نعت کے لغوی معنی مدح و ثنا، تعریف و توصیف کے ہیں۔ شاعری کی اصطلاح میں نعت اس صنف کو کہتے ہیں جس میں رسول کی مدح کی جائے۔ ’ نعت ‘ کا آغاز عربی شاعری سے ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ابتدا اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ قرآن مجید کی بیش تر آیتوں میں رسولِ خدا کے اخلاقِ حسنہ کا تذکرہ ملتا ہے اور اس کو اولین نعت کہا جا سکتا ہے۔ پھر ان تمام صحابہ نے جو شاعری میں ملکہ رکھتے تھے، عقیدت و محبت کا نذرانہ بارگاہِ رسالت میں پیش کیا۔ اس سلسلے میں حضرت علیؓ، بی بی فاطمہؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت کعب بن زہیرؓ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔
رسول اللہ کے وصال کے بعد اسلام کی توسیع کے ساتھ ساتھ نعت کا دامن بھی وسیع ہوتا رہا۔ اردو میں بھی ابتدا سے لے کر آج تک اس کا رواج ملتا ہے۔ اس لیے کسی مخصوص ہیئت کی تخصیص نہیں رہی۔ دوہے، قصیدے، قطعات، رباعیات، خمسے، جگری غزل، مستزاد، ترکیب بند، ترجیع بند، مثمن، مسدس، مربع، گیت، نظم تقریباً ہر صنف میں اس موضوع پر اظہار خیال کی روایت ملتی ہے۔ لہذا اردو شاعری کے آغاز ہی سے شعرا کرام نے نعت گوئی کی طرف توجہ کی۔ اس کا بڑا مقصدی پہلو یہ تھا کہ عوام تک رسولِ کریمؐ کی سیرت کا مضمون دل کشی اور دل نشیں پیرائے میں پیش کیا جائے تاکہ عوام کے لیے جاذبِ توجہ ہو۔ جن شعرا کرام نے اپنی مثنویات، معراج ناموں، نور ناموں، قصائد اور دیگر اصناف میں نعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ان میں حضرت سید محمد حسینیؔ ، سید محمد اکبر حسینیؔ ، نظامیؔ صدرالدین، عبدالملک بھروچی، سلطان محمد قلی قطب شاہ، ملاوجہیؔ ، غواصیؔ ، ابنِ نشاطیؔ ، نصرتیؔ سید بلاقیؔ ، ولیؔ دکنی، سراجؔ اورنگ آبادی، سوداؔ ، نظیرؔ اکبر آبادی، مولوی کرامتؔ علی، امیرؔ مینائی شائق حیدر آبادی کے ساتھ ساتھ محسنؔ کاکوروی کا نام بھی نمایاں ہے۔
محسنؔ کاکوروی کی شاعری کی ابتدا نو سال کی عمر میں ایک خواب سے متاثر ہو کر ہوئی۔ خواب میں انھوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کیا تھا۔ اس کے بعد نعت گوئی کی شروعات کی۔ بعد میں انھوں نے روایتی انداز میں بھی شاعری کی لیکن ان کا روایتی کلام ان کی شاعری اور شخصیت کی پہچان نہیں بن سکا اور ان کے فن کا اصل نکھار ان کی نعتوں میں اجاگر ہوا۔ انھوں نے جتنی نعتیں موزوں کیں انھیں ان کے بیٹے محمد نورالحسن نے کلیات کی شکل میں یکجا کر کے ۱۹۱۵ء میں الناظر پریس لکھنؤ سے چھپوا دیا تھا۔
نعت گوئی سے محسنؔ کاکوروی کو خصوصی دلچسپی تھی اس لیے نعتیہ شاعری کی تاریخ میں ان کا نام اہمیت کا حامل ہے اور ان کی نعتیہ شاعری نے ہی انھیں اردو شعر و ادب میں ایک خاص مقام عطا کیا ہے۔ یہ کہا جائے کہ ان کی ادبی عظمت کا دارومدار ہی ان کی نعت گوئی پر ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ جب انھوں نے بارگاہِ رسالت میں مدح سرائی کی اور اس خدمت کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار بنا لیا تو پھر کسی دوسرے کی بارگاہ میں پہنچ کر مدح نہ کی۔ انہوں نے جن صنائع و بدائع اور نادر تشبیہات و استعارات سے اپنے کلام کو مزین کیا ہے ان سے ان کے حسنِ مذاق اور شاعرانہ صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں نہ صرف تخلیقی شان پائی جاتی ہے بلکہ وہ شاعرانہ صناعی کا نادر نمونہ بھی ہے۔ ان میں خلوص کی گرمی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بھر پور محبت ملتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ دربارِ رسولؐ کے ادب شناس اور رمز آشنائے محبت تھے اسی لیے ان کے کلام میں جذبات کی شدت، عقیدت و احترام، وارفتگی و سرشاری، یقین و استحکام، خلوص اور رجائیت کے عناصر واضح اور شگفتہ انداز میں ملتے ہیں۔
محسنؔ کاکوروی کا پہلا نعتیہ قصیدہ ’’گلدستۂ کلامِ رحمت (۱۸۴۲ء)‘‘ ہے۔ اس قصیدے میں تقریباً اکیاون اشعار ہیں۔ اس کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے ؎
پھر بہار آئی کہ ہونے لگے صحرا گلشن
غنچہ ہے نامِ خدا نافۂ آہوئے چمن
محسنؔ نے یہ قصیدہ محض سولہ سال کی عمر میں لکھا تھا۔
۷۴ بندوں پر مشتمل ’’سراپائے رسول اکرم (۱۸۴۹ء)‘‘ کے زیرِ عنوان سے محسن کاکوری کا یہ مسدس اردو کی نعتیہ شاعری ہی میں نہیں بلکہ پوری اردو شاعری میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس سے ان کی فنی مہارت، وسیع مذہبی مطالعہ، پیغمبر اسلام سے ان کا والہانہ عشق اور آدابِ عشق کی پاسداری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں سراپا نگاری کے فقیہ المثال نمونے بھی ملتے ہیں۔ صنائع و بدائع اور تلمیحات وغیرہ کا استعمال اظہارِ خیال کے تقاضوں کے مطابق کیا گیا ہے۔ ’’ابیاتِ نعت‘‘ کے نام سے محسن کاکوروی نے ۱۸۵۷ء میں ایک نعتیہ قصیدہ لکھا جس کا مطلع ہے ؎
مٹانا لوحِ دل سے نقش، ناموسِ اب وجد کا
دبستانِ محبت میں سبق تھا مجھ کو ابجد کا
اس قصیدے میں ایک سو ایک (۱۰۱) اشعار ہیں۔
مثنوی ’’صبحِ تجلی (۱۸۷۲ء)‘‘ محسن کاکوروی کی ۱۸۶ اشعار پر محیط ہے۔ اس میں حضور اکرمؐ کی ولادت باسعادت کا احوال نہایت پر لطف، موثر اور دل کش پیرائے میں نظم کیا گیا ہے۔ پوری مثنوی میں محسنؔ کاکوروی نے اپنی شاعرانہ تکنیک کے مطابق قرآنی آیات اور احادیثِ شریفہ سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے متعلقہ تلمیحات وغیرہ انھوں نے بڑی خوبی سے نظم کی ہیں لیکن اردو کے علمی و ادبی حلقوں میں اس مثنوی کو شہرت و مقبولیت ندرتِ تشبیہہ کی خوبی کی بدولت حاصل ہے۔ ندرت کے ساتھ ارتباط و تسلسل نے محسنؔ کاکوروی کی تشبیہات کو زندۂ جاوید کر دیا ہے۔ ’’مثنوی فغانِ محسن (۱۸۷۲ء)‘‘ اور ’’مثنوی نگارستان الفت (۱۸۷۶ء)‘‘ کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ دونوں کی زبان صاف اور سادہ ہے۔ جولانی تخیل اور بلند پروازیِ فکر محسنؔ کاکوروی کی دیگر مثنویوں کے مقابلے ان میں کم ہے۔ سیدھے سادے خیالات آسان اور سلیس زبان میں پیش کر دیئے گئے ہیں۔
’’چراغِ کعبہ (۱۸۸۴ء)‘‘ کو محسن کی شاہکار مثنویوں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں احادیثِ شریفہ کے حوالے کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ یہ در اصل محسنؔ کاکوروی کی شاعرانہ صلاحیت کا کمال ہے کہ انھوں نے احادیث کے فقروں اور ترکیبوں کی مدد سے واقعۂ معراج سے تعلق رکھنے والے مختلف کوائف و احوال کو شاعرانہ ہنر مندی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ مثنوی ’’شفاعت و نجات (۱۸۹۴ء)‘‘ ۴۹۵ اشعار پر مبنی ہے۔ اس میں قیامت کا حال بیان کیا گیا ہے۔ حشر کے دن رسول اللہ کی شفاعت کا ذکر اس میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔
غرض محسنؔ کاکوروی کی یہ مثنویاں فکری اور فنی محاسن سے مالامال ہیں اور ان کی مذہبی بصیرت اور شاعرانہ مہارت پر دلالت کرتی ہیں اور اپنی گوناگوں فکری اور فنی خوبیوں کی بدولت نہ صرف ایک اہم مقام رکھتی ہیں بلکہ اردو کی نعتیہ شاعری میں بھی ان کی قدر و قیمت مسلم ہے۔ ان کی نعتیہ رباعیاں اور غزلیں بھی انہیں محاسن سے مملو ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی کچھ نعتیہ کلام ملتا ہے۔ محسنؔ کاکوروی میں نعت گوئی کی غیر معمولی صلاحیتیں موجود تھیں۔ نعت گوئی میں اثر آفرینی محض الفاظ کی سحر طرازی تراکیب کی ندرت، علمیت اور قدرت کلام سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ اپنے ممدوح کی محبت میں سرشاری، وابستگی اور غیر متزلزل عقیدت و مودت سے پیدا ہوتی ہے۔ محسنؔ کاکوروی کو رسولِ اکرام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے جو محبت تھی اس نے ان کی نعتوں میں انوکھی تاثیر پیدا کر دی ہے۔
نعت گو کے علم اور اس کی معلومات کا دائرہ وسیع ہو اور وہ اسلامی تاریخ پر گہری نظر رکھتا ہو تو رسالت مآبؐ کے فضائل، آپؐ کی حیاتِ طیبہ، آپؐ کی عظمتوں کے مختلف پہلوؤں سے اس کی واقفیت، نعت گوئی میں تنوع اور تازگی پیدا کرتی ہے۔ محسنؔ کاکوروی کی نعتوں میں یہ خصوصیات نمایاں نظر آتی ہے۔
محسنؔ کاکوروی نے مختلف شعری ہئیتوں کو نعت کے لیے استعمال کیا ہے اور ہر ادبی پیکر میں اپنی لطافتِ بیان اور رعایتِ لفظی پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ تشبیب اور گریز میں اس کا اثر نسبتاً زیادہ اور مدح میں محتاط انداز میں پایا جاتا ہے۔ یعنی مدح میں حقیقت کو مبالغہ یا تخیل کی وادی میں گم ہونے سے بچانے کی شعوری کوشش نظر آتی ہے۔
اردو کے تمام شاعروں میں محسنؔ کاکوروی وہ واحد شاعر ہیں جنھیں اصلاً نعت گو شاعر ہونے کے باوجود بھی اردو کے تنقید نگاروں نے اساتذہ کی صف میں جگہ دی۔ یہ جگہ بنیادی طور پر انہیں ان کے قصیدے ’’مدیح خیر المرسلین (۱۹۷۶ء)‘‘ کے باعث عطا کی گئی ہے جو بلا شبہ ان کی شاعری کا شاہکار ہے۔ یہ ایک نعتیہ قصیدہ ہے جو فکری و فنی لحاظ سے انتہائی جاندار اور پر زور ہے۔ اس میں الفاظ کی متانت و جذالت، استعارے کی جدت، تشبیہات کی لطافت و تازگی، بندش کی چستی، خیالات کی نزاکت و بلندی قدم قدم پر پائی جاتی ہے لیکن یہ قصیدہ ناقدین اور ماہرینِ فن میں اختلاف و تنازع کا باعث بھی رہا ہے۔ اس کی وجہ اس قصیدے کی تشبیب میں ہندوستانی ماحول اور مذہبی فضا کی عکس ریزی ہے۔
نعت گوئی اور قصیدہ گوئی کے آداب و لوازم کو ملحوظ رکھتے ہوئے محسنؔ کاکوروی نے اپنی نعت کو نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ قصیدے کی تشبیب میں شاعر کو مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ عشقیہ، بہاریہ یا کسی دوسرے موضوع کے متعلق مضامین باندھے اور اپنے قصیدے کو دلچسپ بنا کر اپنے قاری کی توجہ کو گریز کی منزل طے کرواتے ہوئے اصل مدح کی طرف مرکوز کر سکے۔
قصیدہ مدیح خیر المرسلین کے اشعار کی مجموعی تعداد ۱۴۳ ہے اور اس قصیدے میں صنائع و بدائع، تشبیہات و استعارات، مضمون آفرینی اور رعایت لفظی پر خاصی توجہ دی گئی ہے۔ تشبیب اور گریز میں اس کا اثر نسبتاً زیادہ اور مدح میں محتاط انداز میں پایا جاتا ہے۔ یعنی مدح میں حقیقت کو مبالغہ یا تخیل کی وادی میں گم ہونے سے بچانے کی شعوری کوشش نظر آتی ہے۔ پھر بڑی بات یہ ہے کہ ہندی کے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کا مطلب سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی۔
اس قصیدے کی تشبیب اگرچہ طویل ہے لیکن کہیں بھی زورِ بیان مجروح ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ خالص ہندوستانی فضا پورے قصیدے پر چھائی ہوئی ہے۔ اس قصیدے کے بارے میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی لکھتے ہیں:
’’ایسی نرالی تشبیب آپ کو اردو کے کسی شاعر کے ہاں نہیں ملے گی۔ ذوقؔ و سوداؔ قصیدے کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی کسی تشبیب میں ایسی جدت اور زور نہیں۔‘‘ (لکھنؤ کا دبستانِ شاعری،ص ۵۰۹)
تشبیب میں محسنؔ کاکوروی نے موسمِ برسات و بہار کی مختلف کیفیات کا نقشہ تفصیل سے کھینچا ہے اور اپنے شاعرانہ تخیل سے اس میں جان ڈال دی ہے۔ بجلی کی کڑک، بادل کی گرج باغ میں پھولوں کا کھلنا، غنچوں کا مسکرانا، کلیوں کا چٹکنا، نسیم کا اتراتے ہوئے چلنا، پرندوں کا چہچہانا ان تمام مناظر کی عکاسی لطیف پیرائے میں کی ہے۔ آسمان پر چاروں طرف بادلوں کے امڈ آنے پر جو اندھیرا چھا جاتا ہے اور بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج سے جو خوفناک منظر سامنے آتا ہے اس کو تشبیہوں اور استعاروں کے پردے میں نہایت خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کو کہنا پڑا کہ اس طرح کی تشبیب اردو کے کسی بھی قصیدہ نگار کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
اس قصیدے میں محسنؔ کاکوروی نے ہندوؤں کے مقدس مقامات، ان کی دیوی دیوتاؤں، میلوں اور تہواروں کا ذکر دلچسپ انداز میں کیا ہے اور اسی رعایت سے کاشی، متھرا گنگا جل، مہاجن، تیرتھ، برہمن، کرشن، درشن، گوپی، راکھی، سلونوں، ہنڈولے کا میلہ، رتھ بڑھوا منگل، کھیم کسل، اشنان، جو گی، بھبھوت، بیراگی جیسی تلمیحات، رسومات اور ہندو مذہب سے متعلق لفظیات کا استعمال کیا ہے جس میں تکلف کو ذرا بھی دخل نہیں ہے اور پڑھتے وقت ان الفاظ اور ترکیبوں میں محل اور وقوع کی مناسبت سے اجنبیت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا انفرادی اور نرالا رنگ جس میں ہندوستانیت کو بڑی خوبی سے سمویا گیا ہے اپنے اندر ایک جاذبیت رکھتا ہے اور یہی محسنؔ کاکوروی کی اصل کامیابی ہے۔ یہ قصیدہ یہاں سے شروع ہوتا ہے جو اس کی تشبیب بھی ہے ؎
سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوکل
جا کے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طولِ عمل
خبر اڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل
کالے کوسوں نظر آتی ہے گھٹائیں کالی
ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل
جانبِ قبلہ ہوئی یورشِ ابرِ سیاہ
کہیں پھر کعبے میں قبضہ نہ کریں لات و ہبل
تہہ و بالا کیے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے
بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں بھرے گنگا جل
کبھی ڈوبی کبھی اچھلی مہِ نو کی کشتی
بحرِ اخضر میں تلاطم سے پڑی ہے ہل چل
ابر بھی چل نہیں سکتا وہ اندھیرا گھپ ہے
برق سے رعد یہ کہتا ہے کہ لانا مشعل
جس طرف سے گئی بجلی پھر ادھر آ نہ سکی
قلعۂ چرخ میں ہے بھول بھلیاں بادل
جگنو پھرتے ہیں جو گلبن میں تو آتی ہے نظر
مصحفِ گل کے حواشی پہ طلائی جدول
مذکورہ بالا اشعار میں شامل صنائع و بدائع، تشبیہات و استعارات، مضمون آفرینی، رعایت لفظی اور دیگر موضوعات کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن موسمِ برسات کی مستی و بے خودی میں کفر و ایمان اور شرک سے توحید کی جانب محسنؔ کاکوروی کی پروازِ فکر نے ان دو جداگانہ مضامین کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ انھوں نے تشبیب کے بعد گریز کی سمت جس احتیاط اور ہوش مندی سے رجوع کیا ہے وہ ان کی شاعرانہ مہارت اور فن کاری کا بہترین ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اس قصیدے میں گریز اس شعر سے شروع ہوتی ہے ؎
گل خوش رنگ رسولِ مدنی عربی
زیبِ دامانِ ابد طرۂ دستارِ ازل
مدح میں بھی محسنؔ کاکوروی کا قلم شاعرانہ بلند پروازیوں سے کام لیتا ہوا نظر آتا ہے لیکن کہیں بھی شریعت کے مقر رہ حدود سے باہر کی بات بیان نہیں کی ہے۔ نہایت ہی محتاط انداز میں حضورِ اقدس اور خاتم النبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے محاسن و کمالات کا بیان کیا ہے۔ مثال کے طور چند شعر درج ہیں۔ ملاحظہ ہوں ؎
نہ کوئی اس کا مشابہ ہے نہ ہم سر نہ نظیر
نہ کوئی اس کا مماثل نہ مقابل نہ بدل
اوجِ رفعت کا قمر، نخلِ دو عالم کا ثمر
بحرِ وحدت کا گہر، چشمۂ کثرت کا کنول
مرجعِ روحِ امیں، زیب دہِ عرشِ بریں
حامیِ دینِ متیں، ناسخِ ادیان و ملل
مدح کے بعد مناجات ہے جس میں اپنی دلی تمناؤں کا اظہار کیا ہے اور خدا سے شفاعت و مغفرت کی دعا مانگتے ہوئے یہ التجا کی ہے ؎
سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے مجمل
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل
آرزو ہے کہ رہے دھیان ترا تا دمِ مرگ
شکل تیری نظر آئے مجھے جب آئے اجل
رخِ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہِ عدم یہ مشعل
صفِ محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ، یہ غزل
ان اشعار میں صداقت و جذبے کی جو آنچ ہے وہ محسنؔ کاکوروی کے خلوص اور ان کے عاشقِ رسول ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
فکری اور فنی لحاظ سے یہ قصیدہ انتہائی جاندار اور پر زور ہے۔ الفاظ کی متانت استعارے کی جدت، تشبیہات کی لطافت، بندش کی چستی اور خیالات کی نزاکت و بلندی پائی جاتی ہے۔ بہاؤ اور روانی اس قصیدے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ محسنؔ کاکوروی نے جن تشبیہوں اور استعاروں کو برتا ہے ان سے اشعار میں زور، لطافت، دل کشی اور تازگی پیدا ہو گئی ہے۔ ان تمام خوبیوں نے مل کر اس قصیدے کو ایمانی قوت بخشی ہے جس کی وجہ سے یہ اردو شعر و ادب میں شاہکار کا درجہ حاصل کر گیا۔
نعت ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں شاعری کے لئے کم گنجائش ہے یعنی نعتِ رسولؐ جو ادب و احترام کے لحاظ سے معتبر اور بے ادبی کے خوف سے خشک اور پر خطر صنفِ کلام سمجھی جاتی ہے اس میں محسنؔ کاکوروی نے فصاحت، سلاست، بلاغت، روانی، تاثیر، حسنِ صنعت، معنی آفرینی، اسلوب، جدتِ ادا اور ندرتِ خیال جیسی شاعری کی بیش تر خوبیوں کو سمویا ہے۔ وہ دبستانِ لکھنؤ کے درخشندہ ستارے ہیں اس لیے ان کے کلام میں اس دبستان کی متعدد خصوصیات ملتی ہیں۔ محبت، شیفتگی اور عقیدت جو محسنؔ کاکوروی کی زندگی کے عناصر تھے انہی سے ان کی شاعری بھی عبارت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی یا آج بھی اس میں فکری، فنی اور معنوی دل کشی باقی ہے۔
محسنؔ کاکوروی کے نعتیہ کلام کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ فنی اور شعری لحاظ سے ان کا نعتیہ کلام لکھنوی طرزِ فکر کا آئینہ دار ہے۔ ان کے یہاں تکلف و تصنع، ظاہری حسن صنائع بدائع، دور ازکار تشبیہات و استعارات اور خارجی مضامین کثرت سے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے معاصر لکھنوی شعرا کی طرح مضمون آفرینی اور رعایت لفظی پر زیادہ توجہ صرف کی ہے اس لیے ان کا نعتیہ کلام جوش و جذبات اور دلی کیفیات سے محروم ہو گیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری فن کا اعلیٰ نمونہ ہے اور ان سے پیش تر کسی بھی شاعر نے نعت گوئی کو فن کی حیثیت نہیں دی۔ وہ پورے برصغیر کے واحد نعت گو شاعر ہیں جنھوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نعت گوئی کو ایک نیا موڑ دیا۔ انھوں نے گنگا، جمنا اور کاشی بطور پس منظر کے استعمال کیے اور اس طرح سینکڑوں سنسکرت و ہندی اصطلاحوں کا غالباً پہلی مرتبہ نعتیہ کلام میں استعمال کر کے نعت گوئی کی ایک منفرد ہندوستانی تاریخ کی داغ بیل ڈالی۔ ان کے بلیغ استعاروں میں اسلامی اور ہندی ماحول کا حسین امتزاج ہے۔ سادگی اور روانی ان کے کلام کی نمایاں اور امتیازی خصوصیات ہیں جنھیں جذبات کی شدت خلوص اور عقیدت نے دو آتشہ بنا دیا ہے۔
**
کتابیات:
۱) اردو قصیدہ نگاری: مرتبہ ڈاکٹر ام ہانی اشرف، علی گڑھ، ۱۹۹۵ء
۲) اردو شاعری میں نعت (جلد دوم): ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری، لکھنؤ، ۱۹۹۲ء
۳) اردو میں نعتیہ شاعری: ڈاکٹر طلحہ رضوی برق، آ رہ، ۱۹۷۴ء
۴) اردو میں نعتیہ شاعری: ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق، کراچی، ۱۹۷۶ء
۵) لکھنؤ کا دبستانِ شاعری: ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، ۱۹۸۹ء
۶) ماہنامہ فروغِ اردو، لکھنؤ، محسن کاکوروی نمبر، جون، اپریل، مئی ۱۹۷۰ء
۷) کلیاتِ محسن
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ قومی زبان حیدرآباد، دسمبر ۲۰۱۷ء
ISSN: 2321-4627