ناقدین کا خیال ہے کہ غزل کو اپنے فروغ کے لیے انتشار و آشوب کا ماحول راس آتا ہے۔ غلامی سے آزادی کے باوجود جبر و تشدد، خوں ریزی، عدم استحکام، بے یقینی اور انتشار کے جو حالات رہے اور سیکولر جمہوری معاشرے کی تعمیر کے ساتھ سماجی انصاف اور عوام کی خوشحالی کے جو خواب دیکھے گئے تھے ان کی بے آبروئی نے مایوسی اور محرومی کی فضا کو عام کر دیا۔ ہم عصر اردو غزل میں اسی عبوری دور کی آگہی اور حسیت سامنے آتی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے انحطاط کے بعد جدیدیت کا پرچم بلند ہونے لگا اور اردو غزل میں احساس و شعور کے نئے پیکر ابھر کر سامنے آنے لگے جس سے اظہار اور لہجہ کے تازہ امکانات روشن ہوئے اور لفظیات کی حدود میں وسعت پیدا ہونے لگی۔ ساٹھ کی دہائی کے بعد جن شعرا نے اردو غزل کے افق کو رنگین بنایا ان میں ظفرؔ کلیم بھی نمایاں حیثیت ہیں۔
ظفرؔ کلیم کے لہجے، تشخص اور اسلوب کی اپنی ایک شناخت ہے۔ انھوں نے لفظیات کے ذریعہ جو دنیا آباد کی ہے وہ بڑی پراسرار ہے۔ گھر، سائبان، برف، آسمان رات، بے رخی، خود فراموشی اور دیگر استعاروں سے ظفرؔ کلیم نے بسیط زمان و مکان میں انسان کی وجودی صورتِ حال، زندگی میں معنویت کی تلاش، تمنا، کرب، دہشت و خوف کی کیفیات اور حدِ احساس کو اس کی تمام شدت کے ساتھ برتا ہے۔ ان کی غزل میں علائم و رموز کا ایک سمندر موجود ہے جس سے انھوں نے عصری احساس کے ساتھ زندگی کے مختلف تجربات کی بہترین عکاسی کی ہے۔ پتہ، خلا، ہوا، رات، منظر، عکس، سایہ، ریت، دھند، شجر موسم، فصیل، دوست، لباس، بستی، مسافر، اداسی، منزل، سفر، عمارت، شہر، گاؤں، آگ چراغ، بھیڑ، وغیرہ الفاظ جو جدید غزل کے لیے نامانوس نہیں ہیں تجربے کی انفرادیت اور احساس کی تازگی کے ساتھ استعارہ، علامت یا پیکر کی صورت میں ظفرؔ کلیم کی غزل کا حصہ بن گئے ہیں اور شعر میں کوئی ایسا اشارہ رکھ دیتے ہیں جو قاری کے تخیل کے دروازے کھولتا اور اس کے حواس کو بیدار کرتا ہے۔ ظفرؔ کلیم کی غزل پڑھتے ہوئے ہم ایک ایسے سفر پر نکل پڑتے ہیں جہاں زندگی کی تلخ حقیقتوں اور کڑوی سچائیوں سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ علائم اور پیکروں کا امتزاج ان اشعار میں دیکھئے ؎
گھر گھر پر عذاب نازل
بستی میں فساد ہو گیا ہے
۰۰۰۰
شفاف راستوں پہ کہاں نقش پائے دوست
جس رہگزر میں دھول نہ ہو اس پہ کیا چلیں
۰۰۰۰
یوں دوستوں میں ڈھونڈ رہے ہیں خلوص ہم
صحرا میں جیسے کھوج کسی سائبان کی
۰۰۰۰
برف پگھل جائے تو شاید ندیوں کی کچھ پیاس بجھے
کیا جانے کب تک آئے گی دھوپ مگر کہساروں تک
۰۰۰۰
بہائے جب کوئی آنسو ہمارا دل بھی روتا ہے
ہمیں بھی دوسروں کے درد کا احساس ہوتا ہے
آنچ دیتا رہا احساس کو تنہائی کے
اوس میں بھیگی ہوئی اوس کا ٹھنڈا سایا
۰۰۰۰
اس یقیں کو مرے گماں نہ سمجھ
آگ ہوں میں مجھے دھواں نہ سمجھ
۰۰۰۰
اچانک ہی برس پڑتی ہیں اب تو اس طرح آنکھیں
کہ جیسے اتفاقاً دھوپ میں برسات ہو جائے
۰۰۰۰
دیکھتے ہیں سب نظر آتی ہوئیں اونچائیاں
کون دیکھے گا مجھے بنیاد کا پتھر میں ہوں
۰۰۰۰
میں عہدِ گزشتہ کا وہ خاموش کھنڈر ہوں
بچے بھی جہاں شور مچانے نہیں آتے
ان اشعار سے جدتِ فکر اور جدید طرزِ اظہار کا پتہ لگتا ہے کہ ان میں تازہ کار استعارے اور علامتوں کا استعمال ہوا ہے لیکن خالص غزل کی زبان بھی ظفرؔ کلیم کے یہاں بڑی چابکدستی سے برتی گئی ہے۔ اس میں خیال کی نزاکت اور اظہار کی ندرت کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی منظر کی تصویر کھینچ دی جاتی ہے اور پیکر تراشی کا مخصوص عمل اسے معنی خیز بنا دیتا ہے لیکن ظفر کلیم کے اظہار کا یہ عام پیرایہ نہیں ہے بلکہ مظاہرِ فطرت کے ساتھ ان کے اشعار میں ہر جگہ فرد کی موجودگی کا بھی احساس پایا جاتا ہے۔ جدید اردو غزل میں اکثر و بیشتر اپنی ذات کی فکر، اپنے وجود اور اس کے بقا و فنا کے سلسلے کہیں فطری اور کہیں فلسفیانہ انداز میں پائے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں یہ خیال اپنی ذات کے اندورن میں ڈوب جانے پر مجبور کر دیتا ہے اور کہیں کہیں احباب کے دھوکے، انسانیت کے فریب، اپنوں کی بیگانگی، انسانی رشتوں کی شکستہ حالی اور اس کے ارد گرد شاعر کو پہنچا دیتی ہے۔ اس ضمن میں ظفرؔ کلیم کے چند اشعار دیکھیے ؎
کتنی عمارتوں کو نیا شہر کھا گیا
کوسوں کسی پرانے کھنڈر کا نشاں نہ تھا
۰۰۰۰
منظر ہی حادثے کا نہایت عجیب تھا
وہ آگ سے جلا جو ندی کے قریب تھا
۰۰۰۰
بچوں کو تتلیوں کی کہانی سنا کے ہم
ماضی کے کچھ حسین خیالوں میں کھو گئے
۰۰۰۰
کھیل ہی کھیل میں لڑکی وہ شرارت والی
بات ہی بات میں سنجیدہ سی ہو جاتی ہے
۰۰۰۰
ڈرتا ہوں میرے سر پہ ستارے نہ آ پڑیں
چلتا ہوں آسماں کی طرف دیکھتا ہوا
۰۰۰۰
پھول سی آنکھوں میں انگارے لیے پھرتا ہوں میں
رات بھر سونے کہاں دیتی ہے ہرجائی غزل
۰۰۰۰
پیاس ہونٹوں پر لیے بیٹھا ہوں ساحل پر مگر
ضد پہ آ جاؤں تو کوزے میں سمندر دیکھنا
۰۰۰۰
مرا حال بھی عجب ہے میں گئے دنوں کو روؤں
مرا عکس آئینے سے مجھے مسکرا کے دیکھے
۰۰۰۰
وہ نہیں پاس مگر جب بھی اسے سوچتا ہوں
سامنے آنکھوں کے آ جاتا ہے چہرا اس کا
۰۰۰۰
شام کے رنگ میں وہ ڈھل کے سلونا ہو جائے
صبح دیکھوں تو وہی رنگ سنہرا اس کا
درج بالا اشعار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ظفرؔ کلیم کی غزل میں قدیم اور جدید غزل کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ جہاں موضوعات میں تازگی اور نیا پن ہے وہیں کلاسیکی ادب کا بہترین نمونہ بھی۔
یہ بات قابلِ قدر ہے کہ غزل کے اپنے آداب نے ظفرؔ کلیم کو بہکنے نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی چیز ایسی سامنے لاتے ہیں جو اپنی تازگیِ بیان اور ندرتِ احساس کی بدولت ہم کو چونکائے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ان کی غزلوں میں موجودہ عہد کا کرب بھی ہے اور کلاسیکی ادب کی نزاکت بھی۔ ان کی ایجاد کردہ تراکیب خود اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتی ہیں اور کسی گہرے تجربے اور واردات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان تراکیب میں تازہ کاری بھی ہے اور اظہار کی توانائی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں ایک سوز اور گھلاوٹ ہے۔ ظاہری زیبائش اور آرائش کے بجائے سادگی و پرکاری ہے۔ جہاں کہیں محاورات اور صنائع و بدائع استعمال کیے ہیں وہاں شعر کے حسن میں چار چاند لگ گئے ہیں۔
تقریباً پانچ دہائیوں سے ظفرؔ کلیم نے بڑی خاموشی اور دلی لگن کے ساتھ اردو غزل میں اپنی راہیں استوار کی ہیں۔ وہ ایک پختہ غزل گو کی حیثیت سے اردو شعر و ادب کے منظر نامے پر اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’طلسمِ غزل‘‘ ۱۹۸۱ء میں اور ’’نوائے حرفِ خاموش‘‘ ۲۰۰۷ء میں شایع ہوئے جنھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا بھی گیا۔
سیماب اسکول کی وابستگی سے ظفرؔ کلیم کے کلام پر دہلی اور لکھنؤ کے شعرا کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے لیکن خیالات کی رنگارنگی نے انھیں اپنے عہد سے بہرہ ور ہونے نہیں دیا جس سے ان کی غزل میں ایک نیا رنگ و آہنگ پایا جاتا ہے۔ در اصل ان کی غزل زندہ و صحت مند قدروں کی امین ہیں۔
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ الفاظِ ہند کامٹی، اگست ۲۰۱۸ء