محترمی!
آداب و نیاز
ستمبر کا شمارہ نظر نواز ہوا۔ اس شمارے میں کئی شاعروں کی غزلیں اور ایک شاعر کی کئی رباعیات شائع ہوئی ہیں مگر کوئی غزل یا رباعی متاثر نہیں کرتی۔ غزل تغزل سے اور رباعی چوتھے مصرعے کی برجستگی سے محروم ہے۔ کبیر اجمل کی غزل میں بیشتر مصرعے مہمل ہیں۔ مثلاً ان کا مطلع ہے ؎
جہاں بے نور منظر آبِ جو کا رقص میں ہے
وہیں کی خاک میں جذبہ نمو کا رقص میں ہے
آبِ جو کا رقص کرتا ہوا منظر بے نور کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا یہ آبِ جو صرف اندھیرے میں رقص کرتی ہیں، اجالے میں یہ رقص نہیں کرتیں اور جذبے کا استعمال ذی روح اور انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ آبِ جو بے جان ہے اس میں جذبہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسرے شعروں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کا مقطع دیکھیے ؎
میرے اطراف اب بھی اک عذابِ جانکنی ہے
مگر اجمل پرندہ آرزو کا رقص میں ہے
عذابِ جانکنی جسم سے باہر نہیں ہوتا اس لیے اطراف کہنا صحیح نہیں ہے۔ شعر یوں کہہ سکتے تھے ؎
عذابِ جانکنی ہے، میں گرفتارِ بلا ہوں
مگر اجمل پرندہ آرزو کا رقص میں ہے
بابر شریف کی غزل کا مطلع ہے ؎
اگرچہ غم تمہارا مل گیا ہے
تو سانسوں کو سہارا مل گیا ہے
جو دو لخت ہو گیا ہے۔ ایک دوسرے شعر میں ’’مری‘‘ کے بجائے ’’میری‘‘ چھپ جانے سے مصرعہ ناموزوں ہو گیا ہے۔ ان چند باتوں کا ذکر کرنا ناگزیر تھا۔
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ آج کل، نئی دہلی، نومبر ۲۰۱۸ء