ہندوستان کی تمام ریاستوں میں ریاستِ مہاراشٹر اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے مغرب میں بحرِ عرب کا وسیع ساحل ہے جو اسے انگنت فائدے بخشتا ہے اور اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ شمال مغرب میں گجرات، شمال مشرق میں مدھیہ پردیش، جنوب مشرق میں آندھرا پردیش اور جنوب میں کرناٹک اور گوا کی ریاستیں واقع ہیں۔ ان ریاستوں سے مہاراشٹر کے سیاسی و تہذیبی، تجارتی و معاشی، اقتصادی اور لسانی تعلقات ایک طویل عرصے سے قائم ہیں۔ طبعی لحاظ سے مہاراشٹر دو حصوں میں منقسم ہے۔ یعنی سہیادری کے پہاڑی سلسلے کی بدولت اس کا مشرقی حصہ سطح مرتفع کا علاقہ یا گھاٹ ماتا کہلاتا ہے اور مغربی حصہ کوخطۂ کوکن کہتے ہیں۔
خطۂ کوکن تھانے، رائے گڈھ، رتناگری اور سندھو درگ نامی چار اضلاع پر مشتمل ہے جس میں ہزاروں گاؤں اور سینکڑوں شہر آباد ہیں۔ زمانۂ قدیم سے یہاں پر مسلمانوں کی ایک کثیر آبادی موجود ہے۔ کوکن کے مسلمان مقامی زبان مراٹھی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اردو زبان ان کی تعلیمی اور علمی و ادبی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ انگریزی وقت کے تقاضے کے تحت زندگی میں داخل ہو چکی ہے۔ یہاں کے مسلمان کوکنی بولی کو بطور مادری زبان استعمال کرتے ہیں۔ البتہ کوکن میں معاشرتی، مذہبی اور عوامی اسباب کی بنا پر اردو جیسی مخلوط زبان نے ایک اہم حیثیت حاصل کر لی ہے اور یہ زبان یہاں ذریعۂ تعلیم بھی ہے۔ نثری اور شعری تخلیقات کا سرمایہ بھی اسی زبان میں ہے اور یہاں کے مسلمانوں نے اپنے جذبات و احساسات کی ادائیگی کے لیے جن لوک گیتوں کو جنم دیا وہ بھی اردو میں ہیں۔
لوک گیتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک طرف یہ ہمارے دلی جذبات اور احساسات کی نمائندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف ہماری تہذیب یعنی رسم و رواج کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ کبھی سخت محنت و مشقت کے دوران تھکن دور کرنے کے لیے اور کبھی وقت کی طوالت کے احساس سے گریز کے لیے بھی یہ نغمے ہماری مدد کوپہنچتے ہیں۔ ہمارا پیغام دوسروں تک پہچانے کے لیے یہ گیت موسیقی کا نقاب اوڑھ کر نہایت مہارت اور لطافت سے پیغامبری کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور تنقیدی نظر سے مطالعہ کرنے والوں کے لیے لوگوں کی نفسیات اور ان کی لسانی تنوعات کو پہچاننے میں بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ کوکن کے اردو لوک گیتوں میں دکنی اور کوکنی بولی کی آمیزش پائی جاتی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوکن اور دکن کی سر زمین کئی خصوصیات کی یکساں طور پر حامل ہیں اس لیے ان کے گیت لب و لہجہ اور ذخیرۂ الفاظ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ بہر حال ان گیتوں میں فنکارانہ ذہانت اور مہارت کی کمی کے باعث کہیں قواعد و زبان کی غلطیاں پائی جاتی ہیں تو کہیں بے وزن و بے بحر مصرعوں کی تک بندی بھی ملتی ہے جو برس ہا برس کے تصرف اور عمومیت کے عمل کا نتیجہ ہے۔ ان گیتوں کو خواہ وقتی جذبات و احساسات کے قلمرو میں بہنے والے چشموں سے تعبیر کریں جو اپنی روانی کے آپ مالک ہوتے ہیں یا طبیعت کی آزادہ روی اور مزاج کی بے ساختگی کے پرچموں سے تشبیہہ دیں جو اپنی آن بان اور شان سے لہراتے ہیں مگر پھر بھی فکر و خیال کے ان مرقعوں میں عوامی زندگی، طرزِ معاشرت اور سماجی شعور کے گہرے پھیکے، کچے پکے رنگ ضرور نظر آتے ہیں۔ ان گیتوں میں غضب کی موسیقی بھی پائی جاتی ہے اور میرے خیال سے یہ موسیقی ہی ان کی ایک بڑی شناخت ہے۔ چونکہ ان کے موضوعات بھی انسانی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں اس لیے ان گیتوں میں موضوع کا تنوع پایا جاتا ہے۔ ان میں مذہبی گیت بھی شامل ہیں اور ہندوستانی اساطیر کا غیر فانی کردار بھی۔ صوفیوں اور درویشوں کے اپدیش بھی ہیں تو شجاعت اور بہادری کا ذکر بھی۔ موسموں کی تبدیلی بھی موجود ہے تو بیج بونے اور فصل کاٹنے کے ساتھ شادی بیاہ کے گیت بھی ملتے ہیں اور یہی مختلف النوع موضوعات کوکن کے اردو لوک گیتوں کی اہم خصوصیات ہیں۔
کوکن کے اردو لوک گیتوں میں جو گیت آج بھی بکثرت و بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں ان میں ڈھولک کے گیت نہ صرف بڑے دلچسپ اور پر لطف ہوتے ہیں بلکہ عوامی زندگی کے رسم و رواج کے ایک لازمی جزو کے طور پر بھی دیکھے جاتے رہے ہیں۔ دکھ درد کی حالتوں میں اظہارِ ہمدردی اور اظہارِ غم کرنا، نشاط و انبساط کے موقعوں پر اظہارِ مسرت کرنا فطرتِ انسانی کا خاصہ رہا ہے۔ خوشیوں کی ہر تقریب مثلاً شادی بیاہ، بسم اللہ خوانی عقیقہ، گل پوشی اور عید و تہوار وغیرہ میں ڈھولک کے گیتوں کا رواج عام ہے۔ طبقۂ امراؤ نوابین میں یہ خوش گوار فریضہ مراثیوں کے حصے میں آتا تھا جو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مفقود ہو چکا ہے۔ مگر عام گھرانوں میں خاص کر قصبات اور دیہاتوں میں آج بھی ڈھولک بج اٹھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان گیتوں کا سلسلہ کم عمر بچیوں سے شروع ہو کر شادی شدہ، غیر شادی شدہ، بوڑھی اور بیوہ خواتین کے بھی ذوق و شوق اور ان کی گہری دلچسپیوں کی وجہ سے رات رات بھر چلتا رہتا ہے۔ مثلاً ؎
لاگی ہے لگن تم سے چھڑا کون سکے گا
ساڑی ہے میری زر میں بھری نظر نہ مارو
ائے بی بو تیرا پلو پکڑ کون سکے گا
اماں کا وطن ہم سے چھڑا کون سکے گا
باوا کا وطن ہم سے چھڑا کون سکے گا
٭…٭…٭
چلی ناؤ میری کنارے کنارے
سونے روپے کا میں چوسر بچھائی
چلو چل کے کھیلیں گے دریا کنارے
چلی ناؤ میری کنارے کنارے
٭…٭…٭
ڈوپٹہ میلا ہوا ہم نے دھوبی کو دیا
کوئی دھلا کے منگا دے ڈوپٹہ میرا
ڈوپٹہ پھٹ گیا ہم نے درزی کو دیا
کوئی سلا کے منگا دے ڈوپٹہ میرا
ڈوپٹہ پھیکا پڑا ہم نے رنگنے کو دیا
کوئی رنگا کے منگا دے ڈوپٹہ میرا
٭…٭…٭
احسان میرے سر پہ تمھارا ہے امی جان
یہ دل تمھارے پیار کا مارا ہے امی جان
امی نے میرے واسطے شیفون لائے تھے
ابا نے میرے ضد پہ بھی کچھ کم نہیں کیے
احسان میرے سر پہ تمھارا ہے چچی جان
یہ دل تمھارے پیار کا مارا ہے چچی جان
چچی نے میرے واسطے بندیا جو لائے تھے
چچا نے میرے واسطے اس دم دعا مانگے تھے
٭…٭…٭
٭ ڈھیلا پاجامہ، ریشم کا کمر بند / بولو کہاں گئے تھے /جب میں نے دیکھا، گوشت کی دکان پر/ہاتھوں میں نلی، نلی میں گودا بند/بولو کہاں گئے تھے
٭ آج رنگیلی گھر رنگ ہے، جی رنگ ہے /تم نہ سمجھو، ہم بھوکے آئے / لکھنؤ کا بھٹیاری میرے سنگ ہے /جی سنگ ہے /آج سہلی گھر رنگ ہے، جی رنگ ہے / تم نہ سمجھو، ہم پیدل آئے /کمشنر کی موٹر میرے سنگ ہے /جی سنگ ہے
شادی بیاہ کے ایسے سینکڑوں گیت کوکن کے اردو لوک گیتوں میں مروج ہیں جن کا پیرایۂ اظہار دل کش، اسلوبِ بیان خوبصورت اور غنائیت پر کیف ہوتی ہے۔ پھر ڈھولک کی تھاپوں کا زیر و بم، جوان دلوں کی آرزوؤں و امنگوں کی سریلی رس بھری آوازیں، ایک مسحور کن ماحول پیدا کر دیتی ہے۔ ڈھولک کے گیتوں میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ خاص کر سمدھنوں کا ایک دوسرے پر حملہ کرنا، مصرعوں مصرعوں میں طعنہ دینا، سالیوں اور بہنوئیوں کے مذاق و دل لگی کی باتیں اور بہت ساری دلچسپیاں مختلف تشبیہات و استعارات کے سہارے بیان کی جاتی ہیں۔
آج سے پچیس تیس سال پہلے کوکن کے دیہی علاقوں میں رات گئے تک صبح سویرے سکوت اور سناٹے کے عالم میں آبادیوں کے مختلف خاموش گوشوں سے چکی پیسنے کی مخصوص و مستقل آوازوں کے ساتھ جفا کش عورتوں کے میٹھے میٹھے بول بھی سنائی دیتے تھے۔ یہ میٹھے میٹھے بول جو گیت کی صورت میں ان محنتی عورتوں کی زبان سے نکلتے تھے انھیں چکی کے گیت کہا جاتا تھا۔ لیکن شاید ہی اب کسی گاؤں میں چکی کے گیت گائے جاتے ہو کیونکہ سائنسی ترقیات کے اس ہوش ربا دور میں کوکن کے ہر گاؤں اور ہر شہر میں مشینی چکیاں لگا دی گئیں جن میں آٹا پیسنے اور دھان صاف کرنے کا کام ہوتا ہے۔ مگرایسا دیکھا گیا ہے کہ آج بھی کوکن کی بڑی بوڑھیوں کے سینوں میں چکی گیت محفوظ ہیں اور ان گیتوں کو سننے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ کوکن کی عورتیں کتنی محنت و مشقت کیا کرتی تھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چکی کے اِن گیتوں کو اُن بڑی بوڑھیوں کے سینوں سے نکال کر صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ترقی یافتہ دور میں مختلف رنگوں اور مزاجوں کے چکی نامےیا چکی کے گیت اسلافِ عہدِ رفتہ کی یاد گار بن کر رہ جائیں۔
ڈھولک کے گیتوں اور چکی ناموں کے بعد کوکن کے اردو لوک گیتوں کی ایک قابلِ ذکر صنفِ سخن لوریوں پر مشتمل ہے۔ ان کا بنیادی موضوع محدود ہونے کی وجہ سے ان میں دیگر لوک گیتوں کا سا تنوع اور تعدد نہیں پایا جاتا اور اس وجہ سے ان کی بازیافت بھی نسبتاً کم ہی رہی ہے۔ ان کے اظہارِ بیان کا موضوع بچپن اور نیند ہی ہوتا ہے۔ یہ ممتا کے گہرے سمندر اور میٹھے سروں کی دھیمی لہروں پہ ڈولنے والے سپنوں کے سفینوں کے لیے مخصوص ہیں۔ فی الحال کوکن میں مروجہ لوریوں کے چند ٹکڑوں کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے ؎
٭ جھو جھو آؤ میرے پاس /تو موتیوں کی راس/جھو جھو چاندی کی کپی/
تو واری جائے گی /جھو جھو ریشم کا ماچا/تو واری جائیں گے چا/
نیند آئی رے تانے /نیند کے کرتے
٭ آلو لَو لُو آئی ماں، آلو لَو لُو آئی ماں /پیلے پیلے دھوپاں پیپل کے جھاڑاں پر
پیپل پان ڈالیں گے جمال بالاں پر /آلو لَو لُو آئی ماں، آلو لَو لُو آئی ماں
گہوارے میں تانا، گھر دستا نورانہ/اللہ کی درگاہ میں بھیجوں گی شکرانہ
کوکن کے گاؤں میں رہنے والی بعض خواتین اور خاص طور سے اپنی دادی اور امی کی زبانی میں نے چند ایسی لوریاں اور جھولے کے گیت سنے ہیں جن میں بڑی ادبیت موجود ہے۔ یہ مثالیں دیکھئے ؎
٭ جھولو رے تانے، گن کے سیانے /شیرِ مہر کے ماں کے دیوانے
واروں تیرے پر، موتیوں کے دانے /گلے رکھوں اور ہیرے سرہانے
جھولو رے تانے، لاڈلے جھولو/اپنے خدا کو ہرگز نہ بھولو
٭ او ترا زمیں پر تختِ سلیمان /نغمہ سرا ہیں زہرہ جبیناں
جلوہ نما ہے ماہِ درخشاں / پھونکو جی پڑھ پڑھ کے سورۂ رحماں
آؤ سہاگن جھولا جھلائے /نورِ نظر کو اپنے منانے
ان لوریوں میں ماں کی محبت، آرزوؤں و ارمانوں کی چٹکی چاندنی اور اس کے خوابوں کی رنگین بہاریں نظر آتی ہیں۔ بعض ایسی لوریاں بھی ملتی ہیں جو لوری کے بنیادی موضوع سے ہٹ کر کہی گئی ہیں۔ اسی طرح کوکن کے اردو لوک گیتوں کی اور بھی بہت سی قسمیں ہیں جیسے زچہ گیریاں، بسم اللہ خوانی، عقیقہ، ہدیہ، بچوں کے کھیل کود، منگنی کے گیت، چوک بھرائی، ہلدی کے گیت، دلہن سنوارتے وقت کے گیت، چوڑیاں پہناتے وقت کے گیت، سہرے مبارکبادیاں، جلوہ اور رخصتی وغیرہ۔
کوکن کے اردو لوک گیتوں کو سننے اور پڑھنے کے بعد یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ان میں وہ چستی و پھرتی یا وہ موزونیت نہیں ہے جو اردو شاعری کی جان سمجھی جاتی ہے لیکن ان کی تخلیق کسی اصول یا نظریے کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ مختلف حالات کی وجہ سے پیش آنے والے غم و خوشی کے جذبات کی صرف ترجمانی کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جب غم اور خوشی کے جذبات امڈتے ہیں تو لوک گیت جنم لیتے ہیں۔ یہ غیر شعوری طور پر خواتین کے ذہنوں میں پیدا ہو کر ان ہی کی یادداشت اور زبان میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ان میں عام طور پر وزن یا بحر کی کوئی قید نہیں ہے۔ گیت گاتے وقت جو حالت یا کیفیت ہوتی ہے یہ اسی کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والی تشبیہات عام فہم اور سیدھی سادی ہوتی ہے جو ان گیتوں کو شاعرانہ حسن سے آراستہ کرتی ہیں۔ گلو کارہ اپنے گلے کو کھینچ تان کر ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ سروں کو پورا کرتی ہے جس سے اس کا ترنم ایک خاص کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ در اصل کوکن کے اردو لوک گیتوں کا خاص مقصد تفریحِ طبع ہے لیکن ان میں چھیڑ چھاڑ کے ساتھ ہنسی ہنسی میں نصیحتیں بھی ہوتی ہیں۔ خود نمائی، تکلف اور تصنع کا ان گیتوں میں کوئی گزر نہیں ہوتا۔
ان گیتوں کی کوئی تاریخ نہیں ملتی کہ کون سا گیت کب لکھا گیا ہے اور نہ ہی کوئی حوالہ ملتا ہے۔ ان کا سفر انسانی زندگی کی طرح جاری و ساری ہے۔ ایک لوک گیت میں پیش کیے گئے انسانی جذبات دوسری قوموں یا دوسرے علاقوں کے لوک گیتوں میں بھی ہوتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر یہ گیت انسانی تہذیب اور تجربوں کی بڑھتی ہوئی سطح سے نکلے ہوئے ہیں۔ ان گیتوں کی تہذیبی شناخت انسان سے انسان اور تہذیب سے تہذیب تک کا سفر کرتی ہے۔ انسان آگے بڑھنے کے لیے سماج کا سہارا لیتا ہے۔ جب سماج میں کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو اس کا اثر تہذیب پر پڑتا ہے اور اس سے لوک گیت بھی متاثر ہوتے ہیں۔ سماجی اور تہذیبی زندگی کے بدلتے ہوئے رجحان سے کوکن کے اردو گیت میں بھی مختلف تبدیلیاں در آئی ہیں۔ چونکہ یہ ایک نسل کو اپنی پیشتر نسل سے ورثے میں ملتے ہیں اسی لیے اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
آج بھی کوکن کے گاؤں اور دیہاتوں میں دھوم دھام سے رسومات کی پابندی اور تقریبات کے انعقاد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہروں میں جا کر آباد ہونے والے اکثر اہلِ کوکن اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں یا بلڈنگ کی ٹیرس پر یا کمپاؤنڈ میں بنے ہوئے منڈپ میں تمام رسوم پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور مسرت آمیز گیتوں سے تقریب کی رونق دوبالا کر دیتے ہیں لیکن ملک کی معاشی و معاشرتی اور علمی و ادبی ترقیات کے ساتھ ہماری تہذیب و تمدن کے دھاروں کی رفتار و روش میں بھی زبردست تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ شہری اور دیہی زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں انقلابی تغیرات ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ اشاعت، صحافت کی ترقی، ٹیلی وزن، اسمارٹ فون، ٹیب و موبائیل، انٹرنیٹ، فیس بک اور واٹس ایپ جیسی نت نئی ایجادات اور ہماری تہذیبی و معاشرتی زندگی کے مختلف رسوم و رواجوں اور تفریحات پر بھی فلمی گیتوں اور نئے نئے ذرائع ابلاغ و ترسیل کے اثرات سے کوکن کے اردو لوک گیتوں کا سلسلہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ تعجب نہیں کہ مزید چالیس پچاس برسوں میں ان کے سر چشمے پوری طرح خشک ہی ہو جائیں۔ اس لیے جیسے بھی، جہاں کہیں بھی اور جس قدر بھی لوک گیتوں کا یہ گراں بہا سرمایہ مل جائے اسے محفوظ کر لیا جانا ضروری ہے۔ ورنہ اردو زبان و ادب اور اس کی لسانی و تہذیبی تاریخ کو ایک اہم بنیادی کڑی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جانا پڑے گا۔
**
کتابیات:
۱مہاراشٹر کی تہذیبی و ادبی قدریں، بدیع الزماں خاورؔ ، نقشِ کوکن پبلی کیشنز، ممبئی، ۱۹۸۲ء
۲ کوکن میں اردو تعلیم (حصہ اول)، ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ ، نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۱۹۹۶ء
۳ کوکن میں اردو تعلیم (حصہ دوم)، ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ ، نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۱۹۹۹ء
۴ کوکن اور ممبئی کے لوک گیت، ڈاکٹر میمونہ دلوی، پرنٹ اینڈ آرٹ کنسلٹنسی، ممبئی، ۲۰۰۱ء
۵ اردو میں لوک گیت، مرتبہ پروفیسر قمر رئیس، کتابی دنیا، نئی دہلی، ۲۰۰۳ء
(نانڈیر یونیورسٹی کی تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ’’لوک گیت‘‘ میں یہ مقالہ پڑھا گیا)
۲۸، ۲۹ اور ۳۰؍ جنوری ۲۰۱۶ء
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی، ستمبر ۲۰۱۶ء
ISSN: 2249-0639