ناگپور کے ادبی ماحول میں پرورش پانے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں محمد دانش غنی کو اس لحاظ سے نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ انھوں نے شاعری سے نہیں بلکہ تنقید نگاری سے اپنی والہانہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس کے چاہنے والے اس علاقے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ محمد دانش غنی نئی اردو شاعری کے نامور شاعر ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ ناگپور ہی میں ان کی ولادت ہوئی۔ یہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ اسی کی ادبی فضا میں ان کا شعور بالغ ہوا۔ اردو سے ایم اے کیا۔ لائبریری سائنس کی سند حاصل کی۔ فکرِ معاش میں بنگلور کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن (NIUM, Bangalore) میں کئی سال ملازمت کی۔ اب گوگٹے جوگلیکر کالج رتناگری میں اردو کے لکچرر ہیں۔ سمندر کے کنارے آباد اس شہر کی خوش گوار اور صحت مند آب و ہوا نے ان کی مثبت فکر کے دائرے کو بے انتہا وسیع کر دیا ہے۔ ان کی سوچ کی کھڑکیاں تازہ ہواؤں سے لطف لینے کے لیے ہمیشہ کھلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ میرے اس خیال کی تصدیق ان کے تنقیدی مضامین سے کی جا سکتی ہے جو جرائد و رسائل میں شایع ہو چکے ہیں اور کتاب ’’رنگ و آہنگ‘‘ کی صورت میں بھی چھپ کر منصۂ شہود پر آ چکے ہیں اور قارئین سے دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ’’شعر کے پردے میں‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کا تازہ مجموعہ ہے جس میں بزرگ شعرا کی فکر سے ان کی عقیدت اور اپنی ریاست کے شعرا سے محبت جلوہ گر ہے۔
محمد دانش غنی نے اگر ایک طرف الطاف حسین حالیؔ ، محسنؔ کاکوروی، علامہ اقبال محمد علی جوہر، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی اور ساحر لدھیانوی کے فکر و فن کا عنوان کے دائرے میں اسیر رہ کر دیانت داری سے اپنی مثبت سوچ کے تحت محاسبہ کیا ہے تو دوسری طرف اپنی ریاست کے شعرا میں بشر نواز، غنی اعجاز، ظفر کلیم، شریف احمد شریف، خضر ناگپوری، نذیر فتح پوری، شکیب غوثی، حیدر بیابانی، سعید کنول، تاج الدین شاہد اور اقبال سالک کی شاعرانہ خوبیوں کو ہنر مندی سے اجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ کوکن میں اردو لوک گیت کی روایت، ودربھ میں جدید اردو غزل اور رتناگری کی شعری روایت پر بھی سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ گویا اس مجموعہ میں اپنی ریاست کے فنکاروں سے ان کی دلچسپی کا پلہ بھاری ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔ دوسری ریاستوں کے نقادوں کو اپنے علاقے کے فنکاروں کی تشہیر کرنے سے فرصت کہاں کہ اس طرف نظر اٹھا کر دیکھیں۔ محمد دانش غنی نے یہ اچھا ہی کیا کہ اپنی ریاست کے فنکاروں کا خیال رکھا اور ان کو متعارف کرانے کی احسن کوشش کی۔
محمد دانش غنی نے اپنے تنقیدی عمل میں ہر شاعر کی مثبت سوچ اور ان کے الفاظ کی حرمت کا صدقِ دل سے احترام کیا ہے اور تعصب و نفرت سے دور رہ کر ان کے فکر و فن کا احتساب کیا ہے۔ ان کی تنقید کا تعلق اس جذبے سے نہیں جو اپنے اور پرائے میں تفریق کرتا ہے اور تخلیق کار کی شخصیت سے مرعوب ہو کر اس کی تخلیق کے معیار کا اندازہ لگاتا ہے بلکہ ان کا تنقیدی رویہ تخلیق کو اپنی بنیاد بناتا ہے اور اسی کی روشنی میں محاسن کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کی مثبت سوچ تعریف و تحسین سے آگے قدم نہیں بڑھاتی اس لیے تخلیق کار کی تخلیق کے احتساب کے بعد جو رس نکلتا ہے وہ تلخ نہیں بلکہ شیریں ہوتا ہے۔ محمد دانش غنی کا یہ وہ عمل ہے جو ان کی سادہ اور نیک فطرت کو اجاگر کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی فکر منفیت کے خطرناک اثرات سے منزہ ہے۔ ان کی فطرت کی یہی خوبی ان کے تنقیدی مضامین کے حرف حرف سے ٹپکتی ہے۔ وہ کسی کو ناراض نہیں بلکہ خوش کرتے ہیں۔ کسی کی بد دعا نہیں بلکہ دعا لیتے ہیں۔ وہ اپنی علمیت سے فتنہ پیدا نہیں کرتے بلکہ فنکار کے فن کی خوبی کو اجاگر کر کے اپنے قارئین سے اس کا تعارف کراتے ہیں اور اس طرح کراتے ہیں کہ اس کی عزت و توقیر دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے۔
محمد دانش غنی نے احتساب و تجزیے کے بعد محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری کو فن کا اعلا نمونہ قرار دیا ہے۔ علامہ اقبال کی بچوں کے لیے شاعری کو ادبِ اطفال کا بیش بہا سرمایہ بتایا ہے۔ محمد علی جوہر کی شاعری کے لہجے کو نرم و سبک تسلیم کیا ہے۔ حسرت موہانی کو احساسِ جمال کا شاعر کہا ہے اور شاعری کو نئے رجحانات اور نئے زاویوں کا نقیب ثابت کیا ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی کو حسن و عشق کا شاعر مان کر ان کے معیارِ تغزل پر اچھی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی ریاست کے جن تخلیق کاروں کی تخلیق کا جائزہ لیا ہے اس میں بھی کسی کو ناراض نہیں کیا ہے۔ ’’ودربھ میں جدید اردو غزل‘‘ ایک ایسا تنقیدی مضمون ہے جس میں تنقید کے علاوہ تحقیقی شان بھی پائی جاتی ہے۔ اس میں انھوں نے اس طرزِ فکر کی نمائندگی کرنے والے شعرا کو ایک جگہ جمع کر کے یہ فیصلہ بھی صادر کیا ہے:
’’ودربھ کے جدید شاعروں نے اپنی محنت و مشقت اور ادبی ورثے کے ایماندارانہ اکتساب کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشی اور جدید شعر و ادب میں بیش بہا اضافہ کیا۔‘‘
(ودربھ میں جدید اردو غزل، صفحہ نمبر ۲۱۳)
’’کوکن کے اردو لوک گیت‘‘ میں اس پر فضا خطہ میں گائے جانے والے لوک گیتوں کا محاکمہ کرنے کے بعد وہاں کے لوگوں سے یہ مخلصانہ گزارش بھی کی ہے:
’’نئے نئے ذرائع ابلاغ و ترسیل کے اثرات سے کوکن کے اردو لوک گیتوں کا سلسلہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ تعجب نہیں کہ مزید چالیس پچاس برسوں میں ان کے سر چشمے پوری طرح خشک ہی ہو جائیں۔ اس لیے جیسے بھی، جہاں کہیں بھی اور جس قدر بھی لوک گیتوں کا یہ گراں بہا سرمایہ مل جائے اسے محفوظ کر لیا جانا ضروری ہے۔ ورنہ اردو زبان و ادب اور اس کی لسانی و تہذیبی تاریخ کو ایک اہم بنیادی کڑی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جانا پڑے گا۔‘‘
(کوکن کے اردو لوک گیت، صفحہ نمبر ۱۹۶)
’’رتناگری کی شعری روایت‘‘ بھی معلوماتی مضمون ہے۔ چوں کہ محمد دانش غنی فی الوقت اسی شہر کے ایک کالج میں لکچرر ہیں اس لیے ہر چھوٹے بڑے شاعر کو اس میں جگہ مل سکی ہے۔ اس مضمون سے رتناگری کا شاعرانہ ماحول پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔
محمد دانش غنی کا تنقیدی عمل ابھی تعریف و تحسین کے دائرے میں ہے۔ یہ ان کے مطالعے اور مشاہدے کا امین ہے۔ ادب و شاعری کی ادلتی بدلتی قدروں سے ان کی آگاہی کا شاہد ہے۔ محمد دانش غنی جوان ہیں۔ تازہ دم ہیں۔ انھیں طویل سفر طے کرنا ہے اس لیے امید ہے کہ وہ اپنا اگلا قدم مضبوطی سے آگے بڑھائیں گے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر کے دکھائیں گے۔ میری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
٭٭٭
۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء