شکیبؔ غوثی کی شاعری میں دو نمایاں پہلو نظر آتے ہیں۔ ایک پہلو تو ان کی غزل گوئی کا ہے اور دوسراپہلو نظم نگاری کا۔ ان کی غزل گوئی اور نظم نگاری دونوں کی اہمیت یکساں ہے اس لیے اس بات کا فیصلہ کرنابے حد دشوار ہے کہ وہ غزل سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یا انھیں نظم گوئی سے زیادہ گہرا شغف ہے۔ ان کی غزل گوئی پر اظہارِ خیال کرنے سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود ان کے خیالات کو پیشِ نظر رکھا جائے جو شاعری سے متعلق ہیں۔ اپنی شاعری کے بارے میں انھوں نے ’’دست گرداں‘‘ میں لکھا ہے ؎
’’ادب کا کام کسی فلسفے یا نظریہ کی تبلیغ کرنا نہیں ہے بلکہ فکر و فن کا فطری اظہار کرنا ہے لہذا مقصدی ادب کے شائقین کے لیے میرے کلام کا مطالعہ کرنا تضیع اوقات ثابت ہو گا۔ میں نہیں جانتا کہ میں بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہوں یا نظم کا۔ اپنے اظہار کے لیے حسبِ ضرورت ان دونوں ہی اصناف کا سہارا لیتا رہتا ہوں۔‘‘
(صفحہ نمبر ۴)
مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شکیبؔ غوثی کی غزلیں اور نظمیں مقصدی ادب کی ترجمانی نہیں کرتیں بلکہ ان کی غزلوں اور نظموں کے محرکات ان کے اپنے ذاتی تجربے رہے ہیں۔ البتہ ان تجربوں کا اظہار ان کی غزلوں میں زیادہ مفصل طور پر ہوا ہے۔ عموماً ان کی غزلوں میں جس اضطرابی کیفیت، اداسی، مایوسی، تھکن اور منتشر خیالی کا احساس ہوتا ہے اس کی گونج ان کی نظموں میں بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ انھوں نے اپنے مجموعہ کلام ’’دست گرداں‘‘ کی غزلوں کو ’’دشتِ نوا‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس عنوان سے ان کی غزلوں کی اندورنی فضا اور آہنگ کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ یہ عنوان انھوں نے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس میں ان کی زندگی کی وہ محرومیاں، ناکامیاں اور پریشانیاں پوشیدہ ہیں جنھیں انھوں نے غزلوں کے رمزی اور اجمالی طرزِ اظہار کے ساتھ پیش کیا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس سے ان کی غزل کے مزاج اور لہجے کے دوسرے پہلوؤں کی بھی نمائندگی ہوتی ہو جس کے لیے انہوں نے ’’دشتِ نوا‘‘ کا استعمال بطور استعارہ وضع کیا ہے۔
در اصل واقعہ یہ ہے کہ شکیبؔ غوثی اپنی افتادِ طبع کے لحاظ سے ایک الم پسند شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں جن خیالات اور جذبات کا اظہار ہوا ہے اسے حزن و الم سے تشبیہ دی جا سکتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شکیبؔ غوثی کی غزل کا لب و لہجہ اور آہنگ حزنیہ سا لگتا ہے۔ اس میں اس کیفیت کا شدید احساس ہوتا ہے جو بقول پروفیسر فدا المصطفیٰ فدوی غمِ عشق اور غمِ روزگار سے آگے بڑھ کر ذات کا احاطہ کرتی ہے۔ شکیبؔ غوثی کے یہاں تنہائی کا احساس اور ماضی کے کرب سے منسلک تلاشِ ذات کا رجحان نظر آتا ہے جس کے سبب ان کی غزلوں میں ایک مخصوص داخلی آہنگ پیدا ہو گیا ہے۔ داخلی احساسات اور تجربات پر مبنی ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں ؎
سفر سلگتے ہوئے موسموں کا تھا در پیش
دہکتی دھوپ تھی سر پر شجر نہ تھا کوئی
۰۰۰۰
اپنے اندر کا معصوم بچہ کہیں
کھو گیا ہے اسے ڈھونڈنا چاہئے
۰۰۰۰
اس بھیانک موڑ پر ملنا ترا اعجاز ہے
کھینچ کر زنجیر میں نیچے اترنے والا تھا
۰۰۰۰
دشمنوں کے شہر میں، میں اکیلا ہو گیا ہوں
ایک اک کر کے مرے ساتھی سبھی مارے گئے ہیں
۰۰۰۰
مجھ کو اپنانے سے پہلے سطح پر میری اتر
پستیوں میں ہوں بلندی سے نہ یوں آواز دے
۰۰۰۰
حصارِ لمحہ میں خود کو سمیٹتے نہ بنی
شکار وقت تھے کیا تیری آرزو کرتے
۰۰۰۰
ہے زندگی بھی ایک مسلسل سفر کا نام
ایسا سفر کہ راہ میں کوئی شجر نہ آئے
۰۰۰۰
گھنے درختوں کو دیتا رہا دعا تا دیر
وہ اک فقیر جو صحرا نشین تھا شاید
۰۰۰۰
اک جستجو تھی شہر کی پیشِ نظر جو تھی
اک سلسلہ تھا دشت کا زیرِ قدم جو تھا
مذکورہ بالا اشعار کے مطالعہ سے شکیبؔ غوثی کی غزلوں کے موضوعات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے احساسات کے اظہار میں ایک نشتریت کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ان کا شعری اظہار کا جو رویہ رہا ہے اس میں کسی طرح کی کوئی تقلید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کے نزدیک ذاتی فکر و نظر کی اہمیت زیادہ ہے۔
عام طور پر غزلوں میں منتشر خیالات اور جذبات پیش کیے جاتے ہیں اور تقریباً ہر شاعر انہی حالات سے دوچار ہوتا ہے۔ یعنی زیادہ تر شعرا کی غزلیں انتشارِ خیالی کا شکار ہوتی ہیں لیکن اس کے بر خلاف شکیبؔ غوثی کی غزلوں میں ایک نظم و ضبط کا دخل معلوم ہوتا ہے اور ان کی غزلوں میں ایک معنوی وحدت بھی پائی جاتی ہے جس کی مدد سے اگر ہم چاہیں تو شکیبؔ غوثی کی شخصیت کے بکھرے ہوئے نقوش یکجا کر سکتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں واقعیت اور جذباتی خلوص کا پہلو واضح دکھائی دیتا ہے۔ ان کی غزلیں ان کی شخصیت اور ان کی ذات کے جن پہلوؤں کی غمازی کرتی ہیں ان کی نمائندگی مندرجہ ذیل اشعار سے بخوبی ہو جاتی ہے ؎
زندگی نکلی اندھیرا پل صراط
کام ہم سمجھے تھے بائیں ہاتھ کا
۰۰۰۰
رات گئے وہ جانے کہاں گئی ہو گی
بچے کو پالنے میں تنہا سلا کر
۰۰۰۰
دور کہیں کچھ بہنے جیسی آوازیں کیوں آتی ہیں
چٹانوں کو توڑ کے دیکھیں اندر شاید پانی ہو
۰۰۰۰
جیتے جی اپنا نتیجہ دیکھ لینا چاہتا ہوں
کوئی ڈائن آئے میرے جسم کو زندہ چبالے
۰۰۰۰
راستہ تکتی ہیں بے خواب چٹانیں کس کا
ان سے کہہ دو کوئی موسم نہ ادھر آئے گا
۰۰۰۰
دھوپ کی گٹھری باندھ کر چل دیتا ہے
سورج کس بستی میں رہتا ہو گا
۰۰۰۰
ممتا دن بھر رستہ تکتی رہتی ہے
سڑکوں پر بچپن آوارہ پھرتا ہے
۰۰۰۰
لوگ کس طرح بھلا خود کو بدلتے ہوں گے
اپنا چہرہ تو وہی آج بھی کل جیسا ہے
۰۰۰۰
مہنگا پڑا ہے ذات کا سودا نہ پوچھئے
سونے کو بیچ آئے ہیں مٹی کے بھاؤ میں
۰۰۰۰
ریتی ریتی اس نے مجھے ٹٹولا
پھر گہرے پانی میں جا کر دیکھا
ان اشعار میں جو اضطرابی کیفیت اور دردو کرب کا اظہار ہوا ہے اس کے پیشِ نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہی شکیبؔ غوثی کی غزل کی روح، مزاج، جان اور آبرو ہے۔ بے شک اسی کے سبب ان کے اشعار میں رنگینی و رعنائی، حلاوت و شیرینی، سوز و گداز، تر و تازگی، سادگی و سلاست، حسن و جمال، رمزیت اور تاثیر پیدا ہوئی ہے۔
شکیبؔ غوثی کی غزلوں کے مطالعہ کے بعد ان کے انفرادی لب و لہجے اور رنگ و آہنگ کی کئی واضح خصوصیات نظر آتی ہیں جنھیں کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے اردو غزل کی اچھی روایات کو اپنے مزاج اور شعور میں جذب کر کے انہیں اپنی شخصیت کے داخلی عناصر سے ہم آہنگ کر کے ان میں نئی دھار پیدا کی اور نئے زاوئیے نکالے۔ ان کے یہاں ایسے بھرتی کے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں کوئی خاص بات پیدا نہ ہو سکی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کے یہاں نشاط و سرمستی کی کیفیت یکسر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کی تمنائیں کروٹ لیتی ہوئی نظر آتی ہیں اور یہ اسی احساس اور کیفیت کا نتیجہ ہے کہ ان کے بعض اشعار میں بڑا بکھرا ہوا تغزل ملتا ہے۔ ان کے یہاں عشقیہ مضامین کا اظہار بھی کچھ نئی کیفیات اور تلازمات کے ساتھ ہوا ہے۔ میرے خیال میں انھوں نے عاشق و معشوق کے رشتے کو ایک نئے زاوئیے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اسے ایک عام انسانی رشتے کے روپ میں پیش کیا ہے۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ شکیبؔ غوثی کی غزلوں میں ایک خاص قسم کا خلوص اور دردمندی جھلکتی ہے جس نے ان غزلوں کو جاذبِ نظر اور دلکش بنا دیا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں کو شعری اور فنی نقطۂ نظر سے یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ وہ غمِ جاناں سے غمِ دوراں کی طرف نہیں جاتے بلکہ غمِ دوراں سے غمِ جاناں کی طرف جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زمانے کا غم سہتے سہتے محبوب کی یاد تازہ کر لیتے ہیں جس سے انھیں قوت اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بعض جگہ بڑی اچھوتی پیکر تراشی کی ہے اور اپنے جذبات و احساسات کی مصوری میں اپنے انفرادی تخیل کے نقوش اجاگر کر دیئے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے ہندی کے غیر مانوس الفاظ سے بھی منفرد فضا آفرینی کی کوشش کی ہے جسے ان کی انفرادیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
شکیبؔ غوثی کی غزل گوئی کے اس مختصر جائزے سے ان کی روشن اور تابناک تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ ممکن ہے ان کی غزل کا اور بھی گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو مزید گوشے برآمد ہوں۔ مگر فی الوقت حاصلِ بحث کے طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی غزل میں کلاسیکی نظم و ضبط اور جدید رنگ و آہنگ کا وہ امتزاج موجود ہے جو انھیں اردو غزل کے ایک اہم شاعر کی سند عطا کر سکتا ہے۔ منفرد شاعر و ادیب عبدالرحیم نشترؔ کے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شکیبؔ غوثی کی غزل میں ماحول کی سفاکی اور معاشرے کی بے چہرگی پوری سچائی کے ساتھ برہنہ ہوئی ہے۔ دوستی اور رشتوں کی بے وقعتی کو اس نے تڑپ کر محسوس کیا ہے اور یہ تڑپ اس کے شعری اظہار میں پورے خلوص کے ساتھ موجود ہے۔
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ قرطاس ناگپور، نومبر تا دسمبر ۲۰۱۴ ء