زمانۂ قدیم سے رتناگری علم و فن کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔ اس خطۂ مردم خیز سے مختلف شعبۂ حیات میں تاریخی ہستیوں کا ظہور ہوا ہے۔ یہ شہر جہاں مراٹھی زبان و ادب اور تعلیمی باب میں سرفراز ہے وہیں اردو زبان و ادب اور تعلیمی میدان میں بھی تیز گام ہے۔ یہاں کی شعری روایت خاصی پرانی رہی ہے۔ یہاں کا شعری سرمایہ فنی مہارت و ریاضت کا حامل ہی نہیں ہے بلکہ قابلِ ستائش بھی ہے۔ یہاں کی اردو شاعری موضوع کے اعتبار سے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہاں مختلف سیاسی، سماجی معاشرتی اور تہذیبی رنگوں کا عرفان ملتا ہے۔ یہاں کے شعرا نے نہ صرف فطرت کے شاداب اور سحر کارانہ مناظر کو اپنی تخلیقات میں سمونے کی کوشش کی ہے بلکہ ان کی تخلیقات میں کوکن کے جسم و روح کے حسین امتزاج کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں حسامی کر دوی، قیصرؔ رتناگروی، گرامیؔ شرگانوی، حیرت کوکنی، عارف سیمابی بانکوٹی، یکتا ہندی، صوفی بانکوٹی، پرکارؔ رتناگروی، صفدرؔ رتناگروی آدم نصرتؔ ، عابد کالستوی، ناچیز قیصری، انجم یزدانی، قاضی لطیفؔ ، داؤد غازی، ساز پریمی، حسین شاکرؔ ، ساحر شیوی، صابرؔ مجگانوی وغیرہ کے نام کافی اہمیت رکھتے ہیں جن کے یہاں روایتی موضوعات پائے جاتے ہیں۔ کلام میں روانی اور معنی آفرینی کے ساتھ رومانیت بھی جا بجا نظر آتی ہے۔ زبان و بیان کی صفائی، سلاست وسادگی فصاحت اور بلاغت کی طرف یہ شعرا متوجہ رہے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیے ؎
ہم مستوں سے مت پوچھئے کیا کیا نظر آیا
ہر بت میں خدا کا ہمیں جلوہ نظر آیا
جب تک تھی خودی خود ہی کو پہچان سکے ہم
جب اس کو مٹا دیکھا تو اللہ نظر آیا
منصور تو نازاں تھا انا الحق کی صدا پر
اس ساز میں سرمست کو مولیٰ نظر آیا
ہاں، میم میں احمد کے بھی اک راز ہے ہمدم
اس میں بھی ہمیں یار کا جلوہ نظر آیا
جس چشمِ حقیقت میں بصیرت کی جھلک ہے
اس چشم کو ہر ذرے میں مولیٰ نظر آیا
اسرار تصوف کے ہوں وا کیسے حسامیؔ
اسرار کے ہر پردے میں پردہ نظر آیا
(حسامیؔ کردوی)
لاکھ چاہا تھا نکالیں نہ یہ نشتر نکلا
تو ستم گر تھا تیرا غم بھی ستم گر نکلا
کوئی مجبور و پریشاں کوئی مضطر نکلا
کون ہے وہ تیری بزم سے بچ کر نکلا
کوچۂ عشق میں اک ایک سے بڑھ کر نکلا
مست وحشی کوئی دیوانہ قلندر نکلا
جس کو دیکھو وہی سولی پہ نظر آتا ہے
کتنا قاتل ائے محبت تیرا چکر نکلا
پہلے شرمائے مگر پاس جو آ کر دیکھا
غیر سمجھے تھے جسے ہم وہی قیصر نکلا
(قیصرؔ رتناگروی)
نکاتِ وحدتِ خالق کو آشکار کیا
نبیؐ نے شرک کے دامن کو تار تار کیا
قسم خدا کی ہے مقبولِ بارگاہِ خدا
رسول پاک کو دل سے ہے جس نے پیار کیا
سکون چھین لیا دل کو بے قرار کیا
نبی کی یاد نے یہ لطف بار بار کیا
سنا تھا حشر میں وہ بے نقاب آئیں گے
میری نظر نے قیامت کا انتظار کیا
حقیقتاً یہی وہ جذبۂ عقیدت تھا
کہ جس نے قلبِ گرامی کو نغمہ بار کیا
(گرامیؔ شرگانوی)
حسن میں جب سادگی تھی میں نہ تھا
بے حسی میں عاشقی تھی میں نہ تھا
جو فریبِ راہِ زن میں آ گئی
خواہشِ منزل رسی تھی میں نہ تھا
تیرے سنگِ در پہ قرباں رات دن
آرزوئے بندگی تھی میں نہ تھا
جستجوئے عیش میں بیتاب سی
میری خوئے زندگی تھی میں نہ تھا
آہِ برق وجورو استبداد سے
جنگ حیرتؔ کی ٹھنی تھی میں نہ تھا
(حیرتؔ کوکنی)
بگڑ جاتی ہیں تدبیریں، سنور جاتی ہیں تقدیریں
پسِ تخریب اکثر جگمگا اٹھتی ہیں تعمیریں
وطن میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں یہ جو تنویریں
ہمارے ہی سنہرے خواب کی یہ سب ہیں تعبیریں
نہیں سود و زباں کی فکر اربابِ محبت کو
خرابِ عشق ہم ہیں دے زمانہ ہم کو تعزیریں
اگر گرتی ہے بجلی آشیانے پر تو گرنے دو
بدل دیتی ہے بجلی بھی کبھی تنکوں کی تقدیریں
توقع ہے یہی مردہ پرست احباب سے عارفؔ
جلی حرفوں میں لکھیں گے میرے کتبے کی تحریریں
(عارفؔ سیمابی)
شرک کہتا ہے مجھے درکار جو تھا مانگا تھا
اس نے بت دے دیا میں نے تو خدا مانگا تھا
زندگی اس کی ودیعت ہے مگر یہ غمِ دل
کس خوشی میں اسے اے دستِ دعا مانگا تھا
دیکھنا ہے کہ دمِ صبح وہ کیا پاتے ہیں
چاندنی رات میں اندھوں نے دیا مانگا تھا
کچھ نہیں یادِ غم زیست سے ہو کر مجبور
موت مانگی تھی کہ جینے کا صلہ مانگا تھا
تجھ سے جو کچھ ملے نعمت ہے مگر اے مالک
میں نے کب دوسروں کا مانگا ہوا مانگا تھا
(یکتا ہندی)
تری یاد مونس، ترا درد ہمدم
میری زندگی واقعی زندگی ہے
یہ جانا جستجو تری بہت دشوار ہے لیکن
ہم اہلِ دل کہاں اس بات کو مشکل سمجھتے ہیں
(صوفی بانکوٹی)
میں ڈوب جاؤں جسم کو ساحل پہ چھوڑ کر
اور تم مجھے ہمیشہ کہیں ڈھونڈتے رہو
انسان ہیں، حساس ہیں دل رکھتے ہیں نصرتؔ
کہسار کی سینوں میں گھٹن سہہ نہیں سکتے
شہر کی گرم ہوا راس نہ آنی تھی اسے
اڑ گئی جل کے ترے نرم بدن کی خوشبو
اک گردشِ دوران سے نہ گھبرا دلِ ناداں
سینے پہ تجھے گھاؤ ابھی کھانے بہت ہے
میں جل رہا ہوں اور کسی کو خبر نہیں
اک شمع ہے کہ رونقِ محفل جگہ جگہ
(آدم نصرتؔ)
روشنی کا کچھ تو کر لو انتظام
زندگی کتنی بھی ہو اک شام ہے
(انجم یزدانی)
نگاہ وہ کیا جو تو مرکزِ نگاہ نہیں
وہ دل بھی دل ہے کوئی جس میں تیری چاہ نہیں
مجھے نصیب نے مارا ہے لا کے منزل پر
کہ اب مذاقِ تجسس کی کوئی چاہ نہیں
شکستہ دل ہوں مگر اتنا جانتا ہوں میں
درِ اثر سے نہ ٹکرائے تو وہ آہ نہیں
(پرکارؔ رتناگروی)
ہے دل میں نہاں حسرتِ دیدار مدینہ
ہے پیشِ نظر روضۂ سرکار مدینہ
ہر خار میں پنہاں ہیں جہاں لاکھ گلستاں
گلزارِ مدینہ ہے وہ گلزارِ مدینہ
کونین کی ہر شئے جو نظر آتی ہے پر نور
تا حدِ نظر چھائے ہیں انوارِ مدینہ
گرمیِ قیامت کا مجھے ڈر ہو تو کیوں ہو
سر پر ہے میرے دامنِ سرکار مدینہ
ہر شعر میں صفدر ہے تیرے عشقِ محمد
ہر فکر تیری مظہرِ افکار مدینہ
(صفدؔر رتناگروی)
دلوں میں جن کی محبت نہ مفلسوں کا خیال
انہیں کے ہاتھ میں پرچم ہے رہنمائی کا
ترا فریب تری بے وفائیاں توبہ
بتا نہ اور مجھے راستہ بھلائی کا
تڑپ رہا ہوں تمہاری عنایتوں کے لیے
تمھیں خیال کہاں میری بے نوائی کا
(قاضی لطیفؔ)
سحر ہوئی نہ کبھی حسرتوں کی شام ہوئی
امید و بیم میں ہر آرزو تمام ہوئی
غرورِ زہد ترے میکدے میں ٹوٹا ہے
وہ میری توبہ تھی توبہ جو غرقِ جام ہوئی
ملال کیوں نہ ہو افشائے راز پر ہمدم!
جو بات ہم نے چھپائی وہ آج عام ہوئی
جہاں سسک کے مری زندگی نے دم توڑا
سنا ہے گردشِ دوراں وہیں تمام ہوئی
(ناچیز قیصری)
پیار کی وادی ہو یا تلخیِ غم کی بستی
کچھ نہ کچھ دیر ہر اک گانو میں ہم ٹھہرے ہیں
قدم نہ روک مسافر کہ چار جانب لوگ
تماشہ دیکھنے بیٹھے ہیں نارسائی کا
اب ہر اک گام پہ ملتے ہیں نقوشِ امید
اب ہر اک گام پہ منزل کا گماں ہوتا ہے
حیات ساتھ میں لائی ہے موت کا ساماں
اسی نے ہم سے بہت خوب دل لگی کی ہے
ہر رات ہے اک سلسلۂ کشمکشِ موت
مرنے نہیں دیتی مجھے امید سحر کی
اس شب کو خامشی سے گزارو نہ دوستو
ٹھہرا ہے کارواں تو کوئی بات ہی چلے
(داؤد غازی)
آخر یہ جذبِ شوق مرے کام آ گیا
ان کی زباں پہ آج میرا نام آ گیا
ان پر نثار میں نے تو کر دی یہ زندگی
پھر بھی میرے خلوص پہ الزام آ گیا
توبہ کو گھول گھول کے پینا پڑا مجھے
جب سامنے چھلکتا ہوا جام آ گیا
افسوس کی یہ بات ہے تیری طرف سے بھی
میرے جنوں پہ ہوش کا الزام آ گیا
خوش فہمیوں نے ساز کو برباد کر دیا
احباب کا خلوص بھی کیا کام آ گیا
(سازؔ پریمی)
اتنے قریب ہو کے بھی اپنی نہیں لگی
دنیا حسین ہو کے بھی اچھی نہیں لگی
اپنی آنکھوں کو نم نہیں کرنا
میرے مرنے کا غم نہیں کرنا
میں نے اسے سنوارا ہے جتنا بھی ہو سکا
اب زندگی کو مجھ سے شکایت نہیں رہی
کچھ ٹھوس حقائق بھی ہیں اشعار میں اس کے
کچھ تجربے ہیں جن میں حقیقت بھی بہت ہے
بہتے ہوئے دیکھا ہے دریا کی طرح ہم نے
اشکوں کے ٹپکنے کی آواز نہیں ہوتی
(ساحرؔ شیوی)
نصیب ہو نہ سکی وہ بھی زندگی کے لیے
تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے
خزاں ہے یا یہ بہارِ چمن ہے کیا سمجھیں
ہر ایک پھول ترستا ہے تازگی کے لیے
رفیق پا کے بھی پائی ہے دشمنی اکثر
رقیب ڈھونڈھنے نکلا ہوں دوستی کے لیے
وہ چار دن بھی غنیمت سمجھ لیے ہم نے
وہ چار دن جو میسر تھے زندگی کے لیے
بنا کے بھیس فقیروں کا زندگی کرتے
فضا یہ راس نہیں اتنی سادگی کے لیے
کہاں سے لاتے نہ دل ٹوٹتا اگر صابرؔ
یہ فکر اور یہ انداز شاعری کے لیے
(صابرؔ مجگانوی)
کس کو خوشی ملی ہے غمِ روزگار میں
روتا ہوں میں بہار کو فصلِ بہار میں
مدت ہوئی ہے ترکِ تعلق کیے ہوئے
آنکھیں ہنوز نم ہیں تیرے انتظار میں
کچھ لوگ مل گئے تھے سرِ راہ زندگی
وہ بھی بچھڑ کے رہ گئے فصلِ بہار میں
شاکرؔ فغانِ صبح غمِ شام کے سوا
کیا اور مل سکا ہے تجھے اس کے پیار میں
(حسین شاکرؔ)
متذکرہ بالا اشعار میں الفاظ کی بندش، اندازِ بیان سلجھا ہوا اور معیاری ہے جو ذہن پر کسی طرح گراں نہیں گزرتا۔ اس کے علاوہ ایک نیا پن بھی محسوس ہوتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رتناگری کے شعرا غزل کے تیور اور مزاج سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں اردو کے مروجہ اور ترقی یافتہ الفاظ بھی جا بجا کلام میں نظر آتے ہیں جن سے ان کی اردو دانی کا احساس ہوتا ہے۔ شیرینیِ لطافت، اثر آفرینی اور پرکاری بھی ان کی شاعری کی اہم خصوصیات ہیں۔
رتناگری کی شعری روایت حالات سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ اس پر علی گڈھ تحریک اور ترقی پسند تحریک کے ہمہ گیر اثرات پڑے ہیں۔ اسی طرح پہلی اور دوسری جنگِ عظیم نے بھی رتناگری پر اپنے گہرے اور دیر پا اثرات ثبت کیے اور شعرائے رتناگری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہند پر انگریزوں کے تسلط سے حصولِ آزادی تک انگریزی معاشرت اور ان کی علمی و ادبی تحریکیں بھی شعرائے رتناگری پر اپنے دیر پا اثرات ڈالنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان سب کی وجہ سے اردو کا ذخیرہ بڑھا۔ نئے نئے الفاظ اور تراکیب ادب میں داخل ہوئیں۔ محاوروں، ضرب المثل اور جدت میں اضافہ ہوا۔ غرض اردو شاعری بہت سی اہم تبدیلیوں سے دو چار ہوئی۔ حصولِ آزادی کے واقعات و حالات سے جہاں پورا ملک متاثر ہوا وہاں رتناگری کی شاعری بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ یہاں بھی تغیرات رونما ہوئے۔ غزل، نظم اور دیگر اصناف کا لہجہ بدل کر نئی سمتوں اور نئی سوچوں کے گرد گردش کرنے لگا۔ خصوصاً اردو ادب کی نئی نسل پر اس کے بڑے گہرے اثرات مرتکز ہوئے۔
بدیع الزماں خاورؔ ، عبداللہ ساجدؔ، مغل اقبال اخترؔ ، سعید کنولؔ، تاج الدین شاہدؔ منظرؔ خیامی اور اقبال سالک کا شمار رتناگری کے جدید شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کے یہاں عصری آگہی اور جدید خیالات و رجحانات کی تمام پرچھائیاں اپنی رعنائیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ روشن، صالح اور جاندار قدروں کی شکست و ریخت جس کے نتیجے میں انسان بے یقینی، عدمِ اعتماد، خود سے نا آشنائی نا استواری اور ذہنی خلفشار کا شکار ہو گیا۔ یہ وہ جذبات و احساسات ہیں جو جدید شاعری میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جدید شاعری کے تمام موضوعات ان شعرا کے کلام میں کھلے یا پوشیدہ طور پر پائے جاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے ؎
ہر نفس کشمکش حرف و نوا کیسی ہے
کیا بتاؤں میرے اندر یہ فضا کیسی ہے
نہ برستی ہے نہ کھلتی ہے، عجب عالم ہے
کون جانے کہ یہ ساون کی گھٹا کیسی ہے
پریم صاحب نے تو لکھا ہی نہیں کچھ خاورؔ
کیا پتہ گلشنِ دلی کی فضا کیسی ہے
(بدیع الزماں خاورؔ)
مڑ کے پیچھے کی طرف راہ میں دیکھا نہ کرو
گھر سے نکلو تو سفر میں کہیں ٹھہرا نہ کرو
زخم کو پھول کی مانند سجا لو دل میں
بے وفائی کا کسی شخص سے شکوا نہ کرو
مسکراتے ہوئے ہر حال میں جینا سیکھو
وقت ظالم ہے بہت وقت سے الجھا نہ کرو
کوئی موتی ہو کہ شیشہ ہو کہ دل ہو اخترؔ
ٹوٹنے والی کسی شئے کا بھروسہ نہ کرو
(مغل اقبال اخترؔ)
زرخیز نہ ہوں ذہن تو بے کار ہے سب کچھ
الفاظ کے بادل ہوں کہ افکار کی بارش
ہر سمت آگ، قہر، غضب، ظلم اور ستم
سہما ہوا ہے خوف سے ہر فرد شہر میں
موم کی طرح پگھل جاتا ہے پتھر دل بھی
آنچ دے جاتی ہے احساس کی شدت کتنی
کیوں جاتے ہو اس طرح سے تم راہ بدل کر
میں راہ کا پتھر ہوں، ہٹا کیوں نہیں دیتے
میں روشنی میں تھا تو سبھی آس پاس تھے
جب چھا گیا اندھیرا تو سائے بھی ٹل گئے
(سعید کنولؔ)
شیشوں میں عکس زخمِ مقدر لیے ہوئے
میری صدی ہے ہاتھ میں پتھر لیے ہوئے
شب میں خامشی کا فسوں چار سو مگر
پھرتا ہوں شور جسم کے اندر لیے ہوئے
دھرتی فقط نہیں ہے پریشان جنگ سے
آکاش بھی ہے درد کا لشکر لیے ہوئے
پھرتا ہوں جستجوئے سکوں میں افق افق
ہر سمت ٹوتٹا ہوا منظر لیے ہوئے
(عبد اللہ ساجد)
ادائے شعلہ یوں تھی مسکرانے کی
کہ یاد آئی چمن میں بہار آنے کی
عروجِ شام سے گم تھے طلوعِ صبح تک
جنوں نواز ہر اک بات تھی فسانے کی
بھگو کے اشک سے دامن نچوڑ لوں سر پر
تمنا دل میں ہے برسات میں نہانے کی
جہاں پہ برف کو چھونے سے ہاتھ جلتا ہے
ہے آرزو مجھے اس رہ گزر سے جانے کی
مرے ہی گھر میں مرا قتل ہو گیا منظرؔ
سزا ملی ہے یہ قاتل کا گھر بتانے کی
(منظرؔ خیامی)
فون آیا تو کہہ دیا میں
آ رہا ہوں کہ راستے میں ہوں
گھر میں سب کو میرا سلام کہو
کل سعودی سے فون آیا تھا
اپنا بھی ہو تو فون پہ ملنا محال ہے
اخبار ہی میں ملتی ہیں اب شہر کی خبر
کیا کروں فون بھی نہیں لگتا
کیسے پوچھوں میں خیریت اس کی
لوگ پوچھے گے کیا ہوا شاہد
چوٹ کیسے لگی ترے سر پہ
(تاج الدین شاہدؔ)
وہ کیسے کر لیں گے میرا گمان لفظوں میں
سمیٹ لیٹا ہوں میں آسمان لفظوں میں
بہت حسین ہے اندازِ گفتگو ان کا
نکال لیتے ہیں وہ میری جان لفظوں میں
یہ فلسفہ میں زمانے کو کیسے سمجھاؤں
زبان ہوتی ہے ان بے زبان لفظوں میں
ابھی تو جاری ہے سالکؔ مشقتوں کا سفر
اتاروں کیسے میں اپنی تھکان لفظوں میں
(اقبال سالکؔ)
ان اشعار میں زبان و بیان کا ایک نیا انداز، نئے خیالات و رجحانات، عصری حسیت، علامتی شعور اور نکھرا ہوا جدید لب و لہجہ نظر آتا ہے۔
ان کے علاوہ مبین ساحلؔ ، شفیق احمد شفیق اور شادابؔ رتناگروی کے کلام میں بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی پائی جاتی ہے۔ زبان و بیان میں سلاست و صفائی ہے۔ روایت سے پاسداری کے ساتھ ساتھ عصری آگہی اور نئی شاعری کی طرف جھکاؤ کے آثار بھی نظر آ جاتے ہیں۔ آج رتناگری کی شعری روایت اپنے اسلوب، انداز، پیرائیہ بیان ندرت، ذہنی و فکری مقصد، عصری حسیت اور فن و ہیئت کے نئے تجربات کرتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
کتابیات:
۱ تذکرہ شعرائے کوکن، رشید آثار، بزمِ فروغِ ادب کوکن، مہاڈ، ۱۹۸۶ء
۲ کوکن میں تخلیقِ ادب، محمود الحسن ماہر، آئیڈیل فاؤنڈیشن، ممبئی، ۲۰۰۴ء
۳ کوکن میں اردو تعلیم (حصہ اول)، ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ ، نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۱۹۹۶ء
۴ کوکن میں اردو تعلیم (حصہ دوم)، ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ ، نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۱۹۹۹ء
٭٭٭
مطبوعہ : سالنامہ سہکار جرنل آف گوگٹے جوگلے کر کالج رتناگری، اپریل ۲۰۱۵ء