الطاف حسین حالیؔ اردو شاعری کے اہم ستون ہیں اور اردو میں نظم نگاری کو فروغ دینے والے شاعروں میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تمام تر زندگی اردو شعر و ادب کی خدمت میں وقف کر دی۔ وہ ایک بہترین نثر نگار، منفرد لب و لہجے کے شاعر اردو کے پہلے نقاد، سوانح نگار اور تبصرہ نگار تھے۔ اردو تنقید کی تاریخ میں ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کو بوطیقا کی سی اہمیت حاصل ہے۔ ’’حیاتِ جاوید‘‘، ’’یاد گارِ غالب‘‘ اور ’’حیاتِ سعدی‘‘ اردو کی اولین سوانحی کتابوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ حالیؔ نے سر سید احمد خاں کے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں تبصرے لکھ کر نثر کی خدمت انجام دی۔ نیچرل شاعر کی حیثیت سے حالیؔ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حالیؔ کی شاعری کے موضوعات بھی مختلف ہیں۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور غزل گو شاعر کی حیثیت سے نام بھی کمایا لیکن اردو میں جدید نظم گوئی کا آغاز حالیؔ کی شاعری سے ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں فکر و فلسفہ کی گہرائی کے ساتھ جذبات و احساسات کی فراوانی بھی دکھائی دیتی ہے۔
انجمن پنجاب سے وابستگی مولانا الطاف حسین حالیؔ کے ذہنی افق کو وسیع کرنے اور شعر و ادب میں صحت مندانہ رجحان اور افادی نقطۂ نظر اپنانے کے سلسلے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہیں انگریزی ادب میں پائے جانے والے صحت مند رجحانات سے آگاہی حاصل ہوئی جس سے ان کے اندر علم دوستی، حبِ وطن اور غمِ انسانیت جیسے اوصاف پیدا ہوئے۔ انگریزی شعر و ادب کا اثر قبول کرنے کے بعد ہی وہ نیچرل شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور شاعری کو اخلاقی سماجی و ملکی خیالات کی ترجمانی کا ذریعہ بنایا۔ اسی زمانے میں مولانا محمد حسین آزادؔ کی تحریک پر ’’مناجاتِ بیوہ‘‘، ’’حب وطن‘‘، ’’شعر سے خطاب‘‘، ’’قوم کی پاسداری‘‘، ’’برکھا رت‘‘، ’’تعصب و انصاف‘‘، ’’مناظرہ رحم و انصاف‘‘، ’’چپ کی داد‘‘ ’’نشاطِ امید‘‘، ’’عقل اور نفس کی گفتگو‘‘ اور ’’بیٹیوں کی نسبت‘‘ جیسے نظمیں لکھیں۔ یہ نظمیں اپنی ہیئت اور مواد دونوں ہی اعتبار سے اردو شاعری میں نئی ہیں۔۔ ان نظموں میں سادگی سلاست، برجستگی، فکری ربط و تسلسل کے ساتھ ساتھ حالیؔ کا خلوص، حبِ وطن اور دردِ انسانیت بھی نمایاں ہے۔ اپنی ان اچھوتی اور منفرد نظموں کے ذریعے حالیؔ نے یہ ثابت کر دیا کہ خارجی واقعات، مناظرِ قدرت، اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی موضوعات کو بھی عنوانِ شاعری بنایا جا سکتا ہے۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ کے اس نئے شاعرانہ رجحان کو سر سید احمد خاں کے خیالات سے کافی قوت ملی۔ سر سید کے حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر نے حالیؔ کے فکر و شعور میں پختگی پیدا کی اور ان کے ذہنی سفر کو ایک نئی منزل عطا کی۔ سر سید کی تحریک سے متاثر ہو کر اپنی شاہکار نظم ’’مسدس‘‘ لکھی جو ’’مد و جذر اسلام‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مسدس ایک نظم ہی نہیں بلکہ ایک مشعلِ راہ اور سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور مسلمانوں کی قومی زندگی کی نشاۃ الثانیہ کے لیے ایک تحریک کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ نظم صرف حالیؔ کے فکر و شعور کی پختگی اور بالغ نظری ہی کی آئینہ دار نہیں بلکہ حالیؔ کی فنکارانہ بصیرت کا بھی پتہ دیتی ہے۔ اس میں نظم نگاری کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ حالیؔ کی دیگر کامیاب نظموں میں ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ اور ’’چپ کی داد‘‘ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ میں حالیؔ نے ایک بیوہ کو خدا کی بار گاہ میں اپنی حالتِ زار پر فریاد کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ یہ نظم تاثر، سوز و گداز اور اثر آفرینی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ حالیؔ نے بڑے موثر انداز میں بیوہ کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے اور انسانیت سوز سماجی اقدار کو ہدفِ ملامت بنایا ہے۔
۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد حالیؔ نے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ اسے روایتی ڈگر اور غیر صحت مند جذبات و احساسات کے دائرے سے نکال کر زندگی کا ترجمان و آئینہ دار بنایا۔ اس قسم کا انداز نظمیہ شاعری میں سب سے پہلے حالیؔ نے شروع کیا۔ ورنہ حالیؔ سے قبل اردو شاعری مبالغہ اور غیر حقیقی واقعات سے معمور تھی۔ حالیؔ کے بعد ہی اردو شاعری کو حقیقت پسندی سے وابستہ کرتے ہوئے نظم کو زندگی کے حقائق کے اظہار کا سلیقہ دیا گیا۔ حالیؔ نے نظم کی شاعری کو گلے شکوے سے پاک کر کے فطری جذبات اور احساسات کی پیش کشی کے لئے ساز گار ماحول پیدا کیا۔ چند نظموں کے بند ملاحظہ کیجیے ؎
اے ماؤ، بہنو، بیٹیو، دنیا کی زینت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمھیں، قوموں کی عزت تم سے ہے
تم گھر کی ہو شہزادیاں، شہروں کی ہو آبادیاں
غمگیں دلوں کی شادیاں، دکھ سکھ میں راحت تم سے ہے
فطرت تمھاری ہے حیا، طینت میں ہے مہر و وفا
گھٹی میں ہے صبر و رضا، انساں عبارت تم سے ہے
تم آس ہو بیمار کی، ڈھارس ہو تم بے کار کی
دولت ہو تم نادار کی عسرت میں عشرت تم سے ہے
آتی ہو اکثر بے طلب دنیا میں جب آتی ہو تم
پر موہنی سے اپنے یاں گھر بھر پہ چھا جاتی ہو تم
(چپ کی داد)
لوگ بیٹی کے لیے ڈھونڈتے ہیں جب پیوند
سب سے اول انھیں ہوتا ہے یہ منظورِ نظر
ایسے گھر بیاہیے بیٹی کو جو ہو آسودہ
اور مہ و مہر سے جو ذات میں ہو افضل تر
وہ یہی ناشدنی ریت ہے جس کے کارن
بکریاں بھیڑیوں سے پاتی ہیں پیوند اکثر
جاہلیت میں تو تھی اک یہی آفت کہ وہاں
گاڑ دی جاتی تھی بس خاک میں تنہا دختر
ساتھ بیٹی کے مگر اب پدر و مادر بھی
زندہ درگور سدا رہتے ہیں اور خستہ جگر
(بیٹیوں کی نسبت)
رات اور دن کا وہ سماں نہ رہا
وہ زمیں اور وہ آسماں نہ رہا
کاٹے کھاتا ہے باغ بن تیرے
گل ہیں نظروں میں داغ بن تیرے
جو کہ رہتے ہیں تجھ سے دور سدا
ان کو کیا ہو گا زندگی کا مزا
ہو گیا یاں تو دو ہی دن میں یہ حال
تجھ بن ایک ایک پل ہے ایک اک سال
تیری اک مشتِ خاک کے بدلے
لوں نہ ہرگز اگر بہشت ملے
(حبِ وطن)
جس کو سمجھے تھے غلط ہم دریا
اک وہ ناچیز سا قطرہ نکلا
تھا کیا جس کو یقیں چشمۂ آب
وہ نمائش تھی حقیقت میں سراب
نکلے سب ہیچ خیالات اپنے
ٹھہرے سب پوچ کمالات اپنے
آپ کو اونٹ سمجھتا تھا بڑا
نکلا سب تک کسی گھاٹی سے نہ تھا
چوٹیاں آئیں جو پربت کی نظر
پھر اٹھایا نہ کبھی اونٹ نے سر
(تعصب و انصاف)
اے مری امید میری جاں نواز
اے مری دل سوز، میری کارساز
میری سپر اور مرے دل کی پناہ
درد و مصیبت میں مری تکیہ گاہ
کاٹنے والی غمِ ایام کی
تھامنے والی دلِ ناکام کی
تجھ سے ہے محتاج کا دل بے ہراس
تجھ سے ہے بیمار کو جینے کی آس
نوح کی کشتی کا سہارا تھی تو
چاہ میں یوسف کی دل آرا تھی تو
(نشاطِ امید)
مذکورہ بالا نظموں کے بند میں الفاظ کی بندش، خیالات کی پیش کش، اظہار کی تازگی اور زبان کا برجستہ اور بر محل استعمال ملتا ہے۔ ان نظموں میں زندگی سے تعلق اور سماج کی اصلاح کا جذبہ رواں دواں نظر آتا ہے۔ حالیؔ نے قومی شعور، حبِ وطن، علم کی اہمیت، آزادی اور خود داری جیسی اعلا اقدار پیدا کرنے پر زور دیا۔ ان کی نظمیں مروجہ روایت سے انحراف کی علامت بن گئیں۔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں اصلاحِ سخن کے متعلق حالیؔ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی شاعری اس کی عملی تفسیر ہے۔ اردو شاعری جو چند موضوعات کے ارد گرد گردش کر رہی تھی حالیؔ نے اس کے سامنے ایک وسیع کینوس پیش کیا، نئے نئے امکانات روشن کئے اور نئی سمت و رفتار عطا کر کے صحت مندانہ رجحانات سے روشن کرایا۔ اس طرح اردو شاعری میں آج جو وسعت، ہمہ گیری اور عصری تقاضوں سے عہدہ بر آ ہونے کی صلاحیت نظر آتی ہے اس کا سہرا حالی کے سر ہے۔
کسی ایک خیال کو پیشِ نظر رکھ کر اس کے تحت مختلف بند تحریر کرنا جس میں خیال کا ربط و تسلسل برقرار رہے تو ایسی شاعری کو نظم کہتے ہیں۔ حالیؔ سے قبل دکنی دور کی مثنویوں میں خیال کے تسلسل کی وجہ سے نظموں کی سی کیفیت پیدا ہوتی تھی لیکن حالیؔ کی شعر گوئی کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے اردو نظم کو ارتقائی صورت سے ہمکنار کر دیا۔ ان کی نظموں میں نہ صرف تازگی کا عمل دکھائی دیتا ہے بلکہ نظم کی تحریر کے دوران وہ ارتقائی عمل کے وسیلے کو بھی کام میں لاتے ہیں۔ ارتقائی عمل سے مراد نظم کا ایسا انداز ہے جس میں پہلے تمہید باندھی جاتی ہے پھر اس کے بعد موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسے نقطۂ عروج پر پہنچا دیا جاتا ہے اور آخر میں نظم کے انجام کی صورت نکل آتی ہے۔ اس تمام کیفیت کو نظم کا ارتقائی عمل کہا جاتا ہے۔ اردو میں نظم نگاری کے دوران اس قسم کے ارتقائی عمل کو استعمال کرنے والے شاعروں میں مولانا حالیؔ اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی تمام نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں ارتقائی عمل تمہید، موضوع کا احاطہ، نقطۂ عروج اور انجام سے وابستہ دکھائی دیتا ہے۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ پابند نظم کے شاعر ہیں اور ان کے موضوعات بھی محدود ہیں مگر ان میں تازگی ہے، وقت کی پکار ہے۔ عصری تقاضے اور ضروریات ہیں۔ ان کی نظموں میں اکثر جگہوں پر خطیبانہ رنگ جھلک کر سامنے آ جاتا ہے۔ حالیؔ کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے نظم کو بیانیہ شاعری سے قریب کر کے قدیم اور جدید کے امتزاج کی کامیاب کوشش کی۔ مرثیے کی صنف واقعاتِ کربلا کی حد تک محدود تھی۔ اس قدیم انداز سے ہم آہنگ کرتے ہوئے حالیؔ نے مرثیہ کی صنف کو شخصی مرثیوں کی جہت عطا کی۔ اردو مثنوی کے موضوعات بھی اب تک بندھے ٹکے تھے۔ حالیؔ نے مثنوی کو نئے نئے موضوعات سے روشناس کرایا۔ اسلوبِ سخن میں بھی حالیؔ نے غیر شعوری طور پر بڑی تبدیلیاں لائی ہیں۔ انہوں نے زبان کو سلاست اور سادگی عطا کی۔ صنعتوں کے استعمال اور تکلف سے زبان کو آزاد کیا۔ ہندی اور انگریزی کے وہ الفاظ جو بول چال میں شامل ہیں، بے محابہ استعمال کیے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ کی شاعری میں یہ موضوعاتی اور لسانی تبدیلیاں منصوبہ بند طریقے سے در آتی ہیں۔
سر سید احمد خاں اردو شاعری کے فروغ کے لیے جس انداز کی نظم نگاری کا تقاضا کرتے تھے حالیؔ نے اسے پورا کر دکھایا۔ سادہ و فطری اظہارِ خیال کے لیے حالیؔ کی نظمیں سب سے موزوں ہیں۔ در اصل حالیؔ نیچرل شاعری کے علمبردار تھے۔ اسی لیے اردو کی نظمیہ شاعری میں حالیؔ کو ایک بلند مقام حاصل ہے اور آج بھی اردو نظم جس وزن اور وقار کی حامل ہے اس میں حالیؔ کا بڑا حصہ ہے۔
**
کتابیات:
۱ اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ: سنبل نگار، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۲۰۱۰ء
۲ اردو شاعری کی گیارہ آوازیں: ڈاکٹر عبد القوی دسنوی، نئی آواز،، نئی دہلی، ۲۰۰۵ء
۳ تاریخ اردو ادب، محسن نقوی: ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۲۰۱۰ء
۴ شعورِ فن: ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی، شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ، ۲۰۰۴ء
۵ نئے تنقیدی زاویے: ڈاکٹر خوشحال زیدی، ادارہ بزمِ خضر راہ نئی دہلی، ۲۰۰۴ء
٭٭٭
مطبوعہ : سہ ماہی تخلیق و تحقیق، مؤ ناتھ بھنجن، جولائی تا ستمبر ۲۰۱۸ء
ISSN: 2581-3161