سر زمینِ مشرق نے یوں تو کئی عظیم المرتبت شخصیتوں کو جنم دیا ہے جن کے افکار نہ صرف موجودہ دور میں اپنی کرنوں سے روئے زمین کو منور کر رہے ہیں بلکہ آئندہ صدیوں میں بھی یہی روشنی صلح و آشتی کا پیغام دیتی رہے گی۔ مگر علامہ اقبال اس اعتبار سے ممتاز ہیں کہ مشرق کا یہ شاعر اپنی بصیرت و علمی افکار کی وجہ سے تمام عالمِ ادب کی نظروں کا مرکز بن گیا۔ اس کی شاعرانہ صلاحیت نے غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور قومی آزادی کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ در اصل علامہ اقبال نے حکیم الامت بن کر آنے والی نسلوں کے لیے فہم و ادراک حکمت و بصیرت کے ایسے چراغ روشن کر دئیے ہیں جن کی روشنی کبھی ماند پڑنے والی نہیں ہے۔
علامہ اقبالؔ کو دنیا ایک مفکر، فلسفی، صوفی اور انقلابی شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان پر اور ان کے کلام پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے جو ایک دفتر کے برابر ہے۔ مضامین اور مقالات کا تو کیا ذکر، ان پر اور ان کی شاعری پر مستقل تصانیف کی تعداد بھی کافی بڑی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور انشاء اللہ مدتوں تک جاری رہے گا۔ ان کی شاعری کے مطالعے اور ان کی بابت تحقیق کا شوق بھی باقی رہے گا اور اس تحریری و تصنیفی ذخیرے سے ان کی شخصیت اور ان کے کلام، فکر و فلسفہ کی خوبیاں سمجھنے میں مدد ملتی رہے گی۔ اب تک جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ بھی ایسے اصحاب کی کاوش کا نتیجہ ہے جن کا مطالعۂ اقبال وسیع رہا ہے اور جو نقد و نظر کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں ان کے ایک عام قاری یا کلامِ اقبال اور فکرِ اقبال کے ایک معمولی طالبِ علم کے لیے اس اہم موضوع پر کوئی نئی بات کہنا بہت مشکل ہے۔ میں اپنا شمار اقبال کے ہزاروں عام قارئین اور شیدائیوں میں کرتا ہوں اور اسی لیے جب مجھے دعوت ملی تو کچھ تذبذب ضرور ہوا مگر پھر یہ سوچا کہ یہ موقع انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ہے کیوں نہ ان کے متعلق اپنے تاثرات قلم بند کروں جہاں ان کا گہرا مطالعہ کرنے والے اربابِ نقد و نظر کی تحریروں سے مستفید ہوتے رہے ہیں عام قاری اپنے ہی زمرے کے ایک شیدائیِ اقبال کے تاثرات سے واقف ہو جائیں۔
اردو میں بچوں کے ادب کی روایت کا با قاعدہ آغاز سر سید احمد خاں کی اصلاحی تحریک کے زیرِ سایہ ہوا۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ ، علامہ شبلی نعمانی، مولوی ذکاء اللہ، محسن الملک، مولانا محمد حسین آزادؔ ، ڈپٹی نذیر احمد اور دیگر رفقائے سر سید نے بچوں کے اخلاق و عادات اور ان کی ذہنی نشو و نما سے متعلق اخلاقی کہانیاں اور قصے اور دلچسپ نظمیں تخلیق کر کے بچوں کے ادب کی داغ بیل ڈالی۔ اس ادب کو پروان چڑھانے میں سب سے اہم کام مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے انجام دیا۔ بعد کے شاعروں میں منشی تلوک چند محرومؔ ، حامد اللہ افسرؔ ، سرورؔ جہاں آبادی، اکبرؔ الہ آبادی، پنڈت برج نرائن چکبستؔ ، نظم طباطبائی، علامہ اقبالؔ ، حفیظؔ جالندھری، محوی صدیقی، اخترؔ شیرانی اور محمد شفیع الدین نیرؔ وغیرہ نے ادبی حسن سے آراستہ نظمیں تخلیق کر کے بچوں کے ادب کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ اسے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم بھی کیا۔
بیسویں صدی کے اہم شاعروں نے بچوں کی ذہنی نشو و نما اور تعلیم و تربیت کے لیے بہترین شعری ادب تخلیق کیا جن میں علامہ اقبالؔ جیسے شاعر، مفکر اور دانشور بھی تھے۔ اقبالؔ نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھی ہیں نیز اپنی نظموں سے بچوں کو ترقی یافتہ نظریات سے روشناس بھی کرایا۔ اقبالؔ بچوں کے ادب کی ضرورت اور مسائل سے غافل نہ تھے۔ بچوں کے ادب کے لیے نظمیں تخلیق کرنے کے علاوہ انھوں نے ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جو ’’ماہنامہ مخزن لاہور‘‘ کے جنوری ۱۹۰۲ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا اور بعد میں عبدالغفار شکیل کی مرتبہ کتاب ’’اقبالؔ کے نثری افکار‘‘ میں شامل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالؔ کو ابتدا ہی سے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال تھا اور بچوں کی نفسیات پر نہ صرف گہری نظر تھی بلکہ بچوں کے عادات و اطوار سے بھی پوری واقفیت تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اقبالؔ کی پرواز بہت اونچی تھی پھر بھی انھوں نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں وہ بہت خوبصورت اور متاثر کن ہیں۔
اقبالؔ نے بچوں کے لیے طبع زاد، اصلاحی، اخلاقی اور وطنی نظمیں لکھیں اور انگریزی سے کئی مفید مطلب نظمیں اخذ و ترجمے کے ذریعہ سے اردو میں منتقل بھی کیں۔ وہ بچے کے ذہن کی تعمیر اس طرح کرنا چاہتے تھے جس سے وہ خدا آگاہ ہو، صداقت شعار ہو حریت پسند ہو، ہمدردِ مجسم ہو، غرور اور تکبر کی لعنت سے پاک ہو، محسن شناس ہو، خدمت گذار ہو، غریبوں کا مددگار ہو، کمزوروں کا حامی ہو، وطن پرست ہو، انسان دوست ہو، برائیوں سے پاک ہو اور پیکرِ عمل ہو۔ ان کی یہ نظمیں بچوں کے ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ نظمیں زبان و بیان، اسلوب اور موضوعات کے اعتبار سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ’’ایک گائے اور بکری‘‘ ’’ایک مکڑا اور مکڑی‘‘ ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ ’’بچے کی دعا‘‘ ’’ہمدردی‘‘ اور ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ وغیرہ انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ ابتدا میں یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ یہ نظمیں محض ترجمہ ہیں لیکن بعد میں واضح ہوا کہ ان نظموں کے خیالات انگریزی سے اخذ کر کے اقبالؔ نے ان کی تخلیقِ نو کی ہے کہ ان پر طبع زاد شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ چنانچہ ان نظموں کے کردار اور موضوعات میں اصل ماخذ سے قدرے اختلاف پایا جاتا ہے اور پھر ہر نظم کے آخر میں کچھ سبق آموز بات بھی رکھ دی گئی ہے جو بچوں کے دل میں سیدھے اتر جاتی ہے۔
نظم ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ میں یہ نکتہ بچوں کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دشمن کی خوشامدانہ بات میں آ کر اپنی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ دنیا میں سوز وساز دونوں کے دم قدم سے رونق ہے۔ جب تک انسان کو سکھ کے ساتھ دکھ نہ ملے وہ زندگی کا راز بخوبی سمجھ نہیں سکتا۔ خوشی و غم کے پہلو بہ پہلو وارد ہونے ہی سے انسان ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے اور ایک کامیاب زندگی بسر کرتا ہے۔ ’’ایک گائے اور بکری‘‘ میں احسان شناسی کی تلقین کی گئی ہے۔ اس نظم کی زبان نہایت رواں اور عام فہم ہے۔ نظم ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا میں کوئی شئے حقیر اور ناکارہ نہیں اور خدا نے ہر چیز کو کسی خاص مصلحت اور ضرورت کے تحت پیدا کیا ہے۔ ’’ہمدردی‘‘ ایک علامتی نظم ہے جس کے کردار بلبل اور جگنو ہیں۔ غم خواری اور دستگیری کی یہ منظوم کہانی بچوں میں باہم ہمدردی کے جذبات بیدار کرتی ہے۔ ’’بچے کی دعا‘‘ اردو میں بچوں کے لیے لکھی گئی مقبول ترین نظموں میں سے ایک ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس کے تاثر میں پوشیدہ ہے۔ وقت اور عمر گزرنے کے ساتھ تاثر ہلکا ہونے کی بجائے اور گہرا ہو جاتا ہے۔ الفاظ کا حسنِ ترتیب، بیان کی شگفتگی اور مصرعوں کی ہم آہنگی اس قدر موثر اور دل نشین ہے کہ بعض ہر مصرع ذہن پر ایک نقش مرتسم کرتا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے بچپن میں یہ نظم پڑھی ہے یا بچوں کو ذوق و شوق کے ساتھ اس کا ورد کرتے سنا ہے ان کو اس کیفیت کا بخوبی اندازہ ہو گا۔
نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ میں ایک قیدی پرندے کی دل دوز گریہ و زاری کا بیان ہے جو اپنے آشیانے اور اپنی آزادی کے ایام یاد کر کے احساسِ اسیری پر آنسو بہا رہا ہے۔ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ بھی بچوں میں بہت مقبول اور مشہور ہوا۔ اس نظم کے ذریعے اقبالؔ نے قوم کے نونہالوں کو ان کی تاریخی، ثقافتی، علمی اور روحانی ورثے کی عظمت اور اہمیت سے روشناس کرایا ہے اور بچوں میں وطن پرستی کے جذبے اور اسلاف شناسی کے رجحان کو فروغ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ دونوں ہی نظمیں طبع زاد ہیں جنھیں اقبالؔ نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں پیش کر کے ذہن کی پختگی اور فکر کی بالیدگی کا ثبوت دیا ہے۔ دونوں نظموں سے ایک ایک بند ملاحظہ ہوں ؎
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے جانا اپنی خوشی سے آنا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سے مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں
(پرندے کی فریاد)
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے اپنا عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
(ہندوستانی بچوں کا قومی گیت)
مذکورہ بالا نظموں کے علاوہ بھی اقبالؔ کی عام نظموں میں کچھ ایسی ہیں جنھیں خاص طور پر بچوں کے ادب میں شمار کر سکتے ہیں۔ ایسی نظموں میں ’’ترانۂ ہندی‘‘ سرِ فہرست ہے۔ یہ ترانہ غالباً اقبالؔ کی مشہور ترین نظم ہے جو بڑوں اور بچوں میں یکساں طور پر مقبول ہے۔ اس نظم سے ہندوستان کی محبت ہمارے دلوں میں موجزن ہو جاتی ہے کیوں کہ اس کا ایک ایک شعر دل میں اتر جانے والا ہے اور ہر شعر میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مہاتما گاندھی نے اس نظم کو پڑھا تو ان کا دل بھر آیا اور پھر انھوں نے یروڑہ جیل میں سینکڑوں بار اس نظم کو گایا۔ اس نظم کے الفاظ انہیں میٹھے لگتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں ایسی بے پناہ مقبولیت کسی دوسری نظم کے حصے میں نہیں آئی۔ ’’ماں کا خواب‘‘ ’’بچہ اور شاعر‘‘ ’’طفلِ شیر خوار‘‘ ’’چاند اور تارے‘‘ ’’ایک آرزو‘‘ ’’جگنو‘‘ ’’عہدِ طفلی‘‘ اور ’’بچہ اور شمع‘‘ وغیرہ بھی اقبالؔ کی ایسی فلسفیانہ نظمیں ہیں جو اپنے اسالیبِ موضوعات کی بناپر بچوں کے ادب میں شامل کی جا سکتی ہیں۔
جہاں تک بچوں کی نظموں کا تعلق ہے یہ نظمیں بانگِ درا میں بھی شامل ہیں اوراقبال کے متروک کلام میں بھی۔ مثلاً ’’چاند‘‘ ’’نیا شوالہ‘‘ ’’صبح کا ستارہ‘‘ ’’شمع و پروانہ‘‘ ’’شہد کی مکھی‘‘ ’’ننھی سی ایک بوند‘‘ ’’محنت‘‘ ’’گھوڑوں کی مجلس‘‘ ’’پیامِ صبح‘‘ ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ ’’چاند اور شاعر‘‘ ’’جہاں تک ہو سکے نیکی کرو‘‘ اور ’’بچوں کے لئے چند نصیحتیں‘‘ وغیرہ۔ ان تمام نظموں کی خوبی یہ ہے کہ اگرچہ یہ مقصدیت کے پیشِ نظر کہی گئی ہیں لیکن مقصد ان پر حاوی نہیں بلکہ اقبالؔ کی دوسری شاعری کی طرح مقصد خود فن میں ڈھل گیا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقبالؔ نے بچوں کے لئے جم کر شاعری نہیں کی۔ اس کا سبب یہی ہے کہ بچوں کی بہبود سے غافل نہ رہنے کے باوجود اور بچوں کے متعلق نظم اور نثر میں تھوڑا بہت لکھنے کے باوجود ان کی زیادہ تر توجہ بنی نوع انسان کے عالمی مسائل، فرد کی روحانی اور اخلاقی بلندی اور جماعت اور فرد کے رشتے پر مرکوز رہی۔ لیکن انھوں نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں وہ آج بھی اتنی ہی مقبول ہیں جتنی کہ ان کے زمانے میں تھیں۔ اس لحاظ سے ان نظموں کو سدا بہار نظمیں کہا جا سکتا ہے۔
اقبالؔ کی شاعری کا غائر نظر سے جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کے لیے دو قسم کی شاعری کی ہے۔ ایک تو وہ شاعری جس میں شاعر نے ایک معلم کی زبان میں بچوں سے بات چیت کی ہے، ان کو نصیحتیں کی ہیں اور نیکی کی تلقین کی ہے۔ اس شاعری میں زبان بچوں کی نہیں ہے بلکہ بڑی عمر کے معلمِ اخلاق کی زبان معلوم پڑتی ہے۔ دوسری شاعری وہ ہے جو انھوں نے بچوں کی زبان میں پیش کی ہے۔ انھوں نے خود بچہ بن کر بچوں کے ساتھ رواں دواں بحروں میں اشعار کو مزے لے لے کر پیش کیا ہے۔ ابتدا میں بچوں کی ذہنی، علمی اور ادبی تربیت کے لیے یہ دوسری قسم کی شاعری کہیں زیادہ مفید ہے۔ اقبالؔ کے یہاں اس طرح کی شاعری جو بچوں کی اپنی زبان کی شاعری کہی جا سکے کم ہے لیکن جہاں جہاں بھی ہے اپنا جادو جگا گئی ہے۔ نظموں کے یہ بنددیکھیں ؎
وہی لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ
جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ
ہری کھیتیاں جو نظر آ رہی ہیں
ہمیں شانِ محنت کی دکھلا رہی ہیں
اسی سے زمانے میں دولت بڑھے گی
جو دولت بڑھے گی تو عزت بڑھے گی
سہارا ہمارا تمہارا یہی ہے
اندھیرے گھروں کا اجالا یہی ہے
کھڑا ہے یہ سنسار محنت کی کل پر
یہ سب کارخانہ ہے اس کل کے بل پر
(محنت)
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
(ایک گائے اور بکری)
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
(بچے کی دعا)
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہے لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
(ہمدردی)
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
تری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بڑا نہیں قدرت کے کارخانے میں
(ایک پہاڑ اور گلہری)
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے
(ماں کا خواب)
متذکرہ بالا اشعار میں سادگی اور سلاست ہے۔ شگفتگی اور روانی ہے۔ موضوعات میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اقبالؔ کو بچوں کے لیے دلچسپ اور موثر نظمیں کہنے پر مہارت حاصل تھی۔ دلکش اسلوب اور پر اثر اندازِ بیان نے ان نظموں کی مقبولیت اور افادیت کو دوبالا کر دیا ہے۔
اگرچہ کمیت کے اعتبار سے بچوں کے ادب میں اقبالؔ کا حصہ مختصر ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے غیر معمولی اور ناقابلِ فراموش ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے جو کچھ بھی لکھا اس کے معیار، سلاست اور صحت و افادیت سے کسی طرح کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ نہ صرف بڑوں کے اہم ترین اور معتبر شاعر ہیں بلکہ بچوں کے بھی بہترین شاعر اور معلمِ اخلاق ہیں۔ مجموعی طور پر علامہ اقبالؔ بچوں کے نمائندہ شاعر ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھیں وہ موضوع، زبان اور اسلوب کے اعتبار سے بچوں کی ہی نظمیں ہیں جو بچوں کی معصوم خواہشات و جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ بلا شبہ ان کی ایسی تمام نظمیں بچوں کے ادب کا ایک ایسا سرمایہ ہیں جو نہ صرف دورِ حاضر بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی یقینی طور پر متاثر کرتا رہے گا۔
**
کتابیات:
۱ اردو ادبِ اطفال کے معمار: ڈاکٹر خوشحال زیدی، نہرو چلڈرنس اکیڈمی، نئی دہلی، ۱۹۹۳ء
۲ اردو میں ادبِ اطفال: ایک جائزہ: ڈاکٹر اکبر رحمانی، ایجوکیشنل اکیڈمی، جلگاؤں، ۱۹۹۱ء
۳ اقبال کی کہانی: ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد، ترقی اردو بورڈ، دہلی، ۱۹۷۶ء
۴ بانگِ درا: علامہ اقبالؔ ، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، ۲۰۰۷ء
۵ بچوں کے اقبال: ڈاکٹر عبدالقوی دسنوی، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، ۱۹۷۶ء
٭٭٭
مطبوعہ : بچوں کا ماہنامہ امنگ دہلی، نومبر ۲۰۱۷ء
ISSN: 2321-287X