ہندوستان کی قومی تحریک اور جنگِ آزادی کی تاریخ میں بیسویں صدی کے اوائل کا دور ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ۱۹۵۷ء کی تحریک کی ناکامی کے بعد جاگیرداروں اور حکمرانوں کے طبقہ کے ہاتھوں میں تحریک کی قیادت آ چکی تھی اور ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں نے سارے ایشیا (بشمول ہندوستان) میں ایک بیداری لائی تھی جب کہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور مغربی طاقتوں، بالخصوص انگریزوں کی ریشہ دوانیوں نے مسلمانانِ عالم میں بے اطمینانی کا ماحول بنا رکھا تھا۔ اس سیاسی منظر نامہ کی سب سے موثر ترجمانی جس ایک شخص نے کی وہ مولانا محمد علی جوہر تھے۔
محمد علی جوہر ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ کا حصہ بنے بلکہ انھوں نے نئی تاریخ رقم کی۔ ہندوستانی سیاست کو گفت و شنید کے دائرے سے نکال کر عوامی تحریک کا مزاج دینے کا سہرا بھی محمد علی جوہر کے سر ہے۔ ظلم و استبداد کے خلاف ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کے بعد بلند و بانگ نعرہ بلند کرنے والوں کے قائد محمد علی جوہر ہی تھے۔ غاصبانہ حکومت اور حاکموں کے خلاف پہلی عدم تعاون کی تحریک کا خاکہ بھی محمد علی جوہر نے مرتب کیا تھا۔ ملک و ملت کے لیے سرفروشی اور جانثاری کا معیار محمد علی جوہر اپنی قربانی اور ایثار سے مرتب کر گئے۔ بحیثیت صحافی انھوں نے بے باک، بے خوف اور مقصدی صحافت کی بنیاد ڈالی۔ ہفت روزہ ’’کامریڈ‘‘ اور روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ صحافت کی دنیا میں آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ بحیثیت شاعر محمد علی جوہرؔ کی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ وہ روایت کے پابند رہے اور اردو شاعری کو انھوں نے ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ انھیں شاعری سے زیادہ سیاست اور صحافت سے زیادہ دلچسپی رہی۔ انھوں نے اپنے ذہن، مزاج اور خیال کے اظہار کے لیے صحافت کو ذریعہ بنایا لیکن شاعری کی حیثیت ان کے لیے ہر دور میں ثانوی ہی رہی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں محمد علی جوہرؔ کی روح مجاہد کی تھی لیکن دل شاعر کا تھا۔ انھوں نے قلندرانہ شان سے زندگی گزاری اور یہی انداز شاعری میں بھی برقرار رہا۔ ان کے دلی جذبات، احساسات، تجربات اور کرب پوری بے تکلفی اور بے ریائی کے ساتھ قلم سے مترشح ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے خود اپنی شاعری کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی شاعری محض ان کے درد کی آواز ہے۔ عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
’’تکلف اور تصنع سے محمد علی کی زندگی کا ہر شعبہ پاک تھا۔ وہی رنگ یہاں بھی ہے۔ شعر کہنے میں معلوم ہوتا ہے کہ بے تکلف باتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ کسی قسم کی تیاری، نہ کوئی اہتمام، کیسی نظر ثانی اور کہاں غور و فکر، نہ اصلاح، نہ ترمیم، بس جو دل میں آیا جھٹ کہہ گزرے۔ یہی حال شعر کا بھی ہے۔‘‘
(محمد علی جوہر: ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،ص ۱۵۰)
دہلی اور لکھنؤ کے ادبی مراکز کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد انیسویں صدی کی آخری دو دہائی میں داغؔ ، امیرؔ ، تسلیمؔ اور عروجؔ وغیرہ رامپور میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔ ان کے دم سے شعر و سخن کی محفلیں شباب پر تھیں۔ گھر گھر شعرو شاعری کا چرچا تھا۔ محمد علی کے خاندان کے تمام افراد رامپور میں قیام پذیر تھے اور شعر گوئی اور سخن فہمی ان کے مزاج میں شامل تھی۔ چنانچہ محمد علی کو بھی شعر گوئی اور شعر خوانی کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ رام پور کی ادبی فضا کا یہ اثر ہوا کہ محمد علی شعر کہنے لگے اور جوہرؔ کا تخلص اختیار کیا۔ جوہرؔ نے شاعری کا آغاز عشق و عاشقی معشوق کی شوخی و دل ربائی اور عاشق کی مے نوشی جیسے موضوعات سے کیا جس میں سرشاری اور سرمستی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیے ؎
ذرا دم لے صبا پھر سیرِ گل دل کھول کر کرنا
ابھی یہ عندلیب کم سخن کچھ اور کہتی ہے
حرم میں کر تو دے اظہارِ ترک مئے کشی جوہرؔ
مگر کمبخت کی جوئے دہن کچھ اور کہتی ہے
۰۰۰۰۰
غیر کا خط ہے کہ دل ہے کسی دلدادہ کا
کچھ تو ہے تم نے جو مٹھی میں چھپا رکھا ہے
آپ آئے ہیں عیادت کو دم نزع محبت
جوہرؔ خستہ میں اب کہیے تو کیا رکھا ہے
یہ اشعار رسمی اور روایتی انداز کے حامل ہیں جن پر داغؔ کا اثر نمایاں ہے لیکن یہ کسی مبتدی کے مشقِ سخن کا حاصل نہیں معلوم ہوتے۔ یہ اشعار اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ ان کا خالق فنِ شاعری کے رموز و نکات سے آشنا ہے۔ ان اشعار میں روایتی شاعری کو اظہار کا ایک نیا پیراہن عطا کیا گیا ہے اور تغزل پوری رعنائی کے ساتھ موجود ہے۔
۱۸۹۰ء میں محمد علی جوہرؔ اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ گئے اور وہاں ان کی شاعری میں نکھار پیدا ہوا۔ یہاں انھیں شبلی نعمانی کا قرب حاصل ہوا اور علی گڑھ کی ترقی پسند فضا میں ان کے شعری ذوق کو صحیح سمت اور رفتار ملی۔ علی گڑھ نے محمد علی جوہرؔ کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ سر سید ان کے آئیڈیل تھے اور ایم اے او کالج ان کی نظر میں ہندوستانی مسلمانوں کے نشاۃ الثانیہ کی آخری امید تھا۔ بحیثیت شاعر محمد علی جوہرؔ کے لیے علی گڑھ کا قیام ایک سنگِ میل رکھتا ہے۔ یہاں آنے کے بعد ان پہ داغؔ کے اثرات بتدریج کم ہونے لگے۔ ناز و نیاز شوق و انتظار اور گل و بلبل کے روایتی اور سطحی خیالات کی جگہ اشعار میں معنویت اور مقصدیت جگہ پانے لگی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ محمد علی جوہرؔ کی شاعری کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’مولانا محمد علی جوہرؔ ذہنی اعتبار سے شبلی کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ شاعری پر اصلاح انھوں نے بھلے ہی داغؔ سے لی ہو لیکن ذہنی مناسبت انھیں شبلی نعمانی سے تھی۔ یہ مناسبت صرف تحریکِ آزادی کی وجہ نہیں بلکہ جمالیاتی اور شعری اعتبار سے بھی تھی۔ شاعری میں انھوں نے بڑی حد تک اسی طرزِ فغاں کو اپنایا جس کی طرح شبلی کے رچے ہوئے ذوق، احساسِ تغزل، رنگینی بیان اور رمزیہ نے ڈالی تھی۔‘‘
(محمد علی جوہر: ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،ص ۱۵۶)
علی گڑھ میں انھیں بزرگوں کی علمی اور ادبی صحبتیں نصیب ہوئیں لیکن شاعری میں وہ کسی حد تک آزاد پسند رہے۔ ان کی شاعری میں سرشاری، سرمستی اور والہانہ سپردگی ہے۔ حکیمانہ و ناصحانہ تیور اختیار کرنے سے انہوں نے ہمیشہ گریز کیا۔
سید سلیمان ندوی کے مطابق محمدعلی جوہرؔ کی شاعری کا جوہر قید خانے میں جا کر کھلا۔ ایامِ اسیری میں ہی جوہرؔ کے جوہر زیادہ بہتر طور پر کھلے ہیں۔ ان کی شاعری میں ان کا ملی اور قومی جوش، عقیدہ و ایمان نمایاں ہیں۔ وہ ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۹ء تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ تنہائی میں ان کا ذہن و دل ملت کے وقار اور وطن کی آزادی کے لیے سرگرم رہا۔ وہ اسلامی اقدار کے احیا قومیت کے فروغ اور حب الوطنی کے جذبات کو عام دیکھنا چاہتے تھے۔ نظر بندی، قید و بند اور تنہائی جوہرؔ کو شعر گوئی کی طرف مائل کرنے میں محرک ثابت ہوئی۔ اس لیے ان کی شاعری میں حوصلوں کی جلوہ گری کے ساتھ نا امیدی کا کرب بھی محسوس ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں انھوں نے اپنی شاعری میں بے زاری اور نفرت کا زہر نہیں گھولا بلکہ حوصلہ، ہمت اور رواداری کی باتیں کی ہیں۔ یہ اشعار دیکھیے ؎
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لیے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
۰۰۰۰۰
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ
دنیا میں ہی بیٹھے ہوئے جنت کی فضا دیکھ
ہوں لاکھ نظر بند دعا بند نہیں ہے
اللہ کے بندوں کو نہ اس درجہ ستا دیکھ
۰۰۰۰۰
یادِ وطن نہ آئے ہمیں کیوں وطن سے دور
جاتی نہیں ہے بوئے چمن کیا چمن سے دور
گر بوئے گل نہیں نہ سہی یادِ گل تو ہے
صیاد لاکھ رکھے قفس کو چمن سے دور
۰۰۰۰۰
کثرتِ شوق سے ہے ہجر میں بھی رنگِ وصال
ہم نے لوٹے ہیں بہت تیری جدائی کے مزے
طبع آزاد اسیری میں بھی پابند نہ تھی
قید میں ہم نے اٹھائے ہیں رہائی کے مزے
۰۰۰۰۰
ہوں لائقِ تعزیر پہ الزام ہے جھوٹا
مجرم تو ہوں بیشک پہ خطا اور ہی کچھ ہے
سرکش نہیں باغی نہیں غدار نہیں ہم
پر ہم پہ تقاضائے وفا اور ہی کچھ ہے
ان اشعار میں ایک وطن پرست مجاہد کی تمنا، جوش، حوصلہ اور سرشاری کا بھر پور اظہار ہوا ہے۔ ان اشعار میں دیوانگی کی ایک کیفیت ہے اور ثابت قدم رہنے کی تلقین بھی۔ جذبات کے بہاو کی بھرپور ادائیگی مناسب و موزوں الفاظ میں ہوئی ہے۔ یاس و نا امیدی کے ساتھ حوصلوں کی جلوہ گری بھی ہے۔ ایک حساس شاعر کی حیثیت سے جوہرؔ ان واردات سے متاثر ہوئے ہیں جو ان کے علم میں آئی اور انھوں نے اپنے تاثر اور خیال کو موثر پیرائے میں ادا کیا۔ لہجہ سبک اور نرم ہے جس میں ایک دلنواز موسیقیت ہے۔ جذبۂ سرفروشی اور جاں نثاری نے خطابت کا انداز اختیار کیا ہے۔ جوہرؔ عشقِ صادق کی کسک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جوہرؔ نے ہمیشہ نظر اور نظریے کی شاعری کی ہے۔ وہ ایثار کے طالب اور قربانی کے داعی تھے۔ انھوں نے خوابوں کو پروان چڑھایا اور خاکوں میں رنگ بھرنے کی تلقین کی۔ انھوں نے اپنی شاعری میں واردات، حادثات، تجربات اور تصورات کو الفاظ کا خوبصورت جامہ پہنایا ہے۔ ان کے یہاں غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کے نقوش بھی نمایاں ہیں جن میں جذبات کی شدت اور دل کی حرارت نے ایک منفرد آہنگ پیدا کر دیا ہے۔ ان کے اشعار ان کے متاسفانہ خیالات کے ترجمان ہیں۔ ہر شعر ایمان و عمل اور صدق و صفا کا پیغامبر ہے۔ درد میں لذت کا احساس قاری کو سکون و اطمینان کی نئی منزلوں سے آشنا کرتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی جوہرؔ کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جوہرؔ کی شاعری میں سیاسی رنگ کم ہے، مذہبی رنگ زیادہ۔ ان کی شاعری اقبالؔ کی شاعری جیسا مرتبہ، وسعت یا گہرائی نہیں رکھتی لیکن اپنے بہترین لمحوں میں وہ ظفر علی خاں سے بہتر یقیناً ہیں۔ جہاں وہ سیاسی افکار و نظریات یا صورتِ حال کے بجائے صرف ذاتی حوالے سے حبسیہ شاعری کرتے ہیں وہاں ان کی عام سطح بلند ہو جاتی ہے۔‘‘
(محمد علی جوہر: ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،ص ۱۷۶)
شاعری جوہرؔ کی شخصیت کا جزو تھی اس لیے اس میں بھی انھوں نے اسی انداز میں اپنے معنی خیز خیالات کا اظہار کیا۔ صحافت میں جس بے باکی اور نڈر پن سے انھوں نے اظہارِ خیال فرمایا اس سے انحراف کرتے ہوئے شاعری میں انھوں نے زیادہ پختگی اور نرمی کا ثبوت دیا ہے۔ ایامِ اسیری کے بعد کے دنوں میں کہی گئی غزلوں میں بھی جوہرؔ نے جذبے، حوصلہ اور اعتماد کا اظہار کیا۔
یہ غزل دیکھیے ؎
دورِ حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرم تمنا سزا کے بعد
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ہے کس کے بل پہ حضرتِ جوہرؔ یہ روکشی
ڈھونڈیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد
اردو شاعری کا مختصر سے مختصر ترین انتخاب بھی کیا جائے تو جوہرؔ کی یہ غزل نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ اس غزل میں حق و باطل کے معرکے، حوصلہ و ایثار کی باتیں کی گئی ہیں۔ جوہرؔ اپنے مذہبی احساسات اور یقین کامل کو تغزل سے ہم آمیز کرتے ہیں۔ غزل قاری کو نئی فکر اور نئی توانائی بخشتی ہے۔ اشعار میں توسیعِ معنی کا عمل واضح ہے۔ استعمال کیے گئے الفاظ کی نشست چست اور پراثر ہے۔ استعمال شدہ کلیدی الفاظ مثلاً حنا، قتل، حسین، مرگ یزید، لطفِ جرم لذتِ ہنوز اور کربلا کا استعاراتی استعمال معنویت کو وسعت دیتا ہے۔ اشعار میں تصورات کا کوئی گذر نہیں ہے۔ صرف عقیدت، محبت اور اعتماد کا اظہار ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں:
’’اگر جوہرؔ نے اور کچھ نہ لکھا ہوتا اور یہی غزل کہی ہوتی تو بھی اردو کے جریدۂ شعراء پر ان کا نام ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جاتا۔‘‘
(محمد علی جوہر: ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،ص ۱۸۰)
کلیم الدین احمد نے جوہرؔ کی غزل کی اہمیت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
’’انھوں (جوہرؔ) نے بہت کم غزلیں کہیں۔ ان کی غزلوں میں آپ بیتی ہے۔۔ ۔۔ ۔ اک خلوص ہے جس سے ایک نئی بات پیدا ہو گئی ہے۔ میں جوہرؔ کی غزلوں کو کوئی بڑا کارنامہ نہیں سمجھتا ہوں لیکن ان کی غزلوں میں خلوص کی آواز ہے جو اردو شاعری میں کم ملتی ہے اور یہ بڑی بات ہے۔ پھر یہ غزلیں غزلوں کے عام نہج سے ہٹ کر لکھی گئی ہیں اور ان میں ذاتی واقعات اور سیاسی واردات کی طرف بھی اشارہ ہے۔ جوہرؔ کی نجی زندگی کا عکس بھی ہے اور سیاسی زندگی کا بھی۔‘‘
(محمد علی جوہر: ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،ص ۱۷۵)
معرکۂ کربلا کو جوہرؔ کی شاعری میں مرکزیت حاصل ہے۔ معرکۂ کربلا کو وہ نہ صرف نظریاتی مرکز مان کر باطل سے ٹکرانے کا حوصلہ حاصل کرتے ہیں بلکہ اسے مشعلِ راہ تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے معرکۂ کربلا کو ایک نئی استعاراتی وسعت دی ہے۔ کربلا کی یاد ان کے ذہن میں ہر دم تازہ رہی اور یہ ان کے جذبۂ ایثار، جذبۂ شہادت اور شوقِ دارورسن کو استقامت بخشتا ہے۔ کربلا ان کی شاعرانہ فکر اور شخصیت کا ناقابلِ تنسیخ جز تھا اس لیے کربلا کو انھوں نے اپنے تخلیقِ اظہار کا حربہ بنایا۔ معرکۂ کربلا اور قتلِ حسین کا ذکر ان کی شاعری میں مختلف تناظر میں ہوا ہے۔ کربلا کے تعلق سے ان کے درج ذیل اشعار میں فہم و فراست کی ایک دنیا آباد ہے ؎
مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا
۰۰۰۰۰
پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو
خوش ہوں کہ وہ پیغام قضا میرے لیے ہے
۰۰۰۰۰
کہتے ہیں لوگ ہیں وہی ظلمات پر خطر
کچھ دشتِ کربلا کے سوا ہو تو جانییِ
۰۰۰۰۰
روزِ ازل ہی سے ہے وہی مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ ہی سودائے کربلا
۰۰۰۰۰
شکر حق ہے کہ ابھی حق کی حمایت کے لیے
جان دینے کو ہیں موجود غلامانِ حسین
اردو ادب میں کربلا ایک آفاقی استعارہ بن گیا ہے۔ واقعاتِ کربلا اور مرگِ حسین کو انیسؔ و دبیرؔ نے مرثیہ کی شکل میں معراج تک پہنچا دیا۔ جوہرؔ کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے غزل کے پیرائے میں اس سانحہ کو مختلف رنگ میں باوقار طریقہ سے پیش کیا ہے۔ انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیوں میں ماحول ماتمی ہے لیکن جوہرؔ سرشاری اور جاں نثاری کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سینہ کوبی کے بجائے سینہ سپر ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ کربلا جوہرؔ کے نہ صرف ذہن بلکہ دل کے قریب تھا اور انھیں اس بات کا یقین تھا کہ حسین ابنِ علی کے مجاہدانہ قدم نے انسانیت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جو تاقیامت حق پرستوں میں عمل کی ترغیب دے گی۔ جوہرؔ کا یقین ان کے اشعار میں نمایاں ہے۔ بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ:
’’اردو شاعری میں وہ اپنے سخن کی دلنوازی اور جان کی پرسوزی کے لئے فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ انہوں نے غزل میں قومی و ملی جذبات سے ایک معنوی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ ان کا منظر نامہ جذبۂ شوقِ شہادت سے نالۂ رنگ نظر آتا ہے۔ انھوں نے جوشِ تخلیق میں اس امیجری اور واقعۂ کربلا اور منصور کے ملفوظی اور حسیاتی متعلقات کو نئے قومی اور سیاسی مفاہیم کے لیے برتا اور اس طرح اردو غزل کو نئے ذائقے سے آشنا کرایا۔ ان کی غزل کی زمین جذبۂ حریت کے خون کے چھینٹوں سے سرخ ہے۔ اس میں شہادت کا مژدہ بھی ہے اور حیاتِ جاوداں کی بشارت بھی۔‘‘
(محمد علی جوہر: ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،ص ۱۸۲)
جوہرؔ کی ہر سانس ملک و ملت کے لیے وقف تھی۔ وہ صعوبتیں برداشت کرنے کے قائل تھے اور انہیں اطاعت قبول نہ تھی۔ کاملِ آزادی کی جگہ پردرجۂ مستمرات انھیں منظور نہ تھا۔ انھوں نے ’’ہندوستان ہے صرف ہندوستانیوں کے لئے‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ ان کے خوابوں کا وطن متحدہ ہندوستان تھا۔ ساجھے داری کے وہ قائل تھے۔ طابع داری انھیں منظور نہ تھی۔ ملک و ملت کے لیے انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ہر گام پر وہ ثابت قدم رہے۔ جوہرؔ سیکولزم کے نقیب تھے اور حب الوطنی کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے بڑی تندہی سے کام لیا۔ وہ ہر قسم کی عصبیت اور امتیاز سے مبرہ تھے۔ وہ سیاست کے مردِ میدان تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ملتِ اسلامیہ کا درد بیان کیا اور وطن کی آزادی کا پیغام بھی دیا۔ اختربستوی کے مطابق:
’’حبِ ملک اور عشقِ مذہب کے یہ دو جذبے ہی ان کے قلب و ذہن کے محور تھے اور ان کے تمام جذبات ومحسوسات، افکار و خیالات اور اعمال و افعال میں ان دو جذبوں کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ موصوف کی شاعری چونکہ ان کے قلبی اور ذہنی کیفیات اور ان کے کردار و عمل کی سچی آئینہ دار ہے اس لیے ان کے بنیادی محرکات میں بھی یہی دو جذبے ہیں۔‘‘
(محمد علی جوہر: ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،ص ۱۸۳)
عشقِ خالق اور عشقِ رسول جوہرؔ کی زندگی کا خاصہ تھے۔ وہ ایک صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ ایک مردِ مومن کی طرح ان کے دل میں اللہ اور ان کے پیغمبر کی بے پناہ محبت تھی۔ زندگی کے تجربات نے اس عقیدت اور محبت کو پروان چڑھایا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عقیدے کے ساتھ دل کا درد بھی ہے۔ جوہرؔ نے اپنی زندگی کے قریب سات سال قید و بند میں گزارے اور اسی قید و بند کی صعوبتوں نے ان کی شعری فکر کو نئی بلندیوں سے آشنا کیا۔ قید کی تنہائیوں میں انھوں نے صبر و سکون سے رشتہ استوار کیا اور جورو ستم کو نیا مفہوم عطا کیا۔ جیل میں کہے گئے جوہرؔ کے اشعار اردو شاعری کے شہکار ہیں۔ حق پرستی، شوقِ شہادت اور ذوقِ زنداں کو جب شاعری کا رنگ و آہنگ مل جائے تو تاثیر لامحدود ہو جاتی ہے۔ جوہر کی شاعری میں یہ اثر موجود ہے۔
اردو شاعری میں اساتذہ کی زمینوں میں غزل کہنے کا رواج عام ہے۔ غالبؔ اور اقبالؔ جیسے بلند مقام شعرا کے یہاں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ جوہرؔ نے بھی پیش رو شعرا کی زمینوں میں شعر کہے ہیں لیکن وہ اپنے امتیاز اور انفرادیت کو قائم رکھنے میں حد درجہ کامیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت شاعر جوہرؔ کی اپنی ایک شناخت ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد نے شاعری کو ایک ساز قرار دیا ہے جس کے تار پردئے وجدان کی ہوا سے بجتے ہیں۔ شاعر مجبور نہیں مختار ہے۔ وہ صرف وجدان پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ شعوری طور پر غور و فکر کر کے اپنے جذبات و خیالات کا اظہار بھی کرتا ہے۔ جوہرؔ کے دل کے پردے میں بھی وجدان کی ہوا سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور جذبات و خیالات اشعار کے پیرائے میں ڈھل جاتے ہیں۔ جوہرؔ کی شاعری میں نغمہ نالۂ دل کی گہرائیوں سے وجود میں آتا ہے۔ ان کی شاعری میں کسی فکر اور فلسفہ کی تلاش کارِ عبث ہے۔ جوہرؔ مفکر نہیں مصور ہیں۔
محمد علی جوہرؔ کی شاعری کا عرصہ طویل نہیں ہے۔ دیوان (دیوانِ جوہرؔ) بھی مختصر ہے لیکن شاعری میں شدت، احساس اور صداقت کا عنصر نمایاں ہے۔ مضامین میں اکثر و بیشتر یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کا بھی بیان ہے۔ جوہرؔ وطن کے جانثاروں میں سے تھے اس لیے سر خم کرنے کی بجائے سر قلم ہو جانے کی ترغیب دیتے رہے۔ شاعری میں بھی ان کا لہجہ نرم اور سبک رہا ہے۔ خطابت اور درس کے وہ قائل نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں تغزل کو رفعت بخشی اور تشبیہہ و استعارہ، ایجاز و اختصار اور پیکر تراشی کے کامیاب نمونے پیش کیے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ سیاسی و سماجی پس منظر میں کیا جائے تو اس کی اہمیت و افادیت میں اضافہ ہو گا۔
**
کتابیات:
۱ جوہرؔ اور ان کی شاعری: عبدالماجد دریا آبادی، مکتبہ جامعہ نئی دہلی، ۱۹۳۶ء
۲ مولانا محمد علی جوہر: شہزاد انجم، ساہتیہ اکاڈمی، نئی دہلی، ۲۰۰۶ء
۳ مولانا محمد علی جوہر: مرتبہ ایک عہد ساز شخصیت، معصوم عزیز کاظمی،
خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، ۲۰۱۱ء
۴ محمد علی جوہرؔ : شخصیت اور خدمات: مرتبہ سید نظر برنی ادبی سنگم، نئی دہلی، ۱۹۷۶ء
۵ مولانا محمد علی: ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۹۲ء
٭٭٭
مطبوعہ : ششماہی فروغِ اردو بھونیشور، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۵ء