کوکن کا ذکر آتے ہی ذہن میں بدیع الزماں خاورؔ ، ساحرؔ شیوی، عبدالرحیم نشترؔ جیسے مشہور و معروف شعرا کا تصور آتا ہے لیکن اس علاقے کی ادبی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم زمانے سے ہی یہ عالموں، مفکروں اور شاعروں کا مسکن رہا ہے اس لیے یہاں کی سر زمین علمی، ادبی اور شعری لحاظ سے بڑی زرخیز ہے۔ یہاں کے فنکاروں نے اپنا لہو پلا کر اسے شاداب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عاشقانِ اردو اور وابستگانِ زبان و ادب کے مختلف میدانوں میں نمایاں اور درخشاں کارناموں کی بدولت یہ علاقہ شعر و ادب کے آسمان پر ہمیشہ اپنی جگمگاہٹیں بکھیرتا رہا۔ یہاں کی شعری فضاؤں میں نسلِ نو کے تازہ تخلیق کاروں کی نو بہ نو متاثر کن اور توجہ طلب آوازیں مسلسل گونجتی رہی ہیں۔ اس علاقے کے شعری و ادبی ماحول کو متاثر کرنے والے بزرگوں میں جناب مہرؔ مہسلائی، شرفؔ کمالی، قیصرؔ رتناگیروی، اخترؔ راہی، قاضی فراز احمد،ؔ اور آزادؔ نوحی وغیرہ قابلِ ذکر تھے جن کے تذکروں اور یادوں سے آج بھی کئی لوگوں کے حافظے مہک رہے ہیں۔ ان میں بالخصوص عبدالرحیم نشترؔ ملک گیر پیمانے پر اپنی شناخت رکھتے ہیں اور اپنی تخلیقی سرگرمیوں میں برسرِ کار رہتے ہوئے اپنے رہنمایانہ اور مشفقانہ مشوروں سے نئی نسل کی سرپرستی فرماتے رہتے ہیں۔
مذکورہ بالا بزرگوں کی شعری و ادبی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے جونئی نسل شعر و ادب میں سر گرمِ تخلیق ہے ان میں تاج الدین شاہدؔ کا نام خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کا خمیر اسی سوندھی خوشبو سے مہکتی ہوئی روایت کی زرخیز مٹی سے اٹھایا ہے۔ اپنی تازہ کار آواز، نئے لب و لہجے اور دلکش رنگا ٓہنگ سے دنیائے شعر و ادب میں اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ آکاشوانی رتناگری سے کئی بار ان کا کلام نشر ہو چکا ہے۔ دو شعری مجموعوں ’’ابھی ابھی (۱۹۹۲ء)‘‘ اور ’’آئینہ (۲۰۰۶ء)‘‘ کے خالق ہیں۔ رسائل و جرائد میں اشاعتِ کلام پر توجہ کم ہے البتہ مشاعروں میں اپنے وجود کا احساس دلانے میں خاصے کامیاب ہیں۔ درج ذیل اشعار سے تاج الدین شاہدؔ کے روشن مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ؎
وقت کے ساتھ لوگ کیا جانیں
کیا ہواؤں کی سازشیں ٹھہری
۰۰۰۰
لوگ آنکھیں چرا کے چلتے ہیں
راستے میں کسی کی لاش نہ ہو
۰۰۰۰
سبز پتے کو لے اڑی ہے صبا
زرد پتہ مگر شجر میں ہے
۰۰۰۰
کسی مقام پہ رکنا کہاں نصیب ہوا
نگاہِ شوق میں تھوڑا ہمیں ٹھہرنے دے
۰۰۰۰
نئے لفظوں کا کیوں احساس تک ہوتا نہیں شاہدؔ
پرانے لفظ ہی کیوں روح کے اندر اترتے ہیں
ایک نا معلوم دنیا کی مسلسل ہے تلاش
جیسے فرشِ دہر زیرِ آب کوئی اور ہے
۰۰۰۰
شام ہوتے ہی اجالے سو گئے
رات بھر جلتی رہی مشعل کوئی
۰۰۰۰
یاد کرتا ہے تجھے آنگن کا پیڑ
گاؤں آ کر اپنا گھر اک بار دیکھ
۰۰۰۰
کوئی تو سانحہ گزرا ہے شہر میں اپنے
ہر اک مکان کا پتھر اداس لگتا ہے
پیش کردہ اشعار میں عصری حسیت، سماجی معنویت، اظہارِ ذات، کرب آگہی، تنہائی کا المیہ اقدار کی شکست و ریخت، بے چہرگی کا خوف، تہہ در تہہ معنویت پر مبنی علامتی پیرایۂ اظہار جیسے کورے کاغذ پر لکیروں کا تصویر بنانا، ہوا کا سازشیں کرنا، لوگوں کا آنکھ چرا کر چلنا، صبا کا سبز پتے کو لے کر اڑ جانا، نگاہِ شوق میں رکنے کی خواہش، نئے لفظوں کا احساس تک نہ ہونا، ایک نا معلوم دنیا کی تلاش، دھوپ کا جھلسانا، شام ہوتے ہی اجالوں کا سوجانا، آنگن کے پیڑ کا یاد کرنا اور مکان کے پتھر کا اداس ہونا جیسی اچھوتی اور دلکش تراکیب و لفظیات اپنی دیرینہ کلاسیکی روایت سے مکمل وابستگی کے ساتھ اندازِ پیش کش اور طرزِ اظہار کی بنا پر ایک دم نئے اچھوتے، منفرد اور اپنے آپ میں نئے معلوم ہوتے ہیں۔ لہجے کی یہ صلابت، تہذیبی و ثقافتی قدروں کی پاسداری کا یہ صحت مند رجحان تاج الدین شاہدؔ کی شاعری کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کراتا ہے جو ان کی منفرد تخلیقی شناخت کا ایک مستحکم وسیلہ ہے۔ ویسے بحیثیت شاعر تاج الدین شاہدؔ کے مقام و مرتبے کا تعین کرنا سرِ دست، لایعنی اور قبل از وقت ہو گا کیونکہ ابھی تو ان کی فکر کے خدوخال پوری طرح اجاگر نہیں ہوئے ہیں اور ابھی تو وہ اپنی شناخت کی تشکیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ تاہم اپنے تخلیقی سفر کے ابتدائی مراحل میں فکر و فن کے جو نقوش انہوں نے مرتسم کیے ہیں ان پر ایک تجزیاتی نظر ڈالنے پر یہ رائے حتمی طور پر قائم کی جا سکتی ہے کہ تاج الدین شاہدؔ اپنی نسل کے شاعروں کی اولین صفوں میں اپنے لیے نمایاں جگہ بنا چکے ہیں۔
تاج الدین شاہدؔ کی شاعری کی اٹھان کے پیشِ نظر فی الحال میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ علاقائی شہرتوں کی حدوں کو پھلانگ کر کچھ آگے نکل جائیں گے لیکن قیاس لگاتے ہوئے در پیش حقائق کی روشنی میں اتنی پیشن گوئی ضرور کر سکتا ہوں کہ تاج الدین شاہدؔ نے محض لب و لہجے اور اظہارِ خیال کی حد تک ہی نہیں بلکہ پورے شعری اسلوب کے معاملے میں شعوری طور پر اپنا ایک نیا رنگ و آہنگ اختیار کیا ہے۔ اپنی تخلیقی دنیا آباد کرنے کے لیے نئی زمینیں تلاش کی ہیں۔ نئے آسمانوں کی جستجو کی ہے۔ نئی نئی منزلوں کی کھوج میں نئے نئے راستے دریافت کرتے ہوئے انھوں نے اپنی فکری صلاحیتوں کے لیے غزل کا میدان منتخب کیا اور یہ سچ بھی ہے کہ غزل میں اس قدر کشادگی، وسعتیں اور گہرائیاں موجود ہیں کہ دنیا جہان کے موضوعات، نئی نئی لفظیات، نئی نئی اصطلاحات، خوش رنگ علامات اور دلکش تشبیہات و استعارات اس کے دامن کو دن بدن وسیع تر کر رہے ہیں۔
عصرِ حاضر میں غزل کے ممتاز ترین شعرا نے نئے لب و لہجے کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا اور اپنی ندرتِ فکر اور جدتِ خیال کی روشنی میں نو واردانِ بساطِ سخن کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان دنوں کوکن میں جتنی بھی نمایاں آوازیں سنائی دے رہی ہیں وہ اسی نئے آہنگ کی بازگشت ہے جس کے ذریعے نئے خد و خال بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں اور تاج الدین شاہدؔ کی شعری انفرادیت بھی واضح ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لہذا تاج الدین شاہدؔ کی شاعری کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری ایک ایسے معاشرے میں اپنی آنکھیں کھولتی ہیں جہاں زندگی تمام تر پیچیدگیوں سے عبارت ہے۔ ہر انسان اپنے معاشرے سے کٹا کٹا سا لگ رہا ہے۔ ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی قربتیں ختم ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ انسان ایک چھت کے سائے سے محروم ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں بے مقصدیت، بے زاری، تنہائی، بے معنویت، اور بر گشتگی جڑ پکڑ چکی ہے۔ جس سے شاعر قدم قدم پر دوچار ہو رہا ہے۔ شاعر اس کرب کو محسوس کرتا ہے اور اس کا اظہار بھی کرتا ہے لیکن اس کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ان پیچیدگیوں میں سرے سے مدغم نہیں ہوتا بلکہ اپنے ذہن کے ارتقا اور اپنے دیدۂ بینا سے اس کے منفی پہلوؤں سے گریز کرنے کی تلاش کرتا ہے۔ وہ اپنی سوچ اور اپنی فکر سے مثبت طور پر زندگی جینے کی راہ ڈھونڈتا ہے۔ ایسے میں شاعر کا تیور اپنے معاشرے سے بالکل باغیانہ ہو جاتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
گھر کے باہر مچھروں کی فوج ہے
بند کھڑکی کھولنا اچھا نہیں
۰۰۰۰
بوڑھی آنکھیں کریں چہل قدمی
آہٹوں کا سفر ہے آنگن میں
۰۰۰۰
جانے کیوں دھوپ میں کھڑے ہیں لوگ
چھاؤں تو سائباں کے اندر ہے
۰۰۰۰
کس نے آنکھوں کا تیل چھڑکا ہے
جل اٹھیں بتیاں بھی کاغذ پر
۰۰۰۰
یہ واقعہ ہے کہ لاکھوں کی بھیڑ میں تھے لوگ
مگر یہ ہم ہیں کہ تنہائیاں اٹھا لائے
مندرجہ بالا اشعار کے وسیلے سے تاج الدین شاہدؔ نے اپنے شعری مزاج کا نہایت وضاحت کے ساتھ اظہار کر دیا ہے۔ اس مزاج کے تحت اپنی آواز اور اپنے انداز میں نئے رنگ و آہنگ سے آراستہ اشعار ان کے شعری سرمایے میں جا بجا دامن تھام لیتے ہیں اور انتخاب کا عمل دشوار ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے سہلِ ممتنع کے حامل نرم و نازک جذبات اور سبک احساسات سے معمور ان کے چند خوبصورت اشعار جنھیں کلاسیکی روایت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؎
دیا رات بھر دل کا جلتا رہے گا
مسافر اکیلا ہی چلتا رہے گا
۰۰۰۰
دیا تھا اندھیرے میں جلتا رہا
اسے کیا خبر ہو گئی کب سحر
۰۰۰۰
بڑی چیز ہے دولتِ غم مگر
میسر کہاں ہر کسی کے لیے
۰۰۰۰
اپنے چہرے پہ چہرے بدلتا رہا
ایک بہروپیا تھا مچلتا رہا
۰۰۰۰
عجب جن کے ہاتھوں میں خنجر ملے
جہاں میں وہی لوگ گھر گھر ملے
یہ اشعار ان کی منفرد سوچ کے ساتھ معنی و مفاہیم کا ایک جہاں اپنے اندر رکھتے ہیں جہاں تک ہماری نگاہیں پہنچ نہیں پاتیں۔ ان اشعار میں ہماری اپنی دنیا، ہماری اپنی زندگی، ہمارے اپنے گرد و پیش میں لمحہ بہ لمحہ رونما ہونے والے مسائل کی ترجمانی اچھوتے شعری پیکروں میں کی گئی ہے۔
تاج الدین شاہدؔ بنیادی طور غزل کے شاعر ہیں۔ اپنے ہم عصروں کے مقابل اگرچہ وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کے فن کا تیور بہت توانا ہے۔ اردو شاعری کی روایت کو سامنے رکھ کر جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو ہمیں ان کے فن کے اصل جوہروں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ منفرد شاعر و ادیب عبدالرحیم نشترؔ نے تاج الدین شاہدؔ کی آواز کو ’ نئی آواز ‘ قرار دیا ہے۔ بہر حال یہ ان کی اپنی رائے ہے مگر میرے نزدیک تاج الدین شاہدؔ کی شاعری نو کلاسیکی اردو شاعری کی ایک ابھرتی ہوئی آواز ہے جس میں اتباع بھی ہے اور اختراع بھی، جو انہیں اردو شعر و ادب میں ایک منفرد مقام پر پہنچائے گی۔
٭٭٭
مطبوعہ : سالنامہ سہکار جرنل آف گوگٹے جوگلے کر کالج رتناگری، اپریل ۲۰۱۷ء