کسی مفکر کا قول ہے کہ کسان کالی زمین جوتتا ہے لیکن اس کے ہل سے جو زمین نکلتی ہے وہ سونے کی ہوتی ہے۔ شعر گوئی بھی ایک ایسا ہی تخلیقی عمل ہے۔ عام انسان جس واقعہ کو سرسری سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے شاعر کا خلاقانہ ذہن اسی سے نئی جہت پیدا کرتا ہے اور یہی سیاہ زمین کو سونے میں تبدیل کر دینے کے مترادف ہے۔ شاعر حقیقت نگاری پر تخیل کا ملمع چڑھاتا ہے۔ نئے خیالات، نئے الفاظ اور پامال لفظیات سے نئی ترکیبیں اخذ کرنا ہی شاعری ہے۔
شاعری دو طرفہ ترسیل کا عمل ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کہنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان کتنی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی کی غیر موجودگی میں بڑے سے بڑا ادب پارہ بھی الفاظ کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ خاص طور سے بچوں کی شاعری میں شاعر کو اپنا ذہنی سفر اسی راستے پر پیچھے کی طرف طے کرنا پڑتا ہے جسے وہ بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا اور یہ ایک مشکل ترین کام ہے۔ ڈاکٹر بانو سرتاج ’’اردو میں بچوں کا ادب: اس کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں لکھتی ہیں:
’’بچوں کے ادب کی تخلیق، ادب کی دوسری اصناف کی طرح خون کا اخراج مانگتی ہے۔ اس کے لیے عرق ریزی اور جگر کاوی اولین شرائط ہیں۔‘‘ (اردو میں ادبِ اطفال: ایک جائزہ، مرتبہ پروفیسر اکبر رحمانی صفحہ نمبر ۲۱)
منفرد شاعر و ادیب عبدالرحیم نشترؔ رقمطراز ہیں:
’’جب تک آدمی خود بچہ نہ بن جائے تب تک وہ بچوں کے لیے اچھی چیز لکھ ہی نہیں سکتا۔‘‘
(اردو زبان کا سوتیلا بچہ،ص ۲۷)
محترمظ انصاری صاحب اپنے ایک مضمون ’’بچوں کے لیے لکھنا‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’لوگ یہ سوچ کر لکھتے ہیں کہ میاں بچے کو بہلانا کون سی مشکل بات ہے۔ وہ عمر بھر بچے کے بچے ہی رہتے ہیں اور ان کی ٹنکیاں خالی ہی رہ جاتی ہیں۔ بچوں کا ادب لکھنے کے لیے خود بچہ بننا پڑتا ہے لیکن کیسا بچہ۔۔ ۔۔ ۔؟ وہ جس کو مشکل سے مشکل بات بھی مزے مزے میں کہنا آتی ہو۔‘‘
(اردو میں ادبِ اطفال: ایک جائزہ
مرتبہ پروفیسر اکبر رحمانی، صفحہ نمبر ۱۱)
اور میں یہ بات بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اقبال سالکؔ ایک ایسا ہی بچہ ہے جسے مشکل سے مشکل بات بھی مزے مزے میں کہنا آتی ہے۔
’’پہلا قدم‘‘ اقبال سالکؔ کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموں کا مجموعہ ہے۔ جس میں اس نے زیادہ تر ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جن سے قاری اکثر وبیشتر گذرتا ہے لیکن یہ نظمیں اُن میں نئی کیفیات وسرشاری پیدا کرتی ہیں۔ آسان اور سلیس زبان، چھوٹی بحریں اور مترنم الفاظ کے ساتھ ان نظموں کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ان میں بچپن صاف طور سے دکھائی دیتا ہے۔ جیسے جیسے ہم ’’پہلا قدم‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں نئی نئی کیفیات اور نئے نئے استعاروں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر موسموں کا سفر، حسرت کا دل کو بار بار ڈسنا، طیبہ میں اڑ کر جانا، عقیدت کی پیاس بجھانا، شاعر کا خود کو کبوتر کہنا، رنج کی دھوپ، الفتوں کا دیار، وسیع سائبان، نقشِ وحشت، فکر و فن کے دئیے، موسموں کی روش ورق ورق میں سکون کا چھپنا، اجلا ذہن، سونے جیسی دھوپ، نیند کا قاتل، روشنی کے دھارے، ذہن میں وحشتوں کا دھواں اور دھوپ کا ہریالی کو نگلنا وغیرہ۔ اقبال سالکؔ قافیہ پیمائی نہیں کرتے بلکہ نئی ترکیبوں کا استعمال کر کے معصوم ذہنوں کے سامنے لائحہ عمل رکھتے ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمایئے ؎
تو زمینوں میں آسمانوں میں
عکس تیرا ہے چاند تاروں میں
دل میں ایمان گھلنے لگتا ہے
جب بھی آتا ہے تو خیالوں میں
(حمد)
حسرت یہ میرے دل کو ڈستی ہے بار بار
جالی کو چوم آؤں میں طیبہ میں جا کے میں
رحمت کی بارشوں میں بھیگوں میں رات دن
بگڑی کو پھر بناؤں طیبہ میں جا کے میں
(نعتِ نبی)
زندگی کی بہار ہے ممتا
چاہتوں کی پھوار ہے ممتا
رنج کی دھوپ سے بچاتی ہے
اک شجر سایہ دار ہے ممتا
(ممتا)
اک وسیع سائبان جیسے ہیں
سر پہ وہ آسمان جیسے ہیں
زندگی میں حسین راحت ہے
باپ بھی کیا عظیم نعمت ہے
(میرے ابو)
مردہ دل میں امنگ بھرتے ہیں
زندگی کو حسین کرتے ہیں
درس دیتے ہیں یہ صداقت کا
چیرتے ہیں بدن جہالت کا
(میرے استاد)
بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کر نصیحت نہیں کی جا سکتی۔ بچوں سے ان ہی کی زبان میں باتیں کرنی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر وہ ان باتوں کا سمجھ پاتے ہیں۔ اس لیے ان سے میٹھی میٹھی باتیں کیجیے اور چاشنی میں ڈبو کر کڑوی ٹیبلیٹ دیجیے تو بچے اسے بڑے مزے سے کھا جاتے ہیں اور انھیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ اخلاقیات کی یہ کڑوی ٹیبلیٹ کیسے اس کی شخصیت کا جزولایئفک بن گئی۔ اقبال سالکؔ کی شاعری اس بات کی بھر پور غمازی کرتی ہے۔ وہ بڑے سیلس انداز میں بچوں سے باتیں کرتے ہیں اور انہیں نصیحت کی گٹھی بھی پلادیتے ہیں۔ وہ بچوں کو جن، بھوت، پریوں کے خیالی دیس کی سیر نہیں کراتے بلکہ حقیقت کی ٹھوس زین کا ادراک کرواتا ہیں۔
بچوں کا ادب تخلیق کرنا، ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا اور اپنی ذہنی سطح سے ہم آہنگ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ بچوں کا ادب کوری بیان بازی نہیں ہے بلکہ اس میں اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ بچوں کی دلچسپیوں کے ساتھ انہیں پیار محبت ہمدردی، اخوت، قومی یکجہتی، وطن پرستی اور انسانیت کا پاٹھ بھی پڑھایا جائے۔ لڑائی جھگڑے، کدورتوں اور منافرت سے دوری اختیار کرنے کا درس بھی دیا جائے۔ ’’پہلا قدم‘‘میں یہ تمام خصوصیات موجود ہیں۔ مجموعے میں کوئی بھی نظم ایسی نہیں ہے جسے قاری سرسری سمجھ کر نظر انداز کر دے۔ ہر نظم قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ ’’حمد‘‘، ’’نعتِ نبی‘‘، ’’ممتا‘‘، ’’ہمارے ابو‘‘، ’’بھارت وطن ہمارا‘‘، ’’استادِ محترم‘‘، ’’دوستو! پیڑ لگاتے چلو‘‘ ’’برسات کا موسم‘‘، ’’پیارا سورج‘‘، ’’قلم‘‘، ’’کتاب ہے بہترین ساتھی‘‘اور ’’اردو زبان ہوں میں‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جنھیں لافانی کہا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی یہ نظمیں نصاب میں بھی شامل کی جا سکتی ہیں۔ آپ کی دلچسپی کے لیے اس مجموعے سے کچھ ایسے شعر پیش کر رہا ہوں جن میں غزل کی چھاپ نظر آتی ہے ؎
چاند تو اپنا جلوہ سبھی کو دکھا
تیرے دیدار میں عید کا عکس ہے
۰۰۰۰
حسرتوں کا جہاں جگمگاتا رہے
آرزو! چلو چاندنی کی طرف
۰۰۰۰
اس کی قربت میں غم نہیں ملتے
الفتوں کا دیار ہے ممتا
۰۰۰۰
دل میں ایمان گھلنے لگتا ہے
جب بھی آتا ہے تو خیالوں میں
۰۰۰۰
ان کے دم سے ہے ہر خوشی اپنی
ان سے روشن ہے زندگی اپنی
مندرجہ بالا اشعار سے اقبال سالکؔ کی فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں رومانوی احساس کے ساتھ ساتھ ایک آتشیں احساس بھی ملتا ہے جو ان کے سماجی شعور کا آئینہ دار ہے۔ یہ اور ایسے کئی اشعار ہیں جو ایک دوبار پڑھتے ہی ذہن نشیں ہو جاتے ہیں اور یہ بڑی بات ہے۔
اقبال سالکؔ ؔ کے یہاں نہ لفظوں کی تکرار ہے اور نہ ہی نفسِ مضمون کی۔ وہ ہر بار نئے خیالات وافکار سے قاری کو روشناس کراتے ہیں جس سے بچے اور بڑے دونوں یکساں طور پر محظوظ ہوتے ہیں۔ بیان کے اسلوب پر انھیں قدرت حاصل ہے۔ الفاظ کے تانے بانے بننے کا نام شاعری نہیں ہے بلکہ برتے ہوئے الفاظ سے نئی ترکیبیں وضع کرنا شاعری کہلاتا ہے۔ ان کے یہاں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جس میں خالص تخلیقیت ہے اسی لیے وہ اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کرتی ہے۔
المختصر ’’پہلا قدم‘‘ کی نظموں میں وہ مکمل اور بھر پور خیال جو ہمارے مخصوص تہذیبی سماجی اور فکری رویوں کی پہچان ہے جا بجا ایک تیز روشنی کی طرح پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان نظموں میں وہی باتیں ہیں جنھیں بچے چاہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ نظمیں بچوں کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہیں۔ اقبال سالکؔ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی بچوں کی شاعری جس میں معصوم لڑکپن، طفلانہ معصومیت، بھولاپن اور بچپن کی شوخیاں موجود ہیں نظریاتی پروپیگنڈے کے خوف سے سمٹ کر محض رواجی اخلاقیات کا دفتر نہ بن جائے۔
٭٭٭
مطبوعہ : ہفت روزہ کوکن کی آواز مہاڈ، ۱۳؍ مارچ تا ۱۹؍ مارچ ۲۰۱۵ء