محترمی!
آداب و نیاز
۱۲؍ نومبر کے انقلاب کے ادب نما کالم میں مخدوم محی الدین کی مشہور نظم ’’چارہ گر‘‘ کے تجزیے شائع ہوئے ہیں۔ عابد حسین، سمیرہ صدیقی اور مرزا صنوبر ماجد علی نامانوس نام ہیں۔ مگر انھوں نے اچھی کوشش کی ہے۔ سب کو مبارکباد۔ قمر صدیقی نے کیا لکھا ہے یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ روزنامہ میں نظموں کا تجزیہ اس لیے شائع کیا جاتا ہے کہ عام قارئین لطف اندوز ہو سکیں اور نئی نسل کی تربیت بھی ہو سکے۔ قمر صدیقی نے تو اپنے تجزیے میں نظم کا پورا تاثر غارت کر دیا ہے۔ جو شخص خود کو شمس الرحمن فارقی کا ہمزاد سمجھتا ہے وہ نظم ’’چارہ گر‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے بالکل مہمل نتیجہ اخذ کرتا ہے:
’’اس نظم میں مخدوم نے اردو شعریات کے بر خلاف محبت کے اندوہناک انجام کے لیے مسجد اور مندر کے ساتھ میکدے کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے جو ایک طرح سے نئی بات ہے۔‘‘
(روزنامہ انقلاب ممبئی، ۱۲؍ نومبر ۲۰۱۹ء)
یہ جملہ شاعری سے قمر صدیقی کی کوئی ذہنی نسبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بالکل مہمل اور غلط نتیجہ ہے جو قمر صدیقی نے نکالا ہے۔ شاعر تو کہہ رہا ہے کہ محبت ایک لافانی جذبہ ہے جس کو وقت، مذہب یا کسی اور دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے طنز مسجد و مندر پر نہیں چارہ گر پر ہے۔ شاعر پوچھتا ہے کہ ائے چارہ گر کیا تو انسان کے دل میں جذبۂ محبت پیدا کر سکتا ہے یا انسان کو محبت کرنے سے روک سکتا ہے؟ قمر صدیقی جیسے لوگوں نے اردو شاعری کو اس کی معنویت سے محروم کیا ہے۔ لوگ مشاعروں سے بھی بدظن ہو رہے ہیں اور شاعری سے بھی۔ نظم کا اختتام جن مصرعوں پر ہوتا ہے وہ یہ ہیں ؎
ازل تا ابد
یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے
کچھ علاج و مداوائے الفت بھی ہے
ان مصرعوں میں طنز ہے تو چارہ گر پر جو واعظ بھی ہو سکتا ہے، سیاست داں بھی ہو سکتا ہے اور محتسب بھی ہو سکتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ سب محبت پر اعتراض تو کر سکتے ہیں مگر خود نہ تو محبت کر سکتے ہیں اور نہ محبت کرنے والوں کے دلوں سے محبت کا جذبہ فنا کر سکتے ہیں۔
قمر صدیقی نے ابتدا ہی میں شارب رودولوی کی چند سطور حوالے کے طور پر پیش کی ہیں جن میں صوتی حسن کے ساتھ نغمگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ صوتی حسن میں نغمگی بھی شامل ہے۔ الگ سے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مختصر یہ کہ قمر صدیقی کا تجزیہ مخدوم کی خوبصورت نظم کا تاثر اور مفہوم زائل کرتا ہے۔ آپ اس تجزیے کو نہ شائع کرتے تو اچھا تھا۔
نوٹ: میں نے یہ مراسلہ نیک نیتی سے مدیر روزنامہ انقلاب ممبئی کو ارسال کیا تھا مقصد یہ تھا کہ قمر صدیقی کے تجزیے سے جو غلط فہمی پھیلی ہے اس کا ازالہ ہو جائے مگر یہ مراسلہ شایع نہیں ہوا۔ قارئین یہ ضرور محسوس کرتے ہوں گے کہ بہت خوبصورت نظم کا ایسا تجزیہ انقلاب میں پیش کیا گیا ہے جو نہ شایع ہوتا تو اچھا تھا۔
٭٭٭