیاں دکھا چکی ہوں " تائی امی فکر مندی سے بولی تھیں۔
" فکر نا کریں بھابھی انشاءاللہ بہت اچھی بہو ملے گی " ابا نے تسلی دی۔
کچھ دیر بعد چائے پی کر وہ لوگ گھر کے لیے نکل پڑے ۔ ابا نے اب دیوٹی میں مصروف ہو جانا تھا اس لیے چاہتے تھے کہ ایک بار ہی بڑے بھائی کی طرف سارا دن گزار لیا جائے۔
☆☆☆
ڈاکٹر سروت ایک نیورولوجسٹ تھیں ۔ ہفتے کے چھ دن ہسپتال میں دیوٹی دیتیں تھیں اور کسی ایک دن چٹھی کرتیں ماسوائے اس کے کہ کوئی ایمرجنسی نا ہو۔
اس دن بھی ان کا آف تھا ۔ایک دن ملتا تھا فرصت سے ناشتہ کرنے کے لیے اور اس دن وہ اپنے ناشتے میں مصروف تھیں جب وہ آکر ان کے سامنے کرسی پر بیٹھی ۔
سروت نے چہرہ اٹھا کر بغور اسکو دیکھا۔ وہ سنجیدہ اور گہری سوچ میں ڈوبی لگتی تھی ۔ چائے کا مگ سامنے رکھے اس کی سطح پر انگلی پھیڑ رہی تھی ۔مگ سے نکلنے والا دھواں انگلی کی پور کو نم کر رہا تھا۔
" کچھ بات کرنی ہے تمھے ؟ " سروت نے اندازا لگایا ۔
" جی" وہ ایک لفظی جواب بولی ۔
" کہو میں سن رہی ہوں "
وہ ایک گہری سانس لیکر گویا ہوئی۔
" میرے خیال سے اب مجھے مزید آپ پر بوجھ بن کر نہیں رہنا چاہیے !"
" تم یہاں سے جانے کی بات کر رہی ہو" سروت نے سوالیہ آبرو اتھائی ۔
"جی" ۔
"کہاں جاو گی ۔ کوئی گھر ہے تمہارے پاس۔ کوئی آسرا کوئی پناہ ہے" سروت نے جتانے والے انداز میں کہا۔
" اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ یہاں سے جانا چاھتی ہوں تاکہ آپ کے احسانوں کے بھوج تلے سے نکل سکوں"
" تمہے کس نے کہا کہ میں تم پر احسان کر رہی ہوں ۔احسان کرنا ہوتا تو تمہے اپنے گھر میں جگہ نا دیتی ۔تم میری بیٹی جیسی ہو بھلا کوئی ماں کیوں چاھے گی کہ اس کی بیٹی گھر سے باہر زمانے کے دکھے کھائے۔" وہ نرم دلی سے بولیں تھیں
" میں بہت قدر کرتی ہوں آپکی مہربانی کی آپ نے میری تب مدد کی جب کسی نے ہاتھ نا بڑھایا میں ساری زندگی آپ کا احسان نہیں چکا سکتی لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ اور مجھے یہاں نہیں رہنا چاہیے۔" وہ تشکر اور احسان مندی سے بولی تھی۔
" تم نے اپنا تو سوچ لیا مگر میرے بارے میں کیا ۔ تم چلی جاو گی تو میں اکیلی ہوں ۔ تمھاری طرح میرا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں ہے" سروت کے لہجے میں شکایت تھی۔
" آپ کا ایک بیٹا ہے لندن میں آپ اکیلی کہاں ہیں،" وہ یاد کرواتے ہوئے بولی۔
" بیٹا،ہونہہ! " سروت نے سر جھٹکا ۔
"میری صرف ایک ھی بیٹی تھی جو مر گئ تھی " اسکے علاوہ کوئی نہیں" سروت کے لہجے میں تلخی تھی۔
" آپ کیوں ناراض ہیں اپنے بیٹے سے " سروت ایک بار باتوں باتوں میں اسکو اپنے بیٹے کے بارے میں بتا چکی تھیں ۔وہ احمد کا زیادہ زکر نہیں کرتی تھیں نہ کبھی اس نے پوچھا تھا مگر آج وہ معمول کے برعکس پوچھ بیٹھی تھی۔
" وہ پانچ سال سے لندن میں ہے ' وہیں پر اس نے اپنی دنیا بسا لی ہے ۔
کچھ یاد ہے اسے پاکستان میں ایک ماں بھی ہے اسکی ۔" سروت کا لہجہ ناراضی لیے ہوئے تھا ۔
کچھ دیر تک دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی ۔
" کیا آپ اپنے بیٹے کو معاف نہیں کر سکتیں ؟ " وہ بغور سروت کا چہرا دیکھتے ہوئے بولی ۔
" ضرور کروں گی مگر وہ واپس تو آئے ۔ بے شک مجھ سے معافی نہ مانگے بس ایک بار گلے سے لگ جائے ۔ پھر کیا گلہ اور کیا معافی ۔" وہ روندھی ہوئی آواز میں بولیں ۔
وہ بس انہیں افسوس سے دیکھتی رہ گئی۔
" تم بتاو کیا معاف کر سکتی ہو اسے جس نے تمھارے ساتھ برا کیا " ۔ سروت نے بہت مشکل سوال کرلیا تھا ۔ وہ بہت دیر تک چائے کے کپ پر انگی پھیرتی رہی۔
" مجھے معلوم نہیں اگر وہ میرے سامنے آیا تو میں کیا کروں گی ۔" اسکی آواز ڈوبی ہوئی سی لگتی تھی۔
" محبت یا نفرت ! یہ ہی سوچ رہی ہو نا " سروت نے جیسے اسکا مسئلہ حل کیا تھا مگر وہ اور پچیدہ ہو گیا تھا۔
" محبت سے زیادہ نفرت اور نفرت سے زیادہ محبت۔ مگر میں کبھی اسکو معاف نہیں کروں گی" وہ پختہ لہجے میں کہہ کر اٹھ گئی ۔ چائے کا کپ بھرا کے بھرا ہی رہ گیا۔
□□□
پانچ سال تک وہ دادا کے ساتھ ہی رہا تھا پھر دادا کے گزر جانے کے بعد بڑی پھوپھو اسے ساتھ لے گئیں ۔ بڑی پھوپھو کے گھر میں بہت سے بچے تھے۔ بڑی پھوپھو کی پانچ جیٹھانیاں تھیں اور سب کے تین چار بچے تھے یعنی ایک چھوٹا سا چڑیا گھر تھا۔ اور سب جیٹھانیوں کا یہ ہی کہنا تھا کہ ہر کام تمھارا بھتیجا خراب کرتا ہے ۔ تمھارا بھتیجا ہمارے بچوں سے لڑتا ہے ۔ اور نا جانے کیا کیا شکاعتیں ۔ ناہید کو مجبورا اسے بوڑدنگ بیجھنا پڑا تھا ۔ وہ ہر وقت اس کے لیے پریشان رہتی تھیں ۔ ایک ہی بھائی تھا ان کا اور ایک ہی بھتیجا ۔ وہ اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں مگر جھٹھانیوں نے شکاعتیں اور طعنے دے دے کر اسے ناہید سے دور کر دیا ۔ اب وہ صرف سال بعد چھوٹیوں میں ناہید سے ملتا تھا۔
□□□
" سنی تیار ہو جاو سکول بس آنے والی ہو گی ۔" سیمل نے سنی کو آوازیں لگائیں جو بد دل سا ڈھیلے انداز میں سکول بیگ میں چیزیں ٹھوس رہا تھا ۔ سیمل کی آواز سن کر ڈوڑ کر باہر آیا ۔
" کیا سکول بس ! ہم گاڑی میں نہیں جائیں گے کیا سیمو" وہ آنکھیں پھاڑے پوچھنے لگا ۔
" میں نے انٹرویو کے لیے جانا یے سنی میرا روٹ دوسرا ہے ۔ تمہیں چھوڑوں گی تو لیٹ ہو جاوں گی ۔ اور ویسے بھی اب تم روز بس میں ہی سکول جایا کرو گے۔ " سیمل نے اسے اطلاع دی تو سنی کا منہ لٹکا ۔
" لیکن میں گم ہو گیا تو " ایک دم وہ معصوم سی صورت بنا کر بولا ۔
" میرے خوبصورت سے شیطان تم گم ہونے والی چیز نہیں ہو ۔ " سیمل نے اس کا کان ہلکے سے مڑوڑ تے ہوئے کہا ۔
سکول بس آگئی تو سنی کو روانہ کر کے وہ خود بھی نکل گئی ۔ وہ پہلے ہی دن لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی ۔ راستے میں گزرتے ہوئے درخت ۔ مکان اور عمارتوں کو دیکھتے ہوئے سیمل کی گاڑی آگے بڑھ رہی تھی اس بات سے انجان کہ کوئی بچھڑا ہوا ملنے والا ہے ۔
□□□
ہائی ہیل کی ٹک ٹک فرش پر آگے بڑھتی جارہی تھی ۔ آفس میں ارد گرد کام کرتے لوگ سر اٹھاتے زینت کو سلام کر ریے تھے جس کا جواب وہ سر کے خم سے دیتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ۔ وہ درمیانی عمر کی عورت تھی اور خوب میک اپ اور بٹکس کے باوجود بھی اسکی عمر چھپ نہیں رہی تھی۔ وہ مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ مین آفس میں داخل ہوئی اور دروازہ بند ہوتے ہی چہرے کے زاویے بدلے ۔ مسکرہٹ کی جگہ غصے نے لے لی ۔
" تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری بھانجی کو بے عزت کر کے آفس سے نکالنے کی" زینت مٹھیاں ٹیبل پر رکھتے ہوئے دانت بھینچ کر بولی ۔
دوسری طرف پاور سیٹ پر بیٹھے آدمی نے اپنی سیٹ زینت کی طرف موڑی ۔ وہ ترکش خدوخال رکھنے والا عمدہ شخصیت والا انسان تھا ۔ گہری نیلی آنکھیں جن میں اس وقت سرد مہری تھی۔ " اسے خود اپنی بے عزتی کر وانے کا شوق تھا ۔ میں نے بس پورا کر دیا ۔" وہ کاندھے اچکاتے ہوئے تلخی سے بولا ۔
" کیا کیا تھا اس نے " زینت اب کے خود کو کمپوز کر کے بولی تھی ۔
" وہ میری اجازت کے بغیر میرے آفس میں آتی ہے ۔ میرے آفس کی حالت بگاڑ دیتی ہے ۔ اور میں سب کچھ برداشت کر جاوں۔؟ " آبرو اچکا کر زینت سے سوال کیا
" حبا نے صرف تمہے بڑتھ ڈے وش کرنے کے لیے وہ سب سجاوت کی تھی مگر تم ایک سنگ دل بے حس انسان ہو ۔ اتنی باتیں سنا دیں تم نے اسے ۔ " زینت بے یقینی سے بولی تھی ۔
" صرف ایک شٹ اپ اور گیٹ لاسٹ کہنے سے بے عزتی نہیں ہوتی اور آئندہ وہ یاد رکھے گی اس آفس میں میری مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا ۔" وہ دانت پیستے ہوئے بولا ۔
" تمھاری مرضی ۔۔!" زینت نے نفرت سے سر جھٹکا ۔ " بھولوں مت تم آج اس جگہ میری وجہ سے ہو ۔ اگر میں تمہے کمپنی میں شیئر نا دیتی تو دیکھتی آج تم کہاں معزوری کی زندگی گزار رہے ہوتے ۔" وہ آگے کو جھکی چباچبا کر بولی تھی۔
"معزوری ۔۔!" وہ ہنس کر سر جھٹک گیا ۔" شکر کہ مجھے جسمانی معروضی ہے مگر تمہے دماغی ہے اور یقین کرو وہ بہت خطرناک ہوتی ہے ۔" وہ زینت کو بھی طعنہ دینے سے رکا نہیں تھا ۔
اسکی بات سن کر زینت کے کان سرخ ہوئے وہ کچھ بولنے لگی مگر وہ پہلے ہی بول پڑا ۔
" اور اگر بات اوقات کی ہے تو تم ایک بے وقوف عورت ہو جسے کاروبار کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔ اگر میں نا ہوتا تو پھر میں دیکھتا کہ تم اس دماغی معزوری کے ساتھ کیسے زندگی گزارتی۔" نیلی آنکھوں میں ایک دم آگ بڑھکی تھی اور لہجے کی تپش زینت کو اندر تک سلگا گئی ۔
" مجھے بہت سے کام ہیں ۔ بہتر ہے کہ تم اپنی شکل میرے سامنے سے گم کرلو ۔" سامنے پڑی فائل کھولتے ہوئے زینت کو دفعان ہونے کہا ۔
وہ با مشکل خود کو کمپوذ کرتی پیر پٹختی دروازے کی طرف بڑھی جب پیچھے سے مردانہ جتاتی ہوئی آواز ابھری۔
" اپنے باس سے کہو کسی قابل اور شاطر انسان کو میری جاسوسی پر رکھے "
زینت کا دروازے کے ہینڈل پر رکھا ہاتھ جامد ہوا ۔ دونوں آنکھیں پھیلیں چہرے کا رنگ فق ہوا پھر ایک دم دروازے کھولتے ہوئے باہر نکل گئی۔
□□□
" مے آئی کا۔۔۔" آفس کے اندر داخل ہوتی ہوئے سیمل ایک دم ٹھٹتکی ۔ پاور سیٹ بر بیٹھے شخص کو وہ ایک ہی نظر میں پہچان گئی تھی ۔ پہلے وہ بہت مختلف تھا ۔ مگر اب کیا بدل گیا تھا اس میں ۔شاید سب کچھ ہی
" یوسف !" وہ بے یقینی سے اس کا نام بولی ۔ سر اٹھا کر اوپر دیکھتے وہ بھی حیران رہ گیا تھا ۔
سیمل آہستہ سے آگے آئی اور سیٹ کی پشت پکڑی ۔ " تم کہاں چلے گئے تھے۔ تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا تمھارے اچانک غائب ہونے سے مجھے کتنی تکلیف ہوگی ۔" وہ شکاعتی انداز میں بولی تھی ۔ حقیقت کیا ہے یہ جانے بغیر۔
□□□