ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جس میں بچوں کے ادب سے متعلق کتابیں اور رسائل کی بھر مار تھی جس کی وجہ سے اچھی اچھی کہانیاں اور نظمیں بچے اور بڑے بہت ہی دلچسپی اور مزے لے لے کر پڑھتے تھے۔ ان کہانیوں اور نظموں کے ایک ایک جملے اور اور ایک ایک شعر میں پند و نصائح کی باتیں، اخلاق و آداب، نیک و بد کی تمیز اور تہذیب و تمدن غرض وہ ساری ہی چیزیں موجود ہوا کرتی تھیں جن سے بچوں کی کردار سازی ہو سکے۔ اس وقت مجھے ایک نظم یاد آ رہی ہے جس کا عنوان تو مجھے اب یاد نہیں لیکن میں اسے اپنے بچپن میں لہک لہک کر پڑھتا تھا۔ آپ بھی سن لیجیے ؎
صبح اسکول جب میں جاتا ہوں
اپنی دھن میں قدم بڑھاتا ہوں
راستے کے حسین نظارے
کتنے دلچسپ کس قدر پیارے
کوئی بندر نچا رہا ہے ادھر
کوئی کرتب دکھا رہا ہے ادھر
اس طرف دیکھیے کہ بازی گر
چل رہا ہے بلند رسی پر
اپنا جادو دکھا رہا ہے کوئی
اور ڈمرو بجا رہا ہے کوئی
اک سپیرا کھڑا ہے آنگن میں
سانپ کے ہار پہنے گردن میں
ان کے دھوکے میں کب میں آتا ہوں
اپنا رستہ ہی چلتا جاتا ہوں
صبح اسکول جب میں جاتا ہوں
اپنی دھن میں قدم بڑھاتا ہوں
اس نظم کو میں آج بھی پڑھتا ہوں اور اپنے طالب علموں کو بھی سناتا ہوں۔ وہ بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خیر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔!
عصرِ حاضر میں بچوں کے ادب سے متعلق بے اعتنائی اردو زبان و ادب کے لیے
صحت مند علامت نہیں ہے کسی بھی زبان کے وجود کے لیے جو عوامل کار فرما ہوتے ہیں ان میں سب سے پہلا ابتدائی لٹریچر ہے۔ یہ وہ بنیادی زینہ ہے جس کے بغیر نہ تو زبان کا وجود باقی رہے گا اور نہ ہی اس کے ناخدا۔ مگر افسوس کہ آج کا مصنف یا شاعر بغیر بنیاد کے اردو کا تاج محل بنانا چاہتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جس سے آج کا مصنف یا شاعر بچوں کے ادب سے پیچھا چھڑا رہا ہے۔ اول تو یہ غزلوں کی طرح سہلِ ممتنع نہیں ہے کہ جہاں بیٹھے ردیف اور قافیہ ناپنے لگے۔ کہنے کو تو یہ بچوں کا ادب ہے مگر اس میں بڑوں بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد مصنفین و شاعروں کا ایسا طبقہ ہے جو ادبِ اطفال کو لائقِ اعتنا اس لیے سمجھتا ہے کہ اس میں پھنس کر نہ وہ شہرت کی بلندیاں حاصل کر سکتا ہے اور نہ اعزاز و اکرام۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے بچوں میں نہ تو پہلے جیسا جوش و خروش ہے اور نہ ہی ذوق کا جذبہ۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ آج ٹی وی، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ نے ان کے اندر بے رغبتی پیدا کر دی ہے مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ سارے ہی سوالوں کا ایک جواب اور وہ ہے ادبِ اطفال کی طرف سے بے اعتنائی بے رغبتی اور لاتعلقی۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ آج بھی اس دور میں کچھ ایسے مردِ آہن ہیں جنھوں نے ادبِ اطفال کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں جن میں سے ایک اہم نام حیدرؔ بیابانی کا ہے۔
حیدرؔ بیابانی بیک وقت ایک اچھے شاعراور انشائیہ نگار ہیں۔ انھیں تحقیق و تنقید سے بھی دلچسپی رہی ہے لیکن وہ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک انشائیہ نگار کے طور پر وہ سماجی و سیاسی بے راہ روی، ظلم و استحصال، شکستہ حال اخلاقی قدریں، انسانی زندگی کی محرومیاں اور بد حالیاں جیسے موضوعات و مسائل کو انشایئے کا روپ دیتے ہیں۔ ان کا فن ہر طرح کی مصلحت پسندی سے پاک ہے۔ وہ ایک صحت مند اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے ان کی نظموں میں انسانی و اخلاقی قدریں، فطرت کا حسن، روشن مستقبل کا خواب، ماضی کی حسرت ناک یادیں، تعلیم و تربیت کی اہمیت، حب الوطنی کا جذبہ، بھائی چارگی، مذہبی رواداری امن و آشتی، رشتے ناطے، خلوص و محبت اور مشترکہ تہذیب و ثقافت جیسے موضوعات و مسائل سے آباد ہیں۔ وہ اپنی تخلیقات کو ڈرامائی حسن سے نکھارنے و سنوارنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شعری و نثری تخلیقات اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ عبدالرحیم نشترؔ کے مطابق:
’’حیدر بیابانی کی نظمیں اور ان کے گیت مسرتوں کے خزانے ہیں۔ ہر نظم ذہنی اور روحانی مسرت عطا کرتی ہے۔ ان کی شاعری روشِ عام پر چلتی ضرور نظر آتی ہے لیکن وہ اپنی ننھی منی باتوں کو اس فرسودہ راستے پر آنکھیں باندھ کر نہیں دوڑاتے۔ اسی لیے ان نظموں میں کسی بزرگ مولانا یا ناصح سے نہیں بچوں کی ملاقات ایک دوست اور پر خلوص شاعر سے ہوتی ہے جو اپنے دلچسپ اور دنشیں باتوں کو ایک سریلی من موہن لے میں انھیں لبھانے والی زبان میں بڑی شرارت کے ساتھ چھیڑتا ہے۔‘‘
(انتخاب ننھی منی باتیں، حیدر بیابانی، صفحہ نمبر ۵۴۶)
آج کی اس بھاگ دوڑ بھری زندگی میں انسانی قدریں روبہ زوال ہیں۔ بچوں کے ادب کی جانب آج ایک خاص طرح کی مایوسی اور اداسی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں ادبِ اطفال کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے لیکن افسوس کہ آج اسے دوم درجہ کا ادب تصور کیا جانے لگا ہے جب کی میرؔ و غالبؔ جیسے عظیم شاعروں نے بھی ادبِ اطفال کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کی تھی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بچوں کی تربیت و ذہنی پرورش کے بغیر اردو زبان و ادب کے روشن مستقبل کا خواب نا ممکن ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے بچوں کی نفسیات، معصومیت، خوشی، امنگ شوخی اور ان کی ذہنی کیفیت سے آشنائی ضروری ہے۔ حیدرؔ بیابانی کی نظموں میں یہ اوصاف رچے بسے ہوئے ہیں۔
حیدرؔ بیابانی کی نظمیں ماہنامہ امنگ نئی دہلی، ماہنامہ بچوں کی نرالی دنیا نئی دہلی ماہنامہ پیامِ تعلیم نئی دہلی، ماہنامہ گل بوٹے ممبئی، ماہنامہ گلشنِ اطفال مالیگاؤں اور ماہنامہ نور رامپور وغیرہ رسائل و جرائد کی زینت بنتی رہی ہیں۔ فکر و خیال کی سطح پر ان کے یہاں تنوع ملتا ہے۔ وہ ہر طرح کے موضوعات کو اپنی نظموں میں جگہ دیتے ہیں۔ وہ عصری مسائل کو بچوں کی نفسیات سے جوڑتے ہیں تو پرانی قدروں کی پاسداری کا بھی پاس رکھتے ہیں۔ وہ تہواروں کی خوشیاں معصوم دلوں میں بھرتے ہیں تو انسانیت اور بھائی چارے کا پیغام بھی ان کے یہاں ملتا ہے۔ موسم کا حسن و دلکشی بیان کرتے ہیں تو پرندوں کی خوشنما آوازیں بھی ان کے یہاں سنائی دیتی ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں نصیحت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے ہیں لیکن ایسے میں نظموں کا فنی رچاؤ، روانی، بے ساختگی اور فطری پن متاثر نہیں ہوتا۔ موسم، چرند پرند، جنگل، صبح، رات، کوئل، ریل، تتلی، مچھلی، کتاب، قلم، برسات، سردی، گرمی، عید، دیوالی رنگولی، ٹی وی، پہلی اور بچپن وغیرہ سب کی خوبصورت جھلکیاں ان کے یہاں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر حیدرؔ بیابانی کی چند نظموں کے بند ملاحظہ کیجیے ؎
جنگل میں اک مشاعرہ کل شام ہو گیا
ہر کوئی شعر اور ترنم میں کھو گیا
میدان میں ہوئی تھی بہم شاعروں کی بھیڑ
پیڑوں پہ لگ گئی تھی کئی طائروں کی بھیڑ
تشریف لائے شیر جی اپنی کچھار سے
آیا گدھا غریب پہاڑی کے پار سے
حاضر ہوا تھا ریچھ مداری کو چھوڑ کر
بندر بھی کود پھاند کر آیا تھا وقت پر
بلی نے آج شہر سے آنے میں دیر کی
لیکن سنو کہ آئی ہے خالہ وہ شیر کی
ہاتھی نہا کے آ گیا تالاب سے وہاں
کتا بھی آیا دوڑ کے یاروں کے درمیاں
محفل میں آیا چوکڑی بھرتا ہوا ہرن
بیٹھا ہوا تھا تخت پہ خرگوش گل بدن
شاعر تھے، سامعین تھے، جنگل کے جانور
ہاتھی بنا تھا صدر، نظامت گدھے کے سر
بیٹھے تھے سامعین میں کچھ سر پھرے وہاں
غرا رہے تھے شیر، ہراساں تھیں ہرنیاں
چیتے نے چیخ چیخ کیا واہ واہ خواب
بچپن سے تھی ادب کے تئیں اس کی چاہ خوب
کی ابتدا گدھے خود اپنے کلام سے
خود کو پکار بیٹھا وہ اپنے ہی نام سے
(نظم: مشاعرہ)
ابو جب دفتر سے آئے
غصے میں تھے منہ لٹکائے
کام بہت تھا شاید دن بھر
تھک کر شام کو آئے ہیں گھر
ببلو کو وہ آنکھ دکھائیں
منی پر چیخیں چلائیں
دیکھ کے امی بولیں مسٹر
گھر مت سمجھو اپنا دفتر
کیا تم نے یہ بات سنی ہے
گھر کی مرغی دال برابر
(نظم: گھر کی مرغی)
دادی کی انمول کہانی
لگتی ہے سو سال پرانی
پریاں ساری بوڑھی ہو کر
اپنا سب میلے میں کھو کر
دھرتی کے اس پار گئی ہیں
اپنا سب کچھ ہار گئی ہیں
راجا جی کا راج ہے چوپٹ
ان کا تخت و تاج ہے چوپٹ
گویا سب کچھ گزر گیا ہے
میرا بچپن کدھر گیا ہے
(نظم: میرا بچپن)
بزرگ چوہے نے بولا جوان چوہے سے
تجھے پتہ ہی نہیں یونین کے منصوبے
ہوئی تھی رات میں میٹنگ چند چوہوں کی
چلی تھی بحث بہت عقل من چوہوں کی
بنا تھا صدر پڑوسی مکان کا چوہا
نہ دیکھا میں نے کبھی ایسی شان کا چوہا
اسی نے آخری تقریر کی بہت اچھی
جو بات اس نے کہی تھی بہت خوب کہی
کہا تھا اس نے کہ جینا حرام ہے اپنا
بنا خطا کیے بد نام نام ہے اپنا
(نظم: چوہوں کی میٹنگ)
یہ بوتل تم نے توڑی ہے؟
نہیں امی نہیں امی
بغل میں کیوں ہتھوڑی ہے؟
یونہی امی یونہی امی
(نظم: نہیں امی، یونہی امی)
زبان و بیان اور اسلوب کی سطح پر بھی حیدرؔ بیابانی کی نظمیں اپنی خوبصورتی اور دلکشی کا انوکھا احساس دلاتی ہیں۔ ان کی شاعری بیان کی سلاست و روانی، فکر و خیال کی ندرت، الفاظ کی نغمگی و موسیقیت جیسی خوبیوں سے ہم آہنگ ہے۔ ان کی چند نظمیں طنز و مزاح کی بہترین مثال ہیں۔ ان کی نظموں سے امن و محبت، انسانیت اور بھائی چارگی کا پیغام ملتا ہے۔ کچھ نظمیں کہانی کی شکل میں بھی ہے۔ ان کے توسط سے شاعر نے انسانی ہمدردی اور محبت کا درس دیا ہے۔ اس نوعیت کی نظموں کی انفرادیت و خوبی یہ ہے کہ سبق آموز و نصیحت آمیز ہوتے ہوئے بھی ان میں روکھے پن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ فطری انداز میں بچوں کو کوئی نہ کوئی نصیحت دے جاتی ہیں۔ انہوں نے مشکل اور بھاری بھر کم لفظوں کے استعمال سے شعوری طور پر احتراز کیا ہے۔ حسبِ ضرورت ہندی کے عام بول چال کے الفاظ بھی ان کے یہاں مستعمل ہیں۔
فن اور اسلوب کی خوبیوں کے باعث حیدرؔ بیابانی کی نظموں میں غضب کی روانی و نغمگی در آئی ہے۔ انھوں نے موضوعات کے انتخاب میں بچوں کی نفسیاتی و ذہنی معیار کا خاص خیال رکھا ہے۔ انھوں نے عصری مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ جزئیات نگاری کی کیفیت ان کی نظموں میں جادو جگاتی ہے۔ مناظرِ فطرت کی عکاسی ان کی نظموں کا خاص وصف ہے۔ مختصر یہ کہ حیدر بیابانی کی نظمیں انھیں ادبِ اطفال کے چند اہم شعرا میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔
٭٭٭
گورنمنٹ ڈگری کالج، سدی پیٹ (تلنگانہ) کے دو روزہ قومی سمینار
بعنوان ’’بچوں کا ادب اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ میں یہ مقالہ پڑھا گیا۔
نیز سمینار کی پروسیڈنگ میں بھی شامل ہیں