نذیرؔ فتح پوری ایک ایسا ہمہ رنگ ادبی نام ہے جس کی شمولیت کے بغیر اردو شعر و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ فتح پور راجستھان سے لے کر پونے تک جو مشترک ادبی فضا نذیرؔ فتح پوری کے شعور کو پختگی و بالیدگی بخشنے میں ممدو و معاون ثابت ہوئی وہ ان کی ادبی شخصیت میں بنیادی رنگ کی حیثیت رکھتی ہے۔
ادبی سطح پر نذیرؔ فتح پوری کی شخصیت کے کئی پہلو اور کئی جہتیں سامنے آتی ہیں اور ہر جہت ایک الگ فنکار سے متعارف کراتی ہے۔ مثلاً شاعر، نثر نگار، صحافی اور پبلشر۔ بظاہر الگ الگ نظر آنے والی ان جہتوں میں ایک ایسی برقی رو موجود ہے جوسب کو ایک ہی تار میں پرو دیتی ہے۔ جذبہ و شعور کو گوہرِ شعر میں منتقل کرنے کی تڑپ رکھنے والے کو طبیعت کے کیسے گداز، احساس کے کیسے کرب اور حق و ناحق کے کیسے کیسے نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے۔ طنز کرنے والے کی روح کو کتنے نشتروں کی چبھن کا تجزیہ ہوتا ہے، خود نوشت سوانح نگار کو حقیقت اور فن کاری کے پل کو کس طرح عبور کرنا ہوتا ہے اور ادبی صحافت و طباعت کے کارزار میں قدم رکھنے والے سے کس مزاج و منہاج، کیسی ادبی اور معاشرتی پرکھ اور کس معیار و وقار کا تقاضا ہوتا ہے۔ اس کا بجا طور پر اندازہ نذیرؔ فتح پوری کی ادبی شخصیت کے بھر پور مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔
نذیرؔ فتح پوری کہنہ مشق اور بزرگ شاعر ہیں۔ اب تک ان کے سولہ شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے شاعری کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے بلکہ اپنی تخلیقی قوت و وسعت کے جوہر دکھائے ہیں۔ وہ نظم اور غزل دونوں پر یکساں قوت رکھتے ہیں۔ جہاں وہ اپنی نظموں میں ربط و تنظیم، وضاحت و صراحت، حقیقت بینی اور جزئیات نگاری کا مظاہرہ کرتے ہیں وہیں غزل کو اشاروں اور کنایوں کا فن بھی سمجھتے ہیں۔ مشاہدۂ حق کی گفتگو بادہ و ساغر کے رنگ میں کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ غزل اپنی عبارت، اشارت اور ادا کے اعتبار سے غالب کے محبوب کی طرح ہے۔ غزل گنجینۂ معنی کا طلسم ہے، حدیثِ دلبراں ہے، صحیفۂ کائنات ہے اور بقول عبداللہ کمال بے مروت اور قاتل صنف بھی ہے۔ چنانچہ نذیرؔ فتح پوری کی غزل کے موضوعات میں محبت اور دل فریفتگی کے ساتھ نفرت و بغاوت کا اظہار بھی ہوتا ہے، ولولہ اور مایوسی بھی ہے، مسرتوں اور دکھوں کا سلسلہ بھی ہے، رشک و حسد سے کھیلنا، رہبری، رہزنی، ساحل اور طوفاں نیز روحانی و قلبی واردات، غرض انھوں نے ماضی اور حال میں برتے جانے والے تمام غزلیہ موضوعات میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے اور اپنے معاصرین سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں رہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نذیرؔ فتح پوری نے مذکورہ موضوعات کو نہ صرف سلیقے سے بیش کیا بلکہ ان میں اپنے لہجے اور تخلیقی تجربے کی انفرادیت کا ذائقہ بھی شامل کر دیا ہے۔
اصل میں انفرادیت کی بنیادیں مضبوط ہوں تو مانوس تجربوں میں بھی سچا شاعر کوئی نہ کوئی نئی بات ڈھونڈ نکالتا ہے اور نذیرؔ فتح پوری ایک سچے شاعر ہیں۔ چونکہ وہ اصلاً غزل کے شاعر ہیں اس لیے وہ اپنی غزل کو اس فضا سے روشناس کرانے میں کامیاب ہوئے جو بنیادی طور پر ارضی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل میں ایک نکھار اور رچاؤ دکھائی دیتا ہے۔ جس میں الفاظ کی بندش اور لہجے کی شیرینی، جذبے کی نزاکت اور حسنِ تخیل کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ ان کی غزل کا لب و لہجہ جدت و تازگی لیے ہوئے ہے۔ سوزو گداز، نرمی خلوص اور دل کو موہ لینے والی کیفیت ان کے یہاں پائی جاتی ہے۔ وہ انسانی زندگی کے تجربات پراثر انداز میں بیان کر جاتے ہیں جس سے ان کی سوچ اور ذہنی فکر کا پتہ چلتا ہے اور یہی ان کا بنیادی وصف ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے وہ غزل کی روایتی فرسودگی کو سیاسی اور سماجی مسائل سے بدلنا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے سنجیدہ اور صاف ستھری غزل کہی جس میں جذبے اور تخیل کو ہم آہنگ کر کے داخلی رنگ کو نمایاں کیا گیا۔
نذیرؔ فتح پوری کی غزل میں اعتدال، توازن اور شاعرانہ محاسن کے ساتھ سچے جذبات کی عکاسی بھی ہے۔ ان کے یہاں ایک رچا ہوا شعور ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے افکار سچے ہیں اور ان میں خلوص کی گرمی ہے۔ وہ حسنِ لفظی اور اندازِ بیان پر جذبات کی ندرت کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ لہجے میں متانت اور درد مندی کے باوجود بھی سادگی اور حقیقت نگاری کی بنا پر ان کی غزل متاثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی غزلوں سے کچھ منتخب اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
سبز موسم میں بھی احساسِ خزاں رکھوں گا
خار کی نوک پہ ہرگز نہ زباں رکھوں گا
مجھ کو جب اپنی ہی سمتوں کو سمجھنا ہے تو پھر
غیر کی راہ میں کیوں ’’سنگِ گراں‘‘ رکھوں گا
جب تلک اتریں گے احساس کے جھرنے مجھ میں
اپنی تخلیق کے دریا کو رواں رکھوں گا
۰۰۰۰۰
جھوٹی ہی سہی طرزِ وفا بھی نہیں آتی
دیوانوں کو جینے کی ادا بھی نہیں آتی
ویرانیاں اس طرح مسلط ہیں چمن پر
پتوں کے کھڑکنے کی صدا بھی نہیں آتی
موسم کے تغیر کا پتا کیسے چلے گا
اب اپنے دریچے میں ہوا بھی نہیں آتی
ہے ضبط میرے پاس فغاں اس کے پاس ہے
جو شئے ہے میرے پاس کہاں اس کے پاس ہے
تعریف میں اسی کی نکلتا ہے لفظ لفظ
میں بولتا ہوں میری زباں اس کے پاس ہے
ہم بھی تو آئینوں کے محافظ ہیں دوستو
مانا کہ پتھروں کی دکاں اس کے پاس ہے
۰۰۰۰۰
مرے بیان میں کچھ اور دلکشی آئے
مری زباں پہ ترا نام جس گھڑی آئے
عجیب اپنی طبیعت کی بے نیازی ہے
کہ اس کے در سے بھی دامن تہی تہی آئے
یہاں یہ حال کہ ہر حال پر گرے آنسو
وہاں یہ بات کہ ہر بات پر ہنسی آئے
۰۰۰۰۰
آگ لے کر دوڑتے لوگوں میں شامل ہو گیا
یوں اجالا بانٹنے والوں میں شامل ہو گیا
رت نے جب معصومیت کے پھول برسائے تو پھر
تتلیوں کا قافلہ بچوں میں شامل ہو گیا
عکس نے ہر حال میں رکھا وفا سے واسطہ
آئینہ ٹوٹا تو میں ٹکڑوں میں شامل ہو گیا
اس قسم کی مثالوں سے نذیرؔ فتح پوری کی پوری غزلیہ شاعری آباد دکھائی دیتی ہے اور مذکورہ بالا اشعار اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کو بڑے ہی پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔
ہم نے اکثر پڑھا ہے کہ اردو غزل کی بنیادی خصوصیت رمزیت و ایمائیت اور تہہ داری رہی ہے۔ یہ رمزیت و تہہ داری کبھی اشارے و کنائے سے پیدا ہوئی اور کبھی استعارے اور علامت سے۔ غزل گو شعرا نے ہر عہد میں علامتوں سے کام لیا ہے۔ کبھی لالہ و گل، سبزہ، بہار، خزاں، بیگانہ، چمن، ساقی، میخانہ، ساغر، مسیحا، نامہ بر، قفس، آشیانہ، ناصح واعظ، زاہد، کعبہ، بت خانہ وغیرہ علامتوں کے پردے میں اظہارِ خیال کیا اور کبھی رات، دن مٹی، شب، پرندہ، ریت، دھوپ، چھاؤں، درخت، سڑک، سمندر، ندی، دریا، پتھر، کنکر اور اس طرح کی بے شمار علامتوں کے ذریعہ اپنے جذبات و محسوسات کو پیش کیا۔ یہ علامتیں قدیم اور جدید غزل میں یکساں طور پر ملتی ہیں لیکن علامت کی یہ خوبی ہے کہ وقت اور زمانے کے ساتھ اس کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ علامت ایک معنی تک محدود نہیں رہتی اس لیے جب یہی علامتیں میرؔ و سوداؔ کے یہاں آئیں تو اس کے معنی کچھ اور تھے اور جب ان کا استعمال جدید شعرا کے یہاں ہوا تو وہ دوسری معنوی جہت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس طرح ایک ہی علامت ہونے کے باوجود اس کے معنوی سطح بدل جاتی ہے۔
نذیرؔ فتح پوری کے کلام کی دلکشی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انھوں نے قدیم روایتی لفظیات اور علائم سے معنی کی ایک نئی دنیا آباد کی ہے۔ ان کے یہاں جو علامتیں استعمال ہوئی ہیں ان سے ذہن قدیم معنوں کی طرف نہیں جاتا بلکہ نئے مفاہیم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مثلاً ؎
ابھی تو بکھری پڑی ہے حیات قدموں میں
یہ خواب جب کبھی مرجائے گا تو سوچوں گا
۰۰۰۰
ذرا سی ٹھیس لگے گی تو ٹوٹ جائیں گے
یہ آئینوں کا نگر ہے یہاں نہ پتھر لا
کیا برسنے کے لیے کوئی بہانہ ہے ضرور
ابر کیوں دیکھ رہا ہے میرے ہونٹوں کی طرف
۰۰۰۰
اندھی قبر میں کرداروں کو دفنا کر
آئینوں میں لوگ سنورتے رہتے ہیں
۰۰۰۰
جو سوچتا ہوں سنہرا دکھائی دیتا ہے
مرے شعور سے ایسے لپٹ گئی ہے دھوپ
۰۰۰۰
چندن کی ایک آرزو مہنگی پڑی مجھے
حرص و ہوس کے سانپ بدن سے لپٹ گئے
۰۰۰۰
خزاں رسیدہ رتوں کا جواب رہنے دو
لہو کی شاخ پہ تازہ گلاب رہنے دو
۰۰۰۰
کس بھروسے پر کھڑے ہیں لوگ ساحل کے قریب
غرق دریا جو ہوئے وہ لوگ پھر ابھریں گے کیا
۰۰۰۰
درختوں کی قطاریں تو ہیں اب بھی
مگر سایہ گھنیرا اب نہیں ہے
ان مثالوں کے ذریعہ صرف اس بات کی نشاندہی کرنی تھی کہ نذیرؔ فتح پوری کی غزل میں علامتوں نے نئی معنویت اور نئی جہتوں کو پیش کیا ہے جس میں ایک طرف زندگی کی تازگی اور خوبصورتی ہے تو دوسری طرف زندگی کی وہ تصویر بھی ہے جو خواب، آئینہ، ابر، اندھی قبر دھوپ، سانپ، گلاب، ساحل، سایہ، سمندر، کشتی اور درخت جیسے تلازمات اور علامات سے سامنے آئے ہیں اور فکر و اظہار کی نئی بصیرت کو پیش کرتے ہیں۔
خلاصۂ کلام کے طور پر یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ نذیرؔ فتح پوری نے روایت کو منہدم کیے بغیر زبان، لہجے، تجربے اور احساس کی جو فضا اپنی غزلوں میں سمائی ہے اس نے ان کی غزل کو ایک نیا پس منظر فراہم کیا۔ ان کی تخلیقی جسارت پرانی صورتوں کو مسخ نہیں کرتی اور نہ ہی بگاڑتی ہے بلکہ ان میں ادراک کا ایک نیا زاویہ ڈھونڈھ نکالتی ہے۔
٭٭٭
مطبوعہ : ماہنامہ بیباک مالیگاؤں، فروری ۲۰۱۶ء
ISSN: 2320-9313