آزادی کے دس سال بعد اردو شعر و ادب نے ایک نئی کروٹ لی اور نیا ذہن، نئی فکر اور نیا رجحان وجود میں آیا۔ زندگی اور اس کے تقاضوں کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا جانے لگا۔ جدید طرزِ فکر اور جدید لب و لہجہ کی گونج اردو ادب میں سنائی دینے لگی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب ہماری زندگی سے قریب تر محسوس ہونے لگا۔ علاقۂ ودربھ میں بھی یہ تبدیلیاں شد و مد سے محسوس کی گئیں مگر افسوس کہ ادب کے وسیع کینوس پر یہ علاقہ محض اس لیے نمایاں مقام نہ بنا سکا کہ اس کے پاس ترسیل کے ذرائع کم تھے اور پھر یہ بھی ہوا کہ تعصب اور تنگ نظری کے باعث یہاں کے شعرا و ادبا اہلِ ادب کی نظروں سے اوجھل رہے۔
علاقۂ ودربھ شروع سے ہی اردو شعر و ادب کا مسکن رہا ہے۔ اردو کے معروف مراکز سے دوری کے باوجود اس علاقے میں شعر و سخن کا ذوق پھلتا پھولتا رہا ہے اس لیے ادبی دنیا میں اپنا ایک مقام اور حیثیت رکھتا ہے۔ اردو کی ادبی تحریکوں کے اثرات اس علاقہ پر بھی اتنے ہی پڑے ہیں جتنے دیگر صوبوں پر۔ اس طرح جدید شاعری نے علاقۂ ودربھ پر بہت جلد اپنے اثرات مرتب کیے۔ شب خون، سوغات، کتاب، تحریک، شاعر، پیکر، سطور الفاظ وغیرہ رسائل و جرائد یہاں کے اردو دانوں کے مطالعہ میں رہے ہیں۔ عبدالرحیم نشترؔ نے ’’ودربھ نامہ‘‘ جاری کیا تو اس علاقے کے جدید شعرا و ادبا کو ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنانے کا ایک پلیٹ فارم مل گیا۔ ’’ودربھ نامہ‘‘ کے اجراء سے قبل شاہد کبیر اور مدحت الاختر جدید شعرا کی غزلوں کا انتخاب ’’چاروں اور‘‘ کے نام سے ۱۹۶۸ء میں شائع کر چکے تھے جس کے ناشر عبدالرحیم نشترؔ تھے۔ عبدالرحیم نشترؔ نے ۱۹۷۱ء میں ’’ارتکاز‘‘ کے نام سے جدید شاعروں کی منتخب غزلوں کا مجموعہ شائع کیا۔ غرض کہ شاہد کبیر، مدحت الاختر اور عبدالرحیم نشترؔ کے تکون نے علاقۂ ودربھ میں جدید شاعری کو مقبول بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
۱۹۶۰ء کے بعد ودربھ میں شاعروں کی جو نسل ابھر کر سامنے آئی اس نے فرد کے احساسات، تصورات و خیالات میں تغیر پیدا کیا۔ اس نے اپنی ذات کو اپنی شخصیت کے حوالے سے سمجھنے کے لیے نئے زاویے تلاش کیے۔ موجودہ زندگی اور وقت کی رفتار پر گہری نظر رکھی اور اسے دیکھا، پرکھا اور اس کی دھڑکنوں کو محسوس کیا۔ سماجی مسائل کو اور بھی گہری نظر سے دیکھا جانے لگا اور اس کے حل تلاش کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ غزلوں کی نئی سمت سازی پر خصوصی توجہ صرف کی گئی۔ ان نئی سمت کے تعین سازوں میں شاہد کبیر، مدحت الاختر اور عبدالرحیم نشترؔ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ودربھ میں جدید شعری رویے کے ان بنیادی معماروں کے بعد دوسرے اہم شعراء میں محبوب راہیؔ ، حفیظ مومن، سید یونس، ضیا انصاری ظفر کلیم، غنی اعجاز، شریف احمد شریف، منصور اعجاز، شکیب غوثی، اقبال اشہرر وغیرہ کے نام بھی معتبر ہیں۔ تیسری اور چوتھی نسل کے شعراء میں غیور جعفری، فدا لمصطفی فدوی، عاجز ہنگن گھاٹی، فصیح اللہ نقیب، بدر جمیل، منظور ندیم، عارج میر، غلام رسول اشرف، خواجہ ربانی، ظہیر عالم، رشید الظفر، محفوظ اثر، ضمیر ساجد اور عبید حارث کے نام نمایاں ہیں۔ ان کی غزلوں میں عصری سچائی صاف طور پر جھلکتی ہے۔ ان کا لب و لہجہ قدرے مختلف ہے۔ اکثر و بیشتر کے یہاں اکھڑ پن کا احساس ہوتا ہے لیکن اس کڑواہٹ کے احساس سے قاری نیا پن اور تازگی سے دو چار بھی ہوتا ہے۔ اکثر شعرا کے کلام میں شگفتگی اور تازگی کے ساتھ خفگی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ یہ اشعار دیکھئے ؎
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
جہاں تھک ہار کے ڈیرا لگائے جو گی
وہیں سے رات کی پہلی پہر شروع ہو گی
اسی خطا پہ وہ اک روز مارا جائے گا
غریب ہو کے تونگر دکھائی دیتا ہے
میں جنبشِ انگشت میں محفوظ رہوں گا
ہر چند مجھے ریت پہ تو لکھ کے مٹا دے
میں ہنس رہا تھا دور کھڑا اور چند لوگ
لے جا رہے تھے مجھ کو کفن میں لپیٹ کے
(شاہدؔ کبیر)
ہنر دیا بھی نہیں لے لیا انگوٹھا بھی
بڑے کمال کی فنکار ہے یہ دنیا بھی
روتے ہیں مگر آنکھ سے آنسو نہیں بہتے
ہم سا کوئی دنیا میں ریا کار نہیں ہے
رہتے تھے ایک ساتھ تو کیوں ہو گئے جدا
بچے جواں ہوئے تو انھیں کیا بتائیں گے
خبر نہ تھی کہ وفا بھی خریدنی ہو گی
ہمیں بھی جیب میں تھوڑا سا مال رکھنا تھا
روشنی میں رہا کرو خاموش
روشنی خود زبان ہوتی ہے
(مدحتؔ الاختر)
ہوا کے ہاتھ میں پتھر دبا کر بھیج دیتا ہے
مرا انعام وہ مجھ کو برابر بھیج دیتا ہے
عجیب کارِ ہوس ہے نشاط و وصل کے بعد
خود ایک ننھے سے بچے کو زندہ گاڑ دیا
چاندنی میں جل رہا تھا بیڈ روم
نرم بستر میں اکیلا چاند تھا
وہ شخص جس نے خود اپنا لہو پیا ہو گا
جیا تو ہو گا مگر کس طرح جیا ہو گا
ان کالی سڑکوں پہ اکثر دھیان آیا
میرے من کا میل کہاں تک پھیل گیا
(عبدالرحیم نشترؔ)
قتل کرنا ہو تو کب زہر دیا جاتا ہے
ان دنوں بس نظر انداز کیا جاتا ہے
دوست کی دوستی سے مطلب ہے
دوست کی دشمنی سے کیا لینا
نکلے تو زمانے نے سر آنکھوں پہ بٹھایا
جب تک ترے کوچہ میں رہے خوار بہت تھے
مرے لیے نہ سہی اپنے آپ کی خاطر
وہ کتنے چاؤ سے خود کو حسین رکھتا ہے
چند دن خود کو برتنے کے ہیں ورنہ پھر تو
زندگی آپ ہی اوڑھے گی بچھائے گی تجھے
(سید یونس)
صدیوں سے میں جینے کی سزا کاٹ رہا ہوں
سانسوں کی صلیبوں پہ ہوں لٹکایا ہوا سا
کرم احباب کے ہم پر بہت ہے
ہماری پیٹھ میں خنجر بہت ہے
کل سمندر کے کنارے اسے چھوڑ آئے تھے
آج دیکھ تو پھر اس شخص کو پیاسا پایا
دیکھنے والا کوئی ہو تو دکھاؤں اس کو
روح میں ہوتی ہے زخموں کی سجاوٹ کیسی
ذکر تھا پھول کی نزاکت کا
باتوں باتوں میں چل گئے پتھر
(محبوب راہیؔ)
ریل ہر سمت سے روز آ کے گزر جاتی ہے
شہر کو میرے کئی رنگ کا چہرہ دے کر
خضر ہونے کا جو دعوا ہے تو سیدھا کر دو
کسی گرتی ہوئی دیوار کو کاندھا دے کر
نیند جب تک تھی مری آنکھ میں محفوظ تھا میں
قتل لمحوں نے کیا خواب سے باہر مجھ کو
ہر نفس اک کرب ہے دل میں لیے
آدمی اتنا کبھی ٹوٹا نہ تھا
(شارق جمال)
ترکِ تعلقات پہ اصرار تھا تجھے
اب تو مری وفا کی دہائی نہ دے مجھے
بہار آئی تھی خوفِ خزاں سے لرزاں تھے
خزاں کے دور سے گزرے تو با شعور رہے
انسانوں نے انسانوں کے خون سے پیاس بجھائی ہے
پیروں کا تم زخم نہ دیکھو کانٹا تو پھر کانٹا ہے
(زرینہ ثانی)
لوگ خوش ہے اسے دے دے کے عبادت کا فریب
وہ مگر خوب سمجھتا ہے خدا ہے وہ بھی
بے خیالی میں سہی ٹوٹ گیا ہے رشتہ
ان کا اصرار کے پھر بیٹھ کے جوڑا جائے
روشنی کا فریب جاری ہے
اپنے سائے سے انحراف کرو
نفرتوں کے سہارے اگا پیار بھی
ایک ہی ڈال پر پھول بھی خار بھی
تیرے جانے سے ہوا تھا ان کے آنے کا یقیں
تجھ سے بھی بادِ صبا نامہ بری ہوتی نہیں
(غنی اعجاز)
جب ملے رفیقوں سے زخم ہی ملے ہم کو
بے سبب رہا دل میں دشمنوں کا ڈر برسوں
کتنی عمارتوں کو نیا شہر کھا گیا
کوسوں کسی پرانے کھنڈر کا نشاں نہ تھا
منظر ہی حادثے کا نہایت عجیب تھا
وہ آگ سے جلا جو ندی کے قریب تھا
بچوں کو تتلیوں کی کہانی سنا کے ہم
ماضی کے کچھ حسین خیالوں میں کھو گئے
پیاس ہونٹوں پر لیے بیٹھا ہوں ساحل پہ مگر
ضد پہ آ جاؤں تو کوزے میں سمندر دیکھنا
(ظفر کلیم)
ابھرے گا تری یاد کا خورشید وہیں سے
تنہائی کے جس تیرہ افق پر میں کھڑا ہوں
تو رات کے ماتھے پہ تھا رات کی صورت
ہالے کی طرح میں ترے اطراف رہا ہوں
موم کی طرح مرا جسم پگھلتے ہوئے دیکھ
اس گھڑی تو ہے مرے پاس کہ شعلہ کوئی
دستک سی دے گیا تھا درِ دل پہ کوئی شخص
برسوں میں اپنے جسم کے باہر کھڑا رہا
جلوس والے مکانوں کو پھونک بھی دیتے
یہی بہت ہے کہ گزرے ہیں آدمی کی طرح
(ضیا انصاری)
اٹھے صبح تو بدن ٹوٹتا ہوا سا لگے
یہ انحطاط بھی شاید نشاطِ شب کا ہے
تو خدا ہے تو مرا دستِ طلب خالی کیوں
بات اتنی سی تری ذات تک آ پہنچی ہے
سارا منظر سراب جیسا ہے
جو بھی دیکھا ہے خواب جیسا ہے
سوال یہ بھی ہے کس فاصلے سے تیر چلا
یہ دیکھنا بھی ہے گہرائی کتنی گھاؤ میں ہے
محبت کا بس ایک ہی کام ہے
بیاباں کو گلزار کرتی رہے
(شریف احمد شریف)
ساحل پہ مرادوں کی سمندر نہیں آیا
وہ شہر میں ہو کر بھی مرے گھر نہیں آیا
پھر ہم نے اتحاد کی ایسی مثال دی
مٹھی میں ریت بھر کے ہوا میں اچھال دی
کرب کی رات ہے یا درد سے ٹوٹی ہوئی نیند
خوف سے چیخ اٹھوں خواب سنہرا دیکھوں
دروغ گوئی نے سب داغ دھو دیے ان کے
ہماری خامشی آخر ہمارا جرم ہوئی
آسماں مٹھی میں بھر لیں جی میں تو آیا بہت
ہم کو اک انجان سی خواہش نے تڑپایا بہت
(منصور اعجاز)
سورج کی ہے بے خبری کہ موسم کی شرارت
کیوں سایہ مرے قد کے برابر نہیں آیا
میں کیا کروں گا بھلا جا کے اس بلندی پر
جہاں سے میرا ہی سایہ مجھے دکھائی نہ دے
میری بات کا ہرگز تم وشواس نہ کرنا
آج کا انساں ہوں مکاری کر جاؤں گا
گھیرا کچھ اس طرح سے غمِ روزگار نے
خود اپنے آپ میں بھی اترنے نہیں دیا
یارب کوئی فرشتہ جسے دوست کہہ سکوں
انسان کی تلاش میں بینائی جائے گی
(بدر جمیل)
کچھ یاد نہیں مجھ کو میں کون ہوں کیسا ہوں
کیا کوئی مجھے میری پہچان بتا دے گا
کہیں پر شور آوازوں کا جنگل
کہیں تا دور سناٹا گیا ہے
نہ وہ مجھ سے اتنا قریب آئے گا
نہ میری صدا دور تک جائے گی
کبھی سوچ لینا عبث تو نہیں
مزا درد کا جن کراہوں میں تھا
کس لیے تیرے میرے بیچ اب تک
دوستی کی خلیج حائل ہے
(غیور جعفری)
خود اپنا عکس دیکھ کے چکرا گیا ہوں میں
آئینہ دیکھنا بھی کڑا امتحان ہے
لوگ پڑھنے سے خوف کھاتے ہیں
ہم نے شعروں میں موت رکھ دی ہے
ہمارا جیت میں کیا ذکر، ہار میں بھی نہیں
ہے کارواں تو بڑی شے غبار میں بھی نہیں
ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے
اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا گھر ہے یہاں
جو خشک ہو گئے کیا ان سے داسیوں کو غرض
ہرے ہوں کچھ تو عبادت بھی ہو درختوں کی
(اقبال اشہر)
سینہ لہو لہان ہے کالی چٹان کا
پتھر میں بھی گمان سا ہوتا ہے جان کا
اک آفتابِ عمر سرِ شام ڈھل گیا
یا پنکھڑی سے اوس کا قطرہ پھسل گیا
تو رو رہا ہے چار گلوں کی وفات پر
عاجزؔ ہمارے ہاتھ سے موسم نکل گیا
پرندے لوٹ کے آتے ہیں شام سے پہلے
ہمارے بچے تو راتوں کو گھر نہیں آتے
دے کے بچے کے ہاتھ میں چاقو
اپنا انجام سوچتے کیوں ہو
(عاجزؔ ہنگن گھاٹی)
سفر سلگتے ہوئے موسموں کا تھا درپیش
دہکتی دھوپ تھی سر پر شجر نہ تھا کوئی
دشمنوں کے شہر میں، میں اکیلا ہو گیا ہوں
ایک اک کر کے مرے ساتھی سبھی مارے گئے ہیں
مجھ کو اپنانے سے پہلے سطح پر میری اتر
پستیوں میں ہوں بلندی سے نہ یوں آواز دے
حصارِ لمحہ میں خود کو سمیٹتے نہ بنی
شکار وقت تھے کیا تیری آرزو کرتے
ہے زندگی بھی ایک مسلسل سفر کا نام
ایسا سفر کہ راہ میں کوئی شجر نہ آئے
(شکیب غوثی)
تکلفات کے صحرا میں کھو گیا کوئی
قریب آ کے بہت دور ہو گیا کوئی
میری مانو، مت اس درجہ خواب بنو
خوابوں کا محصول چکانا پڑتا ہے
اکثر باہر ہی رہتا ہوں
کیا میرا گھر جنت کم ہے
شوخی، ادا، غرور و شرارت خریدیے
چاندی اچھالیے تو قیامت خریدیے
آسماں چھو نہیں سکے کبھی
روز دریا مگر اچھلتا ہے
(حفیظ مومن)
گردشِ نو کا مری پوچھتا پھرتا ہے پتا
شب میں سورج کو سمندر میں ڈبونے والا
کوئی موسم ہو مجھے چین نہیں مل پاتا
راستے ہی کا تو برگد ہوں کدھر جاؤں گا
اس کے بدن کی آنچ میں تپتا ہوا لہو
پھرتا ہے مجھ کو آج بھی در در لیے ہوئے
نرم و نازک سا بدن قید ہے بانہوں میں ابھی
آنکھ کھل جائے تو پھر دشت کا منظر ہو گا
اپنے گناہ داب کے مٹی میں خوش تھا میں
بارش کی بوند بوند نے رسوا کیا بہت
(خ زماں انصاری)
مجھے گلے سے لگایا تھا پھینک کے تلوار
مگر چھپائے ہوئے آستیں میں خنجر تھا
دھندلا نہ جائے یورشِ ظلمات سے کہیں
اس اجلی چاندنی کا نکھرتا ہوا وجود
لڑتا رہا جو آخری دم تک ہواؤں سے
دم توڑتے ہوئے اسی پنچھی کی آس ہوں
میں وہ شجر ہوں جس کو اپنے گرنے کا افسوس نہیں
مجھ پہ بسیرا کرتے ہیں جو پنچھی ان کا کیا ہو گا
پر پھڑ پھڑائے اڑنے کی ہمت نہ کر سکے
بس اک اڑان بھرنے میں قصہ تمام تھا
(فدا المصطفے فدوی)
وہ اس طرح بھی مجھے آزمانے لگتا ہے
مزاج پوچھتا ہے مسکرانے لگتا ہے
پرچم پہ پھول، ہاتھوں میں خنجر لبوں پہ آگ
ایسا کبھی بھی شیوۂ چارہ گراں نہ تھا
گنے جاتے ہیں جو دہلیز کے بجھتے چراغوں میں
انھیں ایوان کے محراب میں جلنے کی عادت ہے
دیکھا تھا بس لباس تلک ہی سفید رنگ
کم بخت اب تو خون کے اندر بھی آ گیا
مقتدی تو بے چارے کب کے آئے بیٹھے ہیں
اک اذان ہو جائے جو امام تک پہنچے
(خواجہ ربانی)
اونچے مکان کھا گئے سب میرے گھر کی دھوپ
حصہ میں میرے رہ گئی بالشت بھر کی دھوپ
سایہ دریدہ پیرہنی پر خودی کا تھا
ریشم سا لمس لائی تھی گو سیم و ذر کی دھوپ
یا تو دماغ و دل کے اندھیروں کو دور کر
یا اپنی راہ لے بڑی آئی کدھر کی دھوپ
(فصیح اللہ نقیب)
یہی ملا ہے صلا مجھ کو حق پرستی کا
کہ وقت نیزے پہ سر کو مرے اٹھاتا ہے
کسی صبا کا لمس تھا اب کے بہار میں
جس پھول کو چھوا اسے خوں بار کر گئی
اپنا ہی بن سکا نہ کسی کا میں ہو سکا
خود آگہی کے زعم نے دھوکا دیا مجھے
(رشید الظفر)
دھوپ کمرے میں یوں نہ آئے گی
اٹھ کے دروازہ کھولنا ہو گا
صدیوں سے شب و روز یہی سوچ رہا ہوں
میں کون، خدا کون ہے میں بھول گیا ہوں
(عارج میر)
ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے
مزاج پایا تھا گھل مل کے سب میں رہنے کا
جدا تھا سب سے مگر اپنا رنگ کیا کرتے
یاد آتا رہا تا دیر سفر میں مجھ کو
ہاتھ رہ رہ کے دریچے سے ہلانے والا
سوچتا کیوں ہے بچھڑ جانے کی نسبت سے میاں
اس سے پہلے کہ کوئی ملنے کی صورت نکلے
اتر سکا نہ مسیحا کبھی کوئی دل میں
ہمارے زخم کی گہرائیاں نہ پوچھو ہو
(منظور ندیم)
نکل رہا ہے سیاست کے جگنوؤں کاجلوس
یہ جس طرف سے گزرے گا تیرگی دے گا
میں کہ مٹی کے کھلونے بھی اسے دے نہ سکوں
اس کا بچپن ہے کہ جاپان کی گڑیا مانگے
گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
حادثہ چہرے کی پہچان مٹا دیتا ہے
خاموش مزاجی تمھیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو
پاپا کھلونے بیچ کر آٹا خرید لو
بھوکے ہیں گھر کے لوگ، یہ کس کام آئیں گے
(ظہیر عالم)
ایسی گھٹن تو پہلے کبھی بھی نہ تھی یہاں
یہ کس نے زہر گھول دیا ہے ہواؤں میں
لا پتا ہے بہار برسوں سے
معتبر پھر بھی باغبانی ہے
ڈھلتے سورج کو اس نے دیکھا تھا
کیسے مغرور ہو گیا وہ شخص
میں نے ہی راستے سے ہٹائے تھے سارے خار
میں نے یہ کب کہا ہے کہ میں بے قصور تھا
جائیں بھی اپنے زخم لیے کس کے پاس ہم
مرہم منافقت کا یہاں سب کے پاس ہے
(غلام رسول اشرف)
اترتا جا رہا ہوں اس کے اندر میں
وہ ہوتا جا رہا ہے اور گہرا کچھ
بھرا رہتا ہے کمرے میں اندھیرا
ہماری نیند بھی اب سوگئی ہے
ہم کتابوں میں جسے پاتے ہیں حارثؔ
آدمی ویسا کوئی ملتا کہاں ہے
ثمود و عاد کی آبادیوں سے
گزر جانا ہی جلدی خوب ہو گا
جس بستی میں رہتا ہوں
برگد ہے نروان نہیں
(عبید حارثؔ)
شاہد کبیر کے کلام میں عصری حسیت، کربِ ذات، جنسیت اور داخلیت کے عناصر اس طرح گھلے ملے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ کر پانا ممکن نہیں ہے۔ مدحت الاختر زندگی کی تلخیوں کو بڑی چابکدستی کے ساتھ الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔ انہیں زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ ان کے کلام میں عصری آگہی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ عبدالرحیم نشترؔ نے اپنے بے باک اور جارحانہ لب و لہجے کی وجہ سے جدید شاعری کے ’’اینگری ینگ مین‘‘ کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ودربھ میں جدید ادب کو فروغ دینے میں نشترؔ کا اہم رول رہا ہے۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن ان کی جدید رنگ کی نظموں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہجہ کی بے ساختگی، ہندی لفظیات کا استعمال اور احتجاجی آہنگ ان کی انفرادیت ہے۔ یونس کے یہاں ابتدا ہی سے جدید لہجہ کی دھمک محسوس ہوتی ہے۔ شریف احمد شریف نے غزل کو اظہارِ ذات کا وسیلہ بنایا ہے۔ محبوب راہی کے کلام میں احساس کی شدت محسوس ہوتی ہے جو آسان لفظوں میں گہرے تاثرات چھوڑتی ہے۔ ظفر کلیم کی غزل ذات کی شکست و ریخت کی داستان ہے۔ ضیا انصاری کا لہجہ منفرد ہے۔ وہ نرم لہجہ میں علامتی اور استعاراتی اسلوب میں شعر کہتے ہیں۔ اقبال اشہر کے کلام میں معنوی گہرائی اور گیرائی ملتی ہے۔ عصری حسیت اور اپنی ذات کے حوالے سے معاشرتی اور تہذیبی اقدار کا ذکر قاری کو متوجہ کرتا ہے۔ لفظ و معنی میں ہم آہنگی ان کے کلام کی خصوصیت ہے۔ شکیب غوثی کی شاعری جدید فکر کی حامل ہے۔ وہ اپنی ذات کے اظہار کے لئے محض کرتب بازی نہیں کرتے بلکہ فطری انداز میں ایسے الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں جو اظہار میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ حفیظ مومن کے اشعار میں عصری حسیت رچی ہوئی ہے۔ مقامی الفاظ بھی انھوں نے بے ساختہ استعمال کیے ہیں۔ آسان اور رواں دواں بحروں میں اشعار کہنا ان کا خاص کمال ہے۔ فدا المصطفی فدوی نے جدید لہجے میں ہی شعر کہنا شروع کیا۔ بدر جمیل کے یہاں ندرت، گہرائی، معنی آفرینی اور جدتِ فکر نمایاں ہے۔ عاجز ہنگن گھاٹی کی غزل میں جدید اصطلاحات اور علامات کا استعمال خوبصورتی سے ہوا ہے۔ غیور جعفری کی شاعری ان کی بے ترتیب زندگی کی عکاس ہے۔ منصور اعجاز بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں لیکن انھوں نے جدید لب و لہجہ میں غزلیں بھی کہی ہیں۔ نظموں کی طرح یہاں بھی ان کا احتجاج بھرا لہجہ صاف سنائی دیتا ہے۔ تاہم صنفِ غزل کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ نازک خیالات اور احساسِ جمال سے پر ہیز نہیں کرتے اسی لیے ان کی غزلیں کھردرے پن سے محفوظ ہیں۔ مجموعی طور پر سبھی کے کلام میں زندگی موجود ہے۔ فرق صرف برتاؤ کا ہے۔ بیشتر شعرا نے اپنی منفرد سوچ اور فکر سے غزل میں بعض عمدہ اور بہت عمدہ اضافے کیے ہیں۔ لفظوں کے استعمال میں بھی ندرت و جدت کا حسن دکھائی دیتا ہے۔ ان کی غزلوں میں وقت بھی ہے اور آتے جاتے لمحوں کی دھڑ کنیں بھی۔ غرض کہ ان کے دوسرے ہم عصر شعرا کے کلام میں بھی کم وبیش یہی فکر یہی توانائی اور یہی جاذبِ نظری موجود ہے۔
۱۹۶۶ء میں شب خون کا اجرا ہوا تھا تو ودربھ میں ۱۹۶۸ء میں ’’چاروں اور‘‘ اور ۱۹۷۱ء میں ’’ارتکاز‘‘ شائع ہوئے۔ یہ دونوں مجموعے جدید غزل کا انتخاب تھے۔ کم و بیش نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ شب خون، سوغات، جواز، آہنگ، کتاب، تحریک بند ہو چکے ہیں لیکن علاقۂ ودربھ میں جدید شاعروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد موجود ہے جو نئے لب و لہجہ کے تخلیقی عمل میں مصروف ہے۔ ابتدا میں جو تین بڑے نام سامنے آئے تھے ان میں شاہد کبیر کا انتقال ہو چکا ہے۔ مدحتؔ الاختر اور عبدالرحیم نشترؔ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان کا تخلیقی عمل بھی جاری ہے۔ محبوب راہیؔ ، ظفر کلیم، بدر جمیل، شکیب غوثی، فدا المصطفی فدوی، حفیظ مومن، منصور اعجاز وغیرہ آج بھی اسی راہ کے مسافر ہیں جس پر برسوں پہلے چلنا شروع کیا تھا۔ خلش قادری، زینت اللہ جاوید، فصیح اللہ نقیب، منظور ندیم، غلام رسول اشرف، ضمیر ساجد، عارج میر خواجہ ربانی، رشید الظفر، ظہیر عالم، محفوظ اثر، عبید حارث وغیرہ نئے لب و لہجے میں بڑے اعتماد کے ساتھ شعر کہہ رہے ہیں۔ کچھ نئے ناموں کا بھی اضافہ ہوا ہے جو ودربھ میں جدید غزل کو ایک نئی سمت و جہت دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح ودربھ کے جدید شاعروں نے اپنی محنت و مشقت اور ادبی ورثے کے ایماندارانہ اکتساب کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشی اور جدید اردو شعر و ادب میں بیش بہا اضافہ کیا۔
کتابیات:
۱ اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر سنبل نگار، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۲۰۰۱ ء
۲ تاریخِ ادبِ اردو، نور الحسن نقوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۹۷ء
۳ جدید شاعری، عبادت بریلوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۷۴ء
۴ چاروں اور، شاہد کبیر و مدحت الاختر، مدھو کر آرٹس، ناگپور، ۱۹۶۸ء
۵ ودربھ میں اردو شاعری، ڈاکٹر ایم آئی ساجد، سیماب اردو پریس، کھام گاؤں، ۱۹۸۷ء
٭٭٭
مطبوعہ : سہ ماہی سدھارتھ انٹر نیشنل ملٹی ڈسی پلینری جرنل کولہا پور مارچ -جون ۲۰۱۴ ء
ISSN: 2321-2942
مطبوعہ : ماہنامہ اردو میلہ ناگپور، نومبر- دسمبر ۲۰۱۴ ء