محترمی!
آداب و نیاز
ایک مختصر عرصہ چھوڑ کر میں پانچ سال کی عمر سے کوکن میں ہوں۔ اس لیے کوکن اور اہلیانِ کوکن سے میرا جذباتی لگاؤ فطری ہے۔ ۲؍ ستمبر کے انقلاب میں رتناگری کے شاعر اور میرے بزرگ دوست رفیق وستا کی غزل دیکھی تو بڑی مسرت ہوئی مگر پڑھی تو احساس ہوا کہ زبان کے رموز و نکات سمجھنے والے کئی لوگ کوکن سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ساحر شیوی، پروفیسر یونس اگاسکر، انجم عباسی وغیرہ۔ رفیق وستا اگر اپنی غزل ان میں سے کسی کو اصلاح کی غرض سے دکھا لیتے تو زبان کا عیب دور ہو جاتا۔ مطلع ہے ؎
میں کہاں ہوں، ادھر ادھر ہوں میں
باوجود اس کے معتبر ہوں
’’میں کہاں ہوں‘‘ سوال ہے۔ ’’ادھر ادھر ہوں‘‘ جواب ہے۔ اس سوال جواب کا معتبر اور غیر معتبر ہونے سے کیا تعلق ہے؟ بکھرا ہوا وجود بھی معتبر ہو سکتا ہے۔ مثلاً خوشبو، چاندنی۔ ایک دوسرا شعر ہے ؎
آپ کی فہم پر جو کھل جاتا
سہل اتنا کہاں مگر ہوں میں
فہم میں آنا زبان ہے۔ فہم پر کھلنا فصاحت کے منافی ہے۔ اسی طرح دوسرے مصرعہ میں ’’کہاں‘‘ اور ’’مگر‘‘ کا بیک وقت استعمال معنی اور شعریت دونوں کا خون کر دیتا ہے۔
مطلع اور مقطع دونوں میں اپنے لیے معتبر کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ’’میں‘‘ کی قید میں ہے۔ تعلی بری بات نہیں مگر ’’میں‘‘ کی قید میں ہونا اور تعلی سے کام لینا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ میری دعا ہے کہ رفیق وستا ’’میں‘‘ کی قید سے نجات پائیں۔
نوٹ:
میں نے یہ مراسلہ مدیر انقلاب کو ارسال کیا تھا مگر انھوں نے یہ مراسلہ شایع نہیں کیا۔ مجھے کوئی شکایت نہیں ہے یہ مدیر کا حق ہے کہ وہ کسی کی رائے کو شایع کرے یا نہ کرے۔
٭٭٭