محمد دانش غنی کی کتاب سے مطالعاتی رشتہ قائم کرتے ہوئے میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگے۔
پہلا سوال تو یہ کہ اردو ادب کی تاریخ میں سب سے زیادہ تنقید شاعر اور شاعری کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔ کلاسیکی شعرا سے لے کر دور جدید کے شعرا تک تنقید کا انبار ہے مگر شاعری کی تنقید کا کوئی ایسا ماڈل کیوں نہیں ہے جس کی روشنی میں نئے قلمکار شاعر اور شاعری پر خامہ فرسائی کر سکیں اور شاعری کے نئے ابعاد تلاش کر سکیں۔
دوسرا سوال یہ کہ جس طرح شاعری میں تکرار اور یکسانیت ہے، اسی طرح شاعری کی تنقید بھی یکسانیت کا شکار ہو گئی ہے اور شعری تنقید چند اصطلاحاتی لفظوں میں محصور ہو کر کیوں رہ گئی ہے؟
تیسرا سوال یہ کہ شاعری کے تعین اور قدر کا کوئی واضح پیمانہ یا معیار کیوں نہیں وضع کیا گیا؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا آج کا ناقد تخلیق کی تشخیص میں کامیاب ہے؟ اگر ہے تو کس حد تک؟ کیا معنیاتی اکتشاف یا مفاہیم کی نقاب کشائی اس کے ذہن کا مقدور ہے۔ انہی سوالات کے تناظر میں بہت پہلے میں نے یہ لکھا تھا:
’’تنقید یا تو نثری اصناف پر ہوتی ہے یا شعری اصناف پر۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں اصناف پر لکھی گئیں بیشتر تحریریں تنقیدی مطالبات کی تکمیل میں ناکام رہتی ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جہاں محسن احسان کو یہ کہنا پڑا ؎
یہ ملک سخن کے وہ منافق ہیں کہ ہر صبح
رکھ دیتے ہیں ایک تاج سر بے ہنراں پر
تو وہیں حسن نعیم نے یہ شکوہ کیا ؎
جل کے ہم راکھ ہو گئے کہ بنے ہیں کندن
دونوں اصناف کی تنقید کے ساتھ معاملہ مساوی ہے۔ شاعری پر تنقید لکھنے والا تناظر کلمات، غرابت، تعقید لفظی، صرفی نحوی ساخت، محسنات لفظیہ و معنویہ سے نا آ گاہ ہے تو وہ شعر کے Cancer Cells کی تشخیص میں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ جب اس کے پاس ایسے Microscopic tools ہی نہیں ہیں جس سے Clusters of cancer کا پتہ چلا سکے تو ایسے میں وہ شاعری healthy cellsاور Cancer Cells کے درمیان کیا امتیاز کر سکتا ہے۔ اس لیے فارسی کا یہ شعر بہت فکر انگیز اور معنی خیز ہے کہ ؎
شعر گفتن گرچہ در سفتن بود
شعر فہمیدن بہ از گفتن بود
تو ثابت ہوا کہ شاعری کی تفہیم شعر گوئی سے زیادہ دقت طلب کام ہے۔ متن کے مضمرات ممکنات پر جب تک گہری نظر نہ ہو تب تک تخلیق کے ساتھ انصاف ممکن نہیں (تنقید نہ کہ تصغیر، ادب کولاژ)۔
شاعری کی تنقید میں یہی دشواریاں ہیں جن کی وجہ سے مثالی تنقید کا کوئی نمونہ نہیں مل پاتا اور ناقدین بھی انفرادیت اور امتیازات کے تعین میں یکسانیت کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک جیسی خوبیوں اور خصائص کی وجہ سے ذہن پر شاعری کا نقش بھی قائم نہیں ہو پاتا۔
شاعری کی تفہیم بہت دشوار عمل ہے۔ انتقادی قوت کی اصل آزمائش یہیں ہوتی ہے۔ ذہن کی ساری کھڑکیاں کھولنی پڑتی ہیں۔ تمام حواس کو مجتمع کرنا پڑتا ہے تب جاکے کسی ایک شعرکا مفہوم روشن ہوتا ہے پھر بھی منشائے شاعر تک رسائی ہو جائے یہ ضروری نہیں۔
شاعری کی تنقید پہلے جتنی مشکل تھی، آج کے عہد میں اتنی ہی آسان ہو گئی ہے کہ شاعری کی تنقید تو ضیحی، تشریحی بن کر رہ گئی ہے۔ اب دیدہ بینا اور ذہن رسا کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ اس لیے دھڑ لے کے ساتھ شاعراور شاعری پر تنقید لکھی جا رہی ہے جس میں رطب و یابس کی کوئی تمیز تک نہیں۔ ایسی کم معیار تحریروں کے انبوہ میں وہ تحریریں جو ذہن کو نئی جہتوں زاویوں، سمتوں سے روشناس کراتی ہوں تو ان تحریروں کا وقار و اعتبار بڑھ جاتا ہے۔ ’’شعر کے پردے میں‘‘ ایک ایسا ہی مجموعہ مضامین ہے جس میں شعری کائنات کی نئی عبارت، نئی اشارت، نیا آہنگ اور نئے اسلوب سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ نئے علامات اشارات، تلمیحات، استعارات کے ساتھ ان چہروں سے ملاقات ہوتی ہے جو ہمارے مستند ناقدین کی راڈار پہ کبھی نظر نہیں آتے۔ انھیں بڑی شاعری کے امکانات صرف بڑے شہروں یا مخصوص دبستانوں میں ہی نظر آتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصبات اور گاؤں میں بھی چونکانے والے اور زندہ رہنے والے شعر مل جاتے ہیں مگر ایسے شاعروں کی رسائی دبستانی نقادوں تک نہیں ہوپاتی اس لیے وہ تنقیدی حوالوں کا حصہ نہیں بن پاتے۔ ذرا یہ اشعار دیکھیں۔ کیا ان شعروں میں زندہ اور زبان زد خاص و عام کی قوت نہیں ہے ؎
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
(شاہد کبیر)
ہنر دیا بھی نہیں لے گیا انگوٹھا بھی
بڑے کمال کی فن کار ہے یہ دنیا بھی
(مدحت الاختر)
ہوا کے ہاتھ میں پتھر دبا کر بھیج دیتا ہے
مرا انعام وہ مجھ کو برابر بھیج دیتا ہے
(عبد الرحیم نشترؔ)
قتل کرنا ہو تو کب زہر دیا جاتا ہے
ان دنوں بس نظر انداز کیا جاتا ہے
(سید یونس)
ایک پتھر کی بھی تقدیر بدل سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ سلیقہ سے تراشا جائے
(منظور ندیم)
گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
حادثہ چہرے کی پہچان مٹا دیتا ہے
(ظہیر عالم)
اس طرح اور بھی اشعار تلاش کیے جا سکتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ان اشعار کے خالق سے عوام و خواص کی زیادہ شناسائی نہیں ہے اور ان میں بیشتر شعرا ناقدوں کے راڈارسے بھی غائب ہیں۔ محمد دانش غنی نے بہت اچھا کیا کہ ایسے شعرا کے تخلیقی ابعاد، آہنگ اور اسالیب افکار و موضوعات کو اپنی تنقید کا محور و مرکز بنایا اور یہ ثابت کیا کہ تخلیقی عظمت کسی ایک علاقہ دبستان یا مرکز میں محصور نہیں ہو سکتی۔ ندرت خیال اور جدت اظہار کی گنجائش ہر جگہ ہوتی ہے۔ مقام اور ماحول کی تبدیلی سے بھی شعری اسلوب اور آہنگ بدلتا ہے۔
محمد دانش غنی نے جن شعرا کے شعری امتیازات اور خصائص کو اپنا مطالعاتی محور بنایا ہے ان میں ودربھ کے شعرا شاہد کبیر، مدحت الاختر، عبدالرحیم نشتر، زرینہ ثانی محبوب راہی وغیرہ کے علاوہ غنی اعجاز، خضر ناگپوری، ظفر کلیم، شریف احمد شریف، شکیب غوثی حیدر بیابانی وغیرہ شامل ہیں۔
ودربھ میں اردو غزل اور رتنا گری کی شعری روایت یہ دونوں مضامین اس اعتبارسے بہت اہم ہیں کہ دبستانی جبریت یا مرکزی نرگسیت کی وجہ سے ایسے حاشیائی علاقے اکثر نظر انداز ہوتے رہے ہیں اور ایسے علاقوں سے وابستہ تخلیق کاروں کو اپنے حصے کی شہرت اور شناخت بھی نہیں مل پاتی۔ اس نوع کے مضامین در اصل دبستانی تعصب اور ادبی مقتدرہ کے خلاف رد عمل یا احتجاج کی حیثیت رکھتے ہیں اور علاقائی ادبی تاریخ کی تشکیل کی ضرورت کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ دبستانی اور مرکزی تعصبات اور تحفظات کی وجہ سے ہی اب علاقائی ادبی تاریخ کی طرف توجہ بڑھتی جا رہی ہے اور علاقائی سطح پر کتابیں ترتیب دی جانے لگی ہیں۔ خود محمد دانش غنی اسی تعصب اور تنگ نظری کا شکوہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ادب کے وسیع کینوس پر یہ علاقہ محض اس لیے نمایاں مقام نہ بنا سکا کہ اس کے پاس ترسیل کے ذرائع کم تھے اور پھر یہ بھی ہوا کہ تعصب اور تنگ نظری کے باعث یہاں کے شعرا و ادبا اہل ادب کی نظروں سے اوجھل رہے۔‘‘
(ودربھ میں جدید اردو غزل، صفحہ نمبر ۱۹۷)
مرکز اور دبستان سے دور ہر علاقہ کی یہی عمومی حکایت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس نوع کے مضامین کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ محمد دانش غنی نے وردبھ کے نمائندہ شعرا کا عمدہ اجمالی خاکہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح رتناگری کی شعری روایت پر روشنی ڈالتے ہوئے وہاں کے شعرا کے تیوراور مزاج سے آشنائی بہم پہنچائی ہے۔
ان دونوں علاقوں کے مجموعی جائزہ کے علاوہ محمد دانش غنی نے ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ فن کاروں کو بھی اپنی تنقید کے محور میں شامل رکھا ہے اور ان شعرا نے انفرادی خصائص کی شناخت کی عمدہ کوشش کی ہے۔ گو کہ محمد دانش غنی نے ان شعرا کے تنقیدی محاسبہ کے بجائے تاثراتی زاویہ نظر سے کام لیا۔ تاہم ان تاثرات سے بھی ان کے تخلیقی تشخص کی جہتیں روشن ہو جاتی ہیں اور ان شعرا کے اسلوب اور آہنگ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ان شعرا میں جن پر بہت کم تحریری مواد ہے، ان سے آشنائی کی ایک اچھی صورت نکل آئی ہے۔ اس ذیل میں غنی اعجاز، ظفر کلیم، شریف احمد شریف، شکیب غوثی، خضر ناگپوری قاضی فراز احمد، عطاء الرحمن طارق اور تاج الدین شاہد قابل ذکر ہیں۔
یہ وہ شعرا ہیں جنھوں نے نئے رنگ و آہنگ کے شعر کہے ہیں اور ان کے یہاں نئی تراکیب، امیجز اور تشبیہات بھی ہیں۔ بہت سے چونکانے والے شعر بھی ہیں۔ مثلاً غنی اعجاز کا یہ شعر دیکھئے ؎
اف پہ یادوں کا تسلسل یہ خیالوں کا ہجوم
چھین لی آپ نے مجھ سے مری تنہائی بھی
شکیب غوثی کے اس شعر میں ذات کا عرفان کس انداز میں ہوا ہے، ذرا ملاحظہ کیجیے ؎
مہنگا پڑا ہے ذات کا سودا نہ پوچھیے
سونے کو بیچ آئے ہیں مٹی کے بھاؤ میں
ظفر کلیم کا یہ رنگ سخن دیکھیں ؎
میں عہد گذشتہ کا وہ خاموش کھنڈر ہوں
بچے بھی جہاں شور مچانے نہیں آتے
۰۰۰۰۰
پیاس ہونٹوں پر لیے بیٹھا ہوں ساحل پہ مگر
ضد پہ آ جاؤں تو کوزے میں سمندر دیکھنا
شریف احمد شریف نے کتنی سادگی سے کتنی بڑی بات کہہ دی ہے ؎
وہ لوگ دوڑتے چلاتے اس طرف کو گئے
جدھر سنا کہ سلامت تھا اک مکان کوئی
قاضی فراز احمد کی شاعری اپنے قاری سے اس طرح مکالمہ قائم کرتی ہے ؎
یہ سازشیں تھیں ہوا کی ہماری کیا چلتی
سفینہ ڈوب گیا اور بادبان اڑا
تاج الدین شاہد کی اٹھان دیکھیے ؎
کوئی تو سانحہ گزرا ہے شہر میں اپنے
ہر اک مکان کا پتھر اداس لگتا ہے
محمد دانش غنی نے ادب اطفال کے بھی کئی اہم شاعروں کے حوالے سے مضامین لکھے ہیں جن میں حیدر بیابانی اور اقبال سالک قابل ذکر ہیں۔
ساحر شیوی اور نذیر فتح پوری دونوں بہت مقبول اور معروف ادیب ہیں، ان پر بہت سے مقالے لکھے جا چکے ہیں اور کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ محمد دانش غنی نے ان دونوں کی شاعری کا بھی بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ یہ اس زمرہ سے الگ ہیں جو ناقدین کے تعصب یا تنگ نظری کا شکار ہوا ہے۔
اس کتاب میں ’’شمیم طارق کے ضرب المثل اشعار‘‘ کے عنوان سے بھی ایک مضمون شامل ہے۔ شمیم طارق کی شہرت اور شناخت ناقد، محقق اور صحافی کی حیثیت سے ہے مگر وہ شاعری کے میدان میں بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ کلاسیکی شعری روایت سے آگہی نے ان کی شاعری کو جداگانہ رنگ بھی عطا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں گہری معنویت کے ساتھ ساتھ رمزیت بھی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہر ایک حرف میں ایک کائنات آباد ہے۔ گو کہ ان کی شاعرانہ شخصیت پر بہت کم لوگوں نے لکھا ہے مگر معاصر شعری منظر نامہ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ وہ معاصر شاعری کی روشن دستخط ہیں۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے ؎
موت کتنی رحم دل ہے یہ بتانے کے لیے
عمر بھر کے حادثوں کا گوشوارہ چاہیے
محمد دانش غنی نے ان کی شعری شخصیت کے حوالے سے عمدہ مضمون تحریر کیا ہے اور ایک ایسی جہت کا اکتساب کیا ہے جس سے عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی زیادہ آشنا نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے ساہتیہ ایکادمی ایوارڈ یافتہ ادیب و شاعر شمیم طارق پر یہ تحریر یقینی طور پر ایک نئے زاویے سے قارئین کو روشناس کراتی ہے۔
محمد دانش غنی ایک با شعور ناقد اور زیرک قاری ہیں۔ معاصر ادب اور اس کے رجحانات پر ان کی اچھی نظر ہے۔ ان کی ادب فہمی پر شاید ہی کسی کو شک ہو۔ شاعری کے تنوع تضاد، تکرار اور توارد پر بھی ان کی نظر ہے۔ صنائع بدائع، محاسن و معائب سخن سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ کلاسیکی شعری روایت اور معاصر شعری رویے سے بھی واقف ہیں اور لسانی لطافتوں اور نزاکتوں سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کے اندر تجزیاتی قوت بھی ہے اس لیے شعر فہمی کے مشکل معرکے کو انھوں نے بخوبی سر کیا ہے۔
تخلیقی متن سے انھوں نے براہ راست رشتہ قائم کر کے تجزیے کیے ہیں اور نتائج کا استخراج کیا ہے۔ کسی خاص نظریے کی تقلید و تتبع نہیں کی ہے۔ شعری مطالعات میں انھوں نے اپنی تنقیدی بصیرت اور تفہیمی شعور کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ اس لحاظ سے شعر شناسی کے باب میں ان کی یہ کتاب قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ ان تخلیق کاروں سے متعارف کراتی ہے جن سے ہمارے ادب کا ایک بڑا حلقہ ناواقف ہے اور یہی ناواقفیت اردو ادب کی تاریخ کو مختصر اور محدود کر کے خاص علاقوں میں محصور کر دیتی ہے۔ یہ کتاب در اصل اسی ذہنی حصار کو توڑنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔
٭٭٭
۲۰؍ مئی ۲۰۱۹ء