محترمی!
آداب و نیاز
ماہِ جون کا ’’آج کل‘‘ موصول ہوا۔ حسبِ معمول یہ شمارہ بھی قابلِ ستائش ہے۔ تعریف میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں مگر اس وقت آپ کی توجہ منور رانا کی غزل کی طرف کرانا چاہتا ہوں۔
’’اپنے بازو پہ مقدس سی اک آیت باندھے‘‘
جن گھروں میں امامِ ضامن باندھنے کا دستور ہے وہاں قرآنِ پاک کی کوئی آیت لکھ کر بازو پر باندھ دی جاتی ہے اور پڑھی بھی جاتی ہے۔ آیت اور غیر آیت یا مقدس اور غیر مقدس کے درمیان ’’آیت سی‘‘ یا ’’مقدس سی‘‘ کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر آیت مقدس ہوتی ہے۔ ’’مقدس سی‘‘ کہنے سے آیت کا تقدس پامال ہوتا ہے۔
’’زنا زادے‘‘ اور ’’دستارِ فضیلت‘‘ کی نسبت بھی افسوس ناک ہے۔ ’’جو کھڑے رہتے ہیں درباروں میں نیت باندھے‘‘ کا اطلاق خود منور رانا پر ہوتا ہے۔ ان کے بیانات لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔
مجھے تسلیم ہے کہ سخن ناشناس ہجوم میں منور رانا کو بہت داد ملے گی مگر ایسے مصرعوں اور شعروں کی جو ضرب شاعری کے ستھرے ذوق کے علاوہ عقیدے پر پڑتی ہے اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی دونوں غزلیں ہجومی تشدد کے زمرے میں رکھی جا سکتی ہے۔
ٹھیک اسی صفحہ پر شمیم طارق کی غزل شایع ہوئی ہے۔ نہایت صاف ستھری غزل ہے اور اس کے دو شعر تو حاصل غزل ہی نہیں حاصلِ شمارہ بھی کہے جا سکتے ہیں ؎
اتنی خطا ہوئی کہ غلط کو غلط کہا
دنیا نے مجھ کو دشمنِ جانی سمجھ لیا
برتی جو طوطا چشم عزیزوں نے بے رخی
میں نے بھی ان کے خون کو پانی سمجھ لیا
میں آپ کا اور ’’آج کل‘‘ کا مداح ہوں۔ ’’چڈی پہن کر پھول کھلا ہے‘‘ جیسی شاعری کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے اس لیے میں نے چند سطور لکھ دیئے۔ مجھے منور رانا سے کوئی کد نہیں ہے۔
نوٹ:
اس خط کو مدیر آج کل نے ایڈیٹ کر کے شایع کیا تھا۔
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ آج کل، نئی دہلی، اگست ۲۰۱۹ء